ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۸۶
بلا شبہ آسمانون اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب دانش کے لیے (حکمت الہٰی) کی بڑی ہی نشانیاں ہیں!
رات اور دن کے اختلاف نے معیشت کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ دن کی روشنی جد و جہد کی سرگرمی پیدا کرتی ہے، رات کی تاریکی راھت و سکون کا بستر بچھا دیتی ہے، ہر دن کی محنت کے بعد رات کا سکون ہوتا ہے اور ہر رات کے سکون کے بعد نئے دن کی نئی سرگرمی!
وَمِن رَّحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿28:73﴾
اور (دیکھو!) یہ اس کی رحمت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن (الگ الگ) ٹھہرا دیے گئے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو۔ (یعنی کاروبار معیشت میں سرگرم ہو) تاکہ تم اس کا شکر کرو۔
دن کی مختلف حالتیں اور رات کی مختلف منزلیں :
پھر رات اور دن کا اختلاف صرف تار اور دن ہی کا اختلاف ہی نہیں ہے بلکہ ہر دن، مختلف حالتوں سے گزرتا اور ہر رات، مختلف منزلیں طے کرتی ہے اور ہر حالت ایک خاص طرح کی تاثیر رکھتی ہے اور ہر منزل کے لیے ایک خاص طرح کا منظر ہوتا ہے۔ صبح طلوع ہوتی ہے اور اس کی ایک خاص تاثیر ہوتی ہے، دن ڈھلتا ہے اور اس کا ایک خاص منظر ہوتا ہے۔ اوقات کا یہ روزانہ اختلاف ہمارے احساسات کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تبدیل و تجدد کی لذت اور سرگرمی پیدا ہوتی رہتی ہے!
فَسُبْحَانَ اللَّ۔هِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ ﴿١٨﴾ سورۃ ۳۰
پس پاکی ہے اللہ کے لیے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے ستایش ہے جب کہ تم پر شام آتی ہے، اور جب تم پر صبح ہوتی ہے، اور جب دن کا آخری وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر آتی ہے!
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ 87
حیوانات کا اختلاف :
اسی طرح انسان خود اپنے وجود کو دیکھے اور تمام حیوانات کو دیکھے، فطرت نے کس طرح، طرح طرح کے اختلاف سے اس میں تنوع اور دل پذیری پیدا کر دی ہے!
اور انسان، جانور، چار پایے طرح طرح کی رنگتوں کے!
نباتات :
عالم نباتات کو دیکھو! درختوں کے مختلف ڈیل ڈول ہیں، مختلف رنگتیں ہیں، مختلف خوشبوئیں ہیں، مختلف خواصہ ہیں اور پھر دانہ اور پھل کھاؤ تو مختلف قسم کے ذائقے ہیں !
کیا ان لوگوں نے کبھی زمین پر نظر نہیں ڈالی اور غور نہیں کیا کہ ہم نے نباتات کی ہر دو دو بہتر قسموں میں سے کتنے (بے شمار) درخت پیدا کر دیے ہیں؟
اور (دیکھو!) اللہ نے جو پیداوار مختلف رنگتوں کی تمہارے لیے زمین میں پھیلا دی ہے، سو اس میں عبرت پذیر طبیعتوں کے لیے (حکمت الہٰی کی) بڑی ہی نشانی ہے!
اور وہ (حکیم و قدیر) جس نے (طرح طرح کے) باغ پیدا کر دیے، ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور (طرح طرح کی کھیتیاں جن کے دانے اور پھل، کھانے میں مختلف ذائقہ رکھتے ہیں۔
جمادات :
حیوانات اور نباتات پر ہی موقوف نہیں، جمادات میں بھی یہی قانون فطرت کام کر رہا ہے :
پہاڑوں کو دیکھو! گونا گوں رنگتوں کے ہیں کچھ سفید کچھ سرخ، کچھ کالے کلوٹے!

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۸۸
ہر چیز کے دو دو ہونے کا قانون :
اسی قانون اختلاف کا ایک گوشہ وہ بھی ہے کہ جسے قرآن نے تزویج سے تعبیر کیا ہے اور ہم اسے قانون تثنیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ہر چیز کے دو دو ہونے کے یا متقابل و متماثل ہونے کا قانون۔ کائنات خلقت کا کوئی گوشہ بھی دیکھو! تمہیں کوئی چیز یہاں اکہری اور طاق نظر نہیں آئے گی۔ ہر چیز میں جفت اور دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے، یا یوں کہا جائے کہ ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی مثنیٰ بھی ضرور رکھتی ہے۔ رات کے لئے دن ہے، صبح کے لیے شام ہے، نر کے لیے مادہ ہے، مرد کے لئے عورت ہے، زندگی کے لئے موت ہے دنیوی زندگی کے لیے آخرت کی زندگی ہے۔
وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٤٩:51﴾
اور ہر چیز میں جوڑے پیدا کر دیئے (یعنی دو دو اور متقابل اشیاء پیدا کیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٦:٣٦
پاکی اور بزرگی ہے اس ذات کے لئے جس نے زمین کی پیداوار میں اور انسان میں اور ان تمام مخلوقات میں جن کا انسان کو علم نہیں، دو دو اور متقابل چیزیں پیدا کیں۔
مرد اور عورت
یہی قانون فطرت ہے کہ جس نے انسان کو دو مختلف جنسوں یعنی مرد اور عورت میں تقسیم کر دیا اور پھر ان میں فعل و افعال اور جذب و انجذاب کے کچھ ایسے وجدانی احساسات ودیعت کر دیے کہ ہر جنس دوسری جنس سے ملنے کی قدرگی طلب رکھتی ہے اور دونوں کے ملنے سے ازدواجی زندگی کی ایک کامل معیشت پیدا ہو جاتی ہے۔
فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ (۱۱:۴۲)
وہ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا۔ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۸۹
جوڑے بنا دیے (یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کےلئے مرد) اسی طرح چارپایوں میں بھی جوڑے پیدا کر دیئے۔
قرآن کہتا ہے : یہ اس لئے ہے تاکہ محبت اور سکون ہو اور دو ہستیوں کی باہمی رفاقت اور اشتراک سے زندگی کی محنتیں اور مشقتیں سہل اور گوارا ہو جائیں۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿۳۰:٢١
اور (دیکھو! اس کی (رحمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیئے (یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد) تاکہ اس کی وجہ سے تمہیں سکون حاصل ہو اور (پھر اس کی یہ کارفرمائی دیکھو کہ، تمہارے درمیان (یعنی مرد اور عورت کے درمیان) محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کر دیا۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں، اس میں (حکمت الہٰی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔
نسب اور صہر
پھر اسی ازدواجی زندگی سے توالد و تناسل کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو گیا ہے کہ ہر وجود پیدا ہوتا ہے اور ہر وجود پیدا کرتا ہے ایک طرف وہ نسب کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے پچھلوں سے جوڑتا ہے دوسری طرف صہر یعنی دامادی کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے آگے آنے والوں سے مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر وجود کی فردیت ایک وسیع دائرے کی کثرت میں پھیل گئی ہے اور رشتوں قرابتوں کا ایسا وسیع حلقہ پیدا ہو گیا ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی کے ساتھ مربوط ہے۔
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ ﴿۲۵:٥٤
اور وہی (حکیم و قدیر) جس نے پانی سے (یعنی نطفہ سے) انسان کو پیدا کیا ہے، پھر (اسی رشتہ پیدائش کے ذریعہ) اسےنسب اور صہر کا رشتہ رکھنے والا بنا دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۰
صلہ رحمی اور خاندانی حلقہ کی تشکیل
اور پھر دیکھو! اس نسب اور صہر کے رشتے سے کس طرح خاندان اور قبیلے کا نظام قائم ہو گیا ہے! اور کس عجیب و غریب طریقے سے صلہ رحمی یعنی قرابت داری کی گیرائیاں ایک وجود کو دوسرے وجود سے جوڑتیں اور معاشرتی زندگی کی باہمی الفتوں اور معاونتوں کے لئے محرک ہوتی ہیں! دراصل انسان کی اجتماعی زندگی کا سارا کارخانہ اسی صلہ رحمی کے سررشتہ نے قائم کر رکھا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿۴:١
اے افراد نسل انسانی! پروردگار کی نافرمانی سے بچو (اور اس کے ٹھہرائے ہوئے رشتوں سے بے پرواہ نہ ہو جاؤ) وہ پروردگار جس نے تمہیں ایک فرد واحد سے پیدا کیا (یعنی باپ سے) پیدا کیا ہے اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کر دیا (یعنی جس طرح مرد کی نسل سے لڑکا پیدا ہوا لڑکی بھی پیدا ہوئی) پھر ان کی نسل سے ایک بڑی تعداد مرد اور عورت کی پیدا ہو کر پھیل گئی (اس طرح فرد واحد کے رشتے نے ایک بڑے خاندان اور قبیلے کی صورت پیدا کر لی) پس اللہ کی نافرمانی سے بچو! جس کے نام پر باہم دگر (مہر و شفقت ) سوال کرتے ہو اور صلہ رحمی کے توڑنے سے بھی بچو، (جس کے نام پر باہم نہ گر ایک دوسرے سے چشم داشت اعانت رکھتے ہو) بلا شبہ اللہ تمہارا نگران حال ہے۔
وَاللَّ۔هُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً َ ﴿۱۶:٧٢
اور (دیکھو!) یہ اللہ ہے جس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑا بنا دیا (یعنی مرد کے لئے عورت اور عورت کے لئے مرد) تمہارے باہمی ازدواج سے بیٹوں اور پوتوں کا سلسلہ قائم کر دیا۔

