محترم فھد صاحب چند مصروفیات کی وجہ سے بروقت جواب نہ دے سکا آپکے ممراسلے کا جواب حاضر ہے آپ نے فرمایا "
پاکستان کی آنے والی نسلوں کو اس امريکی مدد سے کوئ خطرہ درپيش نہيں ہے جو گزشتہ دہائيوں سے عام عوام کے ليے قابل قدر مواقعوں اور بہتری سبب بنی ہے۔
جناب عالی اس امداد کے بدلے آپ نے کہیں زیادہ مراعات ،سہولیات ،تحفظ اپنے اور اپنے تجارتی اداروں کے لیے حاصل کیں۔جس پرخرچہ زیادہ آتا۔ صرف اپنے ٹرالر ہی کو دیکھیں ، پاکستانی کا کراچی سے پشاور تک ایک ٹرالر ۱۸۰۰ روپے ٹول ٹیکس دیتا ھے اور آپ مفت میں ھماری سڑکیں توڑتے ھیں ۔دن میں کتنے ٹرالر گزرتے ہیں۔کیلکولیٹر سے حساب کر لیں ۔ آپ کی کوئی گاڑی ٹول ٹیکس نہیں دیتی اور ھمارا ٹیکسی ڈرائیور بھی دیتا ہے یہ سب امریکن امداد کے نشے ھیں ۔۔ جوآپ کے پاکستانی گماشتوں کی بدولت آپ کو حاصل ہوئے۔
"يہ دہشت گردی کا عفريت ہے جس نے نا صرف يہ کہ پورے ملک کی بقا کو داؤ پر لگا ديا ہے بلکہ معاشرے کی بنيادوں کو بھی ہلا کر رکھ ديا ہے۔"
یہ دھشت گردی آپ ہی پیدا کردہ ہیں تحریک طالبان پاکستان آپ ہی کے زر خرید ھیں جن کے ٹیلیفون نمبر اور نام ریمنڈ ڈیوس کی ڈائری میں تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اہداف عبادت گاہیں ، درسگاہیں ہیں لسانی منافرت ، مذہبی تفرقہ اگر آپ نہیں پیدا کرینگے تو خطے میں آپ کا وجود بے معنی ہو جائے گا یہی آپ کا طریقہ واردات ہے ۔ مجاہدین کا ہدف عبادت گاہیں نہیں بلکہ آپ اور آپ کے تنخواہ دار گماشتے ہیں
” حيرت انگيز امر يہ ہے کہ آپ اس خواہش کا اظہار کر رہے ہيں کہ پاکستانيوں کو امريکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہيے باوجود اس کے کہ ہم پاکستان کی فوج کو ہتھيار، لاجسٹک سپورٹ، فوجی ساز وسامان اور سرکردہ قيادت سميت اہم ترين افراد کو تربيت بھی فراہم کر رہے ہيں۔ خطے ميں ہماری موجودگی نا تو ہماری خواہش تھی اور نا ہی ہمارا ايسا کوئ منصوبہ تھا۔ ہميں مجبوری کے عالم ميں اس وقت فوجی کاروائ کرنا پڑی "
پاکستان ۱۹۵۶ سے آپ کا دوست بنا۔ سرد جنگ میں خطے کی ایک سوپر پاور سے مخالفت مول لی۔ بڈھ بیر پشاور کا ہوائی اڈہ آپ کے تصرف میں تھا۔اور آپ نے جب پاکستان پر مشکل کا وقت آیا ہتھیاروں کی سپلائی بند کردی۔آپ تو جس پلیٹ میں کھاتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔آج دنیا میں اور خود آپ کے ملک میں آپ کی حکومت کے خلاف کتنی نفرت بڑھ رہی ہے دنیا میں اگر کہیں کوئی پرچم جلایا جاتا ہے تو آپ کی حکومتوں کے ایسے کارناموں کی وجہ سے ۔ورنہ چین ، جاپان ، فرانس ، جرمنی بھی تو ہیں۔آپ کے حکمران امریکیوں کو دنیا جہاں سے نفرتیں دلا رہے ہیں
" آپ آزادی کی جس ممکنہ جنگ کا خدشہ ظاہر کر رہے ہيں، وہ تو پہلے ہی سے ہماری سروں پر ہے۔ ہميں اس سوچ کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنا ہے جو کم سن بچوں کو خودکش حملہ آور بنا کر نا صرف يہ کہ ايک پوری نسل کو برباد کر رہے ہيں "
آپ اس خطے کو خالی کر دو ، ڈرون حملے بند کرو یہ خود کش حملے خود ختم ہوجائیں گے یہ خود کش حملہ آور تمہارے ہی مہیا کردہ بارود سے بنے ہیں۔ اب تم نکلنے کی کرو روس کو افغانستان سے نکلنے کے لیے پتلی گلی مل گئی تھی مگر تم بند گلی میں ہو ایسا نہ ہو کہ صومالیہ کی طرح تمھارے سورماوں کی لعشیں گھسیٹتے ہوئے ٹی وی پر دنیا دیکھے۔ اوراپنے حکمرانوں کو بتا دو اگر بتانے کی جرات ہے کہ محبتیں تجارت ، باہمی احترام سے بڑھتی ھیں نا کہ اسلحہ سے۔
آپ میرا اور میں آپ کا نکتہ نظر سمجھ گئے ہیں مزید بحث فضول ہو گی اور یہ بحث لا حاصل ہے۔