ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پانچ پراٹھے فی جلد اگرچہ کچھ زیادہ ہیں مگر کوئی بات نہیں۔۔۔:grin:

برا مت منائیے گا۔خواتین کی عادات کا تو آپ کو کافی سے زیادہ علم ہے کہ ان کے لیے سبزی سے لے کر سونے اور ہیرے جواہرات تک ہر چیز بغیر مول تول لینا آسان نہیں ہوتا۔:D
ٹھیک ہے آپ پرانی گاہک ہیں ، چار پراٹھا فی جلد دے دیجیے ۔ لیکن اس سے کم نہیں ہوگا ۔ اتنے میں تو گھر میں بھی نہیں پڑا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ سر جی اتنی روشنی سے ہی دل و دماغ میں مفہوم جگ مگ ہو گئے بس یہی پڑھتے ہوئے ایک چیز ذہن میں اور آئی کہ جب عشق ہی روٹھ گیا تو مہر کے حالات نہ صحیح قہر تو ہیں تو یہ مہمیز کیوں نہیں کر رہا سچے شعر کی تحریک کو کیوں کے شرط جب مہر اور قہر کی ہے تو ایک صورت تو اب بھی ہے اور وہ بھی شدید ۔ ۔ ۔ (پتہ نہیں میں اپنی بات پہنچا سکا یا نہیں مگر آپ کی فراست پر اعتماد ہے کہ آپ پہنچ جائنگے میرے مطمع نظر پر) ۔
شاعر اس قہر کی بات نہیں کررہا کہ جس سے ہم سب بلاتفریق گزرتے ہیں یعنی آلامِ زمانہ اور گردشِ ایام وغیرہ۔ یہاں شاعر ان خاص مصائب کی بات کررہا ہے جو محبوب اور اس کے عشق کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ عشق بذاتِ خود عاشق پر بہت ساری کڑی شرائط عائد کرتا ہے ، بہت سارے رنج و محن بخشتا ہے ۔ پہاڑ کھودنے اور دربدر پھرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اور جب محبوب مائل بہ مہر ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ظالم سماج یعنی اہلِ زمانہ کی طرف سے ظالمانہ سلوک سامنے آتا ہے ۔ شاعر اس شعر میں انہی خاص مصائب کی بات کررہا ہے ۔ جب عشق ہی روٹھ گیا تو پھر یہ مہر و قہر بھی موجود نہ رہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر ہجر کی بات نہیں کررہا بلکہ عشق کے روٹھنے کی بات کررہا ہے ۔ ہجر کے رنج و محن دوسری بات ہے ۔ زندگی سے عشق کا نکل جانا ایک الگ بات ہے ۔
اکمل میاں ، اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آئی تو پھر یوں سمجھیے:
جب منظورباٹلی والا نے پڑوس کی مہرالنساء سے عشق کیا تو طبیعت میں شعر و شاعری کوٹ کوٹ کر بلکہ کوٹ پیس کر بھری ہوئی تھی ۔ غزلوں پر غزلیں ہورہی تھیں ۔ ہر بات شعر میں کرتا تھا ۔ لیکن جس دن مسماۃ مہرالنساء بیگم باٹلی والا بن کر گھر میں تخت افروز ہوئیں صورتحال رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی ۔ دو بچوں اور پندرہ جھڑپوں کے بعد اب عشق باٹلی والا کی زندگی سے روٹھ کر جاچکا ہے۔ اب غزل دور دور تک نظر نہیں آتی ۔ بس کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے فقروں کی نثری نظم میں گفتگو کرتا ہے۔
اکمل بھائی ، اگر اب بھی شعر سمجھ میں نہیں آیاتو پھر یقیناً شعر میں کوئی گڑبڑ ہے ۔ اسے دیکھنا پڑے گا۔ :)
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
اس سوال کے تفصیلی جواب کے لیے میرا یہ ایک پرانا مرسلہ دیکھ لیجیے ۔ اور پھر اس کے بعد یہ پرانا لطیفہ نمبر 43267 پڑھ لیجیے کہ:
اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک امریکی سیاح نے دوران، سیاحت ایک مقامی دیہاتی سے دریافت کیا۔"کیا اس گاؤں میں کبھی کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے؟" دیہاتی نے ایک منٹ سوچ کر معصومیت سے جواب دیا ۔" نہیں جناب ۔ ہمارے یہاں تو ہمیشہ چھوٹے بچے ہی پیدا ہوتے ہیں۔"


کیا آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ پہلے وہ غالباً تھے اوربعد میں غالب بن گئے؟!
نہیں وہ پہلے سے یقیناً شاعر تھے بعد میں غالب بن گئے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ماشا ء اللّٰہ ، آپ کی قابلیت کے بارے میں کیا شک ہے۔ بارک اللّٰہ فیک۔
سخن فہمی اور شاعر ی ایک ہی سلسلے کے دو درجات ہیں اور یہ دونوں فطری صلاحیتیں ہیں اور قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں کسی انسان کو۔ ان دونوں صلاحیتوں کو کسی ذوق سے کورے شخص میں پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی میں موجود ہوں تو تربیت سے انہیں چمکایا ضرور جاسکتا ہے ۔
آداب تسلیمات ۔ ۔:dancing::dancing::dancing::bee::bee::bee:

قصیدہ قصیدہ قصیدہ قصیدہ
سنایا سنایا سنایا سنایا
ہمیں بھی ہمیں بھی ہمیں بھی ہمیں بھی
ہے بھایا ہے بھایا ہے بھایا ہے بھایا
:noxxx:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آداب تسلیمات ۔ ۔:dancing::dancing::dancing::bee::bee::bee:

قصیدہ قصیدہ قصیدہ قصیدہ
سنایا سنایا سنایا سنایا
ہمیں بھی ہمیں بھی ہمیں بھی ہمیں بھی
ہے بھایا ہے بھایا ہے بھایا ہے بھایا
:noxxx:
پراٹھا پراٹھا پراٹھا پراٹھا
نہیں تو نہیں تو نہیں تو نہیں تو
انگوٹھا انگوٹھا انگوٹھا

یہ کس کام پر لگادیا آپ نے مجھے اس تنقیدی نشست میں :grin:
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
استاد ہو تو محترم ظہیراحمدظہیر سر جیسا، کیا خوب ادبی جہاں بسا رکھا خود میں،
جس عمدگی سے آپ نے بیاں کیا ہے ہم جیسے عام سٹوڈنٹس بھی بآسانی سمجھ سیکھ جاتے ہیں۔
اللہ جی آپ کے علم و دانش کے سمندر میں مزید وسعتیں پیدا فرمائیں اور آپ کو صحت سلامتی والی اچھی لمبی زندگی دے آمین یارب العالمین۔
 

اکمل زیدی

محفلین
شاعر اس قہر کی بات نہیں کررہا کہ جس سے ہم سب بلاتفریق گزرتے ہیں یعنی آلامِ زمانہ اور گردشِ ایام وغیرہ۔ یہاں شاعر ان خاص مصائب کی بات کررہا ہے جو محبوب اور اس کے عشق کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ عشق بذاتِ خود عاشق پر بہت ساری کڑی شرائط عائد کرتا ہے ، بہت سارے رنج و محن بخشتا ہے ۔ پہاڑ کھودنے اور دربدر پھرنے پر مجبور کرتا ہے ۔ اور جب محبوب مائل بہ مہر ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ظالم سماج یعنی اہلِ زمانہ کی طرف سے ظالمانہ سلوک سامنے آتا ہے ۔ شاعر اس شعر میں انہی خاص مصائب کی بات کررہا ہے ۔ جب عشق ہی روٹھ گیا تو پھر یہ مہر و قہر بھی موجود نہ رہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شاعر ہجر کی بات نہیں کررہا بلکہ عشق کے روٹھنے کی بات کررہا ہے ۔ ہجر کے رنج و محن دوسری بات ہے ۔ زندگی سے عشق کا نکل جانا ایک الگ بات ہے ۔
اکمل میاں ، اگر اب بھی بات سمجھ میں نہیں آئی تو پھر یوں سمجھیے:
جب منظورباٹلی والا نے پڑوس کی مہرالنساء سے عشق کیا تو طبیعت میں شعر و شاعری کوٹ کوٹ کر بلکہ کوٹ پیس کر بھری ہوئی تھی ۔ غزلوں پر غزلیں ہورہی تھیں ۔ ہر بات شعر میں کرتا تھا ۔ لیکن جس دن مسماۃ مہرالنساء بیگم باٹلی والا بن کر گھر میں تخت افروز ہوئیں صورتحال رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی ۔ دو بچوں اور پندرہ جھڑپوں کے بعد اب عشق باٹلی والا کی زندگی سے روٹھ کر جاچکا ہے۔ اب غزل دور دور تک نظر نہیں آتی ۔ بس کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے فقروں کی نثری نظم میں گفتگو کرتا ہے۔
اکمل بھائی ، اگر اب بھی شعر سمجھ میں نہیں آیاتو پھر یقیناً شعر میں کوئی گڑبڑ ہے ۔ اسے دیکھنا پڑے گا۔ :)
بہت عمدہ سر جی ملی چلی ریٹنگ دینے کو دل کر رہا تھا قہقہ لگانے کو بھی زبردست بھی متفق بھی مگر فی الحال مجبوری ہے مگر بہت اچھے سے سمجھ آگیا۔۔۔شاندار ۔۔
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ ۔ ۔ :)
 
عرفان بھائی ، اگر مناسب سمجھیں تو تنقید کے زمرے میں یا پھر اسی لڑی میں کسی مناسب مقام پر وہ مضمون عطا کیجیے گا ۔ اس طرح کے مفید سلسلے چلتے رہنا چاہئیں ۔
ظہیر بھائی ، آپ کے حکم کی تعمیل میں مضمون پیش کر رہا ہوں . مضمون کیا ہے ، اپنے چند پسندیدہ اشعار کا ذکر ہے . :) اِس کوشش کا پس منظر بھی سن لیجیے . اِس صدی کی شروعات میں میرا انٹرنیٹ کی چند اَدَبی محافل سے گزر ہوا . ان محافل میں اُرْدُو کو رومن میں لکھنے کا رواج تھا ، اور کبھی کبھی تو پوری گفتگو ہی انگریزی میں ہوتی تھی . ان محافل میں سے ایک تھی ای بزم ڈاٹ کوم . راحل بھائی سے میری ملاقات وہیں ہوئی تھی . اس محفل كے بانی کی فرمائش پر میں نے یہ مضمون سال ۲۰۰۲ء میں انگریزی میں ترتیب دے کر وہاں پیش کیا تھا . وہ بزم تو اب وجود میں نہیں ہے ، لیکن یہ مضمون کئی سال بعد حال ہی میں ایک اور محفل میں پیش کیا گیا . جو احباب اصل مضمون میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں . https://groups.google.com/g/alt.language.urdu.poetry/c/750L7gPVmOI
بہرحال ، میں وہ مضمون اُرْدُو میں ترجمہ کر كے پیش کر رہا ہوں . یہ ترجمہ لفظ بہ لفظ نہیں ہے ، بلکہ میں نے ضرورتاََ چند معمولی تبدیلیاں بھی کی ہیں .

تخیل اور تَغَزُّل : اُرْدُو شاعری کی روح

اِس مضمون کا موضوع نیا نہیں ہے . اِس پر بہت کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے . میری خامہ فرسائی کا مقصد اپنے چند پسندیدہ اشعار کو یاد کر كے ان کا لطف دوبارہ اٹھانا ہے . اِس امر سے اگر قارئین کی اُرْدُو شاعری کی سمجھ میں اضافہ ہو جائے تو یہ میرے لیے سونے پر سہاگا كے مترادف ہو گا .

’تخیل‘ كے معنی ہیں خیالی صورت بنانے کی قوت . یہ اُرْدُو شاعری ، بلکہ کسی بھی زبان کی شاعری ، کا ایک اہم عنصر مانا جاتا ہے . تخیل کی قوت رکھنے والا شاعر ایسی ایسی باتیں سوچ سکتا ہے جو عام آدمی كے ذہن میں نہیں آتیں . دوسری طرف ’تَغَزُّل‘ كے معنی ہیں شعر کا حسن . تَغَزُّل سے شاعر ایک عام سے خیال کو بھی ایک شاہکا ر میں تبدیل کر سکتا ہے . ایسے شاعر کو زبان اور بیان پر عبور حاصل ہوتا ہے . ایک عظیم شاعر کی شاعری میں تخیل اور تَغَزُّل دونوں خوبیاں ہوتی ہیں . میں تخیل اور تَغَزُّل كے معنی چند اشعار کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کروں گا . یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اشعار مذکورہ شعرا كے كلام یا اُرْدُو شاعری کا مجموعی آئینہ نہیں ہیں ، بلکہ محض چنندہ مثالیں ہیں .

آئیے پہلے چند ایسے اشعار پر نگاہ ڈالتے ہیں جو زبان اور بیان كے لحاظ سے خاص نہیں ، تاہم اپنے خیال کی وجہ سے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں ، یعنی ایسے اشعار جن میں تخیل نمایاں ہے .

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا ( سوداؔ )
یہ شعر پڑھیے اور سوچیے کہ اِس میں ایسا کیا ہے جو لطف دیتا ہے . شعر کی زبان سادہ ہے اور اِس میں الفاظ کی کوئی جادُوگَری نہیں ہے . لیکن خیال پر غور کیجیے . سوداؔ فرماتے ہیں کہ جب خدا نے آدم کا جسم عناصر سے بنا لیا تو پایا کہ کچھ آگ بچی ہے ، اور اس آگ سے بنایا عاشق کا دِل ، یعنی وہ چیز جو ہمیشہ جلتی رہتی ہے . کیا خیال ہے !

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے ( اصغرؔ گونڈوی )
یہ شعر شاعر کی غیر معمولی فکر کی ایک اور مثال ہے . عام طور پر لوگ حوادث سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن اصغرؔ گونڈوی کا ماننا ہے کہ حوادث ہمیں مصروف رکھتے ہیں اور جد و جہد کی ترغیب دیتے ہیں . حوادث كے بغیر جینا مشکل ہے . کیا سوچ ہے !

مرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے دَر سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا ( مخمورؔ دہلوی )
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ كے پیر ٹوٹ جا ئیں ؟ شاید نہیں . لیکن مخمورؔ دہلوی کو ٹوٹے ہوئے پیروں میں بھی ایک فائدہ نظر آتا ہے . ان كے مطابق اگر پیر ٹوٹے ہوں تو محبوب كے دَر سے اٹھ کر جانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے . ایک عاشق اور کیا چاہے گا !

اور آئیے اب دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تَغَزُّل کی مثال ہیں ، یعنی ایسے اشعار جو کسی انوکھے خیال كے عكاس نہیں لیکن جن میں خیال کی ادائگی غیر معمولی ہے .

بیٹھنے کون دے ہے پِھر اس کو
جو ترے آسْتاں سے اٹھتا ہے ( میرؔ)
میرؔ کو غزل کا شہنشاہ مانا جاتا ہے . ان کے یہاں تَغَزُّل کی ڈھیروں مثالیں ہیں . میں نے یہ شعر بس یوں ہی چن لیا . ایک عاشق کو زمانہ کبھی چین سے نہیں جینے دیتا . یہ کوئی نئی بات نہیں ، لیکن میرؔ نے جس طرح یہ بات کہی ہے ، اس پر دِل سے بس واہ نکلتی ہے !

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یوں روز انقلاب آئے ( فیضؔ )
عاشق کا دِل اکثر غم سے بھرا ہوتا ہے . یہ ایک عام بات ہے اور شاعری کا دیرینہ مضمون ہے . لیکن کہنے کا انداز دیکھیے ! لفظ ’سرداری‘ پر غور کیجیے . فیضؔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ دِل کی حالت میں کئی تبدیلیاں آئیں، لیکن محبوب کا غم سب سے اوپر رہا . جنہوں نے فیضؔ کو زیادہ نہیں پڑھا ، ان کی اطلاع كے لیے عرض ہے کہ ’انقلاب‘ پر انہوں نے بہت کچھ کہا ہے . یہاں انہوں نے اِس لفظ کا استعمال عاشق كے دِل کا ماحول بیان کرنے كے لیے بخوبی کیا ہے .

کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے ( شکیبؔ جلالی )
رونے سے چہرے پر نشان پڑ جاتے ہیں . کیا یہ کوئی عجیب بات ہے ؟ کیا اِس پر کوئی ایک یادگار شعر کہہ سکتا ہے ؟ جی ہاں ، شکیبؔ جلالی کہہ سکتے ہیں . انہوں نے جس طرح مسلسل اشک باری سے چہرے پر پڑنے والے نشانوں کو بارش كے اثر سے پتھر كے گھسنے کی تشبیہ دے کر تَغَزُّل پیدا کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے .

اور آخر میں آئیے دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تخیل اور تَغَزُّل دونوں کی مثالیں ہیں .

غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ( غالبؔ )
غالبؔ كے اِس نگینے پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ، لیکن میں چند سطروں پر اکتفا کروں گا . پہلے تخیل پر غور کرتے ہیں . شمع کو ہمیشہ پروانے کی ظالم قاتل اور محفل میں توجہ كے مرکوز كے طور پر دیکھا جاتا ہے . لیکن اِس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جسے دیکھنے كے لیے غالبؔ کا تصور درکار ہے . اُنہیں شمع كے گرد چھایا ہوا اندھیرا ، اس کا رفتہ رفتہ ختم ہوتا ہوا وجود اور مسلسل جلنے کی تکلیف بھی نظر آتی ہے . اب تَغَزُّل دیکھیے . غالبؔ کہتے ہیں کہ جس طرح شمع کی مشکلیں رات بھر جلنے كے بعد صبح کسی كے بجھانے سے ہی ختم ہوتی ہیں ، اسی طرح انسان کی مشکلیں بھی موت كے ساتھ ہی ختم ہوتی ہیں ، یعنی غالبؔ نے شمع کو زندگی کی مثال کیا ہے . ’ہر رنگ میں‘ پر بھی غور فرمائیے . غالب نے ’ہر شکل میں‘ یا ’ہر حال میں‘ نہیں کہا . ’رنگ‘ نے جو رنگ پیدا کیا ہے ، اس کا جواب نہیں . اور ہاں ، غزل کی ردیف ’ہونے تک‘ نے بھی خوب سماں باندھا ہے . ( دَر اصل غالب نے ’ہوتے تک‘ کہا تھا ، لیکن یہ غزل ’ہونے تک‘ كے ساتھ ہی مشہور ہے . )

صدقے اترینگے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں
بجلیاں لے كے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی ( فانیؔ )
یہ شعر فانیؔ کےِ سخن کا آئینہ ہے . ( ان کی زیادہ تر شاعری پرسوز اور غمناک ہے . ) وہ اپنی مخصوص فکر اور مؤثر بیان كے لیے مشہور تھے . پہلے ان کا تخیل دیکھیے . فانیؔ فرماتے ہیں کہ پنچھی پنجرے سے چھوٹے ہیں . یہ ایک خوشی کا موقع ہے لہٰذا صدقہ کا مقام ہے . آپ کو علم ہو گا کہ اپنی سلامتی كے لیے لوگ اپنی دولت خرچ کر كے یا کسی جانور کو قربان کر كے صدقہ کرتے ہیں . یہاں صدقہ كے اہتمام كے لیے بجلیاں آئی ہیں ، یعنی صدقے میں پنچھیوں كے نشیمن ہی جل کر راکھ ہونے والے ہیں . فانیؔ نے پنچھیوں کی بیچارگی کا جو منظر کھینچا ہے ، اسے دیکھ کر آپ ان كے تَغَزُّل کی تعریف كے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں ؟

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے ( مستؔ کلکتوی )
یہ شعر اُرْدُو شاعری میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو یاد ہو گا ، اور اس کی وجہ ہے . اِس كے پیچھے ایک نہایت اعلیٰ خیال ہے اور اس کو بڑے سلیقے سے بیان کیا گیا ہے . عموماً مرتبہ پانے كے لیے زندہ رہ کر بڑے بڑے کام کیے جاتے ہیں ، لیکن مستؔ کلکتوی قاری کو مرتبہ پانے كے لیے مٹ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں ( تخیل . ) اور اپنے مشورے كے دفاع میں وہ دانے کی مثال دیتے ہیں جو پودا اور درخت بننے كے لیے خاک میں مل جاتا ہے ( تَغَزُّل . )

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے ( اقبالؔ )
اقبال کی فکر بےمثال تھی . ان كے جذبات میں شدت تھی اور ان كے اظہار كے لیے وہ بے حد نفیس الفاظ کا انتخاب کرتے تھے . اقبالؔ کی شاعری بلند پایہ تخیل سے بھری پڑی ہے . یہ شعر صرف ایک مثال ہے . یہاں اقبالؔ قاری کو خودی ، جو ان کا محبوب موضوع تھا ، کی بلندی پر آمادہ کر رہے ہیں ، اتنی بلندی کہ خدا بھی اس کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . اقبال نے یہاں تَغَزُّل ’بندے سے خود پوچھے‘ کہہ کر پیدا کیا ہے ورنہ یہ کہنا کافی تھا کہ خدا بندے کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . خدا عالم الغیب ہے ، اسے کچھ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے .

یہ اشعار اُرْدُو شاعری كے لا محدود سمندر کی چند بوندیں ہیں . امید ہے یہ مضمون دلچسپ ثابت ہوا ہو گا اور آپ آئندہ اُرْدُو شاعری كے مطالعہ كے دوران ایسے اشعار کی تلاش کرینگے جو تخیل اور تَغَزُّل سے بھرپور ہوں .
 
آخری تدوین:
استاد ہو تو محترم ظہیراحمدظہیر سر جیسا، کیا خوب ادبی جہاں بسا رکھا خود میں،
جس عمدگی سے آپ نے بیاں کیا ہے ہم جیسے عام سٹوڈنٹس بھی بآسانی سمجھ سیکھ جاتے ہیں۔
اللہ جی آپ کے علم و دانش کے سمندر میں مزید وسعتیں پیدا فرمائیں اور آپ کو صحت سلامتی والی اچھی لمبی زندگی دے آمین یارب العالمین۔
متفق . ظہیر بھائی کی یہاں موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں . اللہ اُنہیں سلامت رکھے ( آمین . )
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ان محافل میں سے ایک تھی ای بزم ڈاٹ کوم .
ای بزم کا نام اچھا یاد دلایا۔ یا پڑتا ہے کہ 2003 میں میں نے بھی کچھ اردو کلام لوگوں کی فرمائش پر انگلش میں ترجمہ کر کے پوسٹ کیا تھا ، اس وقت اردو تائپنگ کافی محدود حلقوں تک ہی نظر آتی تھی ۔
پاک ڈیٹا مینجمنٹ سائنسز والوں نے ایک آؤٹ لک پلگ ان بنایا تھا جو شاید آؤٹ لک ایکسپریسس میں اردو لکھتا تھا ۔

مضمون اچھا ہے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت عمدہ سر جی ملی چلی ریٹنگ دینے کو دل کر رہا تھا قہقہ لگانے کو بھی زبردست بھی متفق بھی مگر فی الحال مجبوری ہے مگر بہت اچھے سے سمجھ آگیا۔۔۔شاندار ۔۔
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ ۔ ۔ :)
ملی چلی کاہے کو۔۔۔۔ سیدھے سے املی جیسی ریٹنگ دے ڈالئیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس غزل پر تنقیدی نشست ختم ہونے میں اب دو تین روز باقی رہ گئے ہیں۔ اگرچہ میرا ارادہ تھا کہ ہر شعر پر فرداً فرداً کچھ گفتگو ہو اور ممکن ہو تو ہر شعر کے ضمن میں کچھ رہنما نکات پر روشنی ڈالی جائے لیکن ایک تو فرصت کی کچھ کمی رہی اور دوسرے یہ کہ اس نشست کا دورانیہ بھی تین ہفتے کا رہا۔ لیکن الحمدللّٰہ اس کے باوجود بھی اس غزل پر خاصی مفصل اور کارآمد گفتگو رہی۔ اب اس نشست کے آخر میں ایک اور شعر پر چند باتیں عرض کرکے میں اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں ۔
بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس شعر کا مضمون عام سا ہے۔ اس میں ناسٹالجیا (نستالجیہ) کی ایک فضا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس شعر کی نوک پلک درست کرکے اسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ایک عام اصول یہ ہے کہ جب شعر کا مضمون یا خیال عام سا ہو تو پھر شعر کو بہتر اندازِ بیان کے ذریعے اوپر اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (بہ الفاظِ دیگر تخیل اگر عام سا ہے تو پھر محاکات کو حتی الامکان بہتر بنانا چاہیے تاکہ شعریت میں اضافہ ہو)۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو غزل کے اکثر اشعار عام مضامین کے حامل ہوتے ہیں۔ نیز اردو شعرا کے ہاں مضامین کی تکرار ایک معروف حقیقت ہے۔ جو چیز ان اشعار کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ اندازِ بیان کا فرق ہے۔ اندازِ بیان کو بہتر بنانے کے لیے فصیح زبان کا استعمال اور غریب الفاظ و تراکیب سے پرہیز بہت ضروری ہے ۔ اکثر ایک عام سے خیال کو اچھے شعر میں ڈھالنے کے لیے دلچسپ پیرائے ، جدتِ بیان ، ندرتِ الفاظ ، خوبصورت تشبیہات اور علامات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ غالب کا مشہور شعر ہے:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اس کا مضمون بہت سادہ اور عام ہے یعنی ہر شخص کو ایک دن مرنا ہے۔ اس عام سے خیال کو غالب نے اپنے خوبصورت اندازِ بیان سے ایک شاہکار شعر میں ڈھال دیا۔ پہلے مصرع میں موت اور معین کے الفاظ نہ صرف ایک صوتی خوبصورتی پیدا کررہے ہیں بلکہ نہایت فصیح اور بر محل ہیں۔ یہاں موت کی جگہ مرگ استعمال نہیں کیا کیونکہ مرگ کا لفظ مفرد استعمال نہیں ہوتا ، عموماً کسی ترکیب کا حصہ ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ مرگ کا لفظ عام لوگوں کی زبان بھی نہیں۔ اسی طرح معین کے بجائے مقرر کا لفظ بھی نہیں استعمال کیا گیا۔ ایک تو مقرر صوتی طور پر ثقیل ہے دوسرے یہ کہ وقت کے تعلق سے معین کا لفظ زیادہ بر محل اور معروف ہے۔ مصرعِ ثانی اس شعر کی اصل خوبصورتی ہے۔ براہِ راست یہ کہنے کے بجائے کہ پریشان کیوں رہتے ہو ایک لطیف پیرایہ میں یہ سوال کیا گیا کہ رات بھر نیند کیوں نہیں آتی؟! رات بھر نیند نہ آنا پریشان اور متفکر ہونے کی علامت ہے۔ پہلے مصرع میں دن اور دوسرے میں رات کے پُرتضاد استعمال سے شعر میں لفظی ربط آگیا جبکہ موت اور نیند کے استعمال سے ایک معنوی ربط بھی پیدا ہوگیا۔ دوسرے مصرع کو اگر کسی اور طرح سے کہا جائے تو شعر کا لطف جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح میر نے ایک خوبصورت تشبیہ کے استعمال سے ایک نہایت عام اور سامنے کے مضمون کو اپنے اس مشہور شعر میں ڈھال دیا:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
پہلے مصرع کا پیرایۂ اظہار قابلِ غور ہے۔ کیا کہیے اور کیا کہنے کے فقرے داد و تحسین کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن کیا کہیے خصوصاً عجزِ بیان کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے مصرع میں اگر اس سوالیہ پیرائے کے بجائے بیانیہ پیرایہ استعمال کیا جائے تو شعر کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی۔ مثلاً "نازکی اس کے لب کی یوں سمجھو" کہا جائے تو شعر گر جائے گا۔ اسی طرح دوسرے مصرع میں لفظ "سی" نے تشبیہ کے اندر تشبیہ کا پہلو پیدا کرکے شعر کی لطافت کو بڑھادیا ہے۔ اس ساری گفتگو سے یہ نکتہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک عام شعری خیال یا مضمون کو منفرد اور اچھوتے اندازِ بیان کے استعمال سے اچھے اور کامیاب شعر کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اردو غزل کی شاعری ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ داغ کے اکثر اشعار میں رفعتِ خیال کے بجائے زبان کی نزاکتیں نظر آتی ہیں۔ اس کی شاعری بامحاورہ ، فصیح ، صاف ستھری نفیس زبان کے استعمال سے جگمگارہی ہے۔ اس ساری گفتگو سے اگر کوئی بات سیکھی جاسکتی ہے تو وہ یہ کہ اچھی غزل لکھنے کے لیے زبان وبیان پر قدرت ہونا بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تشبیہات ، استعارات و علامات اور غزل کی روایات سے واقفیت بھی لازمی ہے۔
اب اس سے پہلے کہ شاعرہ موصوفہ اپنے شتونگڑوں سمیت اس عاجز پر حملہ آور ہوں کہ یہ تنقیدی نشست میؔر و غالؔب کی غزل پر نہیں بلکہ ان کی غزل پر منعقد ہورہی ہے میں ان کے محولہ بالا شعر پر ہیلمٹ پہن کر کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔:)
بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس شعر کے مصرعِ ثانی میں "یادوں کے جھروکوں" کی بندش صوتی طور پر بے رنگ اور غیر دلچسپ ہے۔ اسی طرح مصرع اول میں "لمحات کی بارات" بھی صوتی اتار چڑھاؤ سے عاری ہے۔ مصرع اول کے آخر میں "کہیں" کا لفظ حشو و زائد میں شمار ہوگا۔ دوسرے مصرع میں چونکہ "یاد" کا لفظ آگیا ہے اس لیے مصرع اول میں لمحات کو "بیتے" کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ میری ایک تجویز یوں ہے:
جیسے بارات گزرتی ہو حسیں لمحوں کی
اس طرح یاد جھروکے سے جھلکتی ہے غزل
بارات کی مناسبت سے لمحوں کے لیے حسین کی صفت لانا معقول ہے ۔ چونکہ دوسرے مصرع میں "اس طرح" استعمال کیا گیا ہے اس لیے مصرع اول میں "جیسے" کے استعمال سے مصرعے مربوط ہوجاتے ہیں۔ یادوں کے جھروکوں کے بجائے یاد جھروکا نسبتاً منفرد ترکیب ہے ۔ ان تجاویز کے پس پردہ وہی اصول کارفرما ہے جو تفصیل سے اوپر بیان کیا گیا یعنی جب مضمون عام سا ہو تو شعر کا اندازِ بیان بہتر سے بہتر بنانا چاہیے۔

میں آخر میں شاعرہ صابرہ امین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنی خوبصورت غزل اس تنقیدی نشست میں گفتگو کے لیے پیش کی ، شرکائے محفل کی طرف سے کیے گئے تبصروں اور تجاویز کو بغور ملاحظہ کیا اور مکالمات میں شریک رہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اس نشست میں اٹھائے گئے نکات آپ کے شعری سفر میں مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔ میری نیک خواہشات اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
استاد ہو تو محترم ظہیراحمدظہیر سر جیسا، کیا خوب ادبی جہاں بسا رکھا خود میں،
جس عمدگی سے آپ نے بیاں کیا ہے ہم جیسے عام سٹوڈنٹس بھی بآسانی سمجھ سیکھ جاتے ہیں۔
اللہ جی آپ کے علم و دانش کے سمندر میں مزید وسعتیں پیدا فرمائیں اور آپ کو صحت سلامتی والی اچھی لمبی زندگی دے آمین یارب العالمین۔
لاریب اخلاص ، حسنِ ظن اور کلماتِ تحسین کے لیے بہت شکریہ! بخدا میں استاد نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اردو شعر و ادب کا ایک طالب علم ہوں ۔ جو کچھ میں نے کتابوں اور اپنے استادوں سے حاصل کیا اسے آگے تک پہنچانے کی ایک سعی کرتا ہوں اور اس کوشش میں خود بہت کچھ حاصل بھی کرتا ہوں ۔ اردو محفل سیکھنے سکھانے کی ایک جگہ ہے ۔ سنجیدہ ادبی گفتگو میں استفادہ ہمیشہ دوطرفہ ہوتا ہے ۔ آپ اس دھاگے میں تشریف لائیں ، بہت خوشی ہوئی ۔ اگر آپ غزل کے کسی شعر پر اپنی وقیع رائے کا اظہار بھی فرمائیں تو اور اچھا ہوگا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اس غزل پر تنقیدی نشست ختم ہونے میں اب دو تین روز باقی رہ گئے ہیں۔ اگرچہ میرا ارادہ تھا کہ ہر شعر پر فرداً فرداً کچھ گفتگو ہو اور ممکن ہو تو ہر شعر کے ضمن میں کچھ رہنما نکات پر روشنی ڈالی جائے لیکن ایک تو فرصت کی کچھ کمی رہی اور دوسرے یہ کہ اس نشست کا دورانیہ بھی تین ہفتے کا رہا۔ لیکن الحمدللّٰہ اس کے باوجود بھی اس غزل پر خاصی مفصل اور کارآمد گفتگو رہی۔ اب اس نشست کے آخر میں ایک اور شعر پر چند باتیں عرض کرکے میں اپنی گفتگو کا اختتام کرتا ہوں ۔


اس شعر کا مضمون عام سا ہے۔ اس میں ناسٹالجیا (نستالجیہ) کی ایک فضا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس شعر کی نوک پلک درست کرکے اسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ایک عام اصول یہ ہے کہ جب شعر کا مضمون یا خیال عام سا ہو تو پھر شعر کو بہتر اندازِ بیان کے ذریعے اوپر اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (بہ الفاظِ دیگر تخیل اگر عام سا ہے تو پھر محاکات کو حتی الامکان بہتر بنانا چاہیے تاکہ شعریت میں اضافہ ہو)۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو غزل کے اکثر اشعار عام مضامین کے حامل ہوتے ہیں۔ نیز اردو شعرا کے ہاں مضامین کی تکرار ایک معروف حقیقت ہے۔ جو چیز ان اشعار کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ اندازِ بیان کا فرق ہے۔ اندازِ بیان کو بہتر بنانے کے لیے فصیح زبان کا استعمال اور غریب الفاظ و تراکیب سے پرہیز بہت ضروری ہے ۔ اکثر ایک عام سے خیال کو اچھے شعر میں ڈھالنے کے لیے دلچسپ پیرائے ، جدتِ بیان ، ندرتِ الفاظ ، خوبصورت تشبیہات اور علامات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ غالب کا مشہور شعر ہے:
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اس کا مضمون بہت سادہ اور عام ہے یعنی ہر شخص کو ایک دن مرنا ہے۔ اس عام سے خیال کو غالب نے اپنے خوبصورت اندازِ بیان سے ایک شاہکار شعر میں ڈھال دیا۔ پہلے مصرع میں موت اور معین کے الفاظ نہ صرف ایک صوتی خوبصورتی پیدا کررہے ہیں بلکہ نہایت فصیح اور بر محل ہیں۔ یہاں موت کی جگہ مرگ استعمال نہیں کیا کیونکہ مرگ کا لفظ مفرد استعمال نہیں ہوتا ، عموماً کسی ترکیب کا حصہ ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ مرگ کا لفظ عام لوگوں کی زبان بھی نہیں۔ اسی طرح معین کے بجائے مقرر کا لفظ بھی نہیں استعمال کیا گیا۔ ایک تو مقرر صوتی طور پر ثقیل ہے دوسرے یہ کہ وقت کے تعلق سے معین کا لفظ زیادہ بر محل اور معروف ہے۔ مصرعِ ثانی اس شعر کی اصل خوبصورتی ہے۔ براہِ راست یہ کہنے کے بجائے کہ پریشان کیوں رہتے ہو ایک لطیف پیرایہ میں یہ سوال کیا گیا کہ رات بھر نیند کیوں نہیں آتی؟! رات بھر نیند نہ آنا پریشان اور متفکر ہونے کی علامت ہے۔ پہلے مصرع میں دن اور دوسرے میں رات کے پُرتضاد استعمال سے شعر میں لفظی ربط آگیا جبکہ موت اور نیند کے استعمال سے ایک معنوی ربط بھی پیدا ہوگیا۔ دوسرے مصرع کو اگر کسی اور طرح سے کہا جائے تو شعر کا لطف جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح میر نے ایک خوبصورت تشبیہ کے استعمال سے ایک نہایت عام اور سامنے کے مضمون کو اپنے اس مشہور شعر میں ڈھال دیا:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
پہلے مصرع کا پیرایۂ اظہار قابلِ غور ہے۔ کیا کہیے اور کیا کہنے کے فقرے داد و تحسین کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن کیا کہیے خصوصاً عجزِ بیان کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے مصرع میں اگر اس سوالیہ پیرائے کے بجائے بیانیہ پیرایہ استعمال کیا جائے تو شعر کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی۔ مثلاً "نازکی اس کے لب کی یوں سمجھو" کہا جائے تو شعر گر جائے گا۔ اسی طرح دوسرے مصرع میں لفظ "سی" نے تشبیہ کے اندر تشبیہ کا پہلو پیدا کرکے شعر کی لطافت کو بڑھادیا ہے۔ اس ساری گفتگو سے یہ نکتہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک عام شعری خیال یا مضمون کو منفرد اور اچھوتے اندازِ بیان کے استعمال سے اچھے اور کامیاب شعر کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اردو غزل کی شاعری ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ داغ کے اکثر اشعار میں رفعتِ خیال کے بجائے زبان کی نزاکتیں نظر آتی ہیں۔ اس کی شاعری بامحاورہ ، فصیح ، صاف ستھری نفیس زبان کے استعمال سے جگمگارہی ہے۔ اس ساری گفتگو سے اگر کوئی بات سیکھی جاسکتی ہے تو وہ یہ کہ اچھی غزل لکھنے کے لیے زبان وبیان پر قدرت ہونا بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تشبیہات ، استعارات و علامات اور غزل کی روایات سے واقفیت بھی لازمی ہے۔
اب اس سے پہلے کہ شاعرہ موصوفہ اپنے شتونگڑوں سمیت اس عاجز پر حملہ آور ہوں کہ یہ تنقیدی نشست میؔر و غالؔب کی غزل پر نہیں بلکہ ان کی غزل پر منعقد ہورہی ہے میں ان کے محولہ بالا شعر پر ہیلمٹ پہن کر کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔:)
بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں
ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

اس شعر کے مصرعِ ثانی میں "یادوں کے جھروکوں" کی بندش صوتی طور پر بے رنگ اور غیر دلچسپ ہے۔ اسی طرح مصرع اول میں "لمحات کی بارات" بھی صوتی اتار چڑھاؤ سے عاری ہے۔ مصرع اول کے آخر میں "کہیں" کا لفظ حشو و زائد میں شمار ہوگا۔ دوسرے مصرع میں چونکہ "یاد" کا لفظ آگیا ہے اس لیے مصرع اول میں لمحات کو "بیتے" کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ میری ایک تجویز یوں ہے:
جیسے بارات گزرتی ہو حسیں لمحوں کی
اس طرح یاد جھروکے سے جھلکتی ہے غزل
بارات کی مناسبت سے لمحوں کے لیے حسین کی صفت لانا معقول ہے ۔ چونکہ دوسرے مصرع میں "اس طرح" استعمال کیا گیا ہے اس لیے مصرع اول میں "جیسے" کے استعمال سے مصرعے مربوط ہوجاتے ہیں۔ یادوں کے جھروکوں کے بجائے یاد جھروکا نسبتاً منفرد ترکیب ہے ۔ ان تجاویز کے پس پردہ وہی اصول کارفرما ہے جو تفصیل سے اوپر بیان کیا گیا یعنی جب مضمون عام سا ہو تو شعر کا اندازِ بیان بہتر سے بہتر بنانا چاہیے۔

میں آخر میں شاعرہ صابرہ امین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنی خوبصورت غزل اس تنقیدی نشست میں گفتگو کے لیے پیش کی ، شرکائے محفل کی طرف سے کیے گئے تبصروں اور تجاویز کو بغور ملاحظہ کیا اور مکالمات میں شریک رہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اس نشست میں اٹھائے گئے نکات آپ کے شعری سفر میں مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔ میری نیک خواہشات اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
کافی دیر سے مناسب الفاظ کی تلاش میں ہوں کہ کیسے آپ سب کا شکریہ ادا کروں۔ سب سے پہلے جاسمن بہن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے اردو محفل کی مدیر ہونے کا حق بخوبی ادا کیا اور اس محفل میں اردو کی ترقی اور ترویج کے سلسلے کی ایک کڑی اس تنقیدی نشست میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ میں آپ کی اس سنجیدہ کوشش پر دل سے ممنون اور مشکور ہوں۔
ظہیر احمد ظہیر بھائی نے بھی ایک مجھ جیسی شاعرہ کو شاعری کے وہ پہلو سمجھانے کی کوشش کی جن سے میں آشنا نہ تھی۔ آپ کی تمام تر اصلاح و رہنمائی نے مجھے شاعری کے مختلف پہلوؤں پر مزید پڑھنے اور سمجھنے پر آمادہ کر دیا ہے بلکہ اگر یہ کہوں کہ مجبور کر دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔آپ کی اس محفل میں موجودگی اور مجھ جیسے شاعروں پر نظر کرم اس بات کا ثبوت ہے کہ؎

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

آپ کے تنقیدی نکات اور حوصلہ افزاء کلمات میرے لیے نہایت قیمتی ہیں۔

اسی طرح میں عرفان علوی بھائی کی بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر بہت سہل انداز میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ ایسی نشستوں کا انعقاد اور اور تسلسل ہی اردو محفل کو تمام دوسرے پلیٹفارمز سے منفرد بناتا ہے۔ اس کو جاری و ساری رہنا چاہیے۔
ان تمام احباب کا بھی شکریہ جنہوں نے یہاں شرکت کی اور اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
آخر میں اردو محفل کے بانیان اور اس کو قائم و دائم رکھنے والوں کا شکریہ کہ یہ تنقیدی نشست انہی کی بدولت ممکن ہو سکی۔
اردو زبان زندہ باد، اردو محفل پائندہ باد!
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
ظہیر بھائی ، آپ کے حکم کی تعمیل میں مضمون پیش کر رہا ہوں . مضمون کیا ہے ، اپنے چند پسندیدہ اشعار کا ذکر ہے . :) اِس کوشش کا پس منظر بھی سن لیجیے . اِس صدی کی شروعات میں میرا انٹرنیٹ کی چند اَدَبی محافل سے گزر ہوا . ان محافل میں اُرْدُو کو رومن میں لکھنے کا رواج تھا ، اور کبھی کبھی تو پوری گفتگو ہی انگریزی میں ہوتی تھی . ان محافل میں سے ایک تھی ای بزم ڈاٹ کوم . راحل بھائی سے میری ملاقات وہیں ہوئی تھی . اس محفل كے بانی کی فرمائش پر میں نے یہ مضمون سال ۲۰۰۲ء میں انگریزی میں ترتیب دے کر وہاں پیش کیا تھا . وہ بزم تو اب وجود میں نہیں ہے ، لیکن یہ مضمون کئی سال بعد حال ہی میں ایک اور محفل میں پیش کیا گیا . جو احباب اصل مضمون میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں . https://groups.google.com/g/alt.language.urdu.poetry/c/750L7gPVmOI
بہرحال ، میں وہ مضمون اُرْدُو میں ترجمہ کر كے پیش کر رہا ہوں . یہ ترجمہ لفظ بہ لفظ نہیں ہے ، بلکہ میں نے ضرورتاََ چند معمولی تبدیلیاں بھی کی ہیں .

