اگر رعب دارانہ تو کس کا رعب کس پر ہے؟شریک حیات سے تعلقات دوستانہ یا رُعب دارانہ؟
بھارتی جو تھاانجینرنگ کالج کی لائف تھری ایڈیٹ کے عامر خان کی کہانی لگی مجھے
ہم نے کمپیوٹر کا با قاعدہ استعمال تب شروع کیا جب ہم دہلی میں بی ٹیک کر رہے تھے۔ ان دنوں یونیورسٹی کی زیادہ تر مشینوں پر ونڈوز ایکس پی نصب ہوا کرتا تھا اور کم و بیش ساری ہی مشینوں میں وائرس موجود ہوتے تھے جو کہ انٹرنیٹ اور فلاپی ڈسک کی مدد سے ان تک پہنچتے تھے۔ زیادہ تر طلبا اپنے ذاتی کمپیوٹر میں پائریٹیڈ ونڈوز اور دیگر سافٹوئیر استعمال کرتے تھے اس لیے وائرسوں کا تبادلہ اور بھی عام بات تھی۔ اس کے چلتے صورتحال یہ تھی کہ ہم لوگ گھر سے پروگرامنگ کا اسائنمنٹ تیار کر کے فلاپی ڈسک میں محفوظ کر کے دکھانے لے جاتے تو عموماً لیب کے کمپیوٹر میں لگتے ہی فلاپی ڈسک تباہ ہو جاتی تھی اور اساتذہ کو لگتا تھا کہ ہم نے کام ہی نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان دنوں ہر کمپیوٹر میں سی ڈی رائٹر نہیں ہوا کرتے تھے، پین ڈرائیو یا تھمب ڈرائیو کا استعمال بھی عام نہیں تھا اس لیے فلاپی ڈسک ہی اسائنمنٹ کے تبادلے کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ بہر کیف، کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں تھے تو لینکس کے نام سے آگاہی بھی لازمی شئے تھی۔ لہٰذا ہماری جماعت اور ