یہ بات روز، روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکہ نے اس جنگ میں ہزیمت اٹھائی ہے ۔ جو کہتےہیں کہ طالبان نے امریکہ کی شرط مانی ہے انہیں غور کرنا چاہیے کہ امریکہ جسے وہ آج بھی سپر پاور سمجھتے ہیں اس سپر پاور نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں جنہیں وہ جاہل ، گنوار حتی کہ انسان تک نہ سمجھتا تھا ۔جس پر اس نے ایٹم بم کے علاوہ دنیا کے تمام بموں کا تجربہ کرلیا تھا ۔
اس معاہدے سے ان لوگوں کو جواب مل گیا جو کہتے تھے کہ روس سے فتح اسٹنگر میزائل کی وجہ سے تھی ۔ سوال یہ ہے اب فتح کس کے باعث ہوئی ۔
سچ یہ ہے یہ معاہدہ ان تمام مزاحمتی تحریکوں کے لیے باعث حوصلہ افزاء ہے جو استعمار کے خلاف صف آراء ہیں ۔ مغربی میڈیا نے بیس سال طالبان کودرندہ بنا کر پیش کیا ہے اور اب اس درندے سے وہ خود مذاکرات کررہا ہےسوال تو امریکہ سے کرنا چاہیے لیکن یہ بھی میڈیا کا کمال ہے کہ وہ امریکہ پر اٹھنے والے تمام سوالات و اعتراضات کو گم کردے گا اور طالبان کو یوں پیش کرے گا کہ وہ انسان بن گئے تھے اس لیے اب ان سے معاہدہ کرلیا گیا ہے ۔ یہاں بھی کچھ لوگ یہی ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
ویت نام کے بعد طالبان امریکی استعماریت کے خلاف ایک اور استعارہ ہیں ۔ بلکہ تمام استعماری قوتوں کے خلاف ۔ یہ جدوجہد پوری دنیا کی مزاحمتی تحریکوں کو جلا بخشےگی ۔ یہ اعلان ہے اس بات کا کہ جذبہ اور نظریہ سب پر بالا ہے ۔ جہد مسلسل اورقربانی قوموں کی زندگی ہے ۔
جو لوگ آئندہ کے افغانستان کو اس وقت زیر بحث لا رہے ہیں وہ امریکہ کی ہزیمت سے نظریں چرا رہے ہیں ۔
امریکہ کی کارپٹ بمباری تو بہت سے دوستوں کے لیے تہذیب کی علامت ہے لیکن انہیں طالبان کے حملے اور خود کش حملے نہایت ناگوار ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ انہوں نے بیس سال انہیں وحشی اور درندہ کہنے والے میڈیا کو سنا ہے ۔ بہر حال وہ خاطر جمع رکھیں ممکن ہے کچھ عرصے بعد امریکہ کو افغانستان سے کوئی مالی مفاد درپیش ہوا تو یہ سب طالبان دنیا کے بہترین انسان ہوں گے ۔ اور مغربی میڈیا ان درندوں کو دنیا کا نجات دہندہ ثابت کررہا ہوگا ۔ اور پاکستان جو انہیں اپنے بچے کہتا تھا اور پھر عاق کردیا تھا وہ بھی بے تاب ہوگا کہ کسی طرح دوبارہ وہ اس کے بچے بن جائیں اور اگر ایسا نہ ہو تو ضرورت کے وقت کسی کو بھی باپ بنایا جاسکتا ہے ۔ دورحاضر کے تقاضے کچھ یوں ہی ہیں ۔