شمشاد
لائبریرین
محرم 14 ہجری (635 عیسوی)
رستم اب تک لڑائی کو برابر ٹالتا جاتا تھا لیکن مغیرہ کی گفتگو نے اس کو اس قدر غیرت دلائی کہ اسی وقت کمر بندی کا حکم دیا۔ نہر جو بیچ میں حائل تھی حکم دیا صبح ہوتے ہوتے پاٹ کر سڑک بنا دی جائے۔ صبح تک یہ کام انجام کو پہنچا۔ اور دوپہر سے پہلے فوج نہر کے اس پار آ گئی۔ خود سامان جنگ سے آراستہ ہوا۔ دسہری زرہیں پہنیں، سر پر خود رکھا۔ ہتھیار لگائے پھر اسپ خاصہ طلب کیا۔ اور سوار ہو کر جوش میں کہا کہ " کل عرب کو چکنا چور کر دوں گا۔" کسی سپاہی نے کہا " ہاں اگر خدا نے چاہا" بولا کہ " خدا نے نہ چاہا تب بھی۔"
فوج کو نہایت ترتیب سے آراستہ کیا۔ آگے پیچھے صفیں قائم کیں۔ قلب کے پیچھے ہاتھیوں کا قلعہ باندھا۔ ہودجوں اور عماریوں میں ہتھیار بند سپاہی بٹھائے۔ میمنہ و میسرہ کے پیچھے قلعہ کے طور پر ہاتھیوں کے پرے جمائے۔ خبر رسانی کے لیے موقع جنگ سے پایہ تخت تک کچھ کچھ فاصلے پر آدمی بیٹھا دیئے جو واقعہ پیش آتا تھا۔ موقع جنگ کا آدمی چلا کر کہتا تھا۔ اور درجہ بدرجہ مدائن تک خبر پہنچ جاتی تھی۔
قادسیہ میں ایک قدیم شاہی محل تھا جو عین میدان کے کنارے پر واقع تھا۔ سعد کو چونکہ عرق النساء کی شکایت تھی اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ اس لیے فوج کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ بالاخانے پر میدان کی طرف رخ کر کے تکیہ کے سہارے سے بیٹھے اور خالد بن عرطفہ کو اپنے بجائے سپہ سالار مقرر کیا۔ تاہم فوج کو لڑاتے خود تھے۔ یعنی جس وقت جو حکم دینا مناسب ہوتا تھا پرچوں پر لکھوا کر اور گولیاں بنا کر خالد کی طرف پھینکتے جاتے تھے۔ اور خالد انہی ہدایتوں کے موافق موقع بہ موقع لڑائی کا اسلوب بدلتے جاتے تھے۔ تمدن کے ابتدائی زمانے میں فن جنگ کا اس قدر ترقی کرنا تعجب کے قابل اور عرب کی تیزی طبع اور لیاقت جنگ کی دلیل ہے۔
فوجیں آراستہ ہو چکیں تو عرب کے مشہور شعراء اور خطیب صفوں سے نکلے اور اپنی آتش بیانی سے تمام فوج میں آگ لگا دی۔ شعرا میں شماخ، حطیئہ، اوس بن مغرا عبدۃ بن الطیب، عمرو بن معدی کرب اور خطیبوں میں قیس بن ہبیرہ، غالب بن الہذیل الاسدی، بسر بن ابی رہم الجہنی، عاصم بن عمرو، ربیع معدی، ربعی بن عامر میدان میں کھڑے تقریریں کر رہے تھے اور فوج کا یہ حال تھا کہ جیسے ان پر کوئی جادو کر رہا ہے۔ ان تقریروں کے بعض جملے یاد رکھنے کے قابل ہیں۔
ابن الہذیل اسدی کے الفاظ یہ تھے :
یا معاشر سعد اجعلوا حصونکم السیف و کونوا علیھم کاسود الا جم و ادرعوا العجاج الا بصارو اذا کلت السیوف فارسلوا الجنادل فانھا یوذن لھا فیما لا یوذن للحدید۔
"خاندان سعد! تلواروں کو قلعہ بناؤ اور دشمنوں کے مقابلے میں شیر بن کر جاؤ۔ گرد کی زرہ پہن لو اور نگاہیں نیچی کر لو۔ جب تلواریں تھک جائیں تو تیروں کی باگ چھوڑ دو کیونکہ تیروں کو جہاں بار مل جاتا ہے تلواروں کو نہیں ملتا۔"
اس کے ساتھ قاریوں نے میدان میں نکل کر نہایت خوش الحانی اور جوش سے سورۃ جہاد کی آیتیں پڑھنی شروع کیں۔ جس کی تاثیر سے دل ہل گئے۔ اور آنکھیں سرخ ہو گئیں۔
سعد نے قاعدے کے موافق تین نعرے مارے اور چوتھے پر لڑائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے ایک ایرانی قدر انداز دیبا کی قبا زیب بدن کئے، زریں کمر بند لگائے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے میدان میں آیا۔ ادھر سے عمرو بن معدی کرب اس کے مقابلے کو نکلے۔ اس نے تیر کمان میں جوڑا اور ایسا تاک کر مارا کہ یہ بال بال بچ گئے۔ انہوں نے گھوڑے کو دابا اور قریب پہنچ کر کمر میں ہاتھ ڈال کر معلق اٹھا زمین پر دے پٹکا، اور تلوار سے گردن اڑا کر فوج کی طرف مخاطب ہوئے کہ یوں لڑا کرتے ہیں" لوگوں نے کہا "ہر شخص معدی کرب کیونکر ہو سکتا ہے۔"
اس کے بعد اور بہادر دونوں طرف سے نکلے اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔ پھر عام جنگ شروع ہوئی، ایرانیوں نے بجیلہ کے رسالہ پر جو سب میں ممتاز تھا، ہاتھیوں کو ریلا، عرب کے گھوڑوں نے یہ کالے پہاڑ کہاں دیکھے تھے۔ دفعتہً بدکے منتشر ہو گئے۔ پیدل فوج ثابت قدمی سے لڑی۔ لیکن ہاتھیوں کے ریلے میں ان کے پاؤں بھی اکھڑ جاتے تھے۔ سعد نے یہ ڈھنگ دیکھ کر فوراً قبیلہ اسد کو حکم بھیجا کہ بجیلہ کو سنبھالو۔ طلیحہ نے جو قبیلہ کے سردار اور مشہور بہادر تھے، ساتھیوں سے کہا " عزیزو! سعد نے کچھ سمجھ کر تم سے مدد مانگی ہے۔ تمام قبیلے نے جوش میں آ کر باگیں اٹھائیں اور ہاتھوں میں برچھیاں لے کر ہاتھیوں پر حملہ آور ہوئے۔ ان کی پامردی سے اگرچہ یہ کالی آندھی ذرا تھم گئی لیکن ایرانیوں نے بجیلہ کو چھوڑ کر سارا زور اس طرف دیا۔ سعد نے قبیلہ تمیم کو جو تیر اندازی اور نیزہ بازی میں مشہور تھےکہلا بھیجا کہ تم سے ہاتھیوں کی کچھ تدبیر نہیں ہو سکتی؟ یہ سن کر وہ دفعتہً بڑھے اور اس قدر تیر برسائے کہ فیل نشینوں کو گرا دیا۔ پھر قریب پہنچ کر تمام ہودے اور عماریوں الٹ دیں۔ شام تک یہ ہنگامہ رہا۔ جب بالکل تاریکی چھا گئی تو دونوں حریف میدان سے ہٹے۔ قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔
سعد جس وقت بالا خانہ پر بیٹھے فوج کر لڑا رہے تھے ان کی بیوی سلمٰی بھی ان کے برابر بیٹھی تھیں۔ ایرانیوں نے جب ہاتھیوں کو ریلا اور مسلمان پیچھے ہٹے تو سعد غصے کے مارے بیتاب ہوئے جاتے تھے۔ اور بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ سلمٰی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار چلا اٹھیں کہ " افسوس آج مثنی نہ ہوا۔" سعد نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ کر مارا کہ " مثنی ہوتا تو کیا کر لیتا۔" سلمٰی نے کہا " سبحان اللہ بزدلی کیساتھ غیرت بھی۔" یہ اس بات پر طعن تھا کہ سعد خود لڑائی میں شریک نہ تھے۔
اگلے دن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلے میدان جنگ سے مقتولوں کی لاشیں اٹھوا کر دفن کرائیں اور جس قدر زخمی تھے، مرہم پٹی کے لیے عورتوں کے حوالے کئے پھر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا۔ لڑائی ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ شام کر طرف ےس غبار اتھا۔ گرد پھٹی تو معلوم ہوا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شام سے جو امدادی فوجیں بھیجی تھیں وہ آ پہنچیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس زمانے میں عراق پر حملے کی تیاریاں شروع کی تھیں اسی زمانے میں ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو شام کی مہم پر مامور تھے۔ لکھ بھیجا تھا کہ عراق کو جو فوج وہاں بھیج دی گئی تھی اس کو حکم دو کہ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فوج سے جا کر مل جائے۔ چنانچہ عین وقت پر یہ فوج پہنچی اور تائید غیبی سمجھی گئی۔ چھ ہزار سپاہی تھے۔ جن میں پانچ ہزار ربیعہ و مضر اور ہزار خاص حجاز کے تھے۔ ہاشم بن عتبہ سعد کے بھائی سپہ سالار تھے۔ اور ہراول قعتاع کی رکاب میں تھا۔ قعتاع نے پہنچتے ہی صف سے نکل کر پکارا کہ ایرانیوں میں کوئی بہادر ہو تو مقابلے کو آئے۔ ادھر سے بہمن نکلا۔ قعقاع جسر کا واقعہ یاد کر کے پکار اٹھے کہ " لینا ابو عبیدہ کا قاتل جانے نہ پائے" دونوں حریف تلوار لے کر مقابل ہوئے اور کچھ دیر کی رد و بدل کے بعد بہمن مارا گیا۔ دیر تک دونوں طرف کے بہادر تنہا تنہا میدان میں نکل کر شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ سیتان کا شہزادہ براز، اعوان بن قطبہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ بزر جمیر ہمدانی جو ایک مشہور بہادر تھا، قععاع سے لڑ کر قتل ہوا۔ غرض ہنگامہ ہونے سے پہلے ایرانی فوج نے اکثر اپنے نامور بہادر کھو دیئے۔ تاہم بڑے زور شور سے دونوں فوجیں حملہ آور ہوئیں۔ شام کی امدادی فوج کو قعقاع نے اس تدبیر سے روانہ کیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے دستے کر دیئے تھے۔ اور جب ایک دستہ میدان جنگ میں پہنچ جاتا تھا تو دوسرا ادھر سے نمودار ہوتا تھا۔ اس طرح تمام دن فوجوں کا تانتا بندھا رہا۔ اور ایرانیوں پر رعب چھاتا گیا۔ ہر دستہ اللہ اکبر کے نعرے مارتا ہوا آتا تھا قعقاع اس کے ساتھ ہو کر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہاتھیوں کے لئے قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر جھول ڈال کر ہاتھیوں کی طرح مہیب بنایا۔ یہ مصنوعی ہاتھی جس طرف رخ کرتے تھے ایرانیوں کے گھوڑے بدک کر سواروں کے قابو سے نکل جاتے تھے۔
عین ہنگامہ جنگ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قاصد پہنچے جن کے ساتھ نہایت بیش قیمت عربی گھوڑے اور تلواریں تھیں۔ ان لوگوں نے فوج کے سامنے پکار کر کہا کہ امیر المومنین نے یہ انعام ان لوگوں کو بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کر سکیں۔ چنانچہ قعقاع نے جمال بن مالک، ربیل بن عمرو و طیلحہ بن خویلد، عاصم بن عمرو التمیمی کو تلواریں حوالہ کیں اور قبیلہ یربوع کے چار بہادروں کو گھوڑے عنایت کئے۔ ربیل نے فخر کے جوش میں آ کر فی البدیہہ یہ شعر پڑھا۔
لقد علم الاقوام انا احقھم
اذا حصلوا بالمرھفات البوالر
اذا حصلوا بالمرھفات البوالر
"سب لوگوں کو معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ مستحق ہوں، جس وقت لوگوں نے کاٹنے والی نازک تلواریں پائیں۔"
جس وقت لڑائی کا ہنگامہ گرم تھا، ابو محجن ثقفی جو ایک مشہور بہادر شاعر تھے اور جن کو شراب پینے کے جرم میں سعد نے قید کر دیا تھا۔ قید خانے کے دریچے سے لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اور شجاعت کے جوش میں بے اختیار ہوتے جاتے تھے۔ آخر ضبط نہ کر سکے، سلمٰی (سعد کی بیوی) کے پاس گئے کہ خدا کے لیے اس وقت مجھ کو چھوڑ دو۔ لڑائی سے جیتا بچا تو خود آ کر بیڑیاں پہن لوں گا۔ سلمٰی نے انکار کیا۔ یہ حسرت کے ساتھ واپس آئے اور بار بار پردرد لہجہ میں یہ اشعار پڑھتے تھے۔
کفی حزناً ان تردی الخیل بالقنا
و اترک مشدوداً علی و تالیا
و اترک مشدوداً علی و تالیا
" اس سے بڑھ کر کیا غم ہو گا کہ سوار نیزہ بازیاں کر رہے ہیں، اور میں زنجیروں میں بندھا ہوا ہوں۔"
اذا قمت عنا فی الحدید و اغلفت
مصاریع من دونی لصم المنادیا
مصاریع من دونی لصم المنادیا
"جب کھڑا ہونا چاہتا ہوں تو زنجیر اٹھنے نہیں دیتی، اور دروازے اس طرح بند کر دیئے جاتے ہیں کہ پکارنے والا پکارتے پکارتے تھک جاتا ہے۔"
ان اشعار نے سلمٰی کے دل پر یہ اثر کیا کہ خود آ کر بیڑیاں کاٹ دیں۔ انہوں نے فوراً اصطبل میں جا کر سعد کے گھوڑے پر جس کا نام بلقا تھا زین کسا اور میدان جنگ پہنچ کر بھالے کے ہاتھ نکالتے ہوئے ایک دفعہ میمنہ سے میسرہ تک کا چکر لگایا۔ پھر اس زور و شور سے حملہ کیا کہ جس طرف نکل گئے صف کی صف الٹ دی۔ تمام لشکر متحیر تھا کہ یہ کون بہادر ہے۔
سعد بھی حیران تھے اور دل میں کہتے تھے کہ حملہ کا انداز ابو محجن کا ہے۔ لیک وہ قید خانے میں قید ہے۔ شام ہوئی تو ابو محجن نے آ کر خود بیڑیاں پہن لیں۔ سلمٰی نے یہ تمام حالات سعد سے بیان کئے۔ سعد نے اسی وقت ان کو رہا کر دیا اور کہا " خدا کی قسم مسلمانوں پر جو شخص یوں نثار ہو میں اس کو سزا نہیں دے سکتا۔"
ابو محجن نے کہا " بخدا میں بھی آج سے پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ (کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ 1۔
خنساء جو عرب کی مشہور شاعرہ تھی (خنساء کے واقعات نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں۔ اس کا دیوان بیروت میں چھپ گیا ہے۔ اور اس کے مفصل حالات علامہ ابو الخرج اصفہانی نے کتاب الاثانی میں لکھے ہیں۔ اصناف شعر میں، مرثیہ گوئی میں اس کا کوئی نظیر نہیں گزرا۔ چنانچہ بازار عکاظ میں اس کے خیمے کے دروازے پر ایک علم نصب کیا جاتا تھا جس پر لکھا ہوتا تھا رثی العرب یعنی تمام عرب میں سب سے بڑھ کر مرثیہ گو۔ وہ اسلام بھی لائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دربار میں حاضر ہوئی تھی)۔ اس معرکے میں شریک تھی اور اس کے چاروں بیٹھے بھی تھے۔ لڑائی جب شروع ہوئی تو اس نے بیٹوں کی طرف خطاب کیا اور کہا :
لم تئب بکم البلاد ولم تفعکم السنۃ ثم جئتم بامکم عجوز کبیرۃ فوضعنموھا بین ابدی احل فارس واللہ الکم لبنود جل واحد کما الکم بنو امراۃ واحدۃما خت اباکمولا لضحت بحالکم انطلقوا فاشھدو اول انفعال و اخرہ۔
"پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے، نہ تم پر قحط پڑا تھا۔ باوجود اس کے تم اپنی کہن سال ماں کو یہاں ہائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو، اسی طرح ایک باپ کے بھی ہو۔ میں نے تمہارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی، نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تو جاؤ آخر تک لڑو۔"
بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اٹھائیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو خنسأ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا " خدایا میرے بیٹوں کو بچانا۔"
اس دن مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول و مجروع ہوئے۔ تاہم فتح و شکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔ یہ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے۔
تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ رات کے وقت چند رسالوں اور پیدل فوج کو حکم دیا کہ پڑاؤ سے دور شام کی طرف نکل جائیں۔ پو پھٹے سو سو سوار میدان جنگ کی طرف گھوڑے اڑاتے ہوئے آئیں۔ اور رسالے اسی طرح برابر آتے جائیں۔ چنانچہ صبح ہوتے ہوتے پہلا رسالہ پہنچا۔ تمام فوج نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا۔ اور غُل پڑ گیا کہ نئی امدادی فوجیں آ گئیں۔ ساتھ ہی حملہ ہوا۔ حسن اتفاق یہ کہ ہشام، جن کو ابو عبیدہ نے شام سے مدد کے لئے بھیجا تھا، عین موقع پر سات سو سواروں کے ساتھ پہنچ گئے۔ یزد گرد کو دم دم کی خبریں پہنچتی تھیں اور وہ اور فوجیں بھیجتا جاتا تھا۔ ہشام نے فوج کی طرف خطاب کیا اور کہا تمہارے بھائیوں نے شام کو فتح کر لیا ہے اور فارس کی فتح کا جو خدا کی طرف سے وعدہ ہے وہ تمہارے ہاتھ سے پورا ہو گا۔ معمولکے موافق جنگ کا آغاز یوں ہوا کہ ایرانیوں کی فوج سے ایک پہلوان شیر کی طرح دھاڑتا ہوا میدان میں آیا۔
اس کا ڈیل ڈول دیکھ کر لوگ اس کے مقابلے سے جی چراتے تھے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے وہ ایک کمزور سپاہی کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ ایرانیوں نے تجربہ اٹھا کر ہاتھیوں کے دائیں بائیں پیدل فوجیں قائم کر دیں تھیں۔ عمرو معدی کرب نے رفیقوں سے کہا " میں مقابل ہاتھی پر حملہ کرتا ہوں، تم ساتھ رہنا، ورنہ عمرو معدی کرب مارا گیا تو پھر معدی کرب پیدا نہیں ہو گا۔" یہ کہہ کر تلوار میان سے گھسیٹ لی اور ہاتھی پر حملہ کیا۔ لیکن پیدل فوجیں جو دائیں بائیں تھیں دفعتہً ان پر ٹوٹ پڑیں اور اس قدر گر اٹھی کہ یہ نظر سے چھپ گئے۔ یہ دیکھ کر ان کی فوج حملہ آور ہوئی اور بڑے معرکے کے بعد دشمن پیچھے ہٹے۔ عمرو معدی کرب کا یہ حال تھا کہ تمام جسم خاک سے اٹا ہوا تھا۔ بدن پر جابجا برچھیوں کے زخم تھے۔ تاہم تلوار قبضے میں تھی۔ اور ہاتھ چلتا جاتا تھا۔ اسی حالت میں ایک ایرانی سوار برابر سے نکلا۔ انہوں نے اس کے گھوڑے کی دم پکڑ لی۔ ایرانی نے بار بار مہمیز کیا لیکن گھوڑا جگہ سے ہل نہ سکا، آخر سوار اتر کر بھاگ نکلا۔ اور یہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھے۔
سعد نے یہ دیکھ کر کہ ہاتھی جس طرف رخ کرتے ہیں دل کا دل چھٹ جاتا ہے۔ ضخم و سلم کو وغیرہ جو پارسی تھے اور مسلمان ہو گئے تھے، بلا کر پوچھا کہ اس بلائے سیاہ کا کیا علاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سونڈ اور آنکھیں بیکار کر دی جائیں۔ تمام غول میں دو ہاتھی نہایت مہیب اور کوہ پیکر گویا کل ہاتھیوں کے سردار تھے ۔ ایک ارض اور دوسرا اجرت کے نام سے مشہور تھا۔ سعد نے قعقاع، عاصم، حمائل، زمیل کو بلا کر کہا یہ مہم تمہارے ہاتھ ہے۔قعقاع نے پہلے کچھ سوار اور پیادے بھیج دیئے کہ ہاتھیوں کو نرغہ میں کر لیں۔ پھر خود برچھا ہاتھ میں لے کر پہلے سفید ہاتھی کی طرف بڑھے۔ عاصم بھی ساتھ تھے۔ دونوں نے ایک ساتھ برچھے مارے کہ آنکھوں میں پیوست ہو گئے۔ ہاتھی جھرجھری لے کر پیچھے ہٹا۔ ساتھ ہی قعقاع کی تلوار پڑی اور سونڈ مستک سے الگ ہو گئی۔ ادھر ربیل و حمال نے اجرب پر حملہ کیا۔ وہ زخم کھا کر بھاگا تو تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہو لئے اور دم کے دم میں یہ سیاہ بادل بالکل چھٹ گیا۔
اب بہادروں کو حوصلہ آزمائی کا موقع ملا اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دہل پڑتی تھی۔ چنانچہ اسی مناسبت سے اس معرکہ کو لیلتہ المریر کہتے ہیں۔ ایرانیوں نے فوج نئے سرے سے ترتیب دی۔ قلب میں اور دائیں بائیں تیرہ تیرہ صفیں قائم کیں۔ مسلمانوں نے بھی تمام فوج کو سمیٹ کر یکجا کیا۔ اور آگے پیچھے تین پرے جمائے۔ سب سے آگے سواروں کا رسالہ ان کے بعد پیدل فونیں اور سب سے پیچھے تیر انداز۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا تھا کہ تیسری تکبیر پر حملہ کیا جاوے لیکن ایرانیوں نے جب تیر برسانے شروع کئے تو قعقاع سے ضبط نہ ہو سکا۔ اور اپنی رکاب کی فوج لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ فوجی اصولوں کے لحاظ سے یہ حرکت نافرمانی میں داخل تھی۔ تاہم لڑائی کا ڈھنگ اور قعقاع کا جوش دیکھ کر سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے منہ بے اختیار نکلا " اللھم اغفرہ وانصرہ" یعنی اے خدا قعقاع کو معاف کرنا اور اس کا مددگار رہنا۔" قعقاع کو دیکھ کر بنو اسد اور بنو اسد کی دیکھا دیکھی نحع، بجیلہ، کندہ سب ٹوٹ پڑے۔ سعد ہر قبیلے کے حملے پر کہتے جاتے تھے کہ خدایا اس کو معاف کرنا اور یاور رہنا۔ اول اول سواروں کے رسالے نے حملہ کیا۔ لیکن ایرانی فوجیں جو دیوار کی طرح جمی کھڑی تھی۔ اس ثابت قدمی سے لڑیں کہ گھوڑے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ دیکھ کر سب گھوڑوں سے کود پڑے اور پیادہ حملہ آور ہوئے۔
ایرانیوں کا ایک رسالہ سرتاپا لوہے میں غرق تھا۔ قبیلہ حمیعہ نے اس پر حملہ کیا۔ لیکن تلواریں روہوں پر سے اچٹ اچٹ کر رہ گئیں۔ سرداران قبیلہ نے للکارا۔ سب نے کہا زرہوں پر تلواریں کام نہیں دیتیں۔ اس نے غصے میں آ کر ایک ایرانی پر برچھے کا وار کیا کمر توڑ کر نکل گیا۔ یہ دیکھ کر اوروں کو بھی ہمت ہوئی اور اس بہادری سے لڑے کہ رسالہ کا رسالہ برباد ہو گیا۔
تمام رات ہنگامہ کارزار گرم رہا۔ لوگ لڑتے لڑتے تھک کر چور ہو گئے تھے۔ اور نیند کے خمار میں ہاتھ پاؤں بیکار ہوئے جاتے تھے۔ اس پر بھی جب فتح و شکست کا فیصلہ نہ ہوا تو قعقاع نے سرداران قبائل میں سے چند نامور بہادر انتخاب کئے اور سپہ سالار فوج (رستم) کی طرف رخ کیا۔ ساتھ ہی قیس ، اشعت، عمر معدی کرب، ۔۔۔ ذی البروین نے جو اپنے اپنے قبیلے کے سردار تھے، ساتھیوں کو للکارا کہ دیکھو! یہ لوگ خدا کی راہ میں تم سے آگے نکلنے نہ پائیں اور سرداروں نے بھی جو بہادری کے ساتھ زبان آور بھی تھے اپنے قبیلوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس جوش سے تقریریں کیں کہ تمام لشکر میں ایک آگ لگ گئی۔ سوار گھوڑوں سے کود پڑے اور تیر و کمان پھینک کر تلواریں گھسیٹ لیں۔ اس جوش کے ساتھ تمام فوج سیلاب کی طرح بڑھی اور فیروزن و ہرمزان کو دباتے ہوئے رستم کے قریب پہنچ گئے۔ رستم تخت پر بیٹھا فوج کو لڑا رہا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر تخت سے کوڈ پڑا اور دیر تک مردانہ وار لڑتا رہا۔ جب زخموں سے بالکل چور ہو گیا تو بھاگ نکلا۔ بلال نامی ایک سپاہی نے تعاقب کیا۔ اتفاق سے ایک نہر سامنے آ گئی۔ رستم کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے۔ ساتھ ہی بلال بھی کودے اور ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ لائے۔ پھر تلوار سے کام تمام کر دیا۔
بلال نے لاش خچروں کے پاؤں ڈال دی۔ اور تخت پر چڑھ کر پکارے کہ " رستم کا میں نے خاتمہ کر دیا (علامہ بلاذری نے لکھا ہے کہ رستم کے قاتل کا نام معلوم نہیں۔ لیکن عمرو معدی کرب، طلحہ بن خویلد، قرط ان رحماحان تینوں نے اس پر حملہ کیا تھا۔ میں نے جو روایت لکھی ہے وہ الاخبار الطوال کی روایت ہے)۔ ایرانیوں نے دیکھا تو تخت سپہ سالار سے خالی تھا۔ تمام فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے دور تک تعاقب کیا اور ہزاروں لاشیں میدان میں بچھا دیں۔
افسوس ہے کہ اس واقعہ کو ہمارے ملک الشعراء نے قومی جوش کے اثر سے بالکل غلط لکھا ہے۔
برآمد خروسے بکروار عد
زیک سوئے رستم زیکسوئی سعد
چوویدار رستم بہ خون تیرہ گشت
جواں مرد تازی بر چیرہ گشت
زیک سوئے رستم زیکسوئی سعد
چوویدار رستم بہ خون تیرہ گشت
جواں مرد تازی بر چیرہ گشت
ہمارے شاعر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سعد اس واقعہ میں سرے سے شریک ہی نہ تھے۔
شکست کے بعد بھی چند نامور افسر جو ریاستوں کے مالک تھے میدان میں ثابت قدم رہے۔ ان میں شہریار، ۔۔۔ البرید، فرخان اہوازی، خسرو شنوم ہمدانی نے مردانہ وار جان دی۔ لیکن ہرمزان اہواز ، قارن موقع پا کر بھاگ نکلے۔ ایرانیوں کے کشتوں کا تو شمار نہ تھا۔ مسلمان بھی کم و بیش چھ ہزار کام آئے۔ اس فتح میں چونکہ سعد خود شریک جنگ نہ تھے، فوج کو ان کی طرف سے بدگمانی رہی۔ یہاں تک کہ ایک شاعر نے کہا :
و قاتلک حتی انزل اللہ نصرہ
و سعد باب القادسیۃ معصم
و سعد باب القادسیۃ معصم
" میں برابر لڑا کیا یہاں تک کہ خدا نے اپنی مدد بھیجی، لیک سعد قادسیہ کے دروازے ہی سے لپٹے رہے۔"
فابنا و قدامت نساء کثیرۃ
و نسوۃ سعد لیس فیھن ابم
و نسوۃ سعد لیس فیھن ابم
" ہم واپس پھرے تو سینکڑوں عورتیں بیوہ ہو چکی تھیں، لیکن سعد کی بیوی بیوہ نہیں ہوئی۔"
یہ اشعار اسی وقت بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ سعد نے تمام فوج کو جمع کر کے آبلوں کے زخم دکھائے اور اپنی معذوری ثابت کی۔
سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نامہ فتح لکھا اور دونوں طرف کے مقتولوں کی تفصیل لکھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ حال تھا کہ جس دن سے قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا ہر روز آفتاب نکلتے مدینے سے نکل جاتے اور قاصد کی راہ دیکھتے۔ ایک دن معمول کے موافق نکلے۔ ادھر سے ایک شتر سوار آ رہا تھا۔ بڑھ کر پوچھاکہ کدھر سے آتے ہو۔ دو سعد کا قاصد تھا اور مژدہ فتح لے کر آیا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ سعد کا قاصد ہے تو اس حالات پوچھنے شروع کئے۔ اس نے کہا کہ خدا نے مسلمانوں کو کامیاب کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رکاب کے برابر دوڑتے جاتے تھے اور حالات پوچھتے جاتے تھے۔ شتر سوار شہر میں داخل ہوا تو دیکھتا جو شخص آتا ہے ان کو "امیر المومنین کے لقب سے پکارتا ہے، ڈر سے کانپ اٹھا۔ اور کہا کہ حضرت نے مجھ کو اپنا نام کیوں نہ بتایا کہ میں اس گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا۔ " فرمایا " نہیں کچھ حرج نہیں۔ تم سلسلہ کلام کو نہ توڑو۔ چنانچہ اسی طرح اس کے رکاب کے ساتھ ساتھ گھر تک آئے۔ مدینے پہنچ کر مجمع عام میں فتح کی خوشخبری سنائی۔ اور ایک نہایت پُر اثر تقریر کی جس کا اخیر فقرہ یہ تھا۔ " مسلمانوں! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو غلام بنانا چاہتا ہوں۔ میں خدا کا غلام ہوں۔ البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا ہے۔ اگر میں اسی طرح تمہارا کام کروں کہ تم چین سے گھروں میں سوؤ تو میری سعادت ہے اور اگر یہ میری خواہش ہو کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو میری بدبختی ہے۔ میں تو کو تعلیم دینا چاہتا ہوں لیکن باتوں سے نہیں عمل سے۔"
قادسیہ کے معرکے میں جو عجم یا عرب مسلمانوں سے لڑتے تھے ان میں ایسے بھی تھے جو دل سے لڑنا نہیں چاہتے تھے، بلکہ زبردستی فوج میں پکڑے آئے تھے۔ بہت سے لوگ گھر چھوڑ گئے تھے۔ فتح کے بعد یہ لوگ سعد کے پاس آئے اور امن کی درخواست کی۔ سعد نے دربار خلافت کو لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ کو بلا کر رائے لی۔ اور سب نے بالاتفاق منظور کیا۔ غرض تمام ملک کو امن دیا گیا۔ جو لوگ گھر چھوڑ کر نکل گئے تھے۔ واپس آ کر آباد ہوتے گئے۔ رعایا کے ساتھ یہ ارتباط بڑھا کہ اکثر بزرگوں نے ان میں رشتہ داریاں کر لیں۔
ایرانیوں نے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں مقام کیا اور چونکہ یہ ایک محفوظ و مستحکم مقام تھا، اطمینان کے ساتھ جنگ کے تمام سامان مہیا کر لیے تھے اور فیرزان کو لشکر قرار دیا تھا۔ سعد نے ان کے استیصال کے لیے 15 ہجری میں بابل کا ارادہ کیا اور چند سردار آگے روانہ کئے کہ راستہ صاف کرتے جائیں۔ چنانچہ مقام برس میں بصیری سدراہ ہوا اور میدان جنگ میں زخم کھا کر بابل کی طرف بھاگ گیا۔ برسکے رئیس نے جس کا نام اسطام تھا، صلح کر لی اور بابل تک موقع بہ موقع پل تیار کرا دیئے۔ کہ اسلامی فوجیں بے تکلف گزر جائیں۔ بابل میں اگرچہ عجم کے بڑے بڑے سردار خیز جان، ہرمزان، مہران، مہرجان وغیرہ جمع تھے۔ لیکن پہلے ہی حملے میں بھاگ نکلے۔ سعد نے خود بابل میں مقام کیا اور زہرہ کی افسری میں فوجیں آگے روانہ کیں۔ عجمی فوجیں بابل سے بھاگ کر کوفی میں ٹھہری تھیں اور شہریار جو رئیس زادہ تھا ان کا سپہ سالار تھا زہرہ کوفی سے جب گزرے تو شہر یار آگے بڑھ کر مقابل ہوا اور میدان جنگ میں آ کر پکارا کہ جو بہادر تمام لشکر میں انتخاب ہو مقابلے کو آئے۔ زہرہ نے کہا میں نے خود تیرے مقابلے کا ارادہ کیا تھا، لیکن جب تیرا یہ دعویٰ ہے تو کوئی غلام تیرے مقابلے کو آ جائے گا۔ یہ کہہ کر ناہل کو جو قبیلہ تمیم کا غلام تھا اشارہ کیا۔ اس نے گھوڑا آگے بڑھایا۔ شہریار روپو کا سا تن و توش رکھتا تھا۔ ناہل کو کمزور دیکھ کر نیزہ ہاتھ سے پھینک گردن میں ہاتھ ڈال کر زور سے کھینچا اور زمین پر گرا کر سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اتفاق سے شہریار کا انگوٹھا ناہل کے منہ میں آ گیا۔ ناہل نے اس زور سے کاٹا کہ شہریار تلملا گیا۔ ناہل موقع پا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور تلوار سے پیٹ چاک کر دیا۔ شہریار نہایت عمدہ لباس اور اسلحہ سے آراستہ تھا۔ ناہل نے زرہ وغیرہ اس کے بدن سے اتار کر سعد کے آگے لا کر رکھ دیں۔ سعد نے عبرت کے لیے حکم دیا، ناہل وہی لباس اور اسلحہ سجا کر آئے۔ چنانچہ شہریار کے زرق برق لباس اور اسلحہ سے آراستہ ہو کر جب مجمع عام میں آیا تو لوگوںکی آنکھوں میں زمانے کی نیرنگیوں کی تصویر پھر گئی۔
کوثی ایک تاریخی مقام تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے یہیں قید میں رکھا تھا۔ چنانچہ قید خانے کی جگہ اب تک محفوظ تھی۔ سعد اس کی زیارت کو گئے۔ اور درود پڑھ کر آیت پڑھی " تلک الایام ۔۔۔۔۔ بین الناس"۔ کوثی سے آگے پائے تخت کے قریب ببرہ شیر ایک مقام تھا۔ یہاں ایک شاہی رسالہ رہتا تھا۔ جو ہر روز ایک بار قسم کھا کر کہتا تھا کہ " جب تک ہم ہیں سلطنت فارس میں کبھی زوال نہیں آ سکتا۔" یہاں ایک شیر پلا ہوا تھا جو کسریٰ سے بہت ہلا ہوا تھا۔ اور اسی لیے اس کو ببرۃ شیر کہتے تھے۔ سعد کا لشکرقریب پہنچا تو وہ تڑپ کر نکلا۔ لیکن ہاشم نے جو ہراول کے افسر تھے اس صفائی سے تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ سعد نے اس بہادری پر ان کی پیشانی چوم لی۔
آگے بڑھ کر سعد نے ببرۃ شہر کا محاصرہ کیا۔ اور فوج نے ادھر ادھر پھیل کر ہزاروں آدمی گرفتار کر لئے۔ شیرزاد نے جو ساباط کا رئیس تھا، سعد سے کہا یہ یہ معمولی کاشتکار ہیں۔ ان کے قید کرنے سے کیا حاصل۔ چنانچہ سعد نے ان کے نام دفتر میں درج کر لیے اور چھوڑ دیا۔ آس پاس کے تمام رئیسوں نے جزیہ قبول کر لیا۔ لیکن شہر پر قبصہ نہ ہو سکا۔ دو مہینے تک برابر محاصرہ رہا۔ ایرانی کبھی کبھی قلعہ سے نکل کر معرکہ آرا ہوتے تھے۔ ایک دن بڑے جوش و خروش سے سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں اور تیر برساتے ہوئے آ نکلے۔ مسلمانوں نے برابر کا جواب دیا۔ زہرہ جو ایک مشہور افسر تھے اور معرکوں میں سب سے آگے رہتے تھے، ان کی زرہ کی کڑیاں کہیں کہیں سے ٹوٹ گئیں تھیں۔ لوگوں نے کہا کہ اس زرہ کو بدل کر نئی پہن لیجیئے۔ بولے کہ میں ایسا خوش قسمت کہاں کہ دشمن کے تیر سب کو چھوڑ کر میری ہی طرف آئیں۔ اتفاق کہ پہلا تیر انہی کو آ کر لگا۔ لوگوں نے نکالنا چاہا تو انہوں نے منع کیا کہ جب تک یہ بدن میں ہے اسی وقت تک زندہ بھی ہوں۔ چنانچہ اسی حالت میں حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور شربراز کو جو ایک نامی افسر تھا، تلوار سے مارا۔ تھوڑی دیر لڑ کر ایرانی بھاگ نکلے اور شہر والون نے صلح کا پھریرا اڑا دیا۔
ببرۃ شیر اور مدائن میں صرف دجلہ حائل تھا۔ سعد سیرۃ شیر سے بڑھے تو آگے دجلہ تھا۔ ایرانیوں نے پہلے سے جہاں جہاں پل بنے تھے توڑ کر بیکار کر دیئے تھے۔ سعد دجلہ کے کنارے پہنچے۔ نہ پل تھا نہ کشتی، فوج سے مخاطب ہو کر کہا " براداران اسلام! دشمن نے ہر طرف سے مجبور ہر کر دریا کے دامن میں پناہ لی ہے۔ یہ مہم بھی سر کر لو تو پھر مطلع صاف ہے۔" یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ ان کو دیکھ کر اوروں نے بھی ہمت کی۔ اور دفعتہً سب نے گھوڑے دریا میں ڈال دیئے۔ دریا اگرچہ نہایت زخار اور مواج تھا، لیکن ہمت اور جوش نے طبیعتوں میں یہ استقلال پیدا کر دیا کہ موجیں برابر گھوڑوں سے آ آ کر ٹکراتی تھیں اور یہ رکاب ملا کر آپس میں باتیں کرتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ یمین و یسار کی جو ترتیب تھی اس میں بھی فرق نہ آیا۔ دوسرے کنارے پر ایرانی یہ حیرت انگیز تماشہ دیکھ رہے تھے۔ جب فوج کنارے کے قریب آ گئی تو ان کو خیال ہوا کہ یہ آدمی نہیں جن ہیں۔ چنانچہ (تاریخ طبری کے بعینہ یہیں الفاظ ہیں) " دیواں آمدند، دیواں آمدند" کہتے ہوئے بھاگے۔ تاہم سپہ سالار خرزاد تھوڑی سی فوج کے ساتھ جما رہا اور گھاٹ پر تیر اندازوں کے دستے معین کر دیئئے۔ اور ایک گروہ دریا میں اتر کر سد راہ ہوا۔ لیکن مسلمان سیلاب کی طرح بڑھتے چلے گئے اور تیر اندازوں کو خس و خاشاک کی طرح مٹاتے پار نکل آئے۔ یزدگرد نے حرم اور خاندان شاہی کو پہلے ہی حلوان روانہ کر دیا تھا۔ یہ خبر سن کر خود بھی شہر چھوڑ کر نکل گیا۔ سعد مداین میں داخل ہوئے تو ہر طرف سناٹا تھا۔ نہایت عبرت ہوئی اور بے اختیار یہ آیتیں زبان سے نکلیں۔ " کم تر کوا من جنت و عیون و زروع و مقام کریم و نع،ۃ کانوا فیھا فکھین کذلک و اورثھا قوما الحرین۔"
ایوان کسریٰ میں تخت شاہی کے بجائے منبر نصب ہوا۔ چنانچہ جمعہ کی نماز اسی میں ادا کی گئی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق میں ادا کیا گیا۔ ہمارے فقہاء کو تعجب ہو گا کہ سعد نے باوجود یہ کہ اکابر صحابہ میں سے تھے اور برسوں جناب رسالت مآب کی صحبت میں رہے تھے۔ عالمگیر و محمود کی تقلید نہیں کہ بلکہ ایوان میں جس قدر مجسم تصویریں تھیں سب برقرار رہنے دیں۔ (علامہ طبری نے جو بڑے محدث بھی تھے تصریح کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا ہے)۔
دو تین دن ٹھہر کر سعد نے حکم دیا کہ دیوانات شاہی کا خزانہ اور نادرات لا کر یکجا کئے جائیں۔ کیانی سلسلے سے لے کر نوشیرواں کے عہد تک کی ہزاروں یادگاریں تھیں۔ خاقان چین، راجہ داہر، قیصر روم، نعمان بن منذر، سیاؤش، میر ام چوبیں کی زرہیں اور تلواریں تھیں۔ کسریٰ ہرمز اور کیقباد کے خنبر تھے۔ نوشیروان کا تاج زرنگار اور ملبوس شاہی تھا۔ سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین کسا ہوا تھا، اور سیمے پر یاقوت اور زمرد سے جڑے ہوئے تھے۔ چاندنی کی ایک اونٹنی تھی جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یاقوت پروئے ہوئے تھے۔ ناقہ سوار سر سے پاؤں تک جواہرات سے مرصع تھا۔ سب سے عجیب و غریب ایک فرش تھا، جس کو ایرانی بہار کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ فرش اس غرض سے تیار کیا گیا تھا کہ جب بہار کا موسم نکل جاتا تھا تو اس پر بیٹھ کر شراب پیتے تھے۔ اس رعایت سے اس میں بہار کے تمام سامان مہیا کئے تھے۔ بیچ میں سبزی کا چمن تھا۔ چاروں طرف جدولیں تھیں۔ ہر قسمکے درکت اور درختوں میں شگوفے اور پھول پھل تھے۔ طرہ یہ کہ جو کچھ تھا زر و جواہر کا تھا۔ یعنی سونے کی زمین، زمرد کا سبزہ، پکھراج کی جدولیں، سونے چاندی کے درخت، حریر کے پتے، جواہرات کے پھل تھے۔
یہ تمام سامان فوج کی عام غارتگری میں ہاتھ آیا تھا۔ لیکن فوجی ایسے راست باز اور دیانتدار تھے کہ جس نے جو چیز پائی تھی بجنسہ لا کر افسر کے پاس حاضر کر دی۔ چنانچہ جب سب سامان لا کر سجایا گیا اور دور دور تک میدان جگمگا اٹھا تو خود سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حیرت ہوئی۔ بار بار تعجب کرتے تھےاور کہتے تھے کہ جن لوگوں نے ان نادرات کو ہاتھ نہیں لگایا، بے شبہ انتہا کے دیانتدار ہیں۔
مال غنیمت حسب قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربار خلافت میں بھیجا گیا۔ فرش اور قدیم یادگاریں بجنسہ بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے جب یہ سامان چنے گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اور استغناء پر حیرت ہوئی۔
محلم نام کا مدینہ میں ایک شخص تھا جو نہایت موزوں قامت اور خوبصورت تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا کہ نوشیروان کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں۔ یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے تھے۔ سواری کا جدا، دربار کا جدا، جشن کا جدا، تہینت کا جدا، چنانچہ باری باری تمام ملبوسات محلم کو پہنائے گئے۔ جب ملبوس خاص اور تاج زرنگار پہنا تو تماشاہیوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور دیر تک لوگ حیرت سے تکتے رہے۔ فرش کی نسبت لوگون کی رائے تھی کہ تقسیم نہ کیا جائے۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بھی یہی منشاء تھا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اصرار سے اس بہار پر بھی خزاں آئی اور دولت نوشیروانی کے مرقع کے پرزے اڑ گئے۔
یورپ کے موجودہ مذاق کے موافق یہ ایک وحشیانہ حرکت تھی لیکن ہر زمانے کا مذاق جداہے۔ وہ مقدس زمانہ جس میں زخارف دنیوی کی عزت نہیں کی جاتی تھی۔ دنیاوی یادگارونکی کیا پرواہ کر سکتا تھا۔