علی وقار

محفلین
سو اسی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ شعر کو سچا یا "غیر سچا" کے زمروں میں بانٹنا نہ تو قاری کے لیے فائدہ مند ہے اور نہ ہی اس تقسیم سے شاعر کو کوئی فیض پہنچتا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ اصطلاح کچھ غیر ادبی سی ہے اور نجانے کیوں ماضی میں کچھ حلقوں میں اس پر بہت بحث و مباحثہ رہا اور اسے غیر ضروری اہمیت دی گئی۔ میری رائے میں اس کے بدلے شعر کومؤثر یا غیر مؤثر ، کامیاب یا ناکامیاب ، معمولی یا غیر معمولی وغیرہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔
متفق!
 

اکمل زیدی

محفلین
اور جو شعر اکثریت کے جذبات و احساسات کا ترجمان ہو۔۔۔؟
اسے سچا شعر کہنا زیادہ مناسب نہ ہو گا؟
جیسے بہت سے اشعار ضرب الامثال بن چکے اور ہم روزمرہ میں انھیں استعمال کرتے ہیں۔
کیا اس ضمن میں حبیب جالب صاحب کی غزل کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے (ویسے تو پوری غزل ہی کمال ہے--دل پر جو زخم ہیں دکھائیں کسی کو کیا۔۔۔)

وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا
 

اکمل زیدی

محفلین
ظہیر بھائی ایک چھوٹے سے منہ سے ایک چھوٹا س سوال سچے شعر کی مندر جہ بالا گفتگو پر کہ شاعر نے جو کہا جس پر محترمہ صابرہ صاحبہ نے بھی کہا ریفرینس کے طور پر اس مصرعے کو لیا تھا کہ -کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر - - -- اس پر کچھ روشنی ڈالیے اس سے پھر کیا مراد ہے کیا مہر اور قہر ہونا بھی شرط ہے سچے شعر کے لیے ویسے تو آپ نے کافی وضاحت کر دی ہے مگر اگر تھوڑا سا اس پر بھی ۔۔۔۔شکریہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ایک چھوٹے سے منہ سے ایک چھوٹا س سوال سچے شعر کی مندر جہ بالا گفتگو پر کہ شاعر نے جو کہا جس پر محترمہ صابرہ صاحبہ نے بھی کہا ریفرینس کے طور پر اس مصرعے کو لیا تھا کہ -کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر - - -- اس پر کچھ روشنی ڈالیے اس سے پھر کیا مراد ہے کیا مہر اور قہر ہونا بھی شرط ہے سچے شعر کے لیے ویسے تو آپ نے کافی وضاحت کر دی ہے مگر اگر تھوڑا سا اس پر بھی ۔۔۔۔شکریہ
اکمل بھائی ، جیسے ہی فرصت میسر آتی ہے اس پر بات کرتا ہوں ، ان شاء اللہ۔ اس وقت سیل فون لمبی تحریر لکھنے پر راضی نہیں ہورہا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ایک چھوٹے سے منہ سے ایک چھوٹا س سوال سچے شعر کی مندر جہ بالا گفتگو پر کہ شاعر نے جو کہا جس پر محترمہ صابرہ صاحبہ نے بھی کہا ریفرینس کے طور پر اس مصرعے کو لیا تھا کہ -کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر - - -- اس پر کچھ روشنی ڈالیے اس سے پھر کیا مراد ہے کیا مہر اور قہر ہونا بھی شرط ہے سچے شعر کے لیے ویسے تو آپ نے کافی وضاحت کر دی ہے مگر اگر تھوڑا سا اس پر بھی ۔۔۔۔شکریہ
اکمل بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ آپ کا سوال بالکل بھی چھوٹا نہیں ہے ۔ کوئی بھی سوال چھوٹا نہیں ہوتا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹا سا ایک سوال بڑے بڑے مباحث کو جنم دیتا ہے اور کئی ذہنوں کی گرہ کشائی کرتا ہے ۔ آمدم برسرِ مطلب ، اطہر نفیس نے اس شعر میں "سچا شعر" کے الفاظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا ۔ ہماری اب تک کی گفتگو سچا شعر کی اس ادبی اصطلاح کے بارے میں تھی کہ جس کو اکثر تنقیدی حلقوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اطہر نفیس کی اس غزل کا مطلع یوں ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اس کا مطلب بالکل سیدھا ہے یعنی عشق اور اس سے متعلقہ تمام حالات و کیفیات سخن گوئی کے محرک ہوتے ہیں ۔اس مضمون کو بہت سارے شعرا نے اپنے اشعار میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے ۔ روایتی غزل کا مضمون ہے کہ جب محبوب اپنے عاشق پر مہربان ہوتا ہے توپورا زمانہ عاشق کے خلاف ستم آزما ہوجاتا ہے۔محبوب کا مہر اور زمانے کا قہر شاعر کو تحریک دیتا ہے اور وہ اپنے دل پر گزرنےوالی کیفیات کو موضوعِ سخن بناتا ہے۔ لیکن جب عشق ہی روٹھ گیا تو پھر یہ مہر و قہر کے حالات بھی باقی نہیں رہے۔ چنانچہ شاعر شکوہ کناں ہے کہ اب میں کہوں تو کیا کہوں ، کہنے کے لیے کچھ پاس نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔
امید ہے کہ اتنی روشنی کافی ہوگی ۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
اکمل بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ آپ کا سوال بالکل بھی چھوٹا نہیں ہے ۔ کوئی بھی سوال چھوٹا نہیں ہوتا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹا سا ایک سوال بڑے بڑے مباحث کو جنم دیتا ہے اور کئی ذہنوں کی گرہ کشائی کرتا ہے ۔ آمدم برسرِ مطلب ، اطہر نفیس نے اس شعر میں "سچا شعر" کے الفاظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا ۔ ہماری اب تک کی گفتگو سچا شعر کی اس ادبی اصطلاح کے بارے میں تھی کہ جس کو اکثر تنقیدی حلقوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اطہر نفیس کی اس غزل کا مطلع یوں ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اس کا مطلب بالکل سیدھا ہے یعنی عشق اور اس سے متعلقہ تمام حالات و کیفیات سخن گوئی کے محرک ہوتے ہیں ۔اس مضمون کو بہت سارے شعرا نے اپنے اشعار میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے ۔ روایتی غزل کا مضمون ہے کہ جب محبوب اپنے عاشق پر مہربان ہوتا ہے توپورا زمانہ عاشق کے خلاف ستم آزما ہوجاتا ہے۔محبوب کا مہر اور زمانے کا قہر شاعر کو تحریک دیتا ہے اور وہ اپنے دل پر گزرنےوالی کیفیات کو موضوعِ سخن بناتا ہے۔ لیکن جب عشق ہی روٹھ گیا تو پھر یہ مہر و قہر کے حالات بھی باقی نہیں رہے۔ چنانچہ شاعر شکوہ کناں ہے کہ اب میں کہوں تو کیا کہوں ، کہنے کے لیے کچھ پاس نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔
امید ہے کہ اتنی روشنی کافی ہوگی ۔ :)
بہت شکریہ سر جی اتنی روشنی سے ہی دل و دماغ میں مفہوم جگ مگ ہو گئے بس یہی پڑھتے ہوئے ایک چیز ذہن میں اور آئی کہ جب عشق ہی روٹھ گیا تو مہر کے حالات نہ صحیح قہر تو ہیں تو یہ مہمیز کیوں نہیں کر رہا سچے شعر کی تحریک کو کیوں کے شرط جب مہر اور قہر کی ہے تو ایک صورت تو اب بھی ہے اور وہ بھی شدید ۔ ۔ ۔ (پتہ نہیں میں اپنی بات پہنچا سکا یا نہیں مگر آپ کی فراست پر اعتماد ہے کہ آپ پہنچ جائنگے میرے مطمع نظر پر) ۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
بہت شکریہ سر جی اتنی روشنی سے ہی دل و دماغ میں مفہوم جگ مگ ہو گئے بس یہی پڑھتے ہوئے ایک چیز ذہن میں اور آئی کہ جب عشق ہی روٹھ گیا تو مہر کے حالات نہ صحیح قہر تو ہیں تو یہ مہمیز کیوں نہیں کر رہا سچے شعر کی تحریک کو کیوں کے شرط جب مہر اور قہر کی ہے تو ایک صورت تو اب بھی ہے اور وہ بھی شدید ۔ ۔ ۔ (پتہ نہیں میں اپنی بات پہنچا سکا یا نہیں مگر آپ کی فراصت پر اعتماد ہے کہ آپ پہنچ جائنگے میرے مطمع نظر پر) ۔
غالب کا ایک شعر یاد آ گیا،
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا
زیدی صاحب! مجھے تو لگتا ہے کہ شاعر کو پرانا روگ لاحق ہے۔ شاید اسے صبر بھی آ چکا ہے مگر کبھی کبھار جب ذرا تیز ہوا چلے یا یادوں کی برکھا چھائے تو وہ پرانے زمانوں کا پھر سے طلب گار دکھائی دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ تو ہو، چاہے مہر ہو یا قہر ہو، مگر یہ جو لا تعلقی کی کیفیت ہے، یہ اسے سخت ستار رہی ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت اچھا سوال ہے۔ اگلے مراسلے میں تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیے ۔

آپ نے بلا قصد و ارادہ نہ صرف محاکات کی تعریف بیان کردی بلکہ تخیل پر بھی ننھی سی لیزر بیم ڈال دی ۔:)
یقین کیجیے کہ شاعری میں اب تک جو کچھ بھی کیا ہے بلا قصد و ارادہ ہی کیا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب اپنی سمجھ کے مطابق دے ڈالا جو کہ ٹھیک نکلا! ویسے اگر آپ نے ٹیگ نہ کیا ہوتا تو کبھی بھی ایسا سوچنے کا خیال نہ آتا۔ بہت شکریہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
ظہیر بھائی ، نہایت اعلیٰ اور علم افزا تحریر ہے . آپ کی محنت پر داد نہ دینا بے حد نا انصافی ہوگی سو قبول فرمائیے . سال ۲۰۰۲ء میں چند احباب کی فرمائش پر میں نے ایک ناچیز مضمون تخیل اور تَغَزُّل پر تحریر کیا تھا . اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی . بس چند اشعار کی مدد سے تخیل اور تَغَزُّل کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی . آپ کی تحریر دیکھ کر بے ساختہ اس مضمون کی یاد آ گئی .
عرفان علوی بھائی، اگر ہو سکے تو آپ وہ مضمون محفل میں بھی شیئر کیجیے کہ بہتوں کا بھلا ہو گا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
متفق۔
محض تخیل کسی کام کا نہیں ہوتا۔ ااس تخیل کو کسی روپ میں ڈھالنے کا فن آنا ضروری ہے ۔ تخیل تو مصور ، مجسمہ ساز ، موسیقار وغیرہم کے پاس بھی ہوتا ہے لیکن جب تک انہیں اپنے فن میں مہارت نہ ہو وہ اس تخیل کو دوسروں تک نہیں پہنچاسکتے۔ شاعر کو قوتِ تخیل تو قدرت کی طرف سے فطری طور پر ودیعت ہوتی ہے لیکن شعر گوئی کا فن ( وزن ، تقطیع ، زبان کا استعمال وغیرہ) تو اسے کچھ نہ کچھ سیکھنا پڑتا ہے ۔ کچھ تربیت تو لینا پڑتی ہے ۔
یہی بات ہمیشہ میرا مطمعِ نظر رہی کہ تربیت کا کوئی بھی موقع ضایع نہ جانے دیا جائے۔ ایک مصروف زندگی میں بہت کچھ خود سے پڑھ کر سمجھنے کا وقت اور موقع نہ ملے تو ایک اچھے استاد کی رہنمائی نہایت اہم اور ضروری ہے۔ خاص طور پر شاعری کے حوالے سے۔ ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ پہلے زمانے میں بڑے شعر اء تک اساتدہ کے زیر سایہ تربیت حاصل کرتے تھے جبکہ وہ اب اپنے اساتذہ سے زیادہ مشہور اور کامیاب تصور کیے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں تھا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ غالب کو کسی استاد کی کیا ضرورت تھی، وہ تو شاعری کی تمام باریکیوں سے آشنا تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ابتدا میں وہ بھی صابرہ امین ہوں اور ایک ارتقائی مرحلے سے گزر کو غالب بن گئے ہوں؟؟ :thinking: :thinking:
 

صابرہ امین

لائبریرین
۔ قارئین کو وہاں سے ۔"نیچے لادنے" میں مشکل ہو تو اس خادم کو اشارہ کیجیے گا میں اپنی گوگل ڈرائیو کا ربط پانچ پراٹھے فی جلد کے حساب سے مہیا کردوں گا ۔
پانچ پراٹھے فی جلد اگرچہ کچھ زیادہ ہیں مگر کوئی بات نہیں۔۔۔:grin:

