واقعہ بویب رمضان 14 ہجری (635 عیسوی)
اس شکست نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سخت برہم کیا۔ اور نہایت زور شور سے حملہ کی تیاریاں کیں۔ تمام عرب میں خطبا اور نقیب بھیج دیئے جنہوں نے پرجوش تقریروں سے تمام عرب میں ایک آگ لگا دی۔ اور ہر طرف سے عرب کے قبائل امنڈ ائے۔ قبیلہ ازو کا سردار محتف بن سلیم سات سو سواروں کو ساتھ لے کر آیا۔ بنو تمیم کے ہزاروں آدمی حصین بن معبد کے ساتھ آئے۔ حاتم طائی کے بیٹے عدی ایک جمعیت کثیر لے کر پہنچے، اسی طرح قبیلہ رباب جو کنانہ ختم بنو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بڑے بڑے جھتے اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ آئے، یہ جوش یہاں تک پھیلا کہ نمرو تغلب کے سرداروں نے جو مذہباً عیسائی تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ " آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے۔ اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں۔ ان دونوں سرداروں کے ساتھ ان کے قبیلے کے ہزاروں آدمی تھے اور عجم کے مقابلہ کے جوش میں لبریز تھے۔
اتفاق سے انہی دنوں انہی دنوں جریر نجلی دربار خلافت میں حاضر ہوا، یہ ایک مشہور سردار تھا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ اپنے قبیلے کا سردار مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور کر لی تھی لیکن تعمیل کی نوبت نہیں آئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے عرب کے تمام عمال کے نام احکام بھیج دیئے کہ جہاں جہاں اس قبیلے کے آدمی ہوں، تاریخ معین پر اس کے پاس پہنچ جائیں۔ جریر یہ جمعیت اعظم لے کر دوبارہ مدینہ میں حاضر ہوئے۔
ادھر مثنی نے عراق کے تمام سرحد مقامات پر نقیب بھیج کر ایک بڑی فوج جمع کر لی تھی۔ ایرانی جاسوسوں نے یہ خبریں شاہی دربار میں پہنچائیں۔ پوران دخت نے حکم دیا کہ فوج خاصہ سے بارہ ہزار سوار انتخاب کئے جائیں۔ اور مہران بن مہرویہ ہمدانی افسر مقرر کیا جائے۔ مہران کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اس نے خود عرب میں تربیت پائی تھی اور اس وجہ سے وہ عرب کے زور قوت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ کوفہ کے قریب بویب نام ایک مقام تھا، اسلامی فوجوں نے یہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ مہران پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب پہنچا اور دریائے فرات کو بیچ میں ڈال کر خیمہ زن ہوا۔ صبح ہوتے ہی فرات اتر کر بڑے سر و سامان سے لشکر آرائی شروع کیا۔ مثنی نے نہایت ترتیب سے صف درست کی، فوج کے مختلف حصے کر بڑے بڑے ناموروں کی ماتحتی میں دیئے۔ چنانچہ میمنہ پر مذعور، میسرہ پر لسیر، پیدل پر مسعود، والتیر پر عاصم، گشت کی فوج پر عصمہ کو مقرر کیا۔ لشکر آراستہ ہو چکا تو مثنی نے اس سرے سے اس سرے تک ایک بار چکر لگایا۔ اور ایک ایک علم کے پاس کھڑے ہو کر کہا " بہادرو دیکھنا تمہاری وجہ سے تمام عرب پر بدنامی کا داغ نہ آئے۔"
اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ قاعدہ تھا کہ سردار تین دفعہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ و ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسری تکبیر پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے۔ اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ مثنی نے دوسری تکبیر ابھی نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کرسے اور کچھ لوگ جوش میں آ کر صف سے آگے نکل گئے۔ مثنی نے غصے میں آ کر داڑھی دانتوں میں دبا لی، اور پکارے کہ " خدا کے لئے اسلام کو رسوا نہ کرو" اس آواز کے ساتھ فوراً لوگ پیچھے ہٹے اور جس شخص کی جہاں جگہ تھی وہیں آ کر جم گیا۔ چوتھی تکبیر کہہ کرمثنی نے حملہ کیا۔
عجمی اس طرح گرجتے ہوئے بڑھے کہ تمام میدان گونج اٹھا، مثنی نے فوج کو للکارا کہ گھبرانا نہیں یہ نامردانہ غل ہے۔ عیسائی سرداروں کو جو ساتھ تھے بلا کر کہا کہ تم اگرچہ عیسائی ہو لیکن ہم قوم ہو۔ اور آج قوم کا معاملہ ہے۔ میں مہران پر حملہ کرتا ہوں، تم ساتھ رہنا۔ انہوں نے لبیک کہا، مثنی نے ان سرداروں کو دونوں بازؤں پر لے کر حملہ کیا۔ اور پہلے حملہ میں مہران کا میمنہ توڑ کر قلب میں گھس گئے۔ عجمی دوبارہ سنبھلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مثنی نے للکارا کہ " مسلمانو! کہاں جاتے ہو، میں یہ کھڑا ہوں۔" اس آواز کے ساتھ سب پلٹ پڑے۔ (الاخبار الطوال ۔۔۔۔ حنیفہ دنیوری (طبری روایت سیف)۔ مثنی نے ان کو سمیٹ کر حملہ کیا۔ عین اس حالت میں مسعود جو مثنی کے بھائی اور مشہور بہادر تھے زخم کھا کر گرے۔ ان کی رکاب کی فوج بیدل ہوا چاہتی تھی، مثنی نے للکارا کہ " مسلمانو! میرا بھائی مارا گیا تو کچھ پروا نہیں۔ شرفا یوں ہی جان دیا کرتے ہیں۔ دیکھو تمہارے علم جھکنے نہ پائیں۔" خود مسعود نے گرتے گرتے کہا کہ " میرے مرنے سے بے دل نہ ہونا۔"
دیر تک بڑی گھمسان کی لڑائی رہی۔ انس بن ہلال جو عیسائی سردار تھا اور بڑی جانبازی سے لڑ رہا تھا زخم کھا کر گرا، مثنی نے خود گھوڑے سے اتر کر اس کو گود میں لیا۔ اور اپنے بھائی مسعود کے برابر لٹا دیا۔ مسلمانوں کی طرف کے بڑے بڑے افسر مارے گئے لیکن مثنی کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ اسی طرف بھاری رہا۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا۔ مگر کُل کا کُل برباد ہو گیا۔ شہر براز جو ایک مشہور افسر تھا۔ قرط کے ہاتھ سے مارا گیا۔، تاہم سپہ سالار مہران ثابت قدم تھا۔ اور بہادری سے تیغ بکف لڑ رہا تھا۔ کہ قبیلہ تغلب کے ایک نوجوان نے تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ مہران گھوڑے سے گرا تو نوجوان نے اچھل کر گھوڑے کے پیٹھ پر جا بیٹھا اور فخر کے لہجہ میں پکارا۔ " میں تغلب کا نوجوان ہوں اور رئیس عجم کا قاتل ہوں۔"
مہران کےقتل پر لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ عجم نہایت ابتری سے بھاگے۔ مثنی نے فوراً پُل کے پاس پہنچ کر رستہ روک لیا کہ عجم بھاگ کر نہ جانے پائیں۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ کسی لڑائی نے اس قدر بے شمار لاشیں اپنی یادگار میں نہیں چھوڑیں۔ چنانچہ مدتوں کے بعد جب مسافروں کا ادھر گزر ہوا۔ تو انہوں نے جابجا ہڈیوں کے انبار پائے۔ اس فتح کا ایک خاص اثر یہ ہوا کہ عربوں پر عجم کا جو رعب چھایا ہوا تھا جاتا رہا۔ اس کو یقین ہو گیا کہ اب سلطنت کسریٰ کے اخیر دن آ گئے۔ خود مثنی کا بیان ہے کہ اسلام سے پہلے میں بارہا عجم سے لڑ چکا ہوں۔ اس وقت سو عجمی ہزار عرب پر بھاری تھے۔ لیکن آج ایک عرب دس عجمی پر بھاری ہے۔
اس معرکہ کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقہ میں پھیل پڑے۔
جہاں اب بغداد آباد ہے اس زمانے میں وہاں بہت بڑا بازار لگتا تھا۔ مثنی نے عین بازار کے دن حملہ کیا۔ بازاری جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور بے شمار نقد اور اسباب ہاتھ آیا، پائے تخت میں یہ خبریں پہنچیں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ " زنانہ حکومت اور آپس کے اختلافات کا یہی نتیجہ ہونا تھا۔" اس وقت پوران دخت کو تخت سے اتار کر یزدگرد کو جو سولہ برس (یہ ابو حنیفہ دینوری کی روایت ہے۔ طبری نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی عمر بیان کی ہے) کا جوان تھا۔ اور خاندان کسریٰ کا وہی ایک نرینہ یادگار رہ گیا تھا۔ تخت نشین کیا۔ رستم اور فیروز جو سلطنت کے دست بازو تھے، آپس میں عناد رکھتے تھے، درباریوں نے ان سے کہا کہ اب بھی اگر تم دونوں متفق ہو کر کام نہیں کرتے تو ہم خود تمہار فیصلہ کیئے دیتے ہیں۔ غرض یزدگرد کی تخت نشینی کے ساتھ سلطنت میں نئے سرے سے جان آ گئی۔ ملکی اور فوجی افسر جہاں جہاں جس کام پر تھے، مستعد ہو گئے۔ تمام قلعے اور چھاونیاں مستحکم کر دی گئیں۔ عراق کی آبادیاں جو فتح ہو چکی تھیں عجم کا سہارا پا کر وہاں بھی بغاوت پھیل گئی۔ اور تمام مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ خبریں پہنچیں تو فوراً مثنی کو حکم بھیجا کہ فوجوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آؤ۔ اور ربیعہ و مضر کے قبائل جو عراق کی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کو طلبی کا حکم بھیج دو کہ تاریخ معین پر جمع ہو جائیں۔
اس کے ساتھ خود بڑے ساز و سامان سے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ ہر طرف نقیب دوڑائے کہ اضلاع عرب میں جہاں جہاں کوئی رئیس، صاحب تدبیر، شاعر، خطیب، اہل الرائے ہو، فوراً دربارِ خلافت میں آئے۔ چونکہ حج کا زمانہ آ چکا تھا۔ خود مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے اور حج سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہر طرف سے قبائل عرب کا طوفان امنڈ آیا۔ سعد بن ابی وقاص نے تین ہزار آدمی بھیجے۔ جن میں ایک ایک شخص تیغ و علم کا مالک تھا۔ حضر موت، صدف، مذحج، قیس، غیلان کے بڑے بڑے سردار ہزاروں کی جمعیت لے کر آئے۔ مشہور قبائل میں سے یمن کے ہزار، بنو تمیم و رباب کے چار ہزار، بنو اسد کے تین ہزار آدمی تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ حج کر کے واپس آئے تو جہاں تک نگاہ جاتی تھی، آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ حکم دیا کہ لشکر نہایت ترتیب سے آراستہ ہو۔ میں خود سپہ سالار بن کر چلوں گا۔ چنانہ ہراول پر طلحہ، میمنہ پر ۔۔۔۔۔۔، میسرہ پر عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہم کو مقرر کیا۔ فوج آراستہ ہو چکی تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کر خلافت کے کاروبار سپرد کئے اور خود مدینہ سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس مستعدی سے ایک عام جوش پیدا ہو گیا۔ اور سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں۔ صرار جو مدینہ سے تین میل پر ایک چشمہ ہے وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ اور اس سفر کی گویا پہلی منزل تھی۔ چونکہ امیر المومنین کا خود معرکہ جنگ میں جانا بعض مصلحتوں کے لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ اس لئے صرار میں فوج کو جمع کر کے تمام لوگوں سے رائے طلب کی۔ عوام نے یک زبان ہو کر کہا کہ امیر المومنین! یہ مہم آپ کے بغیر سر نہ ہو گی۔ لیکن بڑے بڑے صحابہ نے جو معاملہ کا نشیب و فراز سمجھتے تھے اس کے خلاف رائے دی۔ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا کہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں۔ اگر خدانخواستہ شکست ہوئی اور آپ کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہو کر ایک پراثر تقریر کی۔ اور عوام کی طرف خطاب کر کے کہا کہ " میں تمہاری رائے پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اکابر صحابہ اس رائے سے متفق نہیں" غرض اس پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود سپہ سالار بن کر نہ جائیں۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اور کوئی شخص اس بار گراں کے اٹھانے کے قابل نہیں ملتا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ شام کی مہمات میں مصروف تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کی گئی تو انہوں نے انکار کیا۔ لوگ اسی حیض میں تھے کہ دفعتہً عبد الرحمٰن بن عوف نے اٹھ کر کہا کہ میں نے پا لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کون؟ بولے کہ "سعد بن ابی وقاص" رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے مرتبہ کے صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت بھی مسلم تھی۔ لیکن تدبیر جنگ اور سپہ سالاری کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طرف سے اطمینان نہ تھا۔ اس بنأ پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی تردد تھا۔ لیکن جب تمام حاضرین نے عبد الرحمٰن بن عوف کی رائے کی تائید کی، چار و ناچار منظور کیا۔ تاہم احتیاط کے لحاظ سے لشکر کی تمام مہمات قبضہ اختیار میں رکھیں۔ چنانچہ ان معرکوں میں اول سے آخر تک فوج کی نقل و حرکت، حملہ کا بند و بست، لشکر کی ترتیب، فوجوں کی تقسیم وغیرہ کے متعلق ہمیشہ احکام بھیجتے رہتے تھے۔ اور ایک کام بھی ان کی خاص ہدایت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینے سے عراق تک کی فوج کی منزلیں بھی خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی نے نامزد کر دی تھیں۔ چنانچہ مؤرخ طبری نے نام بنام ان کی تصریح کر دی ہے۔
غرض سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ لشکر کا نشان چڑھایا اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ 17 – 18 منزلیں طے کر کے ثعلبہ (بلاذری نے ثعلبہ اور طبری نے ژور لکھا ہے۔ یہ دونوں مقامات آپس میں نہایت متصل اور بالکل قریب ہیں) اور یہاں مقام کیا۔ ثعلبہ کوفہ سے تین منزل پر ہے اور پانی کی افراط اور موقع کی خوبی کی وجہ سے یہاں مہینے کے مہینے بازار لگتا تھا۔ تین مہینے یہاں قیام رہا۔ مثنی موضع زی قار میں آٹھ ہزار آدمی لئے پڑے تھے۔ جن میں خاص ۔۔۔۔۔ وائل کے چھ ہزار جوان تھے۔ مثنی کو سعد کی آمد کا انتظار تھا کہ ساتھ ہو کر کوفہ پر بڑھیں۔ لیکن جسر کے معرکے میں جو زخم کھائے تھے بگڑتے گئے اور آخر اسی صدمے سے انتقال کیا۔ سعد نے ثعلبہ سے چل کر مشراف میں ڈیرے ڈالے، یہاں مثنی کے بھائی ان سے آ کر ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیئے تھے، سعد سے بیان کئے چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم تھا کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے تمام حالات لکھ کر آئیں۔ سعد نیاس مقام کا نقشہ، لشکر کا پھیلاؤ، فرود گاہ کا ڈھنگ، رسد کی کیفیت ان تمام حالات سے ان کو اطلاع دی وہاں سے سے ایک مفصل فرمان آیا۔ جس میں بہت سی ہدایتیں اور فوج کی ترتیب کے قواعد تھے۔ سعد نےان احکام کے موافق پہلے تمام فوج کا جائزہ لیا۔ جو کم و بیش تین ہزار ٹھہری۔ پھر میمنہ و میسرہ کی تقسیم کر کے ہر ایک پر جدا جدا افسر مقر کئے۔ فوج کے جدا جدا حصوں اور ان کے افسروں کی تفصیل طبری کے بیان کے موافق ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گی۔
حصہ : ہراول
نام افسر : زہرہ بن عبد اللہ بن قتادہ
مختصر حال : جاہلیت میں یہ بحرین کے بادشاہ تھے۔ رسول اللہ کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے وکیل ہو کر آئتے تھے اور اسلام لائے تھے۔
حصہ : میمنہ (دایاں حصہ)
نام افسر : عبد اللہ بن المعتصم
مختصر حال : صحابی تھے
حصہ : میسرہ (بایاں حصہ)
نام افسر : شرجیل بن السمط
مختصر حال : نوجوان آدمی تھے، مرتدین کی جنگ میں نہایت شہرت حاصل کی تھی۔
حصہ : ساقہ (پچھلا حصہ)
نام افسر : عاصم بن عمرو التمیمی
حصہ : طلایع (گشت کی فوج)
نام افسر : سود بن مالک
حصہ : مجرد (بے قاعدہ فوج)
نام افسر : سلمان ربیعہ الباہلی
حصہ : پیدل
نام افسر : جمال بن مالک الاسدی
حصہ : شتر سوار
نام افسر : عبد اللہ بن ذی السمین
حصہ : قاضی و خزانچی
نام افسر : عبد اللہ بن ربیعہ الباہلی
حصہ : راید یعنی رسد وغیرہ کا بندوبست کرنے والے
نام افسر : سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ
مختصر حال : مشہور صحابی ہیں۔ فارس کے رہنے والے تھے۔
حصہ : مترجم
نام افسر : ہلال ہجری
حصہ : منشی
نام افسر : زیاد بن ابی سفیان
حصہ : طبیب (افسوس ہے کہ طبری نے طبیبوں کے نام نہیں لکھے۔ صرف اسی قدر لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کے ساتھ طبیب بھیجے۔)
امرائے اعشار میں ستر وہ صحابہ تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، تین سو وہ جو بیعت الرضوان میں حاضر تھے۔ اسی قدر وہ بزرگ جو فتح مکہ میں شریک تھے۔ سات سو ایسے تھے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد تھے۔
سعد شراف ہی میں تھے کہ دربار خلافت سے ایک اور فرمان آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ (کوفہ سے 35 میل پر ایک چھوٹا سا شہر ہے) میں مقام کرو اور اس طرح مورچے جماؤ کہ سامنے عجم کی زمین اور پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں، تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے جاؤ اور خدانخواستہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوں کی پناہ میں آ سکو۔
قادسیہ نہایت شاداب، نہروں اور پلوں کی وجہ سے محفوظ مقام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جاہلیت میں ان مقامات سے اکثر گزرتے تھے۔ اور اس موقع کی ہیئت اور کیفیت سے واقف تھے۔ چنانچہ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو فرمان بھیجا، اس میں قادسیہ کا موقع اور محل بھی مذکور تھا۔ تاہم چونکہ پرانا تجربہ تھا۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھا کہ قادسیہ پہنچ کر سر زمین کو پورا نقشہ لکھ بھیجو کیونکہ میں نے بعض ضروری باتیں اسی وجہ سے نہیں لکھیں کہ موقعہ اور مقام کے پورے حالات مجھ کو معلوم نہ تھے۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ نہایت تفصیل سے موقع جنگ کی حدود اور حالات لکھ کر بھیجے۔ دربار خلافت سے روانگی کی اجازت آئی۔ چنانچہ سعد شراف سے چل کر عذیب پہنچے۔ یہاں عجمیوں کا میگزین رہا کرتا تھا جو مفت ہاتھ آیا۔ قادسیہ پہنچ کر سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر طرف ہرکارے دوڑائے کہ غنیم کی خبریں لائیں۔ انہوں نے آ کر بیان کیا کہ رستم (پسر فرخ زاد) جو آرمینیہ کا رئیس ہے سپہ سالاف مقرر ہوا ہے۔ اور مدائن سے چل کر ساباط میں ٹھہرا ہے۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع دی۔ وہاں سے جواب آیا کہ لڑائی سے پہلے لوگ سفیر بن کر جائیں اور ان کو اسلام کی رغبت دلائیں۔ سعد نے سرداران قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص انتخاب کئے جو مختلف صفتوں کے لحاظ سے تمام عرب میں انتخاب تھے۔ عطارد بن حاجب، اشعث بن قیس، حارث بن حسان، عاصم بن عمر، عمرو بن معدی کرب، مغیرہ بن شعبہ، معنی بن حارثہ قد و قامت اور ظاہری رعب و داب کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھے۔ نعمان بن مقرن، اسر بن ابی رہم، حملہ بن جوتیہ، منظلہ الربیع التمیمی، فرات بن حیان العجل، عدی بن سہیل، مغیرہ بن زاراہ، عقل و تدبیر اور حزم و سیاست میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔
ساسانیوں کا پائے تخت قدیم زمانے میں اصطخر تھا۔ لیکن نوشیروان نے مدائن کو دار السلطنت قرار دیا تھا۔ اسی وقت سے وہی پایہ تخت چلا آتا تھا۔ یہ مقام سعد کی فرودگاہ یعنی قادسیہ سے 30 – 40 میل کے فاصلے پر تھا۔ سفرأ گھوڑے اڑاتے ہوئے سیدھے مدائن پہنے۔ راہ میں جدھر سے گزر ہوتا تھا، تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آستانہ سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھہرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت یہ بھی کہ گھوڑوں پر زین اور ہاتھوں میں ہتھیار تک نہ تھا۔ باہم بیباکی اور دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی اور تماشائیوں پر اس کا اثر پڑتا تھا۔ گھوڑے جو سواری میں تھے رانوں سے نکلے جاتے تھے اور بار بار زمین پر ٹاپ مارتے تھے۔ چنانچہ ٹاپوں کی آواز یزدگرد کے کان تک پہنچی اور اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سفرأ آئے ہیں۔ یہ سن کر بڑی ساز و سامان سے دربار سجایا اور سفرأ کو طلب کیا۔ یہ لوگ عربی جبے پہنے کاندھوں پر یمنی چادریں ڈالے، ہاتھوں میں لوڑے لئے موزے چڑھائے دربار میں داخل ہوئے۔ پچھلے معرکوں نے تمام ایران میں عرب کی دھاک بٹھا دی تھی۔ یزد گرد نے سفیروں کو اس شان سے دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہو گئی۔
ایرانی عموماً ہر چیز سے فال لینے کے عادی تھے، یزدگرد نے پوچھا کہ عربی میں چادر کو کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برد (فارسی کے معنی کے لحاظ سے) کہاں " جہاں برد" پھر کوڑے کی عربی پوچھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ " سوط" وہ سوخت سمجھا اور بولا کہ " پارس راسوخقند" ان بدفالیوں سے سارا دربار برہم ہوا جاتا تھا۔ لیکن شاہی آداب کے لحاظ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ پھر سوال کیا کہ تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ نعمان بن مقرن جو سرگروہ تھے جواب دینے کے لیے آگے بڑھے، پہلے مختصر طور پر اسلام کے حالات بیان کئے پھر کہا کہ ہم تمام دنیا کے سامنے دو چیزیں پیش کرتے ہیں۔ جزیہ یا تلوار۔ یزدگرد نے کہا تم کو یاد نہیں کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل اور بدبخت کوئی قوم نہ تھی، تم جب کبھی ہم سے سرکشی کرتے تھے تو سرحد کے زمینداروں کو حکم بھیج دیا جاتا تھا اور وہ تمہارا بل نکال دیتے تھے۔
اس پر سب نے سکوت کیا۔ لیکن مغیرہ بن زراہ ضبط نہ کر سکے۔ اٹھ کر کہا کہ " یہ لوگ (اپنے رفیقوں کی طرف اشارہ کر کے) رؤسائے عرب ہیں۔ علم وقار کی وجہ سے زیادہ یاوہ گوئی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جو کچھ کہا یہی زیبا تھا۔ لیکن کہنے کے قابل باتیں رہ گئیں۔ انکو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت اور گمراہ تھے۔ آپس میں کٹتے مرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ لیکن خدائے تعالٰی نے ہم پر ایک پیغمبر بھیجا جو حسب و نسب میں ہم سے ممتاز تھا۔ اول اول ہم نے اس کی مخالفت کی۔ وہ سچ کہتا تھا تو ہم جھٹلاتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا تو ہم پیچھے ہٹتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی باتوں نے دلوں میں اثر کیا۔ وہ جو کچھ کہتا تھا خدا کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتا تھا، خدا کے حکم سے کرتا تھا، اس نے ہم کو حکم دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو۔ جو لوگ اسلام لائیں وہ تمام حقوق میں تمہارے برابر ہیں، جن کو اسلام سے انکار ہو، اور جزیہ پر راضی ہوں وہ اسلام کی حمایت میں ہیں۔ جس کو دونوں باتوں سے انکار ہوا، اس کے لیے تلوار ہے۔" یزدگرد غصے سے بیتاب ہو گیا اور کہا کہ اگر قاصدوں کا قتل جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ یہ کہہ کر مٹی کا ٹوکرا منگوایا اور کہا کہ تم میں سب سے معزز کون ہے؟ عاصم بن عمر نے بڑھ کر کہا " میں "۔ ملازموں نے ٹوکرا ان کے سر پر رکھ دیا۔ وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے سعد کے پاس پہنچے کہ " فتح مبارک ہو۔ دشمن نے اپنی زمین خود ہم کو دے دی۔"
اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم جو سلطنت فارس کی طرف سے اس مہم پر مامور تھا۔ ساباط میں لشکر لئے پڑا تھا۔ اور یزدگرد کی تاکید پر بھی لڑائی کو ٹالتا جاتا تھا۔ ادھر مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے۔ اور رسد کے لئے مویشی وغیرہ لوٹ لاتے تھے۔ اس عرصہ میں بعض بعض رئیس ادھر سے ادھر آ گئے۔ ان میں جوشن ماہ بھی تھا جو سرحد کی اخبار نویسی پر مامور تھا۔ اس حالت نے طول کھینچا تو رعایا جوق در جوق یزدگرد کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئی کہ اب ہماری حفاظت کی جائے ورنہ ہم اہل عرب کے مطیع ہوئے جاتے ہیں۔ چار و ناچار رستم کو مقابلے کے لئے بڑھنا پڑا۔ ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ساباط سے نکلا اور قادسیہ پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ لیکن فوج جن جن مقامات سے گزری ہر جگہ نہایت بے اعتدالیاں کیں۔ تمام افسر شراب پی کر بدمستیاں کرتے تھے اور لوگوں کے ناموس تک کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ان باتوں نے عام ملک میں یہ خیال پھیلا دیا کہ سلطنت عجم اب فنا ہوتی نظر آتی ہے۔
رستم کی فوجیں جس دن ساباط سے بڑھیں، سعد نے ہر طرف جاسوس پھیلا دیئے کہ دم دم کی خبریں بپہنچتی رہیں۔ فوج کا رنگ ڈھنگ، لشکر کشی کی ترتیب، اتارے کا رخ، ان باتوں کے دریافت کے لیے فوجی افسر متعین کئے۔ اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہو جاتا تھا۔ چنانچہ طلحہ ایک دفعہ رات کے وقت رستم کے لشکر میں لباس بدل کر گئے، ایک جگہ بیش بہا گھوڑا تھان پر بندھا دیکھا۔ تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈور سے اٹکا لی۔ اس عرصہ میں لوگ جاگ اٹھے اور ان کا تعاقب کیا۔ گھوڑے کا سوار ایک مشہور افسر تھا۔ اور ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ اس نے قریب پہنچ کر برچھی کا وار کیا۔ انہوں نے خالی دیا۔ وہ زمین پر گرا، انہوں نے جھک کر برچھی ماری کہ سینے کے پار ہو گئی۔ اس کے ساتھ دو سوار تھے۔ ان میں ایک ان کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور دوسرے نے اس شرط پر امان طلب کی کہ میں قیدی بن کر ساتھ چلتا ہوں۔ اتنے میں فوج میں ہل چل پڑ گئی اور لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے لیکن طلحہ لڑتے بھڑتے صاف نکل آئے اور ساٹھ ہزار فوج دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ قیدی نے سعد کے سامنے اسلام قبول کیا۔ اور کہا کہ دونوں سوار جو طلحہ کے ہاتھ سے مارے گئے، میرے ابن عم تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ اسلام کے بعد قیدی کا نام مسلم رکھا گیا اور اس کی وجہ سے دشمن کی فوج کے بہت سے ایسے حالات معلوم ہوئے جو اور کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتے تھے، وہ بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہا اور ہر موقع پر ثابت قدمی اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔ رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا، ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی۔ سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آئے تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے۔ سعد نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب و غریب ہیئت سے چلے۔ عرق گیر کی زرد نائی اور اسی کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار کے میان چیتھڑے لپیٹ لئے۔ اس ہیئت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے۔ ادھر ایرانیوں نے بڑے ساز و سامان سے دربار سجایا۔ دیبا کا فرش زرین، گاؤ تکئے، حریر کے پردے، صدر نشیں مرصع، ربعی فرش کے قریب آ کر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گاؤ تکئے سے اٹکا دیا۔
درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے۔ تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا۔ انہوں نے کہا میں بلایا آیا ہوں۔ تم کو اس طرح میرا آنا منظور نہیں تو میں الٹا پھر جاتا ہوں۔ درباریوں نے رستم سے عرض کی اس نے اجازت دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے۔ لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا، اس کی انی کو اس طرح فرش میں چبھوتے جاتے تھے کہ پرتکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوئے تھے جابجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر زمین پر نیزہ مارا، جو فرش کو آرپار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ " اس لئے کہ مخلوق کی بجائے خالق کی عبادت کی جائے" رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آ کر ان کے ہتھیار دیکھتے تھے اور کہتے تھے اسی سامان پر ایران کی فتح کا ارادہ ہے؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں میں بجلی سی کوند گئی۔اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لئے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیئے۔ ربعی اس وقت چلے آئے لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہا۔
اخیر سفارت میں مغیرہ گئے۔ اس دن ایرانیوں نے بڑے ٹھاٹھ سے دربار جمایا۔ جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج پہن کر کرسیوں پر بیٹھے خیمے میں دیباد سنجاب کا فرش بچھایا گیا۔ اور خدام اور منصب دار قرینے سے دو رویہ پرے جما کر کھڑے ہوئے۔ مغیرہ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر نشیں کی طرف بڑھے اور رستم کے زانو سے زانوں ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا۔ مغیرہ نے افسران دربار کی طرف خطاب کر کے کہا کہ " میں خود نہیں آیا بلکہ تم نے بلایا تھا۔ اس لئے مہمان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہ تھا۔ تمہاری طرح ہم لوگوں میں یہ دستور نہیں کہ ایک شخص خدا بن بیٹھے اور تمام لوگ اس کے آگے بندہ ہو کر گردن جھکائیں۔" مترجم نے جس نام عبود تھا حیرہ کا باشندہ تھا، اس تقریر کا ترجمہ کیا تو سارا دربار متاثر ہوا۔ اور بعض لوگ بول اٹھے کہ ہماری غلطی تھی جو ایسی قوم کو ذلیل سمجھتے تھے۔ رستم بھی شرمندہ ہوا اور ندامت مٹانے کو کہا کہ " یہ نوکروں کی غلطی تھی۔ میرا ایما یا حکم نہ تھا۔" پھر بے تکلفی کے طور پر مغیرہ کے ترکش سے تیر نکالے اور ہاتھ میں لے کر کہا کہ " ان تکلوں سے کیا ہو گا؟" مغیرہ نے کہا کہ " آگ کی لو گو چھوٹی ہے پھر بھی آگ ہے۔" رستم نے ان کی تلوار کا نیام دیکھ کر کہا " کس قدر بوسیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ " ہاں لیکن تلوار پر باڑھ ابھی رکھی گئی ہے۔" اس نوک جھونک کے بعد معاملے کی بات شروع ہوئی۔ رستم نے سلطنت کی شان و شوکت کا ذکر کر کے اظہار احسان کے طور پر کہا کہ اب بھی واپس چلے جاؤ تو ہم کو کچھ ملال نہیں بلکہ کچھ انعام دلا دیا جائے گا۔ مغیرہ نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ " اگر اسلام اور جزیہ منظور نہیں تو اس سے فیصلہ ہو گا۔" رستم غصہ سے بھڑک اٹھا اور کہا کہ آفتاب کی قسم کل تمام عرب کو برباد کروں گا۔ مغیرہ اٹھ کر چلے آئے اور صلح و آشتی کی تمام امیدوں کا خاتمہ ہو گیا۔