[quote=
فاروق امریکہ میں لاکھ قانون کی حکمرانی ہو ہمیں اعتراض نہیں امریکہ قبائلی عالاقوں میں کیا لینے آیا ہے آپ نے خوکش حملوں کی بات کی ہے دوست بات یہ کہ جب ساری طاقت آپ کسی پر صرف کر دوگے تو مزاحمت بھی شدید ہوگئی جب مزاحمت کار آپ کی فضائی طاقت اورزمینی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکیںگے تو مزاحمت کا سستا ذریعہ تلاش کر یں گے خودکش حملے اس وقت دنیا کا سب سے سستا اور سب سے مہلک ہتھیار ہے آپ مزاحمت کاروں سے میدان میں آکر لڑیئں تو مزاحمت کار جواب دیں گے جب آپ انہیں فضا سے ماریںگے تو وہ اپنے غصے کا اظہار نہیں کر سکیں گے پھر وہ طریقہ اپنایا جائے گا جس سے نقصان زیادہ اور سرمایہ کاری کم ہو آج امریکہ جنگ کو فضائی قوت کی بنیاد پر سو فیصد کامیابی پر لے گیا اور جنگ کا اہم عنصر( رسک( انتہائی کم ہو گیا ہےا س کے مقابلے میں مزاحمت کاروں نے سو فیصد رسک کی بنیاد پر جنگی حکمت عملی بنا لی ہے جنگ میدان میں ہوتی ہے مگر امریکہ نے اسے ویڈیو گیم بنا دیا ہے بٹن دبایا اور کام تمام امریکہ بند کمروں میں بیٹھ کر لاکھ جتن کر لے حنگی حکمت عملی کا توڑ میدان میں کیا جاتا ہے بند کمروں میں نہیں مزاحمت کاروں کی جنگی حکمت عملی کا امریکہ توڑ نہیں کر سکا گوریلا جنگ ہمیشہ انتہائی طاقت ور دشمن کے مقابلے میں کمزور مزاحمت سے جنم لیتی ہے دوسری بات آپ کو خود کش حملوں کی تاریخ کا علم نہیں یہ آج سے ساڑے سات سو سال قبل حسن بن صبا کے فدائوں سے شروع ہوئے تھے اور دنیا میں اس وقت سے لیے کر آج تک کہیں نہ کہیں موجود ہیں یہ القاعدہ اورطالبان کی ایجاد نہیں اگر یہ اتنے جنگی ماہر ہوتے تو امریکہ آ ج اپنا سر پیٹ رہا ہوتا اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہو یہ خادم حاضر ہے
بھائی جی،
امریکہ کو خود آپ کے مجاہدین [القاعدہ و طالبان] نے اپنی حماقتوں و جہالت سے موقع دیا ہ [یا پھر شاید مجبور کیا ہے] کہ وہ افغانستان میں آئے۔
1۔ آپ پہلے یہ سوچیں کہ طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ امریکی اسلحے اور سازش کے بھروسے اپنے ہی کئی لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے ہوئے افغانستان پر قابض ہو؟
2۔ پھر القاعدہ و طالبان کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں امریکی افواج کو چھوڑ کر معصوم نہتے شہریوں پر خود کش حملے کرواتے پھریں؟ [گیارہ ستمبر سے قبل ہی یہ اپنی خصلت کئی مرتبہ ظاہر کر چکے تھے اور اس درندگی کا فتوی یہ دیتے تھے کہ یہ شہری کیونکہ امریکہ کو ٹیکس دیتے ہیں اس لیے انہیں مارنا جائز ہے۔
3۔ اور اگر آج امریکہ افغانستان میں موجود ہے تو آپ لوگ ہزار چیختے رہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی اکثریت طالبان سے چھٹکارا چاہتی ہے اور ایک جمہوری حکومت کے خواب دیکھتی ہے کہ جہاں اسے طالبان اور دیگر مجاہد تنظیموں اور وار لارڈز سے نجات حاصل ہو، اور اسی لیے امریکہ کے تحت منعقد شدہ الیکشنز میں عوام کی اکثریت نے طالبانی دھمکیوں کے باوجود حصہ لیا اور اپنے پسندیدہ نمائندے مقرر کیے۔
تو اب آپ پھر ہزار چیختے رہیں، مگر دنیا کے نزدیک امریکہ کی افغانستان میں موجودگی بالکل جائز ہے۔
اور اس جواز کی دوسری اہم وجہ القاعدہ و طالبان کی دہشت گرد کاروائیاں ہیں جس میں وہ دوسرے ممالک میں معصوم نہتے شہریوں کا بھی قتل عام کرنے میں کچھ نہیں جھجھکتے۔ اور یہ وہ جواز ہے کہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا امریکہ کے ساتھ ہو گی کہ وہ اپنی افواج افغانستان میں بسائے رکھے۔
4۔ اور خود کش حملوں کے لیے آپ جتنی مرضی دلائل پیش کر دیں، مگر اس سے آپ کچھ ثابت نہیں کر پائیں گے، اور جب جوابی دلائل دیے جائیں گے تو آپ پھر ان دلائل سے فرار حاصل کریں گے۔
/۔اسلام نے اسی لیے کھل کر ان خود کش حملوں کو شروع سے ہی
تاقیامت حرام قرار دے دیا ہے۔
/۔ آج جو امریکا ہم سے اتنا آگے ہے اسکا جواب ہرگز ہرگز خود کش حملے نہیں ہیں، بلکہ وہ علم کے میدان میں آگے پہنچا ہے اور جبتک ہم اس علم کے میدان میں پیچھے رہیں گے اُسوقت تک کسی صورت ممکن نہیں کہ ان خود کش حملوں سے علم کی میدان کا یہ گڑھا پاٹ سکیں۔
/۔ اور یاد رکھئیے، اسلام نے حالات کے مطابق کبھی براہ راست جہاد بالسیف پر صبر اور جہاد بالشعور کو ترجیح دی ہے۔
اسکی وجہ بالکل صاف ہے اور وہ یہ کہ آپ یہ خود کش حملے اپنی ہی معصوم نہتی عوام کو یرغمال اور ڈھال بنا کر کر رہے ہیں اور حملے کرنے کے بعد انہی کے پیچھے جا کر چھپ جاتے ہیں۔
اور عالمی انسانی ضمیر امریکا جیسی بڑی طاقتوں کو ابھی تک روکے ہوئے ہے کہ جوابا امریکہ "کھل" کر ان معصوموں کی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ان خود کش حملہ آوروں پر حملہ نہ کرے، چاہے اس سے امریکا کا زیادہ نقصان ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔
مگر یہ عالمی انسانی ضمیر آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور امریکا اور بقیہ پوری دنیا میں موجود انتہا پسند مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ دن دور نہیں جب یہ عالمی انسانی ضمیر ان انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہار جائے گا اور اس دن امریکی طیارے "کبھی کبھار" نہیں بلکہ "کھل" کر اور بغیر کسی پرواہ کے آپکی معصوم نہتی شہری آبادی پر حملہ کر رہے ہوں گے اور طالبان پہلے کی پھر ان معصوم عوام کو خاک و خون میں لت پت ہونے کے لیے اکیلا چھوڑ کر خود پہاڑوں میں فرار ہوتے پھر رہے ہوں گے۔
اور اسرائیل کی مثال سامنے ہے۔ میرے دل کو یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے بہت درد ہوتا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ بغیر بتائے چارہ بھی نہیں کہ ادھر کچھ لوگ ہیں جو آنکھیں کھولنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
/۔ ذرا ہمت کر کے یہ بتا دیں کہ حماس نے اسرائیل میں آخری خود کش حملہ کب کیا تھا؟
/۔ اور اگر پچھلے اتنے سارے عرصے میں خود کش حملہ نہیں کیا تو اسکی وجوہات کیا ہیں؟
دیکھئیے، ان خود کش حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں عالمی انسانی ضمیر کمزور پڑا اور اسرائیل کو موقع مل گیا کہ وہ قوت استعمال کرتے ہوئے اور بغیر شہری آبادی کی پرواہ کیے ہوئے اپنی کاروائیاں کر سکے۔ اور اسرائیل میں سب سے پہلے انتہا پسند مضبوط ہو کر حکومت میں آئے، اور پھر انہوں نے ہر روز فلسطین پر بمباری کی اور آپکے خود کش حملہ آور کچھ نہ کر سکے۔
اور چونکہ ان اسرائیل انتہا پسند حکومت کے اقدامات سے خود کش حملے رک گئے، تو اس سے یہ انتہا پسند لوگ بمقابلہ انسان دوست قوتوں کے [جو طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتیں] اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔
امکان برادر،
یہ وہ حقیقت ہے جو بہتر ہے کہ نہ بھولی جائے۔ طالبان خود کش حملہ آور اسی روڈ میپ پر چل رہے ہیں۔ اسی لیے امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجیں رکھنے کو مزید اور مزید جواز ملتا جا رہا ہے۔ اور چونکہ حملہ آور پاکستانی سرحدوں کے اندر سے کاروائیاں کر رہے ہیں، اس لیے امریکہ کو یہ جواز بھی ملتا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان کے اندر تک پھیلا دے۔
اور آپ لوگ اپنے تمام تر احتجاج کے باوجود دنیا میں اپنا مقام کھوتے جا رہے ہیں اور دنیا کا کوئی ملک آپ کی مدد کے لیے تیار نہیں۔
ذرا سوچئیے کہ واقعی یہ خود کش حملے ہی آج کی ضرورت ہیں؟ اور یہ خود کش حملے ہمیں کہاں لے جا سکتے ہیں۔
///////////////////////////////////////////
اور طالبان ان فدائی حملے کرنے میں حسن بن صباح کی سنت کی پیروی نہیں کر رہے [میری تحقیق کے مطابق حسن بن صباح ایک تاریخی حقیقت نہیں بلکہ افسانوی کردار ہے]۔۔۔۔۔۔ بلکہ اسلامی تاریخ میں کسی مسلم گروہ کی جانب سے سب سے پہلا فدائی خود کش حملہ ابن ملجم خارجی نے خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب پر کیا تھا، اور آج طالبان اسی کی سنت پر عمل کر رہے ہیں
////////////////////////////////////
نوٹ:
میدان جنگ میں جب دو افواج آپس میں برسرپیکار ہیں تو اس وقت دشمن فوج کو خود کش حملے سے نقصان پہنچانا الگ چیز ہے، اور معصوم نہتے شہریوں کو خود کش حملوں سے یہ بہانہ کرتے ہوئے قتل کرنا کہ وہ دشمن حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، یہ الگ چیز ہے۔ براہ مہربانی ان دو چیزوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کر کے عوام کو بہکایا نہ جائے۔