برا مت منائیے گا۔خواتین کی عادات کا تو آپ کو کافی سے زیادہ علم ہے کہ ان کے لیے سبزی سے لے کر سونے اور ہیرے جواہرات تک ہر چیز بغیر مول تول لینا آسان نہیں ہوتا۔:D
 

صابرہ امین

لائبریرین
فارسی شاعری اور شعرا کے بارے میں شبلی نعمانی کی کتاب شعرالعجم پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ یہ بنیادی طور پر تاریخ اور تذکرے کے زمرے میں آتی ہے لیکن علامہ کے جابجا تنقیدی تبصروں اور تجزیوں کے باعث اسے تنقیدی ادب میں بھی شمار کیا جاسکتا ہے ۔ خصوصاً جلد اول اور جلد چہارم کی ابتدا میں علامہ نے شاعری کی تعریف اور اس کے اجزا پر سیر حاصل بحث کی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے ۔ شعر کی حقیقت اور جامع تعریف کے بارے میں جلد اول کے شروع میں کی گئی بحث خصوصاً بہت سارے دروازے کھولتی ہے ۔ یہ کتاب آرکائیو ڈاٹ آرگ پر موجود ہے ۔ قارئین کو وہاں سے ۔"نیچے لادنے" میں مشکل ہو تو اس خادم کو اشارہ کیجیے گا ۔
دیکھیے بغیر کچھ پڑھے بھی ابھی تک سارے جوابات ٹھیک ہو رہے ہیں ۔ درخت پر چڑھنا مت سکھائیے! :D
آپ کو مطلع کرنا میرا فرض تھا، سو ادا کر دیا!
 

صابرہ امین

لائبریرین
درست سمجھے آپ ۔ شاعروں کو شاعر ہی رہنے دیا جائے آپ تو انہیں سچ پر ہی آمادہ کرنے لگے ہیں :rollingonthefloor: ۔
تو کیا شاعر سچے نہیں ہوتے؟ ایک سنجیدہ سوال۔ ۔
میرا خیال ہے کہ شاعر سچے ہی ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے اشعار ان کے خالص جذبات و احساسات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ تمام تجربات سے گزرے ہوں یا نہ ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یقین کیجیے کہ شاعری میں اب تک جو کچھ بھی کیا ہے بلا قصد و ارادہ ہی کیا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب اپنی سمجھ کے مطابق دے ڈالا جو کہ ٹھیک نکلا! ویسے اگر آپ نے ٹیگ نہ کیا ہوتا تو کبھی بھی ایسا سوچنے کا خیال نہ آتا۔ بہت شکریہ
ماشا ء اللّٰہ ، آپ کی قابلیت کے بارے میں کیا شک ہے۔ بارک اللّٰہ فیک۔
سخن فہمی اور شاعر ی ایک ہی سلسلے کے دو درجات ہیں اور یہ دونوں فطری صلاحیتیں ہیں اور قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں کسی انسان کو۔ ان دونوں صلاحیتوں کو کسی ذوق سے کورے شخص میں پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی میں موجود ہوں تو تربیت سے انہیں چمکایا ضرور جاسکتا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک بات آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ پہلے زمانے میں بڑے شعر اء تک اساتدہ کے زیر سایہ تربیت حاصل کرتے تھے جبکہ وہ اب اپنے اساتذہ سے زیادہ مشہور اور کامیاب تصور کیے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں تھا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ غالب کو کسی استاد کی کیا ضرورت تھی، وہ تو شاعری کی تمام باریکیوں سے آشنا تھے۔
اس سوال کے تفصیلی جواب کے لیے میرا یہ ایک پرانا مرسلہ دیکھ لیجیے ۔ اور پھر اس کے بعد یہ پرانا لطیفہ نمبر 43267 پڑھ لیجیے کہ:
اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک امریکی سیاح نے دوران، سیاحت ایک مقامی دیہاتی سے دریافت کیا۔"کیا اس گاؤں میں کبھی کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے؟" دیہاتی نے ایک منٹ سوچ کر معصومیت سے جواب دیا ۔" نہیں جناب ۔ ہمارے یہاں تو ہمیشہ چھوٹے بچے ہی پیدا ہوتے ہیں۔"

ہیں ایسا تو نہیں کہ ابتدا میں وہ بھی صابرہ امین ہوں اور ایک ارتقائی مرحلے سے گزر کو غالب بن گئے ہوں؟؟ :thinking: :thinking:
کیا آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ پہلے وہ غالباً تھے اوربعد میں غالب بن گئے؟!
 
Top