امریکہ بہادر

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے کسی اخبار ميں پہلے رپورٹ کيے گئے "حقائق" سے متضاد "سچ" سے مجھے کوئ خاص حيرت نہيں ہوئ۔ جولائ 2008 ميں اس کيس کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی ميڈيا کے بعض عناصر کی جانب سے تواتر کے ساتھ کچھ اسی قسم کی روش اختيار کی گئ ہے۔

ميں کافی عرصے سے يہی کہتا آ رہا ہوں کہ يہ کوئ گمنام يا پوشيدہ کيس نہيں ہے جسے قالين کے نيچے چھپا دياگيا ہے۔ يہ کيس امريکی عدالت ميں ہے۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو اپنی کہانی سنانے کا پورا موقع ملے گا اور اس کيس کے حوالے سے تمام تر حقائق مکمل تحقيق اور ثبوت کے ساتھ سب پر عياں ہو جائيں گے۔ بغير کسی ثبوت کے اس کيس کے حوالے سے ہر دو چار روز کے بعد ايک نئ کہانی تخليق کی جاتی رہی ہے۔

ميں آپ کی توجہ انگريزی روزنامے دی نيوز ميں اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے کی جانب سے ايک خط کی طرف دلوانا چاہتا ہوں

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1211060&da=y

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس کيس کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف شروع دن سے واضح رہا ہے۔ اور وہ اس نقطہ نظر سے مطابقت رکھتا ہے جو ميں نے قريب ايک سال پہلے فورمز پر پيش کيا تھا۔ اس کے مقابلے ميں پاکستانی اخبارات ميں شائع ہونے والی کہانياں نہ صرف يہ کہ مسلسل تبديل ہو رہی ہيں بلکہ پچھلی کہانيوں کی نفی بھی کر رہی ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں

ميں نے اسی فورم پر مندرجہ ذيل تھريڈ ميں ڈاکٹر عافيہ صدیقی کے بيٹے کے حوالے سے ان کی فيملی کو بھيجے جانے والے ايک خط کو پوسٹ کيا تھا اور اس کے کچھ حصوں کو پوشيدہ رکھنے کی يہ وجہ بيان کی تھی

"اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شا‏ئع نہيں کيے جا سکتے"۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=329029#post329029

يہی اصول اور قانون مجھے اس بات کی اجازت نہيں ديتا کہ ميں اصل قيدی نمبر 650 کی شناخت يا محل وقوع يہاں پر پوسٹ کروں۔ يہ ان کی اپنی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
میری معلومات کے مطابق ان کا تعلق ملتان پاکستان سے ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
مس ریڈلی کی وضاحت کہ قیدی 650 عافیہ نہیں ہیں اور جسکا اشارہ ڈاکٹر امجد نے اپنی تحریر میں دیا تھا:
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?p...9-10-2008_pg7_4

Prisoner 650: Ridley also expressed doubt over the identity of Prisoner 650 – who was earlier believed to be Dr Aafia Siddiqui. “I have now more news about Prisoner 650 ... I can tell you categorically Prisoner 650 is not Dr Aafia,” said Ridley, citing American statements that this particular prisoner was repatriated to her country of origin in 2005.
عافیہ کے ماموں کی تحریر
ڈھونڈنے پر مجھے عافیہ کے ماموں کی تحریر بھی مل گئی ہے۔ مگر پڑھنے پر مجھے یہ نظر آیا ہے کہ ڈاکٹر امجد نے پوری ایمانداری کے ساتھ اس تحریر کو نقل نہیں کیا ہے۔
اگرچہ کہ عافیہ کے ماموں تسلیم کر رہے ہیں کہ عافیہ 2008 میں انکے پاس آئی ہے، مگر بقیہ معلومات اور انکی پوری کہانی کو ڈاکٹر امجد نے پیش نہیں کیا ہے جو کہ دیانت داری اور انصاف کے خلاف ہے۔

عافیہ کے ماموں کی مکمل تحریر آپ یہاںپڑھ سکتے ہیں۔

اگرچہ کہ ڈاکٹر امجد یہاں غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے، مگر میرا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے "مکمل ایمانداری" سے عافیہ کے ماموں کی کہانی کو پیش نہیں کیا ہے۔
 

خرم

محفلین
ظاہر ہے بہنا، ان کا مقصد اپنی بات کو لوگوں تک پہنچانا تھا عافیہ کے ماموں کی بات کو نہیں۔
 

باسم

محفلین
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ کا مؤقف
story10.gif
 

خرم

محفلین
یہ تو وہی الزامات ہیں جو امجد پہلے بھی دُہرا چُکے ہیں۔ ویسے بھی عافیہ کے ماموں‌کی گواہی کے بعد ان کی اماں کی بات میں کچھ وزن نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین

شکریہ باسم،
نیز یہ کہ ڈاکٹر امجد کی پہلی تحریر کے شروع میں امت اخبار نے لکھا تھا کہ انہوں نے عافیہ کی والدہ کا انٹرویو شائع کیا تھا جس میں انہوں نے ڈاکٹر امجد پر اعتراضات کیے تھے۔
مجھے عافیہ کی والدہ کا یہ انٹرویو چاہیے۔
اور اگر یہ نہ مل سکے تو چاہے انگلش میں ہو، مگر وہ تمام اعتراضات جو عافیہ کی فیملی نے ڈاکٹر امجد پر ماضی میں اٹھائے ہیں۔ اس کے بغیر دو طرفہ موقف کا سامنے آنا بعید ہے۔ ڈاکٹر امجد کی کہانی ابھی تک یکطرفہ ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مجھے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے میڈیا میں عافیہ کے بارے میں آنے والی خبروں میں بہت تضاد ہے اور کہیں کہیں غلط بیانی بھی کی گئی ہے۔
ابتک کے حالات یہ ہیں۔

1۔ امجد کہتے ہیں کہ عافیہ کے خالد شیخ کے گروپ سے امریکہ میں بھی مراسم تھے اور پاکستان آ کر بھی ان سے رابطے رہے۔ [ون سائیڈڈ ابھی تک]

2۔ یہ ثابت ہے کہ عافیہ 2002 کے آخر میں اس سردیوں کی چھٹیوں میں امجد سے خفیہ طور پر امریکہ گئیں تھیں جہاں انہوں نے پوسٹ باکس کرائے پر لیا تھا۔ عافیہ کی فیملی کا کہنا ہے کہ وہ جاب کی تلاش میں امریکہ ان 5 دنوں کے لیے گئیں تھیں۔ مگر امجد کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں کے دوران کرسمس اور نیو ایئر کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور تمام یونیورسٹیاں بند ہوتی ہیں اور یہ ایک جھوٹا بہانہ ہے۔

میرا تاثر: یہاں مجھے امجد کی بات وزنی لگ رہی ہے کیونکہ واقعی ہر سال کے یہ پانچ دن چھٹیوں کے ہوتے ہیں۔

3۔ عافیہ کے پاکستان آنے کے بعد امریکہ میں انکا نام سب سے زیادہ مطلوب لوگوں میں شامل ہو گیا۔
اسکا علم جب عافیہ کو ہوا تو وہ اپنے اغوا ہونے سے قبل ہی کراچی میں روپوش ہو گئیں تھیں [جی ہاں، یہ چیز کسی اخبار نے واضح نہیں کی ہے، مگر عافیہ بذات خود اپنے اغوا ہونے سے قبل کراچی میں روپوش تھیں کیونکہ انکا نام مطلوبہ فہرست میں آ چکا تھا]۔ پاکستانی میڈیا نے اس چیز کو کبھی واضح نہیں کیا۔
اس لنک پر آپ عافیہ کی اس روپوشی پر مزید پڑھ سکتے ہیں۔
اسی روپوشی کے دوران عافیہ نے اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ وہ اپنے ماموں کے گھر اسلام آباد فلائی کر رہی ہیں۔ [عافیہ کے تینوں بچے انکے ہمراہ روپوش تھے]

4۔ مارچ کی آخری تاریخوں میں عافیہ کے اغوا کے اگلے دن ایک اردو اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عافیہ کو انکے بچوں سمیت "پولیس" نے اغوا کر لیا ہے۔
اس اردو اخبار کی تفصیلات ڈھونڈنے پر بھی مجھے ابھی تک نہیں ملیں۔ ہو سکتا ہے کہ باسم کو اس اردو اخبار کا علم ہو۔

5۔ یکم اپریل کو "فیصل صالح حیات" سے عافیہ کے اغوا کے متعلق پوچھا گیا، جس پر انہوں نے ایسے کسی اغوا کی مکمل تردید کی۔
دو اپریل کو پھر ایک کانفرنس میں فیصل صالح حیات سے عافیہ کے متعلق سوال کیا گیا تو اس پر انہوں نے پھر عافیہ کے اغوا کی تردید کی اور کہا کہ وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے بذات خود مفرور ہیں اور الزام ہم پر لگایا جا رہا ہے۔

فیصل صالح حیات تو عافیہ کے اغوا کی مکمل تردید کرتے ہیں، مگر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ فیصل صالح حیات پر الزام لگاتی ہیں کہ 30دسمبر 2003 کو انکی ملاقات فیصل صالح حیات سے کراچی ایئر پورٹ پر ہوئی اور انکے ساتھ اعجاز الحق بھی تھے۔ انہوں نے فیصل صالح حیات سے پھر عافیہ کا تذکرہ کیا تو فیصل کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق عافیہ آزاد ہو چکی ہے اور یہ کہ وہ گھر جائیں اور عافیہ کا فون گھر آ جائے گا۔
فیصل اور اعجاز الحق کی جانب سے فوزیہ کے اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب مجھے ابھی تک نہیں مل سکی ہے۔

6۔ عافیہ کے اغوا کے بعد ایک موٹر سائیکل سوار جو کہ سادہ لباس میں تھا، اس نے دروازہ کھٹکھٹا کر عافیہ کی والدہ سے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ آپ اعلی افسران سے مل رہی ہیں۔ مگر آپ کے لیے بہتر ہو گا کہ آپ اپنی بیٹی کے معاملے میں خاموش رہیں۔ آپکی بیٹی اور اسکے بچے ہمارے پاس خیریت سے ہیں۔
عافیہ کی فیملی نے اس گفتگو سے یہ تاثر لیا ہے کہ یہ ایجنسی کا کوئی موٹر سائیکل سوار تھا۔

میرا تاثر: اس گفتگو سے بالکل یقینی طور پر اس موٹر سائیکل سوار کا ایجنسی کا آدمی ثابت ہونا دکھائی نہیں دے رہا اور اس بات کی گنجائش رکھی جا سکتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر عافیہ بذات خود خالد شیخ یا کسی اور جہادی تنظیم کی مدد سے روپوش ہوئی ہو تو انکی طرف سے اس موٹر سائیکل سوار نے آ کر یہ بات کہی ہو تاکہ بات بہت زیادہ نہ اچھلے اور کوئی بڑے پیمانے کی تفتیش نہ شروع ہو جائے۔

یعنی عافیہ اگر اپنی پچھلی روپوشی [جو کہ گھر والوں کی مدد سے شاید کی گئی تھی] سے نکل کر بڑی روپوشی [خالد شیخ یا کسی دوسری جہادی تنظیم کی مدد سے] میں جانا چاہ رہی تھیں، اور اس بات کا پتا وہ اپنے گھر والوں کوبھی نہیں دینا چاہتی تھیں تاکہ انہیں پریشان کر کے کچھ اگلوایا نہ جا سکے، تو یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ عافیہ اس بات پر بڑے پیمانے پر تفتیش نہیں کروانا چاہیتی ہوں گی۔

میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کونسا اردو اخبار ہے جس نے عافیہ کے اغوا کی خبر اگلے دن چھاپی، اس اخبار کے نام اور پھر انکا سورس کیا تھا؟
اس مسئلے میں یہ سب سے اہم سوال ہے۔ لیکن اس سب سے بنیادی سوال پر سب سے کم اہمیت دی گئی ہے اور ہمیں ابھی تک اس اخبار کا نام تک نہیں معلوم ہو سکا ہے۔ کیوں؟

کیا عافیہ کا پلان یہ اپنا پلان تھا کہ اخبار میں یہ شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ انہیں ایجنسیز نے اغوا کیا ہے اور اسی لیے اخبار میں یہ چھوٹا سا تراشہ چھپوا دیا؟ [نوٹ: ایجنسیز جب کسی کا اغوا کرتی ہیں تو خود سے ہی اگلے دن اخبارات میں اس اغوا کا ڈھنڈھورا نہیں پیٹتیں]


ڈاکٹر فوزیہ کے مزید بیانات مختلف جگہ پڑھنے کو ملے ہیں کہ انہیں ایجنسیز کی طرف سے فون آئے ہیں۔ لیکن ان فونوں کی تفصیلات ڈاکٹر فوزیہ کی طرف سے بالکل نہیں بتلائی گئی ہیں، یا پھر مجھے ابھی تک نہیں مل سکی ہیں۔

عافیہ کی 23 جنوری 2008 کو اپنے ماموں اور ماں سے ملاقات

7۔ اور پھر 23 جنوری 2008 کو عافیہ اچانک اسلام آباد میں اپنے ماموں کے گھر نمودار ہوتی ہیں، اور وہاں تین دن قیام کرتی ہیں۔ اور عافیہ کی والدہ بھی ان سے ملنے یہاں آتی ہیں۔ [یاد رہے کہ عافیہ کے ماموں اس ملاقات کا ذکر اس کے سات مہینے کے بعد 28 ستمبر 2008 کو کر رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب 7 جولائی 2008 کو مس ریڈلی بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 کا ذکر کر چکی ہیں، اور پھر 16 جولائی 2008 کو عافیہ افغانستان میں گرفتار ہو چکی ہے]

اس ملاقات کے بارے میں عافیہ کے گھر والوں اور ماموں نے صاف طور پر نہیں بتلایا ہے کہ عافیہ نے انہیں کیا تفصیلات بیان کیں۔ کیا اس ملاقات میں عافیہ نے انہیں بذات خود یہ بتلایا کہ:

* وہ [عافیہ] افغانستان میں بگرام کے مقام پر قید تھیں؟
* اور یہ کہ ان [عافیہ] کا قیدی نمبر 650 تھا؟

یہ دو سوالات بہت اہم تھے جس کا جواب عافیہ کی فیملی اور ماموں کو صاف صاف دینا چاہیے تھا۔ اگرچہ کہ عافیہ کے ماموں نے اپنے خط میں افغانستان اور بگرام جیل کا ذکر کیا ہے، مگر انکے خط میں یہ چیز بالکل واضح نہیں ہے کہ یہ چیز عافیہ نے انہیں خود بتلائی یا پھر بیرونی ذرائع سے شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر عافیہ کے ماموں نے یہ باتیں اپنی طرف سے لکھی ہیں۔ اسکی وجہ یہ ڈاکٹر امجد کو جو انہوں نے تفصیلات بتائی ہیں، بقول ڈاکٹر امجد اس میں افغانستان کا قصہ موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر امجد کے بقول عافیہ کے ماموں نے جو تفصیلات انہیں ای میل کے ذریعے بھیجی ہیں وہی یہ ہیں:
"۔۔۔۔۔میں اور میری اہلیہ عافیہ سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران پیش ہونے والے حالات و واقعات کی تفصیلات پوچھتے رہے اور یہ کہ وہ ہمارے ہاں مزید کتنا قیام کرے گی۔ اسلام آباد میں اپنی موجودگی کے دوران عافیہ نے مسلسل اپنا چہرہ برقع کے نقاب سے چھپائے رکھا اور ارادی یا غیر ارادی طور پر سوائے میرے کسی کو اپنا چہرہ نہیں دکھایا۔ وہ بھی تاج محل ہوٹل میں بات چیت کے دوران میں نے اس کے چہرے کی ایک جھلک دیکھی تھی اور اس کے چہرے میں کچھ تبدیلی محسوس کی تھی بالخصوص اس کی ناک پلاسٹک سرجری کے بعد مکمل طور پر تبدیل کرنے کے لیے پلاسٹک سرجری کس نے کی اور کہاں کی گئی تو اس کا مختصر جواب تھا "کوئی نہیں"۔ عافیہ کے پاس ایک شناختی کارڈ بھی تھا لیکن کارڈ پر لگی تصویر، اصلی عافیہ سے کافی مختلف تھی جبکہ نام بھی مختلف تھا، غالبا صالحہ لکھا ہوا تھا۔ عافیہ نے صرف اتنا بتایا کہ اسے لاہور کے مختلف مقامات پر رکھا گیا تھا [تبصرہ: یعنی افغانستان کا کوئی ذکر نہیں اور یاد رہے عافیہ اسلام مس ریڈلی کے اس بگرام اور قیدی نمبر 650 کے دعوے سے قبل اسلام آباد آئی تھی] اور اسے عارضی طور پر چھوڑا گیا ہے۔ لیکن وہ وہاں سے نکل کر اسلام آباد آنے والی بس میں بیٹ کر میرے پاس پہنچ گئی۔ عافیہ نے یہ بھی بتایا کہ سن 2003 کے بعد سے اس نے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا۔ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران وہ مسلسل یہ اصرار کرتی رہی کہ کسی طرح اس کے افغانستان جانے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ کم از کم "وہ" اسے دشمنوں کے حوالے نہیں کریں گے[تبصرہ: یعنی عافیہ بذات خود اس وقت تک مختلف شناختی کارڈ رکھتی تھی اور بذات خود افغانستان جانا چاہتی تھی] ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ پچھلے برسوں کے دوران اسے جن مختلف مقامات پر رکھا گیا وہ اس کے بارے میں نہیں جانتی تاہم وہ مکمل تنہائی میں ہوتی تھی اور اسے خوراک پہنچانے والے دستانے پہنے ہوتے تھے جبکہ ان کے چہروں پر ماسک ہوتا تھا اور وہ کبھی اس سے بات نہیں کرتے تھے [تبصرہ:اگر عافیہ افغانستان میں ہوتی تو کم از کم اسے اپنا قیدی نمبر ضرور سے پتا ہوتا۔ روپورٹ کے مطابق اصل قیدی نمبر 650 کو اذیت دی جاتی، وہ مردوں کے بیت الخلا میں جاتی اور مردوں کے نہانے والی جگہ نہاتی تھی ۔۔۔] ۔ ۔۔۔۔۔۔
اب یہ عافیہ کے ماموں کو بتانا ہے کہ انہوں نے جو ای میل ڈاکٹر امجد کو کی ہے، اس میں یہی کچھ لکھا ہے کہ نہیں۔ اس صورت میں وہ جو کہانی اپنے خط میں 28 ستمبر 2003 کو بیان کر رہے ہیں، وہ انکے پاس پھر کہاں سے آئی ہے؟
ڈاکٹر امجد کی کہانی امت اخبار سے قبل فروری 2009 میں "دی نیوز" اور "بی بی سی" میں چھپ چکی ہے۔ پھر حال ہی میں عافیہ کی والدہ کا فیکس بھی موصول ہوا ہے۔ مگر ابھی تک انہوں نے ڈاکٹر امجد کی کہانی کے کسی ٹکڑے کو خصوصی طور پر جھوٹا نہیں کہا ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ عافیہ کے ماموں کو صاف طور پر بتانا چاہیے کہ آیا واقعی جو ای میل انہوں نے امجد کو بھیجی ہے اس میں یہی تفصیلات تھیں یا نہیں۔ ویسے ڈاکٹر امجد کے پاس بھی ای میل کی کاپی موجود ہے اور اگر وہ اسے شائع کر سکیں تو معاملات اور صاف ہو جائیں گے۔

عافیہ کی فیملی اور مس ریڈلی کے بیانات پر مزید اعتراضات

* مس ریڈلی کہتی ہیں کہ معظم بیگ "فروری 2002" میں بگرام اور قندھار کی جیل میں قید کاٹ رہے تھے اور "ایک سال" کے بعد وہ گوانتاموبے چلے گئے۔
اس "ایک سال" کا مطلب ہوا کہ معظم بیگ "فروری 2003" میں بگرام سے چلے گئے تھے۔
جبکہ عافیہ کو "یکم اپریل 2003" کو اغوا کیا گیا، یعنی معظم بیگ کے چلے جانے کے ایک مہینے کے بعد۔
تو مس ریڈلی نے یہ کیسے سوچ لیا کہ معظم بیگ جس قیدی 650 کا نام لے رہے ہیں وہ یہی عافیہ ہیں؟

* مس ریڈلی نے قیدی نمبر 650 کا عافیہ ہونے کا انکشاف 7 جولائی 2007 کو کیا۔
یعنی 7 جولائی 2007 تک کسی امریکی یا پاکستانی خفیہ ایجنسی کو علم نہیں تھا کہ مس ریڈلی یہ دھماکہ کرنے جا رہی ہیں۔

اور عافیہ کے گھر والوں نے بھی مس ریڈلی کے اس انکشاف کے بعد یہ نہیں بتایا کہ عافیہ اس سے کئی ماہ قبل ان سے مل کر جا چکی ہے اور وہ اب خود صالحی یا کسی اور نام سے افغانستان جانے کی کوششں کر رہی ہے تاکہ ایجنسیوں کے چنگل سے بچ کر "ان" کی پناہ حاصل کر سکے جو اسے ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار نہیں کروائیں گے۔

* بہرحال، مس ریڈلی نے ایک بار پھر قیدی نمبر 650 کے حوالے سے اپنے موقف میں تبدیلی کی ہے۔ حال ہی میں "محمد بنیامین" نامی ایک شخص بگرام سے رہا ہوا ہے اور اسکے حوالے سے مس ریڈلی پھر یہ دعوی کر رہی ہیں کہ عافیہ ہی قیدی نمبر 650 ہیں۔" عافیہ کی والدہ بھی اس محمد بنیامین کا ذکر امت اخبار کو بھیجے جانے والے فیکس میں کر رہی ہیں۔ مگر مسئلہ صرف یہ ہے کہ عافیہ کے ماموں کے بیان کے مطابق یہ ہونا مشکل ہے کیونکہ عافیہ 2007 سے ہی لاہور میں مقیم ہے۔
بنیامن کی خبر کا لنک

یہ تھی ابتک کی روئیداد۔ بہت سے پہلو ایسے ہوں گے جن پر میری نظر نہیں پڑی ہو گی۔ آپ لوگ ان پہلوؤں پر چاہیں تو روشنی ڈال سکتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
عافیہ کے بچوں کے حوالے سے عافیہ کے بیانات پر اعتراضات

عافیہ کے ماموں کا کہنا ہے کہ عافیہ اغوا ہونے بعد سے لیکر انکے پاس آنے تک بچوں سے نہیں ملی۔

* مگر ہمارے پاس عافیہ کا یہ بیان بھی ہے کہ احمد اسکا بیٹا نہیں بلکہ وہ یتیم لڑکا ہے۔ تو عافیہ کے اس بیان کو اس تصویر میں کیسے فٹ کیا جائے؟

* پھر سوال یہ بھی ہے کہ عافیہ کو اس بچے کو گود لینے اور پالنے کا موقع کب ملا؟ جیل میں تو وہ بطور قیدی نمبر 650 اکیلی تھی۔ یہ چیز بھی تصویر میں فٹ نہیں ہو رہی۔

* پھر امریکہ ڈی این اے ٹیسٹ کرواتا ہے اور اس میں احمد عافیہ کا ہی بیٹا ثابت ہوتا ہے۔

* اور اب عافیہ کی فیملی نے بھی احمد کو عافیہ کا بیٹا مان لیا۔

اور پھر عافیہ کا یہ بیان کیسے تصویر میں فٹ ہو گا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کا اتا پتا اس لیے نہیں بتا رہی ہیں کیونکہ اس سے انکی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسکا واحد مطلب یہ ہے کہ یہ صرف عافیہ ہی ہیں جنہیں اپنے بچوں کا اتا پتا معلوم ہے۔
http://www.dawn.com/2008/08/16/top14.htm

attorney mum on aafia’s children whereabouts

by masood haider

new york, aug 15: Elizabeth fink, the attorney for aafia siddiqui, a pakistani woman charged by the us authorities with trying to kill us soldiers in afghanistan, says that aafia was tortured but keeps quiet on the whereabouts her children.

“the woman has been tortured,” ms fink said. “i believed she has been tortured based on my experience with people with post-traumatic stress disorder.”

on the crucial question about the whereabouts of ms siddiqui’s three children whose custody is being sought by pakistani authorities, ms fink refused to comment suggesting that some issues could not be shared with the press.

When pakistani consular officers met ms siddiqui last saturday another defence attorney, gideon oliver, asked ms siddiqui not to speak about her children.

Later talking to dawn he confirmed that he had stopped ms siddiqui from revealing any information about her children to pakistani authorities.

Pakistan’s deputy consul general saqib rauf also said that ms siddiqui wanted to speak about her children but was restrained under advice of her counsel. “she kept on asking after the welfare of her mother and wanted to know about the political conditions in the country”, he said.

* پھر یہ بات کیسے تصویر میں فٹ ہو گی کہ احمد نے اپنی ماں کو بطور "صالحہ" پہچانتا ہے؟ [عافیہ کے ماموں کے مطابق احمد کبھی اپنی ماں سے نہیں ملا]

* پھر سوال ہے کہ احمد کو ابھی تک احمد کے باپ کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا؟ یقینی طور پر اسلامی اور قانونی طور پر احمد کو فورا ڈاکٹر امجد کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا اور اس میں کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔

ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ اگر احمد انکے پاس آ جائے تو وہ عافیہ کی فیملی کے تمام تر جھوٹی باتوں کو طشت از بام کر سکتا ہے اور بتا سکتا ہے کہ وہ صالحہ نامی عورت کے ساتھ رہ رہا تھا یا پھر جیل میں تھا۔
 

خرم

محفلین
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت مخالف جذبات ابھارنے تھے سو اس کہانی کے چند ایک سچے رنگوں میں کئی جھوٹے رنگ بھر کے اسے مارکیٹ کردیا گیا۔ اب آپ لاکھ سر پٹختی رہیں، گیا وقت واپس نہیں‌آنے کا۔ اب نہ کسی کو ڈاکٹر عافیہ یاد ہیں اور نہ کوئی کہانی اخباروں میں گردش کرتی ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس سارے معاملے سے کوئی دلچسپی رہ گئی ہے۔ رات گئی بات گئی والی بات ہے بہنا :)
 

arifkarim

معطل
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت مخالف جذبات ابھارنے تھے سو اس کہانی کے چند ایک سچے رنگوں میں کئی جھوٹے رنگ بھر کے اسے مارکیٹ کردیا گیا۔ اب آپ لاکھ سر پٹختی رہیں، گیا وقت واپس نہیں‌آنے کا۔ اب نہ کسی کو ڈاکٹر عافیہ یاد ہیں اور نہ کوئی کہانی اخباروں میں گردش کرتی ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس سارے معاملے سے کوئی دلچسپی رہ گئی ہے۔ رات گئی بات گئی والی بات ہے بہنا :)

سب سیاست ہے۔ انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے!
 

زین

لائبریرین
سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں

ميں نے اسی فورم پر مندرجہ ذيل تھريڈ ميں ڈاکٹر عافيہ صدیقی کے بيٹے کے حوالے سے ان کی فيملی کو بھيجے جانے والے ايک خط کو پوسٹ کيا تھا اور اس کے کچھ حصوں کو پوشيدہ رکھنے کی يہ وجہ بيان کی تھی

"اس خط کے جن حصوں کو پوشيدہ رکھا گیا ہے اس کی وجہ ايک امريکی قانون ہے جس کے تحت کسی امريکی شہری کے ذاتی کوائف اس کی مرضی کے بغير کسی پبلک فورم پر شا‏ئع نہيں کيے جا سکتے"۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=329029#post329029

يہی اصول اور قانون مجھے اس بات کی اجازت نہيں ديتا کہ ميں اصل قيدی نمبر 650 کی شناخت يا محل وقوع يہاں پر پوسٹ کروں۔ يہ ان کی اپنی حفاظت کو يقينی بنانے کے لیے ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov


برطانوی صحافی مریم نے آج اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی تھیں ۔

یہ رہی خبر ۔
معروف غیر ملکی مسلم صحافی ایوان ریڈلے (مریم) نے واضح کیا ہے کہ بگرام جیل میں مقید قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی تھیں اس بات کا انکشاف امریکی صدر بارک اوباما کے عہدہ سنبھالنے کے بعدہونے رہا والے بنیام محمد نے کیا ہے ۔ اتوار کو نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحافی نے کہا کہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی تھی ۔ اس کا انکشاف امریکی صدر اوباما کی جانب سے گوانتاناموبے سے رہا کئے جانے والے قیدیوں میں سب سے پہلے قیدی بنیام محمد نے بتائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیام محمد نے کہا کہ اس کو سو فیصد یقین ہے کہ قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق افغان سفیر برائے پاکستان ڈاکٹر غیرت بیگ نے بھی اس قسم کا آنکھوں دیکھا انکشاف میرے سامنے بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پاس موجود ثبوت ایک واضح خاکہ ترتیب دے رہے ہیںجن کی بنا پر وہ نئی امریکی انتظامیہ کو چیلنج کرتی ہیں کہ وہ اپنی موجودہ روش ترک کر دے۔
انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے سابق شوہر کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ کے چہرے کے زخموں پر مبنی فوٹو کے حوالے سے ان کے بیان کو بھی مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اس کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ غزنی کے گورنر نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یہ تصاویر جولائی 2008ءمیںڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کے دوران لئے گئے تھے میرے پاس غزنی کے گورنر کے اس بیان کی باقاعدہ ویڈیو موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا سابق شوہر جھوٹ بول رہا ہے اگر وہ سچا ہے تو وہ مجھے عدالت میںچیلنج کرے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کا موجودہ دورہ پاکستان ایک برطانوی غیر سرکاری تنظیم مسلم چیریٹی کی دعوت پر ہے جس دوران انہوں نے شیر گڑھ میں قائم مہاجرین کے کیمپ کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تین ملین سے زائد متاثرین غلط امریکی خارجہ پالیسیوں کی بناءپر اس جنگ کا نشانہ بنے ہیں اور ان کی تکالیف دیکھ کر انہیں افسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ لوگ جو امریکی پالیسی سے ناخوش ہیں یا موجودہ فوجی آپریشن کو پسند نہیں کرتے انہوں نے دفاعی انداز اختیار کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی وہ اس ضمن میں ایک لانگ مارچ کی طرز کے مارچ کا اعلان بھی کرنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی شدید حیرت ہے کہ صرف 10 سے 15ہزار افراد کےلئے 30لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا گیا۔ ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کی مذمت نہیں کرتی کیونکہ طالبان میں مختلف گروہ موجود ہیں جن میں ریاست و ملک دشمن گروہ اور جرائم پیشہ افراد بھی موجود ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

برطانوی صحافی مریم نے آج اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی تھیں ۔

۔


صحافی ايوان ريڈلی کے تازہ بيان سے ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے ميرے نقطہ نظر کی تائيد ہو جاتی ہے۔ ميڈيا اور کچھ افراد ادھوری معلومات اور مشکوک ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کی بنياد پر بيانات اور کہانياں تخليق کر رہے ہيں۔ ان کہانیوں کو حقائق کا درجہ دے کر جذبات کا اظہار دانشمندی نہيں ہے۔

قیدی نمبر 650 کے حوالے سے ايوان ريڈلی نے تيسری مرتبہ اپنی کہانی ميں ترميم يا ردوبدل کيا ہے۔ اس کے مقابلے ميں امريکی حکومت نے تسلسل کے ساتھ اس موقف کو دوہرايا ہے کہ افغانستان ميں جولائ 2008 ميں ان کی گرفتاری سے قبل وہ امريکی تحويل ميں نہيں تھيں۔ ہميں اپنی کہانی ميں ايک بار بھی تبديلی نہيں کرنا پڑی کيونکہ يہ حقائق پر مبنی ہے۔

کيا يہ بہتر نہيں کہ ہر مرتبہ کسی نہيں معلومات يا بيان کو بنياد بنا کر سياسی مقاصد کے ليے ايک نئ تھيوری پيش کرنے کی بجائے عدالت کو سچ جانچنے کا موقع ديا جائے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
کيا يہ بہتر نہيں کہ ہر مرتبہ کسی نہيں معلومات يا بيان کو بنياد بنا کر سياسی مقاصد کے ليے ايک نئ تھيوری پيش کرنے کی بجائے عدالت کو سچ جانچنے کا موقع ديا جائے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

عدالتیں اگر سچ بولتی ہوتیں‌ تو آج تمام سابقہ امریکی صدر جیل میں‌ہوتے! :rollingonthefloor:
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

عدالتیں اگر سچ بولتی ہوتیں‌ تو آج تمام سابقہ امریکی صدر جیل میں‌ہوتے! :rollingonthefloor:


اگر امريکی صدر اتنا طاقت ور اور بااثر ہے کہ دنيا کے کسی بھی ملک کے سياسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو تبديل کر سکتا ہے تو تصور کريں کہ امريکی حکومت اور امريکی صدر کی طاقت اور اثر رسوخ امريکہ کے اندر کتنا زيادہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ طاقت اور اختيارات کا آغاز تو آپ کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ اس مفروضے کے پيش نظر تو امريکی صدر کے اختيارات اور پاليسيوں کو امريکہ کے اندر چيلنج کرنا ناممکن ہونا چاہيے۔ ظاہر ہے کہ جو صدر اور اس کی انٹيلی جينس ايجنسياں دنيا کے کسی بھی ملک کی تقدير بدل سکتی ہيں ان کی موجودگی ميں امريکہ کے اندر کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب يا اس صدر کی کسی پاليسی سے اختلاف ناممکن ہونا چاہيے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ حقيقت يہ نہيں ہے۔ آپ امريکہ کی تاريخ اٹھا کے ديکھ ليں،امريکی صدور نے انتخابات ميں شکست بھی کھائ ہے اور آپ کو ايسے انگنت کيس مليں گے جس ميں امريکی صدر سميت انتہائ اہم اہلکاروں کو نہ صرف يہ کہ احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا بلکہ عدالت کے سامنے پيش ہو کر اپنے اقدامات کی وضاحت بھی پيش کرنا پڑی۔

حقيقت يہ ہے کہ امريکی حکومت اپنے ہر عمل کے ليے جواب دہ ہے۔ امريکہ کا آئين اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ طاقت اور اختيارات محض چند ہاتھوں تک محدود نہ رہيں۔

