انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

357

کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

مر گئے پھر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اُس طرح مُوا حسرتِ دیدار کے ساتھ

شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشمِ مشتاق لگی جائے ہے طیار کے ساتھ

ذکرِ گُل کیا ہے صبا! اب کے خزاں ہیں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ

کس کو ہر دم ہے لہو رونے کاہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدہء خونبار کے ساتھ

میری اُس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

دیکھیے کس کو شہادت سے سرافراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اُس شوخ کی تلوار کے ساتھ

بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تُو اے بلبل
دم کشِ میر ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ​
 
ی۔ ے


دل کو تسکین نہیں اشکِ دما دم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکتِ غم سے بھی

ہم نشیں کیا کہوں اُس رشکِ مہ تاباں بن
صبح عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی

کاش اے جانِ الم ناک نکل جاوے تُو
اب تو دیکھا نہیں جاتا پہ ستم ہم سے بھی

آخرِ کار محبت میں نہ نکلا کچھ کام
سینہ چاک و دلِ پژ مردہ ، مژہ نم سے بھی

آہ ہر غیر سے تاچند کہوں جی کی بات
عشق کا راز تو کہتے نہیں محرم سے بھی

دوریِ کوچہ میں اے غیرتِ فردوس تری
کام گزرا ہے مرا گریہء آدم سے بھی

ہمت اپنی ہی تھی یہ میر کہ جوں مرغِ خیال
اک پر افشانی میں گزرے سرِ عالم سے بھی​
 
359

تابِ دل صرفِ جدائی ہوچکی
یعنی طاقت آزمائی ہوچکی

چُھوٹتا کب ہے اسیرِ خوش زباں
جیتے جی اپنی رہائی ہوچکی

آگے ہو مسجد کے نکلی اُس کی راہ
شیخ سے اب پارسائی ہوچکی

ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے
اتنے ہی میں آشنائی ہوچکی

آج پھر تھا بے حمیت میر واں
کل لڑائی سی لڑائی ہوچکی​
 
360

آخر ہماری خاک بھی برباد ہوگئی
اُس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی

دل کس قدر شکستہ ہوا تھا کہ رات میر
آئی جو بات لب پہ سو فریاد ہو گئی
 
361

یہ چشم آئنہ دارِ رُو تھی کسو کی
نظر اِس طرف بھی کبھو تھی کسو کی

سحر پائے گُل بے خودی ہم کو آئی
کہ اُس سُست پیماں میں بُو تھی کسو کی

نہ ٹھہری ٹک اک جان برلب رمیدہ
ہمیں مدعا گفتگو تھی کسو کی

جلایا شب اک شعلہء دل نے ہم کو
کہ اُس تند سرکش میں خُو تھی کسو کی

جلایا شب اک شعلہء دل نے ہم کو
کہ اُس تند سرکش میں خُو تھی کسو کی

دمِ مرگ دشوار دی جان اُن نے
مگر میر کو آرزو تھی کسو کی​
 
362

ہے غزل میر یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اُس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

اسی تقریب اُس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی

کاسہء چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی

زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر
کس بھروسے پہ آشنائی کی​
 
363

آہ میری زبان پر آئی
یہ بَلا آسمان پر آئی

عالمِ جاں سے تو نہیں آیا
ایک آفت جہاں پر آئی

پیری آفت ہے، پھر نہ تھا گویا
یہ بَلا جس جوان پر آئی

ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر
طبع گر امتحان پر آئی

آتشِ رنگِ گُل سے کیا کہیے
برق تھی، آشیان پر آئی

طاقتِ دل بہ رنگِ نکہتِ گُل
پھیر اپنے مکان پر آئی​
 
364

بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی
بلکہ دی جان اور آہ نہ کی

گُل و آئینہ، ماہ و خور، کن نے
چشم اُس چہرے پر سیاہ نہ کی

کعبے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی

واہ اے عشق! اُس ستم گر نے
جاں فشانی پہ میری واہ نہ کی

جس سے تھی چشم ہم کو کیا کیا میر
اس طرف اُن نے اک نگاہ نہ کی​
 
365

کل میر نے کیا کیا کی مے کے لیے بے تابی
آخر کو گرو رکھا سجادہء محرابی

جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکبِ مے ہو
یہ بات سُجھاتی ہے اُن آنکھوں کی بے خوابی

کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سروپا کو ہو
اب بڑھ گئے ہیں میرے اسبابِ کم اسبابی

