مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے میڈیا میں عافیہ کے بارے میں آنے والی خبروں میں بہت تضاد ہے اور کہیں کہیں غلط بیانی بھی کی گئی ہے۔
ابتک کے حالات یہ ہیں۔
1۔ امجد کہتے ہیں کہ عافیہ کے خالد شیخ کے گروپ سے امریکہ میں بھی مراسم تھے اور پاکستان آ کر بھی ان سے رابطے رہے۔ [ون سائیڈڈ ابھی تک]
2۔ یہ ثابت ہے کہ عافیہ 2002 کے آخر میں اس سردیوں کی چھٹیوں میں امجد سے خفیہ طور پر امریکہ گئیں تھیں جہاں انہوں نے پوسٹ باکس کرائے پر لیا تھا۔ عافیہ کی فیملی کا کہنا ہے کہ وہ جاب کی تلاش میں امریکہ ان 5 دنوں کے لیے گئیں تھیں۔ مگر امجد کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں کے دوران کرسمس اور نیو ایئر کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور تمام یونیورسٹیاں بند ہوتی ہیں اور یہ ایک جھوٹا بہانہ ہے۔
میرا تاثر: یہاں مجھے امجد کی بات وزنی لگ رہی ہے کیونکہ واقعی ہر سال کے یہ پانچ دن چھٹیوں کے ہوتے ہیں۔
3۔ عافیہ کے پاکستان آنے کے بعد امریکہ میں انکا نام سب سے زیادہ مطلوب لوگوں میں شامل ہو گیا۔
اسکا علم جب عافیہ کو ہوا تو وہ اپنے اغوا ہونے سے قبل ہی کراچی میں روپوش ہو گئیں تھیں [جی ہاں، یہ چیز کسی اخبار نے واضح نہیں کی ہے، مگر عافیہ بذات خود اپنے اغوا ہونے سے قبل کراچی میں روپوش تھیں کیونکہ انکا نام مطلوبہ فہرست میں آ چکا تھا]۔ پاکستانی میڈیا نے اس چیز کو کبھی واضح نہیں کیا۔
اس لنک پر آپ عافیہ کی اس روپوشی پر مزید پڑھ سکتے ہیں۔
اسی روپوشی کے دوران عافیہ نے اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ وہ اپنے ماموں کے گھر اسلام آباد فلائی کر رہی ہیں۔ [عافیہ کے تینوں بچے انکے ہمراہ روپوش تھے]
4۔ مارچ کی آخری تاریخوں میں عافیہ کے اغوا کے اگلے دن ایک اردو اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عافیہ کو انکے بچوں سمیت "پولیس" نے اغوا کر لیا ہے۔
اس اردو اخبار کی تفصیلات ڈھونڈنے پر بھی مجھے ابھی تک نہیں ملیں۔ ہو سکتا ہے کہ باسم کو اس اردو اخبار کا علم ہو۔
5۔ یکم اپریل کو "فیصل صالح حیات" سے عافیہ کے اغوا کے متعلق پوچھا گیا، جس پر انہوں نے ایسے کسی اغوا کی مکمل تردید کی۔
دو اپریل کو پھر ایک کانفرنس میں فیصل صالح حیات سے عافیہ کے متعلق سوال کیا گیا تو اس پر
انہوں نے پھر عافیہ کے اغوا کی تردید کی اور کہا کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے بذات خود مفرور ہیں اور الزام ہم پر لگایا جا رہا ہے۔
فیصل صالح حیات تو عافیہ کے اغوا کی مکمل تردید کرتے ہیں، مگر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ فیصل صالح حیات پر الزام لگاتی ہیں کہ 30دسمبر 2003 کو انکی ملاقات فیصل صالح حیات سے کراچی ایئر پورٹ پر ہوئی اور انکے ساتھ اعجاز الحق بھی تھے۔ انہوں نے فیصل صالح حیات سے پھر عافیہ کا تذکرہ کیا تو فیصل کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق عافیہ آزاد ہو چکی ہے اور یہ کہ وہ گھر جائیں اور عافیہ کا فون گھر آ جائے گا۔
فیصل اور اعجاز الحق کی جانب سے فوزیہ کے اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب مجھے ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔
6۔ عافیہ کے اغوا کے بعد ایک موٹر سائیکل سوار جو کہ سادہ لباس میں تھا، اس نے دروازہ کھٹکھٹا کر عافیہ کی والدہ سے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ آپ اعلی افسران سے مل رہی ہیں۔ مگر آپ کے لیے بہتر ہو گا کہ آپ اپنی بیٹی کے معاملے میں خاموش رہیں۔ آپکی بیٹی اور اسکے بچے ہمارے پاس خیریت سے ہیں۔
عافیہ کی فیملی نے اس گفتگو سے یہ تاثر لیا ہے کہ یہ ایجنسی کا کوئی موٹر سائیکل سوار تھا۔
میرا تاثر: اس گفتگو سے بالکل یقینی طور پر اس موٹر سائیکل سوار کا ایجنسی کا آدمی ثابت ہونا دکھائی نہیں دے رہا اور اس بات کی گنجائش رکھی جا سکتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر عافیہ بذات خود خالد شیخ یا کسی اور جہادی تنظیم کی مدد سے روپوش ہوئی ہو تو انکی طرف سے اس موٹر سائیکل سوار نے آ کر یہ بات کہی ہو تاکہ بات بہت زیادہ نہ اچھلے اور کوئی بڑے پیمانے کی تفتیش نہ شروع ہو جائے۔
یعنی عافیہ اگر اپنی پچھلی روپوشی [جو کہ گھر والوں کی مدد سے شاید کی گئی تھی] سے نکل کر بڑی روپوشی [خالد شیخ یا کسی دوسری جہادی تنظیم کی مدد سے] میں جانا چاہ رہی تھیں، اور اس بات کا پتا وہ اپنے گھر والوں کوبھی نہیں دینا چاہتی تھیں تاکہ انہیں پریشان کر کے کچھ اگلوایا نہ جا سکے، تو یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ عافیہ اس بات پر بڑے پیمانے پر تفتیش نہیں کروانا چاہیتی ہوں گی۔
میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کونسا اردو اخبار ہے جس نے عافیہ کے اغوا کی خبر اگلے دن چھاپی، اس اخبار کے نام اور پھر انکا سورس کیا تھا؟
اس مسئلے میں یہ سب سے اہم سوال ہے۔ لیکن اس سب سے بنیادی سوال پر سب سے کم اہمیت دی گئی ہے اور ہمیں ابھی تک اس اخبار کا نام تک نہیں معلوم ہو سکا ہے۔ کیوں؟
کیا عافیہ کا پلان یہ اپنا پلان تھا کہ اخبار میں یہ شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ انہیں ایجنسیز نے اغوا کیا ہے اور اسی لیے اخبار میں یہ چھوٹا سا تراشہ چھپوا دیا؟ [نوٹ: ایجنسیز جب کسی کا اغوا کرتی ہیں تو خود سے ہی اگلے دن اخبارات میں اس اغوا کا ڈھنڈھورا نہیں پیٹتیں]
ڈاکٹر فوزیہ کے مزید بیانات مختلف جگہ پڑھنے کو ملے ہیں کہ انہیں ایجنسیز کی طرف سے فون آئے ہیں۔ لیکن ان فونوں کی تفصیلات ڈاکٹر فوزیہ کی طرف سے بالکل نہیں بتلائی گئی ہیں، یا پھر مجھے ابھی تک نہیں مل سکی ہیں۔
عافیہ کی 23 جنوری 2008 کو اپنے ماموں اور ماں سے ملاقات
7۔ اور پھر 23 جنوری 2008 کو عافیہ اچانک اسلام آباد میں اپنے ماموں کے گھر نمودار ہوتی ہیں، اور وہاں تین دن قیام کرتی ہیں۔ اور عافیہ کی والدہ بھی ان سے ملنے یہاں آتی ہیں۔
[یاد رہے کہ عافیہ کے ماموں اس ملاقات کا ذکر اس کے سات مہینے کے بعد 28 ستمبر 2008 کو کر رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب 7 جولائی 2008 کو مس ریڈلی بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 کا ذکر کر چکی ہیں، اور پھر 16 جولائی 2008 کو عافیہ افغانستان میں گرفتار ہو چکی ہے]
