انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

437

اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
پر اُس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے

بالیں پہ میری آخر ٹک دیکھ شوقِ دیدار
سارے بدن کا جی اب آنکھوں میں آرہا ہے

مت کر زمیںِ دل میں تخمِ اُمید ضائع
بُوٹا جو یاں اُگا ہے سو اُگتے ہی جلا ہے

صد سحر و یک رقیمہ خط میر جی کا دیکھا
قاصد نہیں چلا ہے، جادو مگر چلا ہے​
 
438

حرم کو جانیے یا دیر میں بسر کریے
تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے

کٹے ہے دیکھیے یوں عمر کب تلک اپنی
کہ سینے نام ترا اور چشم تر کریے

ہوا ہے دن تو جدائی کا سو تعب سے شام
شبِ فراق کس اُمید پر سحر کریے

جہاں کا دید بجز ماتمِ نظارہ نہیں
کہ دیدنی ہی نہیں جس پہ یاں نظر کریے

ستم اُٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب اُس کو
جو دل میں آوے تو ٹک رحم میر پر کریے​
 
439

مشہور چمن میں تری گُل پیرہنی ہے
قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے

عریانیِ آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ
کشتہ ہے ترا اور یہی بے کفنی ہے

سمجھے ہے نہ پروانہ، نہ تھامے ہے زباں شمع
وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زَدَنی ہے

لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک
آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے

بلبل کی کفِ خاک بھی اب ہوگی پریشاں
جامے کا ترے رنگ ستم گر چمنی ہے

ہوں گرمِ سفر شامِ غریباں سے خوشی ہوں
اے صبحِ وطن تُو تو مجھے بے وطنی ہے

(ق)

ہرچند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن
اِن بوالہوسوں میں کوئی مجھ سا بھی غنی ہے

ہر اشک مرا ہے دُرِ شہوار سے بہتر
ہر لختِ جگر رشکِ عقیق یمنی ہے

پکڑی ہے نپٹ میر تپش اور جگر میں
شاید کہ مرے جی ہی پر اب آن بنی ہے
 
440

غیروں سے اگر کھینچو گے شمشیر تو خوباں
اک اور مری جان پہ بیداد کرو گے

گر دیکھو گے تم طرزِ کلام اُس کی نظر کر
دے اہلِ سخن میر کو استاد کرو گے​
 
441

اب کرکے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

خوش سرانجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے

جنسِ دل دونوں جہاں میں جس کی بہا تھی اُس کا
یک نگہ مول ہوا، تم نہ خریدار ہوئے

عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتیِ منزل قدس
وے بھی رسوائے سرِ کوچہ و بازار ہوئے

سیرِ گلزار مبارک ہو صبا کو، ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے

اُس ستم گار کے کُوچے کے ہوداروں میں
نام فردوس کا ہم لے کے گنہ گار ہوئے

وعدہء حشرتو موہوم نہ سمجھے ہم آہ
کس توقع پہ ترے طالبِ دیدار ہوئے

میر صاحب سے خدا جانے ہوئی کیا تقصیر
جس سے اس ظلمِ نمایاں کے سزاوار ہوئے​
 
443

ہوا مذکور نام اُس کا کہ آنسو بہہ چلے منھ پر
ہمارے کام سارے دیدہء تر ہی ڈبوتا ہے

ہلانا ابروؤں کا، لے ہے زیرِ تیغ عاشق کو
پلک کا مارنا ، برچھی کلیجے میں چبھوتا ہے

کہاں اے رشکِ آبِ زندگی ہے تُو کہ یاں تجھ بن
ہر اک پاکیزہ گوہر جی سے اپنے ہاتھ دھوتا ہے

نہ رکھو کان نظمِ شاعرانِ حال پر اتنے
چلو ٹک میر کو سننے کہ موتی سے پروتا ہے​
 
444

ہم تو اُس کے ظلم سے ہمدم چلے
رہ سکے ہے تُو تو رہ یاں، ہم چلے

دیکھیے بختِ زبوں کیا کیا دکھائے
تم کو خوباں ہم سے ہو برہم چلے​
 
445

باغ کوتجھ بن اپنے بھائیں آتش دی ہے بہاراں نے
ہر غنچہ اخگر ہے ہم کو، ہر گُل ایک انگارا ہے

