شمشاد
لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۳
"عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یوں سمجھو کہ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا راستہ ہے۔ بالکل سیدھا۔ اس کے بعد اس لکیر کے دونوں طرف بہت سے ترچھی لکیریں کھینچ دیں اور فرمایا یہ طرح طرح کے راستے ہیں جو بنا لیے گئے ہیں اور ان میں کوئی راستہ نہیں جس کی طرف بلانے کے لیے ایک شیطان موجود نہ ہو، پھر یہ آیت پڑھی "وان ھذا صراطی مستقیما" ۔۔۔۔۔
اس سے معلوم ہوا تمام ادھر ادھر کے ٹیڑے ترچھے راستے "سُبل متفرقہ" ہیں جو جمعیت بشری کو متحد کرنے کی جگہ متفرق کر دیتے ہیں اور درمیان کی ایک ہی سیدھی راہ "صراط مستقیم" ہے۔ یہ متفرق کرنے کی بجائے، تمام رہ روان منزل کو ایک ہی شاہ راہ پر جمع کر دیتی ہے۔
یہ سبل متفرقہ کیا ہیں؟ اسی گمراہی کا نتیجہ ہیں جسے قرآن نے "تشیع" اور "تخرب" کی گم راہی سے تعبیر کیا ہے اور تشریح اس کی اوپر گزر چکی۔
دین حقیقی کی راہ کا سیدھا ہونا اور "سبل متفرقہ" یعنی کود ساختہ گروہ بندیوں کا پرپیچ و خم ہونا، ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر انسان بغیر کسی عقلی کاوش کے سمجھ لے سکتا ہے۔ خدا کا دین اگر انسان کی ہدایت کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے تمام قوانین کی طرح یہ بھی صاف اور واضح ہو، اس میں کوئی راز نہ ہو، کوئی پیچیدگی نہ ہو، ناقابل حل معمہ نہ ہو، اعتقاد میں سہل ہو اور عمل میں ہلکا، ہر عقل اسے بوجھ لے، ہر طبیعت اس پر مطمئن ہو جائے۔ اچھا اب غور کرو! یہ تعریف کس راہ پر صادق آتی ہے؟ ان مکتلف راہوں پر جو پیروان مذہب نے الگ الگ گروہ بندیاں کر کے نکال لی ہیں یا اس ایک ہی راہ پر جسے قرآن اصل دین کی راہ بتلاتا ہے؟
ان گروہ بندیوں میں سے کوئی گروہ بندی بھی ایسی نہین ہے جو اپنے بوجھل عقیدوں، ناقابل فہم عقدوں اور ناقابل برداشت عملوں کی ایک طول طویل فہرست نہ ہو۔ ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کے تمام پیروان مذہب کے مزعومہ عقائد و اعمال کا کیا حال ہے اور ان کی نوعیت کیسی ہے۔ مذہب کا عقل کے لیے معمہ اور طبیعت کے لیے بوجھ ہونا ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر مذاہب کا خاصہ تسلیم کر لی گئی