امریکہ اور پاکستان

محمد سعد

محفلین
ہاں آپ کی خدمت میں یہ عرض ضرور کر دوں کہ آئن سٹائن بچارے سے آپ نے ناحق پی ایچ ڈی کی ڈگری چھین لی۔

اس کے ایک مقالے کے بارے میں تو میں جانتا ہوں کہ جس کی بنیاد پر اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اگر بعد میں اس نے یہ ڈگری حاصل کی تو براہِ مہربانی میری معلومات میں اضافہ کر دیجیے۔ عین نوازش ہوگی۔

بہرحال کہنے کا مقصد یہ تھا کہ علم کو ڈگریوں کے ساتھ نہیں ناپا جا سکتا۔ اگر انسان ڈھونڈے تو ڈگریوں کے بغیر بھی علم مل جاتا ہے اور اگر اسے علم کے حصول کی خواہش نہ ہو تو بڑی بڑی ڈگریوں سے بھی علم نہیں آ سکتا۔
 

مغزل

محفلین
سعد بھیا ۔۔۔
کسے سمجھا رہے ہیں آپ ۔۔ امریکہ کے خوشہ چینوں کو۔۔۔
’’ تو پھر اب سر ہی پھوڑیں گے ۔۔ کہ جب سر پھوڑنا ٹھہرا ‘‘
 

محمد سعد

محفلین
مغل بھیا کبھی معلوم کر لیجئے گا کہ درجہ حرارت کی زیادتی کا سٹیل کے بوجھ برداشت کرنے کی طاقت پر کیا اثر ہوتا ہے؟ شائد 1500 ڈگری والے مفروضہ کی صحت کا علم ہو جائے۔

میرے پاس کوئی بڑی ڈگری تو نہیں لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ سٹیل حرارت کا ایک اچھا موصل ہے۔ یعنی جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ایک حصے میں آگ لگی تو اس کی حرارت تمام کے تمام سٹیل کے ستونوں میں تقریباً یکساں طور پر پھیل گئی۔ تو ایسے میں اگر میں یہ بھی مان لوں کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں استعمال ہونے والا سٹیل 800 درجے سیلسیس پر کمزور پڑ جاتا تھا، (حالانکہ مغل بھائی حوالہ دے چکے ہیں کہ کس طرح اسے 3000 درجے کی کڑی آزمائش سے گزارا گیا) تو بھی کیا وہ آگ پورے 200,000 ٹن سٹیل کو اتنا گرم کرنے کے لیے کافی عرصہ جلتی رہی تھی؟ بلکہ طیارے میں اتنا ایندھن ہی نہیں تھا کہ وہ اس سٹیل کو اتنا گرم کر سکتا۔
 

مغزل

محفلین
جو دوست اس ويڈيو کی حقيقت جاننے ميں دلچسپی رکھتے ہيں ان کے ليے بتا دوں کہ يہ ويڈيو 24 جولائ 2000 کو امريکی ٹی وی چينل سائ فائ کی تشہير کے ليے تيار کی گئ تھی۔ اس ويڈيو ميں کام کرنے والی اداکارہ کا نام باربرا سیکورانزا ہے۔ ويڈيو کی فلم بندی کی تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.rense.com/general41/scihoax.htm

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov


بھیا ۔۔۔ اور کچھ نہ کہوں گا صرف ایک لطیفہ ؛ (باقی آپ خود سمجھدار ہیں)

ایک بچہ ماں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ ماں ماں۔۔ میں نے شرط لگائی ہے ۔۔ دعا کرو میں جیت جاؤں ‘‘
ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ بیٹا کیا شرط لگائی ہے ۔۔ بتاؤ تو سہی ‘‘
بچہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ میں نے شرط لگائی ہے کہ کوا سفید ہوتا ہے ‘‘
ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ پھر تو تم ہار جاؤگے۔۔ کیوں کہ کوا سیاہ ہوتا ہے ‘‘
بچہ (اٹھلاتے ہوئے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ میں مانوں گا تب ناں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:grin::grin: ‘‘

آداب عرض ہے۔
 

خرم

محفلین
سعد بھیا ایک ویب سائٹ ہے ویکیپیڈیا نام کی اس پر آپ کو آئن سٹائن کے متعلق معلومات مل جائیں گی۔ پھر گوگل نامی ایک چیز بھی موجود ہے۔ باقی آپ نے ڈگری کے بغیر علم کی بات بہت خوب کہی۔ علم لدنی کے بارے میں تو یہ بات درست ہے لیکن اس کے لئے بھی کسی سے اکتسابِ فیض کرنا پڑتا ہے۔ خیر یہ تو ہمارا قومی رویہ ہے کہ بغیر کسی اہلیت کے ہمیں سب سےبڑا اور ہماری بات کو سب سے اہم مان لیجئے۔
ایک جگہ یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ والے بھاگ گئے۔ اب جب آپ کے ثبوت باقاعدہ ڈراموں میں دکھائے جانے والے مناظر پر مشتمل ہوں، اور آپ کی مضبوط ترین دلیل یہ ہو کہ کسی عمارت کے گرنے کے لئے اس کے تمام سٹیل کا پگھلنا ضروری ہوتا ہے تو پھر کوئی کہاں جاکر اپنا سرپھوڑے؟ ایک کریک چاہئے ہوتا ہے پورا سٹرکچر تباہ کرنے کے لئے۔ کس طرح سٹریس بانٹا جاتا ہے، کون کون سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں کسی بھی سٹرکچر کی مضبوطی کو ناکام بنانے کے لئے، ان سب کا علم تو ہوتا نہیں اور بس بڑھکیں لمبی لمبی۔ پھر کہنا بھاگ گئے۔ آپ ایسا کیجئے کسی پاکستانی انجنیئر کا آرکیٹکٹ کا جو بین الاقوامی برادری میں اپنی ریسرچ کے لئے جانا جاتا ہو یا جس نے کبھی دس بارہ ریسرچ پیپر ہی پبلش کئے ہوں، اس کا کوئی مقالہ کوئی بیان لے آئیے اپنے مؤقف کی تائید میں۔ یہ جو حجام کی دوکان والے دلائل ہیں یہ وہیں اچھے لگتے ہیں جہاں لوگ بین الاقوامی سیاست کے کھلاڑیوں کو مفت مشورے بانٹا کرتے ہیں اور کلنٹن کو کلفٹن کہتے ہیں۔
مغل بھیا لطیفہ آپ کا بہت اچھا ہے اسی لئے تو میں خود اپنے سوال کا جواب نہیں دے رہا کہ آپ لوگوں نے امریکہ کا خوشہ چین کہہ کر پھر آنکھیں بند کرلینی ہیں۔ اسی بات پر یاد آیا کہ میرا سوال ہنوز تشنہ ہے ;) ویسے اگر یہی سوال افغانستان، عراق، فلسطین وغیرہ کے بارے میں کرتا تو کب کا جواب آ چکا ہوتا۔ ہے نا؟؟؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن تھا۔ دشمن ہے۔ دشمن رہے گا۔

امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ تمام سياسی، سفارتی اور دفاعی ضروريات کو نظرانداز کر کے مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسی ترتيب دے اور اور اسی بنياد پر ملکی مفاد کے فيصلے کرے۔ اردو فورمژ پر اکثر دوست يہ رائے ديتے ہيں کہ امريکہ عالم اسلام کا دشمن ہے اور پاکستان کے ساتھ امريکہ کے تعلقات کی نوعيت اسی اسلام دشمنی سے منسلک ہے۔ اسی مفروضے کو بنياد بنا کر سياسی سطح پر ہر واقعے، معاہدے اور ملاقات کو "امريکہ کی اسلام کے خلاف سازشيں" کے تناظر ميں ديکھا جاتا ہے۔

اگر مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسي کا مفروضہ درست ہوتا تو پاکستان کے صرف مسلم ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ اسی طرح امريکہ کے بھی تمام غير مسلم ممالک کے ساتھ بہترين سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ ليکن ہم جانتے ہيں کہ ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ مسلم ممالک کے مابين بھی سفارتی تعلقات کی نوعيت دو انتہائ حدوں کے درميان مسلسل تبديل ہوتی رہتی ہے۔ امريکہ کے کئ مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات استوار ہيں۔ يہ بھی ايک حق‍یقت ہے کہ دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت زمينی حقائق کی روشنی ميں کبھی يکساں نہيں رہتی۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ کيسے ممکن ہے کہ امريکہ درجنوں اسلامی ممالک ميں ايک بلين سے زائد مسلمانوں کو دشمن قرار دے اور صرف اسی غير منطقی مفروضے کی بنياد پر خارجہ پاليسی کے تمام امور کے فيصلے کرے۔

اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ دنيا پر ايک خاص سوچ يا مذہب کے بارے ميں ايک رائے رکھتے ہيں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کريں گے۔

امريکہ کے اندر اس وقت 1200 سے زائد مساجد اور سينکڑوں کی تعداد ميں اسلامی سکول ہيں جہاں اسلام اور عربی زبان کی تعليم دی جاتی ہے۔ امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے قرآن پاک کو انسانی تاريخ ميں ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔ قرآن پاک کے اسی نادر نسخے پر کانگريس کے مسلم رکن کيتھ ايليسن نے حلف اٹھايا تھا۔

مسلمانوں کو بحثيت مجموعی امريکی ميں کبھی اجتماعی سطح پر نسلی امتياز اور تفريق کا سامنا نہيں کرنا پڑا جيسا کہ کچھ اور طبقات کو کرنا پڑا ہے۔ امريکہ ميں سياہ فام افريقيوں کو ايک طويل جدوجہد کے بعد اپنے آئينی حقوق ملے تھے۔ خواتين کو ووٹ کا اختيار صرف ايک صدی پرانی بات ہے۔ اسی طرح پرل ہاربر کے واقعے کے بعد امريکہ ميں مقيم جاپانيوں کو باقاعدہ کيمپوں ميں قيد کيا گيا تھا جس کے بعد امريکہ دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا۔ اس کے مقابلے ميں مسلمانوں کو گيارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس ردعمل کا سامنا نہيں کرنا پڑا جس کی مثال ماضی ميں ملتی ہے حالانکہ 11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث افراد نہ صرف يہ کہ مسلمان تھے بلکہ انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے مذہب کا سہارا بھی ليا تھا۔ اس کے باوجود امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آئے تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔

آج بھی چند مواقع پرکانگريس کے سيشن کے آغاز ميں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے اہم رہنماؤں کو کسی متعلقہ معاملے ميں مسلمانوں کا نقطہ نظر کانگريس کی مختلف کميٹيوں کے سامنےپيش کرنے کے ليے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ مسلمان ہر لحاظ سے امريکی معاشرے کا حصہ ہيں۔ ان کے پاس بھی معاشرتی حقوق اور ذمہ دارياں ہيں جو وہ بخوبی انجام ديتے ہيں۔

ليکن اس کے باوجود امريکہ اور اسلام کے تعلقات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہيں۔ عام طور پر يہ سوالات جذبات کا اظہار اور الزامات کی شکل ميں ہوتے ہيں۔ مثال کے طور پر – امريکہ عالم اسلام کے خلاف جنگ کيوں کر رہا ہے؟ کيا مشرق وسطی ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت نہيں کہ امريکہ تہذيبوں کی جنگ کو فروغ دے رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب ميں ميرا بھی ايک سوال ہے کہ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

ميرے نزديک يہ نقطہ بھی نہايت اہم ہے کہ امريکہ ميں اسلام کے تيزی سے پھيلنے کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ ميں مقيم بہت سے تعليم يافتہ مسلمانوں نے اپنے مثالی طرز عمل اور برداشت کی حکمت عملی کے ذريعے غير مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کيا ہے۔

آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

arifkarim

معطل
ليکن اس کے باوجود امريکہ اور اسلام کے تعلقات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہيں۔ عام طور پر يہ سوالات جذبات کا اظہار اور الزامات کی شکل ميں ہوتے ہيں۔ مثال کے طور پر – امريکہ عالم اسلام کے خلاف جنگ کيوں کر رہا ہے؟ کيا مشرق وسطی ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت نہيں کہ امريکہ تہذيبوں کی جنگ کو فروغ دے رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب ميں ميرا بھی ايک سوال ہے کہ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

ميرے نزديک يہ نقطہ بھی نہايت اہم ہے کہ امريکہ ميں اسلام کے تيزی سے پھيلنے کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ ميں مقيم بہت سے تعليم يافتہ مسلمانوں نے اپنے مثالی طرز عمل اور برداشت کی حکمت عملی کے ذريعے غير مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کيا ہے۔

آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov

حد ہو گئی فواد بھائی۔ جھوٹ‌ پر جھوٹ۔۔۔۔۔ اپنے ملک میں پابندی تو امریکہ نے لوگوں‌ کو دکھانے کیلئے نہیں‌ لگائی۔۔۔۔۔ باقی انکی ساری خارجہ پالیسی صرف امریکی مفادات کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ اب ان پالیسیز کی وجہ سے چاہے پوری دنیا ختم ہو جائے، انہیں‌ کوئی پرواہ نہیں۔ جارج بش جب اسلام کو فیشسٹ مذہب کہہ سکتے ہیں‌اور دوسری طرف آپ کا یہ کہنا کہ اسلام سے کوئی دشمنی نہیں۔ اتنا دوغلا پن :mad:
 

خرم

محفلین
فواد جو ذہن بند ہوں، جو آنکھیں بینائی سے محروم ہوں اور جن دلوں پر قفل لگ چکے ہوں وہ کوئی دلیل نہ تو سُنیں گے اور نہ مانیں گے۔ اگر امریکہ پر الزام تراشی سے باز آجائیں تو پھر اپنا گھر ٹھیک کرنا پڑے گا سو آسان طریقہ یہی ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن تھا، دشمن ہے اور دشمن رہے گا۔ اپنے ملک سے وابستگی کی تو انتہا یہ کہ اتنا تک معلوم نہیں کہ اپنی قومی تاریخ میں کب کیا ہوا اور چلے ہیں دنیا فتح کرنے۔ ایک سوال پوچھے ہفتے بیت گئے، اتنی توفیق نہیں کہ اپنی تاریخ کھنگال لیں بس الزامات کا طومار ہے۔
اور امریکہ اپنی خارجہ پالیسی اپنے ملکی مفاد میں کیوں ترتیب نہ دے؟ اس سے بھی زیادہ بچگانہ توقع کر سکتے ہیں آپ؟ اور جارج بش نے کب اسلام کو فاشسٹ مذہب کہا؟ کوئی حوالہ؟
 

arifkarim

معطل
فواد جو ذہن بند ہوں، جو آنکھیں بینائی سے محروم ہوں اور جن دلوں پر قفل لگ چکے ہوں وہ کوئی دلیل نہ تو سُنیں گے اور نہ مانیں گے۔ اگر امریکہ پر الزام تراشی سے باز آجائیں تو پھر اپنا گھر ٹھیک کرنا پڑے گا سو آسان طریقہ یہی ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن تھا، دشمن ہے اور دشمن رہے گا۔ اپنے ملک سے وابستگی کی تو انتہا یہ کہ اتنا تک معلوم نہیں کہ اپنی قومی تاریخ میں کب کیا ہوا اور چلے ہیں دنیا فتح کرنے۔ ایک سوال پوچھے ہفتے بیت گئے، اتنی توفیق نہیں کہ اپنی تاریخ کھنگال لیں بس الزامات کا طومار ہے۔
اور امریکہ اپنی خارجہ پالیسی اپنے ملکی مفاد میں کیوں ترتیب نہ دے؟ اس سے بھی زیادہ بچگانہ توقع کر سکتے ہیں آپ؟ اور جارج بش نے کب اسلام کو فاشسٹ مذہب کہا؟ کوئی حوالہ؟
جب اسرائیل اور ہزبلا کی جنگ جاری تھی 2006 میں ۔۔۔ اس وقت ایک موقع پر جارج بش نے یہ بیان دیا تھا ۔۔۔۔ اسکی تاریخ مجھے یاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔
اور پوری دنیا میں‌ کیا صرف امریکی مفاد ہی کی حیثیت اور قدرہے؟ کیا پوری دنیا صرف امریکہ ہی کی جاگیر ہے کہ جب چاہے جہاں چاہے پنگے لینا شروع کردے؟ ملکی مفاد میں‌ پالیسی ترتیب دینا اور بات ہے جبکہ دوسرے ممالک کو تباہ کرکے ان سے فائدے حاصل کرنا بالکل اور چیز ہے۔ آپ کیلئے ایک بہت اچھی مثال:‌ روزی کمانا ایک اچھی اور جائز بات ہے۔۔۔۔ لیکن اگر میں‌ آپ کی کمائی ہوئی روزی چھین کر اپنے بیوی بچوں کو دوں تو کیا آپ اسے جائز قرار دیں گے؟ کہ کوئی بات نہیں اسنے یہ کام اپنے مفاد میں کیا ہے!!!! :grin: :grin: :grin: :grin:
بچگانہ باتیں‌آپ کر رہے ہیں، میں‌ نہیں۔۔۔۔۔
 

خرم

محفلین
بھیا امریکہ اپنے مفاد میں کام کرتا ہے بالکل درست۔ پاکستان اپنے مفاد میں کام کرے۔ کیوں نہیں سوچتے ہم ایسا؟ کیا روکا ہے کسی نے ایسا سوچنے سے؟ اور اگر کوئی روکتا بھی ہے تو کیوں رُکتے ہیں آپ؟ امریکہ کوئی ساری دُنیا کا مامے کا پُتر ہے کہ ان کا خیال رکھے۔ امریکہ کا کام صرف اس کے اپنے لوگوں کا خیال رکھنا اور ان کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے اور وہ کام وہ بہت اچھے طریقے سے کر رہا ہے۔ آپ بھی ایسا کرنا شروع کر دیں۔ کیوں نہیں کرتے آپ ایسا؟ کیوں نہیں سوچتے آپ ایسا؟
 

arifkarim

معطل
بھیا امریکہ اپنے مفاد میں کام کرتا ہے بالکل درست۔ پاکستان اپنے مفاد میں کام کرے۔ کیوں نہیں سوچتے ہم ایسا؟ کیا روکا ہے کسی نے ایسا سوچنے سے؟ اور اگر کوئی روکتا بھی ہے تو کیوں رُکتے ہیں آپ؟ امریکہ کوئی ساری دُنیا کا مامے کا پُتر ہے کہ ان کا خیال رکھے۔ امریکہ کا کام صرف اس کے اپنے لوگوں کا خیال رکھنا اور ان کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے اور وہ کام وہ بہت اچھے طریقے سے کر رہا ہے۔ آپ بھی ایسا کرنا شروع کر دیں۔ کیوں نہیں کرتے آپ ایسا؟ کیوں نہیں سوچتے آپ ایسا؟
ہاہاہا! مجھے یقین نہیں‌ آرہا کہ آپ امریکی سوسائٹی و کلچر و تہذیب سے اسقدر مرعوب ہیں۔ ہم پاکستانی امریکی درندے نہیں‌ ہیں کہ اپنے مفاد کی خاطر دوسرے ممالک و اقوام کو تباہ کرنا شروع کر دیں۔ امریکہ جس طریقے سے اپنی عوام کا خیال رکھ رہا ہے، وہ تو سب کو پتا ہے۔ طوفان کیتھرینا کے لاچار سیاہ فام امریکی آج بھی در بدر کی ٹھوکریں‌ کھا رہے ہیں۔۔۔۔ یہ سب پیسے کا کھیل ہے۔۔۔ ڈیموکریسی کا نہیں!
 

خرم

محفلین
بھائی آپ کہاں کی بات کدھر لے جاتے ہیں۔ اوروں کے حق غصب نہ کریں اپنے حقوق کا تحفظ تو کر لیجئے۔ اس میں بھی اعتراض ہے کوئی؟ اور قطرینہ کے متاثرین کی اکثریت تو واپس بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے، ہاں جن کا افیون اور چرس پر گزارا ہے وہ اب بھی اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزار رہے تھے اس میں رنگ و نسل کی تخصیص نہیں۔
 

arifkarim

معطل
بھائی آپ کہاں کی بات کدھر لے جاتے ہیں۔ اوروں کے حق غصب نہ کریں اپنے حقوق کا تحفظ تو کر لیجئے۔ اس میں بھی اعتراض ہے کوئی؟ اور قطرینہ کے متاثرین کی اکثریت تو واپس بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے، ہاں جن کا افیون اور چرس پر گزارا ہے وہ اب بھی اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزار رہے تھے اس میں رنگ و نسل کی تخصیص نہیں۔

امریکہ میں آج بھی رنگ و نسل کی تخصیص جاری ہے۔۔۔ آپ چاہے مانیں یا نہ مانیں۔۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہم پاکستانی امریکی درندے نہیں‌ ہیں کہ اپنے مفاد کی خاطر دوسرے ممالک و اقوام کو تباہ کرنا شروع کر دیں۔ !

اردو فورمز پر اگر آپ "امريکہ کی عالمی سازشوں" کے حوالے سے الزامات کی لسٹ ديکھيں تو آپ کو يہ تاثر ملے گا کہ پچھلے 300 سالوں ميں عالمی سطح پر ہونے والے والے تمام سياسی قتل، ملٹری آپريشنز اور معاشرتی اور معاشی تبديليوں کا ذمہ دار امريکہ ہے۔

بحث کو آگے بڑھانے کے ليے ہم کچھ دير کے ليے اس مفروضے کو درست تسليم کر ليتے ہيں۔ اگر امريکی حکومت اتنی طاقت ور اور بااثر ہے کہ دنيا کے کسی بھی ملک کے سياسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو تبديل کر سکتی ہے تو تصور کريں کہ امريکی حکومت، امريکی صدر اور امريکی ايجنسيوں کی طاقت اور اثر رسوخ امريکہ کے اندر کتنا زيادہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ طاقت اور اختيارات کا آغاز تو آپ کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ اس مفروضے کے پيش نظر تو امريکی حکومتی اہلکاروں اور امريکی صدر کے اختيارات اور پاليسيوں کو امريکہ کے اندر چيلنج کرنا ناممکن ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جو انٹيلی جينس ايجنسياں دنيا کے کسی بھی ملک کی تقدير بدل سکتی ہيں ان کی موجودگی ميں امريکہ کے اندر کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب ناممکن ہوگا۔ ہم سب جانتے ہيں کہ حقيقت يہ نہيں ہے۔ آپ امريکہ کی تاريخ اٹھا کے ديکھ ليں،آپ کو ايسے انگنت کيس مليں گے جس ميں امريکی صدر سميت انتہائ اہم اہلکاروں کو نہ صرف يہ کہ احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا بلکہ عدالت کے سامنے پيش ہو کر اپنے اقدامات کی وضاحت بھی پيش کرنا پڑی۔

حقيقت يہ ہے کہ امريکی حکومت اپنے ہر عمل کے ليے جواب دہ ہے۔ امريکہ کا آئين اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ طاقت اور اختيارات محض چند ہاتھوں تک محدود نہ رہيں۔ ايک سوال جو مجھ سے قريب ہر فورم پر کيا گيا ہے وہ يہ ہے کہ تمام تر ٹيکنالوجی ميسر ہونے کے باوجود امريکہ آج تک اسامہ بن لادن کو گرفتار کيوں نہيں کر سکا؟ اسی طرح يہ سوال بھی کيا جاتا ہے کہ دنيا کی بہترين ايجنسيوں کی موجودگی ميں 11 ستمبر 2001 کا واقعہ کيسے رونما ہو گيا؟ جو لوگ اس طرح کے سوال کرتے ہيں، وہ شايد سی – آئ – اے اور ايف – بی – آئ کے طريقہ کار، اختيارات اور اميج کے حوالے سے صرف اتنا ہی جانتے ہيں جو وہ ہالی وڈ کی فلموں ميں ديکھتے ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايجنسياں اپنی فيلڈ ميں بڑے پروفيشنل طريقے سے کام کرتی ہيں ليکن يہ کوئ ايسی جادوئ اور غير انسانی قوتوں کی مالک تنظيميں نہيں ہيں جو دنيا ميں پيش آنے والے تمام واقعات کو کنٹرول کريں۔ آپ کسی بھی دور ميں سی – آئ – اے اور ايف – بی –آئ کو مطلوب افراد کی فہرست ديکھ ليں، اس ميں زيادہ ترلوگ ايسے ہوں گے جو امريکہ کی سرحدوں کے اندر ہی رہائش پذير ہيں۔ ايسے کئ کيسيز کی مثال دی جا سکتی ہے (مثال کے طور پريونا بمبر) جس ميں ان ايجنسيوں کو مطلوب افراد کو امريکہ کے اندر رہائش کے باوجود کئ سالوں تک گرفتار نہيں کيا جا سکا۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اس وقت دنيا کی واحد سپر پاور ہے اور اس حوالے سے ايک حد تک عالمی سطح پر اثرورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ صورت حال ہميشہ سے نہيں تھی۔ صرف اس بنياد پر يہ دعوی کرنا کہ امريکہ کسی بھی ملک کی قسمت کے فيصلے کر سکتا ہے حقائق سے مطابقت نہيں رکھتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

محمد سعد

محفلین
اب جب آپ کے ثبوت باقاعدہ ڈراموں میں دکھائے جانے والے مناظر پر مشتمل ہوں، اور آپ کی مضبوط ترین دلیل یہ ہو کہ کسی عمارت کے گرنے کے لئے اس کے تمام سٹیل کا پگھلنا ضروری ہوتا ہے تو پھر کوئی کہاں جاکر اپنا سرپھوڑے؟ ایک کریک چاہئے ہوتا ہے پورا سٹرکچر تباہ کرنے کے لئے۔ کس طرح سٹریس بانٹا جاتا ہے، کون کون سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں کسی بھی سٹرکچر کی مضبوطی کو ناکام بنانے کے لئے، ان سب کا علم تو ہوتا نہیں اور بس بڑھکیں لمبی لمبی۔

تو پھر آپ خود ہی تفصیلات کیوں نہیں بتا دیتے جب آپ کو معلوم ہے کہ یہ نظریات کس رو سے غلط ہیں؟
ویسے اگر ڈگریوں والوں کے ہی مضامین چاہئیں تو وہ بھی ان میں سے بہت سے صفحات پر مل جائیں گے جو کہ میں نے بتائے ہیں۔ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے اس حوالے سے بیانات بھی۔
 

محمد سعد

محفلین
اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔

شاید اسی لیے وقتاً فوقتاً اس قسم کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی خواتین کو سکارف نہیں پہننا چاہیے وغیرہ؟؟؟ کیونکہ امریکی انہیں بھی اپنے جیسی ہی "آزادی" دینا چاہتے ہیں؟ خواہ وہ "آزادی" ان پر زبردستی ہی کیوں نہ ٹھونسنی پڑے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہی میں نے وہاں کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا بھی اسی طرح کا بیان سنا تھا۔ لیکن یہ چونکہ وہاں روز کی بات ہے، اس لیے زیادہ توجہ نہیں دی ورنہ نام اور تاریخ نوٹ کر لیتا۔
 

محمد سعد

محفلین
مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ میں نے جن مضامین کا حوالہ دیا تھا، انہیں پڑھے بغیر ہی ان کی صحت پر زور و شور سے اعتراضات جاری ہیں۔ اور پھر اگر میں کچھ کہوں تو انتہا پسند بھی مجھے ہی کہا جائے گا۔ یہ دنیا بھی کتنی عجیب جگہ ہے۔ ہے نا؟؟؟ :confused:
 

arifkarim

معطل
مجھے تو اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ میں نے جن مضامین کا حوالہ دیا تھا، انہیں پڑھے بغیر ہی ان کی صحت پر زور و شور سے اعتراضات جاری ہیں۔ اور پھر اگر میں کچھ کہوں تو انتہا پسند بھی مجھے ہی کہا جائے گا۔ یہ دنیا بھی کتنی عجیب جگہ ہے۔ ہے نا؟؟؟ :confused:
بالکل، یہ سب نیو ورلڈ آرڈر کی کڑیاں ہیں جناب! جو ہماری فطرت میں ''نارمل ہے اسے ابنارمل کر دیا گیا ہے، اور جو ابنارمل ہے، اسے ''نارمل''۔ آپ لاکھ دفعہ سر پھوڑیں؛ نہ ہمیں‌ امریکہ والوں‌ کی سمجھ آئی گی اور نہ انہیں‌ ہماری۔۔۔
امریکی جاہلیت اور ایک طرفہ ذہنیت پر بننے والی یہ کامیڈی تمام ''باشعور'' نفوس کیلئے کافی ہے:
Harold & Kumar Escape from Guantanamo Bay : http://www.imdb.com/title/tt0481536/
 
Top