جو بھائی قرآن و حدیث کو تسلیم کر لے وہ مشرک نہیں ہے ۔ میں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ سے کچھ دلیلیں دے رہا ہوں امید ہے آپ تسلیم کر لیں گے ۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ‘‘ ، (الکھف : ۱۱۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اﷲ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ ، آپ (ﷺ ) کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۹۴ تا ۹۵ ) ۔ کتابُ اﷲ کی بہت زیادہ آیات سے واضع ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے ، مثلاََ : ’’ (البقرۃ : ۱۵۱ ) ، (الانعام : ۵۰ ) ، (الاعراف : ۶۹ ) ، (یوسف : ۱۰۹ ) ، (ابراہیم : ۱۰ تا ۱۱ ) ، (النحل : ۴۳ ) ، (الحجر : ۳۲ تا ۳۳ ) اور (بنی اسرائیل : ۹۳ ) ‘‘ ۔
عقیدہ وحدت الوجود کا رد
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ الرحمن علی العرش استوی : الرحمٰن عرش پر قائم ہے ‘‘ ، (طہٰ : ۵ ) ۔ دوسرے مقام پر فرمایا : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہو ا ، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر ) کام کی تدبیر کرتا ہے پھر وہ (کام ) ایک ایسے دن میں اس (اﷲ ) کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے ‘‘ ، (السّجدۃ : ۴ تا۵) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما ےؤمرون : وہ (یعنی فرشتے ) اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ، ڈرتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں ‘‘ ، (النحل : ۵۰ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اور یہ ذکر (قرآن ) ہم نے آپ (ﷺ ) کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بیان کردیں کہ ان کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ‘‘ ، (النحل : ۴۴ ) ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اﷲ پاک ہی کی ساری عزت ہے (یعنی عزت دینے والا وہی ہے ) ، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے ، جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے ، اور ان کا یہ مکربرباد ہو جائے گا ‘‘ ، (الفاطر : ۱۰ ) ۔ اور فرمایا : ’’ کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ جو آسمانوں پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ‘‘ ، (الملک : ۱۶ ) ۔ عقیدہ وحدت الوجود قرآن مجید کی کئی اور آیات کے بھی خلاف ہے ، مثال کے طور پر : ’’ (الاعراف : ۵۴ ) ،(یونس : ۳ ) ، (الرعد : ۲ ) ، (الفرقان : ۵۹ ) ، (الحدید : ۴ ) ، (الملک : ۱۷ ) ، (المعارج : ۱ تا ۴ ) ، ( المؤمن : ۳۶ تا ۳۷ ) اور (النحل : ۶۴ ) ‘‘ ۔
غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتا ہے ۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ ‘‘ ، ( الانعام : ۵۰ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان سب نے کہا اے اﷲ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۳۲ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اﷲ کے کوئی غیب نہیں جانتا ، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے ؟ ‘‘ ، ( النمل : ۶۵ ) ۔
قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات سے یہ واضح ہے کہ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ (البقرۃ : ۳۰ ) ، ( النساء : ۱۱۳ ) ، ( المائدۃ : ۱۰۹ ) ، ( المائدۃ : ۱۱۶) ، ( الانعام : ۵۹) ، ( الاعراف : ۲۲ ) ، ( الاعراف : ۱۸۷ ) ، ( التوبۃ : ۱۰۱ ) ، ( یونس : ۲۰ ) ، ( ھود : ۳۱ ) ، ( ھود : ۴۶ تا ۴۷ ) ، ( ھود : ۴۹ ) ، ( ھود :۱۲۳ ) ، ( ابراہیم : ۹ ) ، ( الحجر : ۵۳ تا ۵۵ ) ، (النحل : ۲۰ تا ۲۱ ) ، ( الکھف : ۱۹) ، ( الکھف : ۲۳ تا ۲۶ ) ، ( مریم : ۸ ) ، ( مریم : ۲۰ ) ، ( الانبیاء : ۱۰۹ ) ، ( النمل : ۱۰) ، ( النمل : ۲۰ تا ۲۲ ) ، ( لقمان : ۳۴ ) ، ( الاحزاب : ۶۳ ) ، ( ص : ۲۱ تا ۲۲ ) ( الاحقاف : ۹ ) ، ( الجن : ۲۵ تا ۲۶ )اور ( الملک : ۲۵ تا ۲۶ ) ۔ ‘‘
عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ : ’’ جو شخص کہے کہ نبی کریم ﷺ آنے والے کل کی بات جانتے تھے وہ جھوٹا ہے ‘‘ ۔ اس کے لیے انہوں نے آیت : ’’ و ما تدری نفس ما ذا تکسب غدا یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا ، کی تلاوت فرمائی ‘‘ ( بخاری : ۴۸۵۵ ) ۔ ام العلاء انصاریہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ واﷲ ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔ حالانکہ میں اﷲ کا رسول ہوں ‘‘ ، ( بخاری : ۱۲۴۳ ) ۔ ربیع بنت معوذ ؓ سے روایت ہے کہ : ’’ میری شادی کی صبح رسول اﷲ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت دو ( کم سن ) بچیاں میرے پاس گیت گا رہی تھیں اور میرے آباء کا تذکرہ کر رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے اور گانے گانے میں وہ یہ بھی گانے لگیں ’’ اور ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل ( آئندہ ) کی بات جانتے ہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ بات مت کہو اس لئے کہ کل کی بات اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۸۹۷ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نجومی یا کاہن ( غیبی خبریں دینے والے ) کے پاس جائے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اسے سچا سمجھے تو وہ ( حضرت ) محمد ﷺ پر اترے دین کا انکاری ہو گا ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : کتاب الایمان ) ۔
اﷲ کے سوا کوئی مختار کل نہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے پیغبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں اﷲ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں ‘‘ ، ( آل عمران : ۱۲۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ آپ ( ﷺ ) فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اﷲ نے چاہا ہو ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اﷲ انہیں ہر گز نہ بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے اﷲ سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا ہے ۔ ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا ‘‘ ، ( التوبہ : ۸۰ ) ۔ چوتھے مقام پر ہے : ’’ گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان دار نہ ہوں گے ‘‘ ، ( یوسف : ۱۰۳ ) ۔ پانچویں مقام پر ہے : ’’ اور تم جن لوگوں کی اﷲ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ( یعنی پکارتے ) ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۹۷ ) ۔ مزید پڑھیئے : ’’ (البقرۃ : ۲۷۲ ) ، ( المائدہ : ۴۰ تا ۴۱ ) ، ( یونس : ۱۵ تا ۱۶ ) ، ( یونس : ۴۹ ) ، ( الحج : ۷۳ تا ۷۴ ) ، ( الرعد : ۳۸ ) ، ( بنی اسرائیل : ۵۶ تا ۵۷ ) ، ( الکہف : ۶ ) ، ( النجم : ۵۸ ) اور ( الزمر : ۱۹ ) ‘‘ ۔
جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اﷲ ﷺ ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے ۔ نبی کرئم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ چچا ! آپ صرف کلمہ لا الہ الا اﷲ، پڑھ دیجئیے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اﷲ کی بار گاہ میں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس پر ابو جہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ نبی کریم ﷺ بار بار ان سے یہی کہتے رہے ( کہ آپ صرف کلمہ پڑھ لیں ) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے ۔ آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں ۔ انہوں نے ’’ لا الہ الا اﷲ‘‘ ، پڑھنے سے انکار کر دیا ‘‘ ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ اﷲ کی قسم ! میں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ (Unless) مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ‘‘ ۔پھر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : ’’ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین ‘‘ ، نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔اور خاص ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم ﷺ سے کہا گیا : ’’ انک لا تھدی من احببت و لکن اﷲ یھدی من یشاء ‘‘ ، کہ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے ، ( بخاری : ۴۷۷۲ ) ۔
مشکل کشا و حاجت روا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی ہے
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا تجھے علم نہیں کہ زمین و آسمان کا مالک اﷲ ہی ہے اور اﷲ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۰۷ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو مت پکارو جو تجھ کو نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے ۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ اور اگر تم کو اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ‘‘ ، ( یونس : ۱۰۶ تا ۱۰۷ ) ۔ ایک اور جگہ فرمایا : ’’ اسی ( اﷲ تعالیٰ ) کو پکارنا حق ہے ۔ جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی پکار کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑ جائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں ، ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۴ ) ۔ مزید فرمایا : ’’ آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار کون ہے ؟ کہہ دیجیے اﷲ ۔ کہہ دیجئے ! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خور اپنی جان کے بھی بھلے ، برے کاا ختیار نہیں رکھتے ‘‘ ، ( الرعد : ۱۶ ) ۔
رزق و اولاد دینے اور تقدیر بدلنے والا اﷲ کے علاوہ کوئی نہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ کہہ دیجئے ! کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ، ( سبا : ۳۶ ) ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو ، ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔ یقیناًان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ‘‘ ، ( بنی اسرائیل : ۳۱ ) ۔
جن کو اﷲ اولاد دے پھر وہ دوسروں کو اﷲ کا شریک کرے ، ان کے بارے میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ اﷲ پاک ایسا ہے جس نے تم کو ایک تن واحد سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر راحت حاصل کرے پھر جب میاں نے بیوی سے قربت کی تو اس کو ہلکا سا حمل رہ گیا ۔ سو وہ اس کو لئے ہوئے چلتی پھرتی رہی ، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں میاں بیوی اﷲ سے جو ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر تو نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزاری کریں گے ۔ سو جب اﷲ نے دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اﷲ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اﷲ کے شریک قرار دینے لگے ، سو اﷲ پاک ہے ان کے شرک سے ۔ کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔ اور وہ ان کو کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتے اور وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے ۔ اور اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا تم خاموش رہو ۔ واقعی تم اﷲ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ بھی تم ہی جیسے بندے ہیں سو تم ان کو پکارو پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا کر دیں اگر تم سچے ہو ۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو تھام سکیں ، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں ، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں آپ کہہ دیجئے ! تم اپنے سب شرکا کو بلا لو ، پھر میری ضرر رسانی کی تدبیر کرو پھر مجھ کو ذرا مہلت مت دو ۔یقیناًمیرا مدد گار اﷲ تعالیٰ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اور تم جن لوگوں کو اﷲ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتے اور نہ وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں ۔ اور ان کو اگر کوئی بات بتلانے کو پکارو تو اس کو نہ سنیں اور ان کو آپ دیکھتے ہیں کہ گویا وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ کچھ بھی نہیں دیکھتے ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۹ تا ۱۹۸ ) ۔
قیام ، رکوع اور سجدہ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اپنی نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز ( عصر ) کی اور اﷲ تعالیٰ کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۸ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے لئے رسول اﷲ ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت ﷺ اسے برا مانتے تھے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۸ ) ۔ دوسری حدیث میں ہے ، سیدنا معاویہؓ روایت کرتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا : ’’ جسے لوگوں کا اس کے سامنے تصویروں کی طرح ( بے حس و حرکت اور با ادب ) کھڑے رہنا پسند ہو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ تلاش کر لے ‘‘ ، ( ترمذی : ۲۵۵۹ ) ۔
رکوع و سجود کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! رکوع کرو ، سجدہ کرو اور عبادت کرو اپنے پروردگار کی اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ‘‘ ، ( الحج : ۷۷ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ تم سورج کو سجدہ نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اﷲ کو کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو ‘‘ ، ( حم السجدۃ : ۳۷ ) ۔
سیدنا قیس بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں حیرہ ( یمن کا شہر ) آیا ، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا : ’’ رسول اﷲ ﷺ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے ‘‘ ۔ میں جب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ : ’’ میں حیرہ شہر کے لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اﷲ کے رسول ! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ بتاؤ ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے ، تو اسے بھی سجدہ کرو گے ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ نہیں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ پھر اب بھی مجھے سجدہ نہ کرو ، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر خاوندوں کا بڑا حق رکھا ہے ‘‘ ، (ابو داؤد : ۲۱۴۰ ) ۔
قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا ( یعنی اعتکاف ) یا طواف کرنا جائز نہیں
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام )اور اسماعیل ( علیہ السلام ) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۲۵ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف ، قیام ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا ‘‘ ، ( الحج : ۲۶ )۔
سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ اگر کوئی انگارے پر بیٹھے اور اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال تک آگ پہنج جائے توبھی بہتر ہے اس سے کہ قبر پر بیٹھے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۸ ) ۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں کو پختہ کریں اور اس سے کہ اس پر بیٹھیں اور اس سے کہ ان پر گنبد بنائیں ‘‘ ، ( مسلم : ۲۲۴۵ ) ۔ اور سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ قیامت نہ قائم ہوگی یہاں تک کہ قبیلہ دوس کی عورتوں کی پیٹھیں ذی الخلصہ کے گرد طواف نہ کرنے لگیں ۔ ذوالخلصہ ایک بت تھا جس کو دوس جاہلیت کے زمانہ میں تبالہ میں پوجا کرتے تھے ‘‘ ، ( مسلم : ۷۲۹۸ ) ۔انکل ! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں ، بلال ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے بولا ۔
اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے نام کا جانور ذبح کرنا ، چڑھاوا چڑھانا، نذرو نیاز دینا اور منت ماننا بھی شرک ہے ۔
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ تم پر مردہ اور ( بہا ہوا ) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام کر دی جائے ، حرام ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۱۷۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جو اﷲ کے نام پر ذبح نہ کیے گئے ہوں اور یہ کام نا فرمانی کا ہے اور یقیناًشیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناًتم مشرک ہو جاؤ گے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۲۱ )۔
حضرت طارق بن شہابؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک آدمی صرف مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور دوسرا جہنم میں ‘‘ ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! وہ کیسے ؟ ‘‘ ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ دو آدمی ایک قبیلے کے پاس سے گزرے ، اس قبیلے کا ایک بت تھا جس پر چڑھاوا چڑھائے بغیر کوئی آدمی وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا‘‘ ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص سے کہا گیا کہ : ’’ اس بت پر چڑھاوا چڑھاؤ ‘‘ ۔ اس نے کہا کہ : ’’ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں‘‘ ۔ قبیلے کے لوگوں نے کہا : ’’ تمہیں چڑھاوا ضرور چڑھانا ہو گا خواہ مکھی ہی پکڑ کر چڑھا�ؤ ‘‘۔ مسافر نے مکھی پکڑی اور بت کی نذر کر دی لوگوں نے اسے جانے دیا اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا ۔ قبیلے کے لوگوں نے دوسرے آدمی سے کہا : ’’ تم بھی کوئی چیز بت کی نذر کرو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’ میں اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کا چڑھاوا نہیں چڑھاؤں گا ‘‘ ۔ لوگوں نے اسے قتل کر دیا ’’ وہ جنت میں چلا گیا ‘‘ ( احمد ) ، (Kitab At-Tauhid,CHAPTER:10 ) ۔
امیر المومنین حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اﷲ لعنت کرے اس پر جو لعنت کرے اپنے باپ پر اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو جانور ذبح کرے اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لیے اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو پناہ دے کسی بدعتی کو اور لعنت کرے اﷲ اس پر جو زمین کی حدیں تبدیل کرے ‘‘ ، ( مسلم : ۵۱۲۴ ) ۔
اﷲ پاک ، قرآن مجید میں فرماتے ہیں : ’’ اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘ ، ( المومن : ۶۰ ) ۔ اور الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کھبی وہ مجھے پکارے ، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ‘‘ ، (البقرۃ : ۱۸۶ ) ۔
نبی پاک ﷺ کے دور کے مشرک بھی یہی کہتے تھے کہ ہم بزرگوں کے بت بنا کر عبادت نہیں کرتے بلکہ یہ اﷲ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ اور یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے (پکارتے ) ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اﷲ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اﷲ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو اﷲ تعالیٰ کو معلوم نہیں ( یعنی اﷲ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کی بارگاہ میں کوئی سفارشی بھی ہے ؟ ) ، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ، وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے ‘‘ ، ( یونس : ۱۸ ) ۔ اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ خبردار ! اﷲ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں ( اور کہتے ہیں ) کہ ہم ان کی عبادت ( پکارا ) صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ( بزرگ ) اﷲ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ اﷲ کرے گا ۔ جھوٹے اور ناشکرے ( لوگوں ) کو اﷲ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا ‘‘ ، ( الزمر : ۳ ) ۔
اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش بھی نہیں کر سکتا ۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ کیا ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے سوا ( اوروں کو ) سفارشی مقرر کر رکھا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے ! کہ گو وہ کچھ اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں ‘‘ ، ( الزمر : ۴۳ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اﷲ تعالیٰ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا ، تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں ۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ‘‘ ، ( السجدۃ : ۴ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ وہ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب وماہتاب ( Sun and Moon) کو اسی نے کام میں لگا دیا ہے ۔ ہرا یک میعاد معین پر چل رہا ہے ۔ یہی ہے اﷲ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے ۔ جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم ان ( سفارشیوں ) کو پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر ( بالفرض ) سن بھی لیں تو دعا و التجا کو قبول نہ کرسکیں گے اور روز قیامت تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر دیں گے ۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دے گا ‘‘ ، ( فاطر : ۱۳ تا ۱۴ ) ۔
مشروع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم : ’’ اﷲ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات کا وسیلہ ‘‘ ۔ دوسری قسم : ’’ مومن کا اﷲ پاک سے اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے وسیلہ ‘‘ ۔ تیسری قسم : ’’ کسی زندہ مومن بھائی کی دعا کے ذریعے وسیلہ ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ کے پیارے ناموں کے وسیلہ سے دعا کی جائے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اﷲ کے اچھے اچھے نام ہیں ، سو ان ناموں سے اس کو پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی ‘‘ ، ( الاعراف : ۱۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے میرے پروردگار ! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے اور مجھے اپنی رحمت کے وسیلے سے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما ‘‘ ، ( النمل : ۱۹ ) ۔
عمل صالح کا وسیلہ بھی قرآن سے ثابت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جو لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘ ، ( العمران : ۱۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے پالنے والے معبود ! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول (ﷺ ) کی اتباع کی ، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے ‘‘ ، ( العمران : ۵۳ ) ۔ اور تیسرے مقام پر ہے : ’’ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا با آواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے کہ لوگو ! اپنے رب پر ایمان لاؤ ، پس ہم ایمان لائے ۔ یا الٰہی ! اب تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر ‘‘ ، ( العمران : ۱۹۳ ) ۔
کسی زندہ نیک آدمی کی دعا کا وسیلہ بھی جائز ہے ۔ جب رسول اﷲ ﷺ زندہ تھے ، اس وقت مسلمان نبی پاک ﷺ کو دعا کا کہا کرتے تھے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے بھی امت سے اپنے لئے دعا مانگنے کی درخواست کی تھی ۔ مثلاََ : سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ : ’’ جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو موذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اس کے بعد اﷲ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے جو اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے ( اﷲ سے ) وسیلہ طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی ‘‘ ، ( مسلم : ۸۴۹ ) ۔
تعویذ ، چھلہ ، منکا ، زنجیر یا کڑا وغیرہ پہننا اور کار یا مکان و دوکان پر جوتی یا کالی ہنڈیا لٹکانا شرک ہے
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور اگر تجھ کو اﷲ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔ اور اگر تجھ کو اﷲ تعالیٰ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ‘‘ ، ( الانعام : ۱۷ ) ۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ نے ایک مرد کے ہاتھ میں پیتل کا چھلا دیکھا تو فرمایا : ’’ یہ چھلا کیسا ہے ؟ ‘‘ کہنے لگا : ’’ یہ واھنہ ( بیماری ) کے لئے ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ اسے اتار دو کیونکہ اس سے تمہارے اند ر وہن اور کمزوری ہی بڑھے گی ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۳۵۳۱ ) ۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں ، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ دم ، تعویذ اور ٹونا سب شرک ہے ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۳۵۳۰ ) ۔ حضرت عقبہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ( دس آدمیوں کا ) ایک وفد حاضر ہوا ، رسول اﷲ ﷺ نے ان میں سے نو آدمیوں سے بیعت لی اور ایک سے ہاتھ روک لیا ، انہوں نے پوچھا : ’’ یا رسول اﷲ ﷺ ! آپ نے نو کو بیعت کر لیا اور اس شخص کو چھوڑ دیا ؟ ‘‘ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ اس نے تعویذ پہن رکھا ہے ‘‘ ۔ یہ سن کر اس نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس تعویذ کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور نبی کریم ﷺ نے اس سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا : ’’ جو شخص تعویذ لٹکاتا ہے وہ شرک کرتا ہے ‘‘ ، ( مسند احمد : ۱۷۵۵۸ ) ۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ پھر تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں ، جو ریا کاری کرتے ہیں اور ضرورت کی چیزیں ( لوگوں کو ) دینے سے گریز کرتے ہیں ‘‘ ، ( الماعون : ۴ تا ۷ ) ۔
ایک طویل حدیث ہے جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر مومن اس کے لیے سجدہ میں گر جائے گا ۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لیے سجدہ کرتے تھے ، وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۴۳۹ ) ۔ سیدنا جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جو شہرت کا طالب ہو اﷲ تعالیٰ اس کی بد نیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا ۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اﷲ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا ‘‘ ، ( بخاری : ۶۴۹۹ ) ۔
نماز ترک کرنا شرک اور کفر ہے
اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ( لوگو ! ) اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے ڈرتے رہو اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ‘‘ ، ( الروم : ۳۱ ) ۔ اور الرحمن فرماتے ہیں : ’’ پس اگر وہ ( یعنی مشرکین ) توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو ۔ یقیناًاﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘ ، ( التوبۃ : ۵ ) ۔
سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ آدمی اور کفر و شرک کے درمیان فرق نماز کا چھوڑنا ہے ‘‘ ، ( مسلم : ۲۴۷ ) ۔ حضرت بریدۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہمارے اور ان ( منافقین ) کے درمیان عہد ( یعنی ان سے لڑائی سے مانع ) نماز ہے ( جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں گے ہم ان کو مسلمان سمجھ کر اہل اسلام کا سا معاملہ کریں گے ) پس جو نماز کو چھوڑ دے تو وہ یقیناً( ظاہری طور پر بھی ) کافر ہو گیا ‘‘ ، ( ابن ماجہ : ۱۰۷۹ ) ۔
امید ہے آپ سنجیدگی سے کام لیں گے ۔