قیدی نمبر 650 عافیہ صدیقی۔۔۔۔۔۔آج کی دنیا…اشتیاق بیگ
دردناک چیخوں کی آواز سے وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا پہلے تو وہ ان چیخوں کو محض ایک خواب سمجھا پھر اسے احساس ہوا کہ ان چیخوں کی صدا ایک حقیقت ہے یہ چیخیں کسی خاتون کی تھیں۔ اُسے ان چیخوں میں نہایت کرب اور اذیت کا احساس ہوا۔ ان چیخوں میں نہ جانے ایسی کیا خاص بات تھی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و تشدد کو بھول گیا اور ان چیخوں کے متعلق سوچتے ہوئے اس نے رات گزار دی ۔ دوسرے دن جیل میں دوسرے قیدیوں نے بھی ان چیخوں کے سننے کی تصدیق کی۔ شروع شروع میں وہ یہ سمجھا کہ امریکی فوجی اس کے اعصاب کو کمزور کرنے کے لئے شاید اس کی بیوی پر تشدد کررہے ہیں لیکن بعد میں اسے یہ علم ہوا کہ وہ کوئی اور بد نصیب خاتون ہے جس پر امریکی ظلم ڈھارہے تھے۔
معظم بیگ گزشتہ کئی مہینوں سے امریکہ کے زیرِ کمان افغانستان میں بگرام ایئربیس میں قائم جیل میں قید امریکیوں کے تشدد کا شکار تھا اس کو فروری 2002میں اسلام آباد سے گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا ۔ وہاں اپنی ایک سالہ قید کے دوران اس مظلوم خاتون کی چیخ و پکار روز کا معمول بن گئی تھی ۔ جیل میں مامور امریکی سیکورٹی اہلکار اس مردانہ جیل میں کسی عورت کی جیل میں موجودگی سے انکار کرتے رہے۔ ایک سال بعد اسے یہاں سے بدنام زمانہ گوانتاناموبے جیل منتقل کردیا گیا مگر یہاں بھی اس مظلوم عورت کی چیخیں اس کا تعاقب کرتی رہیں معظم بیگ کو جرم ثابت نہ ہونے پر 2005ء میں رہا کردیا گیا۔امریکیوں کے انسانیت سوز مظالم جو اس نے دوران قید بگرام اور گوانتا ناموبے جیل میں جھیلے ، دیکھے اور محسوس کئے ان تجربات پر رہائی کے بعد اس نے ایک کتاب"Enemy Combatant"کے نام سے لکھی ۔ اس کتاب میں امریکی فوجیوں کے سفاکانہ ، ظالمانہ، بے رحمانہ اور وحشیانہ چہرے کو بے نقاب کیا ۔ لوگوں کو پہلی مرتبہ گوانتا ناموبے اور بگرام ایئربیس میں قید مسلمان قیدیوں پر ہونے والے مظالم کاپتہ چلا ۔ اس کتاب میں اس نے بگرام کے عقوبت خانے میں موجود اس تنہا خاتون اور اس کی درناک چیخوں کا بھی ذکر کیا ۔ اس کتاب کی اشاعت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔
معروف برطانوی نو مسلم خاتون صحافی ایوان رڈلی جو سنڈے ایکسپریس کی چیف رپورٹر بھی رہ چکی تھی نے اس کتاب میں اس خاتون کے متعلق پڑھا اور اپنے صحافیانہ تجسس سے مجبور ہوکر اس عورت کے متعلق تفتیش شروع کی ۔جس کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ بگرام ایئربیس میں مردوں کی جیل میں قیدی نمبر 650دراصل پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے اور اُن کے نام کو پوشیدہ رکھنے کی خاطر انہیں قیدی نمبر 650 پکارا جاتاہے۔ بعد میں ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر قید خانے میں ڈاکٹر عافیہ کے شب و روز کی ہولناک تصویر کشی کی ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بگرام ایئربیس میں ڈاکٹر عافیہ پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہے۔ رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل ذہنی،جسمانی اور جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا رہا ہے اور اسے نہانے اور دیگر ضروریات کے لئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں۔ایک پردے دار خاتون جو اسکارف اُوڑھتی تھی اس کی شرم و حیا کو مذاق کا نشانہ بنانے کے لئے یہ حیا سوز حرکت کی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق اس انکشاف نے میرے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔مجھے احساس ہوا کہ جیسے عافیہ صدیقی نہیں میری اپنی بہن چیخ چیخ کر مجھ سے کہہ رہی ہو کہ بھائی اگر تم نے اپنے قلم کے ذریعے مجھ پر ہونے والے ظلم و ستم کو دنیا پر آشکار نہیں کیا تو قیامت کے دن میں تمہارا گریباں پکڑوں گی کیونکہ میری والدہ کی وفات کے بعد اب اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ۔کیا دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں میں کوئی محمد بن قاسم نہیں جو مجھ مظلوم کی آہ وبکا کو سن سکے۔کیا مسلمانوں میں کوئی معتصم باللہ نہیں جو ایک مظلوم مسلمان بیٹی کو ظالموں کے چنگل سے چھڑا سکے اور میں نے تہیہ کیا کہ میں اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف آوازاٹھاؤں گا ۔
