اپوزیشن، لبرل، لفافے عمران خان کا صرف ایک کلپ چلا رہے ہیں جس میں مبینہ طور پر اس نے مشرف کے آپریشن کی حمایت کی تھی۔ اس ایک کلپ کے علاوہ عمران خان نے اپنے بے شمار کلپس میں امن مذاکرات کو ہی واحد حل کہا لیکن عوام کو گمراہ کرنے کیلئے وہ کلپس جان بوجھ کر نہیں چلائے گئے۔ اسے صحافتی بددیانتی نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟کشمیر کو دھکتے آگ میں چھوڑ کر کسی اور کے محنت کا کریڈٹ لے رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ القاب و آداب کچھ بھی نہیں سوائے بت پرستی کے۔ بت پرستی کی ابتدا اسی ادب آداب سے شروع ہوتی ہے جس کے نام پہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ عزت سے اگر نام سے بھی پکارا جائے تو اس سے عزت میں کمی نہیں آ جاتی۔ جب آپ دوسروں کو اس طرح کے القابات سے نواز رہے ہوتے ہیں تو دل میں یہ بات بدستور موجود ہوتی ہے کہ آپ اس صرف اسے عزت سے پکار ہی نہیں رہے بلکہ یہ تسلیم کر رہے ہیں وہ آپ سے بہتر ہے اور اس کی بات کو اتھینٹیسیٹی کا درجہ دیا جائے۔ اس طرح کے سابقے لاحقے لوگوں کو مرعوب کرنے اللہ کی غلامی کی بجائے اپنا غلام بنانے اور حقیر باور کرانے کے لیے استعمال ہوتے تھے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ جب حضور کے نام کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ نہیں تو کیا باقی انسان عزت اور آداب میں ان سے بڑھ کے ہیں؟ یہ ادب آداب والا دھوکہ کسی اور کو دیجیے گا۔ جاہلیت بت پرستی اور غلامی انہی القابات اور ادب آداب سے شروع ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو بتوں کی تاریخ پڑھ لیں۔ بت بھی کبھی نیک انسان تھے۔ غلامی صرف اللہ کی ہے ہرستش صرف اللہ کی ہے۔ پھر نہ تو کوئی شمس العارفین ہے نہ سیالوی نہ چکوالی نہ چشتی نہ قادری۔ اگر ایک بھیک مانگتا ہوا فقیر بھی مجھے اللہ کی طرف بلائے گا تو وہ مجھے ان ہزار چشتیوں قادریوں چکوالیوں سے زیادہ محبوب ہے۔ باقی اگر کوئی ایسے سابقے لاحقے لگا کر دوسروں کو مرعوب کرنے کی ناکام سعی کرے گا وہ صریحاً خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔اس طرح کے جاہلانہ کمنٹ سے بچنا چاہئے ،القاب وآداب احترام کیلئے ہوتے ہیں،تاوقتیکہ وہ شریعت کی کسی نص سے متصادم نہ ہوں، اوریہاں پر کسی شرعی نص سے تصادم نہیں ہے،والدین کو بھی لوگ قبلہ وکعبہ لکھتے ہیں، کیاوہ بھی بت پرستی ہے؟اورکیا اب والدین کو نام سے مخاطب کیاجائے تبھی حقیقی توحید کا حق اداہوگا؟توحید کے ایسے متوالوں سے اللہ بچاجائے اور حقیقی علم کا راستہ دکھائے۔
یہ ویڈیو کلپ کسی اور کا ہو گا؛ آپ دل پر نہ لیجیے۔ ایک سادہ حل یہ ہے کہ دونوں کلپ سنبھال لیجیے اور جدھر کی ہوا چلے، اس کی موافقت میں کلپ چلا لیا کیجیے۔اپوزیشن، لبرل، لفافے عمران خان کا صرف ایک کلپ چلا رہے ہیں جس میں مبینہ طور پر اس نے مشرف کے آپریشن کی حمایت کی تھی۔
جناب زیدی صاحب! یہ تو معاملہ کسی اور رُخ پر چل نکلا ہے جس کے لیے آپ کو شاید الگ لڑی بنانا پڑے گی۔ ویسے بے جا القابات سے پرہیز بہتر ہے تاہم ادب آداب کا پاس لحاظ رکھنا تو کچھ غلط روایت نہیں۔ اب ہم نے آپ کو جناب اور صاحب کہا، تو امید ہے، آپ نے برا نہ منایا ہو گا۔یہ القاب و آداب کچھ بھی نہیں سوائے بت پرستی کے۔ بت پرستی کی ابتدا اسی ادب آداب سے شروع ہوتی ہے جس کے نام پہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ عزت سے اگر نام سے بھی پکارا جائے تو اس سے عزت میں کمی نہیں آ جاتی۔ جب آپ دوسروں کو اس طرح کے القابات سے نواز رہے ہوتے ہیں تو دل میں یہ بات بدستور موجود ہوتی ہے کہ آپ اس صرف اسے عزت سے پکار ہی نہیں رہے بلکہ یہ تسلیم کر رہے ہیں وہ آپ سے بہتر ہے اور اس کی بات کو اتھینٹیسیٹی کا درجہ دیا جائے۔ اس طرح کے سابقے لاحقے لوگوں کو مرعوب کرنے اللہ کی غلامی کی بجائے اپنا غلام بنانے اور حقیر باور کرانے کے لیے استعمال ہوتے تھے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ جب حضور کے نام کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ نہیں تو کیا باقی انسان عزت اور آداب میں ان سے بڑھ کے ہیں؟ یہ ادب آداب والا دھوکہ کسی اور کو دیجیے گا۔ جاہلیت بت پرستی اور غلامی انہی القابات اور ادب آداب سے شروع ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو بتوں کی تاریخ پڑھ لیں۔ بت بھی کبھی نیک انسان تھے۔ غلامی صرف اللہ کی ہے ہرستش صرف اللہ کی ہے۔ پھر نہ تو کوئی شمس العارفین ہے نہ سیالوی نہ چکوالی نہ چشتی نہ قادری۔ اگر ایک بھیک مانگتا ہوا فقیر بھی مجھے اللہ کی طرف بلائے گا تو وہ مجھے ان ہزار چشتیوں قادریوں چکوالیوں سے زیادہ محبوب ہے۔ باقی اگر کوئی ایسے سابقے لاحقے لگا کر دوسروں کو مرعوب کرنے کی ناکام سعی کرے گا وہ صریحاً خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔
میری بات مذہبی تناظر میں مذہبی شخصیات کے لیے مخصوص ہے۔جناب زیدی صاحب! یہ تو معاملہ کسی اور رُخ پر چل نکلا ہے جس کے لیے آپ کو شاید الگ لڑی بنانا پڑے گی۔ ویسے بے جا القابات سے پرہیز بہتر ہے تاہم ادب آداب کا پاس لحاظ رکھنا تو کچھ غلط روایت نہیں۔ اب ہم نے آپ کو جناب اور صاحب کہا، تو امید ہے، آپ نے برا نہ منایا ہو گا۔
چلیے، کسی اور متعلقہ لڑی میں آپ سے اس حوالے سے مکالمہ ہونے کی امید ہے۔میری بات مذہبی تناظر میں مذہبی شخصیات کے لیے مخصوص ہے۔
موجودہ خیالات یقینی طور پر زیادہ اہم ہوں گے۔ اصولی طور پر، آپ کی بات درست ہے۔ تاہم، گوگل سرچ انجن پر جا کر ہمیں روزانہ کی بنیاد پر خان صاحب کے خیالات سے اپ ڈیٹ ہونا پڑے گا۔ یہ اک ذرا سا ایشو ہے بس، اور تو کوئی خاص بات نہیں جنابِ من!مجھَ یہ رویہ کافی عجیب لگتا ہے کہ ہم اس بات کو قبول نہیں کر پاتے کہ کوئی شخص کسی معاملے پر اپنے خیالات بدل بھی سکتا ہے۔ یہاں اس فورم پر ہی کتنے ارکان کے خیالات مختلف معاملات پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر عمران خان کے بھی ہو گئے تو کیا ہوا؟ اہم اس کے موجودہ خیالات ہیں یا دو دہائی پہلے کے؟
اگر آپ خیالات کے بجائے شخصیات پر فوکس کریں گے تو پھر اتنی تکلیف تو اٹھانی پڑے گی۔موجودہ خیالات یقینی طور پر زیادہ اہم ہوں گے۔ اصولی طور پر، آپ کی بات درست ہے۔ تاہم، گوگل سرچ انجن پر جا کر ہمیں روزانہ کی بنیاد پر خان صاحب کے خیالات سے اپ ڈیٹ ہونا پڑے گا۔ یہ اک ذرا سا ایشو ہے بس، اور تو کوئی خاص بات نہیں جنابِ من!
بالکل۔ اگر نواز شریف فوج کی نرسری سے شروع ہو کر نااہلی کے بعد جمہوریت کا چیمپئن اور پھر لندن فرار کے بعد دوبارہ بوٹ پالشی بن سکتے ہیں۔ تو عمران خان کے یوٹرنز یا موقف میں تبدیلی پر مذاق اور تمسخر کیوں؟ عمران خان کیلئے دہرا معیار سمجھ سے بالا تر ہے۔مجھَ یہ رویہ کافی عجیب لگتا ہے کہ ہم اس بات کو قبول نہیں کر پاتے کہ کوئی شخص کسی معاملے پر اپنے خیالات بدل بھی سکتا ہے۔ یہاں اس فورم پر ہی کتنے ارکان کے خیالات مختلف معاملات پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگر عمران خان کے بھی ہو گئے تو کیا ہوا؟ اہم اس کے موجودہ خیالات ہیں یا دو دہائی پہلے کے؟
عمران خان کا خیال تھا کہ مودی الیکشن جیتنے کے بعد واضح اکثریت کے ساتھ اس پوزیشن میں ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کر سکے۔ لیکن افسوس دوبارہ منتخب ہوتے ہی اس کے گجراتی پر نکل آئے۔موجودہ خیالات یقینی طور پر زیادہ اہم ہوں گے۔ اصولی طور پر، آپ کی بات درست ہے۔ تاہم، گوگل سرچ انجن پر جا کر ہمیں روزانہ کی بنیاد پر خان صاحب کے خیالات سے اپ ڈیٹ ہونا پڑے گا۔ یہ اک ذرا سا ایشو ہے بس، اور تو کوئی خاص بات نہیں جنابِ من!
الحمدللہ طالبان نے تمام دھڑوں سے اتحاد کی پیشکش کر دی ہے۔ یہ واقعی خوش آئند تبدیلی ہے۔معاہدہ خوش آئند ہے۔ امید ہے اس سے خطے میں امن کی صورتحال بہتر ہو گی۔
امریکی صدر رونلڈ ریگن نے بھی 1985 میں افغان مجاہدین کے بارہ میں یہی کہا تھا۔بلا تبصرہ
خیالات کسی اہم شخصیت کے ہوں تو پھر اپ ڈیٹ ہونا پڑے گا سر؛ یہ شاید پھر مجرد وجود برقرار نہ رکھ پائیں گے۔ مزید یہ کہ، ان خیالات کے باعث نوبل پرائز تک دینے کی بات چل رہی ہے۔ اب نوبل امن انعام بھی کیا خیالات کو دیجیے گا۔اگر آپ خیالات کے بجائے شخصیات پر فوکس کریں گے تو پھر اتنی تکلیف تو اٹھانی پڑے گی۔
آپ کا معیار علم دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ایسے ایسے نادرۂ روزگار موجود ہیں، ذرا یہ تو بتائیے گاکہ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض انبیاء کرام کو القاب وآداب کیوں دیئے، کسی کو خلیل کہا،کسی کوکلمۃ اللہ کہا،کسی کو دین ودنیا میں وجیہ کہاوغیرذلک پھر حدیث میں تو بعض انبیاء کو باقاعدہ القاب وآداب ہیں حضرت آدم صفی اللہ ہیں، حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں، حضرت موسی کلیم اللہ ہیں، حضرت عیسی روح اللہ ہیں۔یہ القاب و آداب کچھ بھی نہیں سوائے بت پرستی کے۔ بت پرستی کی ابتدا اسی ادب آداب سے شروع ہوتی ہے جس کے نام پہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ عزت سے اگر نام سے بھی پکارا جائے تو اس سے عزت میں کمی نہیں آ جاتی۔ جب آپ دوسروں کو اس طرح کے القابات سے نواز رہے ہوتے ہیں تو دل میں یہ بات بدستور موجود ہوتی ہے کہ آپ اس صرف اسے عزت سے پکار ہی نہیں رہے بلکہ یہ تسلیم کر رہے ہیں وہ آپ سے بہتر ہے اور اس کی بات کو اتھینٹیسیٹی کا درجہ دیا جائے۔ اس طرح کے سابقے لاحقے لوگوں کو مرعوب کرنے اللہ کی غلامی کی بجائے اپنا غلام بنانے اور حقیر باور کرانے کے لیے استعمال ہوتے تھے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ جب حضور کے نام کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ نہیں تو کیا باقی انسان عزت اور آداب میں ان سے بڑھ کے ہیں؟ یہ ادب آداب والا دھوکہ کسی اور کو دیجیے گا۔ جاہلیت بت پرستی اور غلامی انہی القابات اور ادب آداب سے شروع ہوتی ہے۔ یقین نہ آئے تو بتوں کی تاریخ پڑھ لیں۔ بت بھی کبھی نیک انسان تھے۔ غلامی صرف اللہ کی ہے ہرستش صرف اللہ کی ہے۔ پھر نہ تو کوئی شمس العارفین ہے نہ سیالوی نہ چکوالی نہ چشتی نہ قادری۔ اگر ایک بھیک مانگتا ہوا فقیر بھی مجھے اللہ کی طرف بلائے گا تو وہ مجھے ان ہزار چشتیوں قادریوں چکوالیوں سے زیادہ محبوب ہے۔ باقی اگر کوئی ایسے سابقے لاحقے لگا کر دوسروں کو مرعوب کرنے کی ناکام سعی کرے گا وہ صریحاً خود کو دھوکہ دے رہا ہے۔
آپ اپنی ہی بات پہ غور کریں تو بات بالکل واضح ہے۔ اللہ نے نبیوں کو جو خطاب دیا وہ اللہ سے وابستگی کی بنیاد پہ ہے کلیم اللہ خلیل اللہ صفی اللہ ان سب میں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ نبی خود سے کوئی اتھارٹی ہے بلکہ صرف اور صرف اللہ کی خاطر سب کچھ کرنے پر رب نے ان کو اس خوبی کو بیان کیا۔ ان سے کہیں سے بھی شرک کا پہلو یا اندھی تقلید یا سیلف اتھارٹی کا پہلو نہیں نکلتا حتی کہ اگر حضور نے بھی کہا تو وہ بھی صرف ان کی ذاتی خوبی کو بیان کیا صدیق سچ بولنے والا فاروق عدل کرنے والا۔ ان ٹائٹلز کو اگر ہم ان کے ساتھ لگائیں یا نہ لگائیں دونوں صورتوں میں اتباع کا پہلو کہیں بھی نہیں نکلتا کیونکہ اتباع صرف رب کی ہے۔ اب سیالوی چکوالی شمس العارفین کس خوبی کی بنیاد پہ ہیں؟ اور دینے والے کی اپنی کیا اتھارٹی ہے؟ نبیوں کو خطاب دینا یا حضور کا صحابہ کو بالکل ایسے ہے کہ کوئی میری نمایاں خوبی کو کوئی نام دے دے اور بس۔ اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ اس سے کسی اتھارٹی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔آپ کا معیار علم دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ ایسے ایسے نادرۂ روزگار موجود ہیں، ذرا یہ تو بتائیے گاکہ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض انبیاء کرام کو القاب وآداب کیوں دیئے، کسی کو خلیل کہا،کسی کوکلمۃ اللہ کہا،کسی کو دین ودنیا میں وجیہ کہاوغیرذلک پھر حدیث میں تو بعض انبیاء کو باقاعدہ القاب وآداب ہیں حضرت آدم صفی اللہ ہیں، حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں، حضرت موسی کلیم اللہ ہیں، حضرت عیسی روح اللہ ہیں۔
اس سے بھی درگزر کیجئے خود حضورپاکﷺ نے حضرت ابوبکر کو صدیق کا حضرت عمربن خطابؓ کو فاروق کا، حضرت عثمان بن عفانؓ کوحیاء میں سب سے بڑھے ہونے کا اور حضرت علی کو اقضی الصحابہ کا لقب دیاہے،اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام کو خصوصی لقب دیاگیاہے،کیاوہ بھی شرک کے دائرہ میں ہے؟
پھر محدثین کے زمرہ میں آئیے بعض کو امیرالمومنین فی الحدیث کہاجاتاہے، کیا یہ شرک کا دروازہ نہیں ہے؟آگے چلئے فقہاء کے زمرہ میں ائیے بعض کو شیخ الاسلام کا لقب دیاگیاہے،جن میں سے ایک حضرت ابن تیمیہؒ بھی ہیں، کیااس سے شرک پرستی نہیں بڑھے گی۔
یاشرک وبت پرستی صرف صوفیوں کیلئے کچھ القاب وآداب میں خاص ہے، بقیہ کوئی کسی کو کسی بھی لقب سے پکارتارہے،اس سے دین وایمان میں کوئی خلل اوربگاڑنہیں آتا،اصل میں آپ جیسے کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن کو نہ ٹھیک سے توحید کا پتہ ہوتاہے اورنہ شرک کا، کچھ اردو کی کتابیں ادھر ادھر کی پڑھ کر خود کو توحید پر اتھارٹی سمجھ لیتے ہیں، جس سے یہ سب بگاڑ پیداہوتاہے،کفر وشرک کا معاملہ بہت نازک ہے، اس کوبازیچہ اطفال نہ بنایئے جو علوم دینیہ کے ماہرین ہیں، اس کیلئے خاص رہنے دیجئے، خود پر بھی رحم کیجئے اور دوسروں پر بھی۔