دن رات مری چھاتی جلتی ہے محبت میں
کیا اور نہ تھی جاگہ، یہ آگ جو یاں دابی

سو ملک پھرا لیکن پائی نہ وفا اک جا
جی کھا گئی ہے میرا اس جنس کی نایابی

جنگل ہی ہرے تنہا رونے سے نہیں میرے
کوہوں کی کمر تک بھی جا پہنچی ہے سیرابی

تھے ماہ وشاں کل جو اُن کوٹھوں پہ جلوے میں
ہے خاک سے آج اُن کی ہر صحن میں مہتابی

کل میر جو یاں آیا طور اُس کا بہت بھایا
وہ خشک لبی تِس پر جامہ گلے میں آبی​
 
366

ہمیں آمدِ میر کل بھا گئی
طرح اُس میں مجنوں کی سب پا گئی

کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا
مری خاک بدلی سی سب چھا گئی

کیا پاسِ بلبل خزاں نے نہ کچھ
گُل و برگ بے درد پھیلا گئی

ہوئی سامنے یوں تو اک ایک کے
ہمیں سے وہ کچھ آنکھ شرما گئی

کوئی رہنے والی ہے جانِ عزیز
گئی گر نہ اِمروز، فردا گئی

کیے دست و پا گم جو میر آگیا
وفا پیشہ مجلس اُسے پاگئی​
 
367

سینے سے تیر اُس کا جی کو تو لیتا نکلا
پر ساتھوں ساتھ اُس کے نکلی اک آفریں بھی

ہر شب تری گلی میں عالم کی جان جا ہے
آگے ہوا ہے اب تک ایسی ستم کہیں بھی!

شوخیِ جلوہ اس کی تسکین کیوں کے بخشے
آئینوں میں دلوں کے جوہے بھی ، پھر نہیں بھی

تکلیفِ نالہ مت کر اے درد دل کہ ہوں گے
رنجیدہ راہ چلتے، آزردہ ہم نشیں بھی

کس کس کا داغ دیکھیں یارب غمِ بتاں میں
رخصت طلب ہے جاں بھی، ایمان اور دیں بھی

زیر فلک جہاں ٹک آسودہ میر ہوتے
ایسا نظر نہ آیا اک قطعہء زمیں بھی​
 
368

پڑی خرمنِ گُل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی

کوئی بات نکلے ہے دُشوار منھ سے
ٹک اک تُو بھی تو سن کسی جاں بہ لب کی

عجب کچھ ہے گر میر آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی​
 
369

کس پاس جاکے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے
مجنوں کو موت کیسی شتابی میں آگئی

سودا جو اُس کے سر سے گیا زلفِ یار کا
تو تو بڑی ہی میر کے سر سے بَلا گئی​
 
370


خبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی
نگاہِ خشم اُدھر تُو نے کی، قیامت کی

اُٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے
وفا و مہر جو تھی، رسم ایک مدت کی

سوال میں نے جو انجامِ زندگی سے کیا
قدِ خمیدہ نے سُوئے زمیں اشارت کی​
 
371

فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
ہے سزار تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی

کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع!
کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی

اب کی برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال
میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی

ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو
دُھن ہے نالے کو کسو دل میں اثر کرنے کی

عشق میں تیرے گزرتی نہیں بِن سر پٹکے
صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی​
 
372

نگاہِ مست سے جب چشم نے اُس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد مے خانے کی غارت کی

سحر گہ میں نے پوچھا گُل سے حالِ زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اُودھر اشارت کی

جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طُور کو ہمدم
اُسی آتش کے پرکالے نے ہم سے بھی شرارت کی

ترے کوچے کے شوقِ طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبارِ میر کی ہم نے زیادت کی​
 
373

بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا، سو
رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی

بلبل کی بے کلی نے شب بے دماغ رکھا
سونے دیا نہ ہم کو، ظالم نہ آپ سوئی​
 
373

الم سے یاں تئیں میں مشقِ ناتوانی کی
کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی

چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے
جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی

ملائی خوب مری خون میں خاکِ بسمل گاہ
یہ تھوڑی منتیں ہیں مجھ پہ سخت جانی کی​
 
374

لا علاجی سے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
کیجیے کیا میر صاحب، بندگی بے چارگی

کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہوگیا یک بارگی

رُوئے گُل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز
رخنہء دیوار ہے یا دیدہء نظارگی

اشکِ خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں
محسب رکھتا ہے مجھ پر تہمتِ مے خوارگی

مت فریبِ سادگی کھا ان سیہ چشموں کا میر
اِن کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے بڑی عیارگی
 
Top