امریکہ بہادر

ترجمان صاحب یہاں پر کئی بار تشریف لا چکے ہیں لیکن شاید ان کے پاس بھی کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اب ہم تو بقول جون ایلیا چیخ چیخ کر گلا چھیل چکے۔۔۔۔

سر آپ ترجمان سے کیوں امید رکھتے ہیں حتٰی کہ اپنی میڈیا سے بھی نہ رکھیں، اتوار 3 اگست کو اسلام آباد میں جی سکس ٹو سے ایک ریلی نکلی تھی پارلیامینٹ تک، نعرے تھی الموت لامریکہ، الموت لاسرائیل، مردہ باد امریکہ، مگر مجال ہے جو میڈیا اس کو کور کرے میں اس ریلی میں موجود تھا لوگوں کی تعداد 13 سے 15 ہزار تک تھی۔ مگر میڈیا نے کوریج نہیں دی مگر اگر گدھا گاڑی الٹ جائے تو بریکنگ نیوز، منوبھیل کا مسئلہ ہو تو لائیو کوریج مگر جہاں مردہ باد امریکہ کا مسئلہ ہو تو خاموشی۔
 

غازی عثمان

محفلین
ایک اور بات ۔
امریکی اداروں کے پاس محترمہ عافیہ کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہیں اسی لئے وہ اب باتیں بنارہے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر حملہ کیا تھا ۔۔ اگر کوئی ثبوت ہوتا تو پچھلے 5 سالوں میں کوئی مقدمہ تو چلاتے۔

اس سلسلے میں مزید کیا کہوں سوائے اس کے کہ " اللہ اس دنیا میں محترمہ عافیہ کا جتنا امتحان تو نے لیا ہے آخرت میں‌ اس سے کئی ہزار گنا زیادہ اجر انہیں عطاء فرمانا ،، جتنے تکلیف تیری اس بندی نے اس دنیا میں اٹھائی ہے اس سے کئی لاکھ گنا زیادہ راحت اسے آخرت میں فراہم کرنا"۔ آمین
 

باسم

محفلین
کیا محفل کے وہ واحد رکن جن کوتنخواہ اس بات کی ملتی ہے کہ وہ فورم پر رکن بنیں ۔ اس بات کا جواب دینگے کہ جس کمرہ میں محترمہ عافیہ احمد قید تھیں اس میں انہیں رائفل کس نے پہچائی۔ کیا امریکی خفیہ جیلوں میں موجود قیدیوں کو امریکی سرکار رائفلیں بھی فراہم کرتی ہے کہ جب کوئی انٹیروگیشن کے لئے آئے تو اس پر دو گولیاں ایسے چلاؤ کہ انہیں لگے بھی لیکن ان کی جوابی فائرنگ سے قیدی ضرور زخمی ہو جائے ۔

امید ہے آپ جواب نہیں دیں گے ایسے جواب دینے سے ہوسکتا ہے آپ کی تنخواہ کاٹ لی جائے۔

امریکی فوجیوں کی بہادری کے تو ہم قائل ہوگئے
ڈاکٹر عافیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اٹھارہ جولائی کو ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک تفتیشی ٹیم پر ایک فوجی کی بندوق چھین کر فائرنگ کر دی تھی۔
کہانی بنانے میں اتنا وقت لے لیا اور وہ بھی بھونڈی بے چارے کیا سنائیں گے
پانچ برس سے لاپتہ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایف بی آئی کی حراست میں نیویارک پہنچا دیا گیا ہے جہاں انہیں امریکی فوجیوں اور اہلکاروں پر حملے کے الزام میں منگل کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
نیویارک میں ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے جاری کیئے جانے والے ایک بیان میں کہاگیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو ایک ماہ قبل افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اس بیان میں دی گئی تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو غزنی میں گورنر کی رہائش گاہ کے احاطے سے افغان پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔
اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں۔ جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انہوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔
چھتیس سالہ ڈاکٹر عافیہ امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں اور مبینہ طور پر القاعدہ کی رکن ہیں۔
سوال : تو القاعدہ امریکہ میں تیار ہوتی ہے؟
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ڈاکٹر عافیہ اور ان کے تین بچوں کو پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

پچھلے چند دنوں سے پاکستانی ميڈيا پر ڈاکٹر عافيہ صديقی کے حوالے سے شائع ہونے والی خبريں اور افواہيں اور اس کے نتيجے ميں اردو فورمز پر جاری بحث سے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم پوری طرح آگاہ ہے۔ بہت سے دوستوں نے ان فورمز پر مجھ سے يو – ايس –اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا نقطہ نظر پيش کرنے کا مطالبہ کيا ہے۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا سب سے پہلا اصول يہ ہے کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے رائے دينے سے قبل متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے اصل حقائق حاصل کيے جائيں اور الزامات کی تحقيق کی جائے۔ جبکہ اسکے مقابلے ميں فورمز پر دوست احباب کسی بھی خبر پر بغيرتحقيق اور ثبوت کے اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہيں۔

اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے متعلقہ حکام سے رابطہ بھی کيا ہے اور تحقيق بھی کی ہے تا کہ "قيدی نمبر650 " کا معمہ حل کیا جا سکے۔

اس حوالے سے ميڈيا پر جو خبريں آ رہی تھيں ان ميں بڑا واضح تضاد تھا۔ مثال کے طور پر قريب تمام اخباری کالم، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری خبروں ميں يہ دعوی کيا گيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مارچ 2003 ميں پاکستان ميں گرفتار کيا گيا تھا ليکن امريکی اٹارنی جرنل جان ايش کرافٹ نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مطلوبہ افراد کی فہرست ميں 26 مئ 2004 کو شامل کيا تھا۔

http://www.accessmylibrary.com/coms2/summary_0286-6507794_ITM

اگر امريکی حکام نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو سال 2003 ميں گرفتار کر ليا تھا اور وہ اس کی گرفتاری کو خفيہ رکھنا چاہتے تھے (جيسا کہ پاکستانی ميڈيا ميں کچھ صحافيوں نے دعوی کيا ہے) تو پھر امريکی اٹارنی جرنل گرفتاری کے ايک سال کے بعد ان کا نام مطلوبہ افراد کی فہرست ميں شامل کر کے اس کی تشہير کيوں کر رہے تھے؟

ڈاکٹر عافيہ صديقی کے واقعے کے حوالے سے يہ اور ايسے سے بہت سے تضادات ہيں جس کی تحقيق ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کر رہی تھی۔

اس وقت ڈاکٹر عافيہ صديقی امريکہ ميں ہيں اور آج عدالت کے سامنے پيش ہو رہی ہيں۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو اپنی کہانی سنانے کا پورا موقع ملے گا اور سچ سب کے سامنے آ جائے گا۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو اپنے وکيل تک رسائ حاصل ہے اور اگر وہ چاہيں تو انھيں پاکستان کے کونسلر آفيسرز تک رسائ کی اجازت بھی دے دی گئ ہے۔

ڈاکٹر عافيہ صديقی کے خلاف پيش کی جانے والی چارج شيٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.usdoj.gov/opa/pr/2008/August/siddiqui-aafia-complaint.pdf

ميرے خيال ميں اس حوالے سے افواہوں اورقياس آرائيوں کی بجائے عدالت کی کاروائ اور فيصلے کا انتظار کرنا چاہيے تاکہ حقائق سب کے سامنے آ سکيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

شمشاد

لائبریرین
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرئے۔

یہ عدالتی کاروائی چار سال اور دو ماہ کے بعد شروع کرنے کا خیال کیوں آیا؟

ایک طرف تو چور کو کہتے ہیں چوری کرو اور دوسری طرف عدالتی کاروائی کا ڈھونگ رچا کر آنسو پونچھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ واہ واہ۔
 

اظہرالحق

محفلین
سچائی کے پیغامبر جناب فواد صاحب ۔ ۔ ۔ عافیہ کو زخمی حالت میں عدالت میں‌ پیش کیا گیا ہے ، اور اس نے تمام الزامات سے انکار کیا ہے ۔۔ ۔ ۔

جسکی لاٹھی اسکی بھینس ۔ ۔ ۔ ۔ عدالت آپکی قانون آپکا ملک آپکا پولیس آپکی جیل آپکی ۔ ۔ ۔۔ صرف ملزم (جسے آپکا میڈیا مجرم کہ رہا ہے ) پاکستان کا ۔۔ ۔ ۔

تو ہم سب کو فیصلہ بھی آپکا ہی سننا پڑے گا ۔ ۔ ۔ نا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

کاشف رفیق

محفلین
اس حوالے سے ميڈيا پر جو خبريں آ رہی تھيں ان ميں بڑا واضح تضاد تھا۔ مثال کے طور پر قريب تمام اخباری کالم، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری خبروں ميں يہ دعوی کيا گيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مارچ 2003 ميں پاکستان ميں گرفتار کيا گيا تھا ليکن امريکی اٹارنی جرنل جان ايش کرافٹ نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مطلوبہ افراد کی فہرست ميں 26 مئ 2004 کو شامل کيا تھا۔

تو یہ سب کیا ہے؟
http://web.archive.org/web/*/http://www.fbi.gov/terrorinfo/siddiqui.htm

انٹرنیٹ آرکائیو کے ریکارڈ کے مطابق ایف بی آئی کی ویب سائیٹ پر اپریل 2003 سے پہلے ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں Seeking Information کا اشتہار لگایا جاچکا تھا۔
[/LEFT]http://web.archive.org/web/20030406051134/http://www.fbi.gov/terrorinfo/siddiqui.htm

انٹرنیٹ آرکائیو کے ریکارڈ کے مطابق یہ اشتہارتقریبآ اسی حالت میں 17 فروری 2006 تک موجود رہا ہے۔ 4 مارچ 2006 کو اس اشتہار کے متن میں تبدیلی لائی گئی۔
http://web.archive.org/web/20060304194207/http://www.fbi.gov/terrorinfo/siddiqui.htm

ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کو ان کی گرفتاری سے قبل ہی مطلوب تھیں۔

اتنا عرصہ بیت جانے کے بعد اب بھی عدالتی کارروائی کی کیا ضرورت تھی؟

چلیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی تو منظرعام پر آگئیں لیکن ان کے وہ تین معصوم بچے کہاں ہیں؟ اس بارے میں بھی تحقیق ضرور کیجئے گا۔
 

کاشف رفیق

محفلین
کیا یہ دونوں تصاویر ایک ہی عافیہ کی ہیں؟:eek:

_44894636_aafia_ap226b.jpg


20080803143441aafia_siddiqi275.jpg
 

خاور بلال

محفلین
مجھے اس بات کا یقین ہے کہ عافیہ کو پاکستانی ایجنسیوں کی مدد سے امریکہ نے اغوا کروایا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بالکل اسی طرح کا واقعہ ہمارے محلے میں ڈاکٹر ارشد وحید اور ان کے بڑے بھائ ڈاکٹر اکمل وحید کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ فورسز نے پہلے تو ڈاکٹر برادران کو اغوا کیا اس کے بعد ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ظاہر یہ کیا کہ ہمیں ڈاکٹر برادران مطلوب ہیں لیکن وہ گھر سے غائب ہیں اس لیے گرفتار نہیں ہوسکے۔ ان کی بوڑھی والدہ کہتی رہیں کہ میرے بچوں کو فورسز نے اٹھایا ہے لیکن متعلقہ اداروں نے صاف انکار کردیا۔ کئ مہینوں تک ملک بھر کے ڈاکٹرز ان کو منظر عام پر لانے کے لیے احتجاج کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے والدین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجا مظاہرہ کیا اور پھر جاکر ان کو اطلاع دی گئ کہ آپ کے بچے دہشت گردی کے الزام میں ہماری تحویل میں ہیں۔ بحالت مجبوری انہیں عدالت میں پیش کیا گیا ان پر ایک بھی الزام ثابت نہ ہوسکا اس طرح یہ دونوں بھائ چھوٹے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ امریکہ اور پاکستان اس طرح چوروں کی طرح کیوں لوگوں کو اغوا کرتے ہیں، یہ تو چند خوش نصیب ہیں جن کے نام دنیا کو معلوم ہوگئے، نجانے ایسے کتنے لوگ ہوں گے جنہیں خاموشی سے بیچ دیا گیا اور کسی کو خبر نہ ہونے دی۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سب ہماری آرمی کے زیر سایہ ہوتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ یہ آرمی کیا ہم نے اپنے ہی بندوں کو اغوا کرنے کے لیے پالی تھی؟
اس جور کو سب نے دیکھ لیا جو تم نے سرِ بازار کیا
اس جرم کو دنیا کیا جانے جو تم نے پسِ دیوار کیا

فواد صاحب فرماتے ہیں کہ “قياس آرائيوں کی بجائے عدالت کی کاروائ اور فيصلے کا انتظار کرنا چاہيے تاکہ حقائق سب کے سامنے آ سکيں“۔ لیجیے! یہاں تو معاملا ہی الٹ ہے۔ عدالت میں تو ان پر فردِ جرم لگنی چاہیے جنہوں نے ابھی تک عافیہ کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھ کر غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ کیا انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ پہلے ایک عورت کو اغوا کیا جائے، اسے جنسی تشدد اور غیر انسانی حربوں سے زیر کیا جائے اور پھر برسوں بعد اسی کو عدالت میں پیش کردیا جائے؟ شرم!

آخر ایک عورت میں کتنی قوت برداشت ہوگی؟ کیا برسوں کے وحشیانہ اور جنسی تشدد کے بعد جب کہ اسکی ذہنی صلاحیت بھی سخت متاثر ہوئ ہو وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرپائے گی؟ کیا عافیہ صدیقی کی بہن بے رحم پاکستانی فورسز کی دھمکیوں کے درمیان ثابت قدم رہ پائیں گی؟ خدا سے تو یہ امید کی جاسکتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا نظر نہیں آتا۔ فرض کیا، اگر عدالت نے عافیہ کو الزامات سے بری کربھی دیا تو کیا ہوگا؟ صرف یہی کہ ایک زندہ لاش جس کا نام عافیہ ہوگا چھوٹ جائے گی اور زندہ لاش سے بھلا کسی کو کیا لینا دینا۔ آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آئیگی جب تک آپ اپنی بہن کا تصور اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں لائیں گے۔ ایک دفعہ آنکھیں بند کریں، تصور میں لائیں کہ آپ کی بہن کیساتھ یہی کچھ ہوا ہے جو عافیہ کے ساتھ ہوا تو آپ کا کیا ردِ عمل ہوگا؟ عافیہ میری بہن ہے اور میرا ردِ عمل یہ ہے کہ میں کسی ایک بھی امریکی فوجی کو مارنا اپنی زندگی کی آخری خواہش سمجھتا ہوں۔
 
سر آپ ترجمان سے کیوں امید رکھتے ہیں حتٰی کہ اپنی میڈیا سے بھی نہ رکھیں، اتوار 3 اگست کو اسلام آباد میں جی سکس ٹو سے ایک ریلی نکلی تھی پارلیامینٹ تک، نعرے تھی الموت لامریکہ، الموت لاسرائیل، مردہ باد امریکہ، مگر مجال ہے جو میڈیا اس کو کور کرے میں اس ریلی میں موجود تھا لوگوں کی تعداد 31 سے 15 ہزار تک تھی۔ مگر میڈیا نے کوریج نہیں دی مگر اگر گدھا گاڑی الٹ جائے تو بریکنگ نیوز، منوبھیل کا مسئلہ ہو تو لائیو کوریج مگر جہاں مردہ باد امریکہ کا مسئلہ ہو تو خاموشی۔

یہ تعداد 15 ہزار تھی جبکہ غلطی سے 15 لکھی گئی تھی۔
 

محسن حجازی

محفلین
قیدی نمبر 650
مرزا اشتیاق بیگ​

معروف برطانوی نو مسلم خاتون صحافی ایوان رڈلی جو سنڈے ایکسپریس کی چیف رپورٹر بھی رہ چکی تھی نے اس کتاب میں اس خاتون کے متعلق پڑھا اور اپنے صحافیانہ تجسس سے مجبور ہوکر اس عورت کے متعلق تفتیش شروع کی ۔جس کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ بگرام ایئربیس میں مردوں کی جیل میں قیدی نمبر 650دراصل پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے اور اُن کے نام کو پوشیدہ رکھنے کی خاطر انہیں قیدی نمبر 650 پکارا جاتاہے۔ بعد میں ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر قید خانے میں ڈاکٹر عافیہ کے شب و روز کی ہولناک تصویر کشی کی ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بگرام ایئربیس میں ڈاکٹر عافیہ پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہے۔ رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل ذہنی،جسمانی اور جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا رہا ہے اور اسے نہانے اور دیگر ضروریات کے لئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں۔ایک پردے دار خاتون جو اسکارف اُوڑھتی تھی اس کی شرم و حیا کو مذاق کا نشانہ بنانے کے لئے یہ حیا سوز حرکت کی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے متعلق اس انکشاف نے میرے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔مجھے احساس ہوا کہ جیسے عافیہ صدیقی نہیں میری اپنی بہن چیخ چیخ کر مجھ سے کہہ رہی ہو کہ بھائی اگر تم نے اپنے قلم کے ذریعے مجھ پر ہونے والے ظلم و ستم کو دنیا پر آشکار نہیں کیا تو قیامت کے دن میں تمہارا گریباں پکڑوں گی کیونکہ میری والدہ کی وفات کے بعد اب اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ۔کیا دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں میں کوئی محمد بن قاسم نہیں جو مجھ مظلوم کی آہ وبکا کو سن سکے۔کیا مسلمانوں میں کوئی معتصم باللہ نہیں جو ایک مظلوم مسلمان بیٹی کو ظالموں کے چنگل سے چھڑا سکے اور میں نے تہیہ کیا کہ میں اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف آوازاٹھاؤں گا ۔
مزید پڑھیں

عافیہ صدیقی قوم تمہارے ساتھ ہے
اشتیاق بیگ​

قوم کی باعفت اور با حیا بیٹی کے ساتھ امریکی درندوں کا اس وحشیانہ سلوک کی روداد نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمارے حکمران اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ عافیہ کی درد ناک چینخیں جسے پورے پاکستان سن رہا ہے وہ ہمارے حکمرانوں کو سنائی نہیں دے رہیں۔ قوم کی بیٹی کو بلا کسی ثبوت کے محض ڈالرز اور امریکی خوشنودی کی خاطر امریکیوں کے حوالے کرتے وقت انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ انکے اپنے گھروں میں بھی بیٹیاں ہیں۔ ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جن کے سامنے جب ایک یہودی کی بیٹی کو ننگے سر لایا گیا تو آپ ﷺ نے اپنی مبارک چادر اپنے کندھوں سے اُتار کر اسکے سر کو ڈھانپ دیا۔ صحابہ کرام نے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ یہ تو یہودی کی بیٹی ہے جنہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ مسلمان کی ہو یا یہودی کی۔ کیا ہمارے حکمرانوں کے دل سے خوف خدا بالکل ختم ہوگیا ہے؟ کیا اسی نبیﷺ کو ماننے والوں کو ڈالروں کی لالچ نے اس قدر اندھا کردیا ہے کہ وہ ایک مسلمان بیٹی کی امریکیوں کے ہاتھوں چادر اُتروانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اشتیاق صاحب آپ کا کالم پڑھ کر میری والدہ، بہنوں اور بیٹیوں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ عافیہ کا دکھ اب پوری قوم کا دکھ بن چکا ہے ۔ ہر وہ گھر میں جس میں کوئی بیٹی ہے وہ عافیہ کے کرب کو محسوس کررہا ہے۔ ہر ماں کے دل میں اس کے لئے تڑپ ہے۔ ہر بھائی اسکی رہائی کے لئے بے چین ہے ۔ امریکی سینیٹر نے جو پاکستانیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کردیتے ہیں وہ دراصل ہمارے حکمرانوں پر صادق آتا ہے ۔شکایت امریکیوں سے نہیں افسوس کہ ہمیں اپنے ہی لوگوں نے دھوکا دیا اس ملک کے 16کروڑ عوام اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک عافیہ اور اسکے بچوں کو امریکی درندوں کی قید سے آزاد نہیں کرالیتے۔کہتے ہیں کہ مظلوم کی پکار پر عرش بھی کانپ اُٹھتا ہے۔ آج عافیہ پر ہونے والے ظلم و ستم پر عرش بھی ہل گیا ہے ۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو عافیہ صدیقی کی چینخیں جو گوانتا ناموبے تک گونج رہی ہیں سنائی نہیں دے رہیں لیکن شہ رگ سے بھی زیادہ قریب خدا کو اس مظلومہ کی چینخیں ضرور سنائی دے رہی ہیں اور وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔یہ اقتباس عافیہ صدیقی پر میرے لکھے جانے والے کالم کی اشاعت کے بعد موصول ہونے والی بے شمار ای میلز میں سے ایک ای میل سے ہے۔ جب میں نے اپنا گذشتہ کالم "قیدی نمبر 650عافیہ صدیقی"تحریر کیا اور لوگوں سے عافیہ صدیقی کی بازیابی کی اپیل کی درخواست کی تو مجھے خود بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ مجھے لوگوں کا اتنا بھر پور تعاون حاصل ہوگا ۔نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک جن میں امریکہ ، کینیڈا، یورپی یونین ، ایران، بھارت، آسٹریلیا ،سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بے شمار لوگوں نے میری ویب سائٹ پر جاکر نہ صرف عافیہ کی بازیابی کی اپیل کی اور مجھے بھی اپنے تعاون کا یقین دلایا
مزید پڑھیں

عافیہ اور راکھ کا ڈھیر
عرفان صدیقی​

بالآخر ایف بی آئی نے مان لیاکہ پاکستان کی بیٹی، عافیہ صدیقی اس کی تحویل میں ہے۔ اس نے تسلیم کرلیا کہ 36سالہ خاتون افغانستان میں ہے اور اس نے اقرار کرلیا کہ وہ زخمی ہے۔ ایف بی آئی نے مزید کہا کہ اسے امریکہ لایا جا رہا ہے اور ایک دوسری اطلاع کے مطابق وہ امریکہ پہنچ چکی ہے تازہ ترین اطلاع کے مطابق اسے نیویارک کی کسی نام نہاد کورٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ عافیہ کی وکیل، ایلن وائٹ فیلڈ شارپ کا کہنا ہے کہ ”عافیہ کے بارے میں لکھے جانے والے آرٹیکلز کے بعد امریکیوں پر شدید دباؤ پڑا۔ میں سمجھتی ہوں کہ امریکیوں نے اچانک عافیہ کو ڈھونڈ نہیں نکالا بلکہ وہ شروع سے ہی ان کے قبضے میں تھی۔“
ریاست ہائے متحدہ امریکہ… 96لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد رقبہ اور تیس کروڑ کی آبادی رکھنے والا ایک امیر کبیر ملک جس کا جی ڈی پی 12کھرب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے جبکہ ستاون اسلامی ممالک کا مجموعی جی ڈی پی دو کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جہاں ہزاروں یونیورسٹیاں اور سیکڑوں تھنک ٹینکس ہیں۔ جہاں لوگ ہر روز دو کروڑ بیرل تیل پھونک دیتے ہیں۔ جس کے اسلحہ خانے میں پندرہ ہزار سے زائد ایٹمی ہتھیاروں اور ہلاکت آفریں میزائلوں کے انبار لگے ہیں، جو ٹیکنالوجی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے جس کا بارود خانہ ایک گھنٹے کے اندر اندر پوری دنیا کو بھسم کرسکتا ہے جو عراق و افغانستان کی حیا باختہ جنگوں پر بیس ارب ڈالر ماہانہ خرچ کررہا ہے اور جو پوری دنیا کی آقائی کا دم بھرتا ہے، اس کا عالم یہ ہے کہ دھان پان سی ایک گڑیا جیسی لڑکی سے خوفزدہ ہے جس نے ساری زندگی پستول تک نہیں اٹھایا اور جو کسی چڑیا کو شکار کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتی۔
مزید پڑھیں

اس سب کے بعد تو میں اپنی جان سے بھی گزرنے کو تیار ہوں۔
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔
 

جہانزیب

محفلین
ڈاکٹر عافیہ پر لگائی جانے والی فردِ جرم سن کر چوہدری ظہور الہی پر بھینس چوری کا مقدمہ کی ایف آئی آر کی یاد تازہ ہو گئی ہے ۔
بقول فردِ جرم ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان پولیس نے غزنی سے گرفتار کیا تھا، اس فرد جرم کی رو سے انہیں امریکہ نہیں لایا جا سکتا تھا، کیونکہ وہ ایف بی آئی کو پوچھ گچھ کے لئے درکار تھیں، کسی جرم کی وجہ سے نہیں ۔ انہیں امریکہ لانے کے لئے کسی امریکی کے خلاف ان کا جرم میں ملوث ہونا ضروری تھا ۔
تو پوچھ گچھ کے لئے جو ٹیم گئی، اس کے ایک بندے نے اپنی گن ایسی جگہ رکھی جہاں ڈاکٹر عافیہ کی پہنچ تھی؟ پھر ایسا کرنے کے بعد لاپرواہی برتی کہ وہ گن اٹھا کر فائر کر لیں؟
مجھے تو اس کہانی پر یقین نہیں ہے، پتہ نہیں کس کو ہے ۔
ویسے جب پولیس اور اس طرح کی دوسری ایجنسی کے لوگ اپنے ہتھیار پر اس طرح کی کوتاہی برتیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے، کیا ایسا متعلقہ شخص کے ساتھ کیا جا رہا ہے؟
 
یہ امریکہ کا مکروہ چہرہ

’اتنی جلدی تو آدمی (نیویارک میں) برانکس سے مینہٹن نہیں پہنچ پاتا جتنے وقت میں آپ لوگ مدعاعلیہ کو افغانستان سے نیویارک لے آئے ہیں۔‘
یہ تھے جج ایلس کے الفاظ جو انہوں نے پاکستانی شہری نیورو سائنسدان اور مبینہ طور ال‍قاعدہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہے۔

گزشتہ پانچ برسوں سے لاپتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو منگل کی شام نیویارک کی عدالت یونائٹیڈ سٹیٹس کورٹ سدرن ڈسٹرکٹ میں پیش کیاگیا- عافیہ صدیقی کی کسی امریکی عدالت میں پہلی پیشی تھی۔

یونائیٹیڈ سٹیٹس آف امریکہ بنام عافیہ صدیقی کی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے کے ذرائع ابلاغ کے نمائندے وہاں موجود تھے۔

ایک عدالتی اہلکار نے عدالت میں لوگوں کے داخلے کو منظم کرنے کے لیے اعلان کیا کہ’ سب سے پہلے سکیچ آرٹسٹس، پھر فیملیاں، پھر میڈیا کے لوگ اور پھر قانون نافذ کرنے والے۔‘

عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ مدعاعلیان آتے رہے، پیش کیے جاتے رہے- خواتین آرٹسٹ مدعاعلیان کے سکیچ بنانے کے موقع پر ان کو دور بین اٹھا کر دیکھتی رہیں-

اتنے میں ایک خاتون عدالت میں داخل ہوتی ہیں جن کے ہاتھ میں فائل ہے جس پر عافیہ صدیقی لکھا ہوا ہے۔اسی دوران ایف بی آئي اور پولیس والے عافیہ صدیقی کو کمرہ عدالت میں لائے-

عافیہ صدیقی اپنی وکیل اور وفاقی ایجنٹوں کے سہارے سے چل رہی تھیں- سچی بات تو ہے کہ ایک ہڈیوں کی گٹھری بنی عورت، لاغر اور کمزور۔ اس کی دونوں وکیل اسے سہارا دیکر کرسی پر بٹھانے لگے- سر پر سرخ رنگ کا سکارف یا حجاب، نیلے رنگ کی قمیص اور لمبے سکرٹ میں ملبوس عافیہ صدیقی کو کرسی پر بیٹھنے میں کچھ منٹ لگ گئے۔ ان کی وکیل نے کہا کہ ان کی مؤکل پاکستانی قونصلر سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہیں-

جب عدالت کی کارروآئی شروع ہوتی ہے- تو جج نے کہا’عافیہ صدیقی کھڑی ہوجائیں۔‘

عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے عدالت کو بتایا’ 'یور آنر وہ کھڑی نہیں ہوسکتیں- وہ زخمی ہیں- انہی گولی کا زخم ہے۔ عافیہ صدیقی کی دوسری وکیل وکیل اییلین وٹفیلڈ شارپ بھی موجود تھی-

جج نے عافیہ صدیقی کو کرسی پر بیٹھے جوابات دینے کی اجازت دی- جج نے کارروآئی کے ابتدا میں عافیہ صدیقی کو عدالتی طریقہ کار اور بنیادی قوانین پر عافیہ صدیقی سے وضاحتی سوال کیے۔
مترجم مہیا ہونے کے باوجود عافیہ صدیقی نے جج کے انگریزي زبان میں سوالوں کے انگریزي زبان میں ہی جوابات دیتی رہیں۔

جج نے عافیہ صدیقی سے پوچھا ’کیا تم جانتی ہو کہ حکومتِ امریکہ نے ایک کرمنل کمپلینٹ میں تم پر کیا الزام لگایا ہے۔‘

’یس‘ عافیہ صدیقی نے نخیف آواز میں جواب دیا۔

جج نے ایف بی آئی کیطرف سے عافیہ صدیقی کیخلاف داخل کردہ فوجداری مقدمے کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔

ان تفصیلات کے مطابق عافیہ صدیقی نے چودہ جولائی دو ہزار آٹھ کو افغانستان میں بتائي گئی گرفتاری سے لیکر امریکی اہلکاروں پر تین اگست دو ہزار آٹھ کو ایم فور رائفل سے تھانے کے اندر حملے اور پھر زخمی اور گرفتار ہونے واقعات بیان کیے۔

عدالت نے عافیہ صدیقی کے وکلاء کی طرف سے اٹھائے جانیوالے سوالوں کا جواب سرکار ی استغاثہ کی طرف سے مقدمے کی سماعت تک مؤخر رکھاگيا-

عافیہ صدیقی کیخلاف امریکی حکومت کیطرف سے داخل کردہ کرمنل کمپلینٹ میں کہا گيا ہے کہ انہیں تین اگست کو افغانستان میں امریکی اہلکاروں پر حملہ کرنے کے اور ان کی طرف سے جوابی فائرنگ میں زخمی ہونے کے بعد گرفتار ہوئي اور چار اگست کو انہیں سیدھا نیویارک لایا گيا-

عافیہ پر حکومت امریکہ کے سول و فوجی اہلکاروں پر مبینہ طور قاتلانہ حملہ کرنے کا ا لزام لگایا ہے۔

عافیہ صدیقی کی وکیل الزبیتھ فنک نے عدالت سے سوال کیا کہ کیا عدالت سمجھتی ہے یہ نوے پاونڈ کی عورت ایم فور رائفل امریکی فوجی کے بوٹوں کے بیچ سے اٹھا کر ان پر فائر کر سکتی ہے- اور یہ بڑی مضحکہ خیز تہمت ہے-
وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’کیا القاعدہ کا دہشت گرد پیلے پردے کے پیچھے چھپ کر امریکی فوجی پر فائر کرسکتا ہے- کیا القاعدہ کے دہشتگرد اب لاغر، نڈھال اور نوے پاونڈز وزن کے ہوتے ہیں؟ کیا اب القاعدہ کا یہ نیا چہرہ ہے؟۔
وکیل نےکہا کہ عافیہ صدیقی کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہےوہ سب کچھ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے-

’ اس ایجنٹ نے بھی انہی باتوں کی بنیاد پر مدعاعیلہ کیخلاف نیویارک میں بیٹھ کر کیس بنایا ہے- پانچ ہزار میلوں پرے جو افغانستان میں ہے اسے بیٹھ کر اس ایجنٹ نے نیویارک میں کیسے دیکھا؟ وکیل الزبتھ جج سے مخاطب تھیں-

وکیل الزبیتھ نے کہا کہ انہوں نےمنگل کے روز پہلی بار عافیہ صدیقی کو دیکھا ہے اور عافیہ صدیقی اتنے برسوں بعد ’غیر حکومتی آدمی سے پہلی بار مل رہی ہے اور یہ سب سے بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے-‘

بہرحال وکیل الزبتھ نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ خالد شیخ محمد نے اپنی تفتیش کے دوران عافیہ صدیقی کا نام لیا تھا جبکہ اس سے قبل بائیو ٹیرزم یا حیاتیاتی دہشتگردی میں اس کا کوئي تعلق نہیں رہا-

یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ ساوتھ ڈسٹرکٹ کے جج ایلس نے عافیہ کیخلاف گواہیاں لانے کیلیے امریکی حکومت کو دس دن کی مہلت دیتے ہوئے مدعاعیلہ پر واضح کیا کہ انیس اگست کو اس مقدمے کی ابتدائي سماعت ہوگي- عدالت گیارہ اگست کو عافیہ صدیقی کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کرے گی۔

عدالت نے وکیل کی درخواست پر عافیہ صدیقی کا علاج کروانے کا حکم دیا۔ عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے عدالت کو بتایا کہ عافیہ صدیقی کی کمر پر گولی کا زخم ہے اور وہ نہایت ہی تکلیف میں ہے۔

اس موقع پر عافیہ صدیقی نے وکیل میڈیا کو کہ پاکستانی حکومت نے امریکی محکمہ خارجہ سے عافیہ صدیقی کو آزاد کرنے اور اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

عدالت کی عمارت کےباہر عافیہ کی دونوں وکیلوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کہا کہ عافیہ نے اپنے اوپر لگائے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔
حسن مجتبیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک
بشکری بی بی سی اردو
 

باسم

محفلین
عافیہ کے لیے آواز اُٹھائیں: فوزیہ
ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر پانچ سال تک یہ درج رہا ہے کہ عافیہ سے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔ ان پر کسی تخریب کاری میں ملوث ہونے کا الزام نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کے بعد سنہ دو ہزار تین میں ان کی والدہ عصمت صدیقی نے ہیوسٹن اور بوسٹن میں ایف بی آئی اے حکام سے ملاقات کی۔ ’انہوں نے میری والدہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ عافیہ زندہ ہیں۔ اسی طرح اسسٹنٹ اٹارنی نے ملاقات میں کہا تھا کہ عافیہ پر دہشت گردی کا الزام نہیں عائد کیا جارہا ہے۔‘

ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی نیورو بائلاجسٹ نہیں ہیں۔ ’ان کی مہارت اس میں تھی کہ کمزور ذہنی بچوں کی قوت یادداشت کیسے بڑہائی جائے۔ اس کا کیسمٹری، اور کیمیائی ہتھیاروں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

’اگر امریکہ کہتا ہے کہ عافیہ تخریب کار ہیں اور اس کے تخریب کاروں سے تعلقات ہیں تو اسے ایڈٹ کردیا جائے جب تک کہ وہ خود اس کے شواہد نہیں دیکھ لیتے۔ وہ عافیہ کے بارے میں پانچ سال میں کچھ ثابت نہیں کرسکے اور یہ اس کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔‘
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اور يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ممبر کی حيثيت سے ميرا سرکاری يا دفاعی وکيلوں کی اس ٹيم سے کوئ تعلق نہيں جو اس کيس سے منسلک ہيں، نہ ہی ميں اس کيس کے واقعات کا چشم ديد گواہ ہوں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عافيہ صديقی کے کيس سے متعلق سرکاری الزامات کی سچائ، ممکنات اور مختلف زاويوں پر ميری بحث بے معنی ہے۔

ميں نے صرف اس چارچ شيٹ کا لنک ديا ہے جو کہ عدالت ميں ڈاکٹر عافيہ صديقی کے خلاف پيش کی جائے گئ۔ يہ کام سرکاری اور ڈاکٹر عافيہ صديقی کے وکيلوں کا ہے کہ وہ اس چارج شيٹ کو ثبوتوں کی روشنی ميں صحيح يا غلط ثابت کريں۔ ميں اس موضوع پر جو بھی بات کروں گا، وہ صرف ميری ذاتی رائے اور قياس پر مبنی ہو گی جس سے کوئ مقصد حاصل نہيں ہو گا۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے حوالے سے کچھ دوستوں کی رائے بالکل درست ہے کہ ہماری جانب سے اس موضوع پر کسی رائے کے اظہار ميں تاخير کی وجہ يہ تھی کہ ہمارے پاس اس حوالے سے درست معلومات نہيں تھيں۔ کيا آپ کے خيال ميں متعلقہ اہلکاروں سے رابطہ کيے بغير اور حقائق کی تحقيق کی بجائے ہماری جانب سے ان الزامات کی ترديد يا تائيد اور قياس آرائ کرنا درست ہوتا؟ کيا اس سے کوئ مقصد حاصل کيا جا سکتا تھا ؟

ہماری جانب سے فوری جواب نہ دينا اور اس واقعے کی تحقيق اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مسلئے کو سنجيدگی سے ليا گيا تھا۔

جيسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سب سے اہم بات يہ ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو عدالت ميں پيش کر ديا گيا ہے۔ انھيں اپنے وکيلوں کی مدد سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع ملے گا۔

کچھ دوستوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کيا ہے کہ انھيں امريکی عدالت سے انصاف نہيں ملے گا۔ امريکہ کے سخت ترين نقاد بھی عمومی طور پر يہ بات تسليم کرتے ہيں کہ امريکی ميں انصاف کا نظام غير جانب دار اور آزاد ہے۔ ماضی قريب اور بعيد سے ايسی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں کہ امريکی حکومت اور امريکی ملٹری کے انتہائ اہم اہلکاروں کو عدالتی کاروائ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور الزامات ثابت ہونے پر انھيں سزائيں بھی ہوئ ہيں۔

ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ اس کيس کے حوالے سے بھی انصاف کے تقاضے پورے کيے جائيں گے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

عباد1

محفلین
ایک معصوم خاتون کا سب کچھ برباد کر کے اب اسے کون سا ایسا انصاف دیا جائے گا جو یہ زخم مندمل کر دے؟
 

ساجد

محفلین
محترم فواد صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ننگِ انسانیت بش اینڈ کمپنی کی کمینگیوں پر پردہ مت ڈالیں اور رپورٹوں وغیرہ کے چکر میں الجھی باتیں لکھ کر حقائق کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ خلقِ خدا کی رپورٹنگ سب سے غیر جانبدار ہوتی ہے اور محترم فواد صاحب اس رپورٹ پر دھیان دیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ پوری دنیا میں کس قدر بدنام ہو چکی ہے۔بش کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج امریکیوں کو کہیں بھی سفر کرتے ہوئے خوف گھیرتا ہے۔مسلم ممالک تو ایک طرف غیر مسلم ممالک بھی بش اینڈ کمپنی کی حرکتوں پر پریشان ہیں۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اس وقت ایک بڑی طاقت ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی معاشی و حربی طاقت کی وجہ سے بہت سے ممالک اپنا منہ بند رکھے ہوئے ہیں لیکن مستقبل کا نقشہ کسی اور ہی نہج پر ترتیب پا رہا ہے اور اس ترتیب میں خود بش انتظامیہ کی حرکتوں کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔
رہے مسلم ممالک کے سربراہان اور خاص طور پر موجودہ پاکستانی حکومت تو جناب یہ تو حکم کے غلام ہیں۔ یہ لوگ جب تک پاکستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق عمل کرتے ہوئے غلامانہ ذہنیت سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے تب تک پاکستان کی دھرتی پر امن ایک خواب ہی رہے گا۔ اور بش انتظامیہ ایسے حکمرانوں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر کے دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں بد امنی و خون ریزی برپا کرتی رہے گی۔
پاکستانی عوام کے حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دینا تو قبول کیا لیکن ایک ایسی طاقت کے آگے جھکنا گوارہ نہیں کیا کہ جو خون ریز ماضی اور خوں آشام حال کی حامل ہے۔
 

خرم

محفلین
اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ ڈاکٹر عافیہ کو انصاف ملے گا۔ ہاں اگر یہی مقدمہ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں پیش ہوتا تو پھر انصاف کی فراہمی مشکل تھی۔ ماشاء اللہ سب بھائیوں نے بہت جذبہ کا اظہار کیا ہے لیکن کیا آپ کی ہماری ذمہ داری یہیں ختم ہوجاتی ہے؟ کتنا عرصہ ہم لوگ اسی طرح بک بک کرکے پھر اسی معمول میں مشغول ہوتے رہیں گے؟ آپ سب نے اتناکچھ کہا، آپ کے لیڈران تو آج بھی اقتدار کی حصہ داریوں میں مشغول و مصروف ہیں۔ چلیں پچھلی حکومت تو شرفو کی تھی، اب تو "عوامی" حکومت ہے۔ کتنی قراردادیں آئیں اور کتنے بل پیش ہوئے ڈاکٹر عافیہ کے لئے؟ ہم لوگ گالیاں امریکہ کو دیتے ہیں اور ووٹ نوازشریف، زرداری، مولانا اور قاضی کو۔ جو بوئیں گے وہی تو کاٹیں گے۔
 
Top