الف عین اسٹوڈیو-2 (شاعری)

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر ، عرفان علوی ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ۔ نظر ثانی فرمائیے گا۔

عرفان علوی بھائی، لیجیے دو شعر اور ہو گئے ہیں 🙂

یا رب یہ عجب دور ہے اک بوالعجبی کا
ہر لب پہ ترانہ ہے جہاں تیرہ شبی کا

گم گشتۂ صحرا کا ہے جو ریگِ رواں سے
تجھ سے ہے وہی ربط مری تشنہ لبی کا

مَلتا ہے ستم گر بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
یا
جو دل کی زباں سے ذرا واقف ہی نہیں ہے
لاحق ہوا ہے عشق مجھے ایسے غبی کا

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا

نئے اشعار
ہر غنچۂ گل پر ہے خس و خار کا قبضہ
انجام ہے گلچیں کی یہ راحت طلبی کا
یا
خار و خس و خاشاک کا گلشن پہ تسلط
ثمرہ ہے یہ گلچین کی راحت طلبی کا

بے لذتِ ایماں ہی رکھا بے عملی نے
ہرچند کہ دعویٰ تھا مجھے عشقِ نبی ﷺ کا
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عبدالرؤف ، بہت شکریہ اس سلسلے کو جاری رکھنے کا۔ ایک دو اشعار پر میں مختصراً کچھ عرض کرتا ہوں۔

یا رب یہ عجب دور ہے اک بوالعجبی کا
ہر لب پہ ترانہ ہے جہاں تیرہ شبی کا
اس شعر میں بھی گرامر کی غلطی ہے ۔ شعر میں اور تو ہر قسم کی خامی چل سکتی ہے لیکن گرامر اور تلفظ کی غلطی کی گنجائش بالکل بالکل بالکل بھی نہیں ہوتی ۔ گرامر کی غلطی سے بچنے کا ایک سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ شعر کی نثر بنا کر دیکھ لینا چاہیے ۔ پہلے مصرع میں زمان یعنی وقت کی بات ہورہی ہے تو دوسرے مصرع میں "جہاں" کے بجائے "جس میں" کا محل ہے ۔ جہاں کا لفظ مکان کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ زمان کے لیے جس میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ سو اس کی درست نثر یوں بنے گی: یارب ، بوالعجبی کا یہ کیسا عجب دور ہے کہ جس میں ہر لب پر تیرہ شبی کا ترانہ ہے ۔

گم گشتۂ صحرا کا ہے جو ریگِ رواں سے
تجھ سے ہے وہی ربط مری تشنہ لبی کا
یہ شعر تو آپ نے شاید لسی کا بڑا سا گلاس پی کر لکھا ہے ۔:) جوں والے شعر میں تو آپ نے ٹھیک بات کی تھی کہ جس طرح کوئی گم گشتۂ صحرا پانی کو ترستا ہے اسی طرح میں ۔۔۔۔۔۔ الخ ۔ لیکن جوں کو نکالنے کے بعد اس شعر میں پانی کی جگہ ریگِ رواں نے لے لی؟!اب اس شعر کا کیا مطلب ہوا؟ جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں اس کا ابلاغ نہیں ہورہا اس شعر میں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
رمضان المبارک کی مصروفیات کی وجہ سے غیر اعلانیہ چھٹیاں تھیں۔
اس غزل پہ احبابِ فکر و سخن کچھ اور کہنا چاہیں تو ابھی اس ماہ کے کچھ دن باقی ہیں۔
شعراء خواتین و حضرات سے عرض ہے کہ اپنی نگارشات جلد بھیجیں تاکہ مئی کے مہینے کی غزل کا انتخاب ہو سکے۔ نیز جن شعراء کی غزلوں پہ پہلے طبع آزمائی :) ہو چکی ہے، وہ بھی اپنی کوئی دوسری تازہ/پرانی غزل بھیج سکتے ہیں۔:):):)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ!
رمضان المبارک کی کچھ مصروفیات کی وجہ سے اس کلام پر کچھ سوچنے کا موقع نہ ملا۔ اب کچھ سوچ و بچار کی ہے۔ دیکھیے اور اپنی رائے سے نوازیئے۔


یہ کون سا عالم ہے خدا، بوالعجبی کا
ہر لب پہ ترانہ ہے جہاں تیرہ شبی کا

جب سے ہے مجھے خبط ہوا حق طلبی کا
چرچا ہے زمانے میں مری بے ادبی کا

گم گشتۂ صحرا کہ ہو پانی کو ترستا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا

مَلتا ہے ستم گر بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق ہوا ہے عشق مجھے ایسے غبی کا

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا

احساسِ زیاں بھی نہ رہا تجھ کو گنوا کر
اب دل کا وہ عالم ہے مرے بے طلبی کا

خار و خس و خاشاک کا گلشن پہ تسلط
ثمرہ ہے یہ گلچین کی راحت طلبی کا

بے لذتِ ایماں ہی رکھا بے عملی نے
ہرچند کہ دعویٰ تھا مجھے عشقِ نبی ﷺ کا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ!
رمضان المبارک کی کچھ مصروفیات کی وجہ سے اس کلام پر کچھ سوچنے کا موقع نہ ملا۔ اب کچھ سوچ و بچار کی ہے۔ دیکھیے اور اپنی رائے سے نوازیئے۔


یہ کون سا عالم ہے خدا، بوالعجبی کا
ہر لب پہ ترانہ ہے جہاں تیرہ شبی کا

جب سے ہے مجھے خبط ہوا حق طلبی کا
چرچا ہے زمانے میں مری بے ادبی کا

گم گشتۂ صحرا کہ ہو پانی کو ترستا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا

مَلتا ہے ستم گر بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق ہوا ہے عشق مجھے ایسے غبی کا

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا

احساسِ زیاں بھی نہ رہا تجھ کو گنوا کر
اب دل کا وہ عالم ہے مرے بے طلبی کا

خار و خس و خاشاک کا گلشن پہ تسلط
ثمرہ ہے یہ گلچین کی راحت طلبی کا

بے لذتِ ایماں ہی رکھا بے عملی نے
ہرچند کہ دعویٰ تھا مجھے عشقِ نبی ﷺ کا
ظہیراحمدظہیر ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، عرفان علوی ، سید عاطف علی
 
محترم اساتذہ!
رمضان المبارک کی کچھ مصروفیات کی وجہ سے اس کلام پر کچھ سوچنے کا موقع نہ ملا۔ اب کچھ سوچ و بچار کی ہے۔ دیکھیے اور اپنی رائے سے نوازیئے۔


یہ کون سا عالم ہے خدا، بوالعجبی کا
ہر لب پہ ترانہ ہے جہاں تیرہ شبی کا

جب سے ہے مجھے خبط ہوا حق طلبی کا
چرچا ہے زمانے میں مری بے ادبی کا

گم گشتۂ صحرا کہ ہو پانی کو ترستا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا

مَلتا ہے ستم گر بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق ہوا ہے عشق مجھے ایسے غبی کا

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا

احساسِ زیاں بھی نہ رہا تجھ کو گنوا کر
اب دل کا وہ عالم ہے مرے بے طلبی کا

خار و خس و خاشاک کا گلشن پہ تسلط
ثمرہ ہے یہ گلچین کی راحت طلبی کا

بے لذتِ ایماں ہی رکھا بے عملی نے
ہرچند کہ دعویٰ تھا مجھے عشقِ نبی ﷺ کا
روفی بھائی ، خوش آمدید ! اگرچہ آپ نے نئے اشعار شامل کیے ہیں ، البتہ آپ کی غزل پر خاصے تبصرے ہو چکے ہیں ، لہذا زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا . مختصر یہ کہ اب اشعار عمومی طور پر صاف ستھرے ہیں . صرف دو جگہ مزید بہتری کی ضرورت ہے . تیسرے شعر میں ’ہوا ہے‘ پر روانی ٹوٹ رہی ہے . یہاں ’ہی ہوا‘ کے وزن کا کچھ لا کر دیکھیے . ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں ’جو‘ کی جگہ ’وہ‘ کر دیں اور دوسرا مصرعہ یوں ہو جائے : لاحق یہ ہوا عشق مجھے کیسے غبی کا . ساتویں شعر میں یہ صاف نہیں کہ ’عالم‘ کی نسبت ’دِل‘ سے ہے یا ’بے طلبی‘ سے . مصرعہ یوں ہو تو یہ دقت نہیں ہوگی : اب دِل میں وہ عالم ہے مری بے طلبی کا .
 
آخری تدوین:
Top