اس ملاقات کے بارے میں عافیہ کے گھر والوں اور ماموں نے صاف طور پر نہیں بتلایا ہے کہ عافیہ نے انہیں کیا تفصیلات بیان کیں۔ کیا اس ملاقات میں عافیہ نے انہیں بذات خود یہ بتلایا کہ:
* وہ [عافیہ] افغانستان میں بگرام کے مقام پر قید تھیں؟
* اور یہ کہ ان [عافیہ] کا قیدی نمبر 650 تھا؟
یہ دو سوالات بہت اہم تھے جس کا جواب عافیہ کی فیملی اور ماموں کو صاف صاف دینا چاہیے تھا۔ اگرچہ کہ عافیہ کے ماموں نے اپنے خط میں افغانستان اور بگرام جیل کا ذکر کیا ہے، مگر انکے خط میں یہ چیز بالکل واضح نہیں ہے کہ یہ چیز عافیہ نے انہیں خود بتلائی یا پھر بیرونی ذرائع سے شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر عافیہ کے ماموں نے یہ باتیں اپنی طرف سے لکھی ہیں۔ اسکی وجہ یہ ڈاکٹر امجد کو جو انہوں نے تفصیلات بتائی ہیں، بقول ڈاکٹر امجد اس میں افغانستان کا قصہ موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر امجد کے بقول عافیہ کے ماموں نے جو تفصیلات انہیں ای میل کے ذریعے بھیجی ہیں وہی یہ ہیں:
"۔۔۔۔۔میں اور میری اہلیہ عافیہ سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران پیش ہونے والے حالات و واقعات کی تفصیلات پوچھتے رہے اور یہ کہ وہ ہمارے ہاں مزید کتنا قیام کرے گی۔ اسلام آباد میں اپنی موجودگی کے دوران عافیہ نے مسلسل اپنا چہرہ برقع کے نقاب سے چھپائے رکھا اور ارادی یا غیر ارادی طور پر سوائے میرے کسی کو اپنا چہرہ نہیں دکھایا۔ وہ بھی تاج محل ہوٹل میں بات چیت کے دوران میں نے اس کے چہرے کی ایک جھلک دیکھی تھی اور اس کے چہرے میں کچھ تبدیلی محسوس کی تھی بالخصوص اس کی ناک پلاسٹک سرجری کے بعد مکمل طور پر تبدیل کرنے کے لیے پلاسٹک سرجری کس نے کی اور کہاں کی گئی تو اس کا مختصر جواب تھا "کوئی نہیں"۔ عافیہ کے پاس ایک شناختی کارڈ بھی تھا لیکن کارڈ پر لگی تصویر، اصلی عافیہ سے کافی مختلف تھی جبکہ نام بھی مختلف تھا، غالبا صالحہ لکھا ہوا تھا۔ عافیہ نے صرف اتنا بتایا کہ اسے لاہور کے مختلف مقامات پر رکھا گیا تھا [تبصرہ: یعنی افغانستان کا کوئی ذکر نہیں اور یاد رہے عافیہ اسلام مس ریڈلی کے اس بگرام اور قیدی نمبر 650 کے دعوے سے قبل اسلام آباد آئی تھی] اور اسے عارضی طور پر چھوڑا گیا ہے۔ لیکن وہ وہاں سے نکل کر اسلام آباد آنے والی بس میں بیٹ کر میرے پاس پہنچ گئی۔ عافیہ نے یہ بھی بتایا کہ سن 2003 کے بعد سے اس نے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا۔ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران وہ مسلسل یہ اصرار کرتی رہی کہ کسی طرح اس کے افغانستان جانے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ کم از کم "وہ" اسے دشمنوں کے حوالے نہیں کریں گے[تبصرہ: یعنی عافیہ بذات خود اس وقت تک مختلف شناختی کارڈ رکھتی تھی اور بذات خود افغانستان جانا چاہتی تھی] ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ پچھلے برسوں کے دوران اسے جن مختلف مقامات پر رکھا گیا وہ اس کے بارے میں نہیں جانتی تاہم وہ مکمل تنہائی میں ہوتی تھی اور اسے خوراک پہنچانے والے دستانے پہنے ہوتے تھے جبکہ ان کے چہروں پر ماسک ہوتا تھا اور وہ کبھی اس سے بات نہیں کرتے تھے [تبصرہ:اگر عافیہ افغانستان میں ہوتی تو کم از کم اسے اپنا قیدی نمبر ضرور سے پتا ہوتا۔ روپورٹ کے مطابق اصل قیدی نمبر 650 کو اذیت دی جاتی، وہ مردوں کے بیت الخلا میں جاتی اور مردوں کے نہانے والی جگہ نہاتی تھی ۔۔۔] ۔ ۔۔۔۔۔۔
اب یہ عافیہ کے ماموں کو بتانا ہے کہ انہوں نے جو ای میل ڈاکٹر امجد کو کی ہے، اس میں یہی کچھ لکھا ہے کہ نہیں۔ اس صورت میں وہ جو کہانی اپنے خط میں 28 ستمبر 2003 کو بیان کر رہے ہیں، وہ انکے پاس پھر کہاں سے آئی ہے؟
ڈاکٹر امجد کی کہانی امت اخبار سے قبل فروری 2009 میں "دی نیوز" اور "بی بی سی" میں چھپ چکی ہے۔ پھر حال ہی میں عافیہ کی والدہ کا فیکس بھی موصول ہوا ہے۔ مگر ابھی تک انہوں نے ڈاکٹر امجد کی کہانی کے کسی ٹکڑے کو خصوصی طور پر جھوٹا نہیں کہا ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ عافیہ کے ماموں کو صاف طور پر بتانا چاہیے کہ آیا واقعی جو ای میل انہوں نے امجد کو بھیجی ہے اس میں یہی تفصیلات تھیں یا نہیں۔ ویسے ڈاکٹر امجد کے پاس بھی ای میل کی کاپی موجود ہے اور اگر وہ اسے شائع کر سکیں تو معاملات اور صاف ہو جائیں گے۔
عافیہ کی فیملی اور مس ریڈلی کے بیانات پر مزید اعتراضات
* مس ریڈلی کہتی ہیں کہ معظم بیگ
"فروری 2002" میں بگرام اور قندھار کی جیل میں قید کاٹ رہے تھے اور
"ایک سال" کے بعد وہ گوانتاموبے چلے گئے۔
اس
"ایک سال" کا مطلب ہوا کہ معظم بیگ "فروری 2003" میں بگرام سے چلے گئے تھے۔
جبکہ عافیہ کو "یکم اپریل 2003" کو اغوا کیا گیا، یعنی معظم بیگ کے چلے جانے کے ایک مہینے کے بعد۔
تو مس ریڈلی نے یہ کیسے سوچ لیا کہ معظم بیگ جس قیدی 650 کا نام لے رہے ہیں وہ یہی عافیہ ہیں؟
* مس ریڈلی نے قیدی نمبر 650 کا عافیہ ہونے کا انکشاف 7 جولائی 2007 کو کیا۔
یعنی 7 جولائی 2007 تک کسی امریکی یا پاکستانی خفیہ ایجنسی کو علم نہیں تھا کہ مس ریڈلی یہ دھماکہ کرنے جا رہی ہیں۔
اور عافیہ کے گھر والوں نے بھی مس ریڈلی کے اس انکشاف کے بعد یہ نہیں بتایا کہ عافیہ اس سے کئی ماہ قبل ان سے مل کر جا چکی ہے اور وہ اب خود صالحی یا کسی اور نام سے افغانستان جانے کی کوششں کر رہی ہے تاکہ ایجنسیوں کے چنگل سے بچ کر "ان" کی پناہ حاصل کر سکے جو اسے ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار نہیں کروائیں گے۔
* بہرحال، مس ریڈلی نے ایک بار پھر قیدی نمبر 650 کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی کی ہے۔ حال ہی میں "محمد بنیامین" نامی ایک شخص بگرام سے رہا ہوا ہے اور اسکے حوالے سے مس ریڈلی پھر یہ دعوی کر رہی ہیں کہ عافیہ ہی قیدی نمبر 650 ہیں۔" عافیہ کی والدہ بھی اس محمد بنیامین کا ذکر امت اخبار کو بھیجے جانے والے فیکس میں کر رہی ہیں۔
مگر مسئلہ صرف یہ ہے کہ عافیہ کے ماموں کے بیان کے مطابق یہ ہونا مشکل ہے کیونکہ عافیہ 2007 سے ہی لاہور میں مقیم ہے۔
بنیامن کی خبر کا لنک
یہ تھی ابتک کی روئیداد۔ بہت سے پہلو ایسے ہوں گے جن پر میری نظر نہیں پڑی ہو گی۔ آپ لوگ ان پہلوؤں پر چاہیں تو روشنی ڈال سکتے ہیں۔