اچھا سوال پوچھا ہے آپ نے ، خواہرم صابرہ ! میں تو گاجر کے حلوے کی توقع کررہا تھا لیکن اس بار بھی سوال کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا ہے آپ نے ۔ خیر ، حلوہ ادھار رہا ۔
پہلے آپ کے سوال کو دیکھ لیا جائے ۔
اس موضوع کے بارے میں اس سے پہلے بھی محفل کے کئی دھاگوں میں جزئیات کے ساتھ بہت کچھ تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ۔
شعری تنقید کے ضمن میں عموماً حشو و زوائد اور بھرتی کے الفاظ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان دونوں میں ذرا فرق ہے ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ذرا تفصیل سے لکھ دوں ۔
حشو کے لغوی معنی ہیں ٹھونسنا۔علم الکلام کی اصطلاح میں حشو اس زائد لفظ کو کہا جاتا ہے جو عبارت کے معنی میں کوئی اضافہ نہ کرے اور جس کے حذف کرنے سے عبارت کے معنی میں کوئی فرق نہ آئے ۔ بلکہ حشو کو نکالنے سے کلام کی خوبی اور حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔عام طور پر حشو کے بجائے حشو و زوائد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ عملی طور پر ان دونوں اصطلاحات سے ایک ہی بات مراد ہے ۔
میں نے اس مراسلے کی دوسری سطر میں ایک جملے کو سرخ رنگ سے اس لیے ملوّن کیا ہے کہ اس کو بطور مثال پیش کرسکوں۔ اس جملے میں متعدد الفاظ زائد ہیں یعنی یہ الفاظ جملے کے معنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے ۔
موضوع کے بارے میں کے بجائے
موضوع پر کافی ہوگا۔ جب دھاگوں کا ذکر کردیا تو محفل کے الفاظ استعمال کرنا ضروری نہیں کہ دھاگے محفل ہی کا حصہ ہیں ۔
اس سے پہلے کے بجائے صرف
پہلے کہنا کافی ہوگا ۔
تفصیل کا لفظ استعمال کر لیا تو
جزئیات کے ساتھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
بہت کچھ کے بجائے
بہت کافی ہوگا۔ چنانچہ مذکورہ بالا سرخ جملے کو حشو و زوائد سے پاک کرنے کے بعد یوں لکھا جاسکتا ہے:
اس موضوع پر پہلے بھی کئی دھاگوں میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ۔ غور کیجیے کہ حشو و زوائد نکالنے سے جملے کے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ اختصار اور جامعیت نے عبارت کی خوبی میں اضافہ کردیا۔
علما نے حشو کی دو اقسام بیان کی ہیں ۔ پہلی قسم کو حشوِ ملیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی کے نام کے آگے دعا ، تحسین، توضیح وغیرہ کے کلمات کا اضافہ کرنا ۔ مثلاً رحمۃ اللّٰہ علیہ ، رضی اللّٰہ عنہ ، شاعرِ مشرق وغیرہ ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ حشو برا نہیں ۔ یہ حشو عام طور پر شعر میں استعمال بھی نہیں کیا جاتا البتہ نثر میں عام ملتا ہے ۔
دوسری قسم کو حشوِ قبیح کہا گیا ہے ۔ وہ کلمہ یا کلمات جو عبارت کے معانی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے بلکہ انہیں داخلِ عبارت کرنے سے زبان و بیان کا معیار متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات معانی میں خلل بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ حشوِ قبیح کئی طرح کا ہوسکتا ہے ۔
تکرار: یعنی ہم معنی الفاظ کا استعمال ۔ مثلاً اس کی
شجاعت اور دلیری کے واقعات و کہانیاں مشہور ہیں ۔ میرے دل میں اس کی بہت
عزت اور احترام ہے ۔
طویل نویسی یا دراز نویسی: یعنی کسی بات کو براہِ راست اور کم الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے الفاظ زیادہ کرنا ۔ مثلاً اس نے راستہ طے کیا کے بجائے اس نے راستے کو طے کیا ۔ آخر کار وہ مان گیا کے بجائے وہ آخر میں آکر مان گیا ۔ وغیرہ
حشوِ زائد: سنگِ حجرِ اسود ، فصلِ بہار کا موسم ، جناح کیپ ٹوپی ، آبِ زمزم کا پانی ، بمع ، بمعہ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ حشو کی یہ قسم تو صاف ظاہر ہے اور خوش قسمتی سے عام نہیں ہے ۔
بھرتی کا لفظ یا الفاظ وہ ہوتے ہیں جنہیں شاعر کسی مصرع کا وزن پورا کرنے کے لیے شامل کرتا ہے ۔ چونکہ بھرتی کا لفظ شعر کے معنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتا اس لیے اس کو حذف کرنے سے شعر کا مفہوم متاثر نہیں ہوتا ۔لیکن یہ ممکن ہے کہ بھرتی کا لفظ ایسا ہو جو شعر کے معنی میں الجھن پیدا کردے یا بگاڑ دے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شعر کا مضمون کم الفاظ میں ادا ہوجاتا ہے لیکن وزن پورا کرنے کے لیے مصرع میں ایک دو لفظ اضافی ڈالنے پڑجاتے ہیں ۔ زبان و بیان پر قدرت ہو تو بھرتی کے الفاظ کا استعمال کم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اساتذہ کے ہاں بھرتی کے الفاظ شاذ ونادر ہی نظر آتے ہیں ۔ کوشش کرنی چاہیے کہ بھرتی کا لفظ لانے کے بجائے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ایسا لفظ(یا الفاظ) یا پیرایۂ اظہار استعمال کیا جائے کہ جو وزن پر پورا اترے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے اس وقت کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی اور نیند میرا کالر پکڑ پکڑ کر کھینچ رہی ہے ۔ کرسی سے اٹھانا چاہتی ہے ۔
چنانچہ گفتگو کو یہیں ختم کرتا ہوں ۔ اگلی دفعہ نئے مراسلے میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مثالیں پیش کروں گا۔
عبارت میں حشوِ قبیح کئی طرح سے داخل ہوسکتا ہے:
اول: ہم معنی الفاظ کا استعمال ۔ مثلاً صبا گلزار و گلشن سے عجب گل چن کے لاتی ہے۔ اس مصرع میں گلزار یا گلشن دونوں میں سے صرف ایک لفظ ضروری ہے ۔ دوسراغیر ضروری ہے۔
دوم: مضمون کی تکرار: جو بات عبارت کے سیاق و سباق سے خود بخود ظاہر ہورہی ہو اس کو الفاظ میں دوبارہ بیان کرنا حشو پیدا کرتا ہے ۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:
ہم کو مٹا چکا فلکِ ظلم آفریں
اب تم مٹا رہے ہو ہمارے مزار کو
دوسرے مصرع سے صاف ظاہر ہے کہ شاعر مر چکا ہے یعنی دستِ فلک شاعر کومٹا چکا ہے۔ اس لیے پہلے مصرع میں "ہم کو" کے الفاظ غیرضروری ہیں ۔ اس کی جگہ کچھ اور الفاظ لائے جاسکتے ہیں ۔ عشرت لکھنوی نے اس شعر پر یہ اصلاح دی تھی:
پہلے مٹا چکا فلکِ ظلم آفریں
اب تم مٹا رہے ہو ہمارے مزار کو
سوم: بھرتی کے الفاظ: وزن پورا کرنے کے لیے مصرع میں غیرضروری لفظ یا الفاظ کا داخل کرنا کہ جو ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری نہیں ۔ مثلاً میر کا یہ شعر:
سمجھا کبھی نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
مانا کیا خدا کی طرح ان بُتاں کو میں
پہلے مصرع کو صرف یوں کہا جائے کہ:
سمجھا کبھی نہ اپنے سود و زیاں کو میں: تو مطلب پوری طرح ادا ہوجاتا ہے ۔ لیکن مؔیر نے اس جملے میں وزن پورا کرنے کے لیے "تو" کا لفظ داخل کیا جو کہ غیر ضروری ہے اور اسے بھرتی کا لفظ کہا جائے گا ۔ اس لفظ کے نکالنے سے جملے کے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ وزن بگڑ جائے گا۔
اسی طرح میؔر کا ایک اور شعر ہے:
آخر ہماری خاک تو برباد ہوگئی
اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی
دوسرا مصرع اگر یوں کہیں کہ:
اس کی ہوا میں ہم پہ بیداد ہوگئی: تو بالکل ٹھیک ہے ، اس جملے کےمعنی مکمل ہیں۔ لیکن میؔر کو وزن پورا کرنے کے لیے تو کا لفظ بھرتی کرنا پڑا۔