یہاں کھلے وہ شب کو شاید بسترِ ناز پہ سوتا تھا
آئی نسیم ِ صبح جو ایدھر، پھیلا عنبر سارا ہے

کس دن دامن کھینچ کے اُن نے یار سے اپنا کام لیا
مدت گزری دیکھتے ہم کو، میر بھی اک ناکارا ہے​
 
446

رونا یہی ہے مجھ کو تیری جفا سے ہر دم
یہ دل دماغ دونوں کب تک وفا کریں گے

درویش ہیں ہم آخر وہ یک نگہ کی رخصت
گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے

دامانِ دشت سُوکھا ابروں کی بے تہی ہے
جنگل میں رونے کو اب ہم بھی چلا کریں گے

لائی تری گلی تک آوارگی ہماری
ذلت کی اپنی اب ہم عزت کیا کریں گے

احوال میر کیوں کر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصہ تم سے کہا کریں گے​
 
447


ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
ان دنوں تم بہت شریرہوئے

(ق)

ایسی ہستی عدم میں داخل ہے
نَے جواں ہم ،نہ طفلِ شیر ہوئے

ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی، یا اخیر ہوئے

یعنی مانندِ صبح دنیا میں
ہم جو پیدا ہوئے سو پِیر ہوئے

مت مل اہلِ دوَل کے لڑکوں سے
میر جی ان سے مل فقیر ہوئے
 
448

توجہ تیری اے حیرت مری انکھوں پہ کیا کم ہے
جو میں ہر یک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے

دو رنگی دہر کی پیدا ہے ، یاں سے دل اُٹھا اپنا
کسو کے گھر میں شادی ہے، کہیں ہنگامہء غم ہے
 
449

جب کہ پہلو سے یار اُٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے

اب تلک بھی مزارِ مجنوں سے
ناتواں اک غبار اٹھتا ہے

ہے بگولا غبار کس کا میر
کہ جو ہو بے قرار اٹھتا ہے​
 
جب تک کڑی اٹھائی گئی، ہم کڑے رہے
اک ایک سخت بات پہ برسوں اَڑے رہے

اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ جی میں تاب
کل اُس گلی میں آٹھ پہر غش پڑے رہے

وہ گُل کو خوب کہتی تھی، میں اُس کے رُو تئیں
بلبل سے آج باغ میں جھگڑے بڑے رہے
 
452

مرتا ہے کیوں تُو ناحق یاری برادری پر
دنیا کے سارے ناتے ہیں جیتے جی تلک کے

کہتے ہیں گور میں بھی ہیں تین روز بھاری
جاویں کدھر الٰہی مارے ہوئے فلک کے

لاتے نہیں نظر میں غلطانیِ گہر کو
ہم معتقد ہیں اپنے آنسو ہی کی ڈھلک کے

کل اک مژہ نچوڑے طوفانِ نوح آیا
فکر فشار میں ہوں میر آج ہر پلک کے​
 
453

تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
اُمیدِ عیادت پر بیمار رہا کیجے

نَے اب ہے جگر کاوی، نَے سینہ خراشی ہے
کچھ جی میں یہ آئے ہے بے کار رہا کیجے

دل جاؤ تو اب جاؤ ہو خوں تو جگر ہووے
اک جان ہے، کس کس کے غم خوار رہا کیجے

ہے زیست کوئی یہ بھی جو میر کرے ہے تُو
ہر آن میں مرنے کو تیار رہا کیجے
 
454

طاقت نہیں ہے جی میں، نَے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

مارا ہے کس کو ظالم اِس بے سلیقگی سے
دامن تمام ترا لوہو میں بھر رہا ہے

پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک، جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے

چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے​
 
455

قرارِ دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے
ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے

اُٹھائیں تیرے لیے بدزبانیاں اُن کی
جنھوں کی ہم کو خوشامد ہے ننگ تھا آگے

کیا خراب تغافل نے اُس کے ورنہ میر
ہر ایک بات پہ دشنام و سنگ تھا آگے​
 
456

ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر اے نسیم
اُٹھتے ہی آشیاں سے، گرفتار ہو گئے

کیسے ہیں وے کہ جیتے ہیں صد سال ، ہم تو میر
اس چار دن کی زیست میں بیزار ہو گئے
 
Top