یہ امریکہ کا مکروہ چہرہ
’اتنی جلدی تو آدمی (نیویارک میں) برانکس سے مینہٹن نہیں پہنچ پاتا جتنے وقت میں آپ لوگ مدعاعلیہ کو افغانستان سے نیویارک لے آئے ہیں۔‘
یہ تھے جج ایلس کے الفاظ جو انہوں نے پاکستانی شہری نیورو سائنسدان اور مبینہ طور القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہے۔
گزشتہ پانچ برسوں سے لاپتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو منگل کی شام نیویارک کی عدالت یونائٹیڈ سٹیٹس کورٹ سدرن ڈسٹرکٹ میں پیش کیاگیا- عافیہ صدیقی کی کسی امریکی عدالت میں پہلی پیشی تھی۔
یونائیٹیڈ سٹیٹس آف امریکہ بنام عافیہ صدیقی کی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے کے ذرائع ابلاغ کے نمائندے وہاں موجود تھے۔
ایک عدالتی اہلکار نے عدالت میں لوگوں کے داخلے کو منظم کرنے کے لیے اعلان کیا کہ’ سب سے پہلے سکیچ آرٹسٹس، پھر فیملیاں، پھر میڈیا کے لوگ اور پھر قانون نافذ کرنے والے۔‘
عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ مدعاعلیان آتے رہے، پیش کیے جاتے رہے- خواتین آرٹسٹ مدعاعلیان کے سکیچ بنانے کے موقع پر ان کو دور بین اٹھا کر دیکھتی رہیں-
اتنے میں ایک خاتون عدالت میں داخل ہوتی ہیں جن کے ہاتھ میں فائل ہے جس پر عافیہ صدیقی لکھا ہوا ہے۔اسی دوران ایف بی آئي اور پولیس والے عافیہ صدیقی کو کمرہ عدالت میں لائے-
عافیہ صدیقی اپنی وکیل اور وفاقی ایجنٹوں کے سہارے سے چل رہی تھیں- سچی بات تو ہے کہ ایک ہڈیوں کی گٹھری بنی عورت، لاغر اور کمزور۔ اس کی دونوں وکیل اسے سہارا دیکر کرسی پر بٹھانے لگے- سر پر سرخ رنگ کا سکارف یا حجاب، نیلے رنگ کی قمیص اور لمبے سکرٹ میں ملبوس عافیہ صدیقی کو کرسی پر بیٹھنے میں کچھ منٹ لگ گئے۔ ان کی وکیل نے کہا کہ ان کی مؤکل پاکستانی قونصلر سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہیں-
جب عدالت کی کارروآئی شروع ہوتی ہے- تو جج نے کہا’عافیہ صدیقی کھڑی ہوجائیں۔‘
عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے عدالت کو بتایا’ 'یور آنر وہ کھڑی نہیں ہوسکتیں- وہ زخمی ہیں- انہی گولی کا زخم ہے۔ عافیہ صدیقی کی دوسری وکیل وکیل اییلین وٹفیلڈ شارپ بھی موجود تھی-
جج نے عافیہ صدیقی کو کرسی پر بیٹھے جوابات دینے کی اجازت دی- جج نے کارروآئی کے ابتدا میں عافیہ صدیقی کو عدالتی طریقہ کار اور بنیادی قوانین پر عافیہ صدیقی سے وضاحتی سوال کیے۔
مترجم مہیا ہونے کے باوجود عافیہ صدیقی نے جج کے انگریزي زبان میں سوالوں کے انگریزي زبان میں ہی جوابات دیتی رہیں۔
جج نے عافیہ صدیقی سے پوچھا ’کیا تم جانتی ہو کہ حکومتِ امریکہ نے ایک کرمنل کمپلینٹ میں تم پر کیا الزام لگایا ہے۔‘
’یس‘ عافیہ صدیقی نے نخیف آواز میں جواب دیا۔
جج نے ایف بی آئی کیطرف سے عافیہ صدیقی کیخلاف داخل کردہ فوجداری مقدمے کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔
ان تفصیلات کے مطابق عافیہ صدیقی نے چودہ جولائی دو ہزار آٹھ کو افغانستان میں بتائي گئی گرفتاری سے لیکر امریکی اہلکاروں پر تین اگست دو ہزار آٹھ کو ایم فور رائفل سے تھانے کے اندر حملے اور پھر زخمی اور گرفتار ہونے واقعات بیان کیے۔
عدالت نے عافیہ صدیقی کے وکلاء کی طرف سے اٹھائے جانیوالے سوالوں کا جواب سرکار ی استغاثہ کی طرف سے مقدمے کی سماعت تک مؤخر رکھاگيا-
عافیہ صدیقی کیخلاف امریکی حکومت کیطرف سے داخل کردہ کرمنل کمپلینٹ میں کہا گيا ہے کہ انہیں تین اگست کو افغانستان میں امریکی اہلکاروں پر حملہ کرنے کے اور ان کی طرف سے جوابی فائرنگ میں زخمی ہونے کے بعد گرفتار ہوئي اور چار اگست کو انہیں سیدھا نیویارک لایا گيا-
عافیہ پر حکومت امریکہ کے سول و فوجی اہلکاروں پر مبینہ طور قاتلانہ حملہ کرنے کا ا لزام لگایا ہے۔
عافیہ صدیقی کی وکیل الزبیتھ فنک نے عدالت سے سوال کیا کہ کیا عدالت سمجھتی ہے یہ نوے پاونڈ کی عورت ایم فور رائفل امریکی فوجی کے بوٹوں کے بیچ سے اٹھا کر ان پر فائر کر سکتی ہے- اور یہ بڑی مضحکہ خیز تہمت ہے-
وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’کیا القاعدہ کا دہشت گرد پیلے پردے کے پیچھے چھپ کر امریکی فوجی پر فائر کرسکتا ہے- کیا القاعدہ کے دہشتگرد اب لاغر، نڈھال اور نوے پاونڈز وزن کے ہوتے ہیں؟ کیا اب القاعدہ کا یہ نیا چہرہ ہے؟۔
وکیل نےکہا کہ عافیہ صدیقی کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہےوہ سب کچھ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے-
’ اس ایجنٹ نے بھی انہی باتوں کی بنیاد پر مدعاعیلہ کیخلاف نیویارک میں بیٹھ کر کیس بنایا ہے- پانچ ہزار میلوں پرے جو افغانستان میں ہے اسے بیٹھ کر اس ایجنٹ نے نیویارک میں کیسے دیکھا؟ وکیل الزبتھ جج سے مخاطب تھیں-
وکیل الزبیتھ نے کہا کہ انہوں نےمنگل کے روز پہلی بار عافیہ صدیقی کو دیکھا ہے اور عافیہ صدیقی اتنے برسوں بعد ’غیر حکومتی آدمی سے پہلی بار مل رہی ہے اور یہ سب سے بڑی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے-‘
بہرحال وکیل الزبتھ نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ خالد شیخ محمد نے اپنی تفتیش کے دوران عافیہ صدیقی کا نام لیا تھا جبکہ اس سے قبل بائیو ٹیرزم یا حیاتیاتی دہشتگردی میں اس کا کوئي تعلق نہیں رہا-
یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ ساوتھ ڈسٹرکٹ کے جج ایلس نے عافیہ کیخلاف گواہیاں لانے کیلیے امریکی حکومت کو دس دن کی مہلت دیتے ہوئے مدعاعیلہ پر واضح کیا کہ انیس اگست کو اس مقدمے کی ابتدائي سماعت ہوگي- عدالت گیارہ اگست کو عافیہ صدیقی کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کرے گی۔
عدالت نے وکیل کی درخواست پر عافیہ صدیقی کا علاج کروانے کا حکم دیا۔ عافیہ صدیقی کی وکیل الزبتھ فنک نے عدالت کو بتایا کہ عافیہ صدیقی کی کمر پر گولی کا زخم ہے اور وہ نہایت ہی تکلیف میں ہے۔
اس موقع پر عافیہ صدیقی نے وکیل میڈیا کو کہ پاکستانی حکومت نے امریکی محکمہ خارجہ سے عافیہ صدیقی کو آزاد کرنے اور اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
عدالت کی عمارت کےباہر عافیہ کی دونوں وکیلوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کہا کہ عافیہ نے اپنے اوپر لگائے تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔
حسن مجتبیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک
بشکری بی بی سی اردو