انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

218

آزردگی یہ چھوڑ قفس ہم سے نہ جاسکے
حسنِ سلوک صعف سے صحنِ چمن تلک

مارا گیا خرامِ بُتاں پر سفر میں میر
اے کبک کہتا جائیو اُس کے وطن تلک​
 
219

گ

بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
رات تو تھوڑی ہے، بہت ہے سانگ

عشق کا شور کوئی چھُپتا ہے
نالہء عندلیب ہے گُل بانگ

کس طرح اُن سے کوئی گرم ملے
سیم تن پگھلے جاتے ہیں جوں رانگ

نقرہ باطل تھا طور پر اپنے
ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ

میر بندوں سے کام کب نکلا
مانگتا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
 
220

ل


فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل
چھانی چمن کی خاک، نہ تھا نقشِ پائے گُل

اللہ رے عندلیب کی آوازِ دل خراش
جی ہی نکل گیا، جو کہا اُن نے ہائے گُل

مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ
یہ چشمکِ پیالہ ہے ساقی ہوئے گل

بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے
اے گُل فروش کریو سمجھ کر بہائے گل

نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رُو کی یہ
قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل

بارے سر شکِ سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پراپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گُل

آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی
لے اے زبان دراز تو سب کچھ ہوائے گُل

گُل چیں سمجھ کے چنُیو کہ گلشن میں میر کے
لختِ جگر پڑے ہیں،نہیں برگ ہائےگُل
 
221

گل کی جفا بھی جانی دیکھی وفائے بلبل
یک مشت پر پڑے ہیں گلشن میں جائے بلبل

کر سیر جذبِ الفت گُل چیں نے کل چمن میں
توڑا تھا شاخ گُل کو نکلی صدائے بلبل

کھٹکے ہیں خار ہو کر ہر شب دلِ چمن میں
اتنے لب و دہن پر، یہ نالہ ہائے بلبل

یک رنگینوں کی راہیں طے کرکے مرگیا ہے
گُل میں رگیں نہیں یہ ہیں نقشِ پائے بلبل

آئی بہار ، گلشن گُل سے بھرا ہے لیکن
ہر گوشہء چمن میں خالی ہے جائے بلبل

پیغام بے غرض بھی سنتے نہیں ہیں‌خوباں
پہنچی نہ گوشِ گُل تک آخر دعائے بلبل

یہ دل خراش نالے ہر شب کو میر تیرے
کردیں گے بے نمک ہی شورِ نوائے بلبل​
 
222

کیسا چمن ، اسیری میں کس کو اُدھر خیال
پرواز خواب ہوگئی ہے، بال و پر خیال

مشکل ہے مٹ گئے ہو نقشوں کی پھر نمود
جو صورتیں بگڑ گئیں اُن کا نہ کر خیال

کس دماغِ شعر و سخن صعف میں کہ میر
اپنا رہے ہے اب تو ہمیں بیش تر خیال​
 
223

سیر کر عندلیب کا احوال
ہیں پریشاں چمن میں کچھ پر و بال

تپِ غم تو گئی طبیب ولے
پھر نہ آیا کبھو مزاج بحال

سبزہ نورستہ رہ گزار کا ہوں
سر اُٹھایا کہ ہوگیا پامال

کیوں نہ دیکھوں چمن کو حسرت سے
آشیاں تھا مرا بھی یاں پر سال

ہجر کی شب کو یاں تئیں تڑپا
کہ ہوا صبح ہوتے میرا وصال

ہم تو سہ گزرے کج روی تیری
نہ نبھے گی پر اے فلک یہ چال

دیدہء تر پہ شب رکھا تھا میر
لکہء ابر سے مرا رومال
 
224

جانیں ہیں فرشِ رہ تری مت ہال ہال چل
اے رشکِ حور آدمیوں کی سی چال چل

اک آن میں بدلتی ہے صورت جہان کی
جلد اس نگار خانے سے کر انتقال، چل

سالک بہر طریق بدن ہے وبالِ جاں
یہ بوجھ تیرے ساتھ جو ہے اس کو ڈال چل

دنیا ہے میر حادثہ گاہِ مقرری
یاں سے تُو اپنا پاؤں شتابی نکال چل​
 
226

مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل

اس مہلتِ دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل

اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلب گار آج کل

ملنے کی رات داخلِ ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل

گلزار ہو رہی ہے مرے دم سے کُوئے یار
اک رنگ پر ہے دیدہء خوں بار آج کل

کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانہء خمار آج کل

حیران میں ہی حال کی تدبیر میں‌ نہیں
ہر اک شہر میں ہے یہ آزار آج کل

اچھا نہیں ہے میر کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل​
 
228

م

کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم
تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا، کھولی سو سو بار چشم

روز و شب وا رہنے سے پیدا ہے میر آثارِ شوق
ہے کسو نظارگی کا رخنہء دیوار چشم


 
229

کیا بلبلِ اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم

جیتے ہیں تو دکھاویں گے دعوائے عندلیب
گُل بِن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم

یہ تیغ ہے، یہ طشت ہے، یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم

تلواریں تم لگاتے ہو، ہم ہیں گے دم بہ خود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگزر کہ ہم

اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا دربدر کہ ہم​
 
230

آئے تو ہو طبیاں، تدبیر گر کرو تم
ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم

رنگِ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
اک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم

اُس بزمِ خوش کے محرم نا آشنا ہیں سارے
کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم

ہے پیچ دار از بس راہِ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم

یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گزرے
سوگند ہے تمہیں اب جو درگزر کرو تم

روئے سخن کہاں‌تک غیروں کی اور آخر
ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم

(ق)

ہو عاشقوں میں اُس کے تو آؤ میر صاحب
گردن کو اپنی مُو سے باریک تر کرو تم

کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے
سینہ سپر کریں ہم، قطعِ نظر کرو تم​
 
231

جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم

ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں
پھاٹے میں پاؤں دینے کو آئے کہاں سے تم

اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں
کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم

جاؤ نہ دل سے، منظرِ تن میں ہے جا یہی
پچھتاؤ گے، اُٹھو گے اگر اس مکاں سے تم

قصہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند
آرامِ چشم مت رکھو اس داستاں سے تم

کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مرجائے گا کوئی
آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم

رہتے نہیں ہو بِن گئے میر اُس گلی میں رات
کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم​
 
232

کرتے نہیں دُوری سے اب اُس کی باک ہم
نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم

آہستہ اے نسیم کہ اطراف باغ کے
مشتاقِ پرفشانی ہیں اک مشتِ خاک ہم

شمع و چراغ و شعلہ و آتش، شرار و برق
رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم

مستی میں ہم کو ہوش نہیں نشاء تین کا
گلشن میں اینڈتے ہیں پڑے زیرِ تاک ہم

جوں برق تیرے کُوچے سے ہنستے نہیں گئے
مانندِ ابر جب اُٹھے تب گریہ ناک ہم

مدت ہوئی کہ چاکِ قفس ہی سے اب تو میر
دکھلا رہے ہیں گُل کو دلِ چاک چاک ہم​
 
233

نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
گئے گزرے ہیں آخر ایسے کیا ہم

کھنچے گی کب وہ تیغِ ناز یارب!
رہے ہیں دیر سے سر کو جھکا ہم

نہ جانا یہ کہ کہتے ہیں کسے پیار
رہیں بے لطفیاں ہی یاں تو باہم

بنے کیا خال و زلف و خط سے دیکھیں
ہوئے ہیں کتنے یہ کافر فراہم

مرض ہی عشق کا بے ڈول ہے کچھ
بہت کرتے ہیں اپنی سی دوا ہم

کہیں پیوند ہوں‌ یارب! زمیں کے
پھریں گے اُس سے یوں کب تک جدا ہم

ہوس تھی عشق کرنے میں ولیکن
بہت نادم ہوئے دل کو لگا ہم

کب آگے کوئی مرتا تھا کسی پر
جہاں میں رکھ گئے رسمِ وفا ہم

تعارف کیا رہا اہلِ چمن سے
ہوئے اک عمر کے پیچھے رہا ہم

مُوا جس کے لیے اُس کو نہ دیکھا
نہ سمجھے میر کا کچھ مدعا ہم

 
234

اگر راہ میں اُس کی رکھا ہے گام
گئے گزرے خضرِ علیہ السلام

دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی
سخن یاں ہوا ختم ،حاصل کلام

(ق)

قیامت ہی یاں چشم و دل سے رہی
چلےبس تو واں جا کے کریے قیام

نہ دیکھے جہاں کوئی آنکھوں کی اور
نہ لیوے کوئی جس جگہ دل کا نام

جہاں میر زیر و زبر ہوگیا
خراماں ہوا تھا وہ محشر خرام​
 
2335

گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم

کام کیا آتی ہیں گی معلومات
یہ تو سمجھے ہی نا کہ کیا ہیں ہم

اے بتاں! اس قدر جفا ہم پر
عاقبت بندہء خدا ہیں ہم

سرمہ آلودہ مت رکھا کر چشم
دیکھ اس وضع سے خفا ہیں ہم

ہے نمک سود سب تنِ مجروح
تیرے کشتوں میں میرزا ہیں ہم

کوئی خواہاں نہیں ہمارا میر
گوئیا جنس ناروا ہیں ہم​
 
236

حذَر کہ آہ جگر تفتگاں بلا ہے گرم
ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا سے گرم

گیا جہان سے خورشید ساں اگرچہ میر
ولیک مجلسِ دنیا میں اُس کی جا ہے گرم​
 
237

کرتے ہیں گفتگو سحر اُٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اُس کے، ہوا سے ہم

ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جب کے مرگئے ہوتے بَلا سے ہم

چھوٹا نہ اُس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایانِ کار مارے گئے اس ادا سے ہم

داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول، گُل چُنا کیے باغِ وفا سے ہم

غافل یہ اپنی دیدہ ورائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم

دو چار دن تو اور بھی آ، تو کراہتا
اب ہوچکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم

آئینے کی مثال پس از صد شکست میر
کھینچا بغل میں یار کو دستِ دعا سے ہم





 
Top