ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود
بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل
صابرہ امین کا محولہ بالا شعر ایک اچھا شعر ہے ۔ اس کا مضمون خالص غزل کا ہے اور اس میں مناسب روایتی تلازمات کے استعمال سے شاعرہ قاری تک ایک کیفیت کے موثر ابلاغ میں کامیاب ہوئی ہیں۔اس شعر کے توسط سے ایک نئی ضمنی بحث کا آغاز کرنا چاہتا ہوں اور اس کی ابتدا کچھ سوالات سے کرتا ہوں۔
۔ سچا شعر کیا ہوتا ہے ؟
۔ سچا شعر کہنے کے لیےکسی احساس اور کیفیت کا ذاتی تجربہ ضروری ہونا ضروری ہے یا مروجہ شعری روایات کی تقلید سے کام چلایا جاسکتا ہے؟
- اگرچہ غالب کہہ گئے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر لیکن کیا یہ بات ایک آفاقی کلیے کا درجہ رکھتی ہے؟
سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ سچا شعر کیا ہوتا ہے؟ میری ناقص رائے میں تو سچے شعر کی اصطلاح ہی ٹھیک نہیں ۔ اس اصطلاح کے ماننے سے تو اس کی ضد یعنی "غیر سچے" یا جھوٹے شعر کا وجود بھی لازم آتا ہے۔ میری رائے میں شعر کو سچے یا جھوٹے کے زمروں میں بانٹنا نہ تو قاری کے لیے ہی مفید ہوگا اور نہ ہی شاعر کے لیے کسی قسم کی رہنمائی فراہم کرے گا۔ شعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اسی تصور یا concept کو شمس الرحمان فاروقی نے شعر اور غیر شعر کی اصطلاحات کے ذریعے واضح کیا ہے۔ شبلی نعمانی نے شعرالعجم میں شعر کی حقیقت اور ماہیئت پر مفصل بحث کی ہے۔ اس بحث کی تلخیص میں ذیل میں اپنے الفاظ میں واوین میں قیدکرتا ہوں:
"شاعری چونکہ وجدانی چیز ہے اس لئے اس کی جامع و مانع تعریف چند الفاظ ممکن نہیں۔ چنانچہ اسے مختلف مثالوں کے ذریعے سمجھانا مفید ہوگا۔ خدا نے انسان کو جو مختلف اعضا اور قوتیں بخشی ہیں ان میں دو قوتیں تمام افعال اور ارادوں کا سرچشمہ ہیں یعنی: ادراک اور احساس ۔
قوتِ ادراک کا کام اشیا کو معلوم کرنا اور استدلال و استنباط سے کام لینا ہے۔ چنانچہ ہر قسم کی ایجادات ، تحقیقات ، انکشافات اور تمام علوم و فنون اسی قوت ادراک کا نتیجہ ہیں۔ جبکہ احساس کا کام اشیا کا ادراک کرنا یا کسی مسئلہ کو حل کرنا یا کسی بات پر غور کرنا اور سوچنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب کوئی مؤثر واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے ۔غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے ، خوشی میں سرور ، حیرت انگیز بات پر تعجب اور اشتعال انگیز بات پر غصہ آتا ہے۔ یہی قوت جس کو احساس ، انفعال ، یا feeling سے تعبیر کر سکتے ہیں شاعری کا دوسرا نام ہے ۔ یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہےتو شعر بن جاتا ہے۔
حیوانات پر جب کوئی جذبہ طاری ہوتا ہے تو اس کا اظہار مختلف قسم کی آوازوں یا حرکتوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے مثلاً کوئل کا کوکنا ، طاؤس کا ناچنا وغیرہ۔ انسان کے جذبات بھی اگرچہ حرکات کے ذریعہ سے ادا ہوتے ہیں لیکن اسے ایک اور قوتِ اظہار بھی دی گئی ہے یعنی نطق اور گویائی۔ اس لئے جب اس پر کوئی قوی جذبہ طاری ہوتا ہے تو بے ساختہ اس کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں۔ اسی کا نام شعر ہے۔ اب منطقی پیرائے میں شعر کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جو جذبات الفاظ کے ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہیں۔ اور چونکہ یہ الفاظ سامعین کے جذبات پر بھی اثر کرتے ہیں (یعنی سننے والے پر بھی وہی اثر طاری ہوتا ہے جو صاحبِ جذبہ کے دل پر طاری ہوا تھا) اس لئے شعر کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ جو کلام انسانی جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے۔ بہ الفاظِ دیگر شعر کا نمایاں وصف سامع کے جذبات کو برانگیختہ کرنا ہے یعنی اس کو سن کر دل میں رنج یا اداسی یا خوشی یا کیف و مستی یا جوش کا اثر پیدا ہوتا ہے۔
یوں تو دل پر اثر کرنے والی بہت سی چیزیں ہیں مثلاً موسیقی، مصوری ، مجسمہ سازی ، رقص وغیرہ لیکن شاعری کی اثر انگیزی سب سے زیادہ وسیع ہے۔ موسیقی سے محظوظ ہونے کے لیے سماعت اور مصوری سے متاثر ہونے کے لئے بینائی شرط ہے لیکن شاعری تمام حواس پر اثر ڈال سکتی ہے۔ شاعر کی مؤثر لفظی منظر کشی سے باصرہ ، ذائقہ ، شامہ ، لامسہ ، تمام حواس لطف اٹھا سکتے ہیں۔"
اس سے اگلا سوال یہ تھا کہ آیا شعر کہنے کے لیےکسی احساس اور کیفیت کا ذاتی تجربہ ضروری ہونا ضروری ہے یا اس کے بغیر بھی کام چلایا جاسکتا ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ شعر گوئی کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں اور ان کا آپس میں کیا تعلق اور تعامل ہے۔ شعر کے دو بنیادی عناصر تخیل اور محاکات ہیں۔ محاکات کا لفظ حکایت سے متعلق ہے ۔ محاکات کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز یا کسی حالت کو اس طرح بیان کرنا کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ محاکات کے ذریعے مادی اشیا کے علاوہ اُن غیر مرئی چیزوں کی منظر کشی بھی کی جاسکتی ہے جو مصوری میں ممکن نہیں۔ مثلاً
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصؔر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
۔ یا ۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
۔یا۔
سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
ان اشعار میں جو لفظی تصویر کشی کی گئی ہے وہ مصور کے موئے قلم سے ممکن ہی نہیں۔
تخیل یا imagination دراصل قوتِ اختراع کا نام ہے۔ تمام علوم و فنون ، ایجادات اور اکتشافات کے پسِ پردہ یہی قوت کارفرما ہے۔ یہی تخیل شاعر کے ذہن میں شاعرانہ مضامین پیدا کرتا ہے۔ شاعر کے سامنے (قوتِ تخیل کی بدولت) تمام بے حس اشیا جاندار چیزیں بن جاتی ہیں۔ زمین ، آسمان، دریا ، چاند، ستارے، بلکہ اس کا تمام تر ماحول اس سے باتیں کرتا ہے۔ شاعر اپنے تخیل سے اپنا عالمِ خیال آباد کرتا ہے ۔ تخیل کے زور سے نئے دعوے کرتا ہے اور خیالی دلائل سے انہیں ثابت کرتا ہے۔ مثلاً وہ کسی تصویر کو دیکھ کر یہ کہتا ہے کہ یہ تصویر تصویر نہیں بلکہ ایک فریادی ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
یا ہوا کے جھونکے سے یہ نتیجہ نکالتا ہے:
کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
شاید کہ بہار آئی ، زنجیر نظر آئی
یا گورستان اسے یوں نظر آتا ہے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ۔ ۔ ۔ ۔ (تخیل کی مزید مثالیں دیکھنا ہوں اور ان کا تجزیہ کرنا ہو تو غالب کی یہ غزل اپنے اندر ایک خزانہ لیے ہے)۔
کلامِ موزوں میں اگر محاکات اور تخیل دونوں میں سے کوئی ایک بھی عنصر پایا جائے تو وہ شعر کہلانے کا مستحق ہوگا۔ دیگر اوصاف یعنی فصاحت ، سلاست ، صفائی ، حسنِ بندش وغیرہ وغیرہ شعر کے اجزائے اصلی نہیں بلکہ معایب و محاسن میں سے ہیں ۔ یعنی شعر میں تخیل یا محاکات دونوں میں سے کسی ایک بنیادی عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں عناصر ہوں تو شعر اور بلند ہوجاتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ خیال اپنے الفاظ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ اسی بات کو کچھ علمائے فن نے اس طرح کہا ہے کہ تخیل اور محاکات ایک ہی سلسلے کی دوکڑیاں ہیں۔ یعنی اصل چیز تخیل ہے۔ تخیل اگر نہیں تو محاکات (یعنی لفظی تصویر کشی) ناممکن نہیں تو محال ضرور ہوجاتی ہے۔ ( محاکات میں کمال حاصل کرنے کے لیے کچھ رہنما اصول ہیں جن کا تفصیل بیان یہاں ممکن نہیں۔ شبلی نعمانی نے شعرالعجم جلد چہارم میں " شعر کی حقیقت اور ماہئیت" کے تحت ان کا مفصل احوال لکھا ہے۔ مختصراً یہ کہ خیال کی مناسبت سے مناسب بحر کا چناؤ ، مناسب پیرائے کا انتخاب اور ان الفاظ کا استعمال جو لفظی تصویر کشی میں ممد و معاون ہوں ضروری ہے )۔
جس طرح ایک اچھا اداکار کسی کردار کی حقیقی زندگی کا ذاتی تجربہ کیے بغیر محض اپنے مشاہدے کی بدولت اس کردار کو بخوبی ادا کرسکتا ہے اسی طرح اپنی قوتِ تخیل کی بدولت شاعر کسی کیفیت یا حالت سے بذاتِ خود گزرے بغیر محض مشاہدے یا مطالعے کی مدد سے اچھا اور مؤثر شعر تخلیق کرسکتا ہے۔ ریاضؔ خیرآبادی اصل زندگی میں نیک اور پرہیزگار آدمی تھے ۔ عمر بھر کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا لیکن خمریات کے بارے میں ایسی اچھی اور بہ کثرت شاعری لکھی ہے کہ شاعرِ خمریات کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شاعر اپنے ماحول اور معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے ۔
آخری تدوین: