الف عین اسٹوڈیو-2 (شاعری)

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پھر میرا جفا جُو لگا مَلنے کفِ افسوس
دیکھا جو نظارہ سا مری جاں بلبی کا

مجھے تو پہلے مصرعے میں ’’پھر‘‘ اور دوسرے میں ’’سا‘‘ بھرتی کے معلوم ہوتے ہیں، اور وہ بھی شعر کا مزا کرکرا کرنے کی حد تک ۔۔۔ پہلے مصرعے میں تعقید لفظی بھی بہت کھٹک رہی ہے جبکہ آسانی سے ان سقموں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ مثلا
ملتا ہے جفا جو بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا ۔۔۔
اس شعر پر برادرم احسن راحل جامع تبصرہ کرچکے ہیں اور خوبصورت اصلاح بھی دے چکے ہیں۔ سو اس شعر پر بات کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں بچا۔ لیکن اس وقت چونکہ دھاگے میں حشو زائد اور بھرتی کے الفاظ پر بات ہورہی ہے اس لیے اس شعر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مختصر نکات بیان ہوجائیں تو اچھا ہے ۔
جیسا کہ راحل بھائی نے نشاندہی کی پہلے مصرع میں پھر اور دوسرے میں سا کے الفاظ بھرتی کے ہیں اور وزن پورا کرنے کے لیے لائے گئے ہیں۔ لیکن بھرتی کے یہ دونوں الفاظ بے ضرر نہیں ہیں بلکہ شعر کے مفہوم پر اثر انداز ہورہے ہیں اور اسے بگاڑ رہے ہیں ۔ پہلے مصرع میں پھر کے لفظ سے یوں لگتا ہے کہ جفا جو محبوب پہلے بھی کفِ افسوس مل چکا ہے۔ یعنی عاشق پہلے بھی جاں بلب ہوچکا ہے؟! :) یہ کچھ اچھا تاثر نہیں بن رہا۔
دوسرے مصرع میں سا کا لفظ بھی درست نہیں۔ سا کا مطلب ہوتا ہے جیسا ۔ تم سا نہیں دیکھا یعنی تم جیسا نہیں دیکھا ، ہوا کا جھونکا سا آیا یعنی ہوا کی لہر سی آئی، دھماکہ سا ہوا یعنی دھماکے جیسا شور ہوا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ چنانچہ دیکھا جو نظارہ سا کہنا کوئی مطلب نہیں رکھتا ۔یا تو نظارہ دیکھا یا نہیں دیکھا ۔ نظارہ سا دیکھا بے معنی ہے۔

کوشش کرنی چاہیے کہ بھرتی کا لفظ لانے کے بجائے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ایسے الفاظ یا پیرایۂ اظہار استعمال کیا جائے جو وزن پر پورا اتریں ، جیسا کہ راحل بھائی نے کیا ۔
ملتا ہے جفا جو بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا
راحل بھائی نے یہ نکتہ اچھی طرح واضح کردیا کہ ذرا سی محنت اورغور و فکر سے حشو و زوائد سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے مثال دینے کی خاطر اصل شعر ہی کے الفاظ کی ترتیب کو بدل کر پھر کے لفظ سے نجات دلادی۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا بھرتی کا لفظ لانے کے بجائے ایسا لفظ(یا الفاظ) یا پیرایۂ اظہار تلاش کیا جائےکہ جو وزن پر پورا اترے ۔
جفا جو کا لفظ بھی اس شعر کے مفہوم کی ادائیگی میں کوئی مدد نہیں کرتا ۔ جفا جو یعنی جفا کے موقع اور بہانے ڈھونڈنے والا ۔ جفاجو کہنے سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ بات محبوب کی ہورہی ہے ۔ میری ناقص رائے میں جفاجو کے بجائے ستم گر بہتر رہے گا کہ دوسرے مصرع میں عاشق پر ستم کا ذکر ہے۔
ملتا ہے ستم گر بھی مرا اب کفِ افسوس
کچھ ایسا نظارہ تھا مری جاں بلبی کا
ستم گر کہنےسے دونوں مصرع مزید مربوط ہوجاتے ہیں۔ شعر کے معنی میں عمومیت اور گیرائی پیدا ہوجاتی ہے۔ اب یہ شعر محبوب کے علاوہ دیگر ستم گروں پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق یہ مجھے عشق ہوا کیسے غبی کا
اس شعر پر راحل بھائی تفصیلی تبصرہ کرچکے ہیں ۔ لفظ غبی کے حوالے سے جو تجزیہ انہوں نے لکھا وہ قابلِ غور ہے اور امید ہے کہ شاعر اس کی روشنی سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ ویسے یہ شاعر صاحب غزل لگانے کے بعد کہاں غائب ہوگئے ہیں ۔ اگر حقہ بریک سے فارغ ہوگئے ہوں تو آکر مکالمات میں شرکت فرمائیں اور نقد و نظر کی نذر و نیاز لوٹیں ۔ :)

اس شعر میں گرامر کا ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ مصرع اول میں اسمِ موصول (جو) استعمال ہوا ہے لیکن اس کے بعد دوسرے مصرع میں صلہ کہیں نہیں آیا ۔
اسمِ موصول وہ اسم ہوتا ہے کہ جس سے بننے والے نامکمل جملے کے ساتھ جب تک دوسرا جملہ(صلہ) نہ ملائیں، جملے کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ یعنی جب تک موصول کے ساتھ صلہ نہ ملایا جائے تب تک جملہ پورے معنی نہیں دیتا۔ مثلاً اگرمیں یہ کہوں کہ : جو عربی زبان سے واقف نہیں ۔۔۔۔۔ تو جب تک میں اس کے آگے صلہ نہ لگاؤں اس کے معنی ادھورے رہیں گے۔ اب میں یہ کہوں کہ: جو عربی زبان سے واقف نہیں وہ قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے ۔ تو بات مکمل ہوگئی ۔ اس جملے میں موصول سرخ رنگ میں اور صلہ نیلے رنگ میں ہے۔

لیکن محولہ بالا شعر میں صلہ غائب ہے ۔ دوسرا مصرع گرامر کے لحاظ سے یوں ہونا چاہیے: لاحق مجھے عشق ہوا اُس غبی کا۔ پھر شعر کی صورت یہ ہوگی۔
ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق مجھے عشق ہوا اُس غبی کا
لیکن اس صورت میں دوسرا مصرع وزن سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اس شعر کو توڑ کر دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اگلی دفعہ نئے مراسلے میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مثالیں پیش کروں گا۔
ان شاء اللّٰہ العزیز جیسے ہی کچھ فرصت اور یکسوئی ملتی ہے میں حاضر ہوکر اپنی اس گفتگو کو مکمل کرتا ہوں ۔ بھرتی کے الفاظ کے ضمن میں پوچھے گئے سوال پر اپنی عاجزانہ گزارشات بھی گوش گزار کروں گا ۔ کوشش رہے گی کہ رمضان المبارک کی ایک ماہ طویل تعطیلات پر جانے سے قبل اس موضوع کو مکمل کردیا جائے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
کیا عمدہ طریقے سے آپ نے سمجھایا ہے۔ بہت شکریہ۔ اگرچہ یہ باتیں کئی بار پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس سے پہلے کے بجائے صرف پہلے کہنا کافی ہوگا ۔
میرا اپنا ایک پرانا شعر ہے ؎

اب ادا کر بھی دے نماز عشق
اس سے پہلے کہ تو قضا کر دے

میں سمجھتی ہوں کہ یہاں اس سے پہلے کا ہی محل ہے ۔ ۔ یعنی یہ لفظ پہلے سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اگر خدانخواستہ میرا یہ شعر صحیح ہے تو!!


میں تو گاجر کے حلوے کی توقع کررہا تھا لیکن اس بار بھی سوال کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا ہے آپ نے ۔ خیر ، حلوہ ادھار رہا ۔ :)
پچھلی بار سات ڈبے بھیجے تھے ۔ ۔ آپ اتنی جلدی بھول گئے ۔ ۔:unsure::unsure::unsure:
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
یہ سوال ایک پیچیدہ تصور کے اجمالی استفسار پر مبنی ہے جسے بیان کرنا قدرے نزاکت اور احتیاط کا متقاضی ہے ۔ اس سلسلے میں مجھے یہ بات اہم معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ اس امر کو سمجھا جائے کہ وہ جوہر دراصل ہے کیا جو کسی شعر کے خوب یا بلند ہونے میں کارفرما ہوتا ہے ۔

کوئی بھی شعر جب قاری تک پہنچتا ہے تو وہ اپنا وہ قالب لیے پہنچتا ہے جو اسے شاعر نے اپنے فکری اور لسانی عناصر سے ترتیب دے کر پیش کیا ہے ۔ اور شعر کا یہ یہ مجموعی تاثر ہی دراصل وہ جو ہر ہوتا ہے جو اس شعر کا حقیقی مقام متعین کرتا ہے ۔ اب اگر اس اجمال کی کچھ تفصیل ہم دیکھیں تو اس میں دو بنیادی جہتیں سامنے آتی ہیں ۔ ایک وہ شعری فکر یا تصور جو شاعر شاعرانہ نزاکت کے ساتھ کنسیو کرتا ہے اور دوسری یہ کہ شاعر اسی فکر یا خیال پر اپنے بیان کی قوت اور لسانی فہم کے مطابق شعر کے فیبرک کا تارو پود جوڑتا اور بنتا ہے ۔

اب اس تار و پود کو دیکھا جائے تو اس میں بھی متعدد عناصر ہوتے ہیں جنہیں برت کر شاعر اپنے شعر کے اس قالب کو اپنی بیاض کے کسی صفحے پر منتقل کرتا ہے ۔ اور اسے اپنی ایک شکل دیتا ہے ۔ اس شکل کے پیچھے کئی لفظی رعایتیں برتی جاتی ہیں کہیں روز مرہ اور محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ کسی ضرب المثل سے بیان کو تقویت پہنچائی جاتی ہے تو کہیں الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے بیان کے پہلو تراشے جاتے ہیں۔ کہیں تشبیہات اور استعارات سے زینت بخشی جاتی ہے تو کہیں انوکھی تراکیب گھڑی جاتی ہیں ۔ کہیں جدت تو کہیں روایت کا عکس شامل کیا جاتا ہے ۔کہیں کسی تلمیح کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں لف و نشر سے مدد لی جاتی ہے ۔ ان تمام عناصر میں شعر اور شاعر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام انفرادی عناصر شاعر کے اس خیال کی نزاکت کی امانت قاری تک پہنچاتے ہیں ۔ اس میں کوئی بھی عنصر اگر مرکزی خیال کے منافی ہوا تو شعر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے ۔

یہ بات بھی ایک مسلم حْیقت ہے کہ کوئی بہت اعلی سے اعلی شعر بھی یہ تمام خصوصیات اپنے اندر نہیں رکھ سکتا نہ ایسا عملاََ ممکن ہو تا ہے، لیکن کسی شعر کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ شعر کے تمام
عناصر جنہیں شاعر بروئے کار لائے، وہ قاری کی فکر کو اپنے تخیل کی سمت میں لے جائیں ۔
چناں چہ ایسی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں کہ شعر میں کوئی خاص تخیل نہیں لیکن شاعر کے انداز بیان نے اسے اوج ثریا تک پہنچا دیا ۔

کسی شعر کے ان اجزائے ترکیبی کو اختصار کے ساتھ سمجھ کر اب ہم صابرہ امین کے سوال کو دیکھ سکتے ہیں کہ کسی " اکا دکا بھرتی" کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ جب شعر کے تخیل اور انداز اور الفاظ سے شعر کو یک جہت کر کے اگر اتنی بلندی پر لے گئے ہیں جہاں اس بھرت سے مجموعی تاثر یا اسلوب یا بیان پر کوئی کاری ضرب نہیں پڑتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی معمولی سی بھرت سے شعر کہیں کا کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اس کا فیصلہ آپ کے فہم، ادراک اور ذوق لسانی پر منحصر ہے ۔ اس کے بغیر تمام نقش ہی ناتمام اور تمام نغمے سودائے خام ہی رہتے ہیں ۔
زبردست ۔ سوال کے جواب میں اس سے کہیں بڑھ کر آپ نے جواب عنایت کیا۔ شعر کو سوچنا اور پھر اس کو کہنا ۔ ۔ الفاظ کا چناؤ اور استعمال۔ ۔ شعر کی بنت اور زبان کی جدت ۔ ۔ اور بھی بہت کچھ ۔ یہ سب بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔ کیا بات ہے آپ کی سید عاطف علی بھائی ۔ بہت شکریہ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
مبتدی اور نو آموز شاعر بھرتی کے الفاظ ڈال کر اساتذہ کو ڈانٹ ڈپٹ کا موقع فراہم کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ روا ہے۔
ایک مبتدی بیچارے یا بیچاری کو ڈانٹ ڈپٹ سے ڈر نہیں لگتا۔ دھلنے، نچڑنے اور سوکھنے سے ڈر لگتا ہے! :grin:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس سے پہلے کے بجائے صرف پہلے کہنا کافی ہوگا ۔

میرا اپنا ایک پرانا شعر ہے ؎

اب ادا کر بھی دے نماز عشق
اس سے پہلے کہ تو قضا کر دے

میں سمجھتی ہوں کہ یہاں اس سے پہلے کا ہی محل ہے ۔ ۔ یعنی یہ لفظ پہلے سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
یا حیرت!
میں ہی شاید ٹھیک سے نہیں سمجھا سکا۔ خیر، دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ سمجھیے کہ حشو ، زائد ، زائدہ ، زوائد ، اضافی ، غیر ضروری ان تمام الفاظ سے ایک ہی چیز مراد ہے۔ ( زوائد جمع ہے زائدہ کی) ۔مذکورہ بحث میں یہ سب اصطلاحات ہم معنی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کوئی بھی لفظ مطلقاً حشو یا زائد نہیں ہوتا بلکہ کسی عبارت کے اندر اس کا استعمال اس کی حیثیت متعین کرتا ہے کہ آیا یہ لفظ مفہوم ادا کرنے کے لیے ضروری ہے یا غیر ضروری۔ اسی بات کو میں نے یوں بیان کیا تھا کہ حشو و زوائد وہ الفاظ ہوتے ہیں کہ جنہیں عبارت سے حذف کردیا جائے تو عبارت کے مفہوم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ (یعنی کسی جملے میں موجود غیرضروری الفاظ کو حشو و زوائد کہتے ہیں) ۔ اب ایک لفظ کسی جملے میں تو ضروری ہوسکتا ہے اور کسی دوسرے جملے میں غیر ضروری ۔ یہ جملے کے مفہوم پر منحصر ہے۔
ایک جملہ دیکھیے: میں ہر روز صبح گاجر کا حلوہ کھاتا ہوں ۔ اس جملے میں سے "روز" کا لفظ نکال دینے سے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے یہ لفظ اس جملے میں زائد ہے۔
لیکن اب دوسرا جملہ دیکھیے: میں روز اسکول جاتا ہوں۔ اس جملے میں "روز" کا لفظ اضافی یا زائد نہیں ہے بلکہ مفہوم کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے ۔ اس لفظ کو حذف کرنے سے جملے کے معنی تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے یہ لفظ اس جملے میں حشو و زوائد میں شمار نہیں ہوگا۔
اب تیسرا جملہ دیکھیے: میں ہر روز اسکول جاتا ہوں۔ اس جملے میں "ہر" کا لفظ اضافی یا زائد ہے کیونکہ اس کو حذف کرنے سے جملے کے معنی برقرار رہتے ہیں ، معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

چنانچہ ثابت یہ ہوا کہ کوئی بھی لفظ مطلق طور پر حشو یا زائد نہیں ہوتا بلکہ اس کی یہ حیثیت عبارت کے حوالے سے متعین کی جاتی ہے۔ اب آپ خود نتیجہ نکال لیجیے کہ آپ کے شعر میں اس سے پہلے آنا چاہیے یا صرف پہلے؟ میں نے جو طویل جمله سرخ رنگ میں لكھا تھا اس میں صرف "پہلے" کےلفظ سے مطلب ادا ہورہا تھا چنانچہ "اس سے" کے الفاظ زائد یا غیر ضروری تھے ۔ لیکن آپ کے شعر میں یہ الفاظ زائد نہیں بلکہ مطلب ادا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

حشو زوائد کی مزید وضاحت کے لیے یوں سمجھ لیجیے کہ حکومت چلانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ضروری ہے ۔ عوامی نمائندے حشو وزوائد میں شمار ہوں گے۔ :)

اگر اب بھی مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو ارشاد فرمائیے گا میں پھر مزید تفصیل سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔

اگر خدانخواستہ میرا یہ شعر صحیح ہے تو!!
آپ کا شعر درست نہیں ہے ۔ گرامر کی گڑبڑیشن ہے اس میں ۔
پچھلی بار سات ڈبے بھیجے تھے ۔ ۔ آپ اتنی جلدی بھول گئے ۔ ۔:unsure::unsure::unsure:
چار ڈبے تو ان میں سے خالی نکلے تھے ۔ بقیہ تین میں نے خالی کردیے ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ تین ڈبے اگلے تین سال تک چلانے ہیں۔:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھا سوال پوچھا ہے آپ نے ، خواہرم صابرہ ! میں تو گاجر کے حلوے کی توقع کررہا تھا لیکن اس بار بھی سوال کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا ہے آپ نے ۔ خیر ، حلوہ ادھار رہا ۔ :)
پہلے آپ کے سوال کو دیکھ لیا جائے ۔ اس موضوع کے بارے میں اس سے پہلے بھی محفل کے کئی دھاگوں میں جزئیات کے ساتھ بہت کچھ تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ۔

شعری تنقید کے ضمن میں عموماً حشو و زوائد اور بھرتی کے الفاظ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں ۔ ان دونوں میں ذرا فرق ہے ۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ذرا تفصیل سے لکھ دوں ۔
حشو کے لغوی معنی ہیں ٹھونسنا۔علم الکلام کی اصطلاح میں حشو اس زائد لفظ کو کہا جاتا ہے جو عبارت کے معنی میں کوئی اضافہ نہ کرے اور جس کے حذف کرنے سے عبارت کے معنی میں کوئی فرق نہ آئے ۔ بلکہ حشو کو نکالنے سے کلام کی خوبی اور حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔عام طور پر حشو کے بجائے حشو و زوائد کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ عملی طور پر ان دونوں اصطلاحات سے ایک ہی بات مراد ہے ۔
میں نے اس مراسلے کی دوسری سطر میں ایک جملے کو سرخ رنگ سے اس لیے ملوّن کیا ہے کہ اس کو بطور مثال پیش کرسکوں۔ اس جملے میں متعدد الفاظ زائد ہیں یعنی یہ الفاظ جملے کے معنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے ۔موضوع کے بارے میں کے بجائے موضوع پر کافی ہوگا۔ جب دھاگوں کا ذکر کردیا تو محفل کے الفاظ استعمال کرنا ضروری نہیں کہ دھاگے محفل ہی کا حصہ ہیں ۔ اس سے پہلے کے بجائے صرف پہلے کہنا کافی ہوگا ۔ تفصیل کا لفظ استعمال کر لیا تو جزئیات کے ساتھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔ بہت کچھ کے بجائے بہت کافی ہوگا۔ چنانچہ مذکورہ بالا سرخ جملے کو حشو و زوائد سے پاک کرنے کے بعد یوں لکھا جاسکتا ہے: اس موضوع پر پہلے بھی کئی دھاگوں میں تفصیل سے لکھا جاچکا ہے ۔ غور کیجیے کہ حشو و زوائد نکالنے سے جملے کے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ اختصار اور جامعیت نے عبارت کی خوبی میں اضافہ کردیا۔

علما نے حشو کی دو اقسام بیان کی ہیں ۔ پہلی قسم کو حشوِ ملیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی کے نام کے آگے دعا ، تحسین، توضیح وغیرہ کے کلمات کا اضافہ کرنا ۔ مثلاً رحمۃ اللّٰہ علیہ ، رضی اللّٰہ عنہ ، شاعرِ مشرق وغیرہ ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ حشو برا نہیں ۔ یہ حشو عام طور پر شعر میں استعمال بھی نہیں کیا جاتا البتہ نثر میں عام ملتا ہے ۔
دوسری قسم کو حشوِ قبیح کہا گیا ہے ۔ وہ کلمہ یا کلمات جو عبارت کے معانی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے بلکہ انہیں داخلِ عبارت کرنے سے زبان و بیان کا معیار متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات معانی میں خلل بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ حشوِ قبیح کئی طرح کا ہوسکتا ہے ۔
تکرار: یعنی ہم معنی الفاظ کا استعمال ۔ مثلاً اس کی شجاعت اور دلیری کے واقعات و کہانیاں مشہور ہیں ۔ میرے دل میں اس کی بہت عزت اور احترام ہے ۔
طویل نویسی یا دراز نویسی: یعنی کسی بات کو براہِ راست اور کم الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے الفاظ زیادہ کرنا ۔ مثلاً اس نے راستہ طے کیا کے بجائے اس نے راستے کو طے کیا ۔ آخر کار وہ مان گیا کے بجائے وہ آخر میں آکر مان گیا ۔ وغیرہ
حشوِ زائد: سنگِ حجرِ اسود ، فصلِ بہار کا موسم ، جناح کیپ ٹوپی ، آبِ زمزم کا پانی ، بمع ، بمعہ ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ حشو کی یہ قسم تو صاف ظاہر ہے اور خوش قسمتی سے عام نہیں ہے ۔ :)

بھرتی کا لفظ یا الفاظ وہ ہوتے ہیں جنہیں شاعر کسی مصرع کا وزن پورا کرنے کے لیے شامل کرتا ہے ۔ چونکہ بھرتی کا لفظ شعر کے معنی میں کوئی اضافہ نہیں کرتا اس لیے اس کو حذف کرنے سے شعر کا مفہوم متاثر نہیں ہوتا ۔لیکن یہ ممکن ہے کہ بھرتی کا لفظ ایسا ہو جو شعر کے معنی میں الجھن پیدا کردے یا بگاڑ دے۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شعر کا مضمون کم الفاظ میں ادا ہوجاتا ہے لیکن وزن پورا کرنے کے لیے مصرع میں ایک دو لفظ اضافی ڈالنے پڑجاتے ہیں ۔ زبان و بیان پر قدرت ہو تو بھرتی کے الفاظ کا استعمال کم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اساتذہ کے ہاں بھرتی کے الفاظ شاذ ونادر ہی نظر آتے ہیں ۔ کوشش کرنی چاہیے کہ بھرتی کا لفظ لانے کے بجائے مفہوم کی ادائیگی کے لیے ایسا لفظ(یا الفاظ) یا پیرایۂ اظہار استعمال کیا جائے کہ جو وزن پر پورا اترے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے اس وقت کوئی مثال ذہن میں نہیں آرہی اور نیند میرا کالر پکڑ پکڑ کر کھینچ رہی ہے ۔ کرسی سے اٹھانا چاہتی ہے ۔ :) چنانچہ گفتگو کو یہیں ختم کرتا ہوں ۔ اگلی دفعہ نئے مراسلے میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ مثالیں پیش کروں گا۔
عبارت میں حشوِ قبیح کئی طرح سے داخل ہوسکتا ہے:
اول: ہم معنی الفاظ کا استعمال ۔ مثلاً صبا گلزار و گلشن سے عجب گل چن کے لاتی ہے۔ اس مصرع میں گلزار یا گلشن دونوں میں سے صرف ایک لفظ ضروری ہے ۔ دوسراغیر ضروری ہے۔
دوم: مضمون کی تکرار: جو بات عبارت کے سیاق و سباق سے خود بخود ظاہر ہورہی ہو اس کو الفاظ میں دوبارہ بیان کرنا حشو پیدا کرتا ہے ۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:
ہم کو مٹا چکا فلکِ ظلم آفریں
اب تم مٹا رہے ہو ہمارے مزار کو
دوسرے مصرع سے صاف ظاہر ہے کہ شاعر مر چکا ہے یعنی دستِ فلک شاعر کومٹا چکا ہے۔ اس لیے پہلے مصرع میں "ہم کو" کے الفاظ غیرضروری ہیں ۔ اس کی جگہ کچھ اور الفاظ لائے جاسکتے ہیں ۔ عشرت لکھنوی نے اس شعر پر یہ اصلاح دی تھی:
پہلے مٹا چکا فلکِ ظلم آفریں
اب تم مٹا رہے ہو ہمارے مزار کو

سوم: بھرتی کے الفاظ: وزن پورا کرنے کے لیے مصرع میں غیرضروری لفظ یا الفاظ کا داخل کرنا کہ جو ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری نہیں ۔ مثلاً میر کا یہ شعر:
سمجھا کبھی نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
مانا کیا خدا کی طرح ان بُتاں کو میں
پہلے مصرع کو صرف یوں کہا جائے کہ: سمجھا کبھی نہ اپنے سود و زیاں کو میں: تو مطلب پوری طرح ادا ہوجاتا ہے ۔ لیکن مؔیر نے اس جملے میں وزن پورا کرنے کے لیے "تو" کا لفظ داخل کیا جو کہ غیر ضروری ہے اور اسے بھرتی کا لفظ کہا جائے گا ۔ اس لفظ کے نکالنے سے جملے کے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ وزن بگڑ جائے گا۔
اسی طرح میؔر کا ایک اور شعر ہے:
آخر ہماری خاک تو برباد ہوگئی
اس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی
دوسرا مصرع اگر یوں کہیں کہ: اس کی ہوا میں ہم پہ بیداد ہوگئی: تو بالکل ٹھیک ہے ، اس جملے کےمعنی مکمل ہیں۔ لیکن میؔر کو وزن پورا کرنے کے لیے تو کا لفظ بھرتی کرنا پڑا۔

شعر کی سب سے بڑی خوبی ایجاز یعنی اختصار ہوتی ہے ۔ اکثر جو بات نثر میں بیان کرنے کے لیے کئی پیراگراف درکار ہوتے ہیں انہیں شاعردو مصرعوں میں چند الفاظ کی مدد سے اور بہت پر اثر طریقے سے بیان کرڈالتا ہے ۔ چنانچہ شعر کا ہر لفظ قیمتی ہوتا ہے ۔ سو کسی بھی لفظ کو ضائع نہیں کیا جاسکتا ۔ ( چھوٹی بحر کے شعر میں تو ہر لفظ کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔) اچھے شعر کے متعلق عموماً جو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں ہر لفظ موتی کی طرح جڑا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شعر میں کوئی بھی زائد لفظ موجود نہیں ، اس میں ہر لفظ جو استعمال ہو اہے وہ ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری ہے ۔ اچھے اساتذہ کے تقریباً تمام اشعار یا اکثر اشعار ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ لیکن عملی طور پر ہر شاعر کے ہر شعر کا ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ بعض اوقات عروضی پابندیوں کی وجہ سے حشو و زوائد سے بچنا تقریباً نا ممکن ہوتا ہے اور لامحالہ ایک دو بھرتی کے الفاظ مصرع میں ڈالنے پڑجاتے ہیں ۔ بس خیال صرف یہ رکھنا چاہیے کہ ایسا بے ضرر لفظ یا الفاظ بھرتی کیے جائیں جن سے شعر کے معنی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ جیسا کہ میر نے اپنے محولہ بالا اشعار میں کیا ۔
عبدالرؤف صاحب کی زیرِ بحث غزل کے تیسرے شعر میں پھر اور سا کے غیر ضروری الفاظ بے ضرر نہیں ہیں بلکہ شعر کے معانی کو بدل رہے ہیں ۔ اس کی تفصیل کے لیے اس دھاگے کے مراسلے نمبر 61 کو ملاحظہ کیجیے۔

