انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

417

تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے
ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے

آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کرو گے، ہم گریہ سر کریں گے

سر جائے گا ولیکن آنکھیں اُدھر ہی ہوں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطعِ نظر کریں گے

اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اُس کو کب تک خبر کریں گے

گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے کہ ہم نشیں ہم
شامِ غمِ جدائی کیوں کر سحر کریں گے

یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرو یاں
کہتے ہیں جو ستم ہے، ہم تجھ ہی پر کریں گے

اپنے ہی جی میں آخر انصاف کر کہ کب تک
تُو یہ ستم کرے گا، ہم درگزر کریں گے

صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میر جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے​
 
418

آنکھوں میں دلبروں کی مطلق نہیں مروت
یہ پاسِ آشنائی منظور کیا رکھیں گے

دیوانِ میر صاحب ہر اک کی ہے بغل میں
دو چار شعر اُن کے ہم بھی لکھا رکھیں گے
 
419

تجھ سے دُچار ہوگا جو کوئی راہ جاتے
پھر عمر چاہیے گی اُس کو بحال آتے

گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جواب ہے
تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے

وے دن گئے کہ اُتھ کر جاتے تھے اُس گلی میں
اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اُٹھاتے

گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو
کاہے کو خا ک میں ہم اپنے تئیں ملاتے

شاید کہ خون دل کا پہنچا ہے وقت آخر
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو راتون کو آتے آتے

اس سمت کو پلٹتی تیری نگہ تو ساقی
حالِ خرابِ مجلس ہم شیخ کو دکھاتے

شب کوتہ اور قصہ ان کا دراز، ورنہ
احوالِ میر صاحب ہم تجھ کو سب سناتے​
 
420

بہت دور کوئی رہا ہے مگر
کہ فریاد میں ہے جرس شور سے

ترے دل جلے کو رکھا جس گھڑی
دھواں سا اُٹھا کچھ لبِ گور سے
 
421

مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے
یاں سلیماں کے مقابل مور ہے

مرگئے پر بھی ہے صولت فقر کی
چشمِ شیر اپنا چراغِ گور ہے

دل کھینچے جاتے ہیں سارے اُس طرف
کیوں کہ کہیے حق ہماری اور ہے

تھا بلا ہنگامہ آرا میر بھی
اب تلک گلیوں میں اُس کا شور ہے
 
422

غیر سے اب یار ہوا چاہیے
ملتجی ناچار ہوا چاہیے

جس کے تئیں ڈھونڈیں ہیں وہ سب میں ہے
کس کا طلب گار ہوا چاہیے

تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو
اس لیے بیمار ہوا چاہیے

زلف کس کی ہو کہ ہو خال و خط
دل کو گرفتار ہوا چاہیے

کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی
سایہء دیوار ہوا چاہیے
 
423

یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے
پامال ہوگئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے

دیکھی نہ ایک چشمکِ گُل بھی چمن میں آہ
ہم آخرِ بہار قفس سے رہا ہوئے

بچھتاؤ گے بہت جو گئے ہم جہان سے
آدم کی قدر ہوتی ہے ظاہر ، جدا ہوئے

تجھ بِن دماغِ صحبتِ اہلِ چمن نہ تھا
گُل وا ہوئے ہزار، ولے ہم نہ وا ہوئے

سردے کے میر ہم نے فراغت کی عشق میں
ذمے ہمارے بوجھ تھا، بارے ادا ہوئے​
 
424

اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے
اِک نظر گُل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے

حسن کو بھی عشق نے آخر کیا حلقہ بہ گوش
رفتہ رفتہ دلبروں کے کان میں بالے پڑے

مت نگاہِ مست کو تکلیف کر ساقی زیاد
ہر طرف تو ہیں گلی کوچوں میں متوالے پڑے

کیوں کے طے ہو دشتِ شوق آخر کو مانندِ سرشک
میرے پاؤں میں تو پہلے ہی قدم چھالے پڑے
 
425

رنج کھینچے تھے، داغ کھائے تھے
دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے

پاسِ ناموسِ عشق تھا، ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

وہی سمجھا نہ ، ورنہ ہم نے تو
زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے

اب جہاں آفتاب میں ہم ہیں
یاں کبھو سرو و گُل کے سائے تھے

کچھ نہ مجھے کہ تجھ سے یاروں نے
کس توقع پہ دل لگائے تھے

فرصتِ زندگی سے مت پوچھو
سانس بھی ہم نہ لینے پائے تھے

میر صاحب رُلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے​
 
426


گرے بحرِ بَلا مژگاں پر سے
نگاہیں اُٹھ گئیں طوفاں پر سے

کہاں ہیں آدمی عالم میں پیدا
خدائی صدقے کی انسان پر سے​
 
427

خوب ہی اے ابر، اک شب آؤ، باہم روئیے
پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر، کم کم روئیے

وقتِ خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں
خندہء صبحِ چمن پر مثلِ شبنم روئیے

شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق
عید کےدن ہنسیے تو دس دن محرم روئیے

دیکھا ماتم خانہء عالم کو ہم مانندِ ابر
ہر جگہ پر جی میں یوں آیا دمادم روئیے

عشق میں تقریبِ گریہ گو نہیں درکار میر
ایک مدت صبر ہی کا رکھیے ماتم روئیے​
 
429

نہیں وہ قیدِ الفت میں، گرفتاری کو کیا جانے
تکلف برطرف، بے مہر ہے، یاری کو کیا جانے

وہ ہے اک مندرس نالہ مبارک مرغِ گلشن کو
وہ اس ترکیب ِ نو کے نالہ و زاری کو کیا جانے

ستم ہے تیری خوئے خشمگیں پر ٹک بھی دل جوئی
دل آزاری کی باتیں کر، تُو دل داری کو کیا جانے

گلہ اپنی جفا کا سن کے مت آرزودہ ہو ظالم
نہیں تہمت ہے تجھ پر، تُو جفا کاری کو کیا جانے​
 
430

کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگِ نسیم
مشتِ پر باغ میں آتے ہیں پریشان ہوئے

سبزہ و لالہ و گُل، ابر و ہوا ہے، مے دے
ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیماں ہوئے

دعویِ خوش دہنی گرچہ اُسے تھا، لیکن
دیکھ کر مجھ کو ترے، گُل کے تئیں کان ہوئے

اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پییں آبِ حیات
یوں تو ہم میر اسی چشمے پہ بے جان ہوئے​
 
431

یارب کوئی ہو، عشق کا بیمار نہ ہووے
مرجائے، ولے اُس کو یہ آزار نہ ہووے

زنداں میں پھنسے ، طوق پڑے، قید میں مر جائے
پر دامِ محبت میں گرفتار نہ ہووے

اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ باد کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے

صحرائے محبت ہے، قدم دیکھ کے رکھ میر
یہ سیر سرِ کُوچہ و بازار نہ ہووے​
 
432

برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے

اے ناقہء لیلٰی دو قدم راہ غلط کر
مجنوں ز خودِ رفتہ کبھو راہ پر آوے

(ق)

ممکن نہیں آرام دے بے تابی جگر کی
جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے

مت ممتحنِ باغ ہو اے غیرتِ گلزار
گُل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے

کھلنے میں ترے منھ کے کلی پھاڑے گریباں
ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گُل برگ تر آوے

ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوقِ خبر میں
اے جن بہ لب آمدہ رہ ، تاخبر آوے

کہتے ہیں ترے کُوچے سے میر آنے کہے ہے
جب جانیے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے​
 
433

جب نام ترا لیجے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

کیا جانیں وے مرغانِ گرفتار چمن کو
جن تک کہ بہ صد ناز نسیمِ سحر آوے

ہر سُو سر تسلیم رکھے صید حرم میں
وہ صید فگن تیغ بہ کف تا کدھر آوے

صناع ہیں سب خوار، ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اُس میں جسے کچھ ہنر آوے

(ق)

اے وہ کہ تُو بیٹھا ہے سرِ راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میر بلاکش اِدھر آوے

مت دشتِ محبت میں قدم رکھ کر خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذَر آوے​
 
434


لگوائے پتھر اور بُرا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے

بے عیب ذات ہے گی خدا ہی کی اے بُتاں
تم لوگ خوبرو جو کیے بے وفا کیے​
 
435

کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے
سہپرِ نیلی کا یہ سائبان جل جاوے

نہ بول میر سے مظلوم عشق ہے وہ غریب
مبادا آہ کرے، سب جہان جل جاوے​
 
436

گزارِ خوش نگاہاں جس میں ہے، میرا بیاباں ہے
سوادِ برِ مجنوں تو چراگاہِ غزالاں ہے

چمن پر نوحہ و زاری سے کس گُل کا یہ ماتم ہے
جوشبنم ہے تو گریاں ہے، جو بلبل ہے تو نالاں ہے

ہر اک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں
تماشا مفتِ خوباں ہے، لبِ دریا چراغاں ہے

کیا تھا جا بہ جا رنگیں لہوتجھ ہجر میں رو کر
گریباں میر کا دیکھا مگر گُل چیں کا دامن ہے​
 
Top