انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

139

(ب)


رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
سوجاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب

دھوکے ترے کس دن میں جان دے رہوں گا
کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب

مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا
روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب

مایوسِ وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں
گزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب​
 
140

اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُر آب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب

اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ درِ نایاب روز و شب

قدرت تو دیکھ عشق کی ، مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب

اب رسمِ ربط اُٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب​
 
141


یہ اتصال اشکِ جگر سوز کا کہاں
روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب

(ق)
شکوہ عبث ہے میر کہ کڑھتے ہیں سارے دن
یاں دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب

گزرا کسے جہاں میں خوشی سے تمام روز
کس کی کٹی زمانے میں بے غم تمام شب​
 
142


شبِ سوزِ دل کہا تھا میں مجلس میں شمع سے
روئی ہے یاں تلک کہ بھرا ہے لگن میں آب

دریا میں قطرہ قطرہ ہے آبِ گہر کہیں
ہے میر موج زن ترے ہر یک سخن میں آب
‌‌
 
143

کس کی مسجد، کیسے بت خانے ، کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب

موند رکھنا چشم کا ہستی میں عینِ دید ہے
کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب

تُو ہو اور دنیا ہو ساقی، میں ہوں، مستی ہو مدام
پربطِ صہبا نکالے اُڑ چلے رنگِ شراب

ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک
ٹک تو رہ، پیری چلی آتی ہے اے عہدِ شباب

وائے اس جینے پر اے مستی کہ دورِ چرخ میں
جامِ مے پر گردش آوے اور مے خانہ خراب

مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سرشکِ آب دار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب

کچھ نہیں بحرِ جہاں کی موج پر مت بھول میر
دُور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب

 
144

دیکھ خورشید تجھ کو اے محبوب!
عرقِ شرم میں گیا ہے ڈوب

آئی کنعاں سے بادِ مصر، ولے
نہ گئی تابہ کلبہء یعقوب

اس لیے عشق میں نے چھوڑا تھا
تو بھی کہنے لگا برا، کیا خوب

پی ہو مے تو لہو پیا ہوں میں
محتسب آنکھوں پر ہے کچھ آشوب

میر شاعر بھی زور کوئی تھا
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب​
 
145

ت



روزانہ ملوں یار سے، یا شب ہو ملاقات
کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات

نے بخت کی یاری ہے، نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آ بھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات

دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
اک بار تو اس شوخ سے یارب! ہو ملاقات

جاتی ہے غشی بھی کبھو، آتے ہیں بہ خود بھی
کچھ لطف اُٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات

وحشت ہے بہت میر کو مل آئیے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات

 
146

سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو، جاناں سمیت
تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت

تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر
گر ہمیں زیرِ زمیں سونپا دلِ نالاں سمیت

باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگانِ خوں فشاں سمیت

قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے، مجھ خانماں ویراں سمیت

اُٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میر
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت​
 
147

سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو، جاناں سمیت
تِیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت

تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر
گر ہمیں زیرِ زمیں سونپا دلِ ناداں سمیت

باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگانِ خوں افشاں سمیت

قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے، مجھ خانماں ویراں سمیت

اُٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میر
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت​
 
148

آنکھوں پہ تھے پارہء جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

اک دن وفا بھی کرتے وعدہ
گزری ہے اُمیدوار ہر رات

مکھڑے سے اُٹھائیں اُن نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم ، گئی کدھر رات

تُو پاس نہیں‌ ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات

کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اُٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات

واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گزر رات

ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گزری ہمیں ساری بے خبر رات

کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات

دن وصل کا یوں کٹا، کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات

کل تھی شبِ وصل اک ادا پر
اُس کی، گئے ہوتے ہم تو مر رات

جاگے تھے ہمارے بختِ خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات

تھی صبح جو مجھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات

پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میر کس قدر رات
 
149

جیتا ہی نہیں، ہو جسے آزارِ محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت

ہر جنس کی خواہاں ملے بازار جہاں میں
لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت

اس راز کو رکھ جی ہی میں تاجی بچے تیرا
زنہار جو کرتا ہو تُو اظہار محبت

بے کار نہ رہ عشق میں تُو رونے سے ہرگز
یہ گریہ ہی ہے آبِ رُخِ کارِ محبت​
 
150

جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہرسحَر و شام بہت

دستِ صیاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تہِ دام بہت

ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایام بہت

دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی
ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت

پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالباً زیرِ زمیں میر ہے آرام بہت​
 
کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان، جب کی بات

نکتہ دانانِ رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات

کس کا روئے سخن نہیں اُودھر
ہے نظر میں‌ہماری سب کی بات

ظلم ہے، قہر ہے ، قیامت ہے
غصے میں اُس کے زیرِ لب کی بات

کہتے ہیں آگے تھا بتوں‌میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات

گو کہ آتش زباں تھے آگے میر
اب کی کہیے، گئی وہ تب کی بات
 
153

ج


آئے ہیں میر منھ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اُس بے وفا سے آج

ساقی ٹک ایک موسم گُل کی طرف بھی دیکھ
ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج

تھا جی میں اُس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پرکچھ کہا گیا نہ غمِ دل، حیا سے آج​
 
154

چ

کاش انھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ

عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ

یارو مت اُس کا فریبِ مہر کھاؤ
میر بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
 
155

فائدہ مصر میں یوسف رہے زنداں کے بیچ
بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعاں کے بیچ

چشمِ بددور کہ کچھ رنگ ہے اب گریے پر
خون جھمکے ہے پڑا دیدہء گریاں کے بیچ

حالِ گلزارِ زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق
رنگ کچھ اور ہی ہوجائے ہے اک آن کے بیچ

تاک کی چھاؤں میں جوں مست پڑے سوتے ہیں
اینڈتی ہیں نگہیں سایہء مژگاں کے بیچ

دعویِ خوش دہنی اُس سے اسی منھ پر گُل
سر تو ٹک ڈال کے دیکھ اپنے گریباں کے بیچ

کان رکھ رکھ کے بہت دردِ دلِ میر کو تم
سنتے تو ہو، پہ کہیں درد نہ ہو کان کے بیچ​
 
156

کر نہ تاخیر تُو اک شب کی ملاقات کے بیچ
دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ

حرف زن مت ہو کسی سے تُو کہ اے آفتِ شہر
جاتے رہتے ہیں ہزاروں کے سر اک بات کے بیچ

میری طاعت کو قبول، آہ کہاں تک ہوگا
سبحہ اک ہاتھ میں ہے، جام ہے اک ہات کے بیچ

سُرمگیں چشم پہ اُس شوخ کی زنہار نہ جا
ہے سیاہیِ مژہ میں وہ نگہ گھات کے بیچ

زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں
اک دلِ غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ​
 
ح
ہونے لگا گزار غمِ یار بے طرح
رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح

جاں بر تمہارے ہاتھ سے ہوگا نہ اب کوئی
رکھنے لگے ہو ہاتھ میں تلوار بے طرح

لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میر
بپھرا ہے آج دیدہء خونبار بے طرح​
 
Top