پہلے میں سوچتا تھا کہ امریکہ کو کیا حاصل ہوا اتنا پیسہ اور وقت اور جانیں ضائع کرکے اٹھارہ بیس سال بعد آخرکار پھر طالبان سے معاہدہ کرکے نکلنا ہی پڑا۔ لیکن آج اس معاہدے کا پہلا نکتہ ہی دیکھ کر احساس ہوا کہ یہی بات طالبان کے متعلق بھی اتنی ہی درست ہے جتنی امریکہ کے متعلق۔ پہلے نکتے کے مطابق طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔ یہ پڑھ کر مجھے اٹھارہ بیس سال قبل حملے سے پہلے امریکہ کا وہ مطالبہ یاد آگیا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کردو لیکن طالبان نے انکار کیا اور اپنی حکومت اور پورے ملک کا ستیاناس کروالیا۔ آج اتنے سالوں بعد اتنے وسائل اتنی جانیں گنوا کر اسی نکتے کو تسلیم کرنا پڑا کہ جس شخص سے امریکہ کو خطرہ ہوگا طالبان اسے پناہ نہیں دیں گے۔ یعنی امریکہ اور طالبان دونوں نے خوب ایک دوسرے کو رگڑا لگایا اور تنگ آکر اپنا اپنا بھرکس نکلوا کر ہاتھ ملا کر واپس ہوگئے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ اپنے زورِ بازو پر مارتا اور مار کھاتا رہا جبکہ طالبان غالباً روس وغیرہ کے وسائل اور توانائی سے مارتے اور مارکھاتے رہے۔ سبکی دونوں ہی کی ہوئی۔ امریکہ بھی انہیں زیر نہ کرسکا لیکن یہ تو کہہ سکتا ہے کہ بیس سال پہلے جو ہم نے مطالبہ کیا تھا آخر طالبان سے لکھوا کر ہی نکلے ہیں۔ طالبان بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اسے نکلواکر ہی دم لیا۔ دونوں ہی سچے ہیں اور دونوں کی ہی ’’عزت‘‘ رہ گئی ہے۔
اگر غور سے سوچیں اس نقطے پر کہ اگر بیس سال پہلے طالبان امریکی مطالبہ مان کر اسامہ حوالے کر بھی دیتے تو کیا ہوتا کل کو امریکہ کوئی اور مطالبہ رکھ لیتے بنیاد کیا ہوتی کہ یہ تو پہلا مطالبہ بھی مان چکے ہیں ۔
طالبان نے کیا مانگا تھا شواہد کیا امریکہ نے انکو دیئے ؟؟
اب جبکہ امریکہ کو اچھی طرح پتہ لگ چکا ہے کہ وہ طالبان سے ایسے نہیں مانیں گے تو معاہدہ کرنے بیٹھے ہیں۔
اب صرف اس بات کا اندازہ لگائیں کہ اسامہ پاکستان میں تھا اور امریکی آپکو گھر میں گھس کر اسکو مار کے چلے گئے اور آپ کی فوج سوتی رہی یا پھر اپنا ضمیر سلاچکی تھی۔
سوچنے کی بات ہے۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا طالبان افغانستان میں امن لاسکے گا اور اس سے بڑھ کر کیا پاکستان کی دراندازی ہوگئی افغانستان میں ؟؟