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۱
ایام حیات کا تغیر و تنوع
اسی طرح ایام حیات کے تغیر و تنوع میں بھی تسکین حیات کی ایک بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے۔ ہر زندگی طفولیت، شباب، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کی مختلف منزلوں سے گزرتی ہے اور ہر منزل اپنے نئے نئے احساسات اور نئی نئی مشغولیتیں اور نئی نئی کاوشیں رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی عالم ہستی کی ایک دل چسپ مسافرت بن گئی۔ ایک منزل کی کیفیتوں سے ابھی جی سیر نہیں ہو چکتا کہ دوسری منزل نمودار ہو جاتی ہے اور اس طرح عرصہ حیات کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿۴۰:٦٧
وہ (پروردگار) جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکلتے ہو۔ پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو، اس کے بعد تمہارا جینا اس لئے ہوتا ہے تاکہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو۔ پھر تم میں سے کوئی تو ان منزلوں سے پہلے ہی مر جاتا ہے (پھر کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کر لے اور تاکہ تم سمجھو۔
زینت و تفاخر، مال و متاع آل و اولاد
اسی طرح، طرح طرح کی خواہشیں اور جذبے، زینت و تفاخر کے ولولے، مال و متاع کی محبت آل و اولاد کی دل بستگیاں، زندگی کی دلچسپی اور انہماک کے لئے پیدا کر دی گئی ہیں :
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّ۔هُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ ﴿۳:١٤
انسان کے لئے مرد و عورت کے تعلق میں، اولاد میں، چاندی سونے کے اندوختوں


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۲
میں چُنے ہوئے گھوڑوں میں، مویشیوں میں اور کھیتی باڑی میں دل بستگی پیدا کر دی گئی ہے اور یہ جو کچھ بھی ہے دنیوی زندگی کی پونجی ہے۔ بہت ٹھکانہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔
اختلاف معیشت اور تزاحم حیات
اسی طرح معیشت کا اختلاف اور اس کی وجہ سے مختلف درجوں اور حالتوں کا پیدا ہو جانا بھی انہماک حیات کا ایک بہت بڑا محرک ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی میں مزاحمت اور مسابقت کی حالت پیدا ہو گئی ہے اور اس میں لگے رہنے سے زندگی کی مشقتوں کا جھیلنا آسان ہو گیا ہے بلکہ یہی مشقتیں سر تا سر راھت و سرور کا سامان بن گئی ہیں۔
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿۶:١٦٥
اور یہ اسی (حکیم و تقدیر) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں (پچھلوں) کا جانشین بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں فوقیت دے دی، تاکہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہارے عمل کی آزمائش کرے۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار (پاداش عمل کی سزا)دینے میں تیز ہے۔ (یعنی اس کا قانون مکافات نتائج عمل میں سست رفتار نہیں) لیکن ساتھ ہی بخش دینے والا، رحمت رکھنے والا بھی ہے۔
برھان فضل و رحمت
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن نے ربوبیت کے اعمال و مظاہر سے استدلال کیا ہے، اسی طرح وہ رحمت کے آثار و حقائق سے بھی جابجا استدلال کرتا ہے اور برہان ربوبیت کی طرح فیض و رحمت بھی اس کی دعوت و ارشاد کا ایک عام اسلوب خطاب ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات خلقت کی ہر شے میں ایک مقررہ نظام کے ساتھ رحمت و فضل کے مظاہر کا موجود ہونا قدرتی طور پر انسان کو یقین دلا دیتا ہے کہ ایک رحمت رکھنے والی ہستی کی کارفرمائیاں یہاں کام کر رہی ہیں کیونکہ ممکن نہیں فضل و رحمت کی یہ پوری کائنات موجود ہو


 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۳
اور فضل و رحمت کا کوئی زندہ ارادہ موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ تمام مقامات جن میں کائنات خلقت کے افادہ و فیضان، زینت و جمال، موزونیت و اعتدال، تسویہ و قوام اور تکمیل و اتقان کا ذکر کیا گیا ہے دراصل اسی استدلال پر مبنی ہیں۔
وَإِلَ۔ٰهُكُمْ إِلَ۔ٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَ۔ٰنُ الرَّحِيمُ ﴿۲:١٦٣إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّ۔هُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿۲:١٦٤
اور (دیکھو!) تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات۔ رحمت والی اور اپنی رحمت کی بخشایشوں سے ہمیشہ فیض یاب کرنے والی۔ بلا شبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اور کشتی میں جوانسان کی کاربرآریوں کے لئے سمندر میں چلتی ہے، اور بارش میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس (کی آب پاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دیے ہیں نیز ہواؤں کے (مختلف جانب) پھیرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے رکے ہیں، عقل رکھنے والوں کے لئے (اللہ کی ہستی اور اس کے قوانین فضل و رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔
اسی طرح ان مقامات کا مطالعہ کرو جہاں خصوصیت کے ساتھ جمال فطرت سے استدلال کیا ہے :
أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ ﴿۵۰:٦ وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ ﴿۵۰:٧ تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ﴿۵۰:٨
کیا کبھی ان لوگوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور کس طرح اس کے منظر میں خوش نمائی پیدا کر دی ہےہ؟ اور پھر یہ کہ