اردو شاعر میں چند ایسے بھرتی کے الفاظ ہیں جو بے ضرر ہیں اور اکثر شعر اکے ہاں نظر آتے ہیں ۔ مثلاً حفیظ جالندھری کا یہ شعر:
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارب کہ مجھے
ہر بری بات بری بات نظر آتی ہے
اس شعر میں یارب کے الفاظ بھرتی کے ہیں ۔ یہ الفاظ شعر کے معنوں میں کوئی اضافہ نہیں کرتے ۔ ان الفاظ کو بغیر معنی تبدیل کیے شعر سے نکالا بھی جاسکتا ہے اور ان کی جگہ کوئی اور الفاظ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً :
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے یارو کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے لوگو کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے جس میں کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے دیکھو کہ مجھے
یہ عجب مرحلۂ عمر ہے بیگم کہ مجھے
وغیرہ وغیرہ
لیکن حفیظ جالندھری نے یارب کے الفاظ منتخب کیے ۔ فائدہ اس کا یہ ہوا کہ شعر میں ایک طرح کا لطیف پہلو پیدا ہوگیا ۔ یعنی شاعر اپنے خدا کو بتارہا ہے کہ یارب اب میں بری بات کو بری بات ہی سمجھتا ہوں ۔ گناہوں سے تائب ہوگیا ہوں۔ :)

فائدہ: کوشش تو یہ کرنا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو شعر میں غیر ضروری الفاظ نہ لائے جائیں بلکہ وہی الفاظ یا پیرایہ استعمال کیا جائے کہ جو ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری ہے لیکن اگر کبھی کوئی لفظ بھرتی کرنا پڑہی جائے تو کوئی بے ضرر لفظ استعمال کیا جائے ۔ کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ جو شعر کے معنی میں بگاڑ یا الجھاؤ پیدا کردے۔

(ایک ضمنی نکتہ یہ ہے کہ اگر آپ کا تخلص بامعنی ہے تو اسے شعر میں استعمال کرتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے شعر کے معنی متاثر نہ ہوں۔ )
 

صابرہ امین

لائبریرین
جزاک اللہ خیر ۔ ۔تفصیلی وضاحت کا شکریہ۔ جی بات سمجھ میں آ گئی ہے ۔ ۔
چار ڈبے تو ان میں سے خالی نکلے تھے ۔ بقیہ تین میں نے خالی کردیے ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ تین ڈبے اگلے تین سال تک چلانے ہیں۔:)
بات جنموں کی ہوئی تھی، سالوں کی نہیں ۔ ۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فائدہ: کوشش تو یہ کرنا چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو شعر میں غیر ضروری الفاظ نہ لائے جائیں بلکہ وہی الفاظ یا پیرایہ استعمال کیا جائے کہ جو ادائیگیِ مطلب کے لیے ضروری ہے لیکن اگر کبھی کوئی لفظ بھرتی کرنا پڑہی جائے تو کوئی بے ضرر لفظ استعمال کیا جائے ۔ کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ جو شعر کے معنی میں بگاڑ یا الجھاؤ پیدا کردے۔
ظہیر بھائی ! ان بحوث کے کچھ نکات دیکھ کر سید فضل الحسن صاحب کی ایک کتاب ذہن میں آئی ۔ غالبا 1993-1997 کے طالب علمی کے زمانے میں پڑھی تھی ۔
نکات سخن ۔ ( سید فضل الحسن جنہیں ہم حسرت موہانی کہتے ہیں ) ۔ شعری تجزیات کے لحاظ سے اچھی کتاب ہے۔ ہماری ہمشیرہ کے کورس میں بھی شامل تھی ۔کافی عرصے تک سنبھال کر رکھی تھی ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بات جنموں کی ہوئی تھی، سالوں کی نہیں ۔ ۔:)
حلوے کے بارے میں حیلے بہانے نہیں چلیں گے ۔ آپ فوراً سے چار ڈبے دوبارہ بھجوائیں ورنہ ہم آپ کا ڈبہ گول کروادیں گے ۔ حلوہ مافیا سے ہمارے گہرے تعلقات ہیں ۔ :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فضائل اعمال کے بعد میں نے پہلی مرتبہ کسی تحریر میں اس طرح "فائدہ" کی ہیڈنگ دیکھی ہے :)
راحل بھائی ، جوں جوں میں "ووں ووں" ہوتا جارہا ہوں توں توں کوئی پرانی روح مجھ میں حلول کرتی جارہی ہے۔ بعض دفعہ ایسی قدیم باتیں مجھ سے خودبخود سرزد ہوجاتی ہیں ۔ :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ! ان بحوث کے کچھ نکات دیکھ کر سید فضل الحسن صاحب کی ایک کتاب ذہن میں آئی ۔ غالبا 1993-1997 کے طالب علمی کے زمانے میں پڑھی تھی ۔
نکات سخن ۔ ( سید فضل الحسن جنہیں ہم حسرت موہانی کہتے ہیں ) ۔ شعری تجزیات کے لحاظ سے اچھی کتاب ہے۔ ہماری ہمشیرہ کے کورس میں بھی شامل تھی ۔کافی عرصے تک سنبھال کر رکھی تھی ۔
عاطف بھائی ، ادب کے ہر سنجیدہ طالبِ علم کی نظر سے نکاتِ سخن ضرور گزرتی ہے۔ یا یہ کہیے کہ گزرا کرتی تھی۔ حشو کے بارے میں اساتذہ کے کچھ اشعار بطور مثال پیش کرنا چاہتا تھا ۔ میؔر کا ایک شعر نکاتِ سخن ہی سے مل گیا۔ ایک اور شعر کسی نامعلوم شاعر کا بھی اس ضمن میں لکھا ہوا تھا ۔
جلوے نہیں ہیں جام میں اے دل شراب کے
شیشے میں پھول ڈال دیے ہیں گلاب کے
اس میں "اے دل" کا حشو استعمال ہوا تھا جو اردو شاعری میں عام مستعمل بے ضرر سے بھرتی کے الفاظ ہیں ۔ میں نے طوالت سے بچنے کے لیے ایک دو مثالوں ہی پر اکتفا کیا۔

ویسے حسرت موہانی نے اسی کتاب میں متروکات کو پانچ زمروں میں بانٹا ہے ۔متروکاتِ قدیم ، متروکاتِ معروف ،متروکاتِ جائز ،متروکاتِ بیجا اور قابلِ ترک الفاظ۔ حسرت نے لفظ جوں کو قدیم متروکات کی فہرست میں رکھا ہے ۔ :)
 
یہ سوال میرا بھی ہے۔ کبھی کبھی وزن پورا کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اتنی علمی استعداد بھی نہیں ہوتی کہ بہت اچھا متبادل سامنے لایا جا سکے۔ تو کیا اکا دکا بھرتی کے الفاظ ڈال دیے جائیں تو یہ قابلِ معافی نہیں؟ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی بھائی، سید عاطف علی بھائی
صابرہ بہن، اِس شعر میں لفظ ’سا‘ پر تو میں نے اپنی ناچیز رائے پہلے ہی دے دی ہے . یہ لفظ اِس شعر میں یقیناََ حشو كے زمرے میں آئیگا . لفظ ’پِھر‘ پر راحل بھائی کی رائے سے متفق ہوں . البتہ اتنا اور عرض ہے کہ اِس لفظ کی قبولیت کی یہاں ایک ہلکی سی گنجائش ہے . اگر کوئی واقعہ بار بار ہوتا ہو تو لفظ ’پِھر‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے مندرجہ ذیل شعر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پھولوں کی بات اکثر اور بار بار ہوتی ہے :
پِھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی (مخدوم محی الدین)
جیسا میں نے پہلے عرض کیا، مجھ پر روفی بھائی كے شعر کا مفہوم پوری طرح نہیں کُھلا . اگر یہاں مراد یہ ہے کہ جفا جو کو شاعر کی تکلیف پر صدمہ ہو رہا ہے، تو ’پِھر‘ کا قطعی محل نہیں ہے . کسی کو ادھمرا کر كے کوئی بار بار افسوس نہیں کرتا، یعنی سیریل کِلر کو پچھتاوا نہیں ہوتا . :) البتہ اگر جفا جو کو افسوس اِس بات کا ہے کہ اس کا شکار ابھی تک زندہ ہے تو ’پِھر‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ کہنے كے لیے کہ جفا جو بار بار جان لینے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام ہونے پر افسوس کرتا ہے . لیکن جس طرح شعر تخلیق ہوا ہے، یہ مفہوم ادا نہیں ہو رہا، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ روفی بھائی کا خیال تھا بھی نہیں . غرض یہ کہ یہاں ’پِھر‘ کا بھی کوئی محل نظر نہیں آتا .
جہاں تک بھرتی كے الفاظ کا سوال ہے، ظہیر بھائی نے اِس موضوع پر بے حد تفصیلی اور مناسب مواد فراہم کر دیا ہے اور میرے لیے ’اِس سے زیادہ حاجتِ شرح و بیاں نہیں .‘
 
اس شعر پر راحل بھائی تفصیلی تبصرہ کرچکے ہیں ۔ لفظ غبی کے حوالے سے جو تجزیہ انہوں نے لکھا وہ قابلِ غور ہے اور امید ہے کہ شاعر اس کی روشنی سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ ویسے یہ شاعر صاحب غزل لگانے کے بعد کہاں غائب ہوگئے ہیں ۔ اگر حقہ بریک سے فارغ ہوگئے ہوں تو آکر مکالمات میں شرکت فرمائیں اور نقد و نظر کی نذر و نیاز لوٹیں ۔ :)

اس شعر میں گرامر کا ایک بنیادی مسئلہ ہے ۔ مصرع اول میں اسمِ موصول (جو) استعمال ہوا ہے لیکن اس کے بعد دوسرے مصرع میں صلہ کہیں نہیں آیا ۔
اسمِ موصول وہ اسم ہوتا ہے کہ جس سے بننے والے نامکمل جملے کے ساتھ جب تک دوسرا جملہ(صلہ) نہ ملائیں، جملے کا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ یعنی جب تک موصول کے ساتھ صلہ نہ ملایا جائے تب تک جملہ پورے معنی نہیں دیتا۔ مثلاً اگرمیں یہ کہوں کہ : جو عربی زبان سے واقف نہیں ۔۔۔۔۔ تو جب تک میں اس کے آگے صلہ نہ لگاؤں اس کے معنی ادھورے رہیں گے۔ اب میں یہ کہوں کہ: جو عربی زبان سے واقف نہیں وہ قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے ۔ تو بات مکمل ہوگئی ۔ اس جملے میں موصول سرخ رنگ میں اور صلہ نیلے رنگ میں ہے۔

لیکن محولہ بالا شعر میں صلہ غائب ہے ۔ دوسرا مصرع گرامر کے لحاظ سے یوں ہونا چاہیے: لاحق مجھے عشق ہوا اُس غبی کا۔ پھر شعر کی صورت یہ ہوگی۔
ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق مجھے عشق ہوا اُس غبی کا
لیکن اس صورت میں دوسرا مصرع وزن سے خارج ہوجاتا ہے ۔ اس شعر کو توڑ کر دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے ۔
ظہیر بھائی ، آپ نے اور راحل بھائی نے واقعی ایک خامی کی نشان دہی کی ہے . کیا اِس کا فوری علاج ’کیسے‘ کی جگہ ’ایسے‘ کا استعمال کر كے ہو سکتا ہے ؟ ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے مصرعے میں ’جو‘ کو ’وہ‘ سے بَدَل دیا جائے . میں نے شاید یہ مصرعہ جلدی میں ایسے ہی پڑھا تھا .
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ بہن، اِس شعر میں لفظ ’سا‘ پر تو میں نے اپنی ناچیز رائے پہلے ہی دے دی ہے . یہ لفظ اِس شعر میں یقیناََ حشو كے زمرے میں آئیگا . لفظ ’پِھر‘ پر راحل بھائی کی رائے سے متفق ہوں . البتہ اتنا اور عرض ہے کہ اِس لفظ کی قبولیت کی یہاں ایک ہلکی سی گنجائش ہے . اگر کوئی واقعہ بار بار ہوتا ہو تو لفظ ’پِھر‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے مندرجہ ذیل شعر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پھولوں کی بات اکثر اور بار بار ہوتی ہے :
پِھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی (مخدوم محی الدین)
جیسا میں نے پہلے عرض کیا، مجھ پر روفی بھائی كے شعر کا مفہوم پوری طرح نہیں کُھلا . اگر یہاں مراد یہ ہے کہ جفا جو کو شاعر کی تکلیف پر صدمہ ہو رہا ہے، تو ’پِھر‘ کا قطعی محل نہیں ہے . کسی کو ادھمرا کر كے کوئی بار بار افسوس نہیں کرتا، یعنی سیریل کِلر کو پچھتاوا نہیں ہوتا . :) البتہ اگر جفا جو کو افسوس اِس بات کا ہے کہ اس کا شکار ابھی تک زندہ ہے تو ’پِھر‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ کہنے كے لیے کہ جفا جو بار بار جان لینے کی کوشش کرتا ہے اور ناکام ہونے پر افسوس کرتا ہے . لیکن جس طرح شعر تخلیق ہوا ہے، یہ مفہوم ادا نہیں ہو رہا، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ روفی بھائی کا خیال تھا بھی نہیں . غرض یہ کہ یہاں ’پِھر‘ کا بھی کوئی محل نظر نہیں آتا .
جہاں تک بھرتی كے الفاظ کا سوال ہے، ظہیر بھائی نے اِس موضوع پر بے حد تفصیلی اور مناسب مواد فراہم کر دیا ہے اور میرے لیے ’اِس سے زیادہ حاجتِ شرح و بیاں نہیں .‘
آپ کا بہت شکریہ ۔کیا بات ہے آپ کی ۔ ۔ شعر کو سنوارتی ہوئے کن کن باریکیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے یہ سب ان نشستوں میں آپ سب کے ذریعے معلوم ہوا جس کے لیے مشکور و ممنون ہوں۔ جزاک اللہ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ آپ سب کی آراء اور تجاویز کو اگرچہ بغور پڑھتا رہا ہوں لیکن کچھ سنجیدہ قسم کی مصروفیات نے ذہن کو منتشر بلکہ اپنی طرف مرکوز کیے رکھا۔ میں آپ اساتذہ کے فرمان کے مطابق اشعار پر دوبارہ کوشش کر کے ان شاءاللہ کل تک پیش کرتا ہوں۔
آپ سب کا نہایت شکریہ کہ مجھ جیسے مبتدی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر غور فرماتے ہیں اللہ پاک آپ سب کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے آمین
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ، آپ نے اور راحل بھائی نے واقعی ایک خامی کی نشان دہی کی ہے . کیا اِس کا فوری علاج ’کیسے‘ کی جگہ ’ایسے‘ کا استعمال کر كے ہو سکتا ہے ؟ ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے مصرعے میں ’جو‘ کو ’وہ‘ سے بَدَل دیا جائے . میں نے شاید یہ مصرعہ جلدی میں ایسے ہی پڑھا تھا .
جی عرفان بھائی ، دونوں صورتوں میں گرامر کے لحاظ سے ٹھیک ہوجائے گا ۔
 
Top