Fawad -

محفلین
آپ بیشک سفارتی تعلقات رکھیں، لیکن ڈکٹیرز کو تو سپورٹ نہ کریں۔ مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے بعد واحد قدرے جمہوری ملک ایران ہے اور سے آپ کے سفارتی تعلقات کیسے ہیں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ ہم يقينی طور پر جمہوريت کو بہترين نظام حکومت سمجھتے ہيں اور دنيا بھر ميں اس کا پرچار بھی کرتے ہيں کيونکہ ہم اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ دنيا بھر ميں عام انسانوں کے خوابوں کو حقيقت بنانے کے ليے يہی بہترين لائحہ عمل ہے۔ ليکن يہ ہر قوم پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے نظام حکومت اور قائدين کو ترجيح ديتے ہيں۔ امريکی حکومت پوری دنيا پر اپنی قدريں مسلط نہيں کر سکتی۔ اس قسم کی مہم جوئ کے ليے نا تو ہمارے پاس وسائل ہيں اور نا ہی ہماری ايسی کوئ خواہش ہے۔

يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امريکہ اور دنيا کے کسی بھی ملک کے درميان تعلقات کا انحصار بہت سارے عوامل پر ہوتا ہے جس ميں باہمی دلچسپی کے امور اور مخصوص معاملات پر پاليسی ساز فيصلے بھی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ جمہوريت يا آمريت سميت کسی مخصوص نظام حکومت کی موجودگی سفارتی تعلقات کی نوعيت پر اثرانداز ضرور ہوتی ہے ليکن يہ فيصلہ کن يا حتمی کردار ادا نہيں کرتی۔

ايران کے معاملے ميں عمومی طور پر جس نقطے کو نظرانداز کيا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ ايشو امريکہ اور ايران کے مابين تعلقات کی نوعيت نہيں ہے۔ امريکہ اور ايران کے مابين سفارتی تعلقات ميں تعطل اور سردمہری کی بڑی وجہ ايرانی حکومت کی سرکاری سطح پر تسليم شدہ جارح خواہشات اور پرتشدد سوچ رہی ہے۔ ميں آپ کو ياد کروا دوں کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات اس وقت کشيدہ ہوئے تھے جب ايران نے ہمارے بےشمار سفارت کاروں کو يرغمال بنا ليا تھا۔

ايران کے ايٹمی پروگرام اور جنگی جنون کے حوالے سے تحفظات اور خدشات صرف امريکہ تک محدود نہيں ہيں۔ اقوام متحدہ سميت بے شمار ممالک نے اس معاملے پر ہمارے موقف کی تائيد کی ہے۔

حتمی نقطہ يہ ہے کہ ايران ميں نظام حکومت کشيدہ تعلقات اور سفارتی سردمہری کی وجہ نہيں ہے۔جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عمراعظم

محفلین
بقول آپکے مسٹر Fawad - ایران کے ایٹمی پروگرام اور جنگی جنون کے باعث امریکہ کو تحفظات لا حق ہیں۔
اسرائیل کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیتے جناب۔
 

Fawad -

محفلین
بقول آپکے مسٹر Fawad - ایران کے ایٹمی پروگرام اور جنگی جنون کے باعث امریکہ کو تحفظات لا حق ہیں۔
اسرائیل کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیتے جناب۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ ايران وہ واحد ملک نہيں ہے جو ايٹمی ثيکنالوجی کے حصول کے ليے کوشاں ہے۔ ليکن امريکہ سميت تمام فريقين کا عالمی سطح پر خدشات اور تحفظات کا اظہار، ايران کے مشکوک اور غير متوازن پاليسی بيانات، ان دستخط شدہ عالمی معاہدوں، قواعد وضوابط سے انحراف اور اپنے ہمسايہ ممالک کی جانب ذمہ دارانہ رويے کے فقدان کے تناظر ميں ہے۔ اس کے ساتھ اگر آپ تمام عالمی فورمز پر ايران کے مسلسل جارحانہ رويے اور جنگی جنون کے اظہار پر نظر ڈاليں تو ان خدشات کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے جو ايران کے ايٹمی ہتھياروں کے حوالے سے عالمی سطح پر پائے جاتے ہيں۔

امريکی حکومت اس حقيقت سے پوری طرح آشنا ہے کہ ايٹمی ہتھياروں ميں کمی کی کوششوں کو کاميابی سے ہمکنار کرنے کے ليے موجود ہتھياروں کی تعداد کے حوالے سے مزيد شفافيت کی ضرورت ہے۔ يہ عمل اس ليے بھی ضروری ہے تا کہ "نيو سٹارٹ ٹريٹی" ميں شموليت کے بعد تمام تر ايٹمی ہتھياروں ميں کمی کے مراحل کو طے کيا جا سکے۔ اس ميں ہر طرح کے ايٹمی ہتھيار شامل ہيں، خواہ وہ ذخيرہ شدہ ہوں يا دفاعی تياری اور حکمت عملی کا حصہ۔

امريکی حکومت اس بات پر يقین رکھتی ہے کہ طاقت کا استعمال يا فوجی کاروائ اس مسلہ کا بہترين حل نہيں ہے ليکن تمام ممکنہ آپشن کھلے ہيں۔

صدر اوبامہ نے بھی اپنے حاليہ بيان ميں اس موقف کا اعادہ کيا ہے

"اگر ہم اس مسلئے کو سفارتی سطح پر حل کر سکيں تو يقينی طور پر يہ زيادہ ديرپا حل ہو گا۔ ميں نے يہ بھی کہا ہے کہ ابھی راستہ کھلا ہے جو کہ لامحدود مدت کے ليے نہيں ہے۔ لیکن اس مدت کے اندر سفارتی طريقے سے اس مسلئے کو حل کيا جا سکتا ہے جو کہ سب کے مفاد ميں ہے۔ ايران ابھی اس مقام پر نہيں پہنچا کہ جہاں پر عالمی برادری کو مدنظر رکھتے ہوئے بنيادی طور پر درست فيصلہ کرنا ہو گا۔ ميری سوچ يہ ہے کہ انھيں اس بات کا ادراک ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہيں اگر اسی پر گامزن رہے تو اس کی ايک بھاری قيمت ہے اور ايک متبادل راستہ موجود ہے۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
ايران کے معاملے ميں عمومی طور پر جس نقطے کو نظرانداز کيا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ ايشو امريکہ اور ايران کے مابين تعلقات کی نوعيت نہيں ہے۔ امريکہ اور ايران کے مابين سفارتی تعلقات ميں تعطل اور سردمہری کی بڑی وجہ ايرانی حکومت کی سرکاری سطح پر تسليم شدہ جارح خواہشات اور پرتشدد سوچ رہی ہے۔ ميں آپ کو ياد کروا دوں کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات اس وقت کشيدہ ہوئے تھے جب ايران نے ہمارے بےشمار سفارت کاروں کو يرغمال بنا ليا تھا۔
ايران کے ايٹمی پروگرام اور جنگی جنون کے حوالے سے تحفظات اور خدشات صرف امريکہ تک محدود نہيں ہيں۔ اقوام متحدہ سميت بے شمار ممالک نے اس معاملے پر ہمارے موقف کی تائيد کی ہے۔

حتمی نقطہ يہ ہے کہ ايران ميں نظام حکومت کشيدہ تعلقات اور سفارتی سردمہری کی وجہ نہيں ہے۔جہاں امريکہ کے ايسے ممالک سے روابط رہے ہيں جہاں آمريت ہے، وہاں ايسے بھی بہت سے ممالک ہيں جہاں جمہوريت يا اور کوئ اور نظام حکومت ہے۔
جب آپ کسی ملک کی "منتخب حکومت" کو گرا کے ایک ظالم بادشاہ کو حکومت دے دیں گے تو وہ ایسا تو کریں گے ہی

https://en.wikipedia.org/wiki/1953_Iranian_coup_d'état
 

Fawad -

محفلین
تو یہ کیسی منطق تھی کہ جیسے ہی ہماری فوج تختہ الٹتی امریکہ پابندیاں ٹھونک دیتا اور خوش قسمتی سے تینوں بار جب پابندیاں لگائی مجبوری آن کھڑی ہوئی اور امریکہ کو انہی کو کاندھے پر اٹھانا پڑا جن پر پابندیاں لگائی تھیں
ایوب خان پابندیاں - سرد جنگ کی ضرورت = پابندیاں ختم
ضیا مارشل لاء - افغان جنگ = پابندیاں ختم
مشرف مارشل لاء - پابندیاں = 11-9 پابندیاں ختم


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ شايد بھول رہے ہيں کہ حاليہ برسوں ميں جب ملک ميں منتخب جمہوری حکومت تھی تو پاکستان کو سب سے زيادہ فوجی اور سول امداد امريکہ سے ہی ملی تھی۔ اس ميں فوجی امداد کے علاوہ لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔ اس کی تفصيل بھی بارہا فورمز پر پيش کی جا چکی ہے۔

چاہے وہ سال 2010 ميں سيلاب کی تباہکاريوں سے نبردآزما ہونے کے ليے بے مثال امريکی تعاون ہو، دونوں ممالک کے درميان طويل المدت بنيادوں پر اسٹريجک تعلقات کو مضبوط بنانے کے ليے کيری لوگر بل کی منظوری ہو يا پاکستان کے عوام کی بہتری کے ليے يو ايس ايڈ کے تعاون سے جاری درجنوں منصوبے ہوں – کوئ بھی غير جانب دار تبصرہ نگار يہ ديکھ سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت جس نے اپنی مدت پوری کی ہے اس کی کاميابی کے ليے دنيا ميں امريکہ سے زيادہ کسی اور ملک نے مدد فراہم نہيں کی ہے۔

اگر آپ ماضی کے اوراق بھی پلٹ کر ديکھيں تو حقائق اور اعداد وشمار کی روشنی ميں يہ تاثر بالکل غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان کی امداد صرف اسی وقت کرتا ہے جب يہاں پر کسی آمر کی حکومت ہوتی ہے اور جمہوری حکومت کے دور ميں پاکستان پر پابندياں لگا دی جاتی ہيں۔

ميں نے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے جو اعداد وشمار حاصل کيے ہيں اس کے مطابق

سال 1988 سے 1993 کے عرصے ميں جب پاکستان ميں جمہوريت بحال تھی تو امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کو اضافی 82۔2 بلين ڈالرز کی امداد تعميری کاموں کے ضمن ميں دی گئ۔ 480 ملين ڈالرز کی امداد ذرعی شعبے کی ترقی کے ليے دی گئ۔ اس عرصے ميں يو – ايس – ايڈ نے ان تمام ترقياتی پروگراموں اور منصوبوں کو جاری رکھا جو 1988 سے پہلے شروع کيے گئے تھے۔ اس کے علاوہ يو – ايس – ايڈ نے نجی سرمايہ کاری، ہاؤسنگ کے ليے قرضہ جات اور بے گھر لوگوں کی کفالت کے ليے بہت سے منصوبے شروع کيے۔

سال 1993 سے 2002 کےدرميانی عرصے ميں بہت سی غير سرکاری تنظيموں کے توسط سے ملک ميں بنيادی تعليم اور تکنيکی تعليم کے حوالے سے پی – اين – آئ کے نام سےبہت سے پراجيکٹ شروع کیے گئے جن کا محور پاکستان کے پسماندہ علاقے تھے ۔ پی – اين – آئ پروجيکٹ کی وجہ سے صوبہ سرحد ميں لڑکيوں ميں خواندگی کی شرح ميں ريکارڈ اضافہ ہوا۔ اس دوران پاکستان ميں تقريبآ 80 کے قريب غير سرکاری تنظيموں کو تکنيکی اور مالی امداد فراہم کی گئ۔

ميں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں آپ کو بتا رہا ہوں کہ امداد اور ترقياتی کاموں کے ضمن ميں حکومتوں اور بے شمار ذيلی تنظيموں کے درميان کئ سطحوں پر مسلسل ڈائيلاگ اور معاہدوں کا ايک سلسلہ ہوتاہے جو مسلسل جاری رہتا ہے۔ ملک ميں آنے والی سياسی تبديلياں عام طور پر ان رابطوں پر اثر انداز نہيں ہوتيں۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu





فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 

Fawad -

محفلین
جہاں تک اندرونی معاملات میں مداخلت کی بات ہے تو اس وقت سی آئی اے شام میں FSA کو ہتھیار پہنچانے میں مدد دے رہی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر امريکہ کسی قدرتی آفت، جارج فوج کے حملے يا ظلم وتشدد کے ردعمل ميں مشترکہ عالمی کاوش کا حصہ بنتا ہے جيسا کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان پر سويت تسلط کے بعد ہوا تو ہميں يہ کہہ کر ولن بنا ديا جاتا ہے کہ ہم کسی بيرون ملک کی خودمختاری کو پامال کر کے مداخلت کر رہے ہيں۔ ليکن اگر فريقين کے عدم تعاون کے باعث کئ دہائيوں پرانے تنازعے کے حل ميں ہم اپنا کردار ادا نہ کريں جيسے کہ کشمير کا مسلہ، تو پھر پينترا بدل کر يہ الزام دھر ديا جاتا ہے کہ ہم اپنے سياسی اثرورسوخ اور عالمی حيثيت کو بروکار نا لا کر زيادتی کے مرتکب ہو رہے ہيں۔

شام کے عوام کا ساتھ دينے کی پاداش ميں ہم پر تنقيد کرنے سے پہلے وہاں پر جاری خانہ جنگی کو بھی مدنظر رکھيں جس کی بدولت طاقت کے نشے ميں چور جابر حکمران کے ہاتھوں ہزاروں بے گناہ شہريوں کا قتل عام جاری ہے۔ ايک ايسی حکومت جو نا تو کسی عالمی قانون اور ضابطے کو خاطر ميں لا رہی ہے اور نا ہی عالمی براداری کی جانب سے اپيلوں پر کان دھر رہی ہے۔

قريب دو برس قبل جب شام کے عوام نے ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر جمہوری اصلاحات کے مطالبے کی غرض سے پرامن احتجاج کا سلسلہ شروع کيا تو وہاں کے حکمران نے لوگوں کے جائز مطالبات کو تسليم کرنے کی بجائے حزب الله اور قدس کے دہشت گردوں کے تعاون سے جبر اور تشدد کی نئ تاريخ رقم کر دی۔ ستر ہزار سے زائد بے گناہ شہريوں کا قتل اور عورتوں اور بچوں سميت لاکھوں افراد کی نقل مکانی ان بموں اور سکڈ ميزائلوں کا نتيجہ تھی جو وہاں کے اپنے حکمرانوں کے ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


اس بےمثال انسانی ظلم و تشدد کے نتيجے ميں امريکی عوام اور حکومت کے پاس اس کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا کہ وہ شام کی عوام کے اپنے بہتر مستقبل کی خواہش کے جائز اور ايک آزاد اور جمہوری حکومت کے قيام کے مطالبے کا ساتھ ديں۔ اسی موقف کا اظہار صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں بھی کيا



جيسا کہ صدر اوبامہ نے واضح کيا کہ ہم شام ميں غير مسلح اور معصوم عورتوں، مردوں اور بچوں کی حفاظت کے ليے صرف غير دفاعی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہيں، ان حالات ميں جب کہ ان کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت ان پر بموں سے حملے کر رہی ہے۔ مقصد صرف ان کی حفاظت کو يقينی بنانا ہے۔

يقينی طور پر آپ ان لوگوں کی مدد کے ليے ہميں ہدف تنقید نہيں بنا سکتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

nazar haffi

محفلین
کیا ہمارے اباو اجداد نے پاکستان اس لئے بنایاتھا کہ ہم امریکہ کے وقانین پر عمل کر کے خوشحال زندگی بسر کریں؟
کیا زندگی فقط کھناپینا اور عیش و عشرت ہی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
اگر امريکہ کسی قدرتی آفت، جارج فوج کے حملے يا ظلم وتشدد کے ردعمل ميں مشترکہ عالمی کاوش کا حصہ بنتا ہے جيسا کہ 80 کی دہائ ميں افغانستان پر سويت تسلط کے بعد ہوا تو ہميں يہ کہہ کر ولن بنا ديا جاتا ہے کہ ہم کسی بيرون ملک کی خودمختاری کو پامال کر کے مداخلت کر رہے ہيں۔

