بات کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتے ہیں بھائی۔ سعد نے پہلو بچا لیا کہ ڈگریوں والوں کے بیانات بھی ان کے پیش کردہ مجموعہ میں موجود ہیں۔ بھائی، مفروضہ آپ بیان کر رہے ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دلائل میں سے وہ دلائل پیش کریں جو کسی صاحب علم کے ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے خود ہی فرمایا تھا کہ آپ کو یہ مضامین پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے میں نے بھی ان کی چھانٹی میں اپنی توانائی ضائع نہیں کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علم ڈگریوں سے نہیں بلکہ شوق سے آتا ہے۔ ذرا غور سے اپنے آس پاس دیکھیں تو اس کی بے شمار مثالیں آپ کے اپنے محلے میں ہی نظر آ جائیں گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ طبیعیات کے تمام پیچیدہ نظریات اور اصولوں کی بنیاد چند سادہ سے بنیادی اصولوں پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ان اصولوں سے واقفیت رکھتا ہے تو اس کے لیے پیچیدہ باتوں کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ اسے کچھ سیکھنے کا شوق بھی ہو۔
لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ آپ ان مضامین میں سے کم از کم
اسی مضمون کا تفصیلی مطالعہ کر لیں اور پھر اگر کوئی اعتراض ہو تو یہاں اس پر تفصیلی بحث کر لیں۔ ورنہ جب تک آپ تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھیں گے تب تک آپ معاملے کو پوری طرح بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
سوال ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اور کوشش جاری ہے کہ کسی طرح اسکا رُخ امریکی معاشرہ کی طرف مُڑ جائے۔ کیا زمانےمیں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ اپنی تاریخ کو آج تک کھنگالنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی ہاں ہمیں خوب رگڑے دئیے جارہے ہیں۔
مجھے تاریخ کی اتنی باریک جزئیات سے تو واقفیت نہیں ہے کہ جن کا مطالبہ آپ کر رہے ہیں، (ویسے بھی یاد رکھنے کے قابل وہی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن سے کچھ سیکھنے کو ملے) لیکن مجھے آپ کی منطق کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا اپنے ملک کی سلامتی کے بارے میں سوچنے کا حق صرف اسی شخص کو ہوتا ہے جو اپنے ملک کی تاریخ کی ایک ایک باریکی سے واقف ہو؟ باقی سب کو نہیں؟
اور جہاں تک امریکہ پر لگائے جانے والے الزامات کا تعلق ہے تو آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ سبھی الزامات کا تعلق موجودہ دور میں اس کی پالیسیوں سے ہی ہے۔ اور ویسے بھی اس گفتگو کی ابتداء میں آپ نے خود ہی کہا تھا کہ جس کو امریکہ سے کوئی شکایت ہو، یہاں پر جمع کرائے۔ تو جواب میں آپ پھولوں کے ہار پہنائے جانے کی توقع کیوں کر رہے ہیں؟