"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
محرم 14 ہجری (635 عیسوی)

رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا جاتا تھا لیکن مغیرہ کی گفتگو نے اس کو اس قدر غیرت دلائی کہ اسی وقت کمر بندی کا حکم دیا۔ نہر جو بیچ میں حائل تھی حکم دیا صبح ہوتے ہوتے پاٹ کر سڑک بنا دی جائے۔ صبح تک یہ کام انجام کو پہنچا۔ اور دوپہر سے پہلے فوج نہر کے اس پار آ گئی۔ خود سامان جنگ سے آراستہ ہوا۔ دسہری زرہیں پہنیں، سر پر خود رکھا۔ ہتھیار لگائے پھر اسپ خاصہ طلب کیا۔ اور سوار ہو کر جوش میں کہا کہ " کل عرب کو چکنا چور کر دوں گا۔" کسی سپاہی نے کہا " ہاں اگر خدا نے چاہا" بولا کہ " خدا نے نہ چاہا تب بھی۔"

فوج کو نہایت ترتیب سے آراستہ کیا۔ آگے پیچھے صفیں قائم کیں۔ قلب کے پیچھے ہاتھیوں کا قلعہ باندھا۔ ہودجوں اور عماریوں میں ہتھیار بند سپاہی بٹھائے۔ میمنہ و میسرہ کے پیچھے قلعہ کے طور پر ہاتھیوں کے پرے جمائے۔ خبر رسانی کے لیے موقع جنگ سے پایہ تخت تک کچھ کچھ فاصلے پر آدمی بیٹھا دیئے جو واقعہ پیش آتا تھا۔ موقع جنگ کا آدمی چلا کر کہتا تھا۔ اور درجہ بدرجہ مدائن تک خبر پہنچ جاتی تھی۔

قادسیہ میں ایک قدیم شاہی محل تھا جو عین میدان کے کنارے پر واقع تھا۔ سعد کو چونکہ عرق النساء کی شکایت تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ اس لیے فوج کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ بالاخانے پر میدان کی طرف رخ کر کے تکیہ کے سہارے سے بیٹھے اور خالد بن عرطفہ کو اپنے بجائے سپہ سالار مقرر کیا۔ تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے۔ یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب ہوتا تھا پرچوں پر لکھوا کر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے جاتے تھے۔ اور خالد انہی ہدایتوں کے موافق موقع بہ موقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے۔ تمدن کے ابتدائی زمانے میں فن جنگ کا اس قدر ترقی کرنا تعجب کے قابل اور عرب کی تیزی طبع اور لیاقت جنگ کی دلیل ہے۔

فوجیں آراستہ ہو چکیں تو عرب کے مشہور شعراء اور خطیب صفوں سے نکلے اور اپنی آتش بیانی سے تمام فوج میں آگ لگا دی۔ شعرا میں شماخ، حطیئہ، اوس بن مغرا عبدۃ بن الطیب، عمرو بن معدی کرب اور خطیبوں میں قیس بن ہبیرہ، غالب بن الہذیل الاسدی، بسر بن ابی رہم الجہنی، عاصم بن عمرو، ربیع معدی، ربعی بن عامر میدان میں کھڑے تقریریں کر رہے تھے اور فوج کا یہ حال تھا کہ جیسے ان پر کوئی جادو کر رہا ہے۔ ان تقریروں کے بعض جملے یاد رکھنے کے قابل ہیں۔

ابن الہذیل اسدی کے الفاظ یہ تھے :

یا معاشر سعد اجعلوا حصونکم السیف و کونوا علیھم کاسود الا جم و ادرعوا العجاج الا بصارو اذا کلت السیوف فارسلوا الجنادل فانھا یوذن لھا فیما لا یوذن للحدید۔

"خاندان سعد! تلواروں کو قلعہ بناؤ اور دشمنوں کے مقابلے میں شیر بن کر جاؤ۔ گرد کی زرہ پہن لو اور نگاہیں نیچی کر لو۔ جب تلواریں تھک جائیں تو تیروں کی باگ چھوڑ دو کیونکہ تیروں کو جہاں بار مل جاتا ہے تلواروں کو نہیں ملتا۔"

اس کے ساتھ قاریوں نے میدان میں نکل کر نہایت خوش الحانی اور جوش سے سورۃ جہاد کی آیتیں پڑھنی شروع کیں۔ جس کی تاثیر سے دل ہل گئے۔ اور آنکھیں سرخ ہو گئیں۔

سعد نے قاعدے کے موافق تین نعرے مارے اور چوتھے پر لڑائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے ایک ایرانی قدر انداز دیبا کی قبا زیب بدن کئے، زریں کمر بند لگائے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں آیا۔ ادھر سے عمرو بن معدی کرب اس کے مقابلے کو نکلے۔ اس نے تیر کمان میں جوڑا اور ایسا تاک کر مارا کہ یہ بال بال بچ گئے۔ انہوں نے گھوڑے کو دابا اور قریب پہنچ کر کمر میں ہاتھ ڈال کر معلق اٹھا زمین پر دے پٹکا، اور تلوار سے گردن اڑا کر فوج کی طرف مخاطب ہوئے کہ یوں لڑا کرتے ہیں" لوگوں نے کہا "ہر شخص معدی کرب کیونکر ہو سکتا ہے۔"

اس کے بعد اور بہادر دونوں طرف سے نکلے اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔ پھر عام جنگ شروع ہوئی، ایرانیوں نے بجیلہ کے رسالہ پر جو سب میں ممتاز تھا، ہاتھیوں کو ریلا، عرب کے گھوڑوں نے یہ کالے پہاڑ کہاں دیکھے تھے۔ دفعتہً بدکے منتشر ہو گئے۔ پیدل فوج ثابت قدمی سے لڑی۔ لیکن ہاتھیوں کے ریلے میں ان کے پاؤں بھی اکھڑ جاتے تھے۔ سعد نے یہ ڈھنگ دیکھ کر فوراً قبیلہ اسد کو حکم بھیجا کہ بجیلہ کو سنبھالو۔ طلیحہ نے جو قبیلہ کے سردار اور مشہور بہادر تھے، ساتھیوں سے کہا " عزیزو! سعد نے کچھ سمجھ کر تم سے مدد مانگی ہے۔ تمام قبیلے نے جوش میں آ کر باگیں اٹھائیں اور ہاتھوں میں برچھیاں لے کر ہاتھیوں پر حملہ آور ہوئے۔ ان کی پامردی سے اگرچہ یہ کالی آندھی ذرا تھم گئی لیکن ایرانیوں نے بجیلہ کو چھوڑ کر سارا زور اس طرف دیا۔ سعد نے قبیلہ تمیم کو جو تیر اندازی اور نیزہ بازی میں مشہور تھےکہلا بھیجا کہ تم سے ہاتھیوں کی کچھ تدبیر نہیں ہو سکتی؟ یہ سن کر وہ دفعتہً بڑھے اور اس قدر تیر برسائے کہ فیل نشینوں کو گرا دیا۔ پھر قریب پہنچ کر تمام ہودے اور عماریوں الٹ دیں۔ شام تک یہ ہنگامہ رہا۔ جب بالکل تاریکی چھا گئی تو دونوں حریف میدان سے ہٹے۔ قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔

سعد جس وقت بالا خانہ پر بیٹھے فوج کر لڑا رہے تھے ان کی بیوی سلمٰی بھی ان کے برابر بیٹھی تھیں۔ ایرانیوں نے جب ہاتھیوں کو ریلا اور مسلمان پیچھے ہٹے تو سعد غصے کے مارے بیتاب ہوئے جاتے تھے۔ اور بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ سلمٰی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار چلا اٹھیں کہ " افسوس آج مثنی نہ ہوا۔" سعد نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ کر مارا کہ " مثنی ہوتا تو کیا کر لیتا۔" سلمٰی نے کہا " سبحان اللہ بزدلی کیساتھ غیرت بھی۔" یہ اس بات پر طعن تھا کہ سعد خود لڑائی میں شریک نہ تھے۔

اگلے دن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلے میدان جنگ سے مقتولوں کی لاشیں اٹھوا کر دفن کرائیں اور جس قدر زخمی تھے، مرہم پٹی کے لیے عورتوں کے حوالے کئے پھر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا۔ لڑائی ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ شام کر طرف ےس غبار اتھا۔ گرد پھٹی تو معلوم ہوا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شام سے جو امدادی فوجیں بھیجی تھیں وہ آ پہنچیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس زمانے میں عراق پر حملے کی تیاریاں شروع کی تھیں اسی زمانے میں ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو شام کی مہم پر مامور تھے۔ لکھ بھیجا تھا کہ عراق کو جو فوج وہاں بھیج دی گئی تھی اس کو حکم دو کہ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فوج سے جا کر مل جائے۔ چنانچہ عین وقت پر یہ فوج پہنچی اور تائید غیبی سمجھی گئی۔ چھ ہزار سپاہی تھے۔ جن میں پانچ ہزار ربیعہ و مضر اور ہزار خاص حجاز کے تھے۔ ہاشم بن عتبہ سعد کے بھائی سپہ سالار تھے۔ اور ہراول قعتاع کی رکاب میں تھا۔ قعتاع نے پہنچتے ہی صف سے نکل کر پکارا کہ ایرانیوں میں کوئی بہادر ہو تو مقابلے کو آئے۔ ادھر سے بہمن نکلا۔ قعقاع جسر کا واقعہ یاد کر کے پکار اٹھے کہ " لینا ابو عبیدہ کا قاتل جانے نہ پائے" دونوں حریف تلوار لے کر مقابل ہوئے اور کچھ دیر کی رد و بدل کے بعد بہمن مارا گیا۔ دیر تک دونوں طرف کے بہادر تنہا تنہا میدان میں نکل کر شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ سیتان کا شہزادہ براز، اعوان بن قطبہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ بزر جمیر ہمدانی جو ایک مشہور بہادر تھا، قععاع سے لڑ کر قتل ہوا۔ غرض ہنگامہ ہونے سے پہلے ایرانی فوج نے اکثر اپنے نامور بہادر کھو دیئے۔ تاہم بڑے زور شور سے دونوں فوجیں حملہ آور ہوئیں۔ شام کی امدادی فوج کو قعقاع نے اس تدبیر سے روانہ کیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے دستے کر دیئے تھے۔ اور جب ایک دستہ میدان جنگ میں پہنچ جاتا تھا تو دوسرا ادھر سے نمودار ہوتا تھا۔ اس طرح تمام دن فوجوں کا تانتا بندھا رہا۔ اور ایرانیوں پر رعب چھاتا گیا۔ ہر دستہ اللہ اکبر کے نعرے مارتا ہوا آتا تھا قعقاع اس کے ساتھ ہو کر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہاتھیوں کے لئے قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر جھول ڈال کر ہاتھیوں کی طرح مہیب بنایا۔ یہ مصنوعی ہاتھی جس طرف رخ کرتے تھے ایرانیوں کے گھوڑے بدک کر سواروں کے قابو سے نکل جاتے تھے۔

عین ہنگامہ جنگ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قاصد پہنچے جن کے ساتھ نہایت بیش قیمت عربی گھوڑے اور تلواریں تھیں۔ ان لوگوں نے فوج کے سامنے پکار کر کہا کہ امیر المومنین نے یہ انعام ان لوگوں کو بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کر سکیں۔ چنانچہ قعقاع نے جمال بن مالک، ربیل بن عمرو و طیلحہ بن خویلد، عاصم بن عمرو التمیمی کو تلواریں حوالہ کیں اور قبیلہ یربوع کے چار بہادروں کو گھوڑے عنایت کئے۔ ربیل نے فخر کے جوش میں آ کر فی البدیہہ یہ شعر پڑھا۔

لقد علم الاقوام انا احقھم
اذا حصلوا بالمرھفات البوالر​

"سب لوگوں کو معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ مستحق ہوں، جس وقت لوگوں نے کاٹنے والی نازک تلواریں پائیں۔"

جس وقت لڑائی کا ہنگامہ گرم تھا، ابو محجن ثقفی جو ایک مشہور بہادر شاعر تھے اور جن کو شراب پینے کے جرم میں سعد نے قید کر دیا تھا۔ قید خانے کے دریچے سے لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اور شجاعت کے جوش میں بے اختیار ہوتے جاتے تھے۔ آخر ضبط نہ کر سکے، سلمٰی (سعد کی بیوی) کے پاس گئے کہ خدا کے لیے اس وقت مجھ کو چھوڑ دو۔ لڑائی سے جیتا بچا تو خود آ کر بیڑیاں پہن لوں گا۔ سلمٰی نے انکار کیا۔ یہ حسرت کے ساتھ واپس آئے اور بار بار پردرد لہجہ میں یہ اشعار پڑھتے تھے۔

کفی حزناً ان تردی الخیل بالقنا
و اترک مشدوداً علی و تالیا​

" اس سے بڑھ کر کیا غم ہو گا کہ سوار نیزہ بازیاں کر رہے ہیں، اور میں زنجیروں میں بندھا ہوا ہوں۔"

اذا قمت عنا فی الحدید و اغلفت
مصاریع من دونی لصم المنادیا​

"جب کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیر اٹھنے نہیں دیتی، اور دروازے اس طرح بند کر دیئے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔"

ان اشعار نے سلمٰی کے دل پر یہ اثر کیا کہ خود آ کر بیڑیاں کاٹ دیں۔ انہوں نے فوراً اصطبل میں جا کر سعد کے گھوڑے پر جس کا نام بلقا تھا زین کسا اور میدان جنگ پہنچ کر بھالے کے ہاتھ نکالتے ہوئے ایک دفعہ میمنہ سے میسرہ تک کا چکر لگایا۔ پھر اس زور و شور سے حملہ کیا کہ جس طرف نکل گئے صف کی صف الٹ دی۔ تمام لشکر متحیر تھا کہ یہ کون بہادر ہے۔

سعد بھی حیران تھے اور دل میں کہتے تھے کہ حملہ کا انداز ابو محجن کا ہے۔ لیک وہ قید خانے میں قید ہے۔ شام ہوئی تو ابو محجن نے آ کر خود بیڑیاں پہن لیں۔ سلمٰی نے یہ تمام حالات سعد سے بیان کئے۔ سعد نے اسی وقت ان کو رہا کر دیا اور کہا " خدا کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اس کو سزا نہیں دے سکتا۔"

ابو محجن نے کہا " بخدا میں بھی آج سے پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ (کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ 18)۔

خنساء جو عرب کی مشہور شاعرہ تھی (خنساء کے واقعات نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں۔ اس کا دیوان بیروت میں چھپ گیا ہے۔ اور اس کے مفصل حالات علامہ ابو الخرج اصفہانی نے کتاب الاثانی میں لکھے ہیں۔ اصناف شعر میں، مرثیہ گوئی میں اس کا کوئی نظیر نہیں گزرا۔ چنانچہ بازار عکاظ میں اس کے خیمے کے دروازے پر ایک علم نصب کیا جاتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا رثی العرب یعنی تمام عرب میں سب سے بڑھ کر مرثیہ گو۔ وہ اسلام بھی لائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دربار میں حاضر ہوئی تھی)۔ اس معرکے میں شریک تھی اور اس کے چاروں بیٹھے بھی تھے۔ لڑائی جب شروع ہوئی تو اس نے بیٹوں کی طرف خطاب کیا اور کہا :

لم تئب بکم البلاد ولم تفعکم السنۃ ثم جئتم بامکم عجوز کبیرۃ فوضعنموھا بین ابدی احل فارس واللہ الکم لبنود جل واحد کما الکم بنو امراۃ واحدۃما خت اباکمولا لضحت بحالکم انطلقوا فاشھدو اول انفعال و اخرہ۔

"پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے، نہ تم پر قحط پڑا تھا۔ باوجود اس کے تم اپنی کہن سال ماں کو یہاں ہائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو، اسی طرح ایک باپ کے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی، نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تو جاؤ آخر تک لڑو۔"

بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اٹھائیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو خنسأ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا " خدایا میرے بیٹوں کو بچانا۔"

اس دن مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول و مجروع ہوئے۔ تاہم فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ یہ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے۔

تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ رات کے وقت چند رسالوں اور پیدل فوج کو حکم دیا کہ پڑاؤ سے دور شام کی طرف نکل جائیں۔ پو پھٹے سو سو سوار میدان جنگ کی طرف گھوڑے اڑاتے ہوئے آئیں۔ اور رسالے اسی طرح برابر آتے جائیں۔ چنانچہ صبح ہوتے ہوتے پہلا رسالہ پہنچا۔ تمام فوج نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا۔ اور غُل پڑ گیا کہ نئی امدادی فوجیں آ گئیں۔ ساتھ ہی حملہ ہوا۔ حسن اتفاق یہ کہ ہشام، جن کو ابو عبیدہ نے شام سے مدد کے لئے بھیجا تھا، عین موقع پر سات سو سواروں کے ساتھ پہنچ گئے۔ یزد گرد کو دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں اور وہ اور فوجیں بھیجتا جاتا تھا۔ ہشام نے فوج کی طرف خطاب کیا اور کہا تمہارے بھائیوں نے شام کو فتح کر لیا ہے اور فارس کی فتح کا جو خدا کی طرف سے وعدہ ہے وہ تمہارے ہاتھ سے پورا ہو گا۔ معمولکے موافق جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ ایرانیوں کی فوج سے ایک پہلوان شیر کی طرح دھاڑتا ہوا میدان میں آیا۔

اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر لوگ اس کے مقابلے سے جی چراتے تھے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے وہ ایک کمزور سپاہی کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ ایرانیوں نے تجربہ اٹھا کر ہاتھیوں کے دائیں بائیں پیدل فوجیں قائم کر دیں تھیں۔ عمرو معدی کرب نے رفیقوں سے کہا " میں مقابل ہاتھی پر حملہ کرتا ہوں، تم ساتھ رہنا، ورنہ عمرو معدی کرب مارا گیا تو پھر معدی کرب پیدا نہیں ہو گا۔" یہ کہہ کر تلوار میان سے گھسیٹ لی اور ہاتھی پر حملہ کیا۔ لیکن پیدل فوجیں جو دائیں بائیں تھیں دفعتہً ان پر ٹوٹ پڑیں اور اس قدر گر اٹھی کہ یہ نظر سے چھپ گئے۔ یہ دیکھ کر ان کی فوج حملہ آور ہوئی اور بڑے معرکے کے بعد دشمن پیچھے ہٹے۔ عمرو معدی کرب کا یہ حال تھا کہ تمام جسم خاک سے اٹا ہوا تھا۔ بدن پر جابجا برچھیوں کے زخم تھے۔ تاہم تلوار قبضے میں تھی۔ اور ہاتھ چلتا جاتا تھا۔ اسی حالت میں ایک ایرانی سوار برابر سے نکلا۔ انہوں نے اس کے گھوڑے کی دم پکڑ لی۔ ایرانی نے بار بار مہمیز کیا لیکن گھوڑا جگہ سے ہل نہ سکا، آخر سوار اتر کر بھاگ نکلا۔ اور یہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھے۔

سعد نے یہ دیکھ کر کہ ہاتھی جس طرف رخ کرتے ہیں دل کا دل چھٹ جاتا ہے۔ ضخم و سلم کو وغیرہ جو پارسی تھے اور مسلمان ہو گئے تھے، بلا کر پوچھا کہ اس بلائے سیاہ کا کیا علاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سونڈ اور آنکھیں بیکار کر دی جائیں۔ تمام غول میں دو ہاتھی نہایت مہیب اور کوہ پیکر گویا کل ہاتھیوں کے سردار تھے ۔ ایک ارض اور دوسرا اجرت کے نام سے مشہور تھا۔ سعد نے قعقاع، عاصم، حمائل، زمیل کو بلا کر کہا یہ مہم تمہارے ہاتھ ہے۔قعقاع نے پہلے کچھ سوار اور پیادے بھیج دیئے کہ ہاتھیوں کو نرغہ میں کر لیں۔ پھر خود برچھا ہاتھ میں لے کر پہلے سفید ہاتھی کی طرف بڑھے۔ عاصم بھی ساتھ تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ برچھے مارے کہ آنکھوں میں پیوست ہو گئے۔ ہاتھی جھرجھری لے کر پیچھے ہٹا۔ ساتھ ہی قعقاع کی تلوار پڑی اور سونڈ مستک سے الگ ہو گئی۔ ادھر ربیل و حمال نے اجرب پر حملہ کیا۔ وہ زخم کھا کر بھاگا تو تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہو لئے اور دم کے دم میں یہ سیاہ بادل بالکل چھٹ گیا۔

اب بہادروں کو حوصلہ آزمائی کا موقع ملا اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل پڑتی تھی۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اس معرکہ کو لیلتہ المریر کہتے ہیں۔ ایرانیوں نے فوج نئے سرے سے ترتیب دی۔ قلب میں اور دائیں بائیں تیرہ تیرہ صفیں قائم کیں۔ مسلمانوں نے بھی تمام فوج کو سمیٹ کر یکجا کیا۔ اور آگے پیچھے تین پرے جمائے۔ سب سے آگے سواروں کا رسالہ ان کے بعد پیدل فونیں اور سب سے پیچھے تیر انداز۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا تھا کہ تیسری تکبیر پر حملہ کیا جاوے لیکن ایرانیوں نے جب تیر برسانے شروع کئے تو قعقاع سے ضبط نہ ہو سکا۔ اور اپنی رکاب کی فوج لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ فوجی اصولوں کے لحاظ سے یہ حرکت نافرمانی میں داخل تھی۔ تاہم لڑائی کا ڈھنگ اور قعقاع کا جوش دیکھ کر سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے منہ بے اختیار نکلا " اللھم اغفرہ وانصرہ" یعنی اے خدا قعقاع کو معاف کرنا اور اس کا مددگار رہنا۔" قعقاع کو دیکھ کر بنو اسد اور بنو اسد کی دیکھا دیکھی نحع، بجیلہ، کندہ سب ٹوٹ پڑے۔ سعد ہر قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ خدایا اس کو معاف کرنا اور یاور رہنا۔ اول اول سواروں کے رسالے نے حملہ کیا۔ لیکن ایرانی فوجیں جو دیوار کی طرح جمی کھڑی تھی۔ اس ثابت قدمی سے لڑیں کہ گھوڑے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ دیکھ کر سب گھوڑوں سے کود پڑے اور پیادہ حملہ آور ہوئے۔

ایرانیوں کا ایک رسالہ سرتاپا لوہے میں غرق تھا۔ قبیلہ حمیعہ نے اس پر حملہ کیا۔ لیکن تلواریں روہوں پر سے اچٹ اچٹ کر رہ گئیں۔ سرداران قبیلہ نے للکارا۔ سب نے کہا زرہوں پر تلواریں کام نہیں دیتیں۔ اس نے غصے میں آ کر ایک ایرانی پر برچھے کا وار کیا کمر توڑ کر نکل گیا۔ یہ دیکھ کر اوروں کو بھی ہمت ہوئی اور اس بہادری سے لڑے کہ رسالہ کا رسالہ برباد ہو گیا۔

تمام رات ہنگامہ کارزار گرم رہا۔ لوگ لڑتے لڑتے تھک کر چور ہو گئے تھے۔ اور نیند کے خمار میں ہاتھ پاؤں بیکار ہوئے جاتے تھے۔ اس پر بھی جب فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا تو قعقاع نے سرداران قبائل میں سے چند نامور بہادر انتخاب کئے اور سپہ سالار فوج (رستم) کی طرف رخ کیا۔ ساتھ ہی قیس ، اشعت، عمر معدی کرب، ۔۔۔ ذی البروین نے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار تھے، ساتھیوں کو للکارا کہ دیکھو! یہ لوگ خدا کی راہ میں تم سے آگے نکلنے نہ پائیں اور سرداروں نے بھی جو بہادری کے ساتھ زبان آور بھی تھے اپنے قبیلوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس جوش سے تقریریں کیں کہ تمام لشکر میں ایک آگ لگ گئی۔ سوار گھوڑوں سے کود پڑے اور تیر و کمان پھینک کر تلواریں گھسیٹ لیں۔ اس جوش کے ساتھ تمام فوج سیلاب کی طرح بڑھی اور فیروزن و ہرمزان کو دباتے ہوئے رستم کے قریب پہنچ گئے۔ رستم تخت پر بیٹھا فوج کو لڑا رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر تخت سے کوڈ پڑا اور دیر تک مردانہ وار لڑتا رہا۔ جب زخموں سے بالکل چور ہو گیا تو بھاگ نکلا۔ بلال نامی ایک سپاہی نے تعاقب کیا۔ اتفاق سے ایک نہر سامنے آ گئی۔ رستم کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے۔ ساتھ ہی بلال بھی کودے اور ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ لائے۔ پھر تلوار سے کام تمام کر دیا۔

بلال نے لاش خچروں کے پاؤں ڈال دی۔ اور تخت پر چڑھ کر پکارے کہ " رستم کا میں نے خاتمہ کر دیا (علامہ بلاذری نے لکھا ہے کہ رستم کے قاتل کا نام معلوم نہیں۔ لیکن عمرو معدی کرب، طلحہ بن خویلد، قرط ان رحماحان تینوں نے اس پر حملہ کیا تھا۔ میں نے جو روایت لکھی ہے وہ الاخبار الطوال کی روایت ہے)۔ ایرانیوں نے دیکھا تو تخت سپہ سالار سے خالی تھا۔ تمام فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے دور تک تعاقب کیا اور ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔

افسوس ہے کہ اس واقعہ کو ہمارے ملک الشعراء نے قومی جوش کے اثر سے بالکل غلط لکھا ہے۔

برآمد خروسے بکروار عد
زیک سوئے رستم زیکسوئی سعد

چوویدار رستم بہ خون تیرہ گشت
جواں مرد تازی بر چیرہ گشت​

ہمارے شاعر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سعد اس واقعہ میں سرے سے شریک ہی نہ تھے۔

شکست کے بعد بھی چند نامور افسر جو ریاستوں کے مالک تھے میدان میں ثابت قدم رہے۔ ان میں شہریار، ۔۔۔ البرید، فرخان اہوازی، خسرو شنوم ہمدانی نے مردانہ وار جان دی۔ لیکن ہرمزان اہواز ، قارن موقع پا کر بھاگ نکلے۔ ایرانیوں کے کشتوں کا تو شمار نہ تھا۔ مسلمان بھی کم و بیش چھ ہزار کام آئے۔ اس فتح میں چونکہ سعد خود شریک جنگ نہ تھے، فوج کو ان کی طرف سے بدگمانی رہی۔ یہاں تک کہ ایک شاعر نے کہا :

و قاتلک حتی انزل اللہ نصرہ
و سعد باب القادسیۃ معصم​

" میں برابر لڑا کیا یہاں تک کہ خدا نے اپنی مدد بھیجی، لیک سعد قادسیہ کے دروازے ہی سے لپٹے رہے۔"

فابنا و قدامت نساء کثیرۃ
و نسوۃ سعد لیس فیھن ابم​

" ہم واپس پھرے تو سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو چکی تھیں، لیکن سعد کی بیوی بیوہ نہیں ہوئی۔"

یہ اشعار اسی وقت بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ سعد نے تمام فوج کو جمع کر کے آبلوں کے زخم دکھائے اور اپنی معذوری ثابت کی۔

سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نامہ فتح لکھا اور دونوں طرف کے مقتولوں کی تفصیل لکھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ حال تھا کہ جس دن سے قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا ہر روز آفتاب نکلتے مدینے سے نکل جاتے اور قاصد کی راہ دیکھتے۔ ایک دن معمول کے موافق نکلے۔ ادھر سے ایک شتر سوار آ رہا تھا۔ بڑھ کر پوچھاکہ کدھر سے آتے ہو۔ دو سعد کا قاصد تھا اور مژدہ فتح لے کر آیا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ سعد کا قاصد ہے تو اس حالات پوچھنے شروع کئے۔ اس نے کہا کہ خدا نے مسلمانوں کو کامیاب کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رکاب کے برابر دوڑتے جاتے تھے اور حالات پوچھتے جاتے تھے۔ شتر سوار شہر میں داخل ہوا تو دیکھتا جو شخص آتا ہے ان کو "امیر المومنین کے لقب سے پکارتا ہے، ڈر سے کانپ اٹھا۔ اور کہا کہ حضرت نے مجھ کو اپنا نام کیوں نہ بتایا کہ میں اس گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا۔ " فرمایا " نہیں کچھ حرج نہیں۔ تم سلسلہ کلام کو نہ توڑو۔ چنانچہ اسی طرح اس کے رکاب کے ساتھ ساتھ گھر تک آئے۔ مدینے پہنچ کر مجمع عام میں فتح کی خوشخبری سنائی۔ اور ایک نہایت پُر اثر تقریر کی جس کا اخیر فقرہ یہ تھا۔ " مسلمانوں! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو غلام بنانا چاہتا ہوں۔ میں خدا کا غلام ہوں۔ البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا ہے۔ اگر میں اسی طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوؤ تو میری سعادت ہے اور اگر یہ میری خواہش ہو کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو میری بدبختی ہے۔ میں تو کو تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن باتوں سے نہیں عمل سے۔"

قادسیہ کے معرکے میں جو عجم یا عرب مسلمانوں سے لڑتے تھے ان میں ایسے بھی تھے جو دل سے لڑنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ زبردستی فوج میں پکڑے آئے تھے۔ بہت سے لوگ گھر چھوڑ گئے تھے۔ فتح کے بعد یہ لوگ سعد کے پاس آئے اور امن کی درخواست کی۔ سعد نے دربار خلافت کو لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ کو بلا کر رائے لی۔ اور سب نے بالاتفاق منظور کیا۔ غرض تمام ملک کو امن دیا گیا۔ جو لوگ گھر چھوڑ کر نکل گئے تھے۔ واپس آ کر آباد ہوتے گئے۔ رعایا کے ساتھ یہ ارتباط بڑھا کہ اکثر بزرگوں نے ان میں رشتہ داریاں کر لیں۔

ایرانیوں نے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں مقام کیا اور چونکہ یہ ایک محفوظ و مستحکم مقام تھا، اطمینان کے ساتھ جنگ کے تمام سامان مہیا کر لیے تھے اور فیرزان کو لشکر قرار دیا تھا۔ سعد نے ان کے استیصال کے لیے 15 ہجری میں بابل کا ارادہ کیا اور چند سردار آگے روانہ کئے کہ راستہ صاف کرتے جائیں۔ چنانچہ مقام برس میں بصیری سدراہ ہوا اور میدان جنگ میں زخم کھا کر بابل کی طرف بھاگ گیا۔ برسکے رئیس نے جس کا نام اسطام تھا، صلح کر لی اور بابل تک موقع بہ موقع پل تیار کرا دیئے۔ کہ اسلامی فوجیں بے تکلف گزر جائیں۔ بابل میں اگرچہ عجم کے بڑے بڑے سردار خیز جان، ہرمزان، مہران، مہرجان وغیرہ جمع تھے۔ لیکن پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے۔ سعد نے خود بابل میں مقام کیا اور زہرہ کی افسری میں فوجیں آگے روانہ کیں۔ عجمی فوجیں بابل سے بھاگ کر کوفی میں ٹھہری تھیں اور شہریار جو رئیس زادہ تھا ان کا سپہ سالار تھا زہرہ کوفی سے جب گزرے تو شہر یار آگے بڑھ کر مقابل ہوا اور میدان جنگ میں آ کر پکارا کہ جو بہادر تمام لشکر میں انتخاب ہو مقابلے کو آئے۔ زہرہ نے کہا میں نے خود تیرے مقابلے کا ارادہ کیا تھا، لیکن جب تیرا یہ دعویٰ ہے تو کوئی غلام تیرے مقابلے کو آ جائے گا۔ یہ کہہ کر ناہل کو جو قبیلہ تمیم کا غلام تھا اشارہ کیا۔ اس نے گھوڑا آگے بڑھایا۔ شہریار روپو کا سا تن و توش رکھتا تھا۔ ناہل کو کمزور دیکھ کر نیزہ ہاتھ سے پھینک گردن میں ہاتھ ڈال کر زور سے کھینچا اور زمین پر گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اتفاق سے شہریار کا انگوٹھا ناہل کے منہ میں آ گیا۔ ناہل نے اس زور سے کاٹا کہ شہریار تلملا گیا۔ ناہل موقع پا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور تلوار سے پیٹ چاک کر دیا۔ شہریار نہایت عمدہ لباس اور اسلحہ سے آراستہ تھا۔ ناہل نے زرہ وغیرہ اس کے بدن سے اتار کر سعد کے آگے لا کر رکھ دیں۔ سعد نے عبرت کے لیے حکم دیا، ناہل وہی لباس اور اسلحہ سجا کر آئے۔ چنانچہ شہریار کے زرق برق لباس اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر جب مجمع عام میں آیا تو لوگوںکی آنکھوں میں زمانے کی نیرنگیوں کی تصویر پھر گئی۔

کوثی ایک تاریخی مقام تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے یہیں قید میں رکھا تھا۔ چنانچہ قید خانے کی جگہ اب تک محفوظ تھی۔ سعد اس کی زیارت کو گئے۔ اور درود پڑھ کر آیت پڑھی " تلک الایام ۔۔۔۔۔ بین الناس"۔ کوثی سے آگے پائے تخت کے قریب ببرہ شیر ایک مقام تھا۔ یہاں ایک شاہی رسالہ رہتا تھا۔ جو ہر روز ایک بار قسم کھا کر کہتا تھا کہ " جب تک ہم ہیں سلطنت فارس میں کبھی زوال نہیں آ سکتا۔" یہاں ایک شیر پلا ہوا تھا جو کسریٰ سے بہت ہلا ہوا تھا۔ اور اسی لیے اس کو ببرۃ شیر کہتے تھے۔ سعد کا لشکرقریب پہنچا تو وہ تڑپ کر نکلا۔ لیکن ہاشم نے جو ہراول کے افسر تھے اس صفائی سے تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ سعد نے اس بہادری پر ان کی پیشانی چوم لی۔

آگے بڑھ کر سعد نے ببرۃ شہر کا محاصرہ کیا۔ اور فوج نے ادھر ادھر پھیل کر ہزاروں آدمی گرفتار کر لئے۔ شیرزاد نے جو ساباط کا رئیس تھا، سعد سے کہا یہ یہ معمولی کاشتکار ہیں۔ ان کے قید کرنے سے کیا حاصل۔ چنانچہ سعد نے ان کے نام دفتر میں درج کر لیے اور چھوڑ دیا۔ آس پاس کے تمام رئیسوں نے جزیہ قبول کر لیا۔ لیکن شہر پر قبصہ نہ ہو سکا۔ دو مہینے تک برابر محاصرہ رہا۔ ایرانی کبھی کبھی قلعہ سے نکل کر معرکہ آرا ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے جوش و خروش سے سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں اور تیر برساتے ہوئے آ نکلے۔ مسلمانوں نے برابر کا جواب دیا۔ زہرہ جو ایک مشہور افسر تھے اور معرکوں میں سب سے آگے رہتے تھے، ان کی زرہ کی کڑیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ گئیں تھیں۔ لوگوں نے کہا کہ اس زرہ کو بدل کر نئی پہن لیجیئے۔ بولے کہ میں ایسا خوش قسمت کہاں کہ دشمن کے تیر سب کو چھوڑ کر میری ہی طرف آئیں۔ اتفاق کہ پہلا تیر انہی کو آ کر لگا۔ لوگوں نے نکالنا چاہا تو انہوں نے منع کیا کہ جب تک یہ بدن میں ہے اسی وقت تک زندہ بھی ہوں۔ چنانچہ اسی حالت میں حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور شربراز کو جو ایک نامی افسر تھا، تلوار سے مارا۔ تھوڑی دیر لڑ کر ایرانی بھاگ نکلے اور شہر والون نے صلح کا پھریرا اڑا دیا۔

ببرۃ شیر اور مدائن میں صرف دجلہ حائل تھا۔ سعد سیرۃ شیر سے بڑھے تو آگے دجلہ تھا۔ ایرانیوں نے پہلے سے جہاں جہاں پل بنے تھے توڑ کر بیکار کر دیئے تھے۔ سعد دجلہ کے کنارے پہنچے۔ نہ پل تھا نہ کشتی، فوج سے مخاطب ہو کر کہا " براداران اسلام! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہر کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ مہم بھی سر کر لو تو پھر مطلع صاف ہے۔" یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ان کو دیکھ کر اوروں نے بھی ہمت کی۔ اور دفعتہً سب نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ دریا اگرچہ نہایت زخار اور مواج تھا، لیکن ہمت اور جوش نے طبیعتوں میں یہ استقلال پیدا کر دیا کہ موجیں برابر گھوڑوں سے آ آ کر ٹکراتی تھیں اور یہ رکاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ یمین و یسار کی جو ترتیب تھی اس میں بھی فرق نہ آیا۔ دوسرے کنارے پر ایرانی یہ حیرت انگیز تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جب فوج کنارے کے قریب آ گئی تو ان کو خیال ہوا کہ یہ آدمی نہیں جن ہیں۔ چنانچہ (تاریخ طبری کے بعینہ یہیں الفاظ ہیں) " دیواں آمدند، دیواں آمدند" کہتے ہوئے بھاگے۔ تاہم سپہ سالار خرزاد تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور گھاٹ پر تیر اندازوں کے دستے معین کر دیئئے۔ اور ایک گروہ دریا میں اتر کر سد راہ ہوا۔ لیکن مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور تیر اندازوں کو خس و خاشاک کی طرح مٹاتے پار نکل آئے۔ یزدگرد نے حرم اور خاندان شاہی کو پہلے ہی حلوان روانہ کر دیا تھا۔ یہ خبر سن کر خود بھی شہر چھوڑ کر نکل گیا۔ سعد مداین میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا۔ نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیار یہ آیتیں زبان سے نکلیں۔ " کم تر کوا من جنت و عیون و زروع و مقام کریم و نع،ۃ کانوا فیھا فکھین کذلک و اورثھا قوما الحرین۔"

ایوان کسریٰ میں تخت شاہی کے بجائے منبر نصب ہوا۔ چنانچہ جمعہ کی نماز اسی میں ادا کی گئی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا۔ ہمارے فقہاء کو تعجب ہو گا کہ سعد نے باوجود یہ کہ اکابر صحابہ میں سے تھے اور برسوں جناب رسالت مآب کی صحبت میں رہے تھے۔ عالمگیر و محمود کی تقلید نہیں کہ بلکہ ایوان میں جس قدر مجسم تصویریں تھیں سب برقرار رہنے دیں۔ (علامہ طبری نے جو بڑے محدث بھی تھے تصریح کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا ہے)۔

دو تین دن ٹھہر کر سعد نے حکم دیا کہ دیوانات شاہی کا خزانہ اور نادرات لا کر یکجا کئے جائیں۔ کیانی سلسلے سے لے کر نوشیرواں کے عہد تک کی ہزاروں یادگاریں تھیں۔ خاقان چین، راجہ داہر، قیصر روم، نعمان بن منذر، سیاؤش، میر ام چوبیں کی زرہیں اور تلواریں تھیں۔ کسریٰ ہرمز اور کیقباد کے خنبر تھے۔ نوشیروان کا تاج زرنگار اور ملبوس شاہی تھا۔ سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین کسا ہوا تھا، اور سیمے پر یاقوت اور زمرد سے جڑے ہوئے تھے۔ چاندنی کی ایک اونٹنی تھی جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یاقوت پروئے ہوئے تھے۔ ناقہ سوار سر سے پاؤں تک جواہرات سے مرصع تھا۔ سب سے عجیب و غریب ایک فرش تھا، جس کو ایرانی بہار کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ فرش اس غرض سے تیار کیا گیا تھا کہ جب بہار کا موسم نکل جاتا تھا تو اس پر بیٹھ کر شراب پیتے تھے۔ اس رعایت سے اس میں بہار کے تمام سامان مہیا کئے تھے۔ بیچ میں سبزی کا چمن تھا۔ چاروں طرف جدولیں تھیں۔ ہر قسمکے درکت اور درختوں میں شگوفے اور پھول پھل تھے۔ طرہ یہ کہ جو کچھ تھا زر و جواہر کا تھا۔ یعنی سونے کی زمین، زمرد کا سبزہ، پکھراج کی جدولیں، سونے چاندی کے درخت، حریر کے پتے، جواہرات کے پھل تھے۔

یہ تمام سامان فوج کی عام غارتگری میں ہاتھ آیا تھا۔ لیکن فوجی ایسے راست باز اور دیانتدار تھے کہ جس نے جو چیز پائی تھی بجنسہ لا کر افسر کے پاس حاضر کر دی۔ چنانچہ جب سب سامان لا کر سجایا گیا اور دور دور تک میدان جگمگا اٹھا تو خود سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حیرت ہوئی۔ بار بار تعجب کرتے تھےاور کہتے تھے کہ جن لوگوں نے ان نادرات کو ہاتھ نہیں لگایا، بے شبہ انتہا کے دیانتدار ہیں۔

مال غنیمت حسب قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربار خلافت میں بھیجا گیا۔ فرش اور قدیم یادگاریں بجنسہ بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے جب یہ سامان چنے گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اور استغناء پر حیرت ہوئی۔

محلم نام کا مدینہ میں ایک شخص تھا جو نہایت موزوں قامت اور خوبصورت تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا کہ نوشیروان کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں۔ یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے تھے۔ سواری کا جدا، دربار کا جدا، جشن کا جدا، تہینت کا جدا، چنانچہ باری باری تمام ملبوسات محلم کو پہنائے گئے۔ جب ملبوس خاص اور تاج زرنگار پہنا تو تماشاہیوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور دیر تک لوگ حیرت سے تکتے رہے۔ فرش کی نسبت لوگون کی رائے تھی کہ تقسیم نہ کیا جائے۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بھی یہی منشاء تھا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اصرار سے اس بہار پر بھی خزاں آئی اور دولت نوشیروانی کے مرقع کے پرزے اڑ گئے۔

یورپ کے موجودہ مذاق کے موافق یہ ایک وحشیانہ حرکت تھی لیکن ہر زمانے کا مذاق جداہے۔ وہ مقدس زمانہ جس میں زخارف دنیوی کی عزت نہیں کی جاتی تھی۔ دنیاوی یادگارونکی کیا پرواہ کر سکتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
جلولاء 16 ہجری (637) عیسوی

(جلولا بغداد کے سواد میں ایک شہر ہے جو بسبب چھوٹے ہونے کے نقشےمیں مندرج نہیں ہے۔ بغداد سے خراسان جاتے وقت راہ میں پڑتا ہے)

یہ معرکہ فتوحات عراق کا خاتمہ تھا۔ مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جلولاء میں جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ اور ایک بڑی فوج جمع کر لی۔ خرزاد نے جو رستم کا بھائی اور سر لشکر تھا۔ نہایت تدبیر سے کام لیا۔ شہر کے گرد خندق تیار کرائی اور راستوں اور گزرگاہوں پر گوکھرو (ایک کانٹا جو سہ گوشہ ہوتا ہے (پنجابی) بھکڑا، لوہے کے بنے ہوئے کانٹے جو دشمن کی راہ میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ فیروز اللغات (انوار الحق قاسمی) بچھا دیئے۔ سعد کو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ہاشم بن عتبہ بارہ ہزار فوج لے کر اس مہم پر جائیں اور مقدمتہ الجیش پر قعقاع، میمنہ پر مشعر بن مالک، میسرہ پر عمرو بن مالک، ساقہ پر عمرو بن مرہ مقرر ہوں۔ ہاشم مدائن سے روانہ ہو کر چوتھے روز جلولاء پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینوں محاصرہ رہا۔ ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے نکل کر حملہ آور ہوتے تھے، اس طرح اسی (80) معرکے ہوئے لیکن ایرانیوں نے ہمہشہ شکست کھائی۔ تاہم چونکہ شہر میں ہر طرح کا ذخیرہ تھا اور لاکھوں کی جمعیت تھی، بیدل نہیں ہوتے تھے اور ایک دن بڑے زور شور سے نکلے۔ مسلمانوں نے بھی جم کر مقابلہ کیا۔ اتفاق یہ کہ دفعتاً اس زور کی آندھی چلی کہ زمین آسمان میں اندھیرا ہو گیا۔ ایرانی مجبور ہو کر پیچھے ہٹے لیکن گرد و غبار کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ہزاروں آدمی خندق میں گر کر مر گئے۔ ایرانیوں نے یہ دیکھ کر جا بجا خندق کو پاٹ کر راستہ بنایا۔ مسلمانوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا اور حملہ کی تیاریاں کیں۔ ایرانیوں کو بھی دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں۔ اسی وقت مسلمانوں کی آمد کے رخ گوکھرو بچھوا دیئے اور فوج کو ساز و سامان سے درست کر کے قلعہ کے دروازے پر جما دیا۔ دونوں حریف اس طرح دل توڑ کر لڑے کہ لیلتہ الہریر کے سوا کبھی نہیں لڑے تھے۔ اول تیروں کا مینہ برسا، ترکش خالی ہو گئے تو بہادروں نے نیزے سنبھال لئے۔ یہاں تک کہ نیزے بھی ٹوٹ ٹوٹ کر ڈھیر ہو گئے۔ تو تیغ و خنجر کا معرکہ شروع ہوا۔ قعقاع نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ قلعہ کی پھاٹک تک پہنچ گئے۔ لیکن سپہ سالار فوج یعنی ہاشم پیچھے رہ گئے تھے۔ اور فوج کا بڑا حصہ انہیں کی رکاب میں تھا۔ قعقاع نے نقیبوں سے کہلوا دیا کہ سپہ سالار قلعہ کے دروازے تک پہنچ گیا۔ فوج نے قعقاع کو ہاشم سمجھا اور دفعتہً ٹوٹ کر گری۔ ایرانی گھبرا کر ادھر ادھر بھاگے لیکن جس طرف جاتے تھے گوکھرو بچھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے بے دریغ قتل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ مورخ طبری کی روایت کے موافق لاکھ آدمی جان سے مارے گئے اور تین کروڑ غنیمت ہاتھ آئی۔

سعد نے مژدہ فتح کے ساتھ پانچواں حصہ مدینہ منورہ بھیجا۔ زیاد نے جو مژدہ فتح لے کر گئے تھے، نہایت فصاحت کے ساتھ جنگ کے حالات بیان کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ان واقعات کو اسی طرح مجمع میں بیان کر سکتے ہو؟ زیاد نے کہا میں کسی سے مرعوب ہوتا تو آپ سے ہوتا، چنانچہ مجمع عام ہوا اور انہوں نے اس فصاھب اور بلاغت سے تمام واقعات بیان کئے کہ معرکہ کی تصویر کھینچ دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بول اتھے کہ خطیب اس کو کہتے ہیں۔ انہوں برجستہ کہا :

ان جندنا الطلقونا
بالفعال لساننا​

اس کے بعد زیاد نے غنیمت کا ذخیرہ حاضر کیا۔ لیکن اس وقت شام ہو چکی تھی۔ اسی لیے تقسیم ملتوی رہی اور صحن مسجد میں ان کا ڈھیر لگا دیا گیا۔ عبد الرحمٰن بن عوف اور عبد اللہ بن ارقم نے رات بھر پہرہ دیا۔ صبح کو مجمع عام میں چادر ہٹائی گئی۔ درہم و دینار کے علاوہ انبار کے انبار جواہرات تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے ساختہ رو پڑے۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ رونے کا کیا محل ہے؟ فرمایا کہ جہاں دولت کا قدم آتا ہے رشک و حسد بھی ساتھ آتا ہے۔

یزدگرد کو جلولاء کی شکست کی خبر پہنچی تو حلوان چھوڑ کر رے کو روانہ ہوا اور خسرو شنوم کو جو ایک معزز افسر تھا چند رسالوں کے ساتھ حلوان کی حفاظت کے لیے چھوڑتا گیا۔ سعد خود جلولاء میں ٹھہرے اور قعقاع کو حلوان کی طرف روانہ کیا۔ قعقاع قصر شیریں (حلوان سے تین میل پر ہے) کے قریب پہنچے تھے کہ خسرو شنوم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوا۔ لیکن شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ قعقاع نے حلوان پہنچ کر مقام کیا۔ اور ہر طرف امن کی منادی کرا دی۔ اطراف کے رئیس آ آ کر جزیہ قبول کرتے جاتے تھے اور اسلام کی حمایت میں آتے جاتے تھے۔ یہ فتح عراق کی فتوحات کا خاتمہ تھی۔ کیونکہ عراق کی حد یہاں ختم ہو جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتوحات شام

سلسلہ واقعات کے لحاظ سے ہم اس موقع پر شام کی لشکر کشی کے ابتدائی حالات بھی نہایت اجمال کے ساتھ لکھتے ہیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آغاز 13 ہجری (634 عیسوی) میں شام پر کئی طرف سےلشکر کشی کی۔ ابو عبیدہ کو حمص پر، یزید بن ابی سفیان کو دمشق پر، شرجیل کو اردن پر، عمرو بن العاص کو فلسطین پر مامور کیا۔ فوجوں کی مجموعی تعداد 4000 تھی، عرب کی سرحد سے نکل کر ان افسروں کو ہر قدم پر رومیوں کے بڑے بڑے جتھے ملے جو پہلے سے مقابلہ کے لئے تیار تھے، ان کے علاوہ قیصر نے تمام ملک سے فوجیں جمع کر کے الگ الگ افسروں کے مقابلے پر بھیجیں۔ یہ دیکھ کر افسران اسلام نے اس پر اتفاق کیا کہ کل فوجیں یکجا ہو جائیں۔ اس کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا کہ اور فوجیں مدد کو روانہ کی جائیں، چنانچہ خالد بن ولید جو عراق کی مہم پر مامور تھے عراق سے چل کر راہ میں چھوٹی چھوتی لڑائیاں لڑتے اور فتح حاصل کرتے دمشق پہنچے اور اس کو صدر مقام قرار دے کر وہاں مقام کیا۔ قیصر نے ایک بہت بڑی فوج مقابلے کے لیے روانہ کی جس نے اجنادین پہنچ کر جنگ کی تیاریاں شروع کیں۔ خالد اور ابو عبیدہ خود پیش قدمی کر کے اجنادین پر بڑھے اور افسروں کو لکھ کر بھیجا کہ وہیں آ کر مل جائیں۔ چنانچہ شرجیل، یزید، عمرو بن العاص وقت مقرر پر اجنادین پہنچ گئے۔ خالد نے بڑھ کر حملہ کیا اور بہت بڑے معرکے کے بعد جس میں تین ہزار مسلمان مارے گئے۔ فتح کامل حاصل ہوئی۔ یہ واقعہ حسب روایت ابن اسحاق 28 جمادی الاول 13 ہجری (634 عیسوی) میں واقع ہوا۔ اس مہم سے فارغ ہو کر خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پھر دمشق کا رخ کیا۔ اور دمشق پہنچ کر ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ محاصرہ اگرچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں شروع ہوا، چونکہ فتح حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں حاصل ہوئی، اس لئے ہم اس معرکہ کی حال تفصیل سے لکھتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتح دمشق

یہ شہر شام کا ایک بڑا صدر مقام تھا اور چونکہ جاہلیت میں اہل عرب تجارت کے تعلق سے اکثر وہان آیا جایا کرتے تھے اس کی عظمت کا شہرہ تمام عرب میں تھا۔ ان وجوہ سے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بڑے اہتمام سے محاصرہ کے سامان کئے۔ شہر پناہ کے بڑے بڑے دروازوں پر ان افسروں کو مقرر کیا، جو شامکے صوبوں کی فتح پر مامور ہو کر آئے تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاص باب توما پر، شرجیل باب الفرادیس پر، ابو عبیدہ باب الجلیہ پر متعین ہوئے۔ اور خود خالد نے پانچ ہزار فوج ساتھ لے کر باب الشرق کے قریب ڈیرے ڈالے۔ محاصرہ کی سختی دیکھ کر عیسائی ہمت ہارتے جاتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ انکے جاسوس جو دریافت حال کے لئے مسلمانوں کی فوج میں آتے جاتے تھے۔ آ کر دیکھتے تھے کہ تمام فوج میں ایک جوش کا عالم ہے۔ ہر شخص پر ایک نشہ سا چھایا ہوا ہے۔ ہر ہر فرد میں دلیری، ثابت قدمی، راستبازی، عزم اور استقلال پایا جاتا ہے۔تاہم ان کو یہ سہارا تھا کہ ہرقل سر پر موجود ہے اور حمص سے امدادی فوجیں چل چکی ہیں۔ اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انتقال کیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسند آرائے خلافت ہوئے۔

عیسائیوں کو یہ بھی خیال تھا کہ اہل عرب ان ممالک کی سردی کو برداشت نہیں سکتے، اس لئے موسم سرما تک یہ بادل آپ سے آپ چھٹ جائے گا۔ لیکن ان کو دونوں امیدیں بیکار گئیں۔ مسلمانوں کی سرگرمی جاڑوں کی شدت میں بھی کم نہ ہوئی۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذوالکاع کو کچھ فوج دے کر دمشق سے ایک منزل کے فاصلے پر متعین کر دیا تھا کہ ادھر سے مدد نہ آنے پائے۔ چنانچہ ہرقل نے حمص سے جو فوجیں بھیجی تھیں وہیں روک لی گئیں۔ دمشق والوں کو اب بالکل یاس ہو گئی۔ اسی اثناء میں اتفاق سے ایک واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کے حق میں ئائید غیبی کا کام دے گیا۔ یعنی بطریق دمشق کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا۔ جس کی تقریب میں تمام شہر نے خوشی کے جلسے کئے اور کثرت سے شرابیں پی کر شام سے پڑ کر سو رہے۔ خالد راتوں کو سوتے کم تھے اور محصوریں کی ذرا ذرا سی بات کی خبر رکھتے تھے۔ اس سے عمدہ موقع کہاں ہاتھ آ سکتا تھا۔ اسی وقت اٹھے اور چند بہادر افسروں کو ساتھ لیا۔ شہر پناہ کے نیچے خندق پانی سے لبریز تھی۔ مشک کے سہارے پار اترے اور کمند کے ذریعے سے دیوار پر چڑھ گئے اور جا کر رسی کی سیڑھی کمند سے اٹکا کر نیچے لٹکا دی۔ اور اس ترکیب سے تھوڑی دیر میں بہت سے جانثار (یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری کا بیان ہے کہ خالدکو عیسائیوں کے جشن کی خبر خود ایک عیسائی نے دی تھی اور سیڑھی بھی عیسائی لائے تھے) فصیل پر پہنچ گئے۔ خالد نے اتر کر پہلے دربانوں کو تہ تیغ کیا۔ پھر قفل توڑ کر دروازے کھول دیئے۔ ادھر فوج پہلے سے تیار کھڑی تھی۔ دروازے کھلنے ساتھ سیلاب کی طرح گھس آئی اور پہرہ کی فوج کو تہ تیغ کر دیا۔ عیسائیوں نے یہ رنگ دیکھ کر شہر پناہ کے تمام دروازے کھول دیئے اور ابو عبیدہ سے ملتجی ہوئے کہ ہم کو خالد سے بچائیے۔ مقسلاط میں جو ٹھٹھیروں کا بازار تھا۔ ابو عبیدہ اور خالد کا سامنا ہوا۔ خالد نے شہر کا جو حصہ فتح کر لیا تھا۔ اگرچہ لڑ کر فتح کیا تھا۔ لیکن ابو عبیدہ نے چونکہ صلح منظور کر لی تھی۔ مفتوحہ حصے میں بھی صلح کی شرطیں تسلیم کر گئیں۔ یعنی نہ غنیمت کی اجازت دی گئی نہ کوئی شخص لونڈی غلام بنایا گیا۔ یہ مبارک فتح جو تمام بلاد شامیہ کی فتح کا دیباچہ تھی رجب 14 ہجری (635 عیسوی) میں ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فحل ذوقعدہ 14 ہجری (635 عیسوی)

دمشق کی شکست نے رومیوں کو سخت برہم کر دیا اور وہ ہر طرف سے جمع ہر کو بڑے زور اور قوت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لئے آمادہ ہوئے۔ دمشق کی فتح کے بعد چونکہ مسلمانوں نے اردن کا رخ کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے اسی صوبے کے ایک مشہور شہر وسان میں فوجیں جمع کرنی شروع کیں۔ شہنشاہ ہرقل نے دمشق کی امداد کے لئے جو فوجیں بھیجی تھیں اور دمشق تک نہ پہنچ سکی تھیں، وہ بھی اس میں آ کر شامل ہو گئیں۔ اس طرح تیس چالیس ہزار کا مجمع جمع ہو گیا۔ جس کا سپہ سالار سکار نام کا ایک رومی افسر تھا۔

موقعہ جنگ سمجھنے کے لئے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ شام کا ملک چھ ضلعوں میں منقسم ہے جن سے دمشق، حمص، اردن، فلسطین مشہور اضلاع ہیں۔ اردن کا صدر مقام طبریہ ہے جو دمشق سے چار منزل ہے۔ طبریہ کے مشرقی جانب بارہ میل کی لمبی ایک جھیل ہے جس کے قریب چند میل پر ایک چھوٹا سا شہر جس کا پرانا نام سلا اور نیا یعنی عربی نام فحل ہے۔ یہ لڑائی اسی شہر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام اب بالکل ویران ہے۔ تاہم اس کے کچھ کچھ آثار اب بھی سمندر کی سطح سے چھ سو فٹ بلندی پر محسوس ہوتے ہیں۔ ہیسان طبریہ کی جنوبی طرف 18 میل پر واقع ہے۔

غرض رومی فوجیں جس طرح ہیسان میں جمع ہوئیں، اور مسلمانوں نے ان کے سامنے فحل پر پڑاؤ ڈالا۔ رومیوں نے اس ڈر سے کہ مسلمان دفعتہً نہ آ پڑیں، آس پاس جس قدر نہریں تھیں سب کے بند توڑ دیئے۔ اور فحل سے ہیسان تک تمام عالم آب ہو گیا۔ کیچڑ اور پانی کی وجہ سے تمام راستے رک گئے لیکن اسلام کا سیلاب کب رک سکتا تھا۔ مسلمانوں کا استقلال دیکھ کر عیسائی صلح پر آمادہ ہوئے اور ابو عبیدہ کے پاس پیغام بھیجا کہ کوئی شخص سفیر بن کر آئے۔ ابو عبیدہ نے معاذ بن جبل کو بھیجا۔ معاذ رومیوں کے لشکر میں پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہے وہیں ٹھہر گئے۔ ایک عیسائی نے آ کر کہا کہ گھوڑا میں تھام لیتا ہوں آپ دربار میں جا کر بیٹھئے۔ معاذ کی بزرگی اور تقدس کا عام چرچا تھا۔ اور عیسائی تک اس سے واقف تھے۔ اس لئے وہ واقعی ان کی عزت کرنی چاہتے تھے اور ان کا باہر کھڑے رہنا ان کو گراں گزرتا تھا۔ معاذ نے کہا کہ میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار ہوا ہے بیٹھنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔ عیسائیوں نے افسوس کیا اور کہا کہ ہم تمہاری عزت کرنا چاہتے تھے۔لیکن تم خود کو اپنی عزت کا خیال نہیں تو مجبوری ہے۔ معاذ کو غصہ آیا۔ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور کہا کہ جس کو تم عزت سمجھتے ہو مجھ کو اس کی پرواہ نہیں۔ اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر کون خدا کا غلام ہو سکتا ہے؟ رومی ان کی بے پروائی اور آزادی پر حیرت زدہ تھے، یہاں تک ایک شخص نے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بھی کوئی بڑھ کر ہے؟ انہوں نے کہا کہ " معاذ اللہ یہی بہت ہے کہ میں سب سے کم ترہوں۔" رومی چپ ہو گئے۔ معاذ نے کچھ دیر انتظار کر کے مترجم سے کہا کہ " ان سے کہہ دو کہ اگر تم کو مجھ سے کچھ نہیں کہنا ہے تو میں واپس جاتا ہوں۔" رومیوں نے کہا، ہم کو یہ پوچھنا کہ تم اس طرف کس غرض سے آئے ہو۔ ابی سینا کا ملک تم سے قریب ہے، فارس کا بادشاہ مر چکا ہے اور سلطنت ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو چھوڑ کر تم نے ہماری طرف کیو رخ کیا؟ حالانکہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہیں۔ معاذ نے کہا کہ سب سے پہلے ہماری یہ درخواست ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ۔ ہمارے کعبہ کی طرف نماز پڑھو، شراب پینا چھوڑ دو۔ سور کا گوشت نہ کھاؤ۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تمہارے بھائی ہیں۔ اگر اسلام لانا منظور نہیں تو جزیہ دو۔ اس سے بھی انکار ہو تو آگے تلوار ہے۔ اگر تم آسمان کے ستاروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت اور کثرت کی پرواہ نہیں۔ ہمارے خدا نے کہا کہ " کم من فئۃِ قلیلۃِ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللہ " تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں، وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا، مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔ " رومیوں نے کہا " اچھا ہم تم کو بلقاء کا ضلع اور اردن کا وہ حصہ جو تمہاری زمین سے متصل ہے دیتے ہیں۔ تم یہ ملک چھوڑ کر فارس جاؤ۔ معاذ نے انکار کیا اور اٹھ کر چلے آئے۔ رومیوں نے براہ راست ابو عبیدہ سے گفتگو کرنی چاہی۔ چنانچہ اس غرض سے ایک خاص قافلہ بھیجا۔ جس وقت وہ پہنچا ابو عبیدہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہاتھ میں تیر تھے جن کو الٹ پلٹ کر رہے تھے۔قاصد نے خیال کیا تھا کہ سپہ سالار بڑا جاہ و حشم رکھتا ہو گا۔ اور یہی اس کی شناخت کا ذریعہ ہو گا۔ لیکن وہ جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تھا سب ایک رنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ آخر گھبرا کر پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ لوگوں نے ابو عبیدہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ حیران رہ گیا اور تعجب سے ان کی طرف مخاطب ہو کر کہا کیا درحقیقت تم ہی سردار ہو؟

ابو عبیدہ نے کہا! " ہاں " قاصد نے کہا، ہم تمہاری فوج کو فی کس دو دو اشرفیاں دیں گے، تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انکار کیا۔ قاصد برہم ہو کر اتھا۔ ابو عبیدہ نے اس کے تیور دیکھ کر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا اور تمام حالات حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھ بھیجے (فتوح الشام ازدی میں ہے کہ یہ خط ایک شامی لے کر گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ترغیب سے مسلمان ہو گیا )۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب مناسب لکھا اور " حوصلہ دلایا کہ ثابت قدم رہو۔ خدا تمہارا یاور اور مدد گار ہے۔"

ابو عبیدہ نے اسی دن کمر بندی کا حکم دے دیا تھا۔ لیکن رومی مقابلے میں نہ آئے۔ اگلے دن تنہا خالد میدان میں گئے۔ صرف سوارون کا رسالہ رکاب میں تھا۔ رومیوں نے بھی تیاری کی اور فوج کے تین حصے کر کے باری باری میدان میں بھیجے۔ پہلا دستہ خالد ان کی طرف باگیں اٹھائے چلا آتا تھا کہ خالد کے اشارے سے قیس بن ببیرہ نے صف سے نکل کر ان کا اگا روکا اور سخت کشت و خون ہوا۔ یہ معرکہ ابھی سر نہیں ہوا تھا کہ دوسری فوج نکلی۔ خالد نے سبرۃ بن مسروق کو اشارہ کیا ۔ وہ اپنی رکاب کی فوج کو لے کر مقابل ہوئے، تیسرا لشکر بڑے ساز و سامان سے نکلا۔ ایک مشہور سردار اس کا سپہ سالار تھا۔ اور بڑی تدبیر سے فوج کو بڑھاتا آتا تھا۔ قریب پہنچ کر خود ٹھہر گیا۔ اور ایک افسر کو تھوڑی سی فوج کے ساتھ خالد کے مقابلہ پر بھیجا۔ خالد نے یہ حملہ بھی نہایت استقلال سے سنبھالا۔ آخر سپہ سالار نے خود حملہ کیا اور پہلی دونوں فوبیں بھی آ کر مل گئیں، دیر تک معرکہ رہا۔ مسلمانوں کی ثابت قدمی دیکھ کر رومیوں نے زیادہ لڑنا بیکار سمجھا اور الٹا واپس جانا چاہا۔ خالد نے ساتھیوں کو للکارا کہ رومی اپنا زور صرف کر چکے ہیں۔ اب ہماری باری ہے۔ اس صدا کے ساتھ مسلمان دفعتہً ٹوٹ پڑے اور رومیوں کو برابر دباتے چلے گئے۔

عیسائی مدد کے انتظار میں لڑائی ٹالتے جاتے تھے۔ خالد ان کی یہ چال سمجھ گئے اور ابو عبیدہ سے کہا کہ رومی ہم سے مرعوب ہو چکے ہیں۔ حملے کا یہی وقت ہے۔ چنانچہ اسی وقت نقیب فوج میں جا کر پکار آئے کہ کل حملہ ہو گا۔ فوج ساز و سامان سے تیار رہے۔ رات کے پچھلے پہر ابو عبیدہ بستر خواب سے اٹھے اور فوج کی ترتیب شروع کی۔ معاذ بن جبل کو میمنہ پر مقرر کیا، ہاشم بن عتبہ کو میسرہ کی افسری دی۔ پیدل فوج پر سعید بن زید متعین ہوئے۔ سوار خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ماتحتی میں دیئے گئے۔ فوج آراستہ ہو چکی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سرے سے اس سرے تک کا ایک چکر لگایا۔ ایک ایک علم کے پاس جا کر کھڑے ہوتے تھے اور کہتے تھے۔

عباد اللہ استرحوا من اللہ النصر بالصبر فان اللہ مع الصبرین۔

"یعنی خدا سے مدد چاہتے ہو تو ثابت قدم رہو کیونکہ خدا ثابت قدموں کے ساتھ رہتا ہے۔"

رومیوں نے جو تقریباً 50 ہزار تھے آگے پیچھے پانچ صفیں قائم کیں جن کی ترتیب یہ تھی کہ پہلی صف میں ہر ہر سوار کے دائیں بائیں دو دو قدر انداز، میمنہ اور میسرہ پر سواروں کے رسالے، پیچھے پیادہ فوجیں، اس ترتیب سے نقارہ دمامہ بجاتے مسلمانوں کی طرف بڑھے۔ خالد چونکہ ہراول پر تھے۔ پہلے انہی سے مقابلہ ہوا۔ رومی قدر اندازوں نے تیروں کا اس قدر مینہ برسایا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ ادھر سے پہلو دے کر میمنہ کی طرف جھکے کیونکہ اس میں سوار ہی سوار تھے، قدر انداز نہ تھے۔ رومیوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے کہ میمنہ کا رسالہ فوج سے الگ ہو کر خالد پر حملہ آور ہوا۔ خالد آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ رسالہ فوج سے دور نکل آیا۔ خالد نے موقع پا کر اس زور سے حملہ کیا کہ صفیں کی صفیں الٹ دیں۔ گیارہ بڑے بڑے افسر ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔ ادھر قیس بن ببیرہ نے میسرہ پر حملہ کر کے دوسرا بازو بھی کمزور کر دیا۔ تاہم قلب کی فوج تیر اندازوں کی وجہ سے محفوظ تھی۔ ہاشم بن عتبہ نے جو میسرہ کے سردار تھے علم ہلا کر کہا " خدا کی قسم جب تک قلب میں پہنچ کر نہ گاڑوں گا، پھرکر نہ آؤں گا۔" یہ کہہ کر گھوڑے سے کود پڑے۔ ہاتھ میں سپر لے کر لڑتے بھڑتے اس قدر قریب پہنچ گئے کہ تیر و خدنگ سے گزر کر تیغ و شمشیر کی نوبت آئی۔ کامل گھنٹہ بھر لڑائی رہی۔ اور تمام میدان خون سے رنگین ہو گیا۔ آخر رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور نہایت بدحواسی سے بھاگے۔ ابو عبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نامۂ فتح لکھا اور پوچھا کہ مفتوحین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ (واقعہ محل کی تفصیل فتوح شام ازدی سے لی گئی ہے۔ طبری وغیرہ نے نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور واقعہ کی کیفیت میں بھی اختلاف ہے)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب میں لکھا کہ " رعایاؤی قرار دی جائے اور زمین بدستور زمیداروں کے قبضے میں چھوڑ دی جائے۔"

اس معرکے کے بعد ضلع اردن کے تمام شہر اور مقامات نہایت آسانی سے فتح ہو گئے۔ اور ہر جگہ شرائط صلح میں یہ لکھ دیا گیا کہ مفتوحین کی جان، مال، زمین، مکانات، گرجے، عبادت گاہیں سب محفوظ رہیں گے۔ صرف مسجدوں کی تعمیر کے لئے کس قدر زمین لی جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
حمص 14 ہجری (635 عیسوی)

شام کے اضلاع میں سے یہ ایک بڑا ضلع اور قدیم شہر ہے۔ انگریزی میں اکوامیشا کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس کی شہرت زیادہ اس وجہ سے ہوئی کہ یہاں آفتاب کے نام پر ایک بڑا ہیکل تھا جس کے تیرتھ کے لئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور اس کی پجاری ہونا بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ دمشق اور اردن کے بعد تین بڑے بڑے شہر رہ گئے تھے جن کا مفتوح ہونا شام کا مفتوح ہونا تھا۔ بیت المقدس، حمص اور انطاکیہ، جہاں خود ہرقل مقیم تھا۔ حمص ان دونوں کی بہ نسبت زیادہ قریب اور جمعیت و سامان میں دونوں سے کم تھا۔ اس لئے لشکر اسلام نے اول اسی کا ارادہ کیا۔راہ میں بعلبک پڑتا تھا وہ خفیف سی لڑائی کے بعد فتح ہو گیا۔ حمص کے قریب رومیوں نے خود بڑھ کر مقابلہ کرنا چاہا۔ چنانچہ فوج کثیر حمص سے نکل کر جوسیہ میں مسلمانوں کے مقابل ہوئی لیکن خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ خالد نے مبرہ بن مسروق کو تھوڑی سی فوج دے کر حمص کو روانہ کیا۔ راہ میں رومیوں کی ٹوٹی پھوٹی فوجوں سے جو ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں مٹھ بھیڑ ہوئی اور مسلمان کامیاب رہے۔

اس معرکے میں شرجیل حمیری نے اکیلے سات سو سواروں کو قتل کیا اور فوج سے الگ ہو کر جریدہ حمص کی طرف بڑھے۔ شہر کے قریب رومیوں کے ایک رسالہ نے ان کو تنہا دیکھ کر حملہ کیا۔ انہوں نے بڑی ثابت قدمی سے جنگ کی۔ یہاں تک کہ جب دس گیارہ شخص ان کے ہاتھ سے مارے گئے تو رومی بھاگ گئے اور ایک گرجا میں جو دیر مسحل کے نام سے مشہور تھا جا کر پناہ لی۔ ساتھ ہی یہ بھی پہنچے۔ گرجا میں ایک جماعت کثیر موجود تھی۔ یہ چاروں طرف سے گھر گئے اور ڈھیلوں اور پتھروں کی بوچھاڑ میں زخمی ہو کر شہادت حاصل کی۔ مبرۃ کے بعد خالد نے اور ابو عبیدہ نے بھی حمص کا رخ کیا۔ اور محاصرہ کے سامان پھیلا دیئے۔ چونکہ نہایت شدت کی سردی تھی اور رومیوں کو یقین تھا کہ مسلمان کھلے میدان میں دیر تک نہ لڑ سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہرقل کا قاصد آ چکا تھا کہ بہت جلد امدادی فوج تھیجی جاتی ہے۔ چنانچہ اس حکم کے موافق جزیرہ سے ایک جمعیت عظیم روانہ ہوئی۔ لیکن سعد بن ابی وقاص نے جو عراق کی مہم پر مامور تھے، یہ خبر سن کر کچھ فوجیں بھیج دیں۔ جس نے ان کو وہیں روک لیا اور آگے بڑھنے نہ دیا۔ (کاکل ابن الاثیر)۔ حمص والوں نے ہر طرف سے مایوس ہو کر صلح کی درخواست کی۔ ابو عبیدہ نے عبادہ بن صامت کو وہاں چھوڑا اور خود حماۃ (یہ ایک قدیم شہر حمص اور قعسرین کے درمیان واقع ہے) کی طرف روانہ ہو گئے۔ حماۃ والوں نے ان کے پہنچنے کے ساتھ صلح کی درخواست کی اور جزیہ دینا منظور کیا۔ وہاں سے روانہ ہو کر شیرز اور شیرز سے معرۃ العمان پہنچے اور ان مقامات کے لوگوں نے خود اطاعت قبول کر لی۔ ان سے فارغ ہو کر لاذقیہ کا رخ کیا۔ یہ ایک نہایت قدیم شہر ۔۔۔۔۔۔۔ عہد میں اس کو اماثنا کہتے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے یہاں سے کچھ فاصلہ پر مقام کیا۔ اور اس کی مضبوطی اور استواری دیکھ کر ایک نئی تدبیر اختیار کی۔ یعنی میدان میں بہت سے غار کھدوائے۔ یہ غار اس تدبیر اور احتیاط سے تیار ہوئے کہ دشمنوں کو خبر تک نہ ہونے پائی۔ ایک دن فوج کو کوچ کا حکم دیا۔اور محاصرہ چھوڑ کر حمص کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر والوں نے جو مدت کی قلعہ بندی سے تنگ آ گئے تھے اور ان کا تمام کاروبار بند تھا۔ اس کو تائید غیبی خیال کیا۔ اور شہر پناہ کا دروازہ کھول کر کاروبار میں مصروف ہوئے۔ مسلمان اسی رات کو واپس آ کر غاروں میں چھپ رہے تھے۔ صبح کے وقت کمین گاہوں سے نکل کر دفعتہً حملہ کیا اور دم بھر میں شہر فتح ہو گیا۔ حمص کی فتح کے بعد ابو عبیدہ نے خاص ہرقل کے پائے تخت کا ارادہ کیا اور کچھ فوجیں اس طرف بھیج بھی دیں۔ لیکن دربار خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال اور آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس ارشاد کے موافق فوجیں واپس بلا لی گئیں۔ اور بڑے بڑے شہروں میں افسر اور نائب بھیج دیئے گئے کہ وہاں کسی طرح کی ابتری نہ ہونے پائے۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک ہزار فوج کے ساتھ دمشق کو گئے۔ عمرو بن العاص نے اردن میں مقام کیا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود حمص میں اقامت کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
یرموک 5 رجب 15 ہجری (636 عیسوی)

رومی جو شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تھے۔ انطاکیہ پہنچے۔ ہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامالکر دیا۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ " عرب تم سے زور میں جمعیت میں، ساز و سامان میں کم ہیں پھر تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے۔" اس پر سب نے سر جھکا لیا۔ اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ لیکن ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ " عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے ہیں، دن کو روزے رکھتے ہیں، کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک سے ایک برابری کے ساتھ ملتا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بد کاریاں کرتے ہیں، اقرار کی پابندی نہیں کرتے، اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے۔ اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خال ہوتا ہے۔ قیصر درحقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ شاہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے۔ روم، قسطنطنیہ، جزیرہ، آرمینیہ ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پائے تخت انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔ تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں روانہ کئے جائیں۔ ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو مقامات فتح کئے تھے۔ وہاں کے امراء اور رئیس ان کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے تھے کہ باوجود مخالف مذہب کے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی۔ انہوں نے تمام افسروں کو جمع کیا۔ اور کھڑے ہو کر ایک پراثر تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں! خدا نے تم کو بار بار جانچا اور تم اس کی جانچ پر پورے اترے۔ چنانچہ اس کے صلہ میں خدا نے ہمیشہ تم کو منصور رکھا۔ اب تمہارا دشمن اس ساز و سامان سے تمہارے مقابلہ کے لیے چلا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے۔ اب بتاؤ کیا صلاح ہے؟ یزید بن ابی سفیان (معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھائی) کھڑے ہوئے اور کہا کہ " میری رائے ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں رہنے دیں۔ اور ہم خود شہر کے باہر لشکر آرا ہوں۔ اس کے ساتھ خالد اور عمرو بن العاص کو خط لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں۔" شرجیل بن حسنہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینی چاہیے۔ یزید نے جو رائے دی بلا شبہ خیر خواہی سے دی ہے لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تمام عیسائی ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں۔ یا خود مار ڈالیں۔ حضرت ابو عبیدہ نے کہا کہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شہر سے نکال دیں۔ شرجیل نے اٹھ کر کہا اے امیر! تجھ کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں۔ ہم نے ان عیسائیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں۔ اس لئے نقض عہد کیونکر ہو سکتا ہے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے۔ عام حاضرین نے رائے دی کہ حمص میں ٹھہر کر امدادی فوج کا انتظار کیا جائے۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ اتنا وقت کہاں ہے؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص کو چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں۔ وہاں خالد موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہر چکا تو حضرت ابو عبیدہ نے حبیب بن مسلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان لیے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے۔ سب ان کو واپس دے دو۔ اور ان سے کہہ دو کہ ہم جو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے واپس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوئی تھی کل واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو واپس لائے۔ یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا " تورات کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں، قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے۔ اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ ابو عبیدہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جائے۔ (ان واقعات کو بلاذری نے فتوح البلدان صفحہ 137 میں، قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں صفحہ 181، ازدی نے فتوح الشام صفحہ 138 میں تفصیل سے لکھا ہے)۔

غرض ابو عبیدہ دمشق کو روانہ ہوئے (میں نے یہ تفصیلی واقعات فتوح الشام ازدی سے لیے ہیں۔ لیکن ابو عبیدہ کا حمص چھوڑ کر دمشق چلا آنا ابن واضح عباسی اور دیگر مورخوں نے بھی بیا ن کیا ہے۔) اور ان تمام حالات کی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ سن کر کہ مسلمان رومیوں کے ڈر سے حمص سے چلے آئے۔ نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کل فوج اور افسران نے یہی فیصلہ کیا تو فی الجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔ ابو عبیدہ جو جواب میں لکھا کہ " میں مدد کے لیے سعد بن ابی عامر کو بھیجتا ہوں۔ لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں ہے۔ ابو عبیدہ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کیا اور ان سے مشورت کی۔ یزید بن ابی سفیان، شرجیل بن حسنہ، معاذ بن جبل، سب نے مختلف رائیں دیں۔ اسی اثناء میں عمرو بن العاص کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضمون تھا کہ " اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے۔ رومیوں کی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص کو چھوڑ کر چلے آنا نہایت بے رعبی کس سبب ہوا ہے۔" ابو عبیدہ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جابجا پھیلی ہوئی ہیں یکجا ہو جائیں۔ خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو، میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۔

دوسرے دن ابو عبیدہ دمشق سے روانہ ہو گئے اور اردن کی حدود میں یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ عمرو بن العاص بھی یہیں آ کر ملے، یہ موقع جنگ کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کے سرحد بہ نسبت اور تمام مقامات کے یہاں سے قریب تھی۔ اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا۔ جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں پیچھے ہٹتے جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سعید بن عامر کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی وہ ابھی نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کے سامان کا حال سن سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابو عبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایک قاصد دوڑایا۔ اور لکھا کہ " رومی بحر و بر سے اُبل پڑے ہیں۔ اور جوش کا یہ حال ہے کہ فوج جس راہ سے گزرتی ہے راہب اور خانقاہ نشین جنہوں نے کبھی خلوت سے قدم باہر نہیں نکالا تھا۔ نکل نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں۔" خط پہنچا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور خط پڑھ کر سنایا۔ تمام صحابہ بے اختیار رہ پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا کہ " امیر المومینین، خدا کے لیے ہم کو اجازت دیجیئے کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیں۔ خدانخواستہ ان کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔ مہاجر و انصار کا جوش بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا کہ امیر المومینین، تو خود سپہ سالار بن اور ہم کو ساتھ لے کر چل، لیکن اور صحابہ نے اس رائے سے اختلاف کیا۔ اور رائے یہ ٹھہری کہ اور امدادی فوجیں بھیجی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ یرموک سے تین چار منزل کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت غمزدہ ہوئے اور فرمایا کہ " افسوس اب کیا ہو سکتا ہے؟ اتنے عرصہ میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے۔" ابو عبیدہ کے نام نہایت پُر تاثیر الفاظ میں ایک خط لکھا اور قاصد سے کہا کہ خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنانا اور زبانی کہنا۔

الاعمر یفرلگ السلام و یقول لکم یا احل الاسلام اصدقو اللقاء و تشدوا علیھم شد اللبوت ولیکونوا اھون علیکم من اللو فانا قد کما علمنا الکم علیھم منصورون۔

یہ ایک عجیب حسن اتفاق ہوا کہ جس دن قاصد ابو عبیدہ کے پاس آیا۔ اسی دن عامر بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ہوئی اور انہوں نے نہایت استقلال کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ رومی فوجیں یرموک کے مقابل دیر الجبل میں اتریں۔ خالد نے لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ معاذ بن جبل کو جو بڑے رتبہ کے صحافی تھے، میمنہ پر مقرر کیا۔ قباث بن الثھم کو میسرہ اور ہاشم بن عتبہ کو پیدل فوج کی افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کئے۔ ایک کو اپنی رکاب میں رکھا۔ باقی پر قیس بن بیرہ، میرہ بن مسروق، عمرو بن الطفیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہادر تمام عرب میں انتخاب تھے۔ اور اس وجہ سے فارس العرب کہلاتے تھے۔ رومی بھی بڑے سروسامان سے نکلے۔ دو لاکھ سے زیادہ کی جمعیت تھی۔ وع 24 صفیں تھیں۔ جس کے آگے آگے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لئے جوش دلاتے جاتے تھے۔ فوجیں بالکل مقابل آ گئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا کہ میں تنہا لڑنا چاہتا ہوں۔ میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر چونکہ حریف نہایت تنومند اور جوان تھا، خالد نے روکا اور قیس بن ببیرہ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ اشعار پڑھتے ہوئے بڑھے۔

صل النساء اطبی الی احجابھا
الست یوم الحرب من ابطالھا​

"پردہ نشین عورتوں سے پوچھ لو، کیا میں لڑائی کے دن بہاروں کے کام نہیں کرتا۔"

قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا تھا۔ کہ ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کو کاٹتی ہوئی گردن تک اتر گئی۔ بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا۔ ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ خالد نے کہا "شگون اچھا ہوا۔ اور اب خدا نے چاہا تو آگے فتح ہے۔" عیسائیوں نے خالد کے ہمرکاب افسروں کے مقابلے میں جدا جدا فوجیں متعین کی تھیں۔ لیکن سب نے شکست کھائی۔ اس دن یہیں تک نوبت پہنچ کر لڑائی ملتوی ہو گئی۔

رات کو باہان نے سرداروں کو جمع کر کے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ چکا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ دوسرے دن ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ " کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو ہم اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرنی چاہتے ہیں۔" ابو عبیدہ نے خالد کو انتخاب کیا۔ قاصد جو پیغام لے کر آیا تھا، اس کا نام جارج تھا۔ جس وقت پہنچا شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر کے بعد مغرب کی نماز شروع ہوئی۔ مسلمان جس ذوق شوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس سکون و وقار، ادب و خضوع سے انہوں نے نماز ادا کی، قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ جب نماز ہو چکی تو اس نے ابو عبیدہ سے چند سوالات کئے، جن میں ایک یہ تھا کہ تم عیسیٰ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ ابو عبیدہ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں :

[ayah]یا اھل الکتب لا تفلوا فی دینکم ولا تقولو اعلی اللہ الا الحق الھا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ و کلمنہ الفاھا الی مریم سے لن یستکف المسیح ان یکون عبد اللہ ولا الملٰکۃ المقربون تک۔[/ayah]

مترجم نے ان الفاظ کا ترجمہ کیا۔ تو جارج پکار اٹھا کہ " بے شک عیسٰی کے یہی اوصاف ہیں اور بے تمہارا پیغمبر سچا ہے۔" یہ کہہ کر اس نے کلمہ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہدی کا گمان نہ ہو، مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔

دوسرے دن خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ رومیوں کی لشکر گاہ میں گئے۔ رومیوں نے اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب سوارون کی صفیں قائم کی تھیں جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے۔ لیکن خالد اس بے پروائی اور تحقیر کی نگاہ سے ان پر نظر ڈالتے جاتے تھے، جس طرح شیر بکریوں کے ریوڑ کو چیرتا چلا جاتا ہے۔ باہان کے خیمے کے پاس پہنچے تو اس نے نہایت احترام کے ساتھ استقبال کیا اور لا کر اپنے برابر بٹھایا۔ مترجم کے ذریعے سے گفتگو شروع ہوئی۔ باہان نے معمولی بات چیت کے بعد لکچر کے طریقے پر تقریر شروع کی۔ حضرت عیسٰی کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیا۔ اور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ مترجم ان الفاظ کا پورا ترجمہ نہیں کر چکا تھا کہ خالد نے باہان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہی ہو گا۔ لیکن ہم نے جس کو سردار بنا رکھا ہے اس کو ایک لمحہ کے لیے اگر بادشاہی کا خیال آئے تو ہم فوراً اس کو معزول کر دیں گے۔ باہان نے پھر تقریر شروع کی، اور اپنے جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا کہ " اہل عرب تمہاری قوم کے لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک کئے۔ ہمارا خیال تھا کہ ان مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا، لیکن خلاف توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اور چاہتے ہو کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دو۔ تم کو معلوم نہیں کہ بہت سی قوموں نے بارہا ایسے ارادے کئے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اب تم کو کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم وحشی اور بے ساز و سامان نہیں، یہ حوصلہ ہوا ہے، ہم اس پر بھی درگزر کرتے ہیں۔ بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسر کر ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دلا دیئے جائیں گے۔

باہان اپنی تقریر ختم کر چکا تو خالد اٹھے اور حمد نعت کے بعد کہا کہ " بے شبہ تم دولت مند ہو، مالدار ہو، صاحب حکومت ہو، تم نے اپنے ہمسایہ عربو کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ہم کو معلوم ہے لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعت مذہت کی ایک تدبیر تھی جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عیسائی ہو گئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر ہم سے لڑتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج تنگدست اور خانہ بدوش تھے۔ ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی کمزور کر پیس ڈالتا تھا۔ قبائل آپس میں لڑ لڑ کر برباد ہو جاتے تھے، بہت سے خدا بنا رکھے تھے اور ان کو پوجتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور اس کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن خدا نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا۔ اور ہم میں سب سے زیادہ شریف، زیادہ فیاض، زیادہ پاک خو تھا۔ اس نے ہم کو توحید سکھائی اور بتلا دیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ وہ بیوی و اولاد نہیں رکھتا۔ وہ بالکل یکتا و یگانہ ہے۔ اس نے ہم کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں، جس نے ان کو مانا وہ مسلمان ہے اور ہمارا بھائی ہے۔ جس نے نہ مانا، لیکن وہ جزیہ دینا قبول کرتا ہے اس کے ہم حامی اور محافظ ہیں۔ جس کو دونوں سے انکار ہو اس کے لیے تلوار ہے۔"

باہان نے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ " یہ مر کر بھی جزیہ نہ دیں گے۔ ہم جزیہ لیتے ہیں دیتے نہیں۔" غرض کوئی معاملہ طے نہیں ہوا اور خالد اٹھ کر چلے آئے۔ اب اس آخری لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ جس کے بعد رومی پھرکبھی سنبھل نہ سکے۔ خالد کے چلے آنے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ " تم نے سنا اہل عرب کا دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ ان کے حملہ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تم کو ان کی غلامی منظور ہے؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا کہ " ہم مر جائیں گے مگر یہ ذلت گوارا نہیں ہو سکتی۔"

صبح ہوئی تو رومی اس جوش اور سروسامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو حیرت ہوئی۔ خالد نے یہ دیکھ کر عرب کے عام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آرائی کی۔ فوج جو 30 – 35 ہزار تھی اس کے 36 حصے کئے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اس طرح صفیں قائمکیں، قلب فوج ابو عبیدہ کو دیا۔ میمنہ پر عمرو بن العاص اور شرجیل مامور ہوئے۔ میسرہ یزید بن ابی سفیان کی کمان میں تھا۔ ان کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کئے چن چن کر ان لوگوں کو متعین کیا جو بہادری اور فنون جنگ میں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطبأ جو اپنے زور کلام سے لوگوں میں ہل چل ڈال دیتے تھے اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پرجوش تقریروں سے فوج کو جوش دلائیں۔ انہی میں ابی سفیان بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے تھے۔

الا الک، زارۃ العرب و انصار الا سلام و انھم زارۃ الروم و انصار الشرک اللھم ان ھذا یومن آیاتک اللھم انزل نصرک علی عبادک۔

عمرو بن العاص کہتے پھرتے تھے۔

ایھا الناس غضوا ابصار کم واشر عوا الرماح والزموا مراکز کم فانا حمل عدوکم فامھلوھم حتی اذا رکبوا اطراف الاسنۃ و ثبوا فی وجوھھم و ثوب الاسد۔

" یارو! نگاہیں نیچی رکھو برچھیاں تان لو، اپنی جگہ پر جمے رہو، پھر جب دشمن حملہ آور ہوں تو آنے دو۔ یہاں تک کہ جب برچھیوں کی نوک پر آ جائیں تو شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑو۔

فوج کی تعداد اگرچہ کم تھی یعنی 30 – 35 ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے۔ لیکن تمام عرب میں منتخب تھے۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال مبارک دیکھا تھا۔ ایک ہزار تھے، سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔عرب کے مشہور قبائل میں سے دس ہزار سے زیادہ صرف ازد کے قبیلے کے تھے۔ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی۔ ہمدان، کولان، خم، جذام، وغیرہ کے مشہور بہادر تھے۔ اس معرکہ کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ عورتیں تھی اس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ماں ہندہ حملہ کرتی ہوئی بڑھتی تھیں تو پکارتی تھیں۔ عضدو العلفان بسیوفکم۔ امیر معاویہ کی بہن جویریہ نے بھی بڑی دلیری سے جنگ کی۔

مقداد جو نہایت خوش آواز تھے فوج کے آگے آگے سورۃ انفال (جس میں جہاد کی ترغیب ہے) تلاوت کرتے جاتے تھے۔

ادھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ ائے۔ جنگ کی ابتدا رومیوں کی طرف سے ہوئی۔ دو لاکھ ٹڈی دل لشکر ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لئے آگے آگے تھے۔ اور حضرت عیسٰی کے جے پکارتے آتے تھے۔ یہ ساز و سامان دیکھ کر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار نکلا اللہ اکبر کس قدر بے انتہا فوج ہے۔ خالد نے جھلا کر کہا " چپ رہ خدا کی قسم میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا کہ عیسائی اتنی ہی فوج اور بڑھا لیں۔"

غرض عیسائیوں نے نہایت زور شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ زور کا تھا کہ مسلمان کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہو گیا۔ اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ یزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے حرم کے خیمہ گاہ تک پہنچ گئے۔ عورتوں کو یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا، اور خیمہ کی چوبیں اکھاڑ لیں۔ اور پکاریں کہ " نامرادو ادھر آئے تو چولوں سے تمہارا سر توڑ دیں گے" خولہ یہ شعر پڑھ کر لوگوں کو غیرت دلاتی تھیں :

یاھارباً عن نسوۃ تفلیات
و میت بالسھم والمنیات​

یہ حالت دیکھ کر معاذ بن جبل جو میمنہ کے ایک حصے کے سپہ سالار تھے گھوڑے سے کود پڑے اور کہا کہ " میں پیدل لڑتا ہوں، لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔" ان کے بیٹے نے کہا " ہاں یہ حق میں ادا کروں گا۔ کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔" غرض دونوں باپ بیٹھے فوجوں میں گھسے اور دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حجاج جو قبیلہ زبیدہ کے سردار تھے، پانسو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کا جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آتے تھے اگا روک لیا۔ میمنہ میں قبیلہ ازد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا تھا۔ عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زور ان پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ میں یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف سر ہاتھ بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پائے ثبات کی لغزش نہیں ہوتی تھی۔ عمرو بن الطفیل جو قبیلہ کے سردار تھے تلوار مارتے جاتے تھے کہ ازدیو دیکھنا۔ مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔ بڑے بڑے رومی بہادر انکے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود شہادت حاصل کی۔

حضرت خالدرضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ دفعتہً صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں ابتر کر دیں۔ عکرمہ نے جو ابو جہل کے فرزند تھے اور اسلام لانے سے پہلے اکثر کفار کے ساتھ رہ کر لڑتے تھے۔ گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا " عیسائیو! میں کسی زمانے میں (کفر کی حالت میں) خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑ چکا ہوں کیا آج تمہارے مقابلہ میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے۔" یہ کہہ کر فوض کی طرف دیکھا اور کہا مرنے پر کون ،،،،،،،،،، کرتا ہے؟ چار سو شخصوں نے جن میں ضرار بن ازور بھی تھے مرنے پر ۔۔۔۔۔۔۔ کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھی۔ خالد نے اپنے رانوں پر انکا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا " خدا کی قسم عمر کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔" (تاریخ طبری واقعہ یرموک)۔

غرض عکرمہ اور انکے ساتھ گو خود ہلاک ہو گئے۔ لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر یئے۔ خالد کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی۔ یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا اور خالد ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار در۔۔۔۔۔۔۔ تک پہنچ گئے۔ در۔۔۔۔۔ اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لئے کہ اگر یہ آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔

عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار قتال گرم تھا ابن ناطیر (رومیوں کے میمنہ کا سردار تھا) نے میسرہ پر حملہ کیا۔ بد قسمتی سے اس حصے میں اکثر لخم و غسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بود و باش رکھتے تھے۔ ایک مدت سے روم کے باج گزار رہتے آئے تھے۔ رومیوں کا رعب جو دلوں میں سمایا ہوا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں انکے پاؤں اکھڑ گئے۔ اور اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھاگتوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔ عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن الحثم، سعید بند زید، یزید بن ابی سفیان، عمرو بن العاص، شرجیل بن حسنہ داد شجاعت دے رہے تھے۔ قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جاتے تھے۔ مگر ان کے تیور پر بل نہ آیا تھا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتا تو کہتے کہ کوئی ہے؟ جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے خدا سے اقرارکیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔ لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے۔اور پھر وہ شیر کی طرح جھپت کر دشمن پر جا پڑتے۔ ابو الا عود گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ " صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے۔ اور عقبٰی میں رحمت، دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔" سعید بن زید غصہ میں گھٹنے غیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کو مار گرایا۔ زید بن ابی سفیان (معاویہ کے بھائی) بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے۔ اتفاق سے ان کے باپ ابو سفیان جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے ان کی طرف سے نکلے۔ بیٹے کو دیکھ کر کہا " جان پدر، اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے۔ تو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا زیادہ حق ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لئے شرم کی بات ہے۔" شرجیل کا یہ حال تھا کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ بیچ میں پہاڑ کی طرح کھڑے تھے۔ قرآن کی یہ آیت " ان اللہ اشعری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقطون و یقطون" پڑھتے تھے اور نعرہ مارتے تھے کہ خدا کے ساتھ سودا کرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟ یہ آواز جس کے کان میں پڑی بے اختیار لوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج سنبھل گئی اور شرجیل نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو لڑتے چلے آتے تھے بڑھنے سے رک گئے۔

ادھر عورتیں خیمون سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں۔ اور چلا کر کہتی تھیں کہ " میدان سے قدم ہٹایا تو پھر ہمارا منہ نہ دیکھنا۔"

لڑائی کے دونوں پہلو اب تک برابر تھے۔ بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا۔ دفعتہً قیس بن ہبیرہ، جو کو خالد نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر فوج سنبھل نہ سکی۔ تمام صفیں ابتر ہو گئیں اور گھبرر کر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعید بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کر دیا۔ رومی دور تک ہٹتے چلے گئے۔ یہاں تک میدان کے سرے پر جو نالہ تھا اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا۔ اور میدان خالی ہو گیا۔

اس لڑائی کا یہ واقعہ (یہ تمام واقعہ فتوح البلدان صفحہ 131 میں مذکور ہے) یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، حباش بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے، بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے، اسی اثنا میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حباش کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ " میرا پاؤں کیا ہوا؟" ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ ہر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔ چنانچہ سوار بن ادنٰی نامی ایک شاعر نے کہا ہے :

ومنا ابن عناب و ناشدر جلہ
و منا للذی اوسی الٰی الحی حاجباً​

رومیوں کے جس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور ۔۔۔۔ نے لاکھ سے زیادہ تعداد بیان کی ہے۔ بلازری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا۔ جن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعید وغیرہ تھے۔ قیصر انطاکیہ میں تھا کہ شکست کی خبر پہنچی۔ اس وقت قسطنطنیہ کی تیاری کی۔ چلتے وقت شام کی طرف رخ کر کے کہا " الوداع اے شام۔"

ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نامہ فتح لکھا اور ایک مختصر سی سفارت بھیجی جن میں حذیفہ بن ۔۔۔۔ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سوئے نہ تھے۔ فتح کی خبر پہنچی تو دفعتہً سجدہ میں گرے اور خدا کا شکر ادا کیا۔

ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ یرموک سے ۔۔۔۔۔۔ کو واپس گئے اور خالد کو ۔۔۔۔۔۔ روانہ کیا۔ شہر والوں نے اول مقابلہ کیا لیکن پھر قلعہ بند ہو کر جزیہ کی شرط پر صلح کر لی۔ یہاں عرب کے قبائل میں سے قبیلہ ۔۔۔۔ مدت سے آ کر آباد تھا۔ یہ لوگ برسوں تک کمبل کے خیموں میں بسر کرتے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ تمدن کا ان پر یہ اثر ہوا کہ بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنوائی تھیں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہم قومی کے لحاظ سے ان کو اسلام کی ترغیب دی۔ چنانچہ سب مسلمان ہو گئے۔ صرف ۔۔۔۔۔۔ کا خاندان عیسائیت پر قائم رہا۔ اور چند روز کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گیا۔ قبیلہ طے کے بھی بہت سے لوگ یہاں آباد تھے۔ انہوں نے بھی اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لیا۔ قصرین کی فتح کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حلب کا رخ کیا۔ شہر سے باہر میدان میں عرب کے بہت سے قبیلے آباد تھے۔ انہںوں نے جزیہ پر صلح کر لی اور تھوڑے دنوں کے بعد سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ حلب والوں نے ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آمد سن کر قلعہ میں پناہ لی۔ عیاض بن ٹنم نے جو مقدمنہ الجیش کے افسر تھے شہر کا محاصرہ کیا۔ اور چند روز کے بعد اور مفتوحہ شہروں کی طرح ان شرائط پر صلح ہو گئی کہ عیسائیوں نے جزیہ دینا منظور کر لیا۔ اور ان کی جان و مال، شہر پناہ، مکانات قلعے اور گرجوں کی حفاظت کا معاہدہ لکھ دیا گیا۔ حلب کے بعد انطاکیہ آئے۔ چونکہ یہ قیصر کا خاص دارالسلطنت تھا، بہت سے رومیوں اور عیسائیوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر طرف سے شہر کا محاصرہ کیا۔ چند روز کے بعد عیسائیوں نے مجبور ہو کر صلح کر لی۔ ان صدر مقامات کی فتح نے تمام شام کو مرعوب کر دیا۔ اور یہ نوبت پہنچی کہ کوئی افسر تھوڑی سی جمعیت کے ساتھ جس طرف نکل جاتا تھا عیسائی خود آ کر امن و صلح کے خواستگار ہوتے تھے۔ چنانچہ انطاکیہ کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چاروں طرف فوجیں پھیلا دیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اور عبان یہ چھوٹے چھوٹے مقامات اس آسانی سے فتح ہوئے کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرا۔ اسی طرح پالس اور قاصرین بھی پہلے ہلہ میں فتح ہو گئے۔ جوجومہ والوں نے جزیہ سے انکار کیا اور کہا کہ ہم لڑائی میں مسلمانوں کا ساتھ دیں۔ چونکہ جزیہ فوجی خدمت کا معاوضہ ہے، ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی۔

انطاکیہ کے مضافات میں بفرامن ایک مقام تھا جس سے ایشیائے کوچک کی سرحد ملتی تھی۔ یہاں عرب کے بہت سے قبائل طسان، تنوغ ۔۔۔۔۔۔۔ رومیوں کے ساتھ ہرقل کے پاس جانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حبیب بن مسلمہ نے ان پر حملہ کیا اور بڑا معرکہ ہوا۔ ہزاروں قتل ہوئے۔ خالد مے مرعش پر حملہ کیا اور اس شرط پر صلح ہوئی کہ عیسائی شہر چھوڑ کر نکل جائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بیت المقدس 16 ہجری (637 عیسوی)

ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب شام پر چڑھائی کی تو ہر صوبہ پر الگ الگ افسر بھیجے۔ چنانچہ فلسطین عمرو بن العاص کے حصے میں آیا۔ عمرو بن العاص نے بعض مقامات حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے عہد میں فتح کر لئے تھے اور فاروقی عہد تک تو نابلس، لد، عمواس ۔۔۔۔۔ جریں تمام بڑے بڑے شہروں پر قبضہ ہو چکا تھا۔ جب کوئی عام معرکہ پیش آ جاتا تھا تو وہ فلسطین چھوڑ کر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتے تھے اور ان کو مدد دیتے تھے۔ لیکن فارغ ہونے کے ساتھ فوراً واپس آ جاتے تھے۔ اور اپنے کام میں مشغول ہو جاتے تھے (فتوح البلدان صفحہ 130)۔ یہاں تک کہ آس پاس کے شہروں کو فتح کر کے خاص بیت المقدس کا محاصرہ کیا۔ عیسائی قلعہ میں بند ہو کر لڑتے رہے۔ اس وقت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ شام کے انتہائی اضلاع قسرین وغیرہ فتح کر چکے تھے۔ چنانچہ ادھر سے فرصت پا کر بیت المقدس کا رخ کیا۔ عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی۔ اور مزید اطمینان کے لئے یہ شرط اضافہ کی کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود یہاں آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا کہ بیت المقدس کی فتح آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام معزز صحابہ کو جمع کیا۔ اور مشورت کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ عیسائی مرعوب اور شکستہ دل ہو چکے ہیں۔ آپ ان کی درخواست کو رد کر دیں تو ان کو اور بھی ذلت ہو گی اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان ان کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں، بغیر شرط کے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نےان ہی کی رائے کو پسند کیا اور سفر کی تیاریاں کیں (یہ طبری کی روایت ہے)۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کیے (فتوح البلدان صفحہ 140)۔ اور رجب 16 ہجری میں مدینہ سے روانہ ہوئے۔

ناظرین کو انتظار ہو گا کہ فاروق اعظم کا سفر اور سفر بھی وہ جس سے دشمنوں پر اسلامی جلال کا رعب بٹھانا مقصود تھا۔ کس ساز و سامان سے ہوا ہو گا؟ لیکن یہاں نقارہ نوبت، خدم و حشم لاؤ لشکر ایک طرف معمولی ڈیرہ اور خیمہ تک نہ تھا۔ سواری میں گھوڑا تھا اور چند مہاجر و انصار ساتھ تھے۔ تاہم جہاں یہ آواز پہنچتی تھی کہ فاروق اعظم نے مدینہ سے شام کا ارادہ کیا ہے زمین دہل جاتی تھی۔

سرداروں کو اطلاع دی جا چکی تھی کہ جابیہ میں آ کر ان سے ملیں۔ اطلاع کے مطابق یزید بن ابی سفیان اور خالد بن الولید وغیر نے یہیں استقبال کیا۔ شام میں رہ کر ان افسروں میں عرب کی سادگی باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے یہ لوگ آئے تو اس ہیئت سے آئے کہ بدن پر حریر و دیبا کی چکنی اور پرتکلف قبائیں تھیں۔ اور زرق برق پوشاک اور ظاہری شان و شوکت سے عجمی معلوم ہوتے تھے۔ حضرت عمر رض اللہ تعالٰی عنہ کو سخت غصہ آیا۔ گھوڑے سے اتر پڑے اور سنگریزے اٹھا کر ان کی طرف پھینکے کہ اس قدر جلد تم نے عجمی عادتیں اختیار کر لیں۔

ان لوگوں نے عرض کی کہ " قباؤں کے نیچے ہتھیار ہیں۔" (یعنی سپہ گری کا جوہر ہاتھ سے نہیں دیا ہے) فرمایا تو کچھ مضائقہ نہیں (طبری صفحہ 21 – 21)۔ شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کرچاروں طرف نگاہ ڈالی۔ غوطہ کا دلفریب سبزہ زار اور دمشق کے شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ عبر کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی کم ترکوا امن جنت و عچون الخ پھر چیغہ کے چند حسرت انگیز اشعار پڑھے۔

جابیہ میں دیر تک قیام رہا۔ اور بیت المقدس کا معاہدہ بھی یہیں لکھا گیا۔ وہاں کے عیسائیوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آمد کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ رئیسان شہر کا ایک گروہ ان سے ملنے کے لیے دمشق کو روانہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فوج کے حلقے میں بیٹھے تھے کہ دفعتہً کچھ سوار آئے جو گھوڑے اڑاتے چلے آتے تھے اور کمر میں تلواریں چمک رہی تھیں۔ مسلمانوں نے فوراً ہتھیار سنبھال لئے۔ حضرت عمر رضی ا للہ تعالٰی عنہ نے پوچھا خیر ہے؟ لوگوں نے سواروں کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فراست سے سمجھا کہ بیت المقدس کے عیسائی ہیں۔ فرمایا گھبراؤ نہیں۔ یہ لوگ امان طلب کرنے آئے ہیں۔ غرض معاہدہ صلح لکھا گیا۔ بڑے بڑے معزز صحابہ کے دستخط ہو گئے۔ (یہ طبری کی روایت ہے۔ بلاذری اور ازدی نے لکھا ہے کہ معاہدہ صلح بیت المقدس میں لکھا گیا ہے کہ اس معاہدے کو بتمامہاہم نے اس کتاب کے دوسرے حصہ میں نقل کیا ہے۔ (دیکھو اس کتاب کا دوسرا حصہ)۔

معاہدہ کی تکمیل کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المقدس کا ارادہ کیا۔ گھوڑا جو سواری میں تھا اس کے سم گھس کر بیکار ہو گئے اور رک رک کر قدم رکھتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ دیکھ کر اتر پڑے۔ لوگوں نے ترکی نسل کا ایک عمدہ گھوڑا حاضر کیا۔ گھوڑا شوخ اور چالاک تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سوار ہوئے تو کلیل کرنے لگا۔ فرمایا " کمبخت یہ غرور کی چال تو نے کہاں سیکھی" یہ کہہ کر اتر پڑے اور پیادہ چلے۔ بیت المقدس قریب آیا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سرداران فوج استقبال کو آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا لباس اور ساز و سامان جس معمولی حیثیت کا تھا۔ اس کو دیکھ کر مسلمانوں کو شرم آتی تھی کہ عیسائی اپنے دل میں کیا کہیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے ترکی گھوڑا اور قیمتی پوشاک حاضر کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی بس ہے۔" غرض اس حال سے بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے مسجد گئے، محراب داؤد کے پاس پہنچ کر سجدہ داؤد کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا۔ پھر عیسائیوں کے گرجا میں آئے اور ادھر ادھر پھرتے رہے۔

چونکہ یہاں اکثر افسران فوج اور عمال جمع ہو گئے تھے۔ کئی دن تک قیام کیا اور ضروری احکام جاری کئے۔ ایک دن بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ (رسول اللہ کے مؤذن) نے آ کر شکایت کی کہ امیر المومنین ہمارے افسر پرند کا گوشت اور میدہ کی روٹیاں کھاتے ہیں۔ لیکن عام مسلمانوں کو معمولی کھانا بھی نصیب نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے افسران کی طرف دیکھا، انہوں نے عرض کی کہ اس ملک میں تمام چیزیں ارزاں ہیں۔ جتنی قیمت میں حجاز میں روٹی اور کھجور ملتی ہے۔ یہاں اسی قیمت پر پرندہ کا گوشت اور میدہ ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ افسروں کو مجبور نہ کر سکے، لیکن حکم دیا کہ مال غنیمت اور تنخواہ کے علاوہ سپاہی کا کھانا بھی مقرر کر دیا جائے۔

ایک دن نماز کے وقت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کی کہ آج اذان دو۔ بلال نے کہا میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دوں گا لیکن آج (اور صرف آج) آپ کا ارشاد بجا لاؤں گا۔ اذان دینی شروع کی تو تمام صحابہ کو رسول اللہ کا عہد مبارک یاد آ گیا۔ اور رقت طاری ہو گئی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور معاذ بن جبل روتے روتے بیتاب ہو گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہچکی لگ گئ۔ دیر تک یہ اثر رہا۔

ایک دن مسجد اقصیٰ میں گئے اور کعب بن احبار کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ نماز کہاں پڑھی جائے۔ مسجد اقصیٰ میں ایک پتھر ہے جو انبیاء سابقین کی یادگار ہے۔ اس کو صخرہ کہتے ہیں۔ اور یہودی اس کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح مسلمان حجر اسود کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ " تم میں اب تک یہودیت کا اثر باقی ہے۔ اور اسی کا اثر تھا کہ تم نے صخرہ کے پاس آ کر جوتی اتار دی۔" اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کو جو طرز عمل اس قسم کی یادگاروں کی نسبت تھا، ظاہر ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہماری اس کتاب کے دوسرے حصہ کے صفحہ کو بھی ملاحظہ کرنا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حمص پر عیسائیوں کی دوبارہ کوشش
17 ہجری (638 عیسوی)

یہ معرکہ اس لحاظ سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس سے جزیرہ اور آرمینیہ کی فتوحات کا موقع پیدا ہوا تھا۔ ایران اور روم کی مہمیں جن اسباب سے پیش آئیں۔ وہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ لیکن اس وقت تک آرمینیہ پر لشکر کشی کے لیے کوئی خاص سبب نہیں پیدا ہوا تھا۔ اسلامی فتوحات چونکہ روز بروز وسیع ہوتی جاتی تھیں اور حکومت اسلام کے حدود برابر بڑھتے جاتے تھے۔ ہمسایہ سلطنتوں کو خود بخود خوف پیدا ہوا کہ ایک دن ہماری باری بھی آتی ہے۔ چنانچہ ادھر جزیرہ والوں نے قیصر کو لکھا کہ نئے سرے سے ہمت کیجیئے ہم ساتھ دینے کو موجود ہیں۔ چنانچہ قیصر نے ایک فوج کثیر حمص کو روانہ کی۔ ادھر جزیرہ والے 30 ہزار کی فوج کی بھیڑ بھاڑ کے ساتھ شام کی طرف بڑھے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ادھر ادھر سے فوجیں جمع کر کے حمص کے باہر صفیں جمائیں۔ ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تمام حالات کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آٹھ بڑے بڑے شہروں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں اور ہر جگہ چار چار ہزار گھوڑے فقط اس غرض سے ہر وقت تیار رہتے تھےکہ کوئی اتفاقیہ موقع پیش آ جائے تو فوراً ہر جگہ سے فوجیں یلغار کر کے موقع پر پہنچ جائیں۔ ابو عبیدہ کا خط آیا تو ہر طرف قاصد دوڑا دیئے۔ قعقاع بن عمو کو جو کوفہ میں مقیم تھے لکھا کہ فوراً چار ہزار سوار لے کر حمص پہنچ جائیں۔ سہیل بن عدی کو حکم بھیجا کہ جزیرہ پہنچ کر جزیرہ والوں کو حمص کی طرف بڑھنے سے روک دیں۔ عبد اللہ بن عتبان کو ۔۔۔۔۔۔۔ کی طرف روانہ کیا۔ ولید بن عقبہ کو مامور کیا کہ جزیرہ پہنچ کر عرب کے ان قبائل کو تھام رکھیں جو جزیرہ میں آباد تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان انتظامات پر ہی قناعت نہ کی بلکہ خود مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق میں آئے۔ جزیرہ والوں نے جب یہ سنا کہ خود ان کے ملک میں مسلمانوں کے قدم آ گئے تو حمص کا محاصرہ چھوڑ کر جزیرہ کو چل دیئے۔ عرب کے قبائل جو عیسائیوں کی مدد کو آئے تھے وہ بھی پچھتائے اور خفیہ خالد کو پیغام بھیجا کہ تمہاری مرضی ہو تو ہم اسی وقت عین موقی پر عیسائیوں سے الگ ہو جائیں۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہلا بھیجا کہ " افسوس! میں دوسرے شخص (ابو عبیدہ) کے ہاتھ میں ہوں۔ اور وہ حملہ کرنا پسند نہیں کرتا ورنہ مجھ کو تمہارے ٹھہرنے اور چلے جانے کی مطلق پرواہ نہ ہوتی۔ تاہم اگر تم سچے ہو تو محاصرہ چھوڑ کر کسی طرف نکل جاؤ۔" ادھر فوج نے ابو عبیدہ سے تقاضا شروع کیا کہ حملہ کرنے کی اجازت ہو۔ انہوں نے خالد سے پوچھا۔ خالد نے کہا " میری جو رائے معلوم ہے عیسائی ہمیشہ کثرت فوج کے بل پر لڑتے ہیں، اب کثرت بھی نہیں رہی۔ پھر کس بات کا اندیشہ ہے۔" اس پر بھی ابو عبیدہ کا دل مطمئن نہ تھا، تمام فوج کو جمع کیا اور نہایت پرزور اور مؤثر تقریر کی کہ مسلمانو! آج جو ثابت قدم رہ گیاوہ اگر زندہ بچا تو ملک و مال ہاتھ آئے گا۔ اور مارا گیا تو شہادت کی دولت ملے گی۔ میں گواہی دیتا ہوں (اور یہ جھوٹ بولنے کا موقع نہیں) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مرے اور مشرک ہو کر نہ مرے وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ فوج پہلے ہی سے حملہ کرنے کے لیے بے قرار تھی۔ ابو عبیدہ کی تقریر نے اور بھی گرما دیا۔ اور دفعتاً سب نے ہتھیار سنبھال لئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قلب فوج اور خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ و عباس میمنہ و میسرہ کو لے کر بڑھے۔ قعقاع نے جو کوفہ سے چار ہزار فوج کے ساتھ مدد کو آئے تھے۔ حمص سے چند میل پر راہ میں تھے کہ اس واقعہ کی خبر سنی۔ فوج چھوڑ کر سو سواروں کے ساتھ ابو عبیدہ سے آ ملے۔ مسلمانوں کے حملہ کے ساتھ عرب کے قبائل (جیسا کہ خالد سے اقرار ہو چکا تھا) ابتری کے ساتھ پیچھے ہٹے۔ ان کے ہٹنے سے عیسائیوں کا بازو ٹوٹ گیا۔ اور تھوڑی دیر لڑ کر اس بدحواسی سے بھاگے کہ مرف الدیباج تک ان کے قدم نہ جمے۔ یہ اخیر معرکہ تھا جس کی ابتدا خود عیسائیوں کی طرف سے ہوئی۔ اور جس کے بعد ان کو پھر کبھی پیش قدمی کا حوصلہ نہیں ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معزول ہونا

شام کی فتوحات اور 17 ہجری (638 عیسوی) کے واقعات میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معزول ہونا ایک اہم واقعہ ہے۔ عام مؤرخین کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عنان خلافت ہاتھ میں لینے کے ساتھ پہلا جو حکم دیا وہ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معزولی تھی۔ ابن الاثیر وغیرہ سب یہی لکھتے آئے ہیں۔ لیکن یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ افسوس ہے کہ ابن الاثیر کو خود اختلاف بیانی کا بھی خیال نہیں۔ خود ہی 13 ہجری کے واقعات میں خالد کا معزول ہونا لکھا ہے اور خود ہی 17 ہجری کے واقعات میں ان کی معزولی کا الگ عنوان قائم کیا ہے اور دونوں جگہ بالکل ایک سے واقعات نقل کر دیئے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بعض بے اعتدالیوں کی وجہ سے مدت سے ناراض تھے۔ تاہم آغاز خلافت میں ان سے کچھ تعرض کرنا نہیں چاہا۔ لیکن چونکہ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عادت تھی کہ وہ کاغذات حساب دربار خلافت کو نہیں بھیجتے تھے۔ اس لئے ان کو تاکید لکھی کہ آئندہ سے اس کا خیال رکھیں۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب میں لکھا کہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے سے ایسا ہی کرتا آیا ہوں۔ اور اب اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کی یہ خود مختاری کیونکر پسند ہو سکتی تھی۔ اور وہ بیت المال کی رقم کو اس طرح بدریغ کیونکر کسی کے ہاتھ میں دے سکتے تھے۔ چنانچہ خالد کو لکھا کہ تم اسی شرط پر سپہ سالار رہ سکتے ہو کہ فوج کے مصارف کا حساب ہمیشہ بھیجتے رہو۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس شرط کو نامنظور کیا۔ اور اس بناء پر وہ سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کر دیئے گئے۔ چنانچہ اس واقعہ کو حافظ ابن حجر نے کتاب الاصابہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احوال میں تفصیل سے لکھا ہے۔

بایں ہمہ ان کو بالکل معزول نہیں کیا۔ بلکہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ماتحت کر دیا۔ اس کے بعد 17 ہجری (638 عیسوی) میں واقعہ پیش آیا کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شاعر کو دس ہزار روپے انعام میں دے دیئے۔ پرچہ نویسوں نے اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پرچہ لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ خالد نے یہ انعام اپنی گرہ سے دیا تو اسراف کیا۔ اور بہت المال سے دیا تو خیانت کی۔ دونوں صورتوں میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔

خالد جس کیفیت سے معزول کئے گئے وہ سننے کے قابل ہے۔ قاصد نے جو معزولی کا خط لے کر آیا تھا۔ مجمع عام میں خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا کہ " یہ انعام تم نے کہاں سے دیا۔" خالد اگر اپنی خطا کا اقرار کر لیتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم تھا کہ ان سے درگزر کی جائے۔ لیکن وہ خطا کے اقرار کرنے پر راضی نہ تھے۔ مجبوراً قاصد نے معزولی کی علامت کے طور پر ان کے سر سے ٹوپی اتار لی۔ اور ان کی سرتابی کی سزا کے لئے انہی کے عمامہ سے ان کی گردن باندھی۔ یہ واقعہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ ایک ایسا سپہ سالار جس کی نظیر تمام اسلام میں کوئی شخص موجود نہ تھا۔ اور جس کی تلوار نے عراق و شام کا فیصلہ کر دیا تھا، اس طرح ذلیل کیا جا رہا ہے۔ اور مطلق دم نہیں مارتا۔ اس واقعہ سے ایک تو خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نیک نفسی اور حق پرستی کی شہادت ملتی ہے اور دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سطوت و جلال کا اندازہ ہوتا ہے۔

خالد نے حمص پہنچ کر اپنی معزولی کے متعلق ایک تقریر کی۔ تقریر میں یہ بھی کہا کہ " امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا۔ اور جب میں تمام شام کو زیر کر لیا تو مجھ کو معزول کر دیا۔" اس فقرے پر ایک سپاہی اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے سردار چپ رہ! ان باتوں سے فتنہ پیدا ہو سکتا ہے۔" خالد نے کہا " ہاں! لیکن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہوتے ہوئے فتنہ کا کیا احتمال ہے (دیکھو کتاب الخراج ابو یوسف 178 تاریخ طبری صفحہ 2527)۔

خالد مدینہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : کہ عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) خدا کی قسم تم میرے معاملہ میں ناانصافی کرتے ہو۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ " تمہارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔" خالد نے کہا کہ مال غنیمت سے۔" اور یہ کہہ کر کہا کہ " ساتھ ہزار سے جس قدر زیادہ رقم نکلے وہ میں اپ کے حوالہ کرتا ہوں۔" چنانچہ بیس ہزار روپے زیادہ نکلے اور وہ بیت المال میں داخل کر دیئے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ " خالد واللہ تم مجھ کو محبوب بھی ہو، اور میں تمہاری عزت بھی کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر تمام عمالان ملکی کو لکھ بھیجا کہ میں نے خالد کو ناراضی سے یا خیانت کی بناء پر موقوف نہیں کیا۔ لیکن چونکہ میں دیکھتا تھا کہ لوگ اس کے مفتوں ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے ان کو معزول کرنا مناسب سمجھا تا کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ کرتا ہے ۔ خدا کرتا ہے۔" (طبری صفحہ 2528)۔ ان واقعات سے ایک نکتہ بین شخص باآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خالد کی معزولی کے کیا اسباب تھے۔ اور اس میں کیا مصلحتیں تھیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
عمواس کی وبا 18 ہجری (639 عیسوی)

اس سال شام و مصر و عراق میں سخت وبا پھیلی اور اسلام کی بڑی بڑی یادگاریں خاک میں چھپ گئیں۔ وبا کا آغاز 17 ہجری کے اخیر میں ہوا اور کئی مہینے تک نہایت شدت رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اول جب خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لیے خود روانہ ہوئے۔ سرغ (ایک مقام کا نام) پہنچ کر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ سے جو ان کے استقبال کو آئے تھے، معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ مہاجرین اولین اور انصار کو بلایا۔ اور رائے طلب کی۔ مختلف لوگوں نے مختلف رائیں دیں۔ لیکن پھر سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم دیا کہ کل کوچ ہے۔ حضرت ابو عبیدہ چونکہ تقدیر کے مسئلہ پر نہایت سختی کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کو نہایت غصہ آیا۔ اور طیش میں آ کر کہا افراد من قدر اللہ یعنی اے عمر! تقدیر الہٰی سے بھاگتے ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی سخت کلامی کو گوارا کیا اور کہا۔

افر من قضاء اللہ الی قضاء اللہ یعنی ہاں تقدیر الہٰی سے بھاگتا ہوں۔ مگر بھاگتا بھی تقدیر الہٰی کی طرف ہوں۔

غرض خود مدینہ چلے آئے اور ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھا کہ مجھ کو تم سے کام ہے کچھ دنوں کے لیے یہاں آ جاؤ۔ ابو عبیدہ کو خیال ہوا کہ وبا کے خوف سے بلایا ہے۔ جواب میں لکھ کر بھیجا کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی بچانے کے لیے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خط پڑھ کر روئے اور لکھا کہ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے۔ اس لئے کوئی عمدہ موقع تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔ ابو عبیدہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جابیہ میں جا کر مقام کیا۔ جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا۔ جابیہ پہنچ کر ابو عبیدہ بیمار پڑھے۔ جب زیادہ شدت ہوئی تو لوگوں کو جمع کیا۔ اور نہایت پراثر الفاظ میں وصیت کی۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اور چونکہ نماز کا وقت آ چکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں۔ ادھر نماز ختم ہوئی ادھر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بیماری اسی طرح زوروں پر تھی اور فوج میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ عمرو بن العاص نے لوگوں سے کہا کہ یہ وبا انہی بلاؤں میں سے ہے جو بنی اسرائیل کے زمانے میں مصر پر نازل ہوئی تھیں۔ اس لیے یہاں سے بھاگنا چاہیے۔ معاذ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ وہ بلا نہیں ہے۔ بلکہ خدا کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا۔ یا بنی الحق من ربک فلا تکونن من الممترین۔ یعنی اے فرزند یہ خدا کی طرف سے حق ہے۔ دیکھ شبہ میں نہ پڑھا۔ بیٹے نے جواب دیا ستجلنی انشاء اللہ من الصٰبرین یعنی خدا نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر پائیں گے۔ یہ کہہ کر انتقال کیا۔ معاذ بیٹے کو دفنا کر آئے تو خود بیمار پڑ گئے۔ عمرو بن العاص کو خلیفہ مقرر کیا اور اس خیال سے کہ زندگی خدا کے قرب کا حجاب تھی بڑے اطمینان اور مسرت سے جان دی۔

مذہب کا نشہ بھی عجیب چیز ہے۔ وبا کا وہ زور تھا اور ہزاروں آدمی لقمہ اجل ہوتے جاتے تھے لیکن معاذ اس کو خدا کی رحمت سمجھا کئے۔ اور کسی قسم کی کوئی تدبیر نہ کی، لیکن عمرو بن العاص کو یہ نشہ کم تھا۔ معاذ کے مرنے کے ساتھ انہوں نے مجمع عام میں خطبہ پڑھا اور کہا کہ وبا جب شروع ہوتی ہے تو آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو یہاں سے اٹھ کر پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ اگرچہ ان کی رائے بعض صحابہ کو جو معاذ کے ہم خیال تھے ناپسند ائی، یہاں تک کہ ایک بزرگ نے علانیہ کہا کہ تو جھوٹ کہتا ہے۔ تاہم عمرو نے اپنی رائے پر عمل کیا۔ فوج ان کے حکم کے مطابق ادھر ادھر پہاڑوں پر پھیل گئی اور وبا کا خطرہ جاتا رہا۔ لیکن یہ تدبیر اس وقت عمل میں آئی کہ 25 ہزار مسلمان جو آدھی دنیا فتح کرنے کے لیے کافی ہو سکتے تھے۔ موت کے مہمان ہو چکے تھے۔ ان میں ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ، یزید بن ابی سفیان، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو، عتبہ بن سہیل بڑے درجہ کے لوگ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان تمام حالات سے اطلاع ہوتی رہتی تھی اور مناسب احکام بھیجتے رہتے تھے۔ یزید بن ابی سفیان اور معاذ کے مرنے کی خبر آئی تو معاویہ کو دمشق کا اور شرجیل کو اردن کا حاکم مقرر کیا۔

اس قیامت خیز وبا کی وجہ سے فتوحات اسلام کا سیلاب دفعتہً رک گیا۔ فوج بجائے اس کے کہ مخالف پر حملہ کرتی خود اپنے حال میں گرفتار تھی۔ ہزاروں لڑکے یتیم ہو گئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ جو لوگ مرے تھے ان کا مال و اسباب مارا مارا پھرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان حالات سے مطلع ہو کر شام کا قصد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مدینہ کی حکومت دی اور خود ایلہ کو روانہ ہوئے۔ یربان کا غلام اور بہت سے صحابہ ساتھ تھے۔ ایلہ کے قریب پہنچے تو کسی مصلحت سے اپنی سواری غلام کو دی اور خود اس کے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ راہ میں جو لوگ دیکھتے تھے کہ امیر المومنین کہاں ہیں فرماتے کہ تمہارے آگے۔ اسی حیثیت سے ایلہ آئے اور یہاں دو روز قیام کیا۔ گزی کا کرتہ جو زیب بدن تھا، کجاوے کی رغر کھا کھا کر پیچھے سے پھٹ گیا تھا۔ مرمت کے لیے ایلہ کے پادری کے حوالے کیا۔ اس نے خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگائے۔ اور اس کے ساتھ ایک نیا کرتہ تیار کر کے پیش کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنا کرتہ پہن لیا۔ اور کہا کہ اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ ایلہ سے دمشق آئے اور شام کے اکثر اضلاع میں دو دو چار چار دن قیام کر کے مناسب انتظامات کئے۔ فوج کی تنخواہیں تقسیم کیں۔ جو لوگ وبا میں ہلاک ہوئے تھے ان کے دور نزدیک کے وارثوں کو بلا کر ان کی میراث دلائی۔ سرحدی مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ جو آسامیاں خالی ہوئی تھیں، ان پر نئے عہدیدار مقرر کئے۔ ان باتوں کی دوسری تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔ چلتے وقت لوگوں کو جمع کیا۔ اور جو انتظامات کئے تھے ان کے متعلق تقریر کی۔

اس سال عرب میں سخت قحط پڑا۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہایت مستعدی سے انتظام نہ کیا ہوتا تو ہزاروں لاکھوں آدمی بھوکوں مر جاتے۔ اسی سال مہاجرین اور انصار اور قبائل عرب کی تنخواہیں اور روزینے مقرر کئے۔ چنانچہ ان انتظامات کی تفصیل دوسرے حصے میں آئے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
قیساریہ کی فتح شوال (بلاذری) 19 ہجری (640 عیسوی)

یہ شہر بہر شام کے ساحل پر واقع ہے اور فلسطین کے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج ویران پڑا ہے۔ لیکن اس زمانے میں بہت بڑا شہر تھا۔ اور بقول بلاذری کے تین سو بازار آباد تھے۔ اس شہر پر اول 13 ہجری (635 عیسوی) میں عمرو بن العاص نے چڑھائی کی۔ اور مدت تک محاصرہ کئے پڑے رہے لیکن فتح نہ ہو سکا۔ ابو عبیدہ کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یزید بن ابی سفیان کو ان کی جگہ مقرر کیا تھا اور حکم دیا کہ قیساریہ کی مہم پر جائیں۔ وہ 17 ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کا محاصرہ کیا لیکن 18 ہجری (639 عیسوی) میں جب بیمار ہوئے تو امیر معاویہ (اپنے بھائی) کو اپنے قائم مقام کر کے دمشق چلے آئے۔ اور یہیں وفات پائی۔ امیر معاویہ نے بڑے ساز و سامان سے محاصرہ کیا۔ شہر والے کئی دفعہ قلعہ سے نکل نکل کر لڑے۔ لیکن ہر دفعہ شکست کھائی۔ تاہم شہر پر قبضہ نہ ہو سکا۔ ایک دن ایک یہودی نے جس کا نام یوسف تھا، امیر معاویہ کے پاس آ کر ایک سرنگ کا نشان دیا جو شہر کے اندر اندر قلعہ کے دروازے تک گئی تھی۔ چنانچہ چند بہادروں نے اس کی راہ قلعہ کے اندر پہنچ کر دروازہ کھول دیا۔ ساتھ ہی تمام فوج ٹوٹ پڑی اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ کم سے کم عیسائیوں کی اسی ہزار فوج تھی جس میں بہت کم زندہ بچی۔ چونکہ یہ ایک مشہور مقام تھا، اس کی فتح سے گویا شام کا مطلع صاف ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزیرہ 16 ہجری (637 عیسوی)

(جزیرہ اس حصہ آبادی کا نام ہے جو دجلہ اور فرات کے بیچ میں ہے۔ اس کی حدوداربعہ یہ ہیں مغرب آرمینیہ کا کچھ حصہ اور ایشیائے کوچک، جنوب شام، مشرق عراق، شمال آرمینیہ کے کچھ حصے۔ یہ مقام درج نقشہ ہے۔)

مدائن کی فتح سے دفعتہً تمام عجم کی آنکھیں کھل گئیں۔ عرب کو یا تو وہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یا اب ان کو عرب کے نام سے لرزہ آتا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر صوبے نے بجائے خود عرب کے مقابلے کی تیاریاں شروع کیں، سب سے پہلے جزیرہ نے ہتھیار سنبھالا کیونکہ اس کی سرحد عراق سے بالکل ملی ہوئی تھی۔ سعد نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان حالات کی اطلاع دی۔ وہاں سے عبد اللہ بن المعتم مامور ہوئے اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس معرکہ کا خاص خیال تھا اس لیے افسروں کو بھی خود ہی نامزد کیا۔ چنانچہ مقدمۃ الجیش پر ربعی بن الافکل، میمنہ حارث بن حسان، میسرہ پر فرات بن حیان، ساقہ پر ہانی بن قیس مامور ہوئے۔ عبد اللہ بن المعتم پانچ ہزار کی جمیعت سے تکریت (تکریت جزیرہ کا سب سے آبائی شہر ہے جس کی حد عراق سے ملی ہوئی ہے۔ دجلہ کے غربی جانب واقع ہے اور موصل سے 6 منزل پر ہے) کی طرف بڑھے اور شہر کا محاصرہ کیا۔ مہینے سے زیادہ محاصرہ رہا اور 24 دفعہ حملے ہوئے۔ چونکہ عجمیوں کے ساتھ عرب کے چند قبائل یعنی ایاد، تغلب، نمر بھی شریک تھے۔ عبد اللہ نے خفیہ پیغام بھیجا اور غیرت دلائی کہ تم عرب ہو کر عجم کی غلامی کیوں گوارا کرتے ہو؟ اس کا اثر یہ ہوا کہ سب نے اسلام قبول کیا۔ اور کہلا بھیجا کہ تم شہر پر حملہ کرو ہم عین موقع پر عجمیوں سے ٹوٹ کر تم سے آ ملیں گے۔ یہ بندوبست ہو کر تاریخ معین پر دھاوا کیا۔ عجمی مقابلہ کو نکلے تو خود ان کے ساتھ عربوں نے عقب سے ان پر حملہ کیا۔ عجمی دونوں طرف سے گھر کر پامال ہو گئے۔

یہ معرکہ اگرچہ جزیرہ کی مہمات میں شامل ہے لیکن چونکہ اس کا موقع اتفاقی طور سے عراق کے سلسلے میں آ گیا تھا اس لیے مؤرخین اسلام جزیرہ کی فتوھات کو اس واقعہ سے شروع نہیں کرتے۔ اور خود اس زمانے میں یہ معرکہ عراق کے سلسلے سے الگ نہیں خیال کیا جاتا تھا۔ 17 ہجری میں جب عراق و شام کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو سعد کے نام حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم پہنچا کہ جزیرہ پر فوجیں بھیجی جائیں۔ سعد نے عیاض بن غنم کو پانچ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مہم پر مامور کیا۔ وہ عراق سے چل کر جزیرہ کی طرف بڑھے اور شہر رہا کے قریب جو کسی زمانے میں رومن امپائر کا یادگار مقام تھا ڈیرے ڈالے۔ یہاں کے حاکم نے خفیف سے روک ٹوک کے بعد جزیہ پر صلح کر لی۔ رہا کے بعد چند روز میں تمام جزیرہ اس سرے سے اس سرے تک فتح ہو گیا۔ جن جن مقامات پر خفیف خفیف لڑائیاں پیش آئیں ان کے نام یہ ہیں : رقہ، حران، نصیبین، میادفارقین، س،ساط، سروج، قرقییا، زوزان، عین الوردۃ۔
 

شمشاد

لائبریرین
خوزستان

(خوزستان اس حصہ آبادی کا نام ہے جو عراق اور فارس کے درمیان واقع ہے۔ اس میں 14 بڑے شہر ہیں جس میں سب سے بڑا شہر اہواز ہے جو نقشہ میں درج کر دیا گیا ہے۔)

15 ہجری (636 عیسوی) میں مغیرہ بن شعبہ بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے اور چونکہ خوزستان کی سرحد بصرہ سے ملی ہوئی ہے، انہوں نے خیال کیا کہ اس کی فتح کے بغیر بصرہ میں کافی طور سے امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، چنانچہ 16 ہجری (637 عیسوی) کے شروع میں اہواز پر جس کو ایرانی ہرمز شہر کہتے تھے حملہ کیا۔ یہاں کے رئیس نے ایک مختصر سی رقم دے کر صلح کر لی۔ مغیرہ وہیں رک گئے۔ 17 ہجری (638 عیسوی) میں مغیرہ معزول ہوئے۔ ان کی جگہ ابو موسیٰ اشعری مقرر ہوئے۔ ان انقلاب میں اہواز کے رئیس نے سالانہ رقم بند کر دی اور اعلانیہ بغاوت کا اظہار کیا۔ مجبوراً ابو موسیٰ اشعری نے لشکر کشی کی اور اہواز کو جا گھیرا۔ شاہی فوج جو یہاں رہتی تھی اس نے بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ لیکن آخر شکست کھائی اور شہر فتح ہو گیا۔ غنیمت کے ساتھ ہزاروں آدمی لونڈی غلام بن کر آئے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ سب رہا کر دیئے جائیں۔ چنانچہ وہ سب چھوڑ دیئے گئے۔ ابو موسیٰ نے اہواز کے بعد مناذر کا رخ کیا، یہ خود ایک محفوظ مقام تھا۔ شہر والوں نے بھی ہمت اور استقلال سے حملے کو روکا۔ اس معرکہ میں مہاجر بن زیاد جو ایک معزز افسر تھے شہید ہوئے اور قلعہ والوں نے ان کا سر کاٹ کر برج کے کنگرہ پر لٹکا دیا۔

ابو موسیٰ نے مہابر کے بھائی ربیع کو یہاں چھوڑا اور خود سوس کو روانہ ہوئے۔ ربیع نے مناذر کو فتح کر لیا۔ اور ابو موسیٰ نے سوس کا محاصرہ کر کے ہر طرف سے رسد بند کر دی۔ قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔ مجبوراً رئیس شہر نے صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی زندہ چھوڑ دیئے جائیں۔ ابو موسیٰ نے منظور کی۔ رئیس ایک ایک آدمی کو نامزد کرتا تھا اور اس کو امن دے دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے شمار میں رئیس نے خود اپنا نام نہیں لیا تھا۔ چنانچہ جب سو کی تعداد پوری ہو گئی تو ابو موسیٰ اشعری نے رئیس کو جو شمار سے باہر تھا قتل کرا دیا۔ سوس کے بعد اہواز کا محاصرا ہوا۔ اور آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ یزدگرد اس وقت قم میں مقیم تھا۔ اور خاندان شاہی کے تمام ارکان ساتھ تھے۔ ابو موسیٰ کی دست درازیوں کی خبریں اس کو برابر پہنچتی تھیں۔ ہرمزان نے جو شیرویہ کا ماموں اور بڑی قوت کا سردار تھا یزدگرد کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر اہواز و فارش میری حکومت میں دے دیئے جائیں تو عرب کے سیلاب کو آگے بڑھے سے روک دوں۔ یزدگرد نے اسی وقت فرمان حکومت عطا کر کے ایک جمعیت عظیم ساتھ دی۔ خوزستان کا صدر مقام شوستر تھا وہاں شاہی عمارات اور فوجی چھاؤنیاں تھیں۔ ہرمزان نے وہاں پہنچ کر قلعہ کی مرمت کرائی اور خندق اور برجوں سے مستحکم کیا۔ اس کے ساتھ ہر طرف نقیب اور ہرکارے دوڑا دیئے کہ لوگوں کو جوش دلا کر جنگ کے لیے آمادہ کریں۔ اس تدبیر سے قومی جوش جو افسردہ ہو گیا تھا، پھر تازہ ہو گیا اور چند روز میں ایک جمعیت عظیم فراہم ہو گئی۔ ابو موسیٰ نے دو بار خلافت کو نامہ لکھا اور مدد کی درخواست کی۔ وہاں سے عمار بن یاسر کے نام جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے حکم آیا کی نعمان بن مقرن کو ہزار آدمی کے ساتھ مدد کو بھیجیں۔ لیکن غنیم نے جو ساز و سامان کیا تھا۔ ابو موسیٰ نے دوبارہ لکھا، جس کے جوات میں عمار کو حکم پہنچا کہ آدھی فوج کو عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ کوفہ میں چھوڑ دو اور باقی فوج لے کر خود ابو موسیٰ کے مدد کو جاؤ۔ ادھر جریر بجلی ایک بڑی فوج لے کر جلولاء پہنچا۔ ابو موسیٰ نے اس ساز و سامان سے شوستر کا رخ کیا۔ اور شہر کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ہرمزان کثرت فوج کے بل پر خود شہر سے نکل کر حملہ آور ہوا۔ ابوموسیٰ نے بڑی ترتیب سے صف آرائی کی۔ میمنہ براء بن مالک کو دیا (یہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مشہور صحابی) کے بھائی تھے۔ میسرا پر براء بن عازب انصاری کو مقرر کیا۔ سواروں کا رسالہ حضرت انس کی رکاب میں تھا۔ دونوں فوجیں خوب جی توڑ کر لڑیں، براء بن مالک مارتے دھاڑتے شہر پناہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے، ادھر ہرمزان پردچو نہایت بہادری کے ساتھ فوج کو لڑا رہا تھا۔ عین پھاٹک پر دونوں کا سامنا ہوا اور مارے گئے۔ ساتھ ہی محراۃ بن ثور نے جو محنہ کو لڑا رہے تھے، بڑھ کر وار کیا لیکن ہزمزان نے ان کا بھی کام تمام کر دیا۔ تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ عجمی ایک ہزار مقتول ہوئے اور چھ سو زندہ گرفتار ہوئے۔ہرمزان نے قلعہ بند ہو کر لڑائی جاری رکھی۔

ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ابو موسیٰ کے پاس آیا۔ اور کہا اگر میرے جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہر پر قبضہ کرا دوں گا۔ ابو موسیٰ نے منظور کیا۔ اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا ساتھ لیا۔ اور نہر وجل سے جو دجلہ کی ایک شاخ ہے، اور شوستر کے نیچے بہتی ہے، پار اتر کر ایک تہہ خانے کی راہ میں داخل ہوا۔ اور اشرس کے منہ پر چادر ڈال کر کہا کہ نوکر کی طرح میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گزرتا خاص ہرمزان کے محل میں آیا۔ ہرمزان رئیسوں اور درباریوں کے ساتھ جلسہ جمائے بیٹھا ہوا تھا۔ شہری نے ان کو تمام عمارات کی سیر کرائی۔ اور موقع کے نشیب و فراز دکھائے۔ ابو موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں اپنا فرض ادا کر چکا ہوں، آگے تمہاری ہمت اور تقدیر ہے۔ اشرس نے اس کے بیان کی تصدیق کی۔ اور کہا کہ دو سو جانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہو جائے۔ ابو موسیٰ نے فوج کی طرف دیکھا۔ دو سو بہادروں نے بڑھ کر کہا کہ خدا کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے۔ اشرس اسی تہہ خانے کی راہ شہر پناہ کے دروازے پر پہنچے اور پہرداروں کو نہہ تیغ کر کے اندر کی طرف سے دروازے کھول دیئے۔ ادھر ابو موسیٰ فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی تمام لشکر ٹوٹ پڑا اور شہر میں ہلچل پڑ گئی۔ ہرمزان نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ مسلمان قلعے کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا کہ میرے ترکش میں اب بھی سو تیر ہیں۔ اور جب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ بچھ جائیں میں گرفتار نہیں ہو سکتا۔ تاہم میں اس شرط پر اترتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو۔ اور جو کچھ فیصلہ ہو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے ہو۔ ابو موسیٰ نے منظور کیا۔ اور حضرت انس کو مامور کیا کہ مدینہ تک اس کے ساتھ جائیں۔ ہزمزان بڑی شان و شوکت سے روانہ ہوا۔ بڑے بڑے رئیس اور خاندان کے تمام آدمی رکاب میں لئے مدینہ کے قریب پہنچ کر شاہانہ ٹھاٹھ سے آراستہ ہوا۔ تاج مرصع جو آذین کے لقب سے مشہور تھا، سر پر رکھا، دیبا کی قبا زیب تن کی۔ شاہان عجم کے طریقے کے موافق زیور پہنے۔ کمر سے مرصع تلوار لگائی۔ غرض شان و شوکت کی تصویر بن کر مدینے میں داخل ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ امیر المومنین کہاں ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ جس شخص کے دبدبہ نے تمام دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے اس کا دربار بھی بڑے ساز و سامان کا ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اور فرش خاک پر لیٹے ہوئے تھے۔

ہرمزان مسجد میں داخل ہوا تو سینکڑوں تماشائی ساتھ تھے۔ جو اس کے زرق برق لباس کو بار بار دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ لوگوں کی آہٹ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آنکھ کھلی تو عجمی شان و شوکت کا مرقع سامنے تھا۔ اوپر سے نیچے تک دیکھا اور حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ " یہ دنیائے دوں کی دلفریبیاں ہیں" اس کے بعد ہرمزان کی طرف مخاطب ہوئے۔ اس وقت تک مترجم نہیں آیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ کچھ کچھ فارسی سے آشنا تھے، اس لئے انہوں نے ترجمانی کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پہلے وطن پوچھا۔ مغیرہ وطن کی فارسی نہیں جانتے تھے اس لیے کہا کہ " ازکدام ارضی"؟ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ قادسیہ کے بعد ہرمزان نے کئی دفعہ سعد سے صلح کی تھی۔ اور ہمیشہ اقرار سے پھر جاتا تھا۔ شوستر کے معرکے میں دو بڑے مسلمان افسر اس کے ہاتھ سے مارے گئے۔ (ان واقعات کو طبری نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔) حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ انہوں نے ہرمزان کے قتل کا پورا ارادہ کر لیا تھا۔ تا ہم اتمام حجت کے طور پر عرض معروض کی اجازت دی۔ اس نے کہا عمر! جب تک خدا ہمارے ساتھ تھا تم ہمارے غلام تھے۔ اب خدا تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے ہیں۔ یہ کہہ کر پینے کا پانی مانگا۔ پانی آیا تو پیالہ ہاتھ میں لے کر درخواست کی کہ جب تک پانی نہ پی لوں مارا نہ جاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منظور کر لیا۔ اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا۔ اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس لئے شرط کے موافق تم مجھ کو قتل نہیں کر سکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس مغالطہ پر حیران رہ گئے۔ ہرمزان کے کلمہ توحید پڑھا اور کہا کہ میں پہلے ہی اسلام لا چکا تھا لیکن یہ تدبیر اس لیے کی کہ لوگ نہ کہیں کہ میں نے تلوار کے ڈر سے اسلام قبول کیا ہے۔ (عقد الفرید الابن عبد الرباب المیکدہ فی الحرب)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت خوش ہوئے۔ اور خاص مدینہ میں رہنے کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ دو ہزار سالانہ روزینہ مقرر کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فارس وغیرہ کی مہمات میں اکثر اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔

شوستر کے بعد جندی سابور پر حملہ ہوا۔ جو شوستر سے 24 میل ہے۔ کئی دن تک محاصرہ رہا۔ ایک دن شہر والوں نے خود دروازے کھول دیئے اور نہایت اطمینان کے ساتھ تمام لوگ اپنے کاروبار میں مصروف ہوئے۔ مسلمانوں کو ان کے اطمینان پر تعجب ہوا۔ اور اس کا سبب دریافت کیا۔ شہر والوں نے کہا " تم ہم کو جزیہ کی شرط پر امن دے چکے ہو۔ اب کیا جھگڑا رہا" سب کو حیرت تھی کہ امن کس نے دیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک غلام نے لوگوں سے چھپا کر امن کا رقعہ لکھ دیا ہے۔ ابو موسیٰ نے کہا کہ " ایک غلام کی خود مختاری حجت نہیں ہو سکتی۔" شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد اور غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خط لکھا گیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ "مسلمان غلام بھی مسلمان ہے۔ اور جس کو اس نے امان دے دی تمام مسلمان امان دے چکے۔" اس شہر کی فتح نے تمام خوزستان میں اسلام کا سکہ بٹھا دیا۔ اور فتوحات کی فہرست میں ایک اور نئے ملک کا اضافہ ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عراق عجم 21 ہجری (641 عیسوی)

(سر زمین عراق دو حصوں پر منقسم ہے۔ مغربی حصے کو عراق عرب کہتے ہیں اور مشرقی حصے کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عراق عجم کی حدود اربعہ یہ ہیں کہ شمال میں طبرستان جنوب میں شیراز مشرق میں خوزستان اور مغرب میں شہر مراغہ واقع ہیں۔ اس وقت اس کے بڑے شہر اصفہان، ہمدان اور رے سمجھے جاتے تھے۔ اس وقت رے بالکل ویران ہو گیا۔ اور اس کے قریب طہران آباد ہو گیا ہے جو شاہان قاچار کا دارالسطنت ہے۔)

جلولا کے بعد جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔ یزدگرد " رے " چلا گیا۔ لیکن یہاں کے رئیس آبان جدویہ نے بیوفائی کی۔ اس لئے رے سے نکل کر اصفہان اور کرمان ہوتا ہوا خراسان پہنچا۔ یہاں پہنچ کر مرو میں اقامت کی۔ "آتش پارسی" ساتھ تھی۔ اس کے لئے آتش کدہ تیار کر لیا۔ اور مطمئن ہو کر پھر سلطنت حکومت کے ٹھاتھ لگا دیئے۔ یہیں اسے خبر ملی کہ عربوں نے عراق کے ساتھ خوزستان بھی فتح کر لیا۔ اور ہزمزان جو سلطنت کا زور و بازو تھا زندہ گرفتار ہو گیا۔ یہ حالات سن کر نہایت طیش میں آیا۔ اگرچہ سلطنت کی حیثیت سے اس کا وہ پہلا رعب و داب باقی نہیں رہا تھا، تاہم تین ہزار برس کا خاندانی اثر دفعتہً نہیں مٹ سکتا تھا۔ ایرانی اس وقت تک یہ سمجھتے تھے کہ عرب کی آندھی سرحدی مقامات تک پہنچ کر رک جائے گی۔ اس لئے ان کو اپنی خاص سلطنت کی طرف سے اطمینان تھا۔ لیکن خوزستان کے واقعہ سے ان کی آنکھیں کھلیں۔ ساتھ ہی شہنشاہ کے فرامین اور نقیب پہنچے، اس سے دفعتہً طبرستان، جرجان، نہاوند، رے، اصفہان، ہمدان سے گزر کر خراسان اور سندھ تک تلاطم مچ گیا۔ اور ڈیڑھ لاکھ ٹڈی دل لشکر قم میں آ کر ٹھہرا۔ یزدگرد نے مردان شاہ کو (ہرمز کا فرزند تھا) سر لشکر مقرر کر کے نہاوند کی طرف روانہ کیا۔ اس معرکہ میں درفش کاویانی جس کو عجم طال ظفر سمجھتے تھے۔ مبارک فالی کے لحاظ سے نکالا گیا۔ چنانچہ مردان ساہ جب روانہ ہوا تو اس مبارک علم کا پھریرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ عمار بن یاسر نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ عمار کا خط لئے ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور سب کو سنا کے کہا کہ " گروہ عرب اس مرتبہ تمام ایران کمر بستہ ہو کر چلا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا سے مٹا دے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟" طلحہ بن عبید اللہ نے اٹھ كر كہا کہ امیر المومنین! واقعات نے آپ کو تجربہ کار بنا دیا ہے۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جاتے کہ آپ جو حکم دیں بجا لائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا " میری رائے ہے کہ شام، یمن، بصرہ کے افسروں کو لکھا جائے کہ اپنی اپنی فوجیں لے کر عراق کو روانہ ہوں اور آپ خود اہل حرم کو لے کر مدینہ سے اٹھیں، کوفہ میں تمام فوجیں آپ کے علم کے نیچے جمع ہوں، اور پھر نہاوند کی طرف رخ کیا جائے۔ حضرت عثمان کی رائے کو سب نے پسند کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ چپ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی طرف دیکھا، وہ بولے کہ "شام اور بصرہ سے فوجیں ہٹیں تو ان مقامات پر سرحد کے دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عز میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ اور خود اپنے ملک کا تھامنا مشکل ہو جائے گا۔ میری رائے ہے کہ آپ یہاں سے نہ جائیں۔ اور شام اور یمن، بصرہ وغیرہ میں فرمان بھیج دیئے جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہیں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کر دی جائیں۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میری رائے بھی یہی تھی۔ لیکن تنہا اس کا فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اب یہ بحث پیش آئی کہ ایسی بڑی مہم میں سپہ سالار بن کر کون جائے۔ لوگ ہر طرف خیال دوڑا رہے تھے۔ لیکن اس درجہ کا کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ جو لوگ اس منصب کے قابل تھے وہ اور مہمات میں مصروف تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مراتب کمال میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہوں نے ملک کے حالات سے ایسی واقفیت حاصل کی تھی کہ قوم کے ایک ایک فرد کے اوصاف ان کی نگاہ میں تھے۔ چنانچہ اس موقع پر حاضرین نے خود کہا کہ اس کا فیصلہ آپ سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نعمان بن مقرن کا انتخاب کیا۔ اور سب نے اس کی تائید کی۔ نعمان تیس ہزار کی جمیعت لے کر کوفہ سے روانہ ہوئے۔ اس فوج میں بڑے بڑے صحابہ شامل تھے۔ جن میں سے حذیفہ بن الیمان، عبد اللہ بن عمر، جریر بجلی، مغیرہ بن شعبہ، عمرو معدی کرب زیادہ مشہور ہیں۔ نعمان نے جاسوسوں کو بھیج کر معلوم کیا کہ نہاوند تک راستہ صاف ہے۔ چنانچہ نہاوند تک برابر بڑھتے چلے گئے۔ نہاوند سے 9 میل ادھر اسپدہان ایک مقام تھا۔ وہاں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ ایک بڑی تدبیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ کی کہ فارس میں جو اسلامی فوجیں موجود تھیں ان کو لکھا کہ ایرانی اس طرف سے نہاوند کی طرف بڑھنے نہ پائیں۔ اس طرح دشمن ایک بہت بڑی مدد سے محروم رہ گیا۔

عجم نے نعمان کے پاس سفارت کے لئے پیغام بھیجا۔ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ جو پہلے بھی اس کام کو انجام دے چکے تھے، سفیر بن کر گئے۔ عجم نے بڑی شان سے دربار آراستہ کیا۔ مردان شاہ کو تاج پہنا کر تخت زریں پر بٹھایا۔ تخت کے دائیں بائیں ملک ملک کے شہزادے دیبائے زرکش کی قبائیں سر پر تاج زر ہاتھوں میں سونے کے کنگن پہن کر بیٹھے۔ ان کے پیچھے دور دور تک سپاہیوں کی صفیں قائم کیں۔ جن کی برہنہ تلواروں سے آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں۔ مترجم کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی۔ مردان شاہ نے کہا کہ اے اہل عرب سب سے بدبخت، سب سے زیادہ فاقہ مست، سب سے زیادہ ناپاک قوم جو ہو سکتی ہے تم ہو۔ یہ قدر انداز جو میرے تخت کے گرد کھڑے ہیں ابھی تمہارا فیصلہ کر دیتے۔ لیکن مجھ کو یہ گوارا نہ تھا کہ ان کے تیر تمہارے ناپاک خون میں آلودہ ہوں۔ اب بھی اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو میں تم کو معاف کر دوں گا۔" مغیرہ نے کہا : " ہاں ہم لوگ ایسے ہی ذلیل تھے۔ لیکن اس ملک میں آ کر ہم کو دولت کا مزہ پڑ گیا۔ اور یہ مزہ ہم اسی وقت چھوڑیں گے جب ہمارے لاشیں خاک پر بچھ جائیں۔ غرض سفارت بے حاصل گئی۔ اور دونوں طرف جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ نعمان نے میمنہ اور میسرہ پر حذیفہ اور سوید بن مقرن کو مجردہ پر قعقاع کو مقرر کیا۔ ساقہ پر مجاشع متعین ہوئے۔ ادھر میمنہ پر زروک اور میسرہ پر بہمن تھا۔ عجمیوں نے میدان جنگ میں پہلے سے ہی ہر طرف گوکھرو بچھا دیئے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو آگے بڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ اور عجمی جب چاہتے تھے شہر سے نکل کر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ نعمان نے یہ حالت دیکھ کر افسروں کو جمع کیا۔ اور سب سے الگ الگ رائے لی۔ طلیحہ بن خالد الاسدی کی رائے کے موافق فوجیں آراستہ ہو کر شہر سے چھ سات میل کے فاصلے پر ٹھہریں اور قعقاع کو تھوڑی سی فوج دے کر بھیجا کہ شہر پر حملہ آور ہوں۔ عجمی بڑے جوش سے مقالہ کو نکلے اور اس بندوبست کے لئے کہ کوئی شخص پیچھے نہ ہٹنے پائے، جس قدر بڑھتے آتے تھے گوکھرو بچھاتے آتے تھے۔ قعقاع نے لڑائی چھیڑ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ عجمی برابر بڑھتے چلے آئے۔ یہاں تک کہ گوکھرو کی سرحد سے نکل ائے۔ نعمان نے ادھر جو فوجیں جما رکھی تھیں۔ موقع کا انتظار کر رہی تھیں، جونہی عجمی زد پر آئے، انہوں نے حملہ کرنا چاہا۔ لیکن نعمان نے روکا۔ عجمی جو تیر برسا رہے تھے اس سے سینکڑوں مسلمان کام آئے۔ لیکن افسر کی یہ اطاعت تھی زخم کھاتے تھے اور ہاتھ روکے کھڑے تھے۔ مغیرہ بار بار کہتے تھے کہ فوج بیکار ہوئی جاتی ہے۔ اور موقع ہاتھ سے نکلا جاتا ہے۔ لیکن نعمان اس خیال سے دوپہر کے ڈھلنے کا انتظار کر رہے تھے کہ رسول اللہ جب دشمن پر حملہ کرتے تھے تو اسی وقت کرتے تھے۔ غرض دوپہر ڈھلی تو نعمان نے دستور کے موافق تین نعرے مارے۔ پہلے نعرے پر فوج ساز و سامان سے درست ہو گئی۔ دوسرے پر لوگوں نے تلواریں تول لیں۔ تیسرے پر دفعتہً حملہ کیا۔ اور اس بے جگری سے ٹوٹ کر گرے کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ میدان میں اس قدر خون بہا کہ گھوڑوں کے پاؤں پھسل پھسل جاتے تھے۔ چنانچہ نعمان کا گھوڑا پھسل کر گرا، ساتھ ہی خود بھی گرے اور زخموں سے چور ہو گئے۔ ان کا امتیازی لباس جس سے وہ معرکے میں پہچانے جاتے تھے۔ کلاہ اور سفید قبا تھی۔ جونہی وہ گھوڑے سے گرے نعیم بن مقرن کے بھائی نے علم کو جھپٹ کر تھام لیا اور ان کی کلاہ اور قبا پہن کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اس تدبیر سے نعمان کے مرنے کا حال کسی کو معلوم نہ ہوا۔ اور لڑائی بدستور قائم رہی۔ اس مبارک زمانے میں مسلمانوں کو خدا نے ضبط و استقلال دیا تھا۔ اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ نعمان جس وقت زخمی ہو کر گرے تھے اعلان کر دیا تھا کہ میں مر بھی جاؤں تو کوئی شخص لڑائی چھوڑ کر میری طرف متوجہ نہ ہو۔ اتفاق سے ایک سپاہی ان کے پاس سے نکلا، دیکھا تو کچھ سانس باقی ہے۔ اور دم توڑ رہے ہیں، گھوڑے سے اتر کر ان کے پاس بیٹھنا چاہا۔ ان کا حکم یاد آ گیا۔ اسی طرح چھوڑ کر چلا گیا۔ فتح کے بعد ایک شخص سرہانے گیا۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پوچھا کہ کیا انجام ہوا؟ اس نے کہا "مسلمانوں کو فتح ہوئی" خدا کا شکر ادا کر کے کہا "فوراً عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع دو۔"

رات ہوتے ہی عجمیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ہمدان تک تعاقب کیا۔ حذیفہ بن الیمان نے جو نعمان کے بعد سر لشکر مقرر ہوئے نہاوند پہنچ کر مقام کیا۔ یہاں ایک مشہور آتش کدہ تھا۔ اس کا موبد حذیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ مجھ کو امن دیا جائے تو میں ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں۔ چنانچہ کسریٰ پرویز کے نہایت بیش بہا جواہرات لا کر پیش کئے جس کو کسریٰ نے مشکل وقتوں کے لیے محفوظ رکھا تھا۔ حذیفہ نے مال غنیمت کو تقسیم کیا اور پانچواں حصہ مع جواہرات کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہفتوں سے لڑائی کی خبر نہیں پہنچی تھی۔ قاصد نے مژدہ فتح سنایا تو بے انتہا خوش ہوئے۔ لیکن جب نعمان کا شہید ہونا سنا تو بے اختیار رہ پڑے اور دیر تک سر پر ہاتھ رکھ کر روتے رہے۔ قاصد نے اور شہداء کے نام گنائے اور کہا کہ بہت اور لوگ بھی شہید ہوئے جن کو میں نہیں جانتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر روئے اور فرمایا کہ "عمر جانے نہ جانے خدا ان کو جانتا ہے۔" جواہرات کو دیکھ کر غصہ سے کہا کہ "فوراً واپس لے جاؤ۔ اور حذیفہ سے کہو کہ بیچ کر فوج کو تقسیم کر دیں۔" چنانچہ یہ جواہرات چار کروڑ درہم کے فروخت ہوئے۔"

اس لڑائی میں تقریباً تیس ہزار عجمی لڑ کر مارے گئے۔ اس معرکہ کے بعد عجم نے کبھی زور نہیں پکڑا، چنانچہ عرب نے اس فتح کا نام فتح الفتوح رکھا۔ فیروز جس کے ہاتھ جس کے ہاتھ پر حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت لکھی تھی، اسی لڑائی میں گرفتار ہوا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایران پر عام لشکر کشی 21 ہجری (642 عیسوی)

اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایران کی عام تسخیر کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اب تک جو لڑائیاں ہوئیں وہ صرف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تھیں۔ عراق کا البتہ ممالک محروسہ میں اضافہ کر لیا گیا تھا۔ لیکن وہ درحقیقت عرب کا ایک حصہ تھا۔ کیونکہ اسلام سے پہلے اس کے ہر حصہ میں عرب آباد تھے۔ عراق سے آگے بڑھ کر جو لڑائیاں ہوئیں وہ عراق کے سلسلہ میں خود بخود پیدا ہوتی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود فرمایا کرتے تھے کہ " کاش ہمارے اور فارس کے بیچ میں آگ کا پہاڑ ہوتا تا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے نہ ہم ان پر چڑھ کر جا سکتے۔" لیکن ایرانیوں کو کسی طرح چین نہیں آتا تھا۔ وہ ہمیشہ نئی فوجیں تیار کر کے مقابلے پر آتے تھے اور جو ممالک مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے وہاں غدر کروا دیا کرتے تھے۔ نہاوند کے معرکہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس پر خیال ہوا۔ اور اکابر صحابہ کو بلا کر پوچھا کہ ممالک مفتوحہ میں بار بار بغاوت کیوں ہو جاتی ہے۔ لوگوں نے کہا جب تک یزدگرد ایران کی حدود سے نکل نہ جائے، یہ فتنہ فرو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب تک ایرانیوں کو یہ خیال رہے گا کہ تخت کیانی کا وارث موجود ہے، اس وقت ان کی امیدیں منقطع نہیں ہو سکتیں۔"

اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عام لشکر کشی کا ارادہ کیا۔ اپنے ہاتھ سے متعدد علم تیار کئے۔ اور جدا جدا ممالک کے نام سے نامزد کر کے مشہور افسروں کے پاس بھیجے۔ چنانچہ خراسان کا علم احتف بن قیس کو، سابورو اردشیر کا مجاشع بن مسعود کو، اصطخر کا عثمان بن العاص الشقفی کو، افساء کا ساریہ بن رہم الکنافی کو، کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمرو کو، مکران کا حکم بن عمیر التغسلبی کو، آذر بائیجان کا عتبہ کو عنایت کیا۔ 21 ہجری میں یہ افسر اپنے اپنے متعینہ ممالک کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ ہم ان کی الگ الگ ترتیب کے ساتھ لکھتے ہیں۔

فتوحات کے سلسلے میں سب سے پہلے اصفہان کا نمبر ہے۔ 21 ہجری میں عبد اللہ بن عبد اللہ نے اس صوبہ پر چڑھائی کی، یہاں کے رئیس نے جس کا نام استندرا تھا۔ اصفہان کے نواح میں بڑی جمیعت فراہم کی تھی جس کے ہراول پر شہربرز جادویہ ایک پرانہ تجربہ کار افسر تھا۔ دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو جادویہ نے میدان میں آ کر پکارا کہ جس کا دعویٰ ہو، تنہا میرے مقابلہ کو آئے۔ عبد اللہ خود مقابلے کو آئے۔ جادویہ مارا گیا اور ساتھ ہی لڑائی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ استندار نے معمولی شرائط پر صلح کر لی۔ عبد اللہ نے آگے بڑھ کر "جے" یعنی خاص اصفہان کا محاصرہ کیا۔ فاذوسفان یہاں کے رئیس نے پیغام بھیجا کہ دوسروں کی جانیں کیوں ضائع ہوں، ہم تم لڑ کر خود فیصلہ کر لیں، دونوں حریف میدان میں آئے۔ فاذوسفان نے تلوار کا وار کیا، عبد اللہ نے اس پامردی سے اس کے حملہ کا مقابلہ کیا کہ فاذوسفان کے منہ سے بے اختیار آفریں نکلی۔ اور کہا کہ میں تم سے نہیں لڑنا چاہتا۔ بلکہ شہر اس شرط پر حوالہ کرتا ہوں کہ باشندوں میں سے جو چاہے جزیہ دے کر شہر میں رہے اور جو چاہے نکل جائے۔ عبد اللہ نے یہ شرط منظور کر لی۔ اور معاہدہ صلح لکھ دیا۔

اسی اثناء میں خبر لگی کہ ہمدان میں غدر ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نعیم بن مقرن کو ادھر روانہ کیا۔ انہوں نے بارہ ہزار کی جمیعت سے ہمدار پہنچ کر محاصرہ کے سامان کئے۔ لیکن جب محاصرہ میں دیر لگی تو اضلاع میں ہر طرف فوجیں پھیلا دیں۔ یہاں تک کہ ہمدان چھوڑ کر باقی تمام مقامات فتح ہو گئے۔ یہ حالت دیکھ کر محصوروں نے بھی ہمت ہار دی اور صلح کر لی۔ ہمدان فتح ہو گیا۔ لیکن ویلم نے رے اور آذر بائیجان وغیرہ سے نامہ و پیام کر کے ایک بڑی فوج فراہم کی۔ ایک طرف سے فرخان کا باپ سمینیدی جو رے کا رئیس تھا، انبوہ کثیر لے کر آیا اور دوسری طرف سے اسفند یار رستم کا بھائی پہنچا۔ وادی رود میں یہ فوجیں مقابل ہوئیں۔ اور اس زور کا رن پڑا کہ لوگوں کو نہاوند کا معرکہ یاد آ گیا۔ آخر ویلم نے شکست کھائی۔ عروہ جو واقعہ جبیر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس شکست کی خبر لے کر گئے تھے، اس فتح کا پیغام لے کر گئے تھے تا کہ اس دن کی تلافی ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ویلم کی تیاریاں سن کر نہایت تردد میں تھے۔ اور امداد کا سامان کر رہے تھے کہ دفعتاً عروہ پہنچے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خیال ہوا کہ شگون اچھا نہیں، بے ساختہ زبان سے انا للہ نکلا۔ عروہ نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ خدا نے مسلمانوں کو فتح دی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نعیم کو نامہ لکھا کہ ہمدان پر کسی کو اپنا قائم مقام کر کے روانہ ہوں۔ رے کا حاکم اس وقت سیاؤش تھا جو بہرام چوبیں کا پوتا تھا۔ اس نے دماوند، طبرستان، قوس، جرجان کے رئیسوں سے مدد طلب کی اور ہر جگہ سے امدادی فوجیں آئیں۔ لیکن زمیندی جس کو سیاؤش سے کچھ ملال تھا۔ نعیم بن مقرن سے آ ملا۔ اس کی سازش سے شہر پر حملہ ہوا، اور حملہ کے ساتھ دفعتاً شہر فتح ہو گیا۔ نعیم نے زمیندی کو رے کی ریاست دی اور پرانے شہر کو برباد کر کے حکم دیا کہ نئے سرے سے آباد کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم کے مطابق نعیم نے خود رے میں قیام کیا۔ اور اپنے بھائی سوید کو قومس پر بھیجا، جو بغیر کسی جنگ کے فتح ہو گیا۔ اس فتح کے ساتھ عراق عجم پر پورا پورا قبصہ ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آذربئیجان 22 ہجری (643 عیسوی)

(نقشہ دیکھنے سے آذربائیجان کا پتہ اس طرح لگے گا کہ شہر تبریز کو اس کا صدر مقام سمجھنا چاہیے (سابق میں شہر مراغہ دار الصدر تھا)۔ بروعہ اور اردبیل اسی صوبہ میں آباد ہیں۔ آذربائیجان کی وجہ تسمیہ میں دو روائتیں ہیں۔ ایک یہ کہ موبد آذر آباد نے ایک آتشکدہ بنایا تھا۔ جس کا نام آباد گان تھا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ لغت پہلوی میں آذر کے معنی آتش کے ہیں۔ اور بائیگان کے معنی ہیں محافظ۔ یعنی نگاہ دارانِ آتش چونکہ اس صوبے میں آتش کدوں کی کثرت تھی۔ اس کی وجہ سے یہی نام ہو گیا جس کو عربوں نے اپنی زبان میں آذر بائیجان کر لیا۔)

جیسا کہ ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آذر بائیجان کا علم عتبہ بن فرقد اور بکیر کو بھیجا تھا اور ان کے بڑھنے کی سمتیں بھی متعین کر دی تھیں۔ بکیر جب میدان میں پہنچے تو اسفند یار کا سامنا ہوا۔ اسفند یار نے شکست کھائی اور زندہ گرفتار ہو گیا۔ دوسرے طرف اسفند یار کا بھائی بہرام عتبہ کا سد راہ ہوا، وہ بھی شکست کھا کر بھاگ گیا۔ اسفند یار نے بھائی کی شکست کی خبر سنی تو بکیر سے کہا کہ اب لڑائی کی آگ بجھ گئی اور میں جزیہ پر تم سے صلح کر لیتا ہوں۔ چونکہ آذر بائیجان انہی دونوں بھائیوں کے قبضے میں تھا۔ عتبہ نے اسفند یار کو اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ آذر بائیجان کا رئیس رہ کر جزیہ ادا کرتا رہے۔ مؤرخ بلاذری کا بیان ہے کہ آذربائیجان کا علم حذیفہ بن یمان کو ملا تھا۔ وہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہنچے جو آذربائیجان کا پایہ تخت تھا۔ یہاں کے رئیس نے ماجروان، ہیمند، سراۃ، سبز، میانج وغیرہ سے ایک انبوہ کثیر جمع کر کے مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ پھر آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ حذیفہ نے اس کے بعد موقان و جیلان پر حملہ کیا۔ اور فتح کے پھریرے اڑائے۔

اسی اثناء میں دربار خلافت سے حذیفہ کی معزولی کا فرمان پہنچا اور عتبہ بن فرقد ان کی جگہ مقرر ہوئے۔ عتبہ کے پہنچتے پہنچتے آذربائیجان کے تمام اطراف میں بغاوت پھیل چکی تھی۔ چنانچہ عتبہ نے دوبارہ ان مقامات کو فتح کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
طبرستان 22 ہجری (643 عیسوی)

(نقشہ میں طبرستان فتوحات شمالی میں ملے گا۔ اس لئے کہ خلافت فاروقی میں جزیہ دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ مشرق میں خراسان و جرجان، مغرب میں آذر بائیجان، شمال میں جوزجان اور جنوب میں بلاخیل، بصام اور استر آباد اس کے مشہور شہر ہیں۔)

ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ نعیم نے جب رے فتح کر لیا تو ان کے بھائی سوید قومس پر بڑھے اور یہ وسیع صوبہ بغیر جنگ و جدل کے قبضہ میں آ گیا۔ یہاں سے جرجان جو طبرستان کا مشہور ضلع ہے، نہایت قریب ہے۔ سوید نے وہاں کے رئیس روزبان سے نامہ پیام کیا۔ اس نے جزیہ پر صلح کر لی۔ اور معاہدہ صلح میں بتصریح لکھ دیا کہ مسلمان جرجان اور دہستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں۔ اور ملک والوں میں جو لوگ بیرونی حملوں کے روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ جرجان کی خبر سن کر طبرستان کے رئیس نے بھی جو سپہدار کہلاتا تھا اس شرط پر صلح کر لی کہ پانچ لاکھ درہم سالانہ دیا کرے گا اور مسلمانوں کو ان پر یا ان کو مسلمانوں پر کچھ حق نہ ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
آرمینیہ

(صوبہ آرمینیہ کو بلاد ارمن بھی کہتے جو ایشائے کوچک کا ایک حصہ ہے۔ شمال میں بحر اسود، جنوب میں کوہی اور صحرائی حصہ دور تک چلا گیا ہے۔ مشرق میں گرجستان اور غرب میں بلاد روم واقعہ ہیں۔ چونکہ یہ صوبہ خلافت عثمانی میں کامل فتح ہوا تھا۔ اس لئے نقشہ میں فاروقی رنگ جدا ہے۔)

بکیر جو آذربئجان کی مہم پر مامور ہوئے تھے۔ آذربیجان فتح کر کے باب کے متصل پہنچ گئے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک نئی فوج تیار کر کے ان کی مدد کو بھیجی، باب کا رئیس جس کا نام شہر براز تھا مجوسی تھا اور سلطنت ایران کا ماتحت تھا۔ مسلمانوں کی آمد کا سن کر خود حاضر ہوا۔ اور کہا مجھ کو آرمینیہ کے مکینوں سے کچھ ہمدردی نہیں ہے۔ میں ایران کی نسل سے ہوں۔ اور جب خود ایران فتح ہو چکا تو میں تمہارا مطیع ہوں، لیکن میری درخواست ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے۔ جب ضرورت پیش ائے تو فوجی امداد لی جائے۔ چونکہ جزیہ درحقیقت صرف محافظت کا معاوضہ ہے اس لیے یہ شرط منظور کر لی گئی۔ اس سے فارغ ہو کر فوجیں آگے بڑھیں۔ عبد الرحمٰن بن ربیعہ، بلخیر کی طرف جو مملکت خرز کا پائے تخت تھا، روانہ ہوئے۔ شہربراز ساتھ تھا۔ اس نے تعجب سے کہا کہ کیا ارادہ ہے؟ ہم لوگ اپنے عہد میں اسی کو غنیمت سمجھتے تھے کہ وہ لوگ ہم پر چڑھ کر نہ آئیں۔ عبد الرحمٰن نے کہا کہ " لیکن میں جب تک اس کے جگر میں گھس جاؤں باز نہیں آ سکتا۔" چنانچہ بیضا فتح کیا تھا کہ خلافت فاروقی کا زمانہ تمام ہو گیا۔ ادھر بکیر نے قان کو جہاں سے اردن کی سرحد شروع ہوتی ہے فتح کر کے اسلام کی سلطنت میں ملا لیا، حبیب بن مسلمہ اور حذیفہ نے ثقلیس اور جیال املان کا رخ کیا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہاں اسلام کا پھریرا اڑتا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا زمانہ ختم ہو گیا۔ یہ تمام مہمات حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں انجام کو پہنچیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فارس 23 ہجری (644 عیسوی)​

(حال کے جغرافیہ میں عراق کی حدود گھٹا کر فارس کی حدود بڑھا دی گئی ہیں۔ مگر ہم نے جس وقت کا نقشہ دیا ہے اس وقت فارس کے حدود یہ تھے۔ شمال میں اصفہان جنوب میں بحر فارس مشرق میں کرمان اور مغرب میں عراق۔ عرب اس کا سب سے بڑا اور مشہور شہر شیراز ہے۔)

فارس پر اگرچہ اول اول 17 ہجری میں حملہ ہوا۔ لیکن چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اجازت سے نہ تھا اور نہ اس وقت چنداں کامیابی ہوئی۔ ہم نے اس زمانے کے واقعات کے ساتھ اس کو لکھنا مناسب نہ سمجھا۔ عراق اور اہواز جو عرب کے ہمسایہ تھے فتح ہو چکے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور فارس کے بیچ میں آتشیں پہاڑ حائل ہوتا تو اچھا تھا۔ لیکن فارس سے ایک اتفاقی طور پر جنگ چھڑ گئی۔ علاء بن الحضرمی 17 ہجری میں بحرین کے عامل مقرر ہوئے۔ وہ بڑی ہمت اور حوصلہ کے آدمی تھے۔ اور چونکہ سعد بن وقاص سے بعض اسباب کی وجہ سے رقابت تھی۔ ہر میدان میں ان سے بڑھ کر قدم مارنا چاہتے تھے۔ سعد نے جب قادسیہ کی لڑائی جیتی تو علاء کو سخت رشک ہوا۔ یہاں تک کہ دربار خلافت سے اجازت تک نہ لی۔ اور فوجیں تیار کر کے دریا کی راہ فارس پر چڑھائی کر دی۔ خلید بن منذر سر لشکر تھے اور جارود بن المعلی اور سوار بن ہمام کے ماتحت الگ الگ فوجیں تھیں۔ اصطخر پہنچ کر جہاز نے لنگر کیا۔ اور فوجیں کنارے پر اتریں۔ یہاں کا حاکم ہیربد تھا۔ وہ ایک انبوہ کثیر لے کر پہنچا اور دریا اتر کر اس پار صفیں قائم کیں کہ مسلمان جہاز تک نہ پہنچ پائیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی جمعیت کم تھی۔ اور جہاز بھی گویا دشمن کے قبضے میں آ گئے تھے۔ لیکن سپہ سالار فوج کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ بڑے جوش کے ساتھ مقابلہ کو بڑھے اور فوج کو للکارا کہ مسلمانو! بے دل نہ ہونا۔ دشمن نے ہمارے جہازوں کو چھیننا چاہا ہے۔ لیکن خدا نے چاہا تو جہاز کے ساتھ دشمن کا ملک بھی ہمارا ہے۔

خلید اور جارود بڑی جانبازی سے رجز پڑھ پڑھ کر لڑے اور ہزاروں کو تہ تیغ کیا۔ جلید کا رجزیہ تھا :

یاآل عبدالقیس للنزاع
قدحفل الامداد بالجراع

وکلھم فی سنن المصاع
بحسن ضرب القوم بالقطاع​

غرض سخت معرکہ ہوا۔ اگرچہ فتح مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی، لیکن چونکہ فوج کا بڑا حصہ برباد ہو گیا، نہ بڑھ سکے۔ پیچھے ہٹنا چاہا۔ مگر غنیم نے جہاز غرق کر دیئے تھے۔ مجبور ہو کر خشکی کی راہ بصرہ کا رخ کیا۔ بدقسمتی سے ادھر بھی راہیں بند تھیں۔ ایرانیوں نے پہلے سے ہر طرف ناکے روک رکھے تھے۔ اور جابجا فوجیں متعین کر دی تھیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فارس کے حملہ کا حال معلوم ہوا تو نہایت برہم ہوئے۔ علاء کو نہایت تہدید نامہ لکھا۔ ساتھ ہی عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ مسلمانوں کے بچانے کے لیے فوراً لشکر تیار ہو اور فارس پر جائے۔ چنانچہ بارہ ہزار فوج جس کے سپہ سالار ابو سرۃ تھے تیار ہو کر فارس پر بڑھی اور مسلمان جہاں رکے پڑے تھے وہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ادھر مجوسیوں نے ہر طرف نقیب دوڑا دیئے تھے۔ اور ایک انبوہ کثیر اکٹھا کر لیا جس کا سر لشکر شہرک تھا۔ دونوں حریف دل توڑ کر لڑے۔ بالآخر ابوسرۃ نے فتح حاصل کی۔ لیکن چونکہ آگے بڑھنے کا حکم نہ تھا۔ بصرہ واپس چلے آئے۔ واقعہ نہاوند کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر طرف فوجیں روانہ کیں تو فارس پر بھی چڑھائی کی۔ اور جدا جدا فوجیں متعین کیں۔ پارسیوں نے توج کو صدر مقام قرار دے کر یہاں بڑا سامان کیا تھا۔ لیکن جب اسلامی فوجیں مختلف مقامات پر پھیل گئیں تو انکو بھی منتشر ہونا پڑا اور یہ ان کی شکست کا دیباچہ تھا۔ چنانچہ سابور، اردشیر، توج، اصطخر سب باری باری فتح ہو گئے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اخیر خلافت یعنی 23 ہجری میں جب عثمان بن ابی العاص بحرین کے عامل مقرر ہوئے تو شہرک نے جو فارس کا مرزبان تھا، بغاوت کی اور تمام مفتوحہ مقامات ہاتھ سے نکل گئے۔ عثمان نے اپنے بھائی حکم کو ایک جمیعت کثیر کے ساتھ مہم پر مامور کیا۔ حکم جزیرہ ابکادان فتح کر کے توج پر بڑھے اور اس کو فتحکر کے وہیں چھاؤنی ڈال دی۔ مسجدیں تعمیر کیں اور عرب کے بہت سے قبائل آباد کئے۔ یہاں سے کبھی کبھی اٹھ کر سرحدی شہروں پر حملہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ اس طرح اردشیر، سابور، اصطخر، ارجان کے بہت سے حصے دبا لئے۔ شہرک یہ دیکھ کر نہایت طیش میں آیا۔ اور ایک فوج عظیم جمع کر کے توج پر بڑھا۔ رامشہر پہنچا تھا کہ ادھر سے حکم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوئے۔ شہرک نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی۔ فوج کا ایک دستہ اس نے پیچھے رکھا کہ کوئی سپاہی پاؤں ہٹائے تو وہیں قتل کر دیا جائے۔ غرض جنگ شروع ہوئی اور دیر تک معرکہ رہا۔ پارسیوں کو شکست ہوئی اور شہرک جان سے مارا گیا۔ اس کے بعد عثمان نے ہر طرف فوجیں بھیج دیں۔ اس معرکہ سے تمام فارس میں دھاک بیٹھ گئی۔ عثمان نے جس طرف رخ کیا، ملک کے ملک فتح ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ گازروں، نوبند جان، ارجان، شیراز، سابور جو فارس کے صدر مقامات ہیں، خود عثمان کے ہاتھ سے فتح ہوئے۔ فساء دار البحر وغیرہ فوجیں گئیں اور کامیاب آئیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top