انمول باتیں

نیلم

محفلین
انسان کو خیالات کا بُلند ہونا چاہیےباتوں کا نہیں کیونکہ ایک چھوٹا پرندہ اونچی عمارت پر بیٹھ کر عقاب نہیں بن جاتا۔
آپ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ آپ کی شخصیّت کو ظاہر کرتا ہے۔سورج نے کبھی اپنی روشنی کے دلائل نہیں دیے،جو کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں اور جو بے مقصد جیتے ہیں وہ جیتے نہیں۔
اگر شخصیّت میں پختگی ہو تو عادات میں سادگی خود بخود آجاتی ہے۔
 

نیلم

محفلین
"انسان سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کی طرف قدم بڑھا رہا ہے مگر سوچنے پر یہ کھلتا ہے کہ موت کی سمت اس کے قدموں کا فاصلہ گھٹتا جا رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا صرف اسی کی ہے اور دنیا سے ہر دن ایک انچ اپنے اندر سے نکال کر موت کی وادی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ مگر یہ قدموں کے فاصلے کون گنتا ہے۔ یہاں تو صرف دوڑ ہے۔ ایک مسمریزم کی دوڑ۔ آگے اور بہتر سے بہتر پانے کی دوڑ۔ کیا کچھ گنوانا پڑتا ہے اس دوڑ میں۔ دل، آرزوئیں، تمنائیں، محبتیں۔ سبھی کچھ۔ مگر کوئی خسارے سے پہلے کچھ سوچتا ہی کب ہے۔"
 

نیلم

محفلین
اخلاقی زوال کا آغاز اس وقت ہوتا ہےجب انسان اپنے آپ کو عقل کل سجھنے لگتا ہے- اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے بھی اختلاف کرے اور اپنی غلط باتوں کو غلط کہے
 

نیلم

محفلین
آپ عورت کیساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کریں ، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں

اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی -

اس کے ذھن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے ، جسے اس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے -

اور وہ اسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی -

اس لیے وہ کسی عقل ودانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی -

اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے -
۔۔۔۔۔ اشفاق احمد ۔
 

نیلم

محفلین
امیں نے انسان کو شہر بساتے اور حق مانگتے دیکھا ہے۔۔۔ جان لو صاحبو! جب کبھی سڑک بنتی ہے اس کے دائیں بائیں کا حق ہوتا ہے، جو مکان شہروں میں بنتے ہیں باپ کے مرتے ہی وارثوں کا حق بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ چلو اور چل کر دیکھو جب سے انسان نے جنگل چھوڑا ہے اس نے کتنے حق ایجاد کر لیے ہیں۔ رعایا اپنا حق مانگتی ہے، حکومت کو اپنے حقوق پیارے ہیں، شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے حق مانگتی ہے، استاد شاگرد سے اور شاگرد استاد اپنا حق مانگتا ہے۔
اصلی حق کا تصور اب انسان کے پاس نہیں رہا، کچھ مانگنا ہے تو اصلی حق مانگو۔۔۔ جب محبت ملے گی تو پھر سب حق خوشی سے ادا ہونگے، محبت کے بغیر ہر حق ایسے ملے گا جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے۔

بانو قدسیہ کے ناول، راجہ گدھ سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
کامیاب لوگ اپنے ہونٹوں پہ دو چیزیں رکھتے ہیں

مسکراہٹ اور خاموشی

مسکراہٹ مسلے حل کرنے کے لئے

اور خاموشی مسلوں سے دور رہنے کے لئے
 

نیلم

محفلین
امام حنبل بغدادی فرماتے ہیں ایک دفعہ مجھے عراق کے کسی گاؤں میں رات ہوگئی ۔ میں ایک مسجد میں گیا لیکن چوکیدار نے مجھے وہاں سے نکال دیا ۔ میں مسجد سے باہر فرش پر سو گیا ۔ چوکیدار نے مجھے پاؤں سے پکڑا اور گھسیٹ کر مسجد سے دور کر دیا ۔ ایک خدا ترس آدمی مجھے اپنے گھر لے گیا وہ شخص چلتے پھرتے ، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت " استغفار " پڑھتا تھا ۔ صبح ہوئی تو میں نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا آپ کو استغفار پڑھنے کا کوئی فائدہ بھی ہوا __؟
اس نے جواب دیا " جی ہاں میری یر دعا قبول ہوئی سوائے اس کے کہ میری ملاقات امام احمد بن حنبل سے ہوجائے "
میں نے کہا " میں ہی احمد بن حنبل ہوں اور تم دیکھو کہ مجھے کیسے گھسیٹ کر تمہارے پاس لایا گیا ہے "
 

نیلم

محفلین
زندگی بار بار نہیں آتی صرف ایک بار آتی ہے اور وقت سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی طرح ہے تم اس میں کتنی مٹھیاں بھر سکتے ہو ایک یا پھر دو، وقت تو بس پچاس یا سو برس کا ہے مگر اس سے زیادہ نہیں پھر سوچو' تم اس ریت کو کھا نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ تم اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں جھونک سکتے ہو اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں
پھر کچھ لوگ جو اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی آنکوں میں ڈال لیتے ہیں وہ لوگ بزدل اور اذیت پسند ہوتے ہیں کچھ لوگ اس ریت سے محل بناتے ہیں وہ لوگ احمق ہوتے ہیں کچھ لوگ نہایت احتیاط سے ریت کے ایک ایک ذرے کو گننے لگتے ہیں وہ اس دنیا کے کنجوس ہیں کچھ لوگ اس ریت کو اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں وہ لوگ اس دنیا کے بچے ہیں اور دنیا کی ساری معصومیت انہی کے نام سے قائم ہے۔۔۔

(کرشن چندر کی کتاب "باون پتے" سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
فیصلہ کُن لمحات

کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سیارہ بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور مائع گیس میں بدل جاتا ہے‘ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے‘ جو موسم‘ جو رُت‘ جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔

بانو قدسیہ کے ناول "راجہ گدھ" سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
کئی مرتبہ زندگی میں اور زندگی سے زیادہ ایمان کے اندر تضاد نظر آتا ہے۔
یاد رکھو ایمان ہے ، سائنس نہیں۔ ایمان ایک موسم میں آگے بڑھتا ہے ، دوسرے میں پورے کا پورا پیچھے چلا جاتا ہے۔
ایک وقت میں تم نمازیں پڑھتے ہو ، عبادت کرتے ہو ، پھر ڈھیلے ہو جاتے ہو ۔
آرام طلبی اختیار کر لیتے ہو ، جھگڑا کرنے لگتے ہو ، منفی ہو جاتے ہو۔
جس طرح نیگیٹو اور پازیٹو دونوں تاریں مل کر بجلی کا بلب روشن کرتی ہیں ایسے ہی ایمان ہے۔
اسی طاقت سے رخ موڑے جاتے ہیں ، پہاڑ کاٹے جاتے ہیں۔ جب تم رکوع میں جاتے ہو ، سجدے میں جاتے ہو سبحان ربی الاعلیٰ کہتے ہو اور خدا سے اس علم کی بھیک مانگتے ہو کہ مجھے ایمان کے اندر رہ کر حرکت نصیب ہو تو پھر تمہارے سارے تضاد حق بن جاتے ہیں اور ساری تخریبیں تعمیریں ہو جاتی ہیں۔
اشفاق احمد
 

نیلم

محفلین
دیکھ میرے بچے اللہ آسمانوں میں اکیلا ہے اور پم زمین میں تنہائی سے ڈرتے ہیں ہم مزید مانگتے ہیں صرف جو ہوتا ہے اس پہ شکر نہیں کرتے اور اپنے لئے کبحی ہمسفر کبھی محفلیں ,کبھی ہجوم چاہتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ ایسا ہوتا بھی ہے ہمیں اپنے لئے محفلیں بھی ملتی ہیں ہمسفر بھی ملتے ہیں ہجوم بھی ملتے ہیں لیکن یہ سب مل جانے کے بعد ہم لوگ ان سب کے عادی ہو جاتے ہیں اور ہماری تمام تر توقعات ان ہی سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ توقعات قد پکڑتی جاتی ہیں اور پھر جتنی قدآور توقعات ہوں گی اتنی ہی قد آور مایوسیاں۔۔۔۔اور پھر ہم اپنی خواہشوں اور توقعات اور ان سے مایوسیوں میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اللہ ہی نے کہا تھا


"اور میرے ذکر میں سستی نہ کرنا بڑے رنج دے مقام آئیں گے"۔۔۔القرآن

( "یادوں کی جڑیں " حسنین شام )
 

نیلم

محفلین
دنیا کی کہی ہوئی بات اور اپنوں کی کہی ہوئی بات میں فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی کہی ہوئی بات پہلے تکلیف دیتی ہے پھر اسکی عادت ہو جاتی ہے- اپنوں کی کہی ہوئی باتوں کی کبھی عادت نہیں ہوتی- ہر بار وہ سننے پر تکلیف پہلے سے زیادہ بڑھتی ہے-
 

نیلم

محفلین
بچوں کی تربیت اس انداز میں ہونی چاہیے کہ ان کی طبیعت سے حرص و ہوس کا مادہ نکل جائے- قناعت پسندی اور شکرگزاری ان کے اوصاف ہوں- وہ ہر چمکتی شے پر نہ لپکیں- اس سے اچھا تحفہ کوئی ماں باپ اپنی اولاد کو نہیں دے سکتے-

تحریر: ماہا ملک
اقتباس: میرے خواب ریزہ ریزہ
 

نیلم

محفلین
’’ھم کسی اور کو سمجھنے کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں جبکہ اکثر اوقات ھم خود اپنے آپ ہی کو نہیں سمجھ پاتے۔‘‘

(فرحت اشتیاق کے ناول ’’ہم خواب کیوں دیکھیں‘‘ سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
‫طبیعت میں کبھی بھی ہوس اور مادہ پرستی پیدا مت ہونے دینا- کیونکہ ایک مرتبہ نفس ہاتھ سے نکل جائے تو پھر آدمی محل تو کیا پوری دنیا پا کر بھی مطمئن نہیں ہو پاتا- نفس کو ہمیشہ اپنے قابو میں رکھنا چاہیے- قناعت پسندی بڑی نعمت ہے- بڑا پرسکون رکھتی ہے انسان کو ورنہ دنیا پا کر انسان چند ستاروں کی تمنا کرنے لگتا ہے-

تحریر: ماہا ملک
اقتباس: میرے خواب ریزہ ریزہ
 

نیلم

محفلین
پتہ نہیں ھم اللہ تعالیٰ کو گن گن کر یاد کیوں کرتے ہیں؟ اور اگر جو اس نے بھی گن گن کر دینا شروع کر دیا؟ پتہ نہیں ہم اپنی خودساختہ گنتی سے ’’ذکر‘‘ کو ’’منتر‘‘ کیوں بنا دیتے ہیں۔۔

(نمرا احمد کے ناول ’’ جنت کے پتے‘‘ سے اقتباس)
 

نیلم

محفلین
کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟
تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟"
(عمر ابن الخطاب)
اس نے زیر لب ان الفاظ کو پڑھا۔ اسے وہ واقعہ یاد تھا۔ ایک شخض اپنی بیوی کو صرف اس وجہ سے چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمائے تھے‘ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟
(اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "جنّت کے پتے" سے)
 

نیلم

محفلین
بعض گناہ اس لمبی سڑک کی مانند ہوتے ہیں‘ جن پہ کوئی اسپیڈ بریکر نہیں ہوتا‘ ان پہ چلنا شروع کرو تو بس انسان بھر چلتا ہی جاتا ہے اور جب تک کوئی بڑا ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے وہ رک نہیں پاتا۔

(اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "جنّت کے پتے" سے)
 
Top