تیس سالہ عافیہ صدیقی نے امریکہ کے معروف تعلیمی ادارے سے امتیازی اعزاز کے ساتھ تعلیم حاصل کی انہوں نے نیورولوجی میں پی ایچ ڈی کی ۔ 9/11کے بعد وہ پاکستان آگئیں اور کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں اپنی والدہ اور تین بچوں کے ساتھ جن میں سب سے بڑے کی عمر 4سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ تھی رہائش پذیر ہوئیں ۔30مارچ 2003ء کو انہوں نے کراچی ایئر پورٹ جانے کے لئے ایک میٹرو کیب ٹیکسی منگوائی تاکہ اپنے بچوں کے ساتھ اسلام آباد کی فلائٹ میں سوار ہوسکیں مگر وہ ایئر پورٹ نہ پہنچ سکیں اور اس کے بعد نہ ان کا اور ان کے ہمراہ ان کے معصوم بچوں کا کوئی پتہ چل سکا عافیہ کی گمشدگی کے چند دنوں بعد امریکی نیوز چینل این بی سی نے ایک چھوٹی سی خبر نشر کی کہ عافیہ کاالقاعدہ سے تعلق کے الزام میں پاکستانی ایجنسیوں نے گرفتار کرکے امریکی ایف بی آئی کے حوالے کیا ہے ۔بعد کی رپورٹوں کے مطابق امریکی ایف بی آئی نے انہیں افغانستان میں بگرام ایئربیس جیل میں منتقل کردیا جہاں اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے جس سے وہ اپناذہنی توازن کھو بیٹھی۔ امریکیوں کو یہ شک تھا کہ عافیہ کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی بیٹی کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی انتہائی شائستہ ،سلجھی ہوئی، تعلیم یافتہ،سر کو اسکارف سے ڈھانپنے والی صوم و صلوٰة کی پابند تھی جس کا القاعدہ کی سرگرمیوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔ عافیہ کی ضعیف ماں اپنی بیٹی کی بازیابی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی مگر کہیں بھی اس بوڑھی ماں کی شنوائی نہ ہوئی اور آخر کار بیٹی کے صدمے نے اس کی جان لے لی۔
عافیہ کی اس دردناک کہانی سے متاثر ہوکر میں نے یہ تہیہ کیا کہ میں اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھاؤں گا میں نے امریکی صدر بش ، صدر کرزئی اور وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی ،آصف زرداری اور رحمن ملک کو خطوط تحریر کئے جس میں ان سے عافیہ کی بازیابی کا مطالبہ کیا میں نے اس سلسلے میں امریکہ اور افغانستان کے سفارت کاروں سے بھی ملاقات کا وقت مانگا ہے تاکہ عافیہ کی بازیابی کے لئے ان کا تعاون حاصل کیا جائے ۔عافیہ کی بازیابی کا جو بیڑا میں نے اُٹھایا ہے اس میں مجھے ایک بار پھر اپنے قارئین کے تعاون کی ضرورت ہے ایسا تعاون جیسا آپ نے مجھ سے جنرل جے ہڈ کی پاکستان میں تعیناتی کے خلاف کیا تھا جس کے نتیجے میں امریکی حکومت کو ان کی تعیناتی کے احکامات واپس لیناپڑے۔ قارئین اگر آپ بھی عافیہ کی بازیابی اور اس پر ہونے والے ظلم اور بربریت کے خلاف آواز اُٹھانا چاہتے ہیں تو میں نے اس سلسلے میں اپنی ویب سائٹ میں ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا ہے جس پر جاکر قارئین اپنا نام انٹر کرنے پر پروگرام میں موجود اپیل آپ کے نام سے مذکورہ سربراہان کو موصول ہوگی ۔
میری ویبEmail:
ishtiaq.baig@yahoo.comاور ویب سائٹ
www.ishtiaqbaig.com
لوگ اب تک صرف یہی سمجھتے رہے کہ مشرف حکومت نے سیکڑوں مردوں کو القاعدہ سے تعلق کے الزام میں امریکہ کے حوالے کیا جہاں یہ لوگ گوانتا ناموبے جیل میں موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں لیکن عافیہ کو امریکیوں کے حوالے کرنے سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں اور لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ ہمارے حکمران کس مٹی سے بنے ہیں جنہوں نے قوم کی بیٹی کو امریکی درندوں کے حوالے کردیا ہے جو اسے جسمانی تشدد کے ساتھ جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور کسی میں یہ جرأت نہیں کہ وہ قوم کی بیٹی پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرسکے۔قیدی نمبر 650کی کہانی اس آئس برگ کی نظر آنے والی چوٹی کی مانند ہے جس سے آئس برگ کی جسامت کا اندازہ نہیں ہوتا نہ جانے کتنی اور عافیہ امریکی جیلوں میں زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔صدر لغاری کے دورِ حکومت میں ان کے آبائی علاقے سے یوسف رمزی کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا جسے امریکہ لے جاکر امریکیوں نے رمضان المبارک میں جمعة الوداع کے دن زہر کا انجکشن دے کر ہلاک کردیا ۔ ایک امریکی صحافی نے اپنے ایک سینیٹر سے یہ سوال کیا کہ یہ سب کس طرح ممکن ہوا سینیٹر نے مسکرا کر جواب دیا پاکستانی قوم 20ہزار ڈالر کے عوض اپنی ماں کو بھی بیچ سکتی ہے۔ہمارے حکمرانوں نے قوم کی بیٹی کو بیچ کر امریکی سینیٹر کے قول کو سچ ثابت کردکھایا۔
روزنامہ جنگ مورخہ 31 جولائی 2008