You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)
قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تُو
کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تُو
گر اپنی روش راہ چلایار تو اے کبک
رہ جائے گا دیوارِ گلستاں سے لگا تو
بے گُل نہیں بلبل تجھے بھی چین پہ دیکھیں
مر رہتے ہیں ہم ایک طرف باغ میں یا تُو
خوش رُو ہے بہت اے گلِ تر تُو بھی ولیکن
انصاف ہے منھ تیرے ہی، ویسا ہے بھلا تُو
کیا جانیے اے گوہرِ مقصد تُو کہاں ہے
ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن نہ ملا تو
اس جینے سے اب دل کو اُٹھا بیٹھیں گے ہم بھی
ہے تجھ کو قسم ظلم سے مت ہاتھ اُٹھا تُو
منظر میں بدن کے بھی یہ اک طرفہ مکاں تھا
افسوس کہ ٹک دل میں ہمارے نہ رہا تُو
تھے چاک گریبان گلستاں میں گُلوں کے
نکلا ہے مگر کھولے ہوئے بندِ قبا تُو
بے ہوشی سی آتی ہے تجھے اُس کی گلی میں
گر ہو سکے اے میر تو اس راہ نہ جا تُو
318
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو
چاہوں تو بھر کے کولی اُٹھالوں ابھی تمہیں
کیسے ہی بھاری ہو، مرے آگے تو پھول ہو
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا بچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی تو میر صاحبِ قبلہ عجول ہو
320
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اُس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو
خط سے نکلے ہے بے وفائیِ حُسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیادہ ہے ہم کو
شیخ و پیرِ مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو
سادگی دیکھ عشق میں اُس کی
خواہشِ جان شاد ہے ہم کو
بدگمانی سے جس سے تِس سے آہ
قصدِ شور و فساد ہے ہم کو
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میر کا طور یاد ہے ہم کو
321
ہنوز طفل ہے وہ ظلم پیشہ کیا جانے
لگاوے تیغ سلیقے سے جو لگائی ہو
خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی
کدھر کے ہوجے جو بے بال و پر رہائی ہو
اُس آفتاب سے تو فیض سب کو پہنچے ہے
یقین ہے کہ کچھ اپنی ہی نارسائی ہو
دیارِ حسن میں غالب کہ خستہ جانوں نے
دوا کے واسطے بھی مہر ٹک نہ پائی ہو
ہزار مرتبہ بہتر ہے بادشاہی سے
اگر نصیب ترے کوچے کی گدائی ہو
جو کوئی دم ہو تو لوہو سا پی کے رہ جاؤں
غموں کی دل میں بھلا کب تلک سمائی ہو
مغاں سے راہ تو ہوجائے رفتہ رفتہ شیخ
ترا بھی قصد اگر ترکِ پارسائی ہو
کہیں تو ہیں کہ عبث میر نے دیا جی کو
خدا ہی جانے کی کیا جی میں اُس کے آئی ہو
322
اے چرخ مت حریفِ اندوہِ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشکِ شوق کیا دم رخسار پر رواں ہو
ہم دُور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی، یا گردِ کارواں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہِ صبح گاہی، آشوبِ آسماں ہو
گر ذوقِ سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانندِ عندلیبِ گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تُو کہ ہے اک آوارہ دست بر دل
خاکِ چمن کے اوپر برگِ خزاں جہاں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اُس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر، اس وقت تم کہاں ہو
اُس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہو گر قصدِ امتحاں ہو
ہم سایہ اس چمن کے کتنےشکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک باؤ گُل فشاں ہو
میر اُس کو جان کرتُو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مُو بیٹھا کوئی جواں ہو
