"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
قوت تقریر

مختلف وقتوں میں جو خبطے انہوں نے دیئے وہ آج بھی موجود ہیں۔ ان سے ان کے زور تقریر برجستگی کلام کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خطبے

مسند خلافت پر بیٹھنے کے ساتھ جو خطبہ دیا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے۔

اللھم انی غلیظ فلینی اللھم انی ضعیف فقونی الا و ان العرب
جمل انف و قد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ۔

"اے خدا! میں سخت ہوں مجھ کو نرم کر۔ میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے (قوم سے خطاب کر کے) ہاں! عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔"

خلافت کے دوسرے تیسرے دن جب انہوں نے عراق پر لشکر کشی کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا تو لوگ ایران کے نام سے جی چراتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ وہاں سے بلا لئے گئے تھے۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زور تقریر کا یہ اثر تھا کہ مثنیٰ شیبانی ایک مشہور بہادر بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پھر تمام مجمع میں آگ لگ گئی۔ دمشق کے سفر میں جابیہ میں ہر قوم اور ہر ملت کے آدمی جمع تھے۔ عیسائیوں کا لارڈ بشپ تک شریک تھا۔ اس کے ساتھ مختلف مذاہب اور مختلف قوم کے آدمی شریک تھے۔ اور مختلف مضامین اور مختلف مطالب کا ادا کرنا مسلمانوں کو اخلاق کی تعلیم دینی تھی۔ غیر قوموں کو اسلام کی حقیقت اور اسلام کی جنگ و صلح کے اغراض بتانے تھے۔ فوج کے سامنے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معزولی کا عذر کرنا تھا۔ ان تمام مطالب کو اس خوبی سے ادا کیا کہ مدت تک ان کی تقریر کے جستہ جستہ فقرے لوگوں کی زبان پر رہے۔ فقہأ نے اس سے فقہی مسائل استنباط کئے۔ اہل ادب نے قواعد فصاحت و بلاغت کی مثالیں پیدا کیں۔ تصوف و اخلاق کے مضامین لکھنے والوں نے اپنا کام کیا۔

23 ہجری میں جب حج کیا اور یہ ان کا اخیر حج تھا تو ایک شخص نے کسی سے تذکرہ کیا کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مر جائیں گے تو میں طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مقام منا میں تشریف رکھتے تھے اور وہیں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی خبر ہوئی تو برافروختہ ہو کر فرمایا کہ آج رات میں اسی مضمون پر خطبہ دوں گا۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی امیر المومنین حج کے مجمع میں ہر قسم کے برے بھلے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ تقریر کی تو اکثر لوگ صحیح پیرایہ میں نہ سمجھیں گے۔ اور نہ ادا کر سکیں گے۔ مدینہ چل کر خواص کے مجمع میں تقریر کیجیئے گا۔ وہ لوگ ہر بات کا پہلو سمجھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ رائے تسلیم کی۔ آخر ذولحجہ میں مدینہ ائے۔ جمعہ کے دن لوگ بڑے شوق و انتظار سے مسجد میں پہلے آ آ کر جمع ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ زیادہ مشتاق تھے۔ اس لئے منبر کے قریب جا کر بیٹھے اور سعید بن زید سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسی تقریر کریں گے کہ کبھی نہیں کی تھی۔ سعید نے تعجب سے کہا کہ ایسی نئی بات کیا ہو سکتی ہے جو انہوں نے پہلے نہیں کہی؟ غرض اذان ہو چکی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبہ دیا۔ یہ پورا واقعہ اور پورا خطبہ صحیح بخاری میں مذکور ہے (صحیح بخاری جلد دوم مطبوعہ احمدی میرٹھ صفحہ ۱۰۰۹)۔ اس میں سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ، انصار کے خیالات، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جواب، بیعت کی کیفیت، خلافت کو حقیقت کو اس خوبی اور عمدگی سے ادا کیا کہ اس سے بڑھ کر کرنا ممکن نہ تھا۔ اس تقریر کو پڑھ کر بالکل ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس وقت جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہیے تھا اور وہی ہو سکتا تھا۔

جن مجمعوں میں غیر قومیں بھی شریک ہوتی تھیں ان میں ان کے خطبہ کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا جاتا تھا۔ چنانچہ دمشق میں بمقام جابیہ جو خطبہ دیا مترجم ساتھ کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی کرتا جاتا تھا۔

اگرچہ اکثر برمحل اور برجستہ خطبہ دیتے تھے۔ لیکن معرکے کے جو خطبے ہوتے تھے ، ان میں تیار ہو کر جاتے تھے۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ میں خود ان کا بیان ہے کہ میں خوب تیار ہو کر گیا تھا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ جب خلیفہ ہوئے اور خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے تو دفعتاً رک گئے اور زبان نے یاری نہ دی۔ اس وقت یہ عذر کیا گیا کہ "ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم خطبہ کے لئے تیار ہو کر آتے تھے اور آئندہ سے میں بھی ایسا ہی کروں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
نکاح کا خطبہ اچھا نہیں دے سکتے تھے

وہ اگرچہ ہر قسم کے مضامین پر خطبہ دے سکتے تھے، لیکن ان کا خود بیان ہے کہ "نکاح کا خطبہ مجھ سے بن نہیں آتا۔" عبد اللہ بن المقفع جو دولت عباسیہ کا مشہور ادیب اور فاضل تھا اس سے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس معذوری کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا کہ نکاح کا خطبہ میں حاضرین میں سے ہر شخص برابری کا درجہ رکھتا ہے۔ خطیب کی کوئی ممتاز حیثیت نہیں ہوتی بخلاف اس کے عام خطبوں میں خطیب جب منبر پر چڑھتا ہے تو عام آدمی اس کو محکوم معلوم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے خود بخود اس کی تقریر میں بلندی اور زور آ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح میں موضوع سخن تنگ اور محدود ہوتا ہے اور ہر بار وہی ایک طرح کی معمولی باتیں کہنی پڑتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پولیٹیکل خطبے

یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پہلے جن مضامین پر لوگ خطبے دیتے تھے ان میں پند و موعظت، فخر و ادعأ قدرتی واقعات کا بیان، رنج و خوشی کا اظہار ہوتا تھا۔ ملکی پرپیچ معاملات خطبے میں ادا نہیں ہو سکتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے پولیٹیکل خطبے دیئے۔ اس کے ساتھ وہ خطبوں میں اس طریقے سے گفتگو کر سکتے تھے کہ ظاہر میں معمولی باتیں ہوتی تھیں لیکن اس سے بہت سے پہلو نکلتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خطبے کے لئے جو باتیں درکار ہیں

خطبہ کے لئے ملکہ تقریر کے علاوہ اور ضروری باتیں جو درکار ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں سب موجود تھیں۔ آواز بلند اور رعب دار تھی، قد اتنا بلند تھا کہ زمین پر کھڑے ہوتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ منبر پر کھڑے ہیں۔ اس موقع پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے بعض خطبے نقل کر دیئے جائیں۔ ایک موقع پر عمال کو مخاطب کر کے جو خطبہ دیا، اس کے الفاظ یہ ہیں۔

انی لا اجد ھذا المال یصلحہ الا خلال ثلث ان یوخذ بالحق و یعطی بالحق و یمنع من الباطل ولست ادع احدا یظلم احدا حتی اضع خدہ علی الارض واضع قدمی علی خدہ الاخر حتی یذعن للحق یایھا الناس ان اللہ عظم حقہ فوق حق خلقہ فقال فیما عظیم من حقہ ولا یامر کم ان تتخذوا الملائکۃ والنبیین ارباباً الا و انی لم ابعثکم امرأ ولا جبارین ولکن بعثتکم ایمۃ الھدیٰ یھتدیٰ بکم ولا تغلقوا الابواب دونھم فیا کل قویھم ضعیفھم۔ (کتاب الخراج صفحہ 47)۔

ایک اور خطبے کے چند جملے یہ ہیں۔

فانتھم مستخلفون فی الارض قاھرون لا ھلھا۔ قد نصر اللہ دینکم فلا تصبح امۃ مخالفۃ لدینکم الا امتان۔ امۃ مستبعدۃ للاسلام و اھلہ یتجرؤن لکم۔ علیھم المؤنۃ ولکم المنفعۃ و امۃ ینتظرون وقائع اللہ و سطواتۃ فی کل یوم و لیلۃ قد ملاً اللہ قلوبھم رعباً۔ قدمتھم جنود اللہ و نزلت بساحتھم مع رفاھۃ العیش و استقاضۃ المال و تتابع اللبعوث و سد الشغور۔ الغ (ازالۃ الاخفأ ماخذ از طبری)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خطبوں کا خاتمہ ہمیشہ ان فقروں پر ہوتا تھا۔

اللھم لا تدعنی فی عمرۃ ولا تاخذنی علی غرۃ ولا تجعلنی مع الغفلین۔ (عقد الفرید خطبات عمر)۔
 

شمشاد

لائبریرین
قوت تحریر

قوت تحریر کے ساتھ تحریر میں بھی ان کو کمال تھا۔ ان کے فرامین خطوط، دستور العمل، توقیعات، ہر قسم کی تحریریں آج بھی موجود ہیں جو جس مضمون پر ہے اس باب میں بے نظیر ہے۔ چنانچہ ہم بعض تحریریں نقل کرتے ہیں۔

ابو موسیٰ اشعری کے نام

اما بعد فان للناس نفرۃ عن سلطانھم فاعوذ باللہ ان تد رکنی و ایاک عمیأ مجھولۃ و ضغائن مجھولۃ و اھوأ متبعۃ کن من مال اللہ علی حذر و خوف الفساق و اجعلھم یداً یداً و رجلاً رجلاً و انا کانت بین القوم ثائرۃ یالفلان فانما تلک نجوی الشیطان فاضربھم بالسیف حتی یفیؤ الی امر اللہ و یکون دعوتھم الی الا سلام۔

ایک اور تحریر ابو موسیٰ کے نام

اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لاتؤخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک تدارکت علیکم الا عمال فلھم تدروا ایھا تاخذون فاضعتم۔

عمرو بن العاص کو جب مصر کا گورنر مقرر کر کے بھیجا تو انہوں نے خراج کے بھیجنے میں دیر کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تاکید لکھی، عمرو بن العاص نے بھی نہایت آزادی اور دلیری سے جواب دیا۔ یہ تحریریں مقریزی نے تاریخ مصر میں بعینہ نقل کی ہیں، ان کے لکھنے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زور قلم اندازہ ہوتا ہے۔ بعض فقرے ایسے ہیں۔

وقد علمت انہ لم یمنعک من فلک الا ان عمالک عمال السؤ اتخذوک کھفاً و عندی باذن اللہ دوأ فیہ شفأ انی عجبت من کثرۃ کتبی الیک فی ابطانک بالخراج و کتابک الی بثنیات الطرق عما اسئلک فیہ۔ فلا تجزع ابا عبد اللہ ان یوخذ منک الحق و تعطاہ فان النہر یخرج الدر۔
 

شمشاد

لائبریرین
مذاق شاعری

شعری و شاعری کی نسبت اگرچہ ان کی شہرت عام طور پر کم ہے اس میں شبہ نہیں کہ شعر بہت کم کہتے تھے۔ لیکن شعر شاعری کا مذاق ایسا عمدہ رکھتے تھے کہ ان کی تاریخ زندگی میں یہ واقعہ متروک نہیں ہو سکتا، عرب کے اکثر مشہور شعرأ کا کلام کثرت سے یاد تھا اور تمام شعرأ کے کلام پر ان کی خاص خاص رائیں تھیں۔ اہل ادب کو عموماً تسلیم ہے کہ ان کے زمانے میں ان سے بڑھ کر کوئی شخص شعر کا پرکھنے والا نہ تھا۔ علامہ ابن رشیق القیروانی کتاب العمدہ میں جس کا قلمی نسخہ میرے پاس موجود ہے لکھتے ہیں۔