اس بےمثال انسانی ظلم و تشدد کے نتيجے ميں امريکی عوام اور حکومت کے پاس اس کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا کہ وہ شام کی عوام کے اپنے بہتر مستقبل کی خواہش کے جائز اور ايک آزاد اور جمہوری حکومت کے قيام کے مطالبے کا ساتھ ديں۔

امریکہ مقبوضہ فلسطین میں ظلم و تشدد روکنے کے لیے کب در اندازی کرے گا؟
 

سویدا

محفلین
امریکہ یا امریکی قوم سے نفرت تو بہر صورت غلط طرز عمل ہے اور صرف امریکہ ہی نہیں دنیا کی کوئی بھی قوم ، ملک یا شخصیت سے نفرت کا جذبہ اچھا نہیں تاہم امریکی پالیسی سے اختلاف رائے ضرور ہے
اور وہ صرف امریکہ ہی نہیں کوئی بھی ملک قوم یا شخص کی پالیسی سے اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن اس اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی طبقے یا مجموعی قوم سے نفرت کرنا غیر اخلاقی اور نامناسب رویہ ہے
 

Fawad -

محفلین
امریکہ مقبوضہ فلسطین میں ظلم و تشدد روکنے کے لیے کب در اندازی کرے گا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعہ کئ دہائيوں پر محيط ہے۔ اس مسلئے کے حل کے ليے عالمی برادری کی جانب سے ايک اجتماعی کوشش کی جا رہی ہے اور امريکہ اس عالمی کوشش کا حصہ ہے۔ ليکن اس مسلئے کے فيصلہ کن اور حتمی تصفيے کا اختيار امريکی حکومت کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ امريکہ وہ واحد ملک نہيں ہے جس نے اسرائيل کے وجود کو تسليم کيا ہے۔ اقوام متحدہ ميں اسرائيل ايک تسليم شدہ ملک کی حيثيت سے شامل ہے۔

سال 2002 ميں بيروت کے مقام پر عرب ليگ کے اجلاس ميں تمام ممبر ممالک کی جانب سے ايک امن معاہدہ پيش کيا گيا تھا جس ميں 20 عرب ممالک نے اسرائيل کے وجود کو تسليم کرتے ہوئے اس بات کی اہمیت پر زور ديا تھا کہ امن کے تناظر ميں اسرائيل کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

عرب ليگ ميں شامل ممالک کی لسٹ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://img40.imageshack.us/img40/7209/clipimage0021.jpg


اسرائيل اور فلسطين کے مسلئے کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور نقطہ نظر کو نہ صرف عالمی برادری ميں حمايت حاصل ہے بلکہ عرب ليگ کی جانب سے کی جانے والی امن کی کوششيں بھی اسی سمت ميں ہيں جس کے مطابق اس مسلئے کا حل دو الگ رياستوں کا قيام ہے جہاں فلسطينی اور اسرائيلی امن اور سکون کے ساتھ رہ سکيں۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امریکی سفیرکاسندھ میں۵۰ میگاواٹ متبادل توانائی منصوبے کے معاہدے پر دستخط


اسلام آباد ( ۴ستمبر ۲۰۱۳ء)___ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے آج اوورسیز پرائیویٹ انوسٹمنٹ کارپوریشن (اوپیک) کی جانب سےسفائر ونڈ پاور کمپنی کوجمپیر سندھ میں گورو-کیٹی بندر کی ونڈ کوریڈور میں۵۰ میگاواٹ بجلی کے منصوبے کیلئے دس سالہ۹۵ ملین ڈالر قرضےکےمعاہدے پر دستخط کردیئے۔ سفائر ونڈ پاور کمپنی کی جانب سے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ندیم عبداللہ نے معاہدے پر دستخط کئے۔


