شمشاد
لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۳
راہوں کا سفر۔ ان آٹھ عملوں سے مقصود علم صحیح، رحم و شفقت، قربانی، ہوا و ہوس سے آزادی اور انانیت فنا کر دینا ہے۔ (ڈیوؤش ارلی بدھ ازم (David’s Early Buddhism)۔
یہودیوں کا تصور تجسیم اور تنزہ کے بین بین تھا اور صفات الہٰی میں غالب عنصر قہر و غضب کا تھا۔ خدا کا گاہ گاہ متشکل ہو کر نمودار ہونا، مخاطبات الہٰیہ کا سر تا سر انسانی صفات و جذبات پر مبنی ہونا، قہر و انتقام کی شدت اور ادنی درجے کا تمثیلی اسلوب تورات کے صفحات کا عام تصور ہے۔ مسیحی تصور رحم و محبت کا پیام تھا اور خدا کے لئے باپ کی محبت و شفقت اک تصور پیدا کرنا چاہتا تھا تجسیم و تنزہ کے لحاظ سے اس نے کوئی قدم آگے نہیں بڑھایا۔ گویا اس کی سطح وہیں تک رہی جہاں تک تورات کا تصور پہنچ چکا تھا۔ لیکن حضرت مسیح کے بعد جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تخیلات سے امتزاج ہوا تو اقالیم ثلاثہ، کفارہ اور مریم پرستی کے عقائد پیدا ہو گئے۔ نزول قرآن کے وقت بحثییت مجموعی مسیحی تصور ترحم و محبت کے ساتھ کفارہ، تجسیم اور مریم پرستی کا مخلوط تصور تھا۔
ان تصورات کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصورات کی طرح قوموں کا تصور نہ ہو سکا تاہم اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید و تنزیہ کا اعتقاد نشو پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط کی حکمت میں نمایاں ہوئی۔ سقراط کے تصور الہٰی کا جب ہم سراغ لگاتے ہیں تو افلاطون کی شہرہ آفاق کتاب جمہوریت (Republic) میں حسب ذیل مکالمہ ملتا ہے۔
افلاطون کی جمہوریت مکالمہ کے پیرایہ میں ہے۔ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہا یک عید کے موقع پر سقراط اور گلوکن (Glaucon) سیفالس (Cephalus) کےمکان میں جمع ہوئے۔ سیفالس کا لڑکا پولی مارکس (Polemarchus) اڈمنٹن (Adeimantus) اورنسیر (Niceratus) بھی موجود تھے۔ اثنائے گفتگو میں سوال پیدا ہو گیا کہ عدالت کی حقیقت کیا ہے۔ اس پر پولی مارکس اور بعض حاضرین نے یکے بعد دیگرے عدالت کی تعریف بیان کی لیکن سقراط انہیں رد کرتا رہا۔ پھر عدالت میں سے بات نکلتے ہوئے حکومت و قوانین کی نوعیت تک پہنچ گئی اور یہی کتاب کا اصلی موضوع ہے۔ پوری کتاب دس ابواب میں منقسم ہے۔
اشخاص مکالمے میں گلوکن اور اڈمنٹس افلاطون کے بھائی ہیں۔ گلوکن کا ذکر خود افلاطون نے اپنے مقالات میں کیا ہے۔ خلفائے عباسیہ کے عہد کہ "میں نے ارسطو کی کتاب السیاستہ کی شرح لکھنی چاہی تھی، لیکن اندس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا، مجبوراً افلاطون کی کتاب شرح کے لیے منتخب کرتا ہوں" ابو نصر فارابی نے گو تصریح نہیں کی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ "المدینۃ الفاصلۃ" کا تخیل اسے افلاطون کی جمہوریت ہی سے ہوا تھا۔ ابن رشد کی رح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں، لیکن اصل عربی ناپد ہے یورپ کی زبانوں کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیش نظر اے۔ ای۔ ٹیلر (A. E. Taylor) کا انگریزی ترجمہ ہے۔
یاد رہے کہ "ری پبلک" کے لیے "جمہوریہ" کا لفظ موجودہ عہد کی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ اسی عہد کے مترجمین کے اختیارات میں سے ہیں۔