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۴
کہیں بھی اس میں شگاف نہیں۔ اور اسی طرح زمین کو دیکھو! کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا اور پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے اور پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگا دیں! ہر اس بندے کے لئے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہے اس میں غور کرنے کی بات اور نصیحت کی روشنی ہے۔
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ ﴿۱۵:١٦
اور (دیکھو!) ہم نے آسمان میں (ستاروں کی گردش کے لئے) برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لئے ان میں خوشنمائی پیدا کر دی۔
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ﴿۶۷:٥
اور (دیکھو!) ہم نے دنیا کے آسمان (یعنی کرہ ارض کی فضاء) کو ستاروں کی قندیلوں سے خوش منظر بنا دیا۔
وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ﴿۱۶:٦
اور (دیکھو!) تمہارے لئے چارپایوں کے منظر میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور جب صبح لے جاتے ہو ایک طرح کا حسن اور نظر افروزی ہے۔
موزونیت و تناسب
جس چیز کو ہم "جمال" کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ "موزونیت اور تناسب"۔ یہی موزونیت اور تناسب ہے جو بناؤ اور خوبی کے تمام مظاہر کی اصل ہے۔
وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿۱۵:١٩
اور (دیکھو!) ہم نے زمین میں ہر ایک چیز موزونیت اور تناسب رکھنے والی، اگائی!
تسویہ
اسی معنی میں قرآن تسویہ کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے۔ "تسویہ" کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس طرح ٹھیک ٹھیک درست کر دینا کہ اس کی ہر بات خوبی و مناسبت کے ساتھ ہو۔
الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ ﴿۸۷:٢ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ ﴿۸۷:٣

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۵
وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی، پھر ٹھیک ٹھیک خوبی و مناسبت کے ساتھ درست کر دی۔ اور وہ جس نے ہر وجود کے لئے ایک اندازہ ٹھہرا دیا، پھر اس پر (زندگی و معیشت) کی راہ کھول دی!
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ﴿۸۲:٧ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ ﴿۸۲:٨
وہ پروردگار جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھیک درست کر دیا، پھر (تمہارے ظاہری و باطنی قویٰ میں) اعتدال و تناسب ملحوظ رکھا، پھر جیسی صورت بنانی چاہی اسی کے مطابق ترکیب دے دی۔
اتقان
یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے "اتقان" کے نام سے بھی تعبیر کیا ہے، یعنی کائنات ہستی کی ہر چیز کا درستگی و استواری کے ساتھ ہونا کہ کہیں بھی اس میں خلل، نقصان، بے ڈھنگا پن، اونچ نیچ، ناہمواری نظر نہیں آ سکتی :
صُنْعَ اللَّ۔هِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ﴿۲۷:٨٨
یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز درستگی و استواری کے ساتھ بنائی!
مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَ۔ٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿۶۷:٣ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿۶۷:٤
تم الرحمٰن کی بناوٹ میں (کیونکہ یہ اس کی رحمت ہی کا ظہور ہے) کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں پاؤ گے۔ (اچھا نظر اٹھاؤ اور اس نمائش گاہ صنعت کا مطالعہ کرو!) ایک بار نہیں بار بار دیکھو! کیا تمھیں کوئی ڈراڑ دکھائی دیتی ہے؟ تم اسی طرح یکے بعد دیگرے دیکھتے رہو! تمہاری نگاہ اتھے گی اور عاجز و درماندہ ہو کر واپس آ جائے گی لیکن کوئی نقص نہ نکال سکے گی۔
"فی خلق الرحمن" فرمایا، یعنی یہ خوبی و اتقان اس لیے ہے کہ رحمت رکھنے والے کی کاریگری ہے رحمت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ حسن و خوبی ہو اتقان و کمال ہو، نقص و ناہمواری نہ ہو!
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۶
رحمت سے معاد پر استدلال
خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات کی طرح آخرت کی زندگی پر بھی وہ رحمت سے استدلال کرتا ہے۔ اگر رحمت کا مقتضیٰ یہ ہو کہ دنیا میں اس خوبی و کمال کے ساتھ زندگی کا ظہور ہو تو کیونکر یہ بات باور کی جا سکتی ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد اس کا فیضان ختم ہو جائے اور خزانہ رحمت میں انسان کی زندگی اور بناؤ کے لئے کچھ باقی نہ رہے؟
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّ۔هَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا ﴿۱۷:٩٩ قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ ﴿۱۷:١٠٠
کیا ان لوگوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کیئے ہیں، یقیناً اس بات سے عاجز نہیں ہو سکتا کہ ان جیسے (آدمی دوبارہ) پیدا کر دے، اور یہ کہ ان کے لیے اس نے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہے جس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں! (افسوس ان کی شقاوت پر!) اس پر بھی ان ظالموں نے اپنے لیے کوئی راہ پسند نہ کی مگر حقیقت سے انکار کرنے کی! (اے پیغمبر! ان سے) کہہ دو : اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے ہوتے تو اس حالت میں یقیناً تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے ہاتھ روکے رکھتے (لیکن یہ اللہ ہے جس کے خزائن رحمت نہ تو کبھی ختم ہو سکتے ہیں نہ اس کی بخشایش رحمت کی کوئی انتہا ہے!)۔
رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر استدلال
اسی طرح وہ رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جو رحمت کارخانہ ہستی کے ہر گوشے میں افادہ و فیضان کا سرچشمہ ہے، کیونکر ممکن تھا کہ انسان کی معنوی ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی فیضان نہ ہوتا اور وہ انسان کو نقصان و ہلاکت کے لئے چھوڑ دیتی؟ اگر تم دس گوشوں میں فیضان رحمت محسوس کر رہے ہو تو کوئی وجہ
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۷
نہیں کہ گیارہویں گوشے میں اس سے انکار کر دو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جابجا نزول وحی، ترسیل کتب اور بعثت انبیاء کو رحمت سے تعبیر کیا ہے :
وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا ﴿۱۷:٨٦إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا ﴿۱۷:٨٧
اور (اے پیغمبر!) اگر ہم چاہیں تو جو کچھ تم پر وحی کے ذریعے بھیجا گیا ہے اسے اٹھا لے جائیں (یعنی سلسلہ تنزیل وحی باقی نہ رہے) اور تمہیں کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے، لیکن جو سلسلہ وہی جاری ہے تو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمہارے پروردگار کی رحمت ہے اور یقین کرو! تم پر اس کا بڑا ہی فضل ہے۔
تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ﴿۳٦:٥ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ﴿۳٦:٦
(یہ قرآن) عزیز و رحیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، تاکہ ان لوگوں کو جن کے آباؤ اجداد (کسی پیغمبر کی زبانی) متنبہ نہیں کیئے گئے ہیں اور اس لیے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، تم متنبہ کرو۔
تورات و انجیل اور قرآن کی نسبت جابجا تصریح کی کہ ان کا نزول "رحمت" ہے :
وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ﴿۱۱:١٧
اور اس سے پہلے (یعنی قرآن سے پہلے) موسیٰ کی کتاب (امت کے لیے) پیشوا اور رحمت!
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿۱۰:٥٧ قُلْ بِفَضْلِ اللَّ۔هِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿۱۰:٥٨
اے افراد نسل انسانی! یقیناً یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے موعظت ہے جو، تمہارے لیے آ گئی ہے، اور ان تمام بیماریوں کے لیے جو انسان کے دل کی بیماریاں ہیں، نسخہء شفا ہے، اور رہ نمائی اور رحمت ہے ایمان رکھنے والوں کے لئے۔ (اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہہ دو (کہ یہ جو کچھ ہے) اللہ کے فضل اور رحمت سے
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۸
ہے۔ بس چاہیے کہ (اپنی فیضیابی پر) خوش ہو۔ یہ (اپنی برکتوں میں) ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں تم (زندگی کی کامرانیوں کے لئے) فراہم کرتے ہو۔
هَ۔ٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿۴۵:٢٠
یہ (قرآن) لوگوں کے لئے واضح دلیلوں کی روشنی ہے اور ہدایت و رحمت ہے یقین رکھنے والوں کے لئے۔
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿۲۹:٥١
کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں (برابر) سنائی جا رہی ہے؟ جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، بلا شبہ ان کے لیے اس (نشانی) میں سرتاسر رحمت اور فہم و بصیرت ہے۔
چنانچہ اسی بناء پر اس نے داعی اسلام کے ظہور کو بھی فیضان رحمت سے تعبیر کیا ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿۲۱:١٠٧
(اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام جہان کے لیے ہماری رحمت کا ظہور ہے!
انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر "رحمت" سے استدلال اور بقاء انفع
اسی طرح وہ "رحمت کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس "رحمت" کا مقتضیٰ یہ ہوا کہ دنیا میں "بقاء انفع" کا قانون نافذ ہے، یعنی وہی چیز باقی رہتی ہے جو نافع ہوتی ہے، کیونکر ممکن تھا کہ وہ انسانی اعمال کی طرف سے غافل ہو جاتی اور نافع اور غیر نافع اعمال میں امتیاز نہ کرتی؟ پس مادیات کی طرح معنویات میں بھی یہ قانون نافذ ہے اور ٹھیک ٹھیک اسی طرح ایسے احکام و نتائج رکھتا ہے جس طرح مادیات میں تم دیکھ رہے ہو۔

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۸
ہے۔ بس چاہیے کہ (اپنی فیضیابی پر) خوش ہو۔ یہ (اپنی برکتوں میں) ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جنہیں تم (زندگی کی کامرانیوں کے لئے) فراہم کرتے ہو۔
هَ۔ٰذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿۴۵:٢٠
یہ (قرآن) لوگوں کے لئے واضح دلیلوں کی روشنی ہے اور ہدایت و رحمت ہے یقین رکھنے والوں کے لئے۔
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿۲۹:٥١
کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں (برابر) سنائی جا رہی ہے؟ جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، بلا شبہ ان کے لیے اس (نشانی) میں سرتاسر رحمت اور فہم و بصیرت ہے۔
چنانچہ اسی بناء پر اس نے داعی اسلام کے ظہور کو بھی فیضان رحمت سے تعبیر کیا ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿۲۱:١٠٧
(اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام جہان کے لیے ہماری رحمت کا ظہور ہے!
انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر "رحمت" سے استدلال اور بقاء انفع
اسی طرح وہ "رحمت کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس "رحمت" کا مقتضیٰ یہ ہوا کہ دنیا میں "بقاء انفع" کا قانون نافذ ہے، یعنی وہی چیز باقی رہتی ہے جو نافع ہوتی ہے، کیونکر ممکن تھا کہ وہ انسانی اعمال کی طرف سے غافل ہو جاتی اور نافع اور غیر نافع اعمال میں امتیاز نہ کرتی؟ پس مادیات کی طرح معنویات میں بھی یہ قانون نافذ ہے اور ٹھیک ٹھیک اسی طرح ایسے احکام و نتائج رکھتا ہے جس طرح مادیات میں تم دیکھ رہے ہو۔