رچرڈ اولسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ آلودگی سے پاک قابل اعتماد بجلی کسی بھی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ نا صرف پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں اضافے بشمول متبادل ذرائع سے بجلی کے حصول کی کاوشوں کے اعانت کے حوالے سے اوپیک کے عزم کی عکاسی کرتا ہےبلکہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے معاشی استحکام اور عوام کی خوشحالی کے عزم کا اظہار ہے۔


اوپیک کی صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر الزبتھ لٹل فیلڈ نے آج واشنگٹن میں گفتگو کے دوران کہا کہ سفائر ونڈ پاور پراجیکٹ پاکستان کو ملک میں متبادل توانائی کے شعبے میں موجود وسیع مواقعوں سے فوائد اٹھانے اور بجلی کے بڑھتے ہوئے خسارے کو پورا کرنے کےقابل بنا دیگا۔ ہمیں سفائر اور جنرل الیکٹرک کے ساتھ اشتراک اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر خوشی ہے۔


پاکستان کے جنوب مشرق میں واقع گوو-کیٹی بندر ونڈ کوریڈورمیں ۵۰ میگاواٹ پن بجلی کے اس پلانٹ میں ۳۳ جنرل الیکٹرک (جی ای) ٹربائنز استعمال ہونگے اور یہ ۱۳۳گیگاواٹ گھنٹے سالانہ بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ سفائر پن بجلی منصوبے میں نصب جی ای ٹربائنز امریکہ اور پاکستان کے پاکستان میں مہنگے ایندھن سے بجلی کی پیداور پر انحصار کی بجائے متبادل ذرائع سے بجلی کے حصول کے مشتراکہ اہداف کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔یو ایس نیشنل رینوایبل انرجی لیبارٹری اور یو ایس ایڈ کی مالی معاونت سے کئے گئے جائزے کے مطابق پاکستان میں ۱۳۲،۰۰۰ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہےجو کہ ۲۰۱۰ تک لگ بھگ دنیا بھر میں پن بجلی کی پیداوار کے برابر ہے۔


اوپیک نے ۱۹۷۵ سے اب تک پاکستان میں ۱۲۳ منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس وقت پاکستان میں اسکےتوانائی، صحت عامہ، چھوٹے سے درمیانی سطح کے کاروباروں میں مالیاتی خدمات اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبوں میں ۱۴ فعال منصوبوں پر کام جاری ہے جن کی مالیت لگ بھگ ۳۰۰ ملین ڈالر ہے۔


اوپیک امریکی حکومت کا ترقیاتی مالیاتی ادارہ ہے۔یہ نجی سرمایہ کاری کو استعمال کر کے اہم ترقیاتی مسائل کے حل میں مدد دیتا ہے، سرمایہ کاروں کو رقم ، گارنٹی، سیاسی عدم استحکام تحفظ اور نجی مساوی سرمایہ کاری منصوبوں کی اعانت کرتا ہے۔ ۱۹۷۱ میں اسکے قیام کے بعد سے اوپیک اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہا ہے اور امریکی ٹیکس دہندگان کی کوئی رقم اس پر خرچ نہیں ہوتی۔اوپیک کی خدمات نئے اور پھیلتے ہوئے کاروباروں کیلئے ۱۵۰ سے زائدممالک میں دستیاب ہیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s13.postimg.org/x6s2maxo7/Urdu_syria.jpg
 