تخیل اور تَغَزُّل : اُرْدُو شاعری کی روح

اِس مضمون کا موضوع نیا نہیں ہے . اِس پر بہت کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے . میری خامہ فرسائی کا مقصد اپنے چند پسندیدہ اشعار کو یاد کر كے ان کا لطف دوبارہ اٹھانا ہے . اِس امر سے اگر قارئین کی اُرْدُو شاعری کی سمجھ میں اضافہ ہو جائے تو یہ میرے لیے سونے پر سہاگا كے مترادف ہو گا .

’تخیل‘ كے معنی ہیں خیالی صورت بنانے کی قوت . یہ اُرْدُو شاعری ، بلکہ کسی بھی زبان کی شاعری ، کا ایک اہم عنصر مانا جاتا ہے . تخیل کی قوت رکھنے والا شاعر ایسی ایسی باتیں سوچ سکتا ہے جو عام آدمی كے ذہن میں نہیں آتیں . دوسری طرف ’تَغَزُّل‘ كے معنی ہیں شعر کا حسن . تَغَزُّل سے شاعر ایک عام سے خیال کو بھی ایک شاہکا ر میں تبدیل کر سکتا ہے . ایسے شاعر کو زبان اور بیان پر عبور حاصل ہوتا ہے . ایک عظیم شاعر کی شاعری میں تخیل اور تَغَزُّل دونوں خوبیاں ہوتی ہیں . میں تخیل اور تَغَزُّل كے معنی چند اشعار کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کروں گا . یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اشعار مذکورہ شعرا كے كلام یا اُرْدُو شاعری کا مجموعی آئینہ نہیں ہیں ، بلکہ محض چنندہ مثالیں ہیں .

آئیے پہلے چند ایسے اشعار پر نگاہ ڈالتے ہیں جو زبان اور بیان كے لحاظ سے خاص نہیں ، تاہم اپنے خیال کی وجہ سے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں ، یعنی ایسے اشعار جن میں تخیل نمایاں ہے .

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا ( سوداؔ )
یہ شعر پڑھیے اور سوچیے کہ اِس میں ایسا کیا ہے جو لطف دیتا ہے . شعر کی زبان سادہ ہے اور اِس میں الفاظ کی کوئی جادُوگَری نہیں ہے . لیکن خیال پر غور کیجیے . سوداؔ فرماتے ہیں کہ جب خدا نے آدم کا جسم عناصر سے بنا لیا تو پایا کہ کچھ آگ بچی ہے ، اور اس آگ سے بنایا عاشق کا دِل ، یعنی وہ چیز جو ہمیشہ جلتی رہتی ہے . کیا خیال ہے !

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے ( اصغرؔ گونڈوی )
یہ شعر شاعر کی غیر معمولی فکر کی ایک اور مثال ہے . عام طور پر لوگ حوادث سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن اصغرؔ گونڈوی کا ماننا ہے کہ حوادث ہمیں مصروف رکھتے ہیں اور جد و جہد کی ترغیب دیتے ہیں . حوادث كے بغیر جینا مشکل ہے . کیا سوچ ہے !

مرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے دَر سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا ( مخمورؔ دہلوی )
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ كے پیر ٹوٹ جا ئیں ؟ شاید نہیں . لیکن مخمورؔ دہلوی کو ٹوٹے ہوئے پیروں میں بھی ایک فائدہ نظر آتا ہے . ان كے مطابق اگر پیر ٹوٹے ہوں تو محبوب كے دَر سے اٹھ کر جانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے . ایک عاشق اور کیا چاہے گا !

اور آئیے اب دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تَغَزُّل کی مثال ہیں ، یعنی ایسے اشعار جو کسی انوکھے خیال كے عكاس نہیں لیکن جن میں خیال کی ادائگی غیر معمولی ہے .

بیٹھنے کون دے ہے پِھر اس کو
جو ترے آسْتاں سے اٹھتا ہے ( میرؔ)
میرؔ کو غزل کا شہنشاہ مانا جاتا ہے . ان کے یہاں تَغَزُّل کی ڈھیروں مثالیں ہیں . میں نے یہ شعر بس یوں ہی چن لیا . ایک عاشق کو زمانہ کبھی چین سے نہیں جینے دیتا . یہ کوئی نئی بات نہیں ، لیکن میرؔ نے جس طرح یہ بات کہی ہے ، اس پر دِل سے بس واہ نکلتی ہے !

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یوں روز انقلاب آئے ( فیضؔ )
عاشق کا دِل اکثر غم سے بھرا ہوتا ہے . یہ ایک عام بات ہے اور شاعری کا دیرینہ مضمون ہے . لیکن کہنے کا انداز دیکھیے ! لفظ ’سرداری‘ پر غور کیجیے . فیضؔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ دِل کی حالت میں کئی تبدیلیاں آئیں، لیکن محبوب کا غم سب سے اوپر رہا . جنہوں نے فیضؔ کو زیادہ نہیں پڑھا ، ان کی اطلاع كے لیے عرض ہے کہ ’انقلاب‘ پر انہوں نے بہت کچھ کہا ہے . یہاں انہوں نے اِس لفظ کا استعمال عاشق كے دِل کا ماحول بیان کرنے كے لیے بخوبی کیا ہے .

کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے ( شکیبؔ جلالی )
رونے سے چہرے پر نشان پڑ جاتے ہیں . کیا یہ کوئی عجیب بات ہے ؟ کیا اِس پر کوئی ایک یادگار شعر کہہ سکتا ہے ؟ جی ہاں ، شکیبؔ جلالی کہہ سکتے ہیں . انہوں نے جس طرح مسلسل اشک باری سے چہرے پر پڑنے والے نشانوں کو بارش كے اثر سے پتھر كے گھسنے کی تشبیہ دے کر تَغَزُّل پیدا کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے .

اور آخر میں آئیے دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تخیل اور تَغَزُّل دونوں کی مثالیں ہیں .

غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ( غالبؔ )
غالبؔ كے اِس نگینے پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ، لیکن میں چند سطروں پر اکتفا کروں گا . پہلے تخیل پر غور کرتے ہیں . شمع کو ہمیشہ پروانے کی ظالم قاتل اور محفل میں توجہ كے مرکوز كے طور پر دیکھا جاتا ہے . لیکن اِس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جسے دیکھنے كے لیے غالبؔ کا تصور درکار ہے . اُنہیں شمع كے گرد چھایا ہوا اندھیرا ، اس کا رفتہ رفتہ ختم ہوتا ہوا وجود اور مسلسل جلنے کی تکلیف بھی نظر آتی ہے . اب تَغَزُّل دیکھیے . غالبؔ کہتے ہیں کہ جس طرح شمع کی مشکلیں رات بھر جلنے كے بعد صبح کسی كے بجھانے سے ہی ختم ہوتی ہیں ، اسی طرح انسان کی مشکلیں بھی موت كے ساتھ ہی ختم ہوتی ہیں ، یعنی غالبؔ نے شمع کو زندگی کی مثال کیا ہے . ’ہر رنگ میں‘ پر بھی غور فرمائیے . غالب نے ’ہر شکل میں‘ یا ’ہر حال میں‘ نہیں کہا . ’رنگ‘ نے جو رنگ پیدا کیا ہے ، اس کا جواب نہیں . اور ہاں ، غزل کی ردیف ’ہونے تک‘ نے بھی خوب سماں باندھا ہے . ( دَر اصل غالب نے ’ہوتے تک‘ کہا تھا ، لیکن یہ غزل ’ہونے تک‘ كے ساتھ ہی مشہور ہے . )

صدقے اترینگے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں
بجلیاں لے كے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی ( فانیؔ )
یہ شعر فانیؔ کےِ سخن کا آئینہ ہے . ( ان کی زیادہ تر شاعری پرسوز اور غمناک ہے . ) وہ اپنی مخصوص فکر اور مؤثر بیان كے لیے مشہور تھے . پہلے ان کا تخیل دیکھیے . فانیؔ فرماتے ہیں کہ پنچھی پنجرے سے چھوٹے ہیں . یہ ایک خوشی کا موقع ہے لہٰذا صدقہ کا مقام ہے . آپ کو علم ہو گا کہ اپنی سلامتی كے لیے لوگ اپنی دولت خرچ کر كے یا کسی جانور کو قربان کر كے صدقہ کرتے ہیں . یہاں صدقہ كے اہتمام كے لیے بجلیاں آئی ہیں ، یعنی صدقے میں پنچھیوں كے نشیمن ہی جل کر راکھ ہونے والے ہیں . فانیؔ نے پنچھیوں کی بیچارگی کا جو منظر کھینچا ہے ، اسے دیکھ کر آپ ان كے تَغَزُّل کی تعریف كے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں ؟

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے ( مستؔ کلکتوی )
یہ شعر اُرْدُو شاعری میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو یاد ہو گا ، اور اس کی وجہ ہے . اِس كے پیچھے ایک نہایت اعلیٰ خیال ہے اور اس کو بڑے سلیقے سے بیان کیا گیا ہے . عموماً مرتبہ پانے كے لیے زندہ رہ کر بڑے بڑے کام کیے جاتے ہیں ، لیکن مستؔ کلکتوی قاری کو مرتبہ پانے كے لیے مٹ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں ( تخیل . ) اور اپنے مشورے كے دفاع میں وہ دانے کی مثال دیتے ہیں جو پودا اور درخت بننے كے لیے خاک میں مل جاتا ہے ( تَغَزُّل . )

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے ( اقبالؔ )
اقبال کی فکر بےمثال تھی . ان كے جذبات میں شدت تھی اور ان كے اظہار كے لیے وہ بے حد نفیس الفاظ کا انتخاب کرتے تھے . اقبالؔ کی شاعری بلند پایہ تخیل سے بھری پڑی ہے . یہ شعر صرف ایک مثال ہے . یہاں اقبالؔ قاری کو خودی ، جو ان کا محبوب موضوع تھا ، کی بلندی پر آمادہ کر رہے ہیں ، اتنی بلندی کہ خدا بھی اس کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . اقبال نے یہاں تَغَزُّل ’بندے سے خود پوچھے‘ کہہ کر پیدا کیا ہے ورنہ یہ کہنا کافی تھا کہ خدا بندے کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . خدا عالم الغیب ہے ، اسے کچھ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے .

یہ اشعار اُرْدُو شاعری كے لا محدود سمندر کی چند بوندیں ہیں . امید ہے یہ مضمون دلچسپ ثابت ہوا ہو گا اور آپ آئندہ اُرْدُو شاعری كے مطالعہ كے دوران ایسے اشعار کی تلاش کرینگے جو تخیل اور تَغَزُّل سے بھرپور ہوں .
کیا بات ہے آپ کی عرفان علوی صاحب۔ آپ نے نہایت سہل انداز میں تخیل اور تغزل کی نہ صرف تعریف بیان کی بلکہ مثالوں کے ذریعے ان کو واضح کیا۔ کاش ایسا ہو کہ اسی تنقیدی نشست میں کسی نئے شاعر کی رہنمائی کا فریضہ آپ انجام دیں اور شاعری کے مزید پہلوؤں پر آپ کے قیمتی خیالات سے آگاہی ممکن ہو سکے۔ اردو محفل کے ذریعے ایسے ہی ادب کی خدمت جاری و ساری رہنا چاہئے۔ یہ میری ایک ناچیز رائے ہے۔ جاسمن بہن اور آپ سے اس پر غور کرنے کی استدعا بہرحال کی جا سکتی ہے۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
فروری کا مہینہ اختتام کو ہے۔ فروری کے آخری دن اس غزل پہ بحث کو تالا لگا دیا جائے گا۔ اور اس پہ مزید بات چیت نہیں ہو سکے گی۔سو اگر کسی محفلین نے نادانستگی میں اس پہ بات کی تو معذرت کے ساتھ اسے حذف کرا دیا جائے گا۔
 
ای بزم کا نام اچھا یاد دلایا۔ یا پڑتا ہے کہ 2003 میں میں نے بھی کچھ اردو کلام لوگوں کی فرمائش پر انگلش میں ترجمہ کر کے پوسٹ کیا تھا ، اس وقت اردو تائپنگ کافی محدود حلقوں تک ہی نظر آتی تھی ۔
پاک ڈیٹا مینجمنٹ سائنسز والوں نے ایک آؤٹ لک پلگ ان بنایا تھا جو شاید آؤٹ لک ایکسپریسس میں اردو لکھتا تھا ۔

مضمون اچھا ہے ۔
عاطف بھائی ، پسندیدگی کا شکریہ ! یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ بھی ای بزم میں جلوہ افروز تھے . مجھے یاد تو نہیں آتا ، لیکن آپ کا كلام دیکھا ضرور ہو گا .
 
کیا بات ہے آپ کی عرفان علوی صاحب۔ آپ نے نہایت سہل انداز میں تخیل اور تغزل کی نہ صرف تعریف بیان کی بلکہ مثالوں کے ذریعے ان کو واضح کیا۔ کاش ایسا ہو کہ اسی تنقیدی نشست میں کسی نئے شاعر کی رہنمائی کا فریضہ آپ انجام دیں اور شاعری کے مزید پہلوؤں پر آپ کے قیمتی خیالات سے آگاہی ممکن ہو سکے۔ اردو محفل کے ذریعے ایسے ہی ادب کی خدمت جاری و ساری رہنا چاہئے۔ یہ میری ایک ناچیز رائے ہے۔ جاسمن بہن اور آپ سے اس پر غور کرنے کی استدعا بہرحال کی جا سکتی ہے۔:)
صابرہ بہن ، پذیرائی اور عزت افزائی کا شکریہ ! مجھے خود رہنمائی کی ضرورت ہے ، میں اوروں کی کیا رہنمائی کروں گا . :) البتہ حسب لیاقت کوشش ضرور کر سکتا ہوں .
 
Top