انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

396

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

خانہء دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے!

نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے

لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز
دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے

بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے

یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے​
 
397

ٹپکتے درد ہیں آنسو کی جاگہ
الہٰی چشم یا زخمِ کہن ہے

شہادت گاہ ہے باغِ زمانہ
کہ ہر گُل اس میں اک خونیں کفن ہے

کروں کیا حسرتِ گُل کو، وگرنہ
دلِ پُر داغ بھی اپنا چمن ہے

جو دے آرام ٹک آوارگی میر
تو شامِ غربت اک صبح وطن ہے​
 
398

گُل گشت کی ہوس تھی سو تو بگیر آئے
آئے جو ہم چمن میں، ہو کر اسیر آئے

فرصت میں یک نفس کی کیا دردِ دل سنو گے
آئے تو تم ، ولیکن وقتِ اخیر آئے

دلی میں اب کے آکر اُن یاروں کو نہ دیکھا
کچھ وے گئے شتابی، کچھ ہم بھی دیر آئے

کیا خوبی اس چمن کی موقوف ہے کسو پر
گُل گر گئے عدم کو، مکھڑے نظیر آئے

شکوہ نہیں جو اس کو پروا نہ ہو ہماری
دروازے جس کے ہم سے کتنے فقیر آئے

عمرِ دراز کیوں کر مختارِ خضر ہے یاں
اک آدھ دن میں ہم تو جینے سے سیر آئے

نزدیک تھی قفس میں پروازِ روح اپنی
غنچے ہو گُل بنوں پر جب ہم صفیر آئے

بِن جی دیے نہیں ہے امکان یاں سے جانا
بسمل گہِ جہاں میں اب ہم تو میر آئے​
 
کب سے نظر لگی تھی دروازہء حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے

صورت گرِ اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو
کھینچی وہ تیغِ ابرو فولاد کے قلم سے

سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے
جلتا ہوں، اور دریا بہتے ہیں چشمِ نم سے

کُڑھیے، نہ رویئے تو اوقات کیوں کر کزرے
رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم و الم سے

مشہور ہے سماجت میری کی تیغ برسی
پر میں نہ سر اُٹھایا ہر گر ترے قدم سے

بات احتیاط سے کر، ضائع نہ کر نفس کو
بالیدگیِ دل ہے مانندِ شیشہ دم سے

کیا کیا تعب اُٹھائے ، کیا کیا عذاب دیکھے
تب دل ہوا ہے اتنا خوگر ترے ستم سے

ہستی میں ہم نے آکر آسودگی نہ دیکھی
کُھلتیں نہ کاش آنکھیں خوابِ خوشِ عدم سے

پامال کرکے ہم کو پچھتاؤ گے بہت تم
کم یاب ہیں جہاں میں سردینے والے ہم سے

دل دو ہو میر صاحب اُس بدمعاش کو تم
خاطر کو جمع کرلو، ٹک قول سے ، قسم سے
 
400

گئے جی سے ، چھوٹے بتوں کی جفا سے
یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے

وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں
مرو یا جیو کوئی ، اُس کی بلا سے

پشیماں توبہ سے ہوگا عدم میں
کہ غافل چلا شیخ لطفِ ہوا سے

اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے
تعصب تجھے ہے، عجب ماسوا سے

طبیب سُبک عقل ہرگز نہ سمجھا
ہوا دردِ عشق آہ دونا دوا سے

ٹک اے مدعی چشمِ انصاف وا کر
کہ بیٹھے ہیں یہ قافیے کس ادا سے

نہ شکوہ شکایت، نہ حرف و حکایت
کہو میر جی آج کیوں ہو خفا سے​
 
401

بلا کا شکر کر اے دل کہ اب معلوم ہوتی ہے
حقیقت عافیت کی اُس گلی کے رہنے والوں سے

نہیں اے ہم نفس اب جی میں طاقت دوریِ گُل نہیں
جگر ٹکڑے ہوا جاتا ہے آخر شب کے نالوں سے

نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں
کہ آئینے کو ربطِ خاص ہے صاحب جمالوں سے

کہاں یہ قامتِ دل کش، کہاں پاکیزگی ایسی
ملے ہیں ہم بہت گلزار کے نازک نہالوں سے

ہدف اُس کا ہوئے مدت ہوئی سینے کو، پر اب تک
گُتھا نکلے ہے لختِ دل مرا تیروں کے بھالوں سے

رگِ گُل کوئی کہتا ہے، کوئی اے میر مُو اُس کو
کمر اُس شوخ کی بندھتی نہیں ان خوش خیالوں سے​
 
402

اندوہ وصل و ہجر نے عالم کھپا دیا
ان دو ہی منزلوں میں بہت یار تھک گئے

وے مے گسار ظرف جنھیں خُم کشی کے تھے
پھر کر نگاہ تُو نے جو کی ووں ہی چھک گئے​
 
403

زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے
موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے

لختِ دل کب تک الہٰی چشم سے ٹپکا کریں
خاک میں تاچند ایسے لعل پارے دیکھیے

ہو چکا روز جزا اب اے شہیدانِ وفا
چونکتے ہیں خونِ خفتہ کب تمہارے، دیکھیے

راہِ دورِ عشق میں اب تو رکھا ہم نے قدم
رفتہ رفتہ پیش کیا آتا ہے بارے، دیکھیے

سینہء مجروح بھی قابل ہوا ہے سیر کے
ایک دن تو آن کر یہ زخم سارے دیکھیے

خنجرِ بیداد کو کیا دیکھیے ہو دم بدم
چشم سے انصاف کی، سینے ہمارے دیکھیے

شست و شو کا اُس کے پانی جمع ہو کر مہ بنا
اور منھ دھونے کے چھینٹوں سے ستارے دیکھیے​
 