جہاں تک امريکی عدالتوں اور امريکی نظام انصاف کے حوالے سے آپ کی رائے ہے تو ميں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے مسلم، عرب، مشرق وسطی اور ايشيا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف تشدد کے واقعات کے ضمن ميں قريب 800 واقعات کی تحقيقات کروائ۔ اب تک ان ميں 48 ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوئ ہے اور 41 افراد کو سزائيں بھی دی جا چکی ہيں۔ 911 کے واقعے کے بعد جسٹس ڈيپارٹمنٹ نے تعصب پر مبنی واقعات ميں اسٹيٹ اور مقامی انتظاميہ کی مدد سے 160 مقدمات درج کيے ہيں۔

آپ اس بارے ميں تفصيلات اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1234963&da=y


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
فؤاد آپ‌ہمہ تن وقت امریکیوں اور امریکا کی پالیسیوں کا دفاع کرتے نظر آتے‌ ہیں۔ میرے پاس بحث کرنے وقت اور نہ ہی موڈ ہے اور اس میں فائدہ بھی نہیں۔ بات یہ ہے‌ کہ امریکہ کی عوام کے ساتھ ہماری کوئی دشمنی نہیں بلکہ وہ اقوام عالم میں ایک محترم قوم ہے۔ لیکن امریکہ کی پالیسیوں کی ہم عوام الناس شدید مخالفت کرتے ہیں۔ بے‌جا مداخلت اور ہر قوم کے معاملات میں‌ دخل اندازی اور اپنے آپ کو دوسروں پر مسلط کرنا یہ اچھی حکومتوں‌ کا شیوہ نہیں۔ ارے یار اپنا کام کرو اور دوسروں کو کرنے دو۔ خوامخواہ دشمنیاں‌ مول لینا کہاں‌ کی عقل مندی ہے۔ سپر پاور کے زعم میں دندناتے پھرنا !! کب تک؟ دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں۔ رومی فارسی مسلمان اور نہ ہی صلیبی قوتوں نے تا ابد حکومتیں کی ہیں۔ ان تمام نا انصافیوں کا ایک دن امریکیوں کو چکانا ہوگا۔ تاریخ سے سیکھ‌ لیں تو ان کے لئے بہتر ہے۔ اندھا دھند طاقت کے استعمال کا انجام بھی اندھا دھند ہی ہوتا ہے۔ ایک دن انصاف ہوگا۔ اور عدل کے‌ کٹھہرے میں صلیبیں لٹکتی ہوئی نظر آئیں‌ گی۔ خدا جو پہلے تھا وہی آج ہے۔‌ اور وہ نا انصافی نہیں‌ کرتا۔ امریکہ کا اندرونی نظام اچھا ہے۔ اور یہی انکی ایک خوبی ہے۔
 

arifkarim

معطل
امریکہ کا اندرونی نظام اچھا ہے۔ اور یہی انکی ایک خوبی ہے۔

امریکہ کا اندرونی نظام صرف "امیروں" کیلئے اچھا ہے۔ ذرا امریکہ کے سلم علاقوں کا جائزہ لیں تو افریقہ سے بھی بد تر نظر آئیں گے۔
2 ملین سے زائد امریکی جیلوں‌میں‌ہیں۔ پوری قوم کھرب ہا کھرب ڈالرز کے کریڈس میں‌مقروض ہے۔ ڈالرز کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے۔۔۔۔ یہی انکی خوبی ہے۔۔۔:grin:
 
اندرونی نظام سے‌ مراد بظاہر جو عدل وانصاف نظر آتا ہے۔ ورنہ گوانتاناموبے تو ان کی انصاف پسندی کی بڑی اعلی دلیل ہے:rolleyes:
 

مہوش علی

لائبریرین
Aafia Siddiqui to appear in New York court Friday

http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-c...-friday--il--04

By Masood Haider
Thursday, 25 Jun, 2009 | 07:48 PM PST |

NEW YORK: Aafia Siddiqui, a Pakistani national indicted in the US on terrorism charges, last August is unable to account for five years of her life and this may have an adverse affect on Islamabad’s efforts to get her released, according to experts here.

Ms Siddiqui, a neuroscientist and an alumna of MIT and Barandeis universities, is scheduled to appear before a US court in New York on Friday.

Last November defense lawyers claimed that Siddiqui who was undergoing court ordered Psychiatric tests was unfit to stand trial.

The psychiatric examination was conducted at a medical centre in Fort Worth Texas.

But on March 26 this year, US prosecutors submitted documents to the trial court stating that two independent government psychiatrists had determined that Siddiqui was ‘malingering’ or faking her symptoms of mental illness. The judge, Richard M. Berman, scheduled a hearing for June one to determine Siddiqui’s competency and set a tentative trial date for July 6.

According to another report the US Federal Bureau of Investigation has been approached by Pakistan’s Federal Investigation Agency for access to Dr Aafia Siddiqui to investigate her alleged links with any terror network.

FIA Director General Tariq Khosa called for a probe against Siddiqui’s ex-husband, Mohammad Amjad Khan ‘to get vital information,’ a report in this newspaper said.

A source claimed that FIA staff had also sought an interview with one of the Pakistani senators, who recently met Dr Siddiqui in the United States.

An Islamic charity organization reported recently it has collected some $70,000 for the defense fund of Ms. Siddiqu

Pakistan’s US Ambassador Husain Haqqani met with Ms Siddiqui two weeks ago, according to a report.
 
Top