انور مقصود کی بے تکی اور بے وزن شاعری

زیف سید

محفلین
انور مقصود پاکستانی ٹیلی ویژن کی دنیا کا اہم نام ہیں۔ انھوں نے اداکاری بھی کی، ڈرامے بھی لکھے، لیکن ان کے سٹیج شو خاص طور پر بے حد مقبول ثابت ہوئے ہیں۔ اس دوران انھوں نے مزاحیہ شاعری بھی شروع کر دی اور ایک پاکستانی چینل پر ’لوز مشاعرہ‘ کے عنوان سے مزاحیہ نظمیں اور غزلیں بھی قلم بند کرتے ہیں۔

انور مقصود آج کل اپنی ٹیم لے کر امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے ہیں، جس میں معین اختر کے علاوہ بہروز سبزواری، قاضی واجد، ایاز خان اور سلیم شہزاد جیسے منجھے ہوئے اداکار شامل ہیں، جو مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعرا کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان تمام شعرا کے لیے لکھے جانے والے اشعار انور مقصود صاحب کی جولانیِ طبع کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے ہمیں بھی ان کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ انور مقصود بڑے علمی اور ادبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ نام ور شاعرہ زہرہ نگاہ ان کی بہن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انور مقصود کی شاعری سن کر مایوسی اور کوفت کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک قطعہ ملاحظہ کر لیجیئے جو قاضی واجد صاحب نے سنایا:

غالب نے شاعری جو کی وہ صرف اس لیے
ان کو تمام عمر میں بوسہ نہیں ملا
اپنا بھی یوں ہی حال ہے اب کیا تمھیں بتائیں
بوسے کو چھوڑو، کوئی سموسہ نہیں ملا

ابتذال اور پھکڑ پن سے قطع نظر ذرا قطعے کی بندش ملاحظہ فرمایئے، عجزِ شاعر ہر ہر مصرعے سے یوں ٹپکتا ہے جیسے برسات میں کسی مفلس کے گھر کی چھت ٹپکتی ہے۔ خیر آگے چلتے ہیں۔ اس کے بعد سلیم شہزاد صاحب کی باری آئی۔ وہ کچھ یوں غزل سرا ہوئے:

کل سے اس ملک کی حالت کو بدلتے دیکھا
بیلِ انگور میں تربوز لٹکتے دیکھا
ایک لیڈی کو سرِ عام گورنر کی طرف
مینڈکی کی طرح آہستہ پھدکتے دیکھا

آخری شعر کی داد انورمقصود صاحب نے خود یوں دی کہ ’کیا ترکیب ہے اس شعر میں!‘

ہم نے اک جج کے بحال ہونے کی خاطر یاں تک
سو وکیلوں کو سرراہِ تھرکتے دیکھا

مضمون کو ایک لمحے کے لیے الگ رکھ کر ذرا پہلے مصرعے کا وزن دیکھیئے جو بحر سے یوں خارج ہو گیا ہے کہ کیا کوئی وکیل آپے سے باہر ہوا ہو گا۔ حالاں کہ اس مصرعے کو درست کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا:

ہم نے اک جج کی بحالی کے لیے شہر کے بیچ
وغیرہ۔

اس کے بعد ایاز خان کو دعوتِ کلام دی گئی، جو ایک پٹھان شاعر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ کچھ یوں سخن آرا ہوئے:

پورے ملک میں ایک نظام
مالاکنڈ میں الگ نظام
نواز، عمران اور قاضی خوش ہیں
وہاں کا جج اک پیش امام

ملک (بر وزنِ شہر) کو ملَک (بر وزنِ خبر) باندھا گیا ہے، چلیں پٹھان شاعر تھا، اور بعض پٹھان اردو بولتے وقت ملک کو ملًک کہتے ہیں، لیکن اس بات کو کیا جائے کہ نواز کو ناز بنا دیا ہے اور ہم نے آج تک کسی پٹھان کو نواز کو ناز کہتے ہوئے نہیں سنا۔ جب کہ عمران بیچارے کی ع بھی کٹ کر دھڑ سے الگ ہو گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امام کو بھی ’ایمام‘ کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد بہروز سبزواری تشریف لائے جو پنجابی شاعر بنے ہوئے تھے۔

اک احتجاجی ریلی نے یہ کام کر دیا
اب اپنے گھر پہ واپس ڈوگر ہیں آ گئے
سنتے تھے اب تو ملک میں انصاف ملے گا
ڈوگر تو کیری لوگر ہیں آ گئے

لگتا ہے یہ قطعہ خلا میں لکھا گیا تھا کیوں کہ ہر جگہ بے وزنی کی کیفیت ہے۔ اندازِ بیان اور مضمون کی رفعت کا آپ خود اندازہ لگا لیجیئے۔

اب یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا مزاحیہ شاعری میں شاعری کے لوازم کا خیال رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا سنجیدہ شاعری میں؟ اگر ہم اردو کے اچھے مزاح نگار شعرا کو دیکھیں تو اس سوال کا یوں جواب ملتا ہے کہ مزاح نگار شاعر نہ صرف اچھا مزاح پیدا کرتے ہیں بلکہ وہ شاعری کے فن کی باریکیوں پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ اور ہمارا تو خیال ہے کہ شاعری کی جو بھی صنف ہو، اس میں بنیادی چیز شاعری ہوتی ہے۔ اگر شاعری اچھی نہیں تو وہ اچھا مزاح پیدا نہیں کر سکتی۔

اردو میں مزاح نگار شاعر کی اچھی خاصی بہتات ہے۔ جعفر زٹلی سے لے کر مرزا سودا، نظیر اکبر آبادی سے اکبر الہ آبادی کے علاوہ سنجیدہ شعرا نے بھی جہاں موقع ملا، ہلکے پھلکے موضوعات پر شعر کہے ہیں۔ میر تقی میر سے زیادہ ’شہنشاہِ غم‘ اردو میں اور کون ہو گا، لیکن ان کی کلیات میں بھی بے حد اعلیٰ پائے کے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار مل جاتے ہیں:

میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

مفت آبروئے حضرتِ علامہ لے گیا
اک مغ بچہ اتار کے عمامہ لے گیا
قیامت کو جرمانہٴ شاعری پر
مرے سر پہ میرا ہی دیوان مارا

یہی حال غالب کا ہے:

کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یا پھر
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیئے غیر سے تہی
سن کر ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں!

جدید دور میں آ جائیے تو سید ضمیر جعفری، سید محمد جعفری، دلاور فگار، انور مسعود، عنایت علی خاں، نیاز سواتی، خالد مسعود اور دوسرے کئی نام ملتے ہیں، جنھوں نے نہ صرف اچھی مزاحیہ شاعری کی بلکہ شاعری کے فنی اصولوں کو بھی پوری طرح سے ملحوظِ خاطر رکھا۔ حتیٰ کہ انور مقصود ہی کی طرح ٹیلی ویژن کی شخصیت اطہر شاہ خان جیدی جب مزاحیہ شاعری کی طرف مائل ہوئے تو اردو کو یہ یادگار شعر دے گئے:

ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا

اس شعر میں طنز، تضاد، پیراڈاکس اور خود پر ہنسنے کا جو انداز پایا جاتا ہے وہ اسے مزاحیہ شاعری سے کہیں بلند کر دیتا ہے۔

لیکن جب آپ مقبولیت کے منھ زور گھوڑے بیٹھے ہوئے بگٹٹ بھاگے چلے جار ہے ہوں تو پھر معیار، فن اور اصول وغیرہ جیسی چھوٹی موٹی چیزیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔

لوز مشاعرے میں بہروز سبزواری نے ایک اور قطعہ سنایا۔ وہ بھی پڑھ لیجیئے:

انڈیا نے روکا پانی، خشک اپنے کھیت ہیں
سوکھے دریاؤں نے کیسا ہم سے ناتا توڑا ہے
یو ایس اے ہے جان ہماری اس لیے اس نے یہاں
پینے کے قابل نہیں جو کالا پانی چھوڑا ہے

یہ کون سی بحر ہے، کیا وزن ہے، اس کا سراغ لگانے سے کم از کم ہم تو قاصر ہیں۔

کنیڈی کے ہوائی اڈے پر یوں چیکنگ ہوئی اپنی
کہ جب پیدا ہوئے تھے ہم اسی حالت میں ہم نکلے
سلانے ہم کو جو آئی تھی قد میں ہم سے دگنی تھی
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

الفاظ کی بھرمار، بے حد ’لُوز‘ بندش، اور دوسرے اور تیسرے مصرعے میں دو دو بار لفظ ’ہم‘ کی تکرار۔

اور اب جگر تھام کے بیٹھو کہ صدرِ مشاعرہ کی باری آئی۔ یہ ہیں ٹُن مرادآبادی، یعنی معین اختر۔ امید ہے کہ شاید یہ کچھ اچھا کلام سنائیں گے:

ادھر مل رہے ہیں ادھر مل رہے ہیں
سیاست کے پنڈی میں گل کھل رہے ہیں

سیاست کا پہنا ہے پی پی نے کرتا
پاجامے متحدہ کے کیوں سل رہے ہیں

مضمون کے بے تکے پن کو اگر نظر انداز بھی کر دیں (کہ اگر پی پی نے کرتا زیبِ تن کر رکھا ہے تو کیا متحدہ پاجامے پہننا چھوڑ دے؟) پاجامہ کو بھی پجامہ کر دیا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ذرا متحدہ کا وزن دیکھیئے، کہ اس کو شاعرِ موصوف نے فعولن کے وزن پر باندھ دیا ہے، جو عروض کے ہر قانون کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔

یہ غزل بحرِ متقارب میں ہے جو نہایت مترنم بحروں میں شمار ہوتی ہے۔ اردو کی کئی شاہ کار غزلیں اسی بحر میں ہیں، جیسے ’فقیرانہ آئے صدا کر چلے‘، ’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘، ’جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں‘، ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘، وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ نرم و نازک بحر ایسے بے تکے پن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ شعر کہنے کے لیے عروض کا علم ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر شاعر موزوں طبع ہو تو وہ بغیر فعولن فاعلات کی تکرار کے وزن میں شاعری کر سکتا ہے۔ شاعر تو ایک طرف رہا، باذوق قاری شعر پڑھتے پڑھتے بے وزن لفظ پر پہنچ کر یوں ٹھٹک جاتا ہے جیسے کھانا کھاتے کھاتے دانتوں تلے کنکر آ جائے۔

بیسویں صدی کے معروف ترین شعرا میں‌ سے ایک ساحر لدھیانوی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ عروض سے ناواقف ہونے کے باوجود قبولِ عام کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔

اس کے بعد ٹن حیدرآبادی نے احمد فراز کے ایک نہایت مشہور شعر پر ہاتھ صاف کرنا ضروری سمجھا:

ایک بکرے نے کہا بکری سے اے جانِ عزیز
اب کے ہم بچھڑے تو ممکن ہے کبابوں میں ملیں

اک عجب بات یہ دیکھی ہے یہاں نسواں میں
جتنی خوش شکلیں ہیں وہ ساری حجابوں میں ملیں

اور اب باری آئی خواجہ حیدر علی آتش کی مشہور غزل کی، جو بلاتبصرہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

یہ آرزو تھی ایس ایچ او کے روبرو کرتے
وہ چھتر مارتا اور آپ ہاؤ و ہو کرتے

ہمارے واسطے ذکیہ نے کتا پال لیا
سحر تلک رہے کتے سے گفتگو کرتے

ہم ایک بار گئے تھے شمالی بورڈر پر
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

حلیم ٹھیک نہیں تھا چچا کے چہلم کا
بغیر لوٹے کے گھر لوٹے کو بہ کو کرتے

آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ انور مقصود یہ سمجھتے ہیں کہ مزاح صرف فحاشی، عریانی، رکاکت اور ابتذال سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بھی قبول ہے، لیکن کم از کم شاعری تو اچھی ہو۔ اور اگر خود شاعر موزوں طبع نہیں ہے تو پھر کم از کم کسی سے شاعری کے بنیادی اصول تو سیکھ لے۔ لیکن یہاں مسئلہ سستی کا نہیں، بلکہ تکبر کا ہے۔ ہم اتنے بڑے سپر سٹار ٹھہرے، ہمیں کچھ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔

ٹی وی کے بل بوتے پر شہرت حاصل کرلینا ایک بات ہے، لیکن پھر اس شہرت کو کیش کروانا ایک بات۔ چناں چہ اس شام بھی خوب کیش لٹا۔ اور ہم بھی پچاس ڈالر نقد اس ’مشاعرے‘ پر گنوا کر بہت پچھتائے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہی تحریر فیس بک پر پڑھ چکا تھا، شاید وائس آف امریکہ سے ہی کسی نے نقل کیا تھا۔۔۔ کاپی پیسٹ
 

فرخ منظور

لائبریرین
انور مقصود، اے آر وائی ڈیجیٹل چینل پر ایک پروگرام کرتے تھے لووز ٹاک۔ اور وہ پروگرام انتہائی پھکڑ پن پر مبنی ہوتا تھا۔ مجھے ان کے پھکڑ پن کا اندازہ وہ پروگرام دیکھ کر بخوبی ہو چکا ہے۔ اور یاد آیا کہ انور مقصود نہ صرف زہرہ نگاہ کے بھائی ہیں بلکہ فاطمہ ثریا بجیا کے بھی چھوٹے بھائی ہیں۔
 
ویسے گستاخی معاف ، یہ "پھکڑ پن "کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
کیا یہ اردو کا لفظ ہے؟
مجھے اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سوال کرنا پڑا یہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
انور مقصود طنزومزاح کے شہنشاہ اور ہمارے ٹی وی کے ایک لیجنڈ ہیں لیکن اس مضمون سے لگتا ہے بڑھاپے میں سٹھیا گئے ہیں۔


 

فرخ منظور

لائبریرین
ویسے گستاخی معاف ، یہ "پھکڑ پن "کا کیا مطلب ہوتا ہے؟
کیا یہ اردو کا لفظ ہے؟
مجھے اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سوال کرنا پڑا یہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔

پھکڑ کا اسم کیفیت؛ فحش گوئی، ہزل۔

بحوالہ کرلپ لغت


یہ صفحہ آن لائن اردو لغت سے چھاپا گیا:
http://www.crulp.org/oud/viewword.aspx?refid=4802


bull_green.gif
پَھکَّڑ [پَھک + کَڑ] (سنسکرت) پھک + رہ
dotted-arrow.gif
پَھکَّڑ
سنسکرت میں لفظ 'پھک+رہ' سے ماخوذ 'پھکڑ' اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے 1818ء کو "دیوان اظفری" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
1. زنانوں اور ہیجڑوں کی ایک خاص قسم کی زبانی لڑائی جس میں وہ برابر تالیاں بجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے عقدے کھولتے ہیں اور مقفٰٰی ہجو کرتے ہیں۔
(مہذب اللغات)
2. فخش بات، ہزل، ناشائستہ گفتگو، گالی گلوچ، پست فراق،
"وہ صرف بے تکے اور مہمل اعتراضات کا مجموعہ نہ تھا بلکہ پھکڑا اور پھبتیوں تک نوبت پہنچ گئی تھی" ( 1935ء، چند ہم عصر، 142 )
انگریزی ترجمہ
Raillery, indecent or abusive language, abuse; low and coarse jesting

صفت ذاتی
1. مسخرہ، ہزل گو، فحش بکنے والا۔
"سید جعفر ایک ہنسوڑ اور پھکڑ شاعر گزرے ہیں" ( 1929ء، تاریخ نثرِ اردو، 23 )

مترادفات
گالی دُشْنام فُحْش

مرکبات
پَھکَّڑ باز، پَھکَّڑ بازی، پَھکَّڑ پَن
copyrights.gif
error-
 

فاتح

لائبریرین
بہت ہی عمدہ تحریر ہے زیف صاحب۔ بہت خوب۔ فی الواقعہ انور مقصود کی "شاعری" پھکڑ پن کی اعلیٰ مثال ہے۔ انور مقصود کا نثری مزاح تو خوبصورت ہوا کرتا تھا لیکن یہ "نام نہاد" شاعری پڑھ کر تو آپ کے پچاس ڈالر کے زیاں پر اظہارِ افسوس ہی کر سکتا ہوں۔

زیف صاحب! ایک جملۂ معترضہ لکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے درج ذیل جملے سے لگ رہا ہے کہ آپ نے گلزار اور ساحر کو ایک صف میں کھڑا کر رہے ہیں۔ کہاں راجا بھوج (ساحر) اور کہاں گنگو تیلی (گلزار)۔:laughing:
کم از کم میں نے آج تک گلزار کے کلام میں ایک بھی غزل یا نظم ایسی نہیں پڑھی جس میں آپ ہی کے بقول دانتوں تلے کنکر نہ آئے ہوں جب کہ ساحر کی شاعری جس قدر میں نے پڑھی ہے کے اس میں ایسی چیزوں سے پالا نہیں پڑا۔
یہی بات ایک دو احباب سے فیض کے متعلق بھی سنی کہ ان کے ہاں بھی عروض کی اغلاط موجود ہیں مگر باوجود تلاش کے فیض کے کلام میں ایسی اغلاط تلاش کرنے سے قاصر رہا ہوں۔
یہاں ہم یہ بات واضح کر دیں کہ شعر کہنے کے لیے عروض کا علم ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر شاعر موزوں طبع ہو تو وہ بغیر فعولن فاعلات کی تکرار کے وزن میں شاعری کر سکتا ہے۔ شاعر تو ایک طرف رہا، باذوق قاری شعر پڑھتے پڑھتے بے وزن لفظ پر پہنچ کر یوں ٹھٹک جاتا ہے جیسے کھانا کھاتے کھاتے دانتوں تلے کنکر آ جائے۔

شاعرِ طرح دار گلزار کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ وہ خود اپنے پہلے مجموعہٴ کلام ’چاند پکھراج کا‘ میں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ عروض کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود مجال ہے کہ سرِمو بھی بہک جائیں۔ ساحر لدھیانوی کا بھی یہی حال ہے کہ عروض سے بیگانہ ہونے کے باوجود وہ قبولِ عام کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔
 

زیف سید

محفلین
جناب فاتح صاحب:‌ مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔

راجا بھوج اور گنگو تیلی والی بات آپ نے خوب کہی۔ کیا آپ واقعی گلزار کو ساحر سے اس حد تک کم تر سمجھتے ہیں؟ میں‌ نے حال ہی میں گلزار کی کتاب ’یار جلاہے‘ پڑھی ہے، اور ہر ہر نظم پر ٹھٹک کر رک جانے اور سوچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ گلزار پیکرتراشی اور منظر کشی میں وہاں‌ پہنچ جاتے ہیں جہاں بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ ساحر کی شاعری تو سراسر یک رخی اور اکہری ہے، جو اکثر و بیشتر نعرہ بازی کی سرحدوں‌ کو چھونے لگتی ہے۔ میں ’یار جلاہے‘ کو ساحر کی تمام کلیات پر ترجیح دینے میں ذرا بھر نہیں ہچکچاؤں‌گا۔

لیکن خیر، پسند اپنی اپنی

زیف
 
مجھے یاد ہے چند برس قبل انور مقصود ایک متقی پرہیز گار شخصیت کےمہمان بنے جہاں ان سےملاقات ہوئی ہم نے حال احوال پوچھا تو فرمانے لگے کیا بتاؤں جب سے ان کے ہاں ٹہرا ہوا ہوں بہت جوس پیا ہے۔ یعنی کےکچھ اور انہیں پیش نہیں کیا گیا۔ اب ان سے اور کس طرح کے پھکڑ پن کی توقع کی جا سکتی ہے جہاں تک ٹی وی پر شو کرنے کی بات ہے تو بشری انصاری، نادیہ خان، شاہد مسعود یہ سب بھی تو کر رہے ہیں انہیں کون پوچھ رہا ہے جو انور مقصود سے پوچھیں گے۔ ضیا الحق کے خلاف چند ذو معنی جملے بول کر شہرت حاصل تو کر لی تھی لیکن اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فش۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرے خیال میں پروگرام " لوز مشاعرہ " میں ہونے والی "لوز مزاحیہ شاعری " کو پروفیشنل مزاحیہ شاعری سے کمپئر کرنا ہی غلط ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انور مقصود کا وہ پروگرام محض پروگرام کی ہی حد تک ہے لہزا اس پر اس حوالے سے اگر تنقید کی جاتی تو بہتر تھا کیونکہ میری دانست میں انور مقصود نے کبھی بھی پروفیشنل مزاحیہ شاعر ہونے کا دعوٰی نہیں کیا ۔ ۔
 

فاتح

لائبریرین
جناب فاتح صاحب:‌ مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔

راجا بھوج اور گنگو تیلی والی بات آپ نے خوب کہی۔ کیا آپ واقعی گلزار کو ساحر سے اس حد تک کم تر سمجھتے ہیں؟ میں‌ نے حال ہی میں گلزار کی کتاب ’یار جلاہے‘ پڑھی ہے، اور ہر ہر نظم پر ٹھٹک کر رک جانے اور سوچنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ گلزار پیکرتراشی اور منظر کشی میں وہاں‌ پہنچ جاتے ہیں جہاں بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ ساحر کی شاعری تو سراسر یک رخی اور اکہری ہے، جو اکثر و بیشتر نعرہ بازی کی سرحدوں‌ کو چھونے لگتی ہے۔ میں ’یار جلاہے‘ کو ساحر کی تمام کلیات پر ترجیح دینے میں ذرا بھر نہیں ہچکچاؤں‌گا۔

لیکن خیر، پسند اپنی اپنی

زیف

بہت شکریہ زیف صاحب۔
معذرت خواہ ہوں اگر اس محاورے کی گلزار سے نسبت آپ کو بری لگی۔ وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میں نے گلزار کی وسعتِ مضمون اور معنی آفرینی یا پیکر تراشی اور منظر کشی پر تو سرے سے اعتراض کیا ہی نہیں بلکہ ان کا تو میں خود قائل ہوں حتیٰ کہ "یار جلاہے" کی نظم "اعتراف" کی "خیال آفرینی" کا خود بھی معترف ہوں۔ گلزار کے کلام کی ان خوبیوں کا موازنہ ساحر سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔
یہ نسبت دینے کی محض ایک ہی وجہ رہی اور وہ ہے گلزار کے کلام میں "وزن" اور "بحر" کا قحط۔
میرے خیال میں اگر کوئی شخص انتہائی عمدہ خیالات کو نہایت خوبصورتی سے الفاظ میں پرو سکتا ہے مگر باوزن شعر نہیں لکھ سکتا تو اسے خواہ مخواہ اپنا وقت برباد کرنے اور دوسروں کے صبر کا امتحان لینے کی بجائے نثر لکھنی چاہیے جس میں تمام اعلیٰ مضامین نہایت خوبصورتی سے بیان کیے جا سکتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی یہی عرض کیا تھا کہ گلزار کی ایسی کوئی غزل "کم از کم میری نظر سے نہیں گزری" جس کا وزن درست ہو، یقیناً اس کی وجہ میری مطالعہ کی کمی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کے علم میں گلزار کی کوئی باوزن غزل ہو تو ضرور ارسال کیجیے گا۔ خاکسار شدت سے منتظر ہے۔
شاید اب میرا نقطۂ نظر قدرے واضح ہو گیا ہے کہ کیوں میں نے ساحر اور گلزار کی نسبتوں کا موازنہ راجا بھوج اور گنگو تیلی سے کیا۔
ایک مرتبہ پھر انور مقصود کی شاعری پر آپ کے خوبصورت مضمون کی جانب لوٹتے ہوئے شکریہ ادا کرتا چلوں۔
 

زیف سید

محفلین
جناب فاتح صاحب

وضاحت کا شکریہ۔ لیکن کیا آپ کو واقعی گلزار کے کلام میں‌کوئی باوزن غزل نہیں‌ ملی؟‌ لیکن خیر، آپ کی بات میں‌ ضرور وزن ہے۔ اس لیے میں‌اپنی بات سے رجوع کرتے ہوئے مضمون میں‌ سے گلزار کا نام نکال رہا ہوں۔

آداب عرض ہے

زیف
 

زیف سید

محفلین
میرے خیال میں پروگرام " لوز مشاعرہ " میں ہونے والی "لوز مزاحیہ شاعری " کو پروفیشنل مزاحیہ شاعری سے کمپئر کرنا ہی غلط ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انور مقصود کا وہ پروگرام محض پروگرام کی ہی حد تک ہے لہزا اس پر اس حوالے سے اگر تنقید کی جاتی تو بہتر تھا کیونکہ میری دانست میں انور مقصود نے کبھی بھی پروفیشنل مزاحیہ شاعر ہونے کا دعوٰی نہیں کیا ۔ ۔

جنابِ والا: میں‌نے اپنے مضمون میں ‌پروگرام کی بات نہیں‌کی، بلکہ واشنگٹن ڈی سی میں‌ہونے والے باقاعدہ مشاعرے کا ذکر کیا تھا۔

جہاں تک پروفیشنل ہونے کا سوال ہے تو اس سے زیادہ پروفیشنل ازم کیا ہو گا کہ انور مقصود صاحب نے ہر ’مشاعرے‘ کے تیس ہزار ڈالر وصول کیے تھے (جس میں‌ ہمارے پچاس ڈالر بھی شامل ہیں :laughing: ) کیا اردو کے کسی بھی ’پروفیشنل‘ مزاحیہ شاعر نے زندگی بھر اپنی شاعری سے اتنی رقم کمائی ہے؟‌

زیف
 

فاتح

لائبریرین
زیف صاحب! یقین کیجیے میں نے ڈرتے ڈرتے آپ کے مراسلے کا جواب دیا تھا اور ڈر یہی تھا کہ کہیں آپ اسے میری جانب سے منفی تنقید نہ شمار کر لیں لیکن آپ کی جانب سے اس محبت نامے نے دل جیت لیا ہے۔ ہم اسیر ہو گئے ہیں آپ کی محبتوں کے۔
گلزار کا کلام میں نے بہت زیادہ نہیں پڑھا لیکن فرخ (سخنور) صاحب جن کی سخنوری کے معتقد ضرور ہیں اور انھی کے ساتھ گلزار کی ایک کتاب (جس کا نام فی الحال ذہن میں نہیں آ رہا لیکن اتنا یاد ہے کہ اس کا پیش لفظ احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا تھا) کی ورق گردانی کا اتفاق ہوا اور اس میں ہمیں باوجود تلاش کے کوئی ایک بھی غزل عروض کی اغلاط سے پاک نہیں ملی۔
اس کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب تو نہیں ملی مگر گاہے بگاہے گلزار کا کلام دوستوں سے یا نیٹ پر ضرور پڑھا لہٰذا اسے میں اپنے مطالعہ کی کمی پر ہی محمول کروں گا۔
اگر آپ کے پاس موجود گلزار کی کتب میں با وزن غزلیات مل سکیں تو ملتمس ہوں کہ محفل پر ہی ضرور شیئر کیجیے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ خاکسار اولین داد دینے والوں میں سے ہو گا۔
ایک مرتبہ پھر آپ کی محبتوں تہہِ دل سے شکریہ۔
 

زیف سید

محفلین
زیف صاحب! یقین کیجیے میں نے ڈرتے ڈرتے آپ کے مراسلے کا جواب دیا تھا اور ڈر یہی تھا کہ کہیں آپ اسے میری جانب سے منفی تنقید نہ شمار کر لیں لیکن آپ کی جانب سے اس محبت نامے نے دل جیت لیا ہے۔ ہم اسیر ہو گئے ہیں آپ کی محبتوں کے۔
گلزار کا کلام میں نے بہت زیادہ نہیں پڑھا لیکن فرخ (سخنور) صاحب جن کی سخنوری کے معتقد ضرور ہیں اور انھی کے ساتھ گلزار کی ایک کتاب (جس کا نام فی الحال ذہن میں نہیں آ رہا لیکن اتنا یاد ہے کہ اس کا پیش لفظ احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا تھا) کی ورق گردانی کا اتفاق ہوا اور اس میں ہمیں باوجود تلاش کے کوئی ایک بھی غزل عروض کی اغلاط سے پاک نہیں ملی۔
اس کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب تو نہیں ملی مگر گاہے بگاہے گلزار کا کلام دوستوں سے یا نیٹ پر ضرور پڑھا لہٰذا اسے میں اپنے مطالعہ کی کمی پر ہی محمول کروں گا۔
اگر آپ کے پاس موجود گلزار کی کتب میں با وزن غزلیات مل سکیں تو ملتمس ہوں کہ محفل پر ہی ضرور شیئر کیجیے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ خاکسار اولین داد دینے والوں میں سے ہو گا۔
ایک مرتبہ پھر آپ کی محبتوں تہہِ دل سے شکریہ۔

ارے اس میں‌ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اگر آپ نے منفی تنقید بھی کی ہوتی تب بھی ہماری کھال اتنی پتلی نہیں‌کہ چھوٹی موٹی بات بھی نہ سہہ سکیں۔ ’یار جلاہے‘ دو ہفتہ قبل ایک دوست مانگ کر لے گئے تھے، جب بھی ان سے واپس دستیاب ہو گی میں‌ اس میں‌سے کچھ کلام ضرور آپ کی خدمت میں‌ پیش کروں‌گا۔

زیف
 
Top