اصول درایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے
تمام تاریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا تھا کہ عیسائی کسی وقت اور کبھی ناقوس نہ بجانے پائیں۔ لیکن قدیم کتابوں (کتاب الخراج طبری وغیرہ) میں اصول درایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے یہ روایت اس قید کے ساتھ منقول ہے کی جس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہوں اس وقت عیسائی ناقوس نہ بجائیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا تھا کہ قبیلہ تغلب کے عیسائی اپنے بچوں کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ لیکن یہی روایت " تاریخ طبری" میں ان الفاظ سے مذکور ہے کہ " جو لوگ اسلام قبول کر چکے ہوں ان کے بچوں کو زبردستی اصطباغ نہ دیا جائے۔"
یا مثلاً بہت سی تاریخوں میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحقیر و تذلیل کے لیے عیسائیوں کو خاص لباس پر مجبور کیا تھا۔ لیکن زیادہ تدقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کو ایک خاص لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تحقیر کا خیال راوی کا قیاس ہے۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث آگے آئے گی۔
یا مثلاً وہ روایتیں جو تاریخی ہونے کے ساتھ مذہبی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت صاف محسوس ہوتی ہے کہ جس قدر ان میں تنقید ہوتی گئی ہے اسی قدر مشتبہ اور مشکوک باتیں کم ہوتی گئی ہیں۔ فدک، قرطاس، سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات ابن عساکر، ابن سعد، بیہقی، مسلم، بخاری سب نے نقل کئے ہیں۔ لیکن جس قدر ان بزرگوں کے اصول اور شدت احتیاط میں فرق مراتب ہے۔ اسی نسبت سے روایتوں میں مشتبہ اور نزاع انگیز الفاظ کم ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ خود مسلم و بخاری میں فرق مراتب کا یہ اثر موجود ہے۔ چنانچہ اس کا بیان ایک مناسب موقع پر تفصیل سے آئے گا۔
ان ہی اصول عقلی کی بناء پر مختلف قسم کے واقعات میں صحت و اعتبار کے مدارج بھی مختلف قائم کرنے ہوں گے۔ مثلا یہ مسلم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کے واقعات سو برس کے بعد تحریر میں آئے اور اس بنا پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ معرکوں اور لڑائیوں کی نہایت جزئی تفصیلیں مثلا صف آرائی کی کیفیت فریقین کے سوال و جواب، ایک ایک بہادر کی معرکہ آرائی، پہلوانوں کے داؤ پیچ اس قسم کی جزئیات کی تفصیل کا رتبہ یقین تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن انتظامی امور اور قواعد حکومت چونکہ مدت تک محسوس صورت میں موجود رہے۔ اس لیے ان کی نسبت جو واقعات منقول ہیں وہ بے شبہ یقین کے لائق ہیں۔ اکبر نے ہندوستان میں جو آئین اور قاعدے جاری کئے۔ ایک ایک بچہ ان سے واقف ہے۔ اور انکی نسبت شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی یہ وجہ نہیں کہ حدیث کی طرح اس کے لئے قطعی روایتیں موجود ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ وہ انتظامات مدت تک قائم رہے۔ اور اکبر کے نام سے ان کو شہرت تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خطبے اور حکمت آمیز مقولے جو منقول ہیں ان کی نسبت یہ قیاس کرنا چاہیے کہ جو فقرے زیادہ تر پراثر اور فصیح و بلیغ ہیں وہ ضرور صحیح ہیں۔ کیونکہ ایک فصیح مقرر کے وہ فقرے ضرور محفوظ رہ جاتے ہیں اور ان کا مدت تک چرچا رہتا ہے۔ جن میں کوئی خاص قدرت اور اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبوں کے وہ جملے ضرور قابل اعتماد ہیں جن میں احکام شرعیہ کا بیان ہے۔ کیونکہ اس قسم کی باتوں کو لوگ فقہ کی حیثیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔
جو واقعات اس زمانے کے مذاق کے لحاظ سے چنداں قابل ذکر نہ تھے اور باوجود اس کے ان کا ذکر آ جاتا ہے، ان کی نسبت سمجھنا چاہیے کہ اصل واقعہ اس سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ہمارے مؤرخین رزم بزم کی معرکہ آرائیوں اور رنگینیوں کے مقابلے میں انتظامی امور کے بیان کرنے کے بالکل عادی نہیں ہیں۔ باایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حال میں عدالت، پولیس، بندوبست، مردم شماری وغیرہ کا ضمناً جو ذکر آ جاتا ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدر قلمبند ہوا اس سے بہت زیادہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زہد و تقشف، سخت مزاجی اور سخت گیری کی نسبت سینکڑوں روایتیں مذکور ہیں۔ اور بے شبہ اور صحابہ کی نسبت یہ اوصاف ان میں زیادہ تھے لیکن اس کے متعلق تمام روایتوں کو صحیح نہیں خیال کرنا چاہیے۔ جو حلیتہ الاولیاء ابن عساکر، کنز العمال، ریاض النضرۃ وغیرہ میں مذکور ہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ اس قسم کی روایتیں عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں۔ اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے۔ اس لئے خود بخود ان میں مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے۔ اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ جو کتابیں زیادہ مستند اور معتبر ہیں ان میں یہ روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اسی لئے میں نے اس قسم کی جو روایتیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ان میں بڑی احتیاط کی ہے اور " ریاض الضرہ" و ابن عساکر و حلیۃ الاولیاء وغیرہ کی روایتوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔
اخیر میں طرز تحریر کے متعلق کچھ لکھنا بھی ضروری ہے۔ آج کل کی اعلٰی درجہ کی تاریخیں جنہوں نے قبول عام حاصل کیا ہے۔ فلسفہ اور انشاء پردازی سے مرکب ہیں۔ اور اس طرز سے بڑھ کر اور کوئی طرز مقبول عام نہیں ہو سکتا۔ لیکن درحقیقت تاریخ اور انشاء پردازی کی حدیں بالکل جدا جدا ہیں۔ ان دونوں میں جو فرق ہے وہ نقشہ اور تصویر کی فرق سے مشابہ ہے۔ نقشہ کھینچنے والے کا یہ کام ہے کسی حصہ زمین کا نقشہ کھنچے تو نہایت دریدہ ریزی کے ساتھ اس کی ہیئت، شکل، سمت، جہت، اطراف، اضلاع ایک ایک چیز کا احاطہ کرے۔ بخلاف اس ے مصور صرف ان خصوصیتوں کو لے گا یا ان کو زیادہ نمایاں صورت میں دکھلائے گا جن میں کوئی خاص اعجوبگی ہے۔ اور جن سے انسان کی قوت مضحکہ پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً رستم و سہرات کی داستان کو ایک مؤرخ لکھے گا تو سادہ طور پر واقعہ کی تمام جزئیات بیان کر دے گا۔ لیکن ایک انشاء پرداز ان جزئیات کو اس طرح ادا کرے گا کہ سہراب کی مظلومی و بیکسی اور رستم کی ندامت و حسرت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور واقعہ کے دیگر جزئیات باوجود سامنے ہونے کے نظر نہ آئیں۔
مؤرخ کا اصلی فرض یہ ہے کہ وہ سارا واقعہ نگاری کی حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یورپ میں آج کل جو بڑا مؤرخ گزرا ہے اور جو طرز حال کا موجود ہے رینگی ہے، اس کی تعریف ایک پروفیسر نے ان الفاظ میں کی ہے۔
" اس نے تاریخ میں شاعری سے کام نہیں لیا۔ وہ نہ ملک کا ہمدرد بنا نہ مذہت اور قوم کا طرفدار ہوا۔ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں مطلق پتہ نہیں لگتا کہ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہےاور اس کی ذاتی اعتقاد کیا ہے۔"
یہ امر بھی جتا دینا ضروری ہے کہ اگرچہ میں نے واقعات میں اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس باب میں یورپ کی بے اعتدالی سے احتراز کیا ہے۔ اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کے لیے اکثر جگہ قیاس سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لئے مؤرخ کو اجتہاد اور قیاس سے چارہ نہیں۔ لیکن یہ اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ قیاس اور اجتہاد کو واقعہ میں اس قدر مخلوط نہ کر دے کہ کوئی شخص دونوں کو الگ کرنا چاہے تو نہ کر سکے۔
اہل یورپ کا عام طرز یہ ہے کہ وہ واقعہ کو اپنے اجتہاد کے موافق کرنے کے لئے ایسی ترتیب اور انداز سے لکھتے ہیں کہ وہ واقعہ بالکل ان کے اجتہاد کے قالب میں ڈھل جاتا ہے اور کوئی شخص قیاس اور اجتہاد کو واقعہ سے الگ نہیں کر سکتا۔
اس کتاب کی ترتیب اور اصول تحریر کے متعلق چند امور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں۔
- بعض واقعات مختلف حیثیتیں رکھتے ہیں اور مختلف عنوانوں کے تحت آ سکتے ہیں۔ اس لئے اس قسم کے واقعات کتاب میں مکرر آ گئے ہیں اور ایسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جس خاص عنوان کے نیچے وہ واقعہ لکھا گیا ہے وہاں اس عنوان کی حیثیت زیادہ تر دکھائی گئی ہے
- کتابوں کا حوالہ زیادہ تر انہیں واقعات میں دیا گیا ہے جو کسی حیثیت سے قابل تحقیق تھے اور کوئی خاص خصوصیت رکھتے تھے۔
- جو کتابیں روایت کی حیثیت سے کم رتبہ مثلاً ازالتہ الخفاء و ریاض النضرۃ وغیرہ ان کا جہاں حوالہ دیا ہے اس بناء پر دیا ہے کہ خاص روایت کی تصدیق اور معتبر کتابوں سے کر لی گئی ہے۔ غرض کئی برس کی سعی و محنت اور تلاش و تحقیق کا جو نتیجہ ہے وہ قوم کے سامنے ہے۔
من کہ یک چند زدم مہر خموشی برلب
کس چہ داند کہ دریں پردہ چہ سودا کردم
پیکرے تازہ کہ خواہم بہ عزیزاں بنمود
لختے ازذوق خودش نیز تماشا کردم
محفل ازبادہ دوشینہ نیاسودہ ہنوذ
بادہ تندتر از دوش بہ مینا کردم
باز خواہم کہ دمم درتن اندیشہ رداں
من کہ دریوزہ فیض ازدم عیسیٰ کردم
ہم نشیں نکتہ حکمت ز شریعت می جست
لختے از نسخہ روح القدس املا کردم
شاہد راز کہ کس پردہ ز رویش نگرفت
گرہ ازبند قبایش بہ فسوں وا کردم!
بشکہ ہر بار گہر بار گذشتم زیں راہ
دست معنی ہمہ پر لولوے لالہ کردم