 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۹۹
حق و باطل
اس سلسلہ میں وہ دو لفظ استعمال کرتا ہے "حق" اور "باطل"۔ سورۃ رعد میں جہاں قانون "بقاء انفع" کا ذکر کیا ہے، وہاں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس بیان سے مقصود "حق" اور "باطل" کی حقیقت واضح کرنی ہے :
كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّ۔هُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ ۚ﴿۱۳:١٧
اسی طرح اللہ "حق" اور "باطل" کی ایک مثال بیان کرتا ہے۔
ساتھ ہی مزید تصریح کر دی :
فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ كَذَٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّ۔هُ الْأَمْثَالَ ﴿۱۳:١٧ لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ﴿۱۳:١٨
پس (دیکھو!) میل کچیل سےجو جھاگ اٹھتا ہے وہ رائیگان جاتا ہے، کیونکہ اس میں انسان کے لیے نفع نہ تھا، لیکن جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ (اپنے قوانین عمل کی) مثالیں دیتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا، ان کے لیے خوبی و بہتری ہے اور جن لوگوں نے قبول نہ کیا، ان کے لیے (اپنے اعمال بد کا) سختی کے ساتھ حساب دینا ہے۔ اور اگر ان لوگوں کے قبضے میں وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا ہی اس پر اور بڑھا دین اور بدلے میں دے کر (نتائج عمل سے) بچنا چاہیں، (جب بھی نہ بچ سکیں گے)۔
عربی میں "حقق" کا خاصہ نبوت اور قیام ہے، یعنی جو بات ثابت ہو، اٹل ہو، امٹ ہو، اسے حق کہیں گے۔ "باطل" ٹھیک ٹھیک اس کا نقیض ہے۔ ایسی چیز جس میں ثبات و قیام نہ ہو، ٹل جانے والی، مٹ جانے والی، باقی نہ رہنے والی۔ چناچہ خود قرآن میں جابجا ہے :
لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ ﴿۸:٨
 

شمشاد

لائبریرین
اُم الکتاب
صفحہ ۱۰۰
قانون "قضاء بالحق"
وہ کہتا ہے : جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی رہتی ہے، جو چیز نافع ہوتی ہے باقی رکھتی ہے، جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کر دیتی ہے، ٹھیک ٹھیک ایسا ہی عمل معنویات میں بھی جاری ہے۔ جو عمل حق ہو گا قائم اور ثابت رہیگا، جو باطل ہو گا مٹ جائے گا۔ اور جب کبھی حق اور باطل متقابل ہوں گے تو بقاء حق کے لیے ہو گی نہ کہ باطل کے لیے۔ وہ اسے "قضاء بالحق" سے تعبیر کرتا ہے، یعنی فطرت کا فیصلہء حق جو باطل کے لیے نہیں ہو سکتا :
فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّ۔هِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ ﴿٧٨﴾ (78:40)
کتاب میں (28:40) لکھا ہوا ہے۔
پھر جب وہ وقت آ گیا کہ حکم الہٰی صادر ہو تو (خدا کا) فیصلہء حق نافذ ہو گیا اور اس وقت ان لوگوں کے لیے جو برسر باطل تھے تباہی ہوئی!
اس نے اس حقیقت کی تعبیر کے لئے "حق" اور "باطل" کا لفظ اختیار کر کے مجرد و تعبیر ہی سے حقیقت کی نوعیت واضح کر دی، کیونکہ حق اسی چیز کو کہتے ہیں جو ثابت و قائم ہو اور باطل کے معنی ہی یہ ہیں کہ مٹ جانا، قائم و باقی نہ رہنا۔ پس جب وہ کسی بات کے لیے کہتا ہے کہ یہ "حق" ہے تو یہ صرف دعویٰ ہی نہیں ہوتا بلکہ دعوے کے ساتھ اس کے جانچنے کا ایک معیار بھی پیش کر دیتا ہے۔ یہ بات حق ہے، یعنی نہ ٹلنے والی، نہ مٹنے والی بات ہے۔ یہ بات باطل ہے، یعنی نہ ٹک سکنے والی، مٹ جانے والی بات ہے۔ پس جو بات اٹل ہو گی اس کا اٹل ہونا کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ جو بات مٹ جانے والی ہے اس کا مٹنا ہر آنکھ دیکھ لے گی!
اللہ کی صفت بھی "الحق" ہے۔
چنانچہ وہ اللہ کی نسبت بھی "الحق" کی صفت استعمال کرتا ہے، کیونکہ اس کی ہستی سے بڑھ کر اور کون سے حقیقت ہے جو ثابت اور اٹل ہو سکتی ہے؟
فَذَٰلِكُمُ اللَّ۔هُ رَبُّكُمُ الْحَقُّۖ﴿۱۰:٣٢
پس یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار "الحق"۔
فَتَعَالَى اللَّ۔هُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ِۖ ﴿١١٦ ( 116:23)​
پس کیا ہی بلند درجہ ہے اللہ کا، المک (یعنی فرمانروا) الحق (یعنی ثابت)۔
 

محمد امین

لائبریرین
۔۔ ۔۔ (۲۸:۴۰) یہ غلط حوالہ ہے"


شمشاد بھائی اتفاق سے میں نے صفحہ 100 ٹائپ کرنا شروع کردیا تھا غلطی سے۔۔۔ گوگل پر وہ لکھی ہوئی آیت لکھ کر دیکھی تو یہ درست حوالہ ملا ہے:

فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّ۔هِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ﴿٧٨
(الغافر: ۷۸)
سورہ 40 ہی ہے، آیت 78 ہے۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 161
یہی درماندگی ہے جس سے نجات دلانے کے لئے وحی الہٰی کی ہدایت ہمیشہ نمودار ہوتی رہی۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی بنیادی اصل یہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خدا پرستی کی تعلیم اُسی شکل و اسلوب میں دی جیسی شکل و اسلوب کی فہم و تحمل کی استعداد مخاطبوں میں پیدا ہو گئی تھی، وہ مجمع انسانی کے معلم و مربی تھے اور معلم کا فرض ہے کہ متعلموں میں جس درجے کی استعداد پائی جائے اسی درجے کا سبق بھی دے۔ پس انبیاء کرام نے وقتاً فوقتاً خدا کی صفات کے لئے جو پیرایہ تعلیم اختیار کیا وہ اس سلسلہ ارتقاء سے باہر نہ تھا بلکہ اسی کی مختلف کڑیاں مہیا کرتا ہے۔
ارتقائی تصور کے نقاط ثلاثہ
اس سلسلے کی تمام کڑیوں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں اور ان کے فکری عناصر کی تحلیل کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کی بے شمار نوعتیں قرار دی جا سکتی ہیں لیکن ارتقائی نقطے ہمیشہ تین رہے اور انہیں سے اس سلسلے کی ہدایت و نہایت معلوم کی جا سکتی ہے :
1) تجسم سے تنزہ کی طرف
2) تعداد و اشراک (Polytheism) سے توحید (Monotheism) کی طرف
3) صفات قہر و جلال سے صفات رحمت و جمال کی طرف۔
یعنی تجسم اور صفات قہریہ کا تصور اس کا ابتدائی درجہ ہے اور تنزہ اور صفات رحمت و جمال سے اتصاف، اعلیٰ و کامل درجہ۔ جو تصور جس قدر ابتدائی اور ادنیٰ درجے کا ہے اتنا ہی تجسم اور صفات قہریہ کا عنصر اس میں زیادہ ہے۔ جو تصور جس قدر زیادہ ترقی یافتہ ہے اتنا ہی زیادہ منزہ اور صفات رحمت و جلال سے متصف ہے۔
انسان کا تصور صفات قہریہ کے تاثر سے کیوں شروع ہوا؟
انسان کا تصور صفات قہریہ کے تخیل سے کیوں شروع ہوا؟ اس کی علت واضح ہے۔ فطرت کائنات کی تعمیر، تخریب کے نقاب میں پوشیدہ ہے۔ انسانی فکر کی طفولیت تعمیر کا حسن
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 162
نہ دیکھ سکی، تخریب کی ہولناکیوں سے سہم گئی۔ تعمیر کا حسن و جمال دیکھنے کے لئے فہم و بصیرت کی دور رس نگاہیں مطلوب تھی اور وہ ابھی اس کی آنکھوں نے پیدا نہیں کی تھی۔
دنیا میں ہر چیز کی مدح ہر فعل کی نوعیت بھی اپنا مزاج رکھتی ہے بناؤ ایک ایسی حالت ہے جس کا مزاج سرتاسر سکون اور خاموشی ہے اور بگاڑ ایک ایسی حالت ہے کہ اس کا مزاج سرتاسرشورش اور ہولناکی ہے۔ بناؤ ایجاب ہے، نظم ہے، جمع و ترتیب ہے، بگاڑ سلب ہے، برہمی ہے تفرقہ و اختلال ہے۔ جمع و نظم کی حالت ہی سکون کی حالت ہوتی ہے اور تفرقہ و برہمی کی حالت ہی شورش و انفجار کی حالت ہے۔ دیوار جب بنتی ہے تو تمہیں کوئی شورش محسوس نہیں ہوتی، لیکن گرتی ہے تع دھماکا ہوتا ہے اور تم بے اختیار چونک اٹھتے ہو اس صورت حال کی قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ حیوانی طبیعت سلبی افعال سے فوراً متاثر ہو جاتی ہے کیونکہ ان کی نمود میں شورش اور ہولناکی ہے لیکن ایجابی افعال سے متاثر ہونے میں دیر لگاتی ہے کیونکہ ان کا حسن و جمال یکایک مشاہدے میں نہیں آ جاتا اور ان کا مزاج شورش کی جگہ خاموشی اور سکون ہے۔
فطرت کے سلبی مظاہر کی قہرمانی اور ایجابی مظاہر کا حسن و جمال انسان پر شیفتگی سے پہلے دہشت طاری ہوئی۔
اسی بناء پر عقل انسانی نے جب صفات الہٰی کی صورت آرائی کرنی چاہی تو فطرت کائنات کے سلبی مظاہر کی دہشت سے فوراً متاثر ہو گئی کیونکہ زیادہ نمایاں اور پرشور تھے۔ اور ایجابی و تعمیری حقیقت سے متاثر ہونے میں بہت دیر لگ گئی۔ کیونکہ ان میں شورش اور ہنگامہ نہ تھا۔ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، آتش فشاں پہاڑوں کا انفجار، زمین کا زلزلہ آسمان کی ژالہ باری، دریا کا سیلاب، سمندر کا تلاطم ان تمام سلبی مظاہر میں اس کے لئے رعب و ہیبت تھی اور اسی ہیبت کے اندر وہ ایک غضب ناک خدا کی ڈراؤنی صورت دیکھنے لگا تھا۔ اسے بجلی کی کڑک میں کوئی حسن محسوس نہیں ہو سکتا تھا وہ بادلوں کی گرج میں کوئی شان محبوبیت نہیں پا سکتا تھا وہ آتش فشاں پہاڑوں کی سنگ باری سے پیار نہیں کر سکتا تھا اور اس کی عقل ابھی خدا کے انہیں کاموں سے آشنا ہوئی تھی۔
خود اس کی ابتدائی معیشت کو نوعیت بھی ایسی ہی تھی کہ انس و محبت کی جگہ خوف و
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 163
وحشت کے جذبات برانگیخت یہ ہوئے۔ وہ کمزور اور نہتا اور دنیا کی ہر چیز اسے دشمنی اور ہلاکت پر تلی نظر آتی تھی۔ دلدل کے مچھروں کے جھنڈ چاروں طرف منڈلا رہے تھے، زہریلے جانور ہر طرف رینگ رہے تھے، درندوں کے حملوں سے ہر وقت مقابل رہنا پڑتا تھا۔ سر پر سورج کی تپش بے پناہ تھی اور چاروں طرف موسم کے اثرات ہولناک تھے۔ غرض کہ اس کی زندگی سر تا سر جنگ اور محنت تھی اور اس ماحول کا قدرتی نتیجہ تھا کہ اس کا ذہن خدا کا تصور کرتے ہوئے خدا کی ہلاکت آفرینیوں کی طرف جاتا، رحمت و فیضان کا ادراک نہ کر سکتا۔
بالآخر صفات رحمت و جمال کا اشتمال
لیکن جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں تبدیلی ہوتی گئی اس کے تصورات میں بھی یاس و دہشت کی جگہ امید و رحمت کا عنصر شامل ہوتا گیا، یہاں تک کہ معبودیت کے تصور میں صفات رحمت و جمال نے بھی ویسی ہی جگہ پا لی جیسی صفات قہر و جلال کے لئے تھی۔ چنانچہ اگر قدیم اقوام کے اصنام پرستانہ تصورات کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ ان کی ابتدا ہر جگہ صفات قہر و تصور ہی سے ہوئی ہے اور پھر آہستہ آہستہ رحمت و جمال کی طرف قدم اٹھا ہے۔ آخری کڑیاں وہ نظر آئیں گی جن میں قہر و غضب کے ساتھ رحمت و جمال کا تصور بھی مساویانہ حیثیت سے قائم ہو گیا ہے۔ مثلاً : قہر و ہلاکت کے دیوتاؤں اور قوتوں کے ساتھ زندگی، رزق، دولت اور حسن و علم کے دیوتاؤں کی بھی پرستش شروع ہو گئی ہے۔ یونان کا علم الاصنام اپنی لطافت تخیل کے لحاظ سے تمام اصنامی تخیلات میں اپنی خاص جگہ رکھتا ہے۔ لیکن اس کی پرستش کے بھی قدیم معبود وہی تھے جو قہر و غضب کی خوف ناک قوتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ہندوستان میں اس وقت تک زندگی اور بخشش کے دیوتاؤں سے کہیں زیادہ ہلاکت کے دیوتاؤں کی پرستش ہوتی ہے۔
ظہور قرآن کے وقت دنیا کے عام تصورات
بہر حال ہمیں غور کرنا چاہیے کہ قرآن کے ظہور کے وقت صفات الہٰی کے عام تصورات کی نوعیت کیا تھی اور قرآن نے جو تصور پیش کیا اس کی حیثیت کیا ہے؟
 
Top