ظہیر بھائی ، آپ کے حکم کی تعمیل میں مضمون پیش کر رہا ہوں . مضمون کیا ہے ، اپنے چند پسندیدہ اشعار کا ذکر ہے .
اِس کوشش کا پس منظر بھی سن لیجیے . اِس صدی کی شروعات میں میرا انٹرنیٹ کی چند اَدَبی محافل سے گزر ہوا . ان محافل میں اُرْدُو کو رومن میں لکھنے کا رواج تھا ، اور کبھی کبھی تو پوری گفتگو ہی انگریزی میں ہوتی تھی . ان محافل میں سے ایک تھی ای بزم ڈاٹ کوم . راحل بھائی سے میری ملاقات وہیں ہوئی تھی . اس محفل كے بانی کی فرمائش پر میں نے یہ مضمون سال ۲۰۰۲ء میں انگریزی میں ترتیب دے کر وہاں پیش کیا تھا . وہ بزم تو اب وجود میں نہیں ہے ، لیکن یہ مضمون کئی سال بعد حال ہی میں ایک اور محفل میں پیش کیا گیا . جو احباب اصل مضمون میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں .
https://groups.google.com/g/alt.language.urdu.poetry/c/750L7gPVmOI
بہرحال ، میں وہ مضمون اُرْدُو میں ترجمہ کر كے پیش کر رہا ہوں . یہ ترجمہ لفظ بہ لفظ نہیں ہے ، بلکہ میں نے ضرورتاََ چند معمولی تبدیلیاں بھی کی ہیں .
تخیل اور تَغَزُّل : اُرْدُو شاعری کی روح
اِس مضمون کا موضوع نیا نہیں ہے . اِس پر بہت کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے . میری خامہ فرسائی کا مقصد اپنے چند پسندیدہ اشعار کو یاد کر كے ان کا لطف دوبارہ اٹھانا ہے . اِس امر سے اگر قارئین کی اُرْدُو شاعری کی سمجھ میں اضافہ ہو جائے تو یہ میرے لیے سونے پر سہاگا كے مترادف ہو گا .
’تخیل‘ كے معنی ہیں خیالی صورت بنانے کی قوت . یہ اُرْدُو شاعری ، بلکہ کسی بھی زبان کی شاعری ، کا ایک اہم عنصر مانا جاتا ہے . تخیل کی قوت رکھنے والا شاعر ایسی ایسی باتیں سوچ سکتا ہے جو عام آدمی كے ذہن میں نہیں آتیں . دوسری طرف ’تَغَزُّل‘ كے معنی ہیں شعر کا حسن . تَغَزُّل سے شاعر ایک عام سے خیال کو بھی ایک شاہکا ر میں تبدیل کر سکتا ہے . ایسے شاعر کو زبان اور بیان پر عبور حاصل ہوتا ہے . ایک عظیم شاعر کی شاعری میں تخیل اور تَغَزُّل دونوں خوبیاں ہوتی ہیں . میں تخیل اور تَغَزُّل كے معنی چند اشعار کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کروں گا . یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اشعار مذکورہ شعرا كے كلام یا اُرْدُو شاعری کا مجموعی آئینہ نہیں ہیں ، بلکہ محض چنندہ مثالیں ہیں .
آئیے پہلے چند ایسے اشعار پر نگاہ ڈالتے ہیں جو زبان اور بیان كے لحاظ سے خاص نہیں ، تاہم اپنے خیال کی وجہ سے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں ، یعنی ایسے اشعار جن میں تخیل نمایاں ہے .
آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا ( سوداؔ )
یہ شعر پڑھیے اور سوچیے کہ اِس میں ایسا کیا ہے جو لطف دیتا ہے . شعر کی زبان سادہ ہے اور اِس میں الفاظ کی کوئی جادُوگَری نہیں ہے . لیکن خیال پر غور کیجیے . سوداؔ فرماتے ہیں کہ جب خدا نے آدم کا جسم عناصر سے بنا لیا تو پایا کہ کچھ آگ بچی ہے ، اور اس آگ سے بنایا عاشق کا دِل ، یعنی وہ چیز جو ہمیشہ جلتی رہتی ہے . کیا خیال ہے !
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے ( اصغرؔ گونڈوی )
یہ شعر شاعر کی غیر معمولی فکر کی ایک اور مثال ہے . عام طور پر لوگ حوادث سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن اصغرؔ گونڈوی کا ماننا ہے کہ حوادث ہمیں مصروف رکھتے ہیں اور جد و جہد کی ترغیب دیتے ہیں . حوادث كے بغیر جینا مشکل ہے . کیا سوچ ہے !
مرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے دَر سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا ( مخمورؔ دہلوی )
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ كے پیر ٹوٹ جا ئیں ؟ شاید نہیں . لیکن مخمورؔ دہلوی کو ٹوٹے ہوئے پیروں میں بھی ایک فائدہ نظر آتا ہے . ان كے مطابق اگر پیر ٹوٹے ہوں تو محبوب كے دَر سے اٹھ کر جانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے . ایک عاشق اور کیا چاہے گا !
اور آئیے اب دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تَغَزُّل کی مثال ہیں ، یعنی ایسے اشعار جو کسی انوکھے خیال كے عكاس نہیں لیکن جن میں خیال کی ادائگی غیر معمولی ہے .
بیٹھنے کون دے ہے پِھر اس کو
جو ترے آسْتاں سے اٹھتا ہے ( میرؔ)
میرؔ کو غزل کا شہنشاہ مانا جاتا ہے . ان کے یہاں تَغَزُّل کی ڈھیروں مثالیں ہیں . میں نے یہ شعر بس یوں ہی چن لیا . ایک عاشق کو زمانہ کبھی چین سے نہیں جینے دیتا . یہ کوئی نئی بات نہیں ، لیکن میرؔ نے جس طرح یہ بات کہی ہے ، اس پر دِل سے بس واہ نکلتی ہے !
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یوں روز انقلاب آئے ( فیضؔ )
عاشق کا دِل اکثر غم سے بھرا ہوتا ہے . یہ ایک عام بات ہے اور شاعری کا دیرینہ مضمون ہے . لیکن کہنے کا انداز دیکھیے ! لفظ ’سرداری‘ پر غور کیجیے . فیضؔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ دِل کی حالت میں کئی تبدیلیاں آئیں، لیکن محبوب کا غم سب سے اوپر رہا . جنہوں نے فیضؔ کو زیادہ نہیں پڑھا ، ان کی اطلاع كے لیے عرض ہے کہ ’انقلاب‘ پر انہوں نے بہت کچھ کہا ہے . یہاں انہوں نے اِس لفظ کا استعمال عاشق كے دِل کا ماحول بیان کرنے كے لیے بخوبی کیا ہے .
کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے ( شکیبؔ جلالی )
رونے سے چہرے پر نشان پڑ جاتے ہیں . کیا یہ کوئی عجیب بات ہے ؟ کیا اِس پر کوئی ایک یادگار شعر کہہ سکتا ہے ؟ جی ہاں ، شکیبؔ جلالی کہہ سکتے ہیں . انہوں نے جس طرح مسلسل اشک باری سے چہرے پر پڑنے والے نشانوں کو بارش كے اثر سے پتھر كے گھسنے کی تشبیہ دے کر تَغَزُّل پیدا کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے .
اور آخر میں آئیے دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تخیل اور تَغَزُّل دونوں کی مثالیں ہیں .
غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ( غالبؔ )
غالبؔ كے اِس نگینے پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ، لیکن میں چند سطروں پر اکتفا کروں گا . پہلے تخیل پر غور کرتے ہیں . شمع کو ہمیشہ پروانے کی ظالم قاتل اور محفل میں توجہ كے مرکوز كے طور پر دیکھا جاتا ہے . لیکن اِس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جسے دیکھنے كے لیے غالبؔ کا تصور درکار ہے . اُنہیں شمع كے گرد چھایا ہوا اندھیرا ، اس کا رفتہ رفتہ ختم ہوتا ہوا وجود اور مسلسل جلنے کی تکلیف بھی نظر آتی ہے . اب تَغَزُّل دیکھیے . غالبؔ کہتے ہیں کہ جس طرح شمع کی مشکلیں رات بھر جلنے كے بعد صبح کسی كے بجھانے سے ہی ختم ہوتی ہیں ، اسی طرح انسان کی مشکلیں بھی موت كے ساتھ ہی ختم ہوتی ہیں ، یعنی غالبؔ نے شمع کو زندگی کی مثال کیا ہے . ’ہر رنگ میں‘ پر بھی غور فرمائیے . غالب نے ’ہر شکل میں‘ یا ’ہر حال میں‘ نہیں کہا . ’رنگ‘ نے جو رنگ پیدا کیا ہے ، اس کا جواب نہیں . اور ہاں ، غزل کی ردیف ’ہونے تک‘ نے بھی خوب سماں باندھا ہے . ( دَر اصل غالب نے ’ہوتے تک‘ کہا تھا ، لیکن یہ غزل ’ہونے تک‘ كے ساتھ ہی مشہور ہے . )
صدقے اترینگے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں
بجلیاں لے كے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی ( فانیؔ )
یہ شعر فانیؔ کےِ سخن کا آئینہ ہے . ( ان کی زیادہ تر شاعری پرسوز اور غمناک ہے . ) وہ اپنی مخصوص فکر اور مؤثر بیان كے لیے مشہور تھے . پہلے ان کا تخیل دیکھیے . فانیؔ فرماتے ہیں کہ پنچھی پنجرے سے چھوٹے ہیں . یہ ایک خوشی کا موقع ہے لہٰذا صدقہ کا مقام ہے . آپ کو علم ہو گا کہ اپنی سلامتی كے لیے لوگ اپنی دولت خرچ کر كے یا کسی جانور کو قربان کر كے صدقہ کرتے ہیں . یہاں صدقہ كے اہتمام كے لیے بجلیاں آئی ہیں ، یعنی صدقے میں پنچھیوں كے نشیمن ہی جل کر راکھ ہونے والے ہیں . فانیؔ نے پنچھیوں کی بیچارگی کا جو منظر کھینچا ہے ، اسے دیکھ کر آپ ان كے تَغَزُّل کی تعریف كے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں ؟
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے ( مستؔ کلکتوی )
یہ شعر اُرْدُو شاعری میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو یاد ہو گا ، اور اس کی وجہ ہے . اِس كے پیچھے ایک نہایت اعلیٰ خیال ہے اور اس کو بڑے سلیقے سے بیان کیا گیا ہے . عموماً مرتبہ پانے كے لیے زندہ رہ کر بڑے بڑے کام کیے جاتے ہیں ، لیکن مستؔ کلکتوی قاری کو مرتبہ پانے كے لیے مٹ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں ( تخیل . ) اور اپنے مشورے كے دفاع میں وہ دانے کی مثال دیتے ہیں جو پودا اور درخت بننے كے لیے خاک میں مل جاتا ہے ( تَغَزُّل . )
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے ( اقبالؔ )
اقبال کی فکر بےمثال تھی . ان كے جذبات میں شدت تھی اور ان كے اظہار كے لیے وہ بے حد نفیس الفاظ کا انتخاب کرتے تھے . اقبالؔ کی شاعری بلند پایہ تخیل سے بھری پڑی ہے . یہ شعر صرف ایک مثال ہے . یہاں اقبالؔ قاری کو خودی ، جو ان کا محبوب موضوع تھا ، کی بلندی پر آمادہ کر رہے ہیں ، اتنی بلندی کہ خدا بھی اس کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . اقبال نے یہاں تَغَزُّل ’بندے سے خود پوچھے‘ کہہ کر پیدا کیا ہے ورنہ یہ کہنا کافی تھا کہ خدا بندے کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . خدا عالم الغیب ہے ، اسے کچھ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے .
یہ اشعار اُرْدُو شاعری كے لا محدود سمندر کی چند بوندیں ہیں . امید ہے یہ مضمون دلچسپ ثابت ہوا ہو گا اور آپ آئندہ اُرْدُو شاعری كے مطالعہ كے دوران ایسے اشعار کی تلاش کرینگے جو تخیل اور تَغَزُّل سے بھرپور ہوں .