عبداللہ امانت محمدی صاحب آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ مختصر لفظوں میں شرک کی کیا تعریف کرتے ہیں؟
" بڑی گل دسی ہووے دی جئےآپنے ولوں ہیں جی "شبیر حسین اور آبی ٹو کول صاحب ! میں نے شرک سے متعلقہ آیات ہی لکھیں ہیں ۔ آپ کو اگر سمجھ نہیں آتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔
شریک کرنے سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ کیا آپ کا مطلب ہے کہ کسی دوسرے میں وہی صفت تسلیم کی جائے جو اللہ تعالی کی ہے؟اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات یا عبادات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا
شرک نکلا ہے لفظ "شراکت" سے جس کا مطلب ہے ساجھے داری یا Partnership شریعت میں ،ظاہری اور باطنی عبادات کے کام جیسے ذبح،نذر ونیاز،دعا ڈر،خوف امید اورمحبت، جوصرف اورصرف اللہ کے لیےہونی چاہیے، وہ غیر اللہ کےلیےکی جائیں تو اسے شرک کہتے ہیں، شرک توحید کی مخالفت اور ضد کا نام ہے۔ شرک حقیقت میں یہ ہے کہ :مخلوق کی عبادت کی جائےاوراللہ کی تعظیم کرنے جیسا مخلوق کی تعظیم کی جائے، اللہ کے کاموں میں اللہ کےاسماء اوراللہ کی خاص صفتوں میں غیر اللہ کو شریک کیاجائے،شریک کرنے سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ کیا آپ کا مطلب ہے کہ کسی دوسرے میں وہی صفت تسلیم کی جائے جو اللہ تعالی کی ہے؟
یعنی اللہ تعالی کے سوا کسی اور وہ صفت مانی جائے جو اللہ تعالی کی ہے ۔ آپ کا کہنا یہ ہے کہ ذبح،نذر ونیاز،دعا ڈر،خوف امید اورمحبت، جوصرف اورصرف اللہ کے لیےہونی چاہیے یہ صفات کسی اور میں تسلیم نا کی جائیں۔شرک نکلا ہے لفظ "شراکت" سے جس کا مطلب ہے ساجھے داری یا Partnership شریعت میں ،ظاہری اور باطنی عبادات کے کام جیسے ذبح،نذر ونیاز،دعا ڈر،خوف امید اورمحبت، جوصرف اورصرف اللہ کے لیےہونی چاہیے، وہ غیر اللہ کےلیےکی جائیں تو اسے شرک کہتے ہیں، شرک توحید کی مخالفت اور ضد کا نام ہے۔ شرک حقیقت میں یہ ہے کہ :مخلوق کی عبادت کی جائےاوراللہ کی تعظیم کرنے جیسا مخلوق کی تعظیم کی جائے، اللہ کے کاموں میں اللہ کےاسماء اوراللہ کی خاص صفتوں میں غیر اللہ کو شریک کیاجائے،
ایک اور فرق اللہ اور بندے کی صفات میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کی صفات ذاتی ہیں اور مخلوق کی صفات عطائی ہیں خالق یعنی اللہ تعالی کی عطا کردہ ہیں۔ رب کریم جسے چاہے اپنی صفت محدود عطا کرے کسی کو کیا اعتراض کا حق ہے؟خدا کی صفات لامحدود ہیں۔ یعنی اگر وہ دیکھتا ہے اور انسان بھی دیکھتا ہے تو انسان کا اور اس کا دیکھنا برابر نہیں ہیں۔ وہ سنتا ہے اور انسان سنتا ہے تو انسان کا سننا محدود اور اس کا لامحدود ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں کہ قرآن پاک میں ان کا اطلاق بندوں پر بھی کیا گیا ہے۔مثلاً:اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے تو انسان کے لیے بھی سمیع اور بصیر کا اطلاق ہوا ہے۔ (۷۶/الدھر:۲)اللہ تبارک و تعالی کی تو اور بھی بہت سی صفات ہیں جیسے دیکھنا، سننا ، بو جاننا، جو اللہ تبارک و تعالی کے سوا دوسری مخلوقات میں پائی جاتی ہیں۔ تو اگر آپ کے کلیے کو درست مان لیا جائے کہ اللہ کی صفات کسی دوسرے میں ماننا شرک ہے تو پھر کوئی بھی شخص شرک سے پاک نہیں رہے گا۔
شبیر حسین اور آبی ٹو کول صاحب ! میں نے شرک سے متعلقہ آیات ہی لکھیں ہیں ۔ آپ کو اگر سمجھ نہیں آتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟
اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون *
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
گرہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ہر صفت میں ذاتی اور سب سے بڑا بلاشبہ اللہ تبارک و تعالی ہے ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے فریاد سننے کی طاقت، حاجت روا کرنے، دینے کی، غریبوں کو نوازنے کی طاقت یا صلاحیت کسی اور کی عطانہیں کی یقیناً رب عطاکرتا ہے اپنے بندوں کوا رشادباری تعالیٰ ہے:‘‘کون ہے جو بے قرار کی پکار سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارتا ہے اور کون اس کی تکلیف کو رفع کرتا ہے اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور کوئی اللہ بھی ہے۔’’(۲۷/النمل:۶۲)
اس آیت کریمہ سےمعلوم ہوا سب سے بڑا فریاد سننے والا ،یعنی غوث اعظم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے ،عبدالقادر جیلانی نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘یقیناًتو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔’’ (۳/آل عمران:۸)
اس آیت کریمہ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ ہی سب سے بڑھ کر دینے والا یعنی داتا ہے علی ہجویریؒ داتا نہیں ہیں۔ انہوں نے تو خود اپنی کتاب‘‘کشف المحجوب’’میں اپنے متعلق داتا ہونے کی پرزور الفاظ میں تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:‘‘اے لوگو !تم سب اللہ تعالیٰ کے در کےفقیر ہو وہ اللہ تو غنی و حمید ہے۔’’(۳۵/فاطر:۱۵)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی غریبوں کو نوازنے والا ہے اس کے علاوہ اور کوئی غریب نواز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
‘‘اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کسی مشکل میں ڈال دے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کوکوئی ہٹانے والا نہیں ۔’’(۱۰/یونس:۱۰۷)
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ تمام مشکلات حل کرنے والا ،یعنی مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہے حضرت علیؓ نہیں ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد ایک دعا پڑھتے تھے جس میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :‘‘اے اللہ !جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچاسکتی۔’’(صحیح بخاری،کتاب الدعوات:۶۳۳۰)
تفسيرقول الله تعالى:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } 106: يوسف
قال الإمام الطبري –رحمه الله- في تفسيرها:القول في تأويل قوله تعالى :{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
قال أبو جعفر: يقول تعالى ذكره: وما يُقِرُّ أكثر هؤلاء = الذين وصَفَ عز وجل صفتهم بقوله وكأين من آية في السموات والأرض يمرُّون عليها وهم عنها معرضون ) = بالله أنه خالقه ورازقه وخالق كل شيء =( إلا وهم مشركون )، في عبادتهم الأوثان والأصنام ، واتخاذهم من دونه أربابًا ، وزعمهم أنَّ له ولدًا ، تعالى الله عما يقولون.
* * *
وبنحو الذي قلنا في ذلك قال أهل التأويل .
* ذكر من قال ذلك:
حدثنا ابن وكيع ، قال: حدثنا عمران بن عيينة ، عن عطاء بن السائب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس وما يؤمن أكثرهم بالله ) الآية ، قال: من إيمانهم، إذا قيل لهم: مَن خلق السماء؟ ومن خلق الأرض؟ ومن خلق الجبال؟ قالوا: الله . وهم مشركون.
حدثنا هناد ، قال: حدثنا أبو الأحوص ، عن سماك ، عن عكرمة ، في قوله وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون ) ، قال: تسألهم: مَن خلقهم؟ ومن خلق السماوات والأرض ، فيقولون: الله . فذلك إيمانهم بالله ، وهم يعبدون غيره.
حدثنا أبو كريب ، قال: حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن جابر ، عن عامر، وعكرمة وما يؤمن أكثرهم بالله ) الآية ، قالا يعلمون أنه ربُّهم ، وأنه خلقهم ، وهم يشركون به.قال ابن كثير-رحمه الله- في تفسيره للآية:وقوله:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }قال ابن عباس: من إيمانهم، إذا قيل لهم: من خلق السموات؟ ومن خلق الأرض؟ ومن خلق الجبال؟ قالوا: "الله"، وهم مشركون به. وكذا قال مجاهد، وعطاء وعكرمة، والشعبي، وقتادة، والضحاك، وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم.
وهكذا في الصحيحين (2) أن المشركين كانوا يقولون في تلبيتهم: لبيك لا شريك لك، إلا شريكًا هو لك، تملكه وما ملك. وفي الصحيح: أنهم كانوا إذا قالوا: "لبيك لا شريك لك" يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: "قَدْ قَدْ"، أي حَسْبُ حَسْبُ، لا تزيدوا على هذا (3) .
وقال الله تعالى: { إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ } [لقمان: 13] وهذا هو الشرك الأعظم الذي يعبد مع الله غيره، كما في الصحيحين. عن ابن مسعود قلت: يا رسول الله، أيّ الذنب أعظم؟ قال: "أن تجعل لله ندا وهو خَلَقَك" (4) .
وقال الحسن البصري في قوله: { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } قال: ذلك المنافق يعمل إذا عمل رياء الناس، وهو مشرك بعمله ذاك، يعني قوله تعالى: { إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلا قَلِيلا } [النساء: 142].
وثمَّ شرك آخر خفي لا يشعر به غالبًا فاعله، كما روى حماد بن سلمة، عن عاصم بن أبي النَّجُود، عن عُرْوَة قال: دخل حذيفة على مريض، فرأى في عضده سيرًا فقطعه -أو: انتزعه -ثم قال:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
قال العلامة السعدي –رحمه الله-في تفسير الآية:{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } فهم وإن أقروا بربوبية الله تعالى، وأنه الخالق الرازق المدبر لجميع الأمور، فإنهم يشركون في ألوهية الله وتوحيده، فهؤلاء الذين وصلوا إلى هذه الحال لم يبق عليهم إلا أن يحل بهم العذاب، ويفجأهم العقاب وهم آمنون، ولهذا قال:
{ أَفَأَمِنُوا } أي: الفاعلون لتلك الأفعال، المعرضون عن آيات الله { أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ } أي: عذاب يغشاهم ويعمهم ويستأصلهم، { أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً } أي: فجأة { وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ } أي: فإنهم قد استوجبوا لذلك، فليتوبوا إلى الله، ويتركوا ما يكون سببا في عقابهم.وقال العلامة الشنقيطي-رحمه الله- في تفسير الآية:قال ابن عباس ، والحسن ، ومجاهد ، وعامر والشعبي ، وأكثر المفسرين : إن معنى هذه الآية أن أكثر الناس ، وهم الكفار ما كانوا يؤمنون بالله بتوحيدهم له في ربوبيته إلا وهم مشركون به غيره في عبادته .
فالمراد بإيمانهم اعترافهم بأنه ربهم الذي هو خالقهم ومدبر شؤونهم ، والمراد بشركهم عبادتهم غيره معه ، والآيات الدالة على هذا المعنىكثيرة جداً ، كقوله : { قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السمآء والأرض أَمَّن يَمْلِكُ السمع والأبصار وَمَن يُخْرِجُ الحي مِنَ الميت وَيُخْرِجُ الميت مِنَ الحي وَمَن يُدَبِّرُ الأمر فَسَيَقُولُونَ الله فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ } [ يونس : 31 ] ، وكقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ الله فأنى يُؤْفَكُونَ } [ الزخرف : 87 ] ، وقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السماوات والأرض لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ العزيز العليم } [ الزخرف : 9 ] ، وقوله : { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السماوات والأرض وَسَخَّرَ الشمس والقمر لَيَقُولُنَّ الله فأنى يُؤْفَكُونَ } [ العنكبوت : 61 ] ، وقوله { وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّن نَّزَّلَ مِنَ السمآء مَآءً فَأَحْيَا بِهِ الأرض مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ الله قُلِ الحمد لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ } [ العنكبوت : 63 ] ، وقوله { قُل لِّمَنِ الأرض وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ قُلْ مَن رَّبُّ السماوات السبع وَرَبُّ العرش العظيم سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجْيِرُ وَلاَ يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فأنى تُسْحَرُونَ } [ المؤمنون : 84 - 89 ] إلى غير ذلك من الآيات .
ومع هذا فإنهم قالوا : { أَجَعَلَ الآلهة إلها وَاحِداً إِنَّ هذا لَشَيْءٌ عُجَابٌ } [ ص : 5 ] .
وهذه الآيات القرآنية تدل على ان توحيد الربوبية لا ينقذ من الكفر إلا إذا كان معه توحيد العبادة ، أي عبادة الله وحده لا شريك له ، ويدل لذلك قوله تعالى : { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بالله إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ } .
وفي هذه الآية الكريمة إشكال : وهو أن المقرر في علم البلاغة أن الحال قيد لعاملها وصف لصاحبها وعليه . فإن عامل هذه الجلمة الحالية الذي هو يؤمن مقيد بها ، فيصير المعنى تقييد إيمانهم بكونهم مشركين ، وهو مشكل لما بين الإيمان والشرك من المنافاة .
قال مقيدة - عفا الله عنه :
لم ار من شفى الغليل في هذا الإشكال ، والذي يظهر لي - والله تعالى أعلم - أن هذا الإيمان المقيد بحال الشرك إنما هو إيمان لغوي لا شرعي . لأن من يعبد مع الله غيره لا يصدق عليه اسم الإيمان ألبتة شرعاً . أما الإيمان اللغوي فهو يشمل كل تصديق ، فتصديق الكافر بأن الله هو الخالق الرزاق يصدق عليه اسم الإيمان لغة مع كفره بالله ، ولا يصدق عليه اسم الإيمان شرعاً .
وإذا حققت ذلك علمت أن الإيمان اللغوي يجامع الشرك فلا إشكال في تقييده به ، وكذلك الإسلام الموجود دون الإيمان في قوله تعالى : { قُل لَّمْ تُؤْمِنُواْ ولكن قولوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيمان فِي قُلُوبِكُمْ } [ الحجرات : 14 ] فهو الإسلام اللغوي . لأن الإسلام الشرعي لا يوجد ممن لم يدخل الإيمان في قلبه ، والعلم عند الله تعالى .
وقال بعض العلماء : « نزلت آية { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بالله إِلاَّ وَهُمْ مُّشْرِكُونَ }في قوله الكفار في تلبيتهم : لبيك لا شريك لك إلا شريكاً هو لك تملكه وما ملك » وهو راجع إلى ما ذكرنا .كلام نفيس لشيخ الاسلام ابن تيمية-رحمه الله-:فَإِنْ اعْتَرَفَ الْعَبْدُ أَنَّ اللَّهَ رَبُّهُ وَخَالِقُهُ ؛ وَأَنَّهُ مُفْتَقِرٌ إلَيْهِ مُحْتَاجٌ إلَيْهِ عَرَفَ الْعُبُودِيَّةَ الْمُتَعَلِّقَةَ بِرُبُوبِيَّةِ اللَّهِ وَهَذَا الْعَبْدُ يَسْأَلُ رَبَّهُ فَيَتَضَرَّعُ إلَيْهِ وَيَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ لَكِنْ قَدْ يُطِيعُ أَمْرَهُ ؛ وَقَدْ يَعْصِيهِ وَقَدْ يَعْبُدُهُ مَعَ ذَلِكَ ؛ وَقَدْ يَعْبُدُ الشَّيْطَانَ وَالْأَصْنَامَ . وَمِثْلُ هَذِهِ الْعُبُودِيَّةِ لَا تُفَرِّقُ بَيْنَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَلَا يَصِيرُ بِهَا الرَّجُلُ مُؤْمِنًا . كَمَا قَالَ تَعَالَى : { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } فَإِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا يُقِرُّونَ أَنَّ اللَّهَ خَالِقُهُمْ وَرَازِقُهُمْ وَهُمْ يَعْبُدُونَ غَيْرَهُ قَالَ تَعَالَى : { وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ } وَقَالَ تَعَالَى : { قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ } { سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ } إلَى قَوْلِهِ : { قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ } وَكَثِيرٌ مِمَّنْ يَتَكَلَّمُ فِي الْحَقِيقَةِ وَيَشْهَدُهَا يَشْهَدُ هَذِهِ الْحَقِيقَةَ وَهِيَ " الْحَقِيقَةُ الْكَوْنِيَّةُ " الَّتِي يَشْتَرِكُ فِيهَا وَفِي شُهُودِهَا وَمَعْرِفَتِهَا الْمُؤْمِنُ وَالْكَافِرُ وَالْبَرُّ وَالْفَاجِرُ وَإِبْلِيسُ مُعْتَرِفٌ بِهَذِهِ الْحَقِيقَةِ ؛ وَأَهْلُ النَّارِ .
ربط
السلام علیکم معزز قارئین کرام !میں آپ کی یاد تازہ کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیں شرک کے متعلق احادیث لکھنے لگا ہوں، مثلا:
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے ‘‘ ، (ابن ماجہ :۳۹۵۲ ) ۔۔