و کان من انقد اھل زمانہ للشعر وانقدھم فیہ معرفۃ۔

یعنی " حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے۔"

جاحظ نے کتاب " البیان والتبیین " میں لکھا ہے۔

کان عمر بن الخطاب اعلم الناس بالشعر۔ (کتاب البیان والنبیین مطبوعہ مصر 97)

یعنی "عمر بن خطاب اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے۔"

نجاشی ایک شاعر تھا جس نے تمیم بن مقبل کے خاندان کی ہجو کہی تھی۔ ان لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کی شکایت کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خسان بن ثابت کو جو مشہور شاعر تھے حکم قرار دیا اور جو فیصلہ انہوں نے کیا اسی کو نافذ کیا۔ اس واقعہ سے چونکہ اس غلط فہمی کا احتمال تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود شعر فہم نہ تھے۔ اس لئے اہل ادب نے جہاں اس واقعہ کو لکھا ہے تو ساتھ یہ بھی لکھا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکمت عملی تھی۔ وہ بدزبان شعرا کے بیچ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ ورنہ شعر کے دقائق ان سے کون بڑھ کر سمجھ سکتا تھا۔ (دیکھو کتاب " البیان والتبیین" گگجاحظ صفحہ 97 – کتاب العمدہ باب تعرض الشعرأ)۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ زہیر کو اشعر الشعرأ کہتے تھے

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اگرچہ تمام مشہور شعرأ کے کلام پر عبور تھا۔ لیکن تین شاعروں کو انہوں نے سب میں سے انتخاب کیا تھا۔ امرأ القیس، زہیر، نابغتہ ان سب میں وہ زہیر کا کلام سب سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ اور اس کو اشعرا الشعرأ کہتے تھے۔ اہل عرب اور علمائے ادب کے نزدیک اب تک یہ مسئلہ طے نہیں ہوا کہ عرب کا سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ افضلیت انہیں تینوں میں محدود ہے۔ حضرت
عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک زہیر کو سب پر ترجیح تھی۔ جریر بھی اسی کا قائل تھا۔ ایک دفعہ ایک غزوہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبد اللہ بن عباس سے کہا کہ اشعر الشعرأ کے اشعار پڑھو۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا وہ کون؟ فرمایا! زہیر۔ انہوں نے ترجیح کی وجہ پوچھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ یہ تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زہیر کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ریمارک

لا نہ لا یتبع حشوی الکلام ولا یعاظل من المنطق ولا یقول الا ما یعرف ولا یمدح الرجل الا بما یکون فیہ۔

"وہ (زہیر) نامانوس الفاظ کی تلاش میں نہیں رہتا۔ اس کے کلام میں پیچیدگی نہیں ہوتی اور اسی مضمون کو باندھتا ہے جس سے واقف ہے۔ جب کسی کی مدح کرتا ہے تو انہی اوصاف کا ذکر کرتا ہے جو واقعی اس میں ہوتے ہیں۔"

پھر سند کے طور پر یہ اشعار پڑھے۔

اذا ابتدرت قیس بن غیلان غایۃ
من المجد من یسبق الیھا یسود

ولو کان حمد یخلد الناس لم تمت
ولکن حمد الناس لیس مخلد​

ناقدین فن نے زہیر کا تمام کلام پرھ کر جو خصوصیتیں اس میں بتائی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کا کلام صاف ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلیت کا شاعر ہے اس کی زبان ایسی شستہ ہے کہ اسلامی شاعر معلوم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہ بیجا مبالغہ نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان تمام خصوصیتوں کو نہایت مختصر لفظوں میں ادا کر دیا۔

زہیر کا ممدوح، ہرم بن سنان عرب کا ایک رئیس تھا۔ اتفاق یہ کہ زہیر اور ہرم دونوں کی اولاد نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ پایا۔ اور ان کے دربار میں حاضرہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہرم کے فرزند سے کہا کہ اپنے مدح میں زہیر کا کچھ کلام پڑھو۔ اس نے ارشاد کی تعمیل کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ تمہارے خاندان کی شان میں زہیر خوگ کہتا تھا ۔ اس نے کہا کہ ہم صلہ بھی خوب دیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا لیکن تم نے جو دیا فنا ہو گیا۔ اور اس کا دیا ہوا آج بھی باقی ہے۔ زہیر کے بیٹے سے کہا کہ ہرم نے تمہارے باپ کو جو خلعت دیئے تھے کیا ہوئے۔ اس نے کہا بوسیدہ ہو گئے۔ فرمایا لیکن تمہارے باپ نے ہرم کو جو خلعت عطا کئے تھے زمانہ اس کو بوسیدہ نہ کر سکا۔
 

شمشاد

لائبریرین
نابغہ کی تعریف

زہیر کے بعد نابغہ کے معترف تھے اور اس کے اکثر اشعار ان کو یاد تھے۔ امام شعبی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ سب سے بڑھ کر شاعر کوں ہے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے، فرمایا کہ یہ شعر کس کا ہے؟

الا سلیمان اذا قال الا لہ لہ
قم فی البریتغا حدرھا عن الفتد​

لوگوں نے کہا کہ نابغہ کا! پھر پوچھا یہ شعر کس کا ہے؟

اتیتک عاریا خلقا ثیابی
علی خوف تظن ہی الظنونا​

لوگوں نے کہا نابغہ کا۔ پھر پوچھا یہ شعر کس کا ہے؟

حلفت فلم اترک لنفسک ریبۃ
ولیس ورأ اللہ للمرٔ مذھب​

لوگوں نے کہا نابغہ کا۔ فرمایا کہ یہ شخص اشعر العرب ہے۔ (آغا فی تذکرۃ نابغہ 12)۔
 

شمشاد

لائبریرین
امرأ القیس کی نسبت ان کی رائے

بایں ہمہ وہ امرأ القیس کی استادی اور ایجاد مضامین کے منکر نہ تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شعرأ کی نسبت ان کی رائے پوچھی تو امرأ القیس کی نسبت یہ الفاظ فرمائے۔

سابقھم خسف لھم عین الشعر وافتقر عن معان عوراصح بصر۔

"وہ سب سے آگے ہے اسی نے شعر کے چشمے سے پانی نکالا ۔ اسی نے اندھے مضامین کو بینا کر دیا۔"

اخیر فقرہ اس لحاظ سے ہے کہ امرأ القیس یمنی تھا اور اہل یمن فصاحت و بلاغت میں کم درجہ پر مانے جاتے تھے۔ چنانچہ علامہ ابن رشیق نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس قول کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ (کتاب العمدہ باب المشاہیر من الشعرأ)۔
 

شمشاد

لائبریرین
شعر کا ذوق

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ذوق سخن کا یہ حال تھا کہ اچھا شعر سنتے تو بار بار مزے لے لے کر پرھتے تھے۔ ایک دفعہ زہیر کے اشعار سن رہے تھے۔ یہ شعر آیا۔

وان الحق مقطعہ ثلاث
یمین او نفار او جلا‘​

تو حسن تقسیم پر بہت محظوظ ہوئے اور دیر تک بار بار اس شعر کو پڑھا کئے۔ ایک دفعہ عبدۃ ابن الطیب کالامیہ کا قصیدہ سن رہے تھے، اس شعر کو سن کر پھڑک اٹھے۔

والمرٔ ساع لا مر لیس یدرکہ
والعیش شخ و اشفاق و تامیل​

اور دوسرا مصرع بار بار پڑھتے رہے۔ اسی طرح ابو قیس بن الاصلت کا قصیدہ سنا تو بعض اشعار کو دیر تک دہرایا کئے۔ (یہ تمام روایتیں جاحظ نے کتاب " البیان والتبیین" صفحہ 97 – 98 میں نقل کی ہیں)۔
 

شمشاد

لائبریرین
حفظ اشعار

اگرچہ ان کو مہمات خلافت کی وجہ سے ان اشغال میں مصروف ہونے کا موقع نہیں مل سکتا تھا۔ تاہم چونکہ طبعی ذوق رکھتے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں شعر یاد تھے۔ علمائے ادب کا بیان ہے کہ ان کے حفظ کا یہ حال تھا کہ جب کوئی معاملہ فیصل کرتے تو ضرور کوئی شعر پڑھتے تھے۔

جس قسم کے وہ اشعار پسند کرتے تھے وہ صرف وہ تھے جن میں خودداری، آزادی، شرافت، نفس، حمیت اور عبرت کے مضامین ہوتے تھے۔ اسی بنأ پر امرائے فوج اور عمال اضلاع کو حکم بھیج دیا تھا کہ لوگوں کا اشعار یاد کرنے کی تاکید کی جائے۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کو یہ فرمان بھیجا۔

مر من قبلک بتعلم الشعر فانہ یدل علی معالی الاخلاق و صواب الرای و معرفۃ الانساب۔

"لوگوں کو اشعار یاد کرنے کا حکم دو کیونکہ وہ اخلاق کی بلند باتیں اور صحیح رائے اور انساب کی طرف راستہ دکھاتے ہیں۔"

تمام اضلاع میں جو حکم بھیجا تھا اس کے یہ الفاظ تھے۔

علموا اولادکم العوم والفروسیہ و رووھم ماسار من المثل و حسن من الشعر۔ (ازالۃ الخفأ صفحہ 193)۔

"اپنی اولاد کو تیرنا اور شہسواری سکھاؤ، اور ضرب المثلیں اور اچھے اشعار یاد کراؤ۔"

اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شاعری کے بہت سے عیوب مٹا دیئے۔ اس وقت تمام عرب میں یہ طریقہ جاری تھا کہ شعرأ شریف عورتوں کا نام علانیہ اشعار میں لاتے تھے۔ اور ان سے اپنا عشق جتاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس رسم کو مٹا دیا اور اس کی سخت سزا مقرر کی۔ اسی طرح ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور حطیہ کو جو مشہور ہجو گو تھا اس جرم میں قید کر دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
لطیفہ

بنو العجلان، ایک نہایت معزز قبیلہ تھا۔ ایک شاعر نے ان کی ہجولکھی، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے آ کر شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ وہ اشعار کیا ہے؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

اذا اللہ عادی اھل لوم ورقۃ
فعادی بنی العجلان رھط بن مقبل​

"خدا اگر کمینہ آدمیوں کو دشمن رکھتا ہے تو قبیلہ عجلان کو بھی دشمن رکھے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہ تو ہجو نہیں بلکہ بدعا ہے کہ خدا اس کو قبول نہ کرے۔ انہوں نے دوسرا شعر پڑھا۔

قبیلتھم لایغد رون بذمۃ
ولا یظلمون الناس حبۃ خردل​

"یہ قبیلہ کسی سے بد عہدی نہیں کرتا، اور نہ کسی پر رائی برابر ظلم کرتا ہے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کاش میرا تمام خاندان ایسا ہی ہوتا۔

حالانکہ شاعر نے اس لحاظ سے کہا تھا کہ عرب میں یہ باتیں کمزوری کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔

ولا یردون المأ الا عشیۃ
اذا صدر الورا دعن کل منھل​

"یہ لوگ چشمے یا کنوئیں پر صرف رات کے وقت جاتے ہیں۔ جب اور لوگ واپس آ چکتے ہیں۔"

یہ بات بھی شاعر نے اس لحاظ سے کہی تھی کہ اہل عرب کے نزدیک بے کس اور کمزور لوگ ایسا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ سن کر کہا کہ بھیڑ سے بچنا تو اچھی بات ہے۔ انہوں نے آخر میں یہ شعر پڑھا۔

