’’ کہیں پرچہ لگے، خبر گزرے !‘‘
کالم نگار |
اثر چوہان
07 نومبر 2013
قومی اخبارات میں ہر روز اور الیکٹرانک میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ۔ خبروں کی اتنی بھرمار ہوتی ہے کہ…ع ’’ خبروں ‘‘ کے انتخاب نے،رسواکیا مجھے ‘‘
کی صورت ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی ایک ہی خبر کو موضوع بنا کر کالم لکھتے وقت یو ں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ’’ پانی میں مدھانی‘‘ گھما رہا ہوں یا لفظوں کی جُگالی کر رہا ہوں۔اس عمل کو کالم کا پیٹ بھرنا بھی کہاجاسکتا ہے،جیسے سرکاری دفتروں میں ’’ فائل کا پیٹ بھرنا‘‘ کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔اکثر و بیشتر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں مختلف قائدین کی تقریروں میں بھی یہی فارمولا استعمال ہوتا ہے تو صاحبو!آج کے کالم میں کئی خبروں کو موضوع کیوں نہ بنایاجائے؟ اُستاد سحرؔ نے کہا تھا…؎
’’ بے محل عاشقی سے،درگُزرے ۔۔۔۔ کوئی پرچہ لگے، خبر گُزرے‘‘
خبر ہے کہ ’’ جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے ایک صحافی کے اس سوال کے جوا ب میں کہ ’’ کیا حکیم اللہ محسود ہلاک ہوا ہے یا شہید؟ کہا ’’ امریکہ اگر کسی کتے کو بھی ہلاک کردے تو میں اسے بھی شہید ہی کہوں گا‘‘مولانا صاحب کے اس بیان یا فتوے کواُن کا ’’اجتہاد‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے۔اب مولانا فضل الرحمن اور دوسرے علماء دین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ’’ فرض کیا پاکستان کے کسی گلی محلے میں گھومنے پھرنے والا یا کوئی پالتو کُتا کسی امریکی سیّاح،مہمان یا سفارت کار کو کاٹ لے اور وہ امریکی اُس کتے کے کاٹنے سے مر جائے تو کیا اُس کتے کو ’’ غازی‘‘ کہاجاسکتا ہے ؟۔ہمارے یہاں گھوڑے کو تو پہلے ہی ’’غازی مرد‘‘ کہاجاتا ہے۔
عام طورپر کُتے کو ناپاک جانور سمجھاجاتا ہے،لیکن ’’ اصحابِ کہف‘‘ کے کُتے کو قابلِ عزت سمجھاجاتاہے۔اصحاب کہف( وہ سات اشخاص) جو دقیانوس بادشاہ کے خوف سے غار میں چھپ کر تین سو نو برس تک سوتے رہے۔مولوی نور الحسن نیّر نے اپنی ’’نوراللغات‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ علماء نے اصحاب کہف کے کُتے کو انسان کے زمرے میں داخل کیا ہے‘‘
بہرحال مولانا فضل الرحمن کی طرف سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیا امریکی حملے سے ’’ شہید‘‘ ہونے والے کُتے کی نمازِ جنازہ اور باقاعدہ تجہیزو تکفین بھی ہوگی؟۔ 6نومبرکے ’’ سیاست نامہ ‘‘ میں مَیں نے لکھا تھا کہ متحدہ مجلسِ عمل کے اکابرین کے ایک دوسرے کے خلاف کُفر کے فتوے ریکارڈ پر ہیں لیکن متحدہ مجلس عمل کے قائدین ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھتے رہے ہیں۔اِس پر ڈائریکٹر آپریشن المرکز اسلامی مفتی محمد تصّدق حسین صاحب(والٹن لاہور) نے مجھے وضاحت(بذریعہ ایس۔ایم۔ایس) بھجوائی ہے لکھتے ہیں۔
(’’جناب اثر چوہان صاحب۔آپ کے آج کے کالم میں ایک جملہ نظر سے گزرا کہ ’’ متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام دینی جماعتوں کے اکابرین نے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دئیے ہیں اور سب قائدین ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھ لیتے تھے ‘‘۔آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ جملہ صحیح نہیں ہے۔اہلِ سنت حنفی( بریلوی) کے ترجمان۔امام شاہ احمد نورانی نے کبھی کسی بد عقیدہ شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔مملکت اسلامیہ کے مفاد کی خاطر وہ اتحاد کے داعی رہے لیکن وہ نماز کی امامت خود کرواتے تھے۔تاریخ درست فرمادیں بے حد شکریہ)مفتی تصدق حسین (فون نمبر اخبار کے صفحہ پر ہے، محفل کی پالیسی کی رعایت کرتے ہوئے حذف کیا۔ عبدالرزاق قادری)
میں مفتی صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے وضاحت فرمائی اس بات کی کہ ’’امام شاہ احمد نورانی نے متحدہ مجلسِ عمل میں شامل کسی بھی ’’ بد عقیدہ امام‘‘ کی اقتداء میں نماز کبھی نہیں پڑھی بلکہ وہ وقتِ نماز خود امامت کرواتے تھے‘‘۔
خبر ہے کہ’’ وزارتِ دفاع نے اعتراف کرلیا ہے کہ ڈرون حملوں کے بارے پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے اعدادو شمار غلط اور جعلی ہیں‘‘۔مرزا غالب نے کہا تھا…؎
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ ۔۔۔۔ لوگ نالہ کو رسا باندھتے ہیں
بھلا غلط گوئی اور غلط بیانی پر مسماۃ وزارتِ دفاع کو کون پکڑے گا کہ محترمہ جناب وزیراعظم کے عقدِ سیاسی میں ہیں۔مسماۃ وزارتِ خارجہ اُن کی سوتن ہیں۔اُن کا بھی یہی چلن ہے۔وہ وقت بہت دور ہے جس کی آس میں حضرتِ آتش چل بسے…؎
’’سکۂ داغِ وفا اِک دن ،مرے کام آئیںگے ۔۔۔۔ عشق کے بازار میں، اُن کا چلن ہوجائے گا‘‘
خبر ہے کہ ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی۔ایم۔ایف) پاکستان کے گردشی قرضے کے دوبارہ 160 ارب تک پہنچنے پر پریشانی کا شکار ہے ‘‘ خبر میں وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار کا بھی تذکرہ ہے جو بذریعہ کلاسیکی موسیقی، دم توڑتی ہوئی معیشت کو تندرست کرنے کی نوید دیتے رہتے ہیں اور موصوف نے باقی معاملہ آئی۔ایم۔ایف حکام پر چھوڑ دیا ہے یعنی ’’ یک دو گیر و محکم گیر!‘‘…مرزا داغؔ دہلوی کا بھی یہی مسلک تھا،جب انہوں نے کہا …؎
’’ وہ سمجھے کیا، فلک کینہ خواہ کی گردش ۔۔۔ اُٹھائی جس نے،تمہاری نگاہ کی گردش‘‘
خبر ہے کہ ’’ جمعیت علماء اسلام(ف) نے وزیراعظم نواز شریف سے دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئر مین شپ مانگ لی ہے ‘‘۔ اس پر ایک انگریزی پنجابی ملا جلا ماہیا ہوجائے…؎
’’ حاضر اے دل ماہیا
GIVE AND TAKEکرئیے
اَیویں سُکّے تے نہ مِل ماہیا‘‘
پیپلز پارٹی کے راہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ’’چودھری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں’’مگر مچھ کے آنسو بہائے !‘‘ اگرچہ معاملہ دو چودھریوں کا ہے لیکن میں تو یہی کہوں گا کہ ہمارے ہاں’’مگر مچھ‘‘ تو ہوتا ہی نہیں !
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/07-Nov-2013/255093
بشکریہ: نوائے وقت