السلام علیکم مہ جبین آنٹی۔
مجھے کل اچانک ایک گفتگو کے دوران یاد آیا کہ میں نے آپ سے بھی پوچھنا تھا کہ:
رمضان میں آپ کے معمولات کیا ہوتے ہیں؟ گھر کے کام اور عبادت میں توازن کس طرح قائم رکھتی ہیں؟ مشکل کام ہے ناں؟
افطار میں کتنا اہتمام کرتی ہیں اور کیا چیز افطاری کا لازمی جز ہوتی ہے؟
اور ایک سوال رمضان سے ہٹ کر:
آپ کے بچوں میں سے کوئی بچہ بچپن میں بہت ضدی یا بہت خاموش تھا؟ یا جاننے والوں میں ایسے بچے تھے؟ ایسا کیا طریقہ ہو کہ ضدی بچہ اپنی ضد اور خاموش بچہ اپنی خاموشی میں کسی حد تک کمی کر دے؟
وعلیکم السلام
فرحت کیانی چندا !
بہت معذرت کہ میں کافی دن بعد تمہارے سوالوں کے جوابات دے رہی ہوں، وجہ رمضان کی وجہ سے بے حد مصروفیات ۔۔۔۔۔!
رمضان میں معمولات میں کافی فرق آجاتا ہے
اور معمولات اور عبادت میں توازن رکھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے
لیکن بس اللہ کی کرم نوازی رہی اور کبھی کم کبھی زیادہ دونوں ہی ساتھ ساتھ چلتے رہے الحمدللہ !
افطاری میں وہی روایتی چیزیں جو سب کے دسترخوان کی زینت ہوتی ہیں ، ہمارے گھر بھی بنتی ہیں
پکوڑے ، دہی بڑے ، چھولے ، چاٹ اور شربت یہ تو لازمی ہی ہوتی ہیں ، اس کے علاوہ کچھ اور بھی بنالیا جاتا تھا
میرے بچوں میں ایک بچہ بہت ضدی ہوتا تھا ، اس کو ایک وقت میں کچھ ضد ہوتی تھی تو کچھ دن بعد اسکی ضد بدل جاتی تھی
لیکن بس حکمت کے ساتھ کبھی محبت سے اور کبھی ڈانٹ ڈپٹ سے ہم نے اسکی ضد کی عادت چھڑوائی
اگر ہم بچوں کی ہر جا و بے جا ضدوں کو پورا کریں گے تو نتیجتاً وہ پکے ضدی بن جائیں گے
اور یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ بچہ ہے بڑا ہوگا خود ہی سمجھ جائے گا تو ایسا نہیں ہوتا ، بچپن کی عادتیں ہی ساری زندگی ساتھ چلتی ہیں
بچے تو گیلی مٹی کی مانند ہوتے ہیں ہم جیسا چاہیں انکو جس طرح کے سانچے میں ڈھالیں گے وہ ویسے ہی بن جائیں گے
لہٰذا بہت احتیاط کے ساتھ ان کی تربیت ہمارا اولین فرض ہے
اگر ذرا سی بھی کوتاہی ہوئی تو ہم اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونگے
یہ تو تھی ضد کی بات اب جہاں تک خاموشی کا تعلق ہے تو وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتی
بلکہ اچھا ہے کہ خاموشی انسان کو بہت سی خرابیوں سے بچا لیتی ہے
خاموشی انسان کو غور و فکر اورمحاسبے کی عادت ڈالتی ہے
اور خاموش رہنے والوں کو پہلے تولو پھر بولو کی عادت ہوجاتی ہے جو کہ زندگی میں بہت سی خرابیاں ہونے سے پہلے ہی ختم کردیتی ہے
تو اس کے لئے فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ویسے بھی ہم پہلے بچوں کو بولنا تو سکھاتے ہیں لیکن تولنا سکھانا کافی مشکل کام ہے
پھر جب بچے بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں تو ہم کو انہیں چپ کروانا جوئے شیر لانے کے برابر لگتا ہے
اس لئے خاموشی کی عادت تو ایک نعمت سے کم نہیں ۔۔۔۔