سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اور امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ممبر کی حیثيت سے ميں اس پوزيشن ميں نہيں ہوں کہ بھارتی حکومت کی کسی پاليسی يا عمل کی وضاحت، حمايت يا توجيہہ پيش کروں۔
ميں پاکستانی ميڈيا پر اس مسلسل بحث اور الزامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے بخوبی واقف ہوں جس کی بنياد يہ مقبول مفروضہ ہے کہ بھارت امريکہ کے ساتھ مل کر افغانستان ميں اپنے درجنوں قونصل خانوں کے ذريعے پاکستان ميں شورش برپا کر رہا ہے۔
اس ضمن ميں پاکستانی ميڈيا پر سياسی اور فوجی قائدين کی جانب سے وہ جذباتی دلائل بھی سنے ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں کہ افغان سرحد کے قريب سو سے زائد قونصل خانے موجود ہيں۔ کوئ بھی شخص جسے سفارتی اداروں ميں کام کرنے کا تجربہ ہے، وہ آپ پر يہ واضح کر دے گا کہ کسی بھی ملک ميں کونسل خانے کے قيام کے لیے اس ملک کی جانب سے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کے معاہدوں ميں عام طور پر دونوں ملکوں ميں مساوی بنيادوں پر دفاتر کا قيام عمل ميں لايا جاتا ہے۔
ميں يہاں پر افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی لسٹ کا لنک دے رہا ہوں۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ افغانستان ميں بھارت کا ايک سفارت خانہ کابل ميں ہے جبکہ 4 مختلف قونصل خانے ہيرات، جلال آباد، قندھار اور مزار شريف ميں ہيں۔
http://www.embassiesabroad.com/embassies-in/Afghanistan
دلچسپ بات يہ ہے کہ افغانستان ميں پاکستان کا بھی ايک سفارت خانہ اور 4 قونصل خانے انھی علاقوں میں موجود ہيں۔
اس کے علاوہ اس ويب سائٹ پر آپ افغانستان ميں بھارتی سفارت خانوں کے ايڈريس اور ان کے نمايندوں سے رابطے کی تفصيلات بھی ديکھ سکتے ہيں۔
http://mea.gov.in/
امريکہ پاکستان کو ايک آزاد اور خود مختار ملک کی حيثيت سے احترام کی نگاہ سے ديکھتا ہے اور اس ضمن ميں ايسی کسی کاروائ کی حمايت نہيں کی جائے گی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ حقیقت يہ ہے کہ امريکہ ايک بڑی بھاری قيمت ادا کر کے اس بات کو يقينی بنا رہا ہے کہ پاکستان اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے مستحکم ہو سکے
اگر پاکستان يہ سمجھتا ہے کہ بھارت ايسی تنظيموں کی پشت پناہی کر رہا ہے جو رياست کے وجود کے لیے خطرہ ہيں اور اس ضمن ميں ٹھوس ثبوت بھی فراہم کر سکتا ہے تو اس کے ليے اقوام متحدہ کا فورم موجود ہے جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔ بھارت نے ممبئ کے واقعات کے بعد يہی کيا تھا اور اس کے نتيجے میں حکومت پاکستان نے کچھ تنظيموں کے خلاف اقدامات بھی کيے تھے۔
آج کل ميڈيا پر يہ بہت آسان ہے کہ کچھ افراد بلند وبانگ دعوے کريں اور پھر الزامات لگا کر کوئ ثبوت نہ پيش کريں۔ اس طريقہ کار سے محض نفرت سے بھرپور جذبے اور ايک غلط عوامی تاثر کو فروغ ملتا ہے جس کی نہ کوئ حقيقت ہوتی ہے اور نہ اس سے کسی مسلئے کا حل نکلتا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov