A Basit
محفلین
الف۔
1
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کے قبول
2
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
3
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے روکر گزار دے
4
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
5
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
6
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
7
اسد بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
تو مشق ناز کر خون دوعالم میری گردن پر
8
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
9
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو،کھیتی بھی تو،باراں بھی تو،حاصل بھی تو
10
اہل ایماں سوز کو کہتے ہیں کافر ہوگیا
آہ یا رب راز دل ان پر بھی ظاہر ہوگیا
11
اے رحمت تمام میری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
12
اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لئے
13
آہ دنیا دل سمجھتی ہے جسے،وہ دل نہیں
پہلوئے انساں میں اک ہنگامہ خاموش ہے
14
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لامکاں تیرا ہے یا میرا
15
اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
16
اے رہرو فرزانہ رستے میں اگر تیرے
گلشن ہے تو شبنم ہو،صحرا ہے تو طوفاں ہو
17
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
18
اس عالم اسباب کے ظاہر پہ نہ جانا
آثارِ عیاں اور ہے آثارِ نہاں اور
19
اسی تلاش جستجو میں کھو گیا ہوں میں
اگر نہیں ہوں توکیوں کر،جوہوں توکیا ہوں میں
20
اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا
شیشہ اک روز تو واعظ کے بغل میں ہوتا
21
اک شوخ کا بسمل کہتے ہیں مشہور ہیں اب اس نام سے ہم
فن ہم سے تڑپنے کا سیکھو واقف ہیں بہت اس کام سے ہم
22
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کے جہاں تو سما اسکے
23
اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ کچھ اپنے بل کے چل
24
اکیلا ہوں مگر آباد کر دیتا ہوں ویرانہ
بہت روئیگی میرے بعد میری شام تنہائی
25
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھرکےراستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
Abdul Basit
1
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کے قبول
2
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
3
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے روکر گزار دے
4
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
5
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
6
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
7
اسد بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
تو مشق ناز کر خون دوعالم میری گردن پر
8
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
9
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو،کھیتی بھی تو،باراں بھی تو،حاصل بھی تو
10
اہل ایماں سوز کو کہتے ہیں کافر ہوگیا
آہ یا رب راز دل ان پر بھی ظاہر ہوگیا
11
اے رحمت تمام میری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
12
اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لئے
13
آہ دنیا دل سمجھتی ہے جسے،وہ دل نہیں
پہلوئے انساں میں اک ہنگامہ خاموش ہے
14
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لامکاں تیرا ہے یا میرا
15
اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
16
اے رہرو فرزانہ رستے میں اگر تیرے
گلشن ہے تو شبنم ہو،صحرا ہے تو طوفاں ہو
17
اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
18
اس عالم اسباب کے ظاہر پہ نہ جانا
آثارِ عیاں اور ہے آثارِ نہاں اور
19
اسی تلاش جستجو میں کھو گیا ہوں میں
اگر نہیں ہوں توکیوں کر،جوہوں توکیا ہوں میں
20
اے فلک کچھ تو اثر حسن عمل میں ہوتا
شیشہ اک روز تو واعظ کے بغل میں ہوتا
21
اک شوخ کا بسمل کہتے ہیں مشہور ہیں اب اس نام سے ہم
فن ہم سے تڑپنے کا سیکھو واقف ہیں بہت اس کام سے ہم
22
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کے جہاں تو سما اسکے
23
اوروں کے بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل
بل ہے تو بل کے بل پہ کچھ اپنے بل کے چل
24
اکیلا ہوں مگر آباد کر دیتا ہوں ویرانہ
بہت روئیگی میرے بعد میری شام تنہائی
25
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
میرے گھرکےراستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
Abdul Basit