404

کس طور ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے
آخر میں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے

سو ظلم اُٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا
ہر گز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلا لے

عشق ان کو ہے جو یار کو اپنے دمِ رفتن
کرتے نہیں غیرت سے خدا کے بھی حوالے

وے دن گئے جو ضبط کی طاقت تھی ہمیں بھی
اب دیدہء خوں بار نہیں جاتے سنبھالے

احوال بہت تنگ ہے اے کاش محبت
اب دستِ تلطف کو مرے سر سے اُٹھا لے

کہتے ہیں حجابِ رخِ دل دار ہے ہستی
دیکھیں گے اگر یوں ہی بھلا جان بھی جالے

میر اس سے نہ مل آہ کہ ڈرتے ہیں مبادا
بے باک ہے وہ شوخ، کہیں مار نہ ڈالے​
 
405

بہ رنگِ بوئے گُل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
کہ ہمراہِ صبا ٹک سیر کرتے، پھر ہوا ہوتے

سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے، گر دلِ بے مدعا ہوتے

فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم
غبارِ راہ ہوتے یا کسو کی خاکِ پا ہوتے

الہٰی کیسے ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے
جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے

کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میر کیا جانے
اُنھیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے​
 
چمن یار تیرا ہَوا خواہ ہے
گُل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے

سراپا میں اُس کے نظر کرکے تم
جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے

تری آہ کس سے خبر پائیے
وہی بے خبر ہے جو آگاہ ہے

مرے لب پہ رکھ کان، آواز سن
کہ اب تک بھی یک ناتواں آہ ہے

گزر سر سے، تب عشق کی راہ چل
کہ ہر گام یاں اک خطر گاہ ہے

کبھو وادیِ عشق دکھلایئے
بہت خضر بھی دل میں گمراہ ہے

جہاں سے تُو رختِ اقامت کو باندھ
یہ منزل نہیں بے خبر، راہ ہے

یہ کارواں گاہِ دل کش ہے میر
کہ پھر یاں سے حسرت ہی ہمراہ ہے
 
407

ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گُل کے
بُو گئی کچھ دماغ میں گُل کے

جانے روغن دیا کرے ہے عشق
خونِ بلبل، چراغ میں گُل کے

دل تسلی نہیں صبا ورنہ
جلوے سب ہیں گے داغ میں گُل کے

اس حدیقے کے عیش پر مت جا
مے نہیں ہے ایاغ میں گُل کے

سیر کر میر اس چمن کی شتاب
ہے خزاں بھی سراغ میں گُل کے​
 
408

قابلِ آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے

حال یہ پہنچا ہے کہ اب صعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے

کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے

عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل ، دست بہ سر چاہیے

شرط سلیقہ ہے ہر ایک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے

خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بارِ دگر چاہیے​
 
409

عشق میں نَے خوف و خطر چاہیے
جان کو دینے کا جگر چاہیے

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اُس کی لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

نقطہء خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
 
410

عشق میں نَے خوف و خطر چاہیے
جان کو دینے کا جگر چاہیے

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اُس کی لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے

نقطہء خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
 
411

اب جو اک حسرتِ جوانی ہے
عمرِ رفتہ کی یہ نشانی ہے

رشکِ یوسف ہے آہ وقتِ عزیز
عمر اک بارِ کاروانی ہے

گریہ ہر وقت کا نہیں ہے ہیچ
دل میں کوئی غمِ نہانی ہے

خاک تھی موج زن جہاں میں اور
ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے

ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ
تا چمن ایک پرفشانی ہے

اس کی شمشیرِ تیز سے ہمدم
مر رہیں گے جو زندگانی ہے

یاں ہوئے میر تم برابر خاک
واں وہی ناز و سرگرانی ہے​
 
412

قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
گُلوں میں جن کی خاطر خرقے ڈالے

نہیں اُٹھتا دلِ مخزوں کا ماتم
خدا ہی اس مصیبت سے نکالے

کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے
کبھو تو پاس ہم کو بھی بُلالے

تپش نے دل جگر کی مار ڈالا
بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے

کسے قیدِ قفس میں یاد گُل کی
پڑے ہیں اب تو جینے ہی کے لالے

ستایا میر غم کش کو کنھوں نے
کہ پھر اب عرش تک جاتے ہیں نالے​
 
413

اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے
بس ہم نہ برا مانیں، تو کون برُا مانے

سرمایہء صد آفت دیدار کی خواہش ہے
دل کی تو سمجھ لیجیے گر چشم کہا مانے

ٹک حالِ شکستہ کے سننے ہی میں سب کچھ ہے
پر وہ تو سخن رس ہے اس بات کو کیا مانے

بے طاقتیِ دل نے سائل بھی کیا ہم کو
پرمیر فقیروں کی یاں کون صدامانے​
 
415

دل ک معمورے کی مت کر فکر، فرصت چاہیے
ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے

عاقبت فرہاد مر کر کام اپنا کر گیا
آدمی ہووے کسی پیشے میں ، جرات چاہیے

ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن
سامنے ہونے کو صاحب فن کی قدرت چاہیے

عشق و وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو
قرب و بُعد اس جا برابر ہے، محبت چاہیے

نازکی کو عشق میں کیا دخل ہے اے بوالہوس
یاں صعوبت کھینچنے کی جی میں طاقت چاہیے

تنگ مت ہو ابتدائے عاشقی میں اس قدر
خیریت ہے میر صاحب، دل سلامت چاہیے​
 
416

بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک، میدان ہورہا ہے

اس منزلِ جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے یاں سفر کا سامان ہورہا ہے

قرباں گہِ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سُو
دشوار جان دینا آسان ہو رہا ہے
 
Top