صفحہ نمبر 423
نواب کی بارہ دری کوئی ایلچ خاں کا میدان تو تھا نہیں جہاں لاٹھیاں گھوم سکیں۔ لکھنو والے چھوٹے چھوٹے ڈنڈے ہاتھوں میں لیے تھے۔ بند جگہ پر خوب کام کرنے لگے۔ بڑی گھمسان ہوئی۔وہ یورش پڑی کہ رن بولنے لگا۔ ہمارے مرزا ہیں کہ بپھر بپھر کر حملے کر رہے ہیں۔ بان ،بنوٹ،بچھو اظفر پیکر کے کمالات دکھا دکھا کر لوگوں کے دل بڑھا رہے ہیں۔ پٹھان بڑی بودی مار کھا رہے ہیں۔ اتنے میں کسی دیہاتی نے چکو چلا دیا۔ ہائے کا نالا مار کر نواب للّن صاحب کا ایک عزیز گر پڑا۔ خون دیکھ کر لڑائی کے خاتمے کی صورت بندھی۔دیہاتی مثل ہے کھائے اور پڑ رہےمارے اور ٹل رہے۔ باہر والوں نے جانا قتل ہو گیا، وہ تو صفائی دینے کی فکر میں اپنے گھروں کو بھاگے۔ لکھنو والوں نے بھی دیکھا معاملہ سنگین ہو گیا۔اتنے میں لال پگڑی دور سے دکھائی دی۔اب کیا تھا جس کے سینگ جدھر سمائے نکل گیا ۔بارہ دری میں دو چار چٹیل گھیلے پڑے اور فاتح جنرل مرزا کھڑے ہیں گذشتہ مہا بھارت کے آثار بتانے کو چالیس پچاس جوڑے جوتے ادھر ادھر دکھائی دے رہے ہیں ۔ دوسروں کے تو خیر معمولی چوٹیں کھرونچے، گکم، موچوں کے آئی تھیں۔جس شخص کے چاقو لگا تھا وہ البتہ لہو لہان سانس نہ ڈکار غش میں پڑا تھا۔ مارنے والے نے بڑا کاری ہاتھ پیٹ پر مارا تھا۔ مگر کدا کا کرنا ایسا کہ کنجی کے چھلے میں چکو کی نوک پھنس کر ادھر ادھر تک ای گہرا سا خط دیتی چلی گئی تھی۔ زخمی نے دو پشتوں کی غلامی میں اتنا خون اتنا لمبا زخم کاہے کو دیکھا تھا۔ بے تکلف جان بحق تسلیم ہونے کے ارادے سے لیٹ گئے غش بھی آ گیا۔ ان کے خیال میں وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ ابھی پولیس تحقیقات ہی کر رہی تھی کہ ان کے گھر والوں کو خبر ہوئی۔ تو چل میں چل سروپا برہنہ مرد اور بین کرتی ہوئی ڈولیاں سینہ کوٹتی ہوئی انّائیں چھو چھو خادمائیں، مہریاں ایک تانتا بندھ گیا۔ پولیس نے ایک نہ سنی۔ مضروب کو معائنے کے لئے اسپتال چلتا کیا۔ اور مرزا صاحب کا چالان بول دیا۔اب معاملے نے ایک نئی صورت پکڑی۔ یعنی ہر شخص پورے واقعہ کا زمہ دار سجاد مرزا صاحب ہی کو ٹھہرانے لگا۔
عدالت کے جھمیلے سے تو یوں چھٹی ملی کہ ڈاکٹر نے صرف ضربِ خفیف لکھی۔ مرزا صاحب اس طرح بچے کی ملزم تو ضرور حوالات میں تھا مگر مستغیث کا کہیں پتہ نہ تھا۔ عربی قواعد میں ایسا مفعول بھی ہوتا ہے جس کے فاعل کا پتہ نہ ہو۔ یہاں ایسا فاعل تھا جس کا مفعول ڈھونڈھے نہ ملے۔ خیر بڑی عافت سے بچے۔ مرزا صاحب کے اکھڑ پن سے پولیس یوں ہی پریشان تھی۔ محلے والے روز ان کا دکھڑا رونے روز تھانے پہنچا کرتے تھے۔ لہٰذا تھانے دار نے ان کو بلا کر کہا کہ اگر تم اپنی خیر چاہتے ہو تو لکھنو خالی کر دو نہیں تو ہم تم کو بے کرائے کے گھر پہنچائے بغیر دم نہ لیں گے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ بے چارے لکھنو چھوڑ کر اپنے موروثی وطن ردولی پہنچے۔ یہاں پشتینی گھر گر چکا تھا۔ اپنے ماموں کے یہاں رہنے لگے۔ بڑے بھائی محبت میں جب چھٹی ملتی تھی آ کر دیکھ جاتے تھے۔ پھر چلے جاتے تھے۔ اگر وہ بھی یہاں رہ جاتے تو پیٹ کہاں سے بھرتا۔