شعر کی سب سے بڑی خوبی ایجاز یعنی اختصار ہوتی ہے ۔ اکثر جو بات نثر میں بیان کرنے کے لیے کئی پیراگراف درکار ہوتے ہیں انہیں شاعردو مصرعوں میں چند الفاظ کی مدد سے اور بہت پر اثر طریقے سے بیان کرڈالتا ہے ۔ چنانچہ شعر کا ہر لفظ قیمتی ہوتا ہے ۔ سو کسی بھی لفظ کو ضائع نہیں کیا جاسکتا ۔ ( چھوٹی بحر کے شعر میں تو ہر لفظ کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔) اچھے شعر کے متعلق عموماً جو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں ہر لفظ موتی کی طرح جڑا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی بھی زائد لفظ موجود نہیں ، اس میں ہر لفظ جو استعمال ہو اہے وہ ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری ہے ۔ اچھے اساتذہ کے تقریباً تمام اشعار یا اکثر اشعار ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ لیکن عملی طور پر ہر شاعر کے ہر شعر کا ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ بعض اوقات عروضی پابندیوں کی وجہ سے حشو و زوائد سے بچنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے اور لامحالہ ایک دو بھرتی کے الفاظ مصرع میں ڈالنے پڑجاتے ہیں ۔ بس خیال صرف یہ رکھنا چاہیے کہ ایسا بے ضرر لفظ یا الفاظ بھرتی کیے جائیں جن سے شعر کے معنی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ جیسا کہ میر نے اپنے محولہ بالا اشعار میں کیا ۔
عبدالرؤف صاحب کی زیرِ بحث غزل کے تیسرے شعر میں
پھر اور
سا کے غیر ضروری الفاظ بے ضرر نہیں ہیں بلکہ شعر کے معانی کو بدل رہے ہیں ۔ اس کی تفصیل کے لیے
اس دھاگے کے مراسلے نمبر 61 کو ملاحظہ کیجیے۔
اردو شاعر میں چند ایسے بھرتی کے الفاظ ہیں جو بے ضرر ہیں اور اکثر شعر اکے ہاں نظر آتے ہیں ۔ مثلاً حفیظ جالندھری کا یہ شعر:
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب کہ مجھے
ہر بری بات بری بات نظر آتی ہے
اس شعر میں یارب کے الفاظ بھرتی کے ہیں ۔ یہ الفاظ شعر کے معنوں میں کوئی اضافہ نہیں کرتے ۔ ان الفاظ کو بغیر معنی تبدیل کیے شعر سے نکالا بھی جاسکتا ہے اور ان کی جگہ کوئی اور الفاظ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً :
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارو کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے لوگو کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے جس میں کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے دیکھو کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے بیگم کہ مجھے
وغیرہ وغیرہ
لیکن حفیظ جالندھری نے یارب کے الفاظ منتخب کیے ۔ فائدہ اس کا یہ ہوا کہ شعر میں ایک طرح کا لطیف پہلو پیدا ہوگیا ۔ یعنی شاعر اپنے خدا کو بتارہا ہے کہ یارب اب میں بری بات کو بری بات ہی سمجھتا ہوں ۔ گناہوں سے تائب ہوگیا ہوں۔
فائدہ: کوشش تو یہ کرنا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو شعر میں غیر ضروری الفاظ نہ لائے جائیں بلکہ وہی الفاظ یا پیرایہ استعمال کیا جائے کہ جو ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری ہے لیکن اگر کبھی کوئی لفظ بھرتی کرنا پڑہی جائے تو کوئی بے ضرر لفظ استعمال کیا جائے ۔ کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ جو شعر کے معنی میں بگاڑ یا الجھاؤ پیدا کردے۔
(ایک ضمنی نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ کا تخلص بامعنی ہے تو اسے شعر میں استعمال کرتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے شعر کے معنی متاثر نہ ہوں۔ )