عمراعظم

محفلین
فواد صاحب ۔۔۔ آج کی دنیا کافی معلومات رکھتی ہے امریکہ کی انسانیت دوستی اور فیاضی کی۔ضرورت مند ممالک کو چند ملین ڈالرز کے قرضے دینا ایسا ہی ہے جیسے بڑی مچھلی کا شکار کرنے لیئے کانٹے میں کیچوا لگا دیا جائے۔جی جی۔۔ بلکل کیچوے پر بھی تو خرچ آتا ہی ہے۔ لیکن حضرت اگر یہ مان لیا جائے کہ چند ملین ڈالر دے کر انسانیت کی خدمت کا تاج اپنے سر سجایا جائے۔لیکن خدمت کے لیئے تو چند ملین او رتباہی کےلیئے ہزاروں بلین ڈالر خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔براہِ کرم اُن کا بھی ذکر فرما دیا کریں۔
دنیا امریکہ کے اصل روپ سے واقف ہو چکی ہے۔جس کے پاس باقی دنیا خصوصا" مسلم دنیا کی تباہی کے لیئے بڑے موثر منصوبے تیار ہیں اور وہ ان پر بڑی دلجمعی سے عمل پیرا ہے۔جن کا تازہ ترین شکار شام ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مسئلہ اور کچھ نہیں، ہر وہ طاقتور ملک جس کے پاس غیر امریکی اسلحہ ہے، اسے پہلے تباہ کر کے پھر اسے ری کنسٹرکشن کے نام پر اپنے دام میں لے آیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سب سے بڑی اور سب سے طاقتور صنعت اسلحہ سازی ہی تو ہے :)
 
جمہوریت باہمی مشورے سے فیصلے کا دوسرا نام ہے۔

سورۃ الشوریٰ - آیت 38
42:38 وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

پھر باہمی مشورے سے فیصلہ کرنے کو بنیاد بنانے یعنی جمہوریت کا طعنہ امریکنوں کو کیوں؟ مسلمانوں کو کیوں نہیں؟

والسلام
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جمہوریت باہمی مشورے سے فیصلے کا دوسرا نام ہے۔

سورۃ الشوریٰ - آیت 38
42:38 وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں
پھر باہمی مشورے سے فیصلہ کرنے کو بنیاد بنانے یعنی جمہوریت کا طعنہ امریکنوں کو کیوں؟ مسلمانوں کو کیوں نہیں؟

والسلام
کیا جمہوریت میں ایک پڑھے لکھے سمجھدار اور ایک جاہل ناسمجھ کے ووٹ میں کوئی فرق ہوتا ہے ؟
اور کیا ایک جاہل اور ایک عالم کا شوری میں کردار یکساں ہوتا ہے ؟
بقول شاعر ۔کہ از مغز دوصد خر فکر انسانی نمی آید :)
 

عثمان

محفلین
کیا جمہوریت میں ایک پڑھے لکھے سمجھدار اور ایک جاہل ناسمجھ کے ووٹ میں کوئی فرق ہوتا ہے ؟
کیا سمجھدار اور ناسمجھ کے حق انتخاب میں کوئی فرق ہوتا ہے ؟

اور کیا ایک جاہل اور ایک عالم کا شوری میں کردار یکساں ہوتا ہے ؟
شوری میں عالم کی رائے یقینا باوزن ہوگی۔ تاہم دونوں افراد (عالم اور جاہل) کے حق انتخاب پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

سیدھی سی بات ہے۔ جیسی قوم ہوگی تقریباً ویسے ہی حکمران آئیں گے۔
 
کیا جمہوریت میں ایک پڑھے لکھے سمجھدار اور ایک جاہل ناسمجھ کے ووٹ میں کوئی فرق ہوتا ہے ؟
اور کیا ایک جاہل اور ایک عالم کا شوری میں کردار یکساں ہوتا ہے ؟
بقول شاعر ۔کہ از مغز دوصد خر فکر انسانی نمی آید :)

سب لوگ اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں اور پھر شوری یعنی اسمبلی میں بھیجتے ہیں۔ عالم اور جاہل کو چننا آپ کا فرض ہے نا کہ باہمی مشورے سے فیصلے کا قصور؟

جاہل اور عالم کیا برابر ہوسکتے ہیں؟
سورۃ الزمر آیت نمبر 9
39:9 أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُواْ رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ
بھلا وہ جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے، فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں

اللہ تعالی کے نزدیک کون بہتر ہے؟
سورۃ الحجرات آیت 13
49:13 يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے

کیا وجہ ہے کہ نمائندہ ہم نے چننا ہے، اور الزام باہمی مشورے سے فیصلے کو دے رہے ہیں۔

والسلام
 
Top