لطیفہ
بنو العجلان، ایک نہایت معزز قبیلہ تھا۔ ایک شاعر نے ان کی ہجولکھی، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے آ کر شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ وہ اشعار کیا ہے؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا۔
اذا اللہ عادی اھل لوم ورقۃ
فعادی بنی العجلان رھط بن مقبل
"خدا اگر کمینہ آدمیوں کو دشمن رکھتا ہے تو قبیلہ عجلان کو بھی دشمن رکھے۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہ تو ہجو نہیں بلکہ بدعا ہے کہ خدا اس کو قبول نہ کرے۔ انہوں نے دوسرا شعر پڑھا۔
قبیلتھم لایغد رون بذمۃ
ولا یظلمون الناس حبۃ خردل
"یہ قبیلہ کسی سے بد عہدی نہیں کرتا، اور نہ کسی پر رائی برابر ظلم کرتا ہے۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کاش میرا تمام خاندان ایسا ہی ہوتا۔
حالانکہ شاعر نے اس لحاظ سے کہا تھا کہ عرب میں یہ باتیں کمزوری کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔
ولا یردون المأ الا عشیۃ
اذا صدر الورا دعن کل منھل
"یہ لوگ چشمے یا کنوئیں پر صرف رات کے وقت جاتے ہیں۔ جب اور لوگ واپس آ چکتے ہیں۔"
یہ بات بھی شاعر نے اس لحاظ سے کہی تھی کہ اہل عرب کے نزدیک بے کس اور کمزور لوگ ایسا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ سن کر کہا کہ بھیڑ سے بچنا تو اچھی بات ہے۔ انہوں نے آخر میں یہ شعر پڑھا۔
وما سمی العجلان الا لقولھم
خذا القعب احلب ایھا العبدوا عجل
"اس کا نام عجلان اس لئے پڑا کہ لوگ اس سے کہتے تھے کہ ابے او غلام پیالہ لے اور جلدی سے دودھ لا۔"
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ سید القوم خادمھم۔