وہاب اعجاز خان
محفلین
396
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانہء دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے!
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے
لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز
دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانہء دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے!
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے
لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز
دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے