اکمل بھائی ، پہلی بات تو یہ کہ آپ کا سوال بالکل بھی چھوٹا نہیں ہے ۔ کوئی بھی سوال چھوٹا نہیں ہوتا ۔ بلکہ بعض اوقات چھوٹا سا ایک سوال بڑے بڑے مباحث کو جنم دیتا ہے اور کئی ذہنوں کی گرہ کشائی کرتا ہے ۔ آمدم برسرِ مطلب ، اطہر نفیس نے اس شعر میں "سچا شعر" کے الفاظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا ۔ ہماری اب تک کی گفتگو سچا شعر کی اس ادبی اصطلاح کے بارے میں تھی کہ جس کو اکثر تنقیدی حلقوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اطہر نفیس کی اس غزل کا مطلع یوں ہے:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اس کا مطلب بالکل سیدھا ہے یعنی عشق اور اس سے متعلقہ تمام حالات و کیفیات سخن گوئی کے محرک ہوتے ہیں ۔اس مضمون کو بہت سارے شعرا نے اپنے اشعار میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے ۔ روایتی غزل کا مضمون ہے کہ جب محبوب اپنے عاشق پر مہربان ہوتا ہے توپورا زمانہ عاشق کے خلاف ستم آزما ہوجاتا ہے۔محبوب کا مہر اور زمانے کا قہر شاعر کو تحریک دیتا ہے اور وہ اپنے دل پر گزرنےوالی کیفیات کو موضوعِ سخن بناتا ہے۔ لیکن جب عشق ہی روٹھ گیا تو پھر یہ مہر و قہر کے حالات بھی باقی نہیں رہے۔ چنانچہ شاعر شکوہ کناں ہے کہ اب میں کہوں تو کیا کہوں ، کہنے کے لیے کچھ پاس نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔
امید ہے کہ اتنی روشنی کافی ہوگی ۔