وما سمی العجلان الا لقولھم
خذا القعب احلب ایھا العبدوا عجل​

"اس کا نام عجلان اس لئے پڑا کہ لوگ اس سے کہتے تھے کہ ابے او غلام پیالہ لے اور جلدی سے دودھ لا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ سید القوم خادمھم۔
 

شمشاد

لائبریرین
علم الانساب

علم الانساب یعنی قبائل کا نام و نسب یاد رکھنا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خانہ زاد علم تھا۔ یعنی کئی پشتوں سے چلا آتا تھا، ان کے باپ خطاب مشہور نساب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس فن کی معلومات کے متعلق اکثر ان کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ خطاب کے باپ نضیل بھی اس فن میں شہرت رکھتے تھے۔ چنانچہ ان واقعات کو ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ابتدائی حالات میں لکھ آئے ہیں۔

لکھنا پڑھنا بھی جیسا کہ ہم آغاز کتاب میں لکھ آئے ہیں، اسلام سے پہلے سیکھ لیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عبرانی زبان سے واقفیت

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر انہوں نے عبرانی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک توریت کا ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب توریت کا کچھ کام پڑتا تھا تو عبرانی نسخہ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ اور چونکہ مسلمان عمرانی نہیں جانتے تھے اس لئے یہود پڑھ کر سناتے اور عربی میں ترجمہ کرتے جاتے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ۔

کان اھل الکتاب یقرؤن التوراۃ بالعبرانیۃ و یفسرونھا بالعربیۃ لا ھل الاسلام۔

"یعنی اہل کتاب توریت کو عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے لئے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے جاتے تھے۔"

مسند دارمی میں روایت ہے کہ " ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ توریت کا ایک نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور اس کو پڑھنا شروع کیا۔ وہ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا تھا۔ (مسند دارمی مطبوعہ کانپور صفحہ ۶۲) اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ عبرانی زبان اس قدر سیکھ گئے تھے کہ توریت کو خود پڑھ سکتے تھے۔

یہ امر بھی صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ہاں جس دن توریت کا درس ہوا کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اکثر شریک ہوتے تھے۔ ان کا خود کا بیان ہے کہ میں یہودیوں کے درس کے دن ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ چنانچہ یہودی کہا کرتے تھے کہ تمہارے ہم مذہبوں میں سے ہم تم کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ کیونکہ تم ہمارے پاس آتے جاتے ہو۔ (کنز العمال بروایت بیہقی وغیرہ جلد اول صفحہ 233)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نقادی اور نکتہ سنجی نے یہاں بھی کام دیا۔ یعنی جس قدر وہ یہودیوں کی کتابوں سے واقف ہوتے گئے۔ اسی قدر ان کے بیہودہ افسانوں اور قصوں سے نفرت ہوتی گئی۔ نہایت کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ شام و عراق وغیرہ میں مسلمانوں کو یہودیوں کی تصنیفات ہاتھ آئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کو نہایت سختی سے ان کو پڑھنے سے روکا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ذہانت و طباعی

ان کی ذہانت و طباعی کا صحیح اندازہ اگرچہ ان کے فقہی اجتہادات سے ہو سکتا ہے جس کا ذکر علمی کمالات میں اوپر گزر چکا ہے۔ لیکن ان کی معمولی بات بھی ذہانت و طباعی سے خالی نہیں۔ چنانچہ ہم دو تین مثالیں نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں۔

عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب انہوں نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تو برس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ لوگوں نے دربار خلافت میں شکایت پیش کی کہ وہ رعب و داب اور سیاست کے آدمی نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو واپس بلا لیا اور کہا کہ میں خود بھی اس بات کو جانتا تھا۔ لیکن میں نے خیال کیا کہ شاید اللہ تعالٰی آپ کو اس آیت کا مصداق بنائے (تاریخ طبری واقعہ عزل عمار بن یاسر)۔

و نریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارثین۔

"ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر جو کمزور ہیں احسان کریں اور ان کو امام اور زمین کا وارث بنائیں۔"

ایک دفعہ ایک شخص کو دعا مانگتے سنا کہ " خدایا! مجھ کو فتنوں سے بچانا۔" فرمایا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ خدا تم کو آل اولاد نہ دے (ازالۃ اخفأ صفحہ 205) (قرآن مجید میں خدا نے آل و اولاد کو فتنہ کہا ہے)۔

انما اموالکم و اولاد کم فتنۃ۔

ایک دفعہ ایک شخص نے پوچھا کہ دریا کے سفر میں قصر ہےیا نہیں؟ اس کی غرض یہ تھی کہ دریا کا سفر شرعاً سفر ہے یا نہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کیوں نہیں، خدا خود فرماتا ہے۔

ھو الذی یسیر کم فی البر والبحر۔

"وہ (خدا) وہ ہے جو تم کو خشکی اور تری کی سیر کراتا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
حکیمانہ مقولے​

ان کے حکیمانہ مقولے اکثر ادب کی کتابوں میں اور خصوصاً مجمع الامثال میدانی کے خاتمہ میں کثرت سے نقل کئے ہیں۔ نمونے کے طور پر بعض مقولے یہاں درج کئے جاتے ہیں۔

من کتم سرہ کان الخیار فی یدہ۔
" جو شخص راز چھپاتا ہے وہ اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔"

اتقوا من تبغضہ قلوبکم اعقل الناس اعذرھم للناس۔
"جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو۔ سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اپنے افعال کی اچھی تاویل کر سکتا ہو۔"

لاتوخر عمل یومک الی غدک۔
"آج کا کام کل پر اٹھا نہ رکھو۔"

ابت الدراھم الا ان یخرج اعناقھا۔
"روپے سر اونچا کئے بٖغیر نہیں رہتے۔"

ما ادبر شیئ فاقبل۔
"جو چیز پیچھے ہٹی پھر آگے نہیں بڑھتی۔"

من لم یعرف الشر یقع فیہ۔
"جو شخص برائی سے واقف نہیں وہ برائی میں مبتلا ہو گا۔"

ما سألنی رجل الاتبین لی ما فی عقلہ۔
"جب کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو مجھ کو اس کی عقل کا اندازہ ہو جاتا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
واعظ سے خطاب کر کے

لا یلھک الناس عن نفسک اقل من الدنیا تعش صرا ترک الخطیئۃ اسھل من التوبۃ۔

"لوگوں کو فکر میں تم اپنے تیئں بھول نہ جاؤ۔ دنیا تھوڑی سی لو تو آزادانہ بسر کروگے۔ توبہ کی تکلیف سے گناہ کا چھوڑ دینا زیادہ آسان ہے۔"

لی علی کل خائن امینان المأ والطین۔
"ہر بدیانت پر میرے دو داروغے متعین ہیں آب و گل۔"

لو ان الصبر والشکر بعیران ما بالیت علی ایھما رکبت۔
"اگر صبر و شکر دو سواریاں ہوتیں تو میں اس کی نہ پرواہ کرتا کہ دونوں میں سے کس پر سوار ہوں۔"

رحم اللہ امراً اھدی الیٰ عیوبی۔
"خدا اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیب میرے پاس تحفے میں بھیجتا ہے (یعنی مجھ پر میرے عیب ظاہر کرتا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صائب الرائے ہونا

رائے نہایت صائب ہوتی تھی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عمر کسی معاملے میں کہتے تھے کہ میرا اس کی نسبت یہ خیال ہے تو ہمیشہ وہی پیش آتا تھا۔ جو ان کا گمان ہوتا تھا۔ (صحیح بخاری باب اسلام عمر)۔

اس سے زیادہ اصابت رائے کی کیا دلیل ہو گی۔ کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں۔ا ور آج تک قائم ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top