سید عمران
محفلین
آج کل آپ کہاں ہیں زیف صاحب؟؟؟انور مقصود پاکستانی ٹیلی ویژن کی دنیا کا اہم نام ہیں۔ انھوں نے اداکاری بھی کی، ڈرامے بھی لکھے، لیکن ان کے سٹیج شو خاص طور پر بے حد مقبول ثابت ہوئے ہیں۔ اس دوران انھوں نے مزاحیہ شاعری بھی شروع کر دی اور ایک پاکستانی چینل پر ’لوز مشاعرہ‘ کے عنوان سے مزاحیہ نظمیں اور غزلیں بھی قلم بند کرتے ہیں۔
انور مقصود آج کل اپنی ٹیم لے کر امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے ہیں، جس میں معین اختر کے علاوہ بہروز سبزواری، قاضی واجد، ایاز خان اور سلیم شہزاد جیسے منجھے ہوئے اداکار شامل ہیں، جو مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعرا کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان تمام شعرا کے لیے لکھے جانے والے اشعار انور مقصود صاحب کی جولانیِ طبع کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ہمیں بھی ان کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انور مقصود بڑے علمی اور ادبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ نام ور شاعرہ زہرہ نگاہ ان کی بہن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انور مقصود کی شاعری سن کر مایوسی اور کوفت کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک قطعہ ملاحظہ کر لیجیئے جو قاضی واجد صاحب نے سنایا:
غالب نے شاعری جو کی وہ صرف اس لیے
ان کو تمام عمر میں بوسہ نہیں ملا
اپنا بھی یوں ہی حال ہے اب کیا تمھیں بتائیں
بوسے کو چھوڑو، کوئی سموسہ نہیں ملا
ابتذال اور پھکڑ پن سے قطع نظر ذرا قطعے کی بندش ملاحظہ فرمایئے، عجزِ شاعر ہر ہر مصرعے سے یوں ٹپکتا ہے جیسے برسات میں کسی مفلس کے گھر کی چھت ٹپکتی ہے۔ خیر آگے چلتے ہیں۔ اس کے بعد سلیم شہزاد صاحب کی باری آئی۔ وہ کچھ یوں غزل سرا ہوئے:
کل سے اس ملک کی حالت کو بدلتے دیکھا
بیلِ انگور میں تربوز لٹکتے دیکھا
ایک لیڈی کو سرِ عام گورنر کی طرف
مینڈکی کی طرح آہستہ پھدکتے دیکھا
آخری شعر کی داد انورمقصود صاحب نے خود یوں دی کہ ’کیا ترکیب ہے اس شعر میں!‘
ہم نے اک جج کے بحال ہونے کی خاطر یاں تک
سو وکیلوں کو سرراہِ تھرکتے دیکھا
مضمون کو ایک لمحے کے لیے الگ رکھ کر ذرا پہلے مصرعے کا وزن دیکھیئے جو بحر سے یوں خارج ہو گیا ہے کہ کیا کوئی وکیل آپے سے باہر ہوا ہو گا۔ حالاں کہ اس مصرعے کو درست کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا:
ہم نے اک جج کی بحالی کے لیے شہر کے بیچ
وغیرہ۔
اس کے بعد ایاز خان کو دعوتِ کلام دی گئی، جو ایک پٹھان شاعر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ کچھ یوں سخن آرا ہوئے:
پورے ملک میں ایک نظام
مالاکنڈ میں الگ نظام
نواز، عمران اور قاضی خوش ہیں
وہاں کا جج اک پیش امام
ملک (بر وزنِ شہر) کو ملَک (بر وزنِ خبر) باندھا گیا ہے، چلیں پٹھان شاعر تھا، اور بعض پٹھان اردو بولتے وقت ملک کو ملًک کہتے ہیں، لیکن اس بات کو کیا جائے کہ نواز کو ناز بنا دیا ہے اور ہم نے آج تک کسی پٹھان کو نواز کو ناز کہتے ہوئے نہیں سنا۔ جب کہ عمران بیچارے کی ع بھی کٹ کر دھڑ سے الگ ہو گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امام کو بھی ’ایمام‘ کر دیا گیا ہے۔
اس کے بعد بہروز سبزواری تشریف لائے جو پنجابی شاعر بنے ہوئے تھے۔
اک احتجاجی ریلی نے یہ کام کر دیا
اب اپنے گھر پہ واپس ڈوگر ہیں آ گئے
سنتے تھے اب تو ملک میں انصاف ملے گا
ڈوگر تو کیری لوگر ہیں آ گئے
لگتا ہے یہ قطعہ خلا میں لکھا گیا تھا کیوں کہ ہر جگہ بے وزنی کی کیفیت ہے۔ اندازِ بیان اور مضمون کی رفعت کا آپ خود اندازہ لگا لیجیئے۔
اب یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا مزاحیہ شاعری میں شاعری کے لوازم کا خیال رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سنجیدہ شاعری میں؟ اگر ہم اردو کے اچھے مزاح نگار شعرا کو دیکھیں تو اس سوال کا یوں جواب ملتا ہے کہ مزاح نگار شاعر نہ صرف اچھا مزاح پیدا کرتے ہیں بلکہ وہ شاعری کے فن کی باریکیوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ اور ہمارا تو خیال ہے کہ شاعری کی جو بھی صنف ہو، اس میں بنیادی چیز شاعری ہوتی ہے۔ اگر شاعری اچھی نہیں تو وہ اچھا مزاح پیدا نہیں کر سکتی۔
اردو میں مزاح نگار شاعر کی اچھی خاصی بہتات ہے۔ جعفر زٹلی سے لے کر مرزا سودا، نظیر اکبر آبادی سے اکبر الہ آبادی کے علاوہ سنجیدہ شعرا نے بھی جہاں موقع ملا، ہلکے پھلکے موضوعات پر شعر کہے ہیں۔ میر تقی میر سے زیادہ ’شہنشاہِ غم‘ اردو میں اور کون ہو گا، لیکن ان کی کلیات میں بھی بے حد اعلیٰ پائے کے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار مل جاتے ہیں:
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
مفت آبروئے حضرتِ علامہ لے گیا
اک مغ بچہ اتار کے عمامہ لے گیا
قیامت کو جرمانہٴ شاعری پر
مرے سر پہ میرا ہی دیوان مارا
یہی حال غالب کا ہے:
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یا پھر
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیئے غیر سے تہی
سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں!
جدید دور میں آ جائیے تو سید ضمیر جعفری، سید محمد جعفری، دلاور فگار، انور مسعود، عنایت علی خاں، نیاز سواتی، خالد مسعود اور دوسرے کئی نام ملتے ہیں، جنھوں نے نہ صرف اچھی مزاحیہ شاعری کی بلکہ شاعری کے فنی اصولوں کو بھی پوری طرح سے ملحوظِ خاطر رکھا۔ حتیٰ کہ انور مقصود ہی کی طرح ٹیلی ویژن کی شخصیت اطہر شاہ خان جیدی جب مزاحیہ شاعری کی طرف مائل ہوئے تو اردو کو یہ یادگار شعر دے گئے:
ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا
اس شعر میں طنز، تضاد، پیراڈاکس اور خود پر ہنسنے کا جو انداز پایا جاتا ہے وہ اسے مزاحیہ شاعری سے کہیں بلند کر دیتا ہے۔
لیکن جب آپ مقبولیت کے منھ زور گھوڑے بیٹھے ہوئے بگٹٹ بھاگے چلے جار ہے ہوں تو پھر معیار، فن اور اصول وغیرہ جیسی چھوٹی موٹی چیزیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
لوز مشاعرے میں بہروز سبزواری نے ایک اور قطعہ سنایا۔ وہ بھی پڑھ لیجیئے:
انڈیا نے روکا پانی، خشک اپنے کھیت ہیں
سوکھے دریاؤں نے کیسا ہم سے ناتا توڑا ہے
یو ایس اے ہے جان ہماری اس لیے اس نے یہاں
پینے کے قابل نہیں جو کالا پانی چھوڑا ہے
یہ کون سی بحر ہے، کیا وزن ہے، اس کا سراغ لگانے سے کم از کم ہم تو قاصر ہیں۔
کنیڈی کے ہوائی اڈے پر یوں چیکنگ ہوئی اپنی
کہ جب پیدا ہوئے تھے ہم اسی حالت میں ہم نکلے
سلانے ہم کو جو آئی تھی قد میں ہم سے دگنی تھی
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
الفاظ کی بھرمار، بے حد ’لُوز‘ بندش، اور دوسرے اور تیسرے مصرعے میں دو دو بار لفظ ’ہم‘ کی تکرار۔
اور اب جگر تھام کے بیٹھو کہ صدرِ مشاعرہ کی باری آئی۔ یہ ہیں ٹُن مرادآبادی، یعنی معین اختر۔ امید ہے کہ شاید یہ کچھ اچھا کلام سنائیں گے:
ادھر مل رہے ہیں ادھر مل رہے ہیں
سیاست کے پنڈی میں گل کھل رہے ہیں
سیاست کا پہنا ہے پی پی نے کرتا
پاجامے متحدہ کے کیوں سل رہے ہیں
مضمون کے بے تکے پن کو اگر نظر انداز بھی کر دیں (کہ اگر پی پی نے کرتا زیبِ تن کر رکھا ہے تو کیا متحدہ پاجامے پہننا چھوڑ دے؟) پاجامہ کو بھی پجامہ کر دیا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ذرا متحدہ کا وزن دیکھیئے، کہ اس کو شاعرِ موصوف نے فعولن کے وزن پر باندھ دیا ہے، جو عروض کے ہر قانون کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
یہ غزل بحرِ متقارب میں ہے جو نہایت مترنم بحروں میں شمار ہوتی ہے۔ اردو کی کئی شاہ کار غزلیں اسی بحر میں ہیں، جیسے ’فقیرانہ آئے صدا کر چلے‘، ’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘، ’جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں‘، ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘، وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ نرم و نازک بحر ایسے بے تکے پن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ شعر کہنے کے لیے عروض کا علم ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر شاعر موزوں طبع ہو تو وہ بغیر فعولن فاعلات کی تکرار کے وزن میں شاعری کر سکتا ہے۔ شاعر تو ایک طرف رہا، باذوق قاری شعر پڑھتے پڑھتے بے وزن لفظ پر پہنچ کر یوں ٹھٹک جاتا ہے جیسے کھانا کھاتے کھاتے دانتوں تلے کنکر آ جائے۔
بیسویں صدی کے معروف ترین شعرا میں سے ایک ساحر لدھیانوی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ عروض سے ناواقف ہونے کے باوجود قبولِ عام کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔
اس کے بعد ٹن حیدرآبادی نے احمد فراز کے ایک نہایت مشہور شعر پر ہاتھ صاف کرنا ضروری سمجھا:
ایک بکرے نے کہا بکری سے اے جانِ عزیز
اب کے ہم بچھڑے تو ممکن ہے کبابوں میں ملیں
اک عجب بات یہ دیکھی ہے یہاں نسواں میں
جتنی خوش شکلیں ہیں وہ ساری حجابوں میں ملیں
اور اب باری آئی خواجہ حیدر علی آتش کی مشہور غزل کی، جو بلاتبصرہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
یہ آرزو تھی ایس ایچ او کے روبرو کرتے
وہ چھتر مارتا اور آپ ہاؤ و ہو کرتے
ہمارے واسطے ذکیہ نے کتا پال لیا
سحر تلک رہے کتے سے گفتگو کرتے
ہم ایک بار گئے تھے شمالی بورڈر پر
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
حلیم ٹھیک نہیں تھا چچا کے چہلم کا
بغیر لوٹے کے گھر لوٹے کو بہ کو کرتے
آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ انور مقصود یہ سمجھتے ہیں کہ مزاح صرف فحاشی، عریانی، رکاکت اور ابتذال سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی قبول ہے، لیکن کم از کم شاعری تو اچھی ہو۔ اور اگر خود شاعر موزوں طبع نہیں ہے تو پھر کم از کم کسی سے شاعری کے بنیادی اصول تو سیکھ لے۔ لیکن یہاں مسئلہ سستی کا نہیں، بلکہ تکبر کا ہے۔ ہم اتنے بڑے سپر سٹار ٹھہرے، ہمیں کچھ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔
ٹی وی کے بل بوتے پر شہرت حاصل کرلینا ایک بات ہے، لیکن پھر اس شہرت کو کیش کروانا ایک بات۔ چناں چہ اس شام بھی خوب کیش لٹا۔ اور ہم بھی پچاس ڈالر نقد اس ’مشاعرے‘ پر گنوا کر بہت پچھتائے۔