امریکہ اور پاکستان

arifkarim

معطل
اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اس وقت دنيا کی واحد سپر پاور ہے اور اس حوالے سے ايک حد تک عالمی سطح پر اثرورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ صورت حال ہميشہ سے نہيں تھی۔ صرف اس بنياد پر يہ دعوی کرنا کہ امريکہ کسی بھی ملک کی قسمت کے فيصلے کر سکتا ہے حقائق سے مطابقت نہيں رکھتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

ہی ہی ہی، کیا خوب کہا، واہ!
نارتھ کوریا وار: 1952
ویتنام وار: 1975
گلف وار: 1990
افغانستان وار: 2001
عراق وار: 2003
ایران وار: 2008؟؟؟
پاکستان وار: 2012؟؟؟

یہ وہ لسٹ ہے ان جنگوں کی جسمیں امریکی افواج کا باقائدہ عمل دخل تھا۔ باقی جو سیاسی اور اقتصادی عمل دخل امریکی حکومت کا پوری دنیا کے ممالک پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہے، اسکی لسٹ‌ تو بہت لمبی ہے۔۔۔۔
میرے خیال میں 2003 تک لی لسٹ میں موجود ممالک کے فیصلے امریکہ نے خود کیے اور اقوام متحدہ کے احتجاج کی کوئی پرواہ نہیں‌ کی،،،
 

مغزل

محفلین
خرم اور فواد صاحبان ۔۔
آپ کا معاملہ ڈھاک کے تین پات والا ہے۔۔
جن عوامل کو آپ اٰمنا صدقنا کہتے ہوئے
ہم پر تھوپ رہے ہیں آپ پر اطلاق کیا جائے
تودو دن میں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے۔
ہم نے آپ کے گھر سے ہی دلائل دیئے ۔
اول تو آپ نے دیکھنا گوارا نہیں کیا اگر کیا
تو جھٹلا دیا۔۔ اب کہیئے ایسے میں کیا
بات کی جائے آپ سے ۔۔آپ تو چلے امریکہ
اور پاکستان کے عوام میں موجود معاملات
کو نبیڑنے ۔۔۔ اور جواب دیتے نہیں بنتی
محض الزام پر زندہ ہیں آپ اور آپ کے مربی
امریکہ کا معاشرہ۔۔
پہلے اپنے علم میں اضافہ کیجئے ۔۔ پھر دوسروں
کے علم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکی ہرکاروں سے املا
لیکر ہمیں سبق پڑھانا چاہتے ہیں آپ ؟؟؟

’’ سانپ کے منھ میں چھچھوندر ، نہ نگلے چین نہ اگلے چین ‘‘
 

خرم

محفلین
بات کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتے ہیں بھائی۔ سعد نے پہلو بچا لیا کہ ڈگریوں والوں کے بیانات بھی ان کے پیش کردہ مجموعہ میں موجود ہیں۔ بھائی، مفروضہ آپ بیان کر رہے ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دلائل میں سے وہ دلائل پیش کریں جو کسی صاحب علم کے ہوں۔
سوال ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اور کوشش جاری ہے کہ کسی طرح اسکا رُخ امریکی معاشرہ کی طرف مُڑ جائے۔ کیا زمانےمیں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ اپنی تاریخ کو آج تک کھنگالنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی ہاں ہمیں خوب رگڑے دئیے جارہے ہیں۔ نجانے کیوں مجھے وہ لطیفہ یاد آتا ہے جس میں ایک بچے کو صرف ایک ہی مضمون یاد تھا۔ آپ کی اگلی کوشش کے جواب میں پیش کروں گا کہ مجھے معلوم ہے جو وہ لکھیں گے جواب میں۔:)
 

محمد سعد

محفلین
بات کہاں سے کہاں تک پہنچا دیتے ہیں بھائی۔ سعد نے پہلو بچا لیا کہ ڈگریوں والوں کے بیانات بھی ان کے پیش کردہ مجموعہ میں موجود ہیں۔ بھائی، مفروضہ آپ بیان کر رہے ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دلائل میں سے وہ دلائل پیش کریں جو کسی صاحب علم کے ہوں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے خود ہی فرمایا تھا کہ آپ کو یہ مضامین پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے میں نے بھی ان کی چھانٹی میں اپنی توانائی ضائع نہیں کی۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علم ڈگریوں سے نہیں بلکہ شوق سے آتا ہے۔ ذرا غور سے اپنے آس پاس دیکھیں تو اس کی بے شمار مثالیں آپ کے اپنے محلے میں ہی نظر آ جائیں گی۔
تیسری بات یہ ہے کہ طبیعیات کے تمام پیچیدہ نظریات اور اصولوں کی بنیاد چند سادہ سے بنیادی اصولوں پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ان اصولوں سے واقفیت رکھتا ہے تو اس کے لیے پیچیدہ باتوں کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ اسے کچھ سیکھنے کا شوق بھی ہو۔
لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ آپ ان مضامین میں سے کم از کم اسی مضمون کا تفصیلی مطالعہ کر لیں اور پھر اگر کوئی اعتراض ہو تو یہاں اس پر تفصیلی بحث کر لیں۔ ورنہ جب تک آپ تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھیں گے تب تک آپ معاملے کو پوری طرح بھلا کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

سوال ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اور کوشش جاری ہے کہ کسی طرح اسکا رُخ امریکی معاشرہ کی طرف مُڑ جائے۔ کیا زمانےمیں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ اپنی تاریخ کو آج تک کھنگالنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی ہاں ہمیں خوب رگڑے دئیے جارہے ہیں۔

مجھے تاریخ کی اتنی باریک جزئیات سے تو واقفیت نہیں ہے کہ جن کا مطالبہ آپ کر رہے ہیں، (ویسے بھی یاد رکھنے کے قابل وہی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن سے کچھ سیکھنے کو ملے) لیکن مجھے آپ کی منطق کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا اپنے ملک کی سلامتی کے بارے میں سوچنے کا حق صرف اسی شخص کو ہوتا ہے جو اپنے ملک کی تاریخ کی ایک ایک باریکی سے واقف ہو؟ باقی سب کو نہیں؟
اور جہاں تک امریکہ پر لگائے جانے والے الزامات کا تعلق ہے تو آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ سبھی الزامات کا تعلق موجودہ دور میں اس کی پالیسیوں سے ہی ہے۔ اور ویسے بھی اس گفتگو کی ابتداء میں آپ نے خود ہی کہا تھا کہ جس کو امریکہ سے کوئی شکایت ہو، یہاں پر جمع کرائے۔ تو جواب میں آپ پھولوں کے ہار پہنائے جانے کی توقع کیوں کر رہے ہیں؟ :-P
 

خرم

محفلین
جی بھیا پڑھ لیا مضمون جس میں ایم آئی ٹی کے پروفیسر کے نقطہ نظر کو امریکن سول انجنیئرنگ سوسائٹی کی دس ریسرچ ٹیموں کے مفروضات کو جھٹلایا گیا۔ نیو میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ایک انجنیئر کے بیان کو بہت اہمیت دی گئی جو انہوں نے ٹی وی پر تصویریں دیکھ کر جاری کیا تھا اور پھر بعد کی تفصیلات آنے پر اس بیان سے رجوع کر لیا تھا۔ اور سب سے خوبصورت بات کہ آرٹیکل کے لکھنے والے کی اپنی تعلیمی قابلیت نامعلوم ہے۔ ایک واقعہ سُناتا ہوں۔ 1998 میں جب پاکستان نے ابھی ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے نہیں کئے تھے ایک سائیکل سوار سے پوچھا کہ بھائی جی کوئی خبر ہے اندر کی؟ اس نے کہا بالکل، تین دانے تیار ہیں اور چھ کا مال پڑا ہے۔ یہی کچھ آپ کے بیان کردہ آرٹیکل کی بابت درست ہے۔
اور میں نے یقیناً کہا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے متعلق جو شکایات ہیں وہ یہاں بیان کریں اور ایک ایسی ہی شکایت کے جواب کے لئے سوال پوچھا تھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ 1948 سے 1950 کے دوران کیا رہی؟ بس اس سوال کا جواب نہیں آیا اور ایک طومار شروع ہو گیا افسانوی داستانوں کا، اور اعتراض در اعتراض کا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ کے یا کسی کے بھی شکایت کرنے پر لیکن میرا مقصد ایک ڈائیلاگ شروع کرنا ہے تاکہ ہم ایک بھر پور جائزہ لے سکیں اپنی قومی تاریخ کا اور اس بات کا تعین کر سکیں کہ کیا واقعی ہماری بربادی میں امریکہ یا کسی اور کا ہاتھ ہے یا ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن بنے رہے اور اپنے ہاتھوں اپنی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے؟ لیکن افسوس کہ سب ادھر اُدھر آئیں بائیں شائیں کرکے نکل لیتے ہیں اور بات جو 1948 سے شروع ہوئی تھی چھلانگ لگا کر 2001 میں آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
جی بھیا پڑھ لیا مضمون جس میں ایم آئی ٹی کے پروفیسر کے نقطہ نظر کو امریکن سول انجنیئرنگ سوسائٹی کی دس ریسرچ ٹیموں کے مفروضات کو جھٹلایا گیا۔ نیو میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ایک انجنیئر کے بیان کو بہت اہمیت دی گئی جو انہوں نے ٹی وی پر تصویریں دیکھ کر جاری کیا تھا اور پھر بعد کی تفصیلات آنے پر اس بیان سے رجوع کر لیا تھا۔ اور سب سے خوبصورت بات کہ آرٹیکل کے لکھنے والے کی اپنی تعلیمی قابلیت نامعلوم ہے۔ ایک واقعہ سُناتا ہوں۔ 1998 میں جب پاکستان نے ابھی ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے نہیں کئے تھے ایک سائیکل سوار سے پوچھا کہ بھائی جی کوئی خبر ہے اندر کی؟ اس نے کہا بالکل، تین دانے تیار ہیں اور چھ کا مال پڑا ہے۔ یہی کچھ آپ کے بیان کردہ آرٹیکل کی بابت درست ہے۔

اہم بات یہ نہیں ہے کہ کس کے پاس بڑی ڈگری ہے۔ بلکہ اہم بات یہ ہے کہ کون طبیعیات کے اصولوں کے مطابق بات کر رہا ہے اور کون عقل سے ماوراء۔ اور خصوصاً ایسی صورتحال میں، جبکہ اس بات کا قوی امکان موجود ہو کہ امریکی حکومت نے عوام کی رائے اپنے تیار کردہ مفروضے کے حق میں کرنے کے لیے خاس طور پر "ماہرین کی خدمات" حاصل کی ہیں، کافی زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اور یوں بھی میں نے آپ کو نہایت کھلے دل سے پیشکش کی ہے کہ اگر کسی نکتے پر اعتراض ہو تو شوق سے پوچھ سکتے ہیں۔
ایک اور بات واضح کر دوں تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی کی گنجائش کم سے کم رہے۔ ان تمام مضامین میں، جن کا حوالہ میں نے دیا ہے، چند ایک نکات ایسے بھی نظر سے گزرے ہیں کہ جن کے ساتھ میں پوری طرح اتفاق نہیں کر سکتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں باقی سب نکات کو بھی انہی چند نکات کی وجہ سے نظر انداز کر دوں۔ براہِ مہربانی آپ بھی یہی انداز اختیار کیجیے تاکہ بحث واقعی علمی بحث قرار دی جا سکے۔

مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ کے یا کسی کے بھی شکایت کرنے پر لیکن میرا مقصد ایک ڈائیلاگ شروع کرنا ہے تاکہ ہم ایک بھر پور جائزہ لے سکیں اپنی قومی تاریخ کا اور اس بات کا تعین کر سکیں کہ کیا واقعی ہماری بربادی میں امریکہ یا کسی اور کا ہاتھ ہے یا ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن بنے رہے اور اپنے ہاتھوں اپنی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے؟

آپ کا مقصد تو اچھا ہے لیکن آپ کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ ہم لوگ اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتے ہیں۔ یہاں پر بھی جو الزامات امریکہ پر لگائے گئے ہیں، ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ جس میں امریکہ کو پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہو۔ اور نہ ہی میں نے کبھی اپنے آس پاس رہنے والے لوگوں سے ایسی کوئی بات سنی۔ یہ بات میں بھی مانتا ہوں کہ بحیثیت قوم ہم نے کچھ غلطیاں بھی کی ہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ امریکہ جو پوری دنیا میں کرتا پھر رہا ہے، وہ درست ہے؟ اگر درست نہیں تو آپ کیوں اس طرح ہر معاملے میں آنکھیں بند کر کے امریکی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں؟ جب اللہ تعالیٰ نے اتنا اچھا دماغ دیا ہے تو تھوڑا سا ہی سہی، لیکن استعمال تو کر لیا کریں۔
 

خرم

محفلین
پیارے بھائی سعد آپکے جواب کا بہت شکریہ۔ آپ کے جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایم آئی ٹی کے متعلق زیادہ علم نہیں۔ میرے بتانے کی نسبت بہت بہتر ہوگا اگر آپ کم از کم ویکیپیڈیا پر اس کےمتعلق ریسرچ کریں۔ مختصراَ عرض کرتا ہوں کہ دنیا میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے اس سے بڑا نام نہیں ہے۔ طبیعیات کے جن اصولوں کی آپ بات کرتے ہیں، ان کو تعریف وہاں ملتی ہے۔
آپکے سوال کے دوسرے حصہ کے متعلق یہی کہوں گا کہ مجھے قطعاَ امریکہ کی حمایت کا کوئی شوق نہیں اور میری یہ غرض نہیں کہ امریکہ کی بڑائی بیان کروں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اپنی قومی ذمہ داریوں کو امریکہ کے سر منڈھ دینے کا جو بیمار رواج ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے اس کا جائزہ لیا جائے۔ باقی جہاں تک آپکی اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستانی اپنے مسائل کا ذمہ دار امریکہ کو نہیں گردانتے تو بھیا اس کے جواب کے لئے آپ اسی دھاگہ کو دوبارہ پڑھ لیں اور اس سے ملتے جلتے کئی دوسرے دھاگوں کو بھی۔ امریکہ دنیا کے ساتھ جو بھی کر رہا ہے، سب سے پہلا فرض ہمارا بحیثیت پاکستانی یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ کیسے رہے ہیں، اور انہیں کیسا ہونا چاہئے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، مصر وغیرہ اس کے بعد کی باتیں ہیں۔ آکسیجن ماسک پہلے خود پہنتے ہیں پھر کسی اور کو پہناتے ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
پیارے بھائی سعد آپکے جواب کا بہت شکریہ۔ آپ کے جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایم آئی ٹی کے متعلق زیادہ علم نہیں۔ میرے بتانے کی نسبت بہت بہتر ہوگا اگر آپ کم از کم ویکیپیڈیا پر اس کےمتعلق ریسرچ کریں۔

میں نے ایم آئی ٹی کے معیار سے انکار نہیں کیا۔ میں نے بس اس طرزِ عمل کی مخالفت کی ہے کہ ہر بڑی ڈگری والے کی بات بلا تحقیق مان لی جائے۔ کیا وہ غلطیاں نہیں کر سکتے؟ کیا ان پر آسمان سے وحی آتی ہے؟ اور چونکہ اس معاملے میں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ امریکی حکومت نے خاص طور پر ان ماہرین کی "خدمات" حاصل کی ہوں گی، اس لیے اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔

امریکہ دنیا کے ساتھ جو بھی کر رہا ہے، سب سے پہلا فرض ہمارا بحیثیت پاکستانی یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ کیسے رہے ہیں، اور انہیں کیسا ہونا چاہئے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، مصر وغیرہ اس کے بعد کی باتیں ہیں۔ آکسیجن ماسک پہلے خود پہنتے ہیں پھر کسی اور کو پہناتے ہیں۔

بلاشبہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کو بہتر بنائیں۔ اور اسی لیے جگہ جگہ اس موضوع پر آواز اٹھائی جاتی ہے کہ شاید کوئی حکومتی عہدیدار ہماری پکار سن لے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھائی چارے کی اس عظیم ذمہ داری سے خود کو مستثنیٰ قرار دینے لگ جائیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمے لگائی ہے۔ افغانستان، عراق، ایران، لیبیا، فلسطین وغیرہ اگر پاکستان کے حصے نہیں ہیں تو کیا ہوا۔ وہ ہمارے مسلمان بھائی تو ہیں۔ اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان قوم ایک جسم کی طرح ہے۔ جب کسی ایک حصے کو درد ہوتا ہے تو دوسرے حصے بھی اس درد کو محسوس کرتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کہیں اللہ کی نافرمانی ہوتے دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو۔ اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو۔ اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو خاموش رہو۔ تو ہم لوگ اس ظلم کو زبان اور قلم سے روکنے کی کوشش ہی تو کر رہے ہیں کیونکہ طاقت جن کے پاس ہے، وہ تو امریکہ سے ڈر کر بیٹھے ہیں۔ کیا پتا اللہ تعالیٰ کو ہماری یہ حقیر سی کوشش پسند آ جائے اور وہ ہماری انہی کوششوں کی بدولت کسی طاقت ور کو یہ ظلم و ستم روکنے پر آمادہ کر دے۔ کیا پتا ہماری ان حقیر کوششوں کی بدولت امریکہ کے عوام خود ہی جاگ اٹھیں اور اپنے لیے کوئی ایسی حکومت منتخب کریں جو ان کے خلاف دنیا میں پھیلتی ہوئی نفرت کو مزید بڑھانے کے بجائے کم کرنے کی کوشش کرے۔


ویسے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ افغانستان، عراق وغیرہ میں امریکہ کے جنگی جرائم کا ذکر کرنے کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ ہم امریکہ کو اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ :confused:
 

خرم

محفلین
بھیا یہ جو حکومتی دباؤ کے تحت بڑے اداروں کے تمام ماہرین کے بیانات دینے کی بات آپ نے کی وہ نامناسب ہے۔ میں مانتا ہوں کہ ایسے اکا دُکا واقعات کہیں بھی ہوسکتے ہیں لیکن درسگاہوں اور تحقیق گاہوں میں حکومتی اثر امریکہ میں اتنا ہی ہوسکتا ہے جتنا پاکستان کی پولیس میں ایمانداری کا۔
اصل میں یہ دھاگہ صرف امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر بات کرنے کے لئے کھولا گیا تھا اور بد قسمتی سے بجائے اس موضوع پر بات کرنے کے، بات کا رُخ ہمیشہ افغانستان و عراق وغیرہا کی طرف مُڑ جاتا ہے۔ باقی جہاں تک بات ہے مسلم اخوت کی اس کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن افغانستان میں بسنے والے مسلمان سے زیادہ حق آپ پر پاکستان میں بسنے والے مسلمان کا ہے۔ اور اخوت کا جذبہ یکطرفہ نہیں ہوتا۔ اس معاملہ پر کسی اور دھاگہ میں تفصیل سے بات کریں گے انشاء اللہ لیکن اس دھاگہ میں مقصد صرف امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لینا ہے۔ اور یہ دھاگہ ابھی تک اسی سوال پر رُکا ہوا ہے کہ 1948 سے 1950 تک پاکستان کے سیاسی حالات کیا رہے؟
 

محمد سعد

محفلین
اصل میں یہ دھاگہ صرف امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر بات کرنے کے لئے کھولا گیا تھا اور بد قسمتی سے بجائے اس موضوع پر بات کرنے کے، بات کا رُخ ہمیشہ افغانستان و عراق وغیرہا کی طرف مُڑ جاتا ہے۔

بات کا رخ تو غیر ارادی طور پر خود بخود اس طرف اس لیے مڑ جاتا ہے کہ آپ نے امریکہ پر پاکستانیوں کے اعتراضات کے بارے میں پوچھا تھا۔ لیکن اگر آپ کہتے ہیں تو اب مزید شکایات کا سلسلہ بند کر دیتے ہیں۔

۔۔اس دھاگہ میں مقصد صرف امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لینا ہے۔ اور یہ دھاگہ ابھی تک اسی سوال پر رُکا ہوا ہے کہ 1948 سے 1950 تک پاکستان کے سیاسی حالات کیا رہے؟

جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ میں تاریخ کے مضمون میں کمزور واقع ہوا ہوں، اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب مزید کوئی اراکین بھی اس بحث میں حصہ نہیں لے رہے کہ ان سے جواب کی توقع کی جائے، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ مزید انتظار کرنے کے بجائے آپ خود ہی اس سوال کا جواب لکھ دیں تاکہ بحث جلدی سے ختم ہو اور ہم دونوں کی جان چھوٹے۔ :)
 

خرم

محفلین
میں تو جواب لکھ دوں لیکن پھر مجھ پر الزامات کا ایک طومار شروع ہو جائے گا۔ افسوس تو اس بات ہے کہ یہ سب ایک انتہائی بیمار رویہ کا اظہاریہ ہے۔ اب تمام احباب بدیہی طور پر اپنی لاعلمی کا اعتراف کر رہے ہیں لیکن اگر میں کچھ بھی ایسا لکھ دوں‌گا جو ان کی سوچ یا خیال کے متصادم ہوگا تو میرے لتے لینے لگ پڑیں گے۔ یہی المیہ ہے۔ خیر اب لگتا ہے مجھے خود ہی کچھ لکھنا پڑے گا۔ انشاء اللہ اس ویک اینڈ پر کوشش کرتا ہوں کہ اس دور کے حالات و واقعات کو صحیح تناظر میں پیش کرسکوں۔
 

خرم

محفلین
بحث کی تو بات ہی نہیں تھی بھیا۔ ایک سوال پوچھا تھا، بس اس کا جواب نہیں آیا اور دنیا جہان کے قصے سُنا ڈالے یاروں نے۔
 

خرم

محفلین
معذرت احباب سے کہ مصروفیات کی بنا ابھی تک اس موضوع پر کچھ نہیں لکھ سکا اور مصروفیات کا سلسلہ ابھی انشاء اللہ چلے گا۔ انشاء اللہ اللہ نے توفیق دی تو فرصت مہیا ہوتے ہی اس موضوع پر لکھوں گا۔ ایک دفعہ پھر دیری کی معذرت۔
 

سمارا

محفلین
یہ بھی پڑھیئے۔۔
رابرٹ سن اور اسکی ٹیم نے یہ کمال بھی کر دکھایا، انہوں نے مضبوط ترین لوہے کو تین ہزار ڈگری کی گرمائش سے گزارا، اسے ستونوں کی شکل دی، ستونوں کے کالم بنائے اور ان کالموں پر لوہے کے ہی بیم بنائے ان بیموں اور کالموں کو اندر سے خصوصی دھاتوں کے ساتھ باندھ کر سائنسی آلات کی مدد سے پڑتال کی گئی، پتا چلا اب دنیا کے تیز ترین ہوائی طوفان بھی اسکو نقصان نہیں پہنچا سکتے، اگر کبھی اتنا بڑا طوفان آگیا جتنا تاریخ میں اس سے قبل نہیں آیا تو بھی عمارت نہیں گرے گی، رابرٹ سن نے دعوے سے کہا۔

رابرٹ سن کا یہ بھی کہنا تھا اگر عمارت بھٹی بن جائے تو بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ 200ڈگری گریڈ تک حرارت اسکا ایک پیچ، ایک قبضہ تک نہیں پگھلا سکتی،

'

یہ بتائیے ۔۔ رابٹ نے جو لوہا یا فولاد 3000 ڈگری پر گرم کر کے آزمایا تھا۔۔
وہ جیٹ فیول سے پیدا ہونے والی 1500 ڈگری سے کم گرمی میں کیسے پگھل گیا ؟؟؟
جب کہ آتش گیر مادے میں دھماکہ کرنے کی صلاحیت میں 5000 ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت پائی جاتی ہے۔۔
جواب ضرور دیجئے گا۔۔۔۔
السلام علیکم
یہاں بھی بڑی گرما گرم گفتگو ہو رہی ہے۔
میں نے ابھی یہ موضوع دیکھا ہے اور یہاں موجود کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں اگرچہ ابھی یہاں تک ہی دیکھا ہے ہو سکتا ہے کہ آگے کسی بھائی نے ان باتوں کی وضاحت کر دی ہو ایسی صورت میں، میں ان باتوں کو دہرانے کے لئے معزرت خواہ ہونگی۔

یہاں لوہے یا اسٹیل کو 3000 ڈگری سے گزارنے کی بات ہوئی ہے۔ سب سے پہلی یہ بات کہ یہ بیان نہیں کیا گیا کہ یہ 3000 ڈگری کیا ہے ڈگری سینٹی گریڈ یا ڈگری فارن ہائیٹ۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ درجہ حرارت ناپنے کے ان دونوں اسکیلز میں بہت فرق ہے۔ اگر یہ 3000 فارن ہائیٹ ہے تو سینٹی گریڈ میں اندازاً یہ 1649 ڈگری سینٹی گریڈ بنتا ہے۔ جو کہ اسٹیل کے نقطہ پگھلاؤ کے قریب ہے اور شائید اسی درجہ حرارت پر اسٹیل کو گزارا گیا ہوگا۔ لیکن ہر اسٹیل اسی طریقے سے بنتی ہے اس درجہ حرارت پر گزارنے یا پگھلانے سے اسٹیل کی کوئی آزمائش نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک عام پیداواری طریقہ ہے۔ اس سے اسٹیل کی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
نیز لوہے کی طاقت زیادہ درجہ حرارت پر کم ہوجاتی ہے اور اگر وہ اتنے زیادہ ہوں جیسے 800 ڈگری سینٹی گریڈ تو اس کی طاقت بہت کم ہو جاتی ہے لہذا اس درجہ حرارت پر اس کی طاقت کو روم ٹمپریچر کی طاقت سے کمپیر نہیں کیا جا سکتا۔

یہ تو سائینسی معلومات تھیں لیکن ان سے کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم پوری تفصیل سے اس بارے میں تحقیقات کریں کہ جہاز میں کتنا فیول موجود تھا اور اس سے کتنی حرارت پیدا ہو سکتی تھی نیز اس حرارت کی مدد سے لوہے کے کالم کا درجہ حرارت کتنا بلند ہو سکتا تھا۔ کیا وہ اتنا زیادہ ہو سکتا تھا کہ پوری عمارت کا بوجھ نہ برداشت کر سکے یا نہیں۔ اس کے بغیر ہم جو بھی باتیں کریں گے وہ بے بنیاد ہونگی اور ان کی حیثیت ہمیشہ مشکوک رہے گی۔
 

محمد سعد

محفلین
اس کے علاوہ دو اور باتیں بھی کافی اہم ہیں جنہیں اکثر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ سٹیل خالص لوہا نہیں ہوتا بلکہ ایک بھرت ہے جسے خاص طور پر مضبوطی ہی کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس کا نقطہء پگھلاؤ بھی کافی بڑھ جاتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ آج کل بننے والی ہر جدید طرز کی عمارت کو قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اور ان قدرتی آفات میں آگ بھی شامل ہے۔ بہرحال، میں اس سلسلے میں آج کل معلومات جمع کر رہا ہوں۔ اگرچہ مصروفیات کے باعث کام سست روی سے ہو رہا ہے لیکن پھر بھی اگر اللہ نے چاہا تو کبھی نہ کبھی تو مکمل ہو ہی جائے گا۔ ;)
 

محمد سعد

محفلین
مجھے حساب لگانے کے لیے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں استعمال ہونے والے سٹیل سے متعلق ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی مدد کر سکتا ہے؟
 
Top