عمر سیف
محفلین
آپ نے صد فیصد درست فرمایا۔بہت شکریہ جناب عمر سیف صاحب۔
بہت پیارے بچے ہیں ما شاء اللہ۔ اللہ کریم ان کو خوشیاں دے اور والدین کے لئے حقیقی اور ابدی مسرتوں کا باعث بنائے۔
آمین! ثم آمین۔
بڑی فطری سی بات ہے کہ اولاد انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے؛ آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا قرار، امیدوں کا مرکز، خوشیوں کا منبع، اور پتہ نہیں کیا کچھ۔ اور والدین کی مثال یوں لیجئے کہ محبتوں کے دو دریا ہیں جو ایک دوجے میں ملتے ہیں اور اپنی ساری زرخیزیاں اپنے ان ننھے منے نونہالوں کو دیتے جاتے ہیں حتٰی کہ یہ نونہال تن آور درخت بن جاتے ہیں، ان پر پھل بھی آ جاتا ہے مگر والدین کے جذبات وہی ہوتے ہیں۔ اس کی عملی مثالیں یوں دیکھئے کہ ایک بابا جی یا ایک اماں جی اپنے پچاس سالہ بیٹے کا جو خود بھی باپ بن چکا ہوتا ہے اور شاید نانا دادا بھی کی بات کرتا ہے تو کہتا ہے: ’’میرا بچہ بہت فرماں بردار ہے‘‘، ’’میرا بچہ برا نہیں وہ تو کچھ ایسا ہوا ایسا ہوا‘‘ وغیرہ۔
اور کبھی کبھی یوں بھی: ’’بشیر بیٹے! تو ابھی بچہ ہے، سمجھتا نہیں۔ جب گھر میں بہو آ جائے تو بہت کچھ بدلتا ہے! تیرے گھر میں بھی تبدیلی آئے گی‘‘۔ بڑی اماں کہتی ہیں: ’’تب کی بات ہے بشیر پتر! جب تو اپنے پوتے عمار جتنا تھا۔ تجھے ایسا تیز بخار ہوا تھا کہ میری آنکھیں جل اٹھیں ۔۔۔ ‘‘