You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)
238
ن
بے کلی، بے خودی کچھ آج نہیں
ایک مدت سے وہ مزاج نہیں
درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے
اب دوا کی کچھ احتیاج نہیں
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں
شہرِ خوبی کو خوب دیکھا میر
جنسِ دل کا کہیں رواج نہیں
239
وحشت میں ہوں بَلا ، گر وادی پہ اپنی آؤں
مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں
ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رُلایا
اُس کی ستم ظریفی کس کے تئیں دکھاؤں
از خویش رفتہ ہر دم فکر وصال میں ہوں
کتنا میں کھویا جاؤں یارب کہ تجھ کو پاؤں
عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی
تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تئیں چھپاؤں
آسودگی تو معلوم اے میرے جیتے جی یاں
آرام تب ہی پاؤں جب جی سے ہاتھ اُٹھاؤں
240
سوزشِ دل سے مفت گلتے ہیں
داغ جیسے چراغ جلتے ہیں
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
بیٹھے روتے ہیں، ہاتھ ملتے ہیں
بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں
جیسے دریا کہیں اُبلتے ہیں
دمِ آخر ہے بیٹھ جا ، مت جا
صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں
تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں
ایسے ڈوبے کہیں اُچھلتے ہیں!
فتنہ در سر، بتانِ حشر خرام
ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں
نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں
سوتے سے اُٹھ کے آنکھ ملتے ہیں
شمع رُو موم کے بنے ہیں مگر
گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں
میر صاحب کو دیکھیے جو بنے
اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں
241
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوزِ عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوںعذاب میں
مت کر نگاہِ خشم ، یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تُو مجھے تو شراب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبانِ بدمعاملہ یوم الحساب میں
جاکر درِ طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ اُن نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
(ق)
عش و خوشی ہے شیب میں ہو گر پہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عباب میں
دیں عمرِ حضر موسمِ پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہدِ شباب میں
(ق)
آنکلے تھے جو حضرتِ میر اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ اُن کے جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے رو کے یہ اس کے جواب میں
تُو جان ایک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک، جہانِ خراب میں
آوازہ ہی جہاں میں ہمارا سنا کرو
عنقا کے طور زیست ہے اپنا بنام یاں
مت کھا فریبِ عجز عزیزانِ حال کا
پنہاں کیے ہیں خاک میں یاروں نے دام یاں
کوئی ہوا نہ دست بسر شہرِ حسن میں
شاید نہیں ہے رسمِ جوابِ سلام یاں
ناکام رہنے ہی کا تمہیں غم ہے آج میر
بہتوں کے کام ہوگئے ہیں کل تمام یاں
243
نہ گیا خیالِ زلفِ سیہِ جفا شعاراں
نہ ہوا کہ صبح ہووے شبِ تیرہ روزگاراں
ہوئی عید، سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباسِ سوگواراں
کہیںخاکِ کُو کو اُس کی تُو صبا نہ دیجو جنبش
کہ بھرے ہیں اس زمیں میں جگرِ جگر فگاراں
رکھے تاجِ زر کو سر پر چمنِ زمانہ میں گُل
نہ شگفتہ ہو تو اتنا کہ خزاں ہے یہ بہاراں
تُو جہاں سے دل اُٹھا ، یاں نہیں رسم درمندی
کسی نے بھی یوں نہ پوچھا ہوئے خاک یاں ہزاراں
یہ سنا تھا میر ہم نے کہ فسانہ خواب لائے
تری سرگزشت سن کر گئے اور خوابِ یاراں
244
اس کے کوچے سے جو اُٹھ اہلِ وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے، رُو بہ قفا جاتے ہیں
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتشِ دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
وقتِ خوش اُن کا جو ہم بزم ہیں تیرے، ہم تو
درودیوار کو احوال سنا جاتے ہیں
جائے گی طاقتِ پا آہ تو کر لے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں
ایک بیمارِ جدائی ہوں میں آپھی تِس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
میر صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں
245
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمعِ تصویر ہیں، خاموش جلا کرتے ہیں
اس کے کُوچے میں نہ کرشورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے، بیٹھے سنا کرتے ہیں
رخصتِ جنبشِ لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گزریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں
تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعویِ مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں
فرصتِ خواب نہیں ذکرِ بُتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو بُرا اپنا، بھلا کرتے ہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تُو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بے کار پھرا کرتے ہیں!
تجھ بن اس جانِ مصیبت زدہ، غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیںکرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
کیا کہیں میر جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں ، لوہو پیا کرتے ہیں
246
مستوجبِ ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرمِ وفا ہوں
آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنرِ عشق
رونے کے تئیں آندھی ہوں، کُڑھنے کو بلا ہوں
اس گلشنِ دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنچہء افسردہ کہ مردودِ صبا ہوں
ہم چشم ہے ہر آبلہء پا کا مرا اشک
ازبسکہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر
ہوں خاک سرِ راہ کوئی دم میں ہَوا ہوں
دل خواہ جلا اب تو مجھے اے شبِ ہجراں
میں سوختہ بھی منتظرِ روزِ جزا ہوں
گو طاقت و آرام، خور و خواب گئے سب
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں بھی بہر چند
معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں
تب گرمِ سخن کہنے لگا ہوں میںکہ اک عمر
جوںشمع سرِ شام سے تا صبح جلا ہوں
سینہ تو کیا فضلِ الہی سے سبھی چاک
ہے وقتِ دعا میر کہ اب دل کو لگا ہوں
جنسِ گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں
اس مے کدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں، ہر دم جماہتے ہیں
ناموسِ دوستی سے گردن بندھی ہے اپنی
جیتے ہیں جب تلک ہم تب تک نباہتے ہیں
سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری
جو تجھ کو دیکھتے ہیں، مجھ کو سراہتے ہیں
وے دن گئے کہ راتیں نالوں سے کاٹتے تھے
بے ڈول میر صاحب اب کچھ کراہتے ہیں
248
یہ تُرک ہو کے خشن کج اگر کلاہ کریں
تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں
تمہیں بھی چاہیے ہے کچھ تو پاس چاہت کا
ہم اپنی اور سے یوں کب تلک نباہ کریں
ہوائے مے کدہ یہ ہے تو فوتِ وقت ہے ظلم
نماز چھوڑ دیں اب کوئی دن گناہ کریں
ہمیشہ کون تکلف ہے خوب رُویوں کا
گزار ناز سے ایدھر بھی گاہ گاہ کریں
اگر انھیں گے اسی حال سے تو کہیو تُو
جو روزِ حشر تجھی کو نہ عذر خواہ کریں
بڑی بلا ہیں ستم کشتہ محبت ہم
جو تیغ برسے تو سر کو نہ کچھ پناہ کریں
اگرچہ سہل ہیں پر دیدنی ہیں ہم بھی میر
اِدھر کو یارتامل سے گر نگاہ کریں
249
راضی ہوں،گو کہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں
اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں
جی انتظار کش ہے، آنکھوں میں رہ گزر پر
آجا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں
آنکھیں جو کھُل رہی ہیں مرنے کے بعد میری
حسرت یہ تھی کہ اُس کو میں اک نگاہ دیکھوں
یہ دل وہ جا ہے جس میں دیکھا تھا تجھ کو بستے
کن آنکھوں سے اب اُجڑا اس گھر کو آہ دیکھوں
چشم و دل و جگر ، یہ سارے ہوئے پریشاں
کس کس کی تیرے غم میں حالت تباہ دیکھوں
آنکھیں تو تُو نے دی ہیں اے جرم بخشِ عالم
کیا تیری رحمت آگے اپنے گناہ دیکھوں
250
مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں
چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں
سو بار ہم نے گُل کے گئے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آبِ چشم سے راتوں کو کیاریاں
تُربت سے عاشقوں کی نہ اُٹھا، کبھو غبار
جی سے گئے، ولے نہ گئیں رازداریاں
اب کس کس اپنی خواہشِ مردہ کو روئیے
تھیں ہم کو اُس سے سینکڑوں اُمیدواریاں
پڑھتے پھریں گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
کیا جانتے تھے ایسے دن آجائیں گے شتاب
روتے گزرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں
گل نے ہزار رنگِ سخن سر کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں
جاؤ گے بھول عہد کو ، فر ہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں
بچ جاتا ، ایک رات جو کٹ جاتی اور میر
کاٹیں تھیں کوہ کن نے بہت راتیں بھاریاں
251
گر کچھ ہو دردِ آئنہ یوں چرخِ زشت میں
ان صورتوں کو صرف کرے خاک وخشت میں
رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں میں روز و شب
لے جائے گا یہ سوختہ دل کیا بہشت میں
آسودہ کیوں کہ ہوں میں کہ مانندِ گرد باد
آوارگی تمام ہے میری سرشت میں
کب تک خرابِ سعیِ طواف حرم رہوں
دل کو اُٹھا کے بیٹھ رہوں گا کُنشت میں
ماتم کے ہوں زمیں پہ خرمن تو کیا عجب
ہوتا ہے نیل چرخ کی اس سبز کشت میں
نامے کو چاک کرکے کرے نامہ بر کو قتل
کیا یہ لکھا تھا میر مری سرنوشت میں!
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا، میں ہی ہوں
رنگ رُو جس کے کبھی منھ نہ چڑھا، میں ہی ہوں
اپنے کوُچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
دو جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں
خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا
اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں
میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ
یک بہ یک بول اُٹھا اس طرف آ، میں ہی ہوں
جب کہا میں نے کہ تُو ہی ہے؟ تو پھر کہنے لگا
کیا کرے گا تُو مرا، دیکھوں تو، جا میں ہی ہوں
میرِ آوارہء عالم جو سنا ہے تُو نے
خاک آلودہ وہ اے بادِ صبا میں ہی ہوں
کاسہء سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے
میر! وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں
نکلے ہے جنسِ حسن کسی کاروان میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں
جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لےچلے ہیں ہم اُس بھی جہان میں
یارب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عمر بھر رہا ہے تمام آسمان میں
ہم اُس سے آہ سوزِ دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتشِ دروں سے پھپھولے زبان میں
(ق)
غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سو یاں نہ دل میں تاب، نہ طاقت ہے جان میں
غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں
وے دن گئے کہ آتشِ غم دل میں تھی نہاں
سوزش ہی ہے اب تو ہر اک استخوان میں
دل نذر و دیدہ پیش کش اے باعثِ حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں
پھاڑا ہزار جا سے گریبان۔ صبر میر
کیا کہہ گئی نسیم سحر گُل کے کان میں
254
زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں
بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں
نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ
کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں
رکھا کر ہاتھ دل پر، آہ کرتے
نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں
نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی
مسافر ہی رہے اکثروطن میں
خردمندی ہوئی زنجیر، ورنہ
گزرتی خوب تھی دیوانے پن میں
کہاں عاجز سخن، قادر سخن ہوں
ہمیں ہے شبہہ یاروں کے سخن میں
255
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے اَن جان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں، پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھونا جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
(ق)
جاگہ سے بھی جاتے ہو منھ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ زویوں کے کیا میر بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں، حیران نکلتے ہیں
256
تُو گلی میں اس کی جا، آ، ولے اے صبا نہ چنداں
کہ گڑے ہوئے پھر اُکھڑیں دلِ چاک درد منداں
ترے تیرِ ناز کے جو یہ ہدف ہوئے ہیں ظالم
مگر آہنی توے ہیں جگرِ نیازمنداں
میں صفا کیا دل اتنا کہ دکھائی دیوے منھ بھی
ولے مفت اس آئنے کو نہیں لیتے خود پسنداں
کُھلیں آنکھیں میں جو دیکھا سو غم اور چشمِ گریاں
کسے کہتے ہیں نہ جانا دلِ شاد و رُوئے خنداں
تُو زبوں شکار تو تھا ولے میر قتل گہ میں
ترے خوں سے ہیں حنائی کفِ پائے صید بنداں
257
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہ گیں نہیں
اس غم کدے میں آہ دلِ خوش کہیں نہیں
ماتھا کیا ہے صرفِ سجودِ درِبُتاں
مانند ماہِ نو کے مری اب جبیں نہیں
فکرِ بلند سے میں کیا آسماں اسے
ہر اک سے میر خوب ہو، یہ وہ زمیں نہیں