ہندوستان کے ایک شاعر تھے جو 'چرکیں' (چ کے نیچے زیر)تخلص کرتے تھے۔ 'دیوان چرکین' کے نام سےان کا باقاعدہ ایک دیوان چھپا تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست کے والد مرحوم کی لائبریری میں دیکھا تھا۔ اس میں زیادہ تر اشعار کھانے پینے اورنظام انہضام کی فکاہیہ تفصیلات، بیت الخلاء، پاخانے، اور اسی طرح کی گندی مندی اشیاء پر مرکوز ہوتےتھے لیکن زبان و بیان اور تمام شعری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ اشعاراگرچہ تہذیب کے دائرے میں ہی ہوتے تھے۔ تاہم باذوق اور نفیس طبع قارئین کےمزاج پر گراں گزرتے تھے۔ اس بات کے حق میں یا خلاف کچھ کہا نہیں جا سکتا، سوائے اس کے کہ شاعر کا ذہن جس طرف چل نکلے۔ کئی دوسرے شعراء بھی ایسےہیں جو ایک ہی موضوع کو چن لیتے ہیں اور پھروہی ان کی شناخت قرار پاتا ہے ( اس بارے میں کوئی مثال اس وقت یاد نہیں آرہی)۔
'چرکیں' کا فقط ایک شعر مجھے یاد رہ گیا ہے جس سے ان کے طرز کلام کا اندازہ ہو سکتا ہے:
بیت الخلاء میں آج ترنم کا زور ہے
شاید کوئی حسین ہے پیچش میں مبتلا