وہاب اعجاز خان
محفلین
139
(ب)
(ب)
رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
سوجاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب
دھوکے ترے کس دن میں جان دے رہوں گا
کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب
مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا
روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب
مایوسِ وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں
گزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب
سوجاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب
دھوکے ترے کس دن میں جان دے رہوں گا
کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب
مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا
روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب
مایوسِ وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں
گزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب