امريکی قوم سے صدر اوبامہ کا خطاب

زیک

مسافر
اس وقت جو پارٹی امریکہ کی ہمنوا ہے وہ کچھ بھی کرے اس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں لیکن امریکہ کی مخلاف جماعتیں اگر اچھا کام بھی کریں تو پورا مغربی میڈیا چیخ پرتا ہے

لگتا ہے کہ آپ نے عالمی انسانی حقوق کی تنظمیوں کی کبھی کوئ رپورٹ نہیں پڑی۔ ذرا ایمنسٹی انٹرنیشنل یا ہیومن رائٹس واچ کے ویب سائٹس کا چکر لگا لیں۔
 
میرا خیال ہے کہ جو لوگ امریکہ میں نہیں رہتے انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ یہاں‌بسنے والے پاکستانیوں‌کی نمائندگی کریں یا انکے بارے میں کوئی رائے قائم کریں، یہ ایک بالکل الگ معاشرہ ہے اور یہاں‌بسنے والے اپنی رائے بہت سوچ سمجھ کر قائم کرتے ہیں، جہاں تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں‌انسانی حقوق کے بات ہے تو بھائی یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے آپ اسکا مقابلہ ساؤتھ ایشیا میں ہونے والی زیادتیوں سے کہاں کر رہے ہیں۔ ہوش کی ناخن لیجئے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

خود سی آئی اے متعدد بار یہ اعتراف کرچُکی ہے کہ اسامہ بن لادن اور دیگر کئی عرب مجاھدین کو نہ صرف پاکستان کے ذریعے سپورٹ فراہم کی گئی بلکہ ٹریننگ وغیرہ بھی دی گئی اور اس میں پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے بہت اہم کردار کھیلے گئے تھے۔

ميں نے يہ بات ہميشہ تسليم کی ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں سويت حملے کے بعد مجاہدين کی مکمل حمايت کی تھی۔ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ حالات کے تناظر ميں وہ ايک درست اور منصفانہ فيصلہ تھا۔

دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی۔ اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ اس حقيقت کے ثبوت کے طور پر ميں آپ کو بے شمار دستاويزات اور ريفرنس مہيا کر سکتا ہوں۔ اس ضمن ميں آئ – ايس – آئ کے سابق چيف جرنل حميد گل کا حاليہ انٹرويو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://pakistankakhudahafiz.wordpress.com/2009/06/14/loud-clear-episode-3-hamid-gul/

انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔ انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ تک کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے۔

اور يہ واحد شخص نہيں ہيں جنھوں نے اس ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا ہے۔

کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے بھی ثابت ہيں جو ميں اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

صرف انصاف سے کام لیا ہوتا تو آج فلسطین و کشمیر آزاد ہوتے _
_


امريکہ کشمير کے مسلئے کو بھارت اور پاکستان کے مابين ايک اہم اور حل طلب ايشو کے حوالے سے تسليم کرتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مشترکہ دوست کی حيثيت سے امريکہ يقينی طور پر يہ خواہش رکھتا ہے کہ اس مسلئے کو حل کيا جائے۔ خطے ميں مستقل اور پائيدارامن کے قيام کے ضمن ميں يہ ايک اہم پيش رفت ہو گی۔ ليکن امريکہ دو خودمختار ممالک کو ان کی مرضی کے برخلاف اس مسلئے کے حل اور اور اس ضمن میں شرائط پر مجبور نہيں کر سکتا۔ ايسا اقدام نقصان دہ ثابت ہو گا۔

اس ضمن ميں کوششوں کا آغاز بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو کرنا ہو گا۔ اس بات کا اظہار سيکرٹری آف اسٹيٹ ہيلری کلنٹن نے بھی اپنے موجودہ دورہ بھارت کے دوران کيا ہے

"يقينی طور پر يہ ايشو بھارت اور پاکستان کے مابين گفتگو کے ايجنڈے پر ہونا چاہيے۔ ميرے خيال ميں بھارت اور پاکستان کے مابين تاریخی اور حل طلب تنازعات کو ازسرنو ديکھنا چاہيے اور اس سلسلے ميں دونوں ممالک کے مابين اعتماد کی بحالی کے ليے کوششيں کرنی چاہيے۔ امريکہ اس ضمن میں بھارت اور پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمايت کے لیے تيار ہے ليکن ہم اس بات سے بخوبی واقف ہيں کہ ان مسائل کا حل صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب دونوں ممالک يہ معاملات خود طے کريں – صرف حکومتی سطح پر نہيں بلکہ عوام کی سطح پر۔ اور اس ضمن ميں ہم حمايت کريں گے ليکن ہم اس امر سے واقف ہيں کہ اس مسلئے کا حل بھارت اور پاکستان کو خود کرنا ہو گا"۔


امريکہ نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہيں کيا اور امريکہ کے اندر اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنے کے حوالے سے سپورٹ سے بھی انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ فلسطين کے عوام کے ساتھ دوستانہ روابط کے خلاف ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ يہ تعلقات دونوں ممالک کے بہترين مفاد ميں ہيں۔

امريکہ نے اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی بہت سے قراردادوں کی حمايت کی ہے اور ان ميں کئ قرارداديں منظور بھی ہو چکی ہيں۔ امريکہ اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 1397 اور اس ضمن ميں فريقين کے مابين طے پانے والے معاہدوں کی مکمل حمايت کرتا ہے اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو تسليم کرتا ہے۔ اس مسلئے کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی انھی قراردادوں پر عمل سے ممکن ہے۔

ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکہ نے اقوام متحدہ کی ايسی بھی بہت سی قرارداديں تسليم کی ہيں جس سے فلسطين کے موقف کی تائيد ہوتی ہے ليکن جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلئے کے حل کے ليے دونوں فريقين کی رضامندی کے بغير اقوام متحدہ کی قرارداديں ناکافی ہيں۔

اس تناظے کے تصفيے کے ليے فريم ورک مکمل ہو چکا ہے اور امريکہ دونوں فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
کشمیریوں‌کے حقوق کی بات کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں نے پوری دنیا کا ٹھیکا لے رکھا ہے اور اپنے بین الاقوامی تعلقات انہی عوامل کو مد نظر رکھ کر طے کرتے ہیں جب کہ عالم اسلام کے دیگر ممالک اپنے اپنے ملکوں‌کی ترقی و تعمیر کو اول ترجیح دیتے ہیں، یہی صحیح طریقہ ء کار ہے ۔ غلط یا صحیح فلسطین کا مسئلہ فلسطین کے لوگوں تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہوگا، کل کو وہ کوئی معاہدہ کرکے سائڈ لائن ہو جائیں گے اور ہم بیگانی شادی میں‌عبداللہ دیوانے کا کردار نبھاتے رہیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ ’’ صرف پاکستان‘‘ کی بات کی جائے اور اپنے عوام کو غربت ، جہالت ، اور دہشت گردی سے نجات دلوائی جائے۔
 

dxbgraphics

محفلین
کشمیر جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے لئے بہت اہم ہے۔ لہذا انیس صاحب میں آپ کی بات سے بلکل متفق نہیں ہوں
 

فرخ

محفلین
تو امریکہ میں‌رہنے والوں‌کو پھر یہ حق کہاں‌سے حاصل ہو گیا کہ وہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں‌کے بارے میں‌یا یہاں‌کے معاشرے کے بارے میں‌کوئی رائے قائم کریں۔
یہ مت کہیئے گا کہ آپ لوگ یہاں‌سے واقف ہیں کیونکہ اس صورت میں‌امریکی معاشرہ بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں‌ہے کسی سے۔
رہ گئیں انسانی حقوق کی بات، تو وہاں ہونے والی زیادتیوں‌کی رپورٹس آپ انٹرنیٹ سے خود بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ جو لوگ امریکہ میں نہیں رہتے انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ یہاں‌بسنے والے پاکستانیوں‌کی نمائندگی کریں یا انکے بارے میں کوئی رائے قائم کریں، یہ ایک بالکل الگ معاشرہ ہے اور یہاں‌بسنے والے اپنی رائے بہت سوچ سمجھ کر قائم کرتے ہیں، جہاں تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں‌انسانی حقوق کے بات ہے تو بھائی یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے آپ اسکا مقابلہ ساؤتھ ایشیا میں ہونے والی زیادتیوں سے کہاں کر رہے ہیں۔ ہوش کی ناخن لیجئے۔
 

فرخ

محفلین
اور مجھے آپکے ان بے تُکے سوالات پر افسوس ہے جس کا یہاں ہونے والی بحث سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں‌تک الفاظ کے چناؤ کی بات ہے، تو ہر شخص یہاں‌اپنی ذھنیت کے مطابق ہی بات کرتا ہے چاہے وہ سرکاری طور پر آئے یا غیر سرکاری طور پر۔

چلئیے میں‌اپنی یہ غلطی تسلیم کرتا ہوں‌کہ ٹیکس کا بڑا حصہ اسرائیل کو نہیں جاتا، مگر جو جاتا ہے،اس کے استعمال کے بارے میں‌کیا خیال ہے آپکا؟ اور اسکے علاوہ اسرائیل کو ایٹمی اور دیگر اسلحہ کی سپورٹ، اور اقوام متحدہ میں‌اسکی ہر غلط حرکت پر آنکھیں‌بند کرکے ویٹو پر انگوٹھا لگا دینے کے بارے میں‌کیا خیال ہے آپکا؟

مقصد امریکہ کی اسرائیل جیسے دھشت گرد ملک کی پشت پناہی کو واضح کرنا تھا، مگر شائید پروپیگنڈا زدہ ذھنیت کو الفاظ کے چناؤ کی فکر پڑی رہتی ہے اور اصل بات سے دھیان ہٹانے کی۔

اور امریکہ کے پجاری بھی ان کو کہا ہے ، جو امریکہ کو ہر حال میں معصوم اور مثبت ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور حقائق سے نظریں چراتے ہیں۔

(آپکے دئے ہوئے لنک:‌http://www.fas.org/sgp/crs/mideast/rl33222.pdf
پر فائل نہ ملنے کا ایرر آرہا ہے(


ذرا فواد جیسی ذہنیت کے دیگر افراد کی نشاندہی کریں‌گے؟

یاد رہے کہ فواد اپنی سرکاری حیثیت سے محفل پر آتا ہے جبکہ دیگر امریکی ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں۔

ویسے یہاں آپ کے الفاظ کے چناؤ‌ پر صرف افسوس ہی کر سکتا ہوں۔



یہ امریکہ کے پجاری کون ہیں؟ امریکی محفلین امریکہ کی تعریف بھی کرتے ہیں اور اس پر تنقید بھی۔



ٹیکس کا بڑا حصہ اسرائیل کو جاتا ہے؟ کم از کم اعداد و شمار پر تو کچھ عبور حاصل کر لیں۔ یہاں آپ پڑھ سکتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کو سالانہ اڑھائ ارب ڈالر امداد دیتا ہے اور کل فیڈرل ٹیکس 2674 ارب اکٹھا ہوتا ہے۔ یعنی اسرائیل کی امداد فیڈرل ٹیکس کے گوشوراوں کے ہزارویں حصے سے بھی کم ہے۔ اگر امریکہ کی کل امداد دیکھی جائے تو وہ 42 ارب ڈالر ہے۔ اس میں سے 2.5 ارب اسرائیل کو جاتے ہیں۔ یعنی تمام بین الاقوامی امداد کا 6 فیصد اسرائیل کو ملتا ہے۔
 

فرخ

محفلین
جی ہاں، امریکہ بھی یہی چاہتا ہے اور آجکل جو اسرائیلی، بھارتی افواج کی مدد کے لئے ہماری سرحدوں‌پر موجود ہیں، انکا مقصد بھی یہی ہے۔
کشمیر علاقائی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور امریکہ نے وہاں‌ہونے والی بھارتی دھشت گردی پر جس طرح سے اپنی آنکھیں‌بند کر لیں‌ہیں میرا خیال ہے امریکہ کی انسانی ہمدردی کا رونا رونے والوں کو اب تک سمجھ لینا چاہئیے کہ اسکا اصل مقصد اس علاقے پر اپنی اجارہ داری بنانا ہے، اور اصل وجہ ہے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، جس سے امریکہ خوفزدہ ہے اور متعدد بار چین کے بارے میں‌آنے والے بیانات سے اسکا اظہار بھی ہوتا رہا ہے۔

کشمیریوں‌کے حقوق کی بات کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں نے پوری دنیا کا ٹھیکا لے رکھا ہے اور اپنے بین الاقوامی تعلقات انہی عوامل کو مد نظر رکھ کر طے کرتے ہیں جب کہ عالم اسلام کے دیگر ممالک اپنے اپنے ملکوں‌کی ترقی و تعمیر کو اول ترجیح دیتے ہیں، یہی صحیح طریقہ ء کار ہے ۔ غلط یا صحیح فلسطین کا مسئلہ فلسطین کے لوگوں تک ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہوگا، کل کو وہ کوئی معاہدہ کرکے سائڈ لائن ہو جائیں گے اور ہم بیگانی شادی میں‌عبداللہ دیوانے کا کردار نبھاتے رہیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ ’’ صرف پاکستان‘‘ کی بات کی جائے اور اپنے عوام کو غربت ، جہالت ، اور دہشت گردی سے نجات دلوائی جائے۔
 

ساجد

محفلین
گرافکس صاحب ،انیس فاروقی کے مراسلہ 85 کو دوبارہ غور سے پڑھیں۔ انہوں نے کشمیر پہ آواز اٹھانے کی مخالفت نہیں کی۔
البتہ ان کے مراسلہ 82 سے مجھے اختلاف ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب زود رنج طبیعت رکھتے ہیں تبھی تو آپ امریکی پالیسی پہ تنقید کو کبھی امریکہ سے نفرت سمجھ بیٹھتے ہیں اور کبھی امریکی نمائندگی پہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اجی حضرت فاروقی صاحب ، ہم میں سے کوئی بھی امریکی پاکستانیوں کی نمائندگی نہیں کر رہا ۔ ہاں یہ لطافت کی بات ہی سمجھی جائے گی کہ آپ پورب باسیوں کو سوچ سمجھ کے رستم سمجھتے ہیں اور ساؤتھ ایشینز کو انسانی حقوق کے غاصب۔ اور اس سے بھی لطیف بات یہ ہے کہ امریکی حکومتوں کو بھی اسی قسم کا زعم ہمیشہ سے رہا ہے لیکن حالات اور تاریخ نے ان کے اس دعوی کو بارہا غلط ثابت کیا ہے۔ حال ہی میں اس زعم کا کباڑہ عراق میں ہوا ہے اور اب افغانستان میں ہونے والا ہے ۔ شاید لٹل بوائے بھی ایک ایسا ہی شریر تھا کہ جس نے امریکی سمجھ کو طشت از بام کیا تھا۔ ویت نامیوں نے بھی اسی سمجھ کا بھانڈا پھوڑا تھا اور جغرافیائی طور پہ امریکہ کے انتہائی قریب واقع کیوبا بھی اس سمجھ کو آج تک نہ سمجھ سکا اور اب وینزویلا کے شاویز کے نتھنے بھی بہت تیز ہو گئے ہیں۔
خدا نہ کرے کہ آپ کے معاشرہ اور باسیوں میں بھی ایسی سمجھ کا چلن در آئے۔ آپ تو ایک طاقت ہو جو اپنی حکومتوں کو غلط فیصلوں سے روکنے کی اہلیت رکھتے ہو۔
بندہ پرور ، یہ سیاست ہے ۔ یہاں شخصیات تاریخ کے فیصلوں سے سبق حاصل کرتی ہیں اور عوام برداشت کا رویہ اپناتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہی بھائی بند یہاں اپنے اپنے جعلی سیاسی خداؤں کی ہر ہر ادا کو سچ ثابت کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیسی جمہوریت؟ کیسی برداشت؟ اور ان دو عوامل کی عدم موجودگی میں انصاف کا کیا کام؟
اس بحث میں کہنے کو میرے پاس بہت کچھ تھا لیکن جب برداشت کے پہلوانوں کو بھی میدانِ دانش منداں میں کارِ زناں پہ مامور دیکھا تو خاموشی سے الفاظ کی کاٹ اور خیالات کی دھار دیکھنے پہ اکتفا کیا۔ بہ امر مجبوری یہ مراسلہ تحریر کیا کہ اب یہ گماں گزرنے لگا تھا کہ ہمیں جو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیا جا رہا ہے کہیں ہم بے ہوش تو نہیں ہو گئے۔
 

ساجد

محفلین
جی ہاں، امریکہ بھی یہی چاہتا ہے اور آجکل جو اسرائیلی، بھارتی افواج کی مدد کے لئے ہماری سرحدوں‌پر موجود ہیں، انکا مقصد بھی یہی ہے۔
کشمیر علاقائی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور امریکہ نے وہاں‌ہونے والی بھارتی دھشت گردی پر جس طرح سے اپنی آنکھیں‌بند کر لیں‌ہیں میرا خیال ہے امریکہ کی انسانی ہمدردی کا رونا رونے والوں کو اب تک سمجھ لینا چاہئیے کہ اسکا اصل مقصد اس علاقے پر اپنی اجارہ داری بنانا ہے، اور اصل وجہ ہے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، جس سے امریکہ خوفزدہ ہے اور متعدد بار چین کے بارے میں‌آنے والے بیانات سے اسکا اظہار بھی ہوتا رہا ہے۔
بھائی میرے ،
ایک بات سمجھ لیں کہ یہ دنیا ہمیشہ سے طاقتور کی رہی ہے۔ تہذیبوں اور اقوام کا عروج و زوال اپے اندر ایک سبق رکھتا ہے۔ اور سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کمزوری کی حالت میں کبھی بھی طاقتور کا مقابلہ طاقت سے نہ کریں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ ہمارے مجاہد بھائیوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔ وہ جہاد کے نعرے بلند کرتے ہیں اور طاقتور کے لئیے تر نوالہ ثابت ہوتے ہیں او جو دہشت گردی کا لیبل چپکتا ہے وہ الگ۔
جاپان کی مثال سے کچھ سمجھیں اور چین کی خاموشی سے کچھ سیکھیں۔ جاپان کا کوریا کے ساتھ جزائر پہ تنازعہ ہے اور چین ، تائیوان کو اپنا حصہ کہتا ہے لیکن دیکھیں کہ انہوں نے اسے مسئلہ نمبر ایک بنا کر اپنی اقتصادیات اور بین الاقوامی تعلقات کا بیڑہ غرق نہیں کیا۔ معاہدہ کے عین مطابق ہانگ کانگ اور مکاؤ چین کی عملداری میں آ گئے۔ میں چین اور جاپان کے ماضی کے تلخ تعلقات کی تفصیل میں نہیں جا رہا لیکن یہ تلخی ابھی تک قائم ہے اس کے باوجود ہر جاپانی برانڈ چین میں تیار ہو رہا ہے ۔
ہمارا ہاتھ کس نے روکا ہے کہ ہم بین الاقوامی تعلقات میں اس قدر پیچھے ہیں کہ دنیا ہمیں کسی قابل نہیں سمجھتی؟ یہ ہماری حد درجہ جذباتیت اور نا کام خارجہ پالیسی ہے جو ہمیں جامد کر چکی ہے۔ امریکہ ، اسرائیل اور ہندوستان صرف ایک حد تک ہی پاکستان کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں لیکن ہماری اپنی غلطیوں کا دخل اس میں کہیں زیادہ ہے۔ ہم کب تک دوسروں کی امداد کے منتظر رہیں گے اور کب تک اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرائیں گے؟۔
 

dxbgraphics

محفلین
گرافکس صاحب ،انیس فاروقی کے مراسلہ 85 کو دوبارہ غور سے پڑھیں۔ انہوں نے کشمیر پہ آواز اٹھانے کی مخالفت نہیں کی۔
البتہ ان کے مراسلہ 82 سے مجھے اختلاف ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب زود رنج طبیعت رکھتے ہیں تبھی تو آپ امریکی پالیسی پہ تنقید کو کبھی امریکہ سے نفرت سمجھ بیٹھتے ہیں اور کبھی امریکی نمائندگی پہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اجی حضرت فاروقی صاحب ، ہم میں سے کوئی بھی امریکی پاکستانیوں کی نمائندگی نہیں کر رہا ۔ ہاں یہ لطافت کی بات ہی سمجھی جائے گی کہ آپ پورب باسیوں کو سوچ سمجھ کے رستم سمجھتے ہیں اور ساؤتھ ایشینز کو انسانی حقوق کے غاصب۔ اور اس سے بھی لطیف بات یہ ہے کہ امریکی حکومتوں کو بھی اسی قسم کا زعم ہمیشہ سے رہا ہے لیکن حالات اور تاریخ نے ان کے اس دعوی کو بارہا غلط ثابت کیا ہے۔ حال ہی میں اس زعم کا کباڑہ عراق میں ہوا ہے اور اب افغانستان میں ہونے والا ہے ۔ شاید لٹل بوائے بھی ایک ایسا ہی شریر تھا کہ جس نے امریکی سمجھ کو طشت از بام کیا تھا۔ ویت نامیوں نے بھی اسی سمجھ کا بھانڈا پھوڑا تھا اور جغرافیائی طور پہ امریکہ کے انتہائی قریب واقع کیوبا بھی اس سمجھ کو آج تک نہ سمجھ سکا اور اب وینزویلا کے شاویز کے نتھنے بھی بہت تیز ہو گئے ہیں۔
خدا نہ کرے کہ آپ کے معاشرہ اور باسیوں میں بھی ایسی سمجھ کا چلن در آئے۔ آپ تو ایک طاقت ہو جو اپنی حکومتوں کو غلط فیصلوں سے روکنے کی اہلیت رکھتے ہو۔
بندہ پرور ، یہ سیاست ہے ۔ یہاں شخصیات تاریخ کے فیصلوں سے سبق حاصل کرتی ہیں اور عوام برداشت کا رویہ اپناتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہی بھائی بند یہاں اپنے اپنے جعلی سیاسی خداؤں کی ہر ہر ادا کو سچ ثابت کرنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیسی جمہوریت؟ کیسی برداشت؟ اور ان دو عوامل کی عدم موجودگی میں انصاف کا کیا کام؟
اس بحث میں کہنے کو میرے پاس بہت کچھ تھا لیکن جب برداشت کے پہلوانوں کو بھی میدانِ دانش منداں میں کارِ زناں پہ مامور دیکھا تو خاموشی سے الفاظ کی کاٹ اور خیالات کی دھار دیکھنے پہ اکتفا کیا۔ بہ امر مجبوری یہ مراسلہ تحریر کیا کہ اب یہ گماں گزرنے لگا تھا کہ ہمیں جو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دیا جا رہا ہے کہیں ہم بے ہوش تو نہیں ہو گئے۔

کیا ہم پاکستانیوں نے پوری دنیا کا ٹھیکا لے رکھا ہے اور اپنے بین الاقوامی تعلقات انہی عوامل کو مد نظر رکھ کر طے کرتے ہیں
میں تو سیدھا سا آدمی ہوں گہرائی کونہیں سمجھتا ۔ آپ ہی سمجھا دیں کہ انہوں نے کس بات کی طرف اشارہ کیا۔
نیز بھارت کا صرف جلال آباد میں ایک کی بجائے پینتیس کے قریب سفارت خانے قائم کرنے کا کیا مطلب ہے
 

dxbgraphics

محفلین
امريکہ کشمير کے مسلئے کو بھارت اور پاکستان کے مابين ايک اہم اور حل طلب ايشو کے حوالے سے تسليم کرتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مشترکہ دوست کی حيثيت سے امريکہ يقينی طور پر يہ خواہش رکھتا ہے کہ اس مسلئے کو حل کيا جائے۔ خطے ميں مستقل اور پائيدارامن کے قيام کے ضمن ميں يہ ايک اہم پيش رفت ہو گی۔ ليکن امريکہ دو خودمختار ممالک کو ان کی مرضی کے برخلاف اس مسلئے کے حل اور اور اس ضمن میں شرائط پر مجبور نہيں کر سکتا۔ ايسا اقدام نقصان دہ ثابت ہو گا۔

اس ضمن ميں کوششوں کا آغاز بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو کرنا ہو گا۔ اس بات کا اظہار سيکرٹری آف اسٹيٹ ہيلری کلنٹن نے بھی اپنے موجودہ دورہ بھارت کے دوران کيا ہے

"يقينی طور پر يہ ايشو بھارت اور پاکستان کے مابين گفتگو کے ايجنڈے پر ہونا چاہيے۔ ميرے خيال ميں بھارت اور پاکستان کے مابين تاریخی اور حل طلب تنازعات کو ازسرنو ديکھنا چاہيے اور اس سلسلے ميں دونوں ممالک کے مابين اعتماد کی بحالی کے ليے کوششيں کرنی چاہيے۔ امريکہ اس ضمن میں بھارت اور پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمايت کے لیے تيار ہے ليکن ہم اس بات سے بخوبی واقف ہيں کہ ان مسائل کا حل صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب دونوں ممالک يہ معاملات خود طے کريں – صرف حکومتی سطح پر نہيں بلکہ عوام کی سطح پر۔ اور اس ضمن ميں ہم حمايت کريں گے ليکن ہم اس امر سے واقف ہيں کہ اس مسلئے کا حل بھارت اور پاکستان کو خود کرنا ہو گا"۔


امريکہ نے اسرائيل کے ساتھ تعلقات سے کبھی انکار نہيں کيا اور امريکہ کے اندر اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنے کے حوالے سے سپورٹ سے بھی انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ فلسطين کے عوام کے ساتھ دوستانہ روابط کے خلاف ہے۔ حقیقت يہ ہے کہ يہ تعلقات دونوں ممالک کے بہترين مفاد ميں ہيں۔

امريکہ نے اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی بہت سے قراردادوں کی حمايت کی ہے اور ان ميں کئ قرارداديں منظور بھی ہو چکی ہيں۔ امريکہ اس مسلئے کے حل کے ليے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 1397 اور اس ضمن ميں فريقين کے مابين طے پانے والے معاہدوں کی مکمل حمايت کرتا ہے اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو تسليم کرتا ہے۔ اس مسلئے کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی انھی قراردادوں پر عمل سے ممکن ہے۔

ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکہ نے اقوام متحدہ کی ايسی بھی بہت سی قرارداديں تسليم کی ہيں جس سے فلسطين کے موقف کی تائيد ہوتی ہے ليکن جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلئے کے حل کے ليے دونوں فريقين کی رضامندی کے بغير اقوام متحدہ کی قرارداديں ناکافی ہيں۔

اس تناظے کے تصفيے کے ليے فريم ورک مکمل ہو چکا ہے اور امريکہ دونوں فريقين کے مابين فاصلے کم کرنے کے ليے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

اگر فریم ورک مکمل ہوگیا تو امریکہ کی اجارہ دارانہ رویہ کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ اور امریکہ کبھی بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہونے دےگا۔
 

ساجد

محفلین
میں تو سیدھا سا آدمی ہوں گہرائی کونہیں سمجھتا ۔ آپ ہی سمجھا دیں کہ انہوں نے کس بات کی طرف اشارہ کیا۔
نیز بھارت کا صرف جلال آباد میں ایک کی بجائے پینتیس کے قریب سفارت خانے قائم کرنے کا کیا مطلب ہے
گرافکس ، آپ شاید فاروقی صاحب کے ذیل کے جملے کی بات کر رہے ہیں۔
کشمیریوں‌کے حقوق کی بات کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں نے پوری دنیا کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔
آپ کو اس میں کیا غلط لگتا ہے؟
فاروقی صاحب نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ کشمیر کی بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر اس میں سمجھ میں نہ آنے والی کیا بات ہے؟
آپ کو پتہ ہے کہ صرف افغانستان ہی نہیں فلپائن کے ابو سیاف گروپ اور تھائی لینڈ کے آزادی پسند مسلمانوں کی تربیت میں بھی ہمارے مجاہدوں کا دخل رہا ہے۔ اور تو اور پاکستان کا دوست چین بھی اپنے صوبہ سنکیانگ میں پاکستانی مذہبی عناصر کے عمل کی شکایت حکومت پاکستان سے کرتا رہا ہے۔ ہم فلسطینیوں کی خاطر کفن پوش جلوس نکالتے ہیں اور ان کے اپنے عرب بھائیوں میں سے آدھی درجن کے قریب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکے ہیں بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی رکھتے ہیں۔
ایسے میں یہ کہنا کیا صحیح نہیں کہ ہم اپنی پالیسیاں اپنے مفادات سامنے رکھ کر نہیں بناتے ؟۔
اگر بھارت سمیت کوئی ملک آج کے حالات کے مطابق افغانستان کی زمین اور افرد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو اس کا حل بین الاقوامی برادری اور میڈیا کو ثبوت فراہم کر کے اس پر دباؤ بڑھانا ہے لیکن ہماری حکومت نا معلوم وجوہ کی بنا پہ یہ اقدام نہیں اٹھا رہی۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ ہم کب تک اپنی نا اہلیوں کو دوسروں کے سر منڈھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دباتے رہیں گے؟
 

dxbgraphics

محفلین
گرافکس ، آپ شاید فاروقی صاحب کے ذیل کے جملے کی بات کر رہے ہیں۔
کشمیریوں‌کے حقوق کی بات کرنے میں‌کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن کیا ہم پاکستانیوں نے پوری دنیا کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔
آپ کو اس میں کیا غلط لگتا ہے؟
فاروقی صاحب نے واضح طور پہ لکھا ہے کہ کشمیر کی بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر اس میں سمجھ میں نہ آنے والی کیا بات ہے؟
آپ کو پتہ ہے کہ صرف افغانستان ہی نہیں فلپائن کے ابو سیاف گروپ اور تھائی لینڈ کے آزادی پسند مسلمانوں کی تربیت میں بھی ہمارے مجاہدوں کا دخل رہا ہے۔ اور تو اور پاکستان کا دوست چین بھی اپنے صوبہ سنکیانگ میں پاکستانی مذہبی عناصر کے عمل کی شکایت حکومت پاکستان سے کرتا رہا ہے۔ ہم فلسطینیوں کی خاطر کفن پوش جلوس نکالتے ہیں اور ان کے اپنے عرب بھائیوں میں سے آدھی درجن کے قریب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکے ہیں بلکہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی رکھتے ہیں۔
ایسے میں یہ کہنا کیا صحیح نہیں کہ ہم اپنی پالیسیاں اپنے مفادات سامنے رکھ کر نہیں بناتے ؟۔
اگر بھارت سمیت کوئی ملک آج کے حالات کے مطابق افغانستان کی زمین اور افرد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو اس کا حل بین الاقوامی برادری اور میڈیا کو ثبوت فراہم کر کے اس پر دباؤ بڑھانا ہے لیکن ہماری حکومت نا معلوم وجوہ کی بنا پہ یہ اقدام نہیں اٹھا رہی۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ ہم کب تک اپنی نا اہلیوں کو دوسروں کے سر منڈھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دباتے رہیں گے؟

آپ میرا جواب دوبارہ پڑھیئے اور بتائیے کیامیں نے غلط کہا ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

نیز بھارت کا صرف جلال آباد میں ایک کی بجائے پینتیس کے قریب سفارت خانے قائم کرنے کا کیا مطلب ہے

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اور امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ممبر کی حیثيت سے ميں اس پوزيشن ميں نہيں ہوں کہ بھارتی حکومت کی کسی پاليسی يا عمل کی وضاحت، حمايت يا توجيہہ پيش کروں۔

ميں پاکستانی ميڈيا پر اس مسلسل بحث اور الزامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بخوبی واقف ہوں جس کی بنياد يہ مقبول مفروضہ ہے کہ بھارت امريکہ کے ساتھ مل کر افغانستان ميں اپنے درجنوں قونصل خانوں کے ذريعے پاکستان ميں شورش برپا کر رہا ہے۔

اس ضمن ميں پاکستانی ميڈيا پر سياسی اور فوجی قائدين کی جانب سے وہ جذباتی دلائل بھی سنے ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں کہ افغان سرحد کے قريب سو سے زائد قونصل خانے موجود ہيں۔ کوئ بھی شخص جسے سفارتی اداروں ميں کام کرنے کا تجربہ ہے، وہ آپ پر يہ واضح کر دے گا کہ کسی بھی ملک ميں کونسل خانے کے قيام کے لیے اس ملک کی جانب سے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معاہدوں ميں عام طور پر دونوں ملکوں ميں مساوی بنيادوں پر دفاتر کا قيام عمل ميں لايا جاتا ہے۔

ميں يہاں پر افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی لسٹ کا لنک دے رہا ہوں۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ افغانستان ميں بھارت کا ايک سفارت خانہ کابل ميں ہے جبکہ 4 مختلف قونصل خانے ہيرات، جلال آباد، قندھار اور مزار شريف ميں ہيں۔

http://www.embassiesabroad.com/embassies-in/Afghanistan

دلچسپ بات يہ ہے کہ افغانستان ميں پاکستان کا بھی ايک سفارت خانہ اور 4 قونصل خانے انھی علاقوں میں موجود ہيں۔

اس کے علاوہ اس ويب سائٹ پر آپ افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں کے ايڈريس اور ان کے نمايندوں سے رابطے کی تفصيلات بھی ديکھ سکتے ہيں۔

http://mea.gov.in/

امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو سکے

اگر پاکستان يہ سمجھتا ہے کہ بھارت ايسی تنظيموں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو رياست کے وجود کے لیے خطرہ ہيں اور اس ضمن ميں ٹھوس ثبوت بھی فراہم کر سکتا ہے تو اس کے ليے اقوام متحدہ کا فورم موجود ہے جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔ بھارت نے ممبئ کے واقعات کے بعد يہی کيا تھا اور اس کے نتيجے میں حکومت پاکستان نے کچھ تنظيموں کے خلاف اقدامات بھی کيے تھے۔

آج کل ميڈيا پر يہ بہت آسان ہے کہ کچھ افراد بلند وبانگ دعوے کريں اور پھر الزامات لگا کر کوئ ثبوت نہ پيش کريں۔ اس طريقہ کار سے محض نفرت سے بھرپور جذبے اور ايک غلط عوامی تاثر کو فروغ ملتا ہے جس کی نہ کوئ حقي‍قت ہوتی ہے اور نہ اس سے کسی مسلئے کا حل نکلتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

فرخ

محفلین
یہ شائید پاکستانی میڈیا نہیں‌ہے:
اور

اور اسی طرح کی اور بھی وڈیوز آپ کو مل جائیں گی، جو تعداد میں اس میڈیا پروپیگنڈا سے کم ہوں جو سکائی نیوز، فاکس نیوز کی طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتے نظر آتے ہیں۔اور صیہونیوں کی دھشت گردی کی کسی نہ کسی بہانے سے یا تو حمائیت کرتے نظر آتے ہیں یا انکے خلاف کوئی بھی بات دنیا کو بتانے سے گریز کرتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اور امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ممبر کی حیثيت سے ميں اس پوزيشن ميں نہيں ہوں کہ بھارتی حکومت کی کسی پاليسی يا عمل کی وضاحت، حمايت يا توجيہہ پيش کروں۔

ميں پاکستانی ميڈيا پر اس مسلسل بحث اور الزامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بخوبی واقف ہوں جس کی بنياد يہ مقبول مفروضہ ہے کہ بھارت امريکہ کے ساتھ مل کر افغانستان ميں اپنے درجنوں قونصل خانوں کے ذريعے پاکستان ميں شورش برپا کر رہا ہے۔

اس ضمن ميں پاکستانی ميڈيا پر سياسی اور فوجی قائدين کی جانب سے وہ جذباتی دلائل بھی سنے ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں کہ افغان سرحد کے قريب سو سے زائد قونصل خانے موجود ہيں۔ کوئ بھی شخص جسے سفارتی اداروں ميں کام کرنے کا تجربہ ہے، وہ آپ پر يہ واضح کر دے گا کہ کسی بھی ملک ميں کونسل خانے کے قيام کے لیے اس ملک کی جانب سے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معاہدوں ميں عام طور پر دونوں ملکوں ميں مساوی بنيادوں پر دفاتر کا قيام عمل ميں لايا جاتا ہے۔

ميں يہاں پر افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی لسٹ کا لنک دے رہا ہوں۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ افغانستان ميں بھارت کا ايک سفارت خانہ کابل ميں ہے جبکہ 4 مختلف قونصل خانے ہيرات، جلال آباد، قندھار اور مزار شريف ميں ہيں۔

http://www.embassiesabroad.com/embassies-in/Afghanistan

دلچسپ بات يہ ہے کہ افغانستان ميں پاکستان کا بھی ايک سفارت خانہ اور 4 قونصل خانے انھی علاقوں میں موجود ہيں۔

اس کے علاوہ اس ويب سائٹ پر آپ افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں کے ايڈريس اور ان کے نمايندوں سے رابطے کی تفصيلات بھی ديکھ سکتے ہيں۔

http://mea.gov.in/

امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو سکے

اگر پاکستان يہ سمجھتا ہے کہ بھارت ايسی تنظيموں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو رياست کے وجود کے لیے خطرہ ہيں اور اس ضمن ميں ٹھوس ثبوت بھی فراہم کر سکتا ہے تو اس کے ليے اقوام متحدہ کا فورم موجود ہے جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔ بھارت نے ممبئ کے واقعات کے بعد يہی کيا تھا اور اس کے نتيجے میں حکومت پاکستان نے کچھ تنظيموں کے خلاف اقدامات بھی کيے تھے۔

آج کل ميڈيا پر يہ بہت آسان ہے کہ کچھ افراد بلند وبانگ دعوے کريں اور پھر الزامات لگا کر کوئ ثبوت نہ پيش کريں۔ اس طريقہ کار سے محض نفرت سے بھرپور جذبے اور ايک غلط عوامی تاثر کو فروغ ملتا ہے جس کی نہ کوئ حقي‍قت ہوتی ہے اور نہ اس سے کسی مسلئے کا حل نکلتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

اسکے علاوہ اسرائیل کو ایٹمی اور دیگر اسلحہ کی سپورٹ، اور اقوام متحدہ میں‌اسکی ہر غلط حرکت پر آنکھیں‌بند کرکے ویٹو پر انگوٹھا لگا دینے کے بارے میں‌کیا خیال ہے آپکا؟

مقصد امریکہ کی اسرائیل جیسے دھشت گرد ملک کی پشت پناہی کو واضح کرنا تھا،

امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل، فلسطين يا کسی بھی ملک کو دی جانے والی امداد بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اس ضمن ميں کوئ ايسا مستقل کليہ يا ضابطہ استوار نہيں کيا جا سکتا جو بيک وقت دنيا کے تمام ممالک کی ہر پل بدلتی ہوئ صورت حال اور ضروريات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث و مباحثے سے مبرا ہو۔ يہ ايک مستقل عمل کا حصہ ہوتا ہے جس ميں سرکاری اور غير سرکاری تنظيموں اور دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے بے شمار ماہرين شامل ہوتے ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔

يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد مختلف جاری منصوبوں اور زمينی حقائق کی روشنی ميں دونوں ممالک کے مابين باہم تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ تبديل ہوتی رہی ہے۔

مثال کے طور پر اس وقت امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ فاٹا ميں جاری ترقياتی منصوبوں پر صرف ہو رہا ہے تاکہ اس علاقے کے لوگوں کو متبادل ذريعہ معاش کے مواقع مہيا کر کے دہشت گردی کا مقابلہ کيا جا سکے۔

اسی طرح اگر آپ سال 2000 سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا جائزہ ليں تو سال 2003 کے سوا ہر سال اسرائيل کی غير ملکی امداد پر انحصار کے توازن اور ضرورت کے پيش نظر امريکی امداد ميں بتدريج کمی واقع ہوئ ہے۔ ليکن اسی عرصے ميں امريکہ فلسطين کو امداد دينے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔

http://img119.imageshack.us/my.php?image=snap1o.jpg

اس کے علاوہ جب آپ اسرائيل اور فلسطين کو دی جانے والی امريکی امداد کا تقابلی جائزہ پيش کرتے ہیں تو آپ تصوير کے صرف ايک چھوٹے سے حصے پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوئے ہیں۔ آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن ميں آپ اس خطے ميں عرب ممالک کو دی جانے والی امداد کے اعداد وشمار کو بھی مد نظر رکھيں۔ اپنی بات کی دليل کے ليے ميں آپ کو مصر کی مثال دوں گا جس کو امريکہ کی جانب سے پچھلی تين دہائيوں ميں 28 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔

http://www.usaid.gov/our_work/features/egypt/


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

چلئیے میں‌اپنی یہ غلطی تسلیم کرتا ہوں‌کہ ٹیکس کا بڑا حصہ اسرائیل کو نہیں جاتا، مگر جو جاتا ہے،اس کے استعمال کے بارے میں‌کیا خیال ہے آپکا؟

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے ميں اسرائيل يا کسی اور ملک کے فوجی اقدامات کی توجيحات يا ان کی حمايت نہيں کروں گا۔

جہاں تک امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال ہے تو حقيقت يہ ہے کہ امريکہ دنيا کے بہت سے ممالک کی افواج کو اسلحے کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان اور تربيت فراہم کرتا ہے۔ ان ميں اسرائيل کے علاوہ اسی خطے ميں لبنان، سعودی عرب اور شام سميت بہت سے ممالک شامل ہيں۔

اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
جہاں تک امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال ہے تو حقيقت يہ ہے کہ امريکہ دنيا کے بہت سے ممالک کی افواج کو اسلحے کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان اور تربيت فراہم کرتا ہے۔ ان ميں اسرائيل کے علاوہ اسی خطے ميں لبنان، سعودی عرب اور شام سميت بہت سے ممالک شامل ہيں۔

اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے۔
بالکل درست۔ پہلی بار آپنے ایک سچی بات کہی ہے۔ امریکہ ہمیشہ دونوں مخالف پارٹیز کو اسلحہ کی فراہمی نیز ٹریننگ کی موصولی کو یقینی بناتا ہے۔ یوں جنگ میں جس پارٹی کو ہرانا ہو اسکے رازوغیرہ باآسانی دوسرے حریف تک منتقل کر دئے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر امریکہ یہ سب نہ کرے، جنگیں ختم ہو جائیں تو اسکی اسلحہ ساز انڈسٹری کا تو بینڈ باجا بج جائے گا! :)
 
Top