323
گرچہ کب دیکھتے ہو، پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اُس منھ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو
رنگِ رفتہ بھی دل کو کھنچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
324
آرام ہو چکا مرے جسمِ نزار کو
رکھے خدا جہاں میں دلِ بے قرار کو
پانی پہ جیسے غنچہء لالہ پھرے بہا
دیکھا میں آنسوؤں میں دلِ داغ دار کو
ہنستا ہی میں پھروں جو مرا کچھ ہو اختیار
پر کیا کروں میں دیدہء بے اختیار کو
سرگشتگی سوائے نہ دیکھا جہاں میں کچھ
اک عمرِ حضر سیر کیا اِس دیار کو
کس کس کو خاک اب کے ملاتی ہے خاک میں
جاتی ہے پھر نسیم اُس رہ گزار کو
اے وہ کوئی جو آج پیے ہے شرابِ عیش
خاطر میں رکھیو کل کے بھی رنج و خمار کو
خوباں کا کیا جگر جو کریں مجھ کو اپنا صید
پہچانتا ہے سب کوئی تیرے شکار کو
جیتے جی فکر خوب ہے ورنہ یہ بد بَلا
رکھے گا حشر تک تہ و بالا مزار کو
گر ساتھ لے گڑا تُو دلِ مضطرب تو میر
آرام ہو چکا ترے مشتِ غبار کو
325
اچھی لگے ہے تجھ بن گلگشتِ باغ کس کو
صحبت رکھے گلوں سے، اتنا دماغ کس کو
گُل چینِ عیش ہوتے ہم بھی چمن میں جاکر
آہ و فغاں سے اپنی لیکن فراغ کس کو
326
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں، تا کیا ہو
رات جاتی ہے اسی غم کہ فردا کیا ہو
سب ہیں دیدار کے مشتاق، پر اس سے غافل
حشر برپا ہو کہ فتنہ اُٹھے، آیا کیا ہو
خاکِ حسرت زدگاں پر تُو گزر بے وسواس
ان ستم کشتوں سے اب عرضِ تمنا کیا ہو
گر بہشت آئے تو آنکھوں میں مری پھیکی لگے
جن نے دیکھا ہو تجھے، محوِ تماشا کیا ہو
شوق جاتا ہے ہمیں یار کے کوچے کو لیے
جائے معلوم ہو، کیا جانیے اُس جا کیا ہو
ایک رونا ہی نہیں آہ غم و نالہ و درد
ہجر میں زندگی کرنے کے تئیں کیا کیا ہو
خاک میں لوٹوں کہ لوہو میں نہاؤں میں میر
یار مستغنی ہے اُس کو مری پروا کیا ہو
327
ویسا کہاں ہے ہم سے، جیسا کہ آگے تھا تُو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہوگیا تُو
چالیں تمام بے ڈھب، باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکَر لب! اب وہ نہیں رہا تُو
جاتے نہیں اُٹھائے یہ شور ہر سحر کے
یا اب چمن میں بلبل! ہم ہی رہیں گے یا تُو
آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیںصحبت
کُڑھنے کو ہوں میں آندھی، رونے کو ہے بَلا تو
عالم ہے شوق کشتہ خلقت ہے تیری رفتہ
جانوں کی آرزو تُو، آنکھوں کا مدعا تُو
آتی جو خود نہیں ہے بادِ بہار اب تک
دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تُو
گفت و شنود اکثرمیری تری رہے ہے
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سُنا تو
کہہ سانجھ کے موے کو اے میر روئیںکب تک
جیسے چراغ مفلس، اک دم میں جل بجھا تُو
328
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو
معشوق کا ہے حسن، اگر دل نواز ہو
سجدے کا کیا مضائقہ محرابِ تیغ میں
پر یہ تو ہو کہ نعش پہ میری نماز ہو
نزدیک سوزِ سینہ کے رکھ اپنے قلب کوو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرمِ گداز ہو
ہے فرق ہی میں خیر، نہ کر آرزوئے وصل
مل بیٹھیے جو اُس سے تو شکوہ دراز ہو
جوں توں کے اُس کی چاہ کا پردہ کیا ہے میں
اے چشمِ گریہ ناک نہ افشائے راز ہو
ہم سے بغیر عجز کبھو کچھ بنا نہ میر
خوش حال وہ فقیر کہ جو بے نیاز ہو
329
نالہ مرا اگر سببِ شور و شر نہ ہو
پھر مر بھی جائیے تو کسو کو خبر نہ ہو
دل پُرہوا ،سو آہ کے صدمے سے ہوچکا
ڈرتا ہوں یہ کہ اب کہیں ٹکڑے جگر نہ ہو
سمجھا ہوں تیری آنکھ چھپانے سے خوش نگاہ
مدنظر یہ ہے کہ کسی کی نظر نہ ہو
(ق)
جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک
کافر کا بھی گزار الٰہی! اُدھر نہ ہو
یک جا دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ
جس میں بجائے نقشِ قدم چشمِ تر نہ ہو
ہر اک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے
ہاں ہاں کس شہیدِ محبت کا سر نہ ہو
چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدانِ عشق ہیں
تیرا گزار، تاکہ کسو نعش پر نہ ہو
دامن کشاں ہی جا کہ تپش پر تپش ہے دفن
زنہار کوئی صدمے سے زیر و زبر نہ ہو
مضطر ہو، اختیار کی وہ شکل، دل میں مَیں
اُس راہ ہو کے جاؤں ، یہ صورت جدھر نہ ہو
لیکن عبث، نگاہ جہاں کرے اُس طرف
امکان کیا کہ خون مری تا کمر نہ ہو
حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی
مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو
آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر
ظالم، جفا شعار ترا رہ گزر نہ ہو
اُٹھ جائے رسمِ نالہ و آہ و فغان سب
اُس تیرہ روزگار میں تُو میر اگر نہ ہو
330
ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے ، خواہِ نخواہ رُلاتے ہو
آنکھ اُٹھا کر جب دیکھے ہیں، اوروں میں ہنستے جاتے ہو
سب ملنے کو سوال کروں ہوں، زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گزرے، صبح شام بتاتے ہو
بکھری رہی ہیں مجھ پر زلفیں، آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
کیوں کہ چھُپے مے خواریِ شب، جب ایسے رات کے ماتے ہو
سرو تہ و بالا ہوتا ہے درہم برہم شاخِ گُل
ناز سے قد کش ہو کے چمن میں ایک بَلا تم لاتے ہو
صبح سے یاں پھر جان ودل پر روز قیامت رہتی ہے
رات کبھو آ رہتے ہو تو یہ دن ہم کو دکھلاتے ہو
راحت پہنچی ٹک تم سے تو، رنج اُٹھایا برسوں تک
سر سہلاتے ہو جو کبھو تو بھیجا بھی کھا جاتے ہو
ہو کے گدائے کوئے محبت زور صدا یہ نکالی ہے
اب تو میر جی راتوں کو تم ہر در پر چلاتے ہو
331
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہے
اور رسوائی کا اندیشہ جُدا رکھتا ہو
کام لے یار سے جو جذبِ رسا رکھتا ہو
یاکوئی آئنہ سا دستِ دعا رکھتا ہو
عشق کو نفع نہ بے تابی کرے ہے، نہ شکیب
کریے تدبیر جو یہ درد دوا رکھتا ہو
میں نے آئینہ صفت در نہ کیا بند غرض
اُس کو مشکل ہے جو آنکھوں میں حیا رکھتا ہو
ہائے اس زخمیِ شمشیرِ محبت کا جگر
درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھتا ہو
ایسے تو حال کے کہنے سے بھلی خاموشی
کہیے اُس سے جو کوئی اپنا کہا رکھتا ہو
کیا کرے وصل سے مایوس دل آزردہ جو
زخم ہی یار کا چھاتی سے لگا رکھتا ہو
گُل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میر
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
332
مت پوچھو کچھ اپنی باتیں، کہیے تو تم کو ندامت ہو
قد قامت یہ کچھ ہے تمہارا لیکن قہر قیامت ہو
ربط اخلاص اے دیدہ و دل بھی دنیا میں اک سے ہوتا ہے
لگ پڑتے ہو جس سے تِس سے تم بھی کوئی علامت ہو
چاہ کا دعویٰ سب کرتے ہیں، مانیے کیوں کر بے آثار
اشک کی سرخی، زردی مجھ کی، عشق کی کچھ تو علامت ہو
سرو گُل اچھے ہیں دونوں، رونق ہیں گلزار کی، لیک
چاہیے رُو اُس کا سا رو ہو، قامت ویسا قامت ہو
ہو جو ارادہ یاں رہنے کا، رہ سکیے تو رہیے آپ
ہم تو چلے جاتے ہیں ہر دم، کس کو قصدِ اقامت ہو
منھ پر اس کی تیغِ ستم کے سیدھا جانا ٹھہرا ہے
جینا پھر کج دار و مریز اس طور میں ہوٹک یا مت ہو
شور و شغب کو راتوں کے ہمسائے تمہارے کیا روویں
ایسے فتنے کتنے اٹھیں گے میر جی تم جو سلامت ہو
333
شیخ جی آؤ، مصلے گروِ جام کرو
جنسِ تقویٰ کے تئیں صرفِ مئے جام کرو
فرشِ مستاں کرو، سجادہء بے تہ کے تئیں
مے کی تعظیم کرو، شیشے کا اکرام کرو
دامنِ پاک کو آلودہ رکھو بادے سے
آپ کو مغ بچوں کے قابلِ دشنام کرو
نیک نامی و تفاوت کو دعا جلد کہو
دین و دل پیش کشِ سادہء خود کام کرو
ننگ و ناموس سے اب گزرو جوانوں کی طرح
پرفشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو
خوب اگر جرعہء مے نوش نہیں کر سکتے
خاطرِ جمع مئے شام سے یہ کام کرو
اُٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردنِ مینائے شراب
خدمتِ بادہ گساراں ہی سرانجام کرو
مطرب آ کر جو کرے چنگ نوازی تو تم
پیرہن مستوں کی تقلید سے انعام کرو
خنکی اتنی تھی تو لازم نہیں اس موسم میں
پاسِ جوشِ گُل و دل گرمیِ ایام کرو
سایہء گُل میں لبِ جُو پہ گلابی رکھو
ہاتھ میں جام کولو، آپ کو بدنام کرو
آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں
ایک تو صبح گلستان میں بھی شام کرو
رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی
میر جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو
334
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو
ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ، نہ بیداد کرو
نہ کرو ایسا کہ پھر میرے تئیں یاد کرو
ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں اے غم زدگاں!
مرگِ مجنوں پہ کُڑھو، ماتم ِ فرہاد کرو
اے اسیرانِ تہِ دام! نہ تڑپو اتنا
تا نہ بدنام کہیں چنگلِ صیاد کرو
اولِ عشق ہی میں میر جی تم رونے لگے
خاک ابھی منھ کو مَلو ، نالہ و فریاد کرو
335
دل صاف ہو تو جلوہ گہہِ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابلِ دیدار کیوں نہ ہو
عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہی عیار، کیوں نہ ہو
رحمت غض میں نسبتِ برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہ گار کیوں نہ ہو
دشمن تو اک طرف کا سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنہء دیوار کیوں نہ ہو
ہر دم کی تازہ مرگِ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو
نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میر اس میں مُردنِ دشوار کیوں نہ ہو
336
کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے دُور
حشرِ دِگر پہ وعدہء دیدار کیوں نہ ہو
گُل گشت کا بھی لطف دلِ خوش سے ہے نسیم
پیشِ نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو
مقصود دردِ دل ہے، نہ اسلام ہے، نہ کفر
پھر ہر گلے میں سحبہ و زنار کیوں نہ ہو
شاید کہ آوے پُرسشِ احوال کو کبھو
عاشق بھلا سا ہووے تو بیمار کیوں نہ ہو
تلوار کے تلے بھی ہیں آنکھیں تیری اُدھر
تُو اس ستم کا میر سزاوار کیوں نہ ہو
337
ایسا ہی ماہ، گو کہ وہ سب نُور کیوں نہ ہو
ویسا ہی پھول فرض کیا حُور کیوں نہ ہو
کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے نے اُسے
ایسا جو پاوے آپ کو، مغرور کیوں نہ ہو
گیسوئے مشک بُو کو اسے ضد ہے کھولنا
پھر زخم دل فگاروں کا ناسُور کیوں نہ ہو
صورت تو تیری صحفہء خاطر پہ نقش ہے
ظاہر میں اب ہزار تُو مستور کیوں نہ ہو
مجنوں جو دشت گرد تھا، ہم شہر گرد ہیں
آوارگی ہماری بھی مذکور کیوں نہ ہو
تلوار کھینچتا ہے وہ اکثر نشے کے بیچ
زخمی جو اس کے ہاتھ کا ہو، چُور کیوں نہ ہو
خالی نہیں بغل کوئی دیوان سے مرے
افسانہ عشق کا ہے یہ ، مشہور کیوں نہ ہو
مجھ کو تو یہ قبول ہوا عشق میں کہ میر
پاس اس کے جب گیا تو کہا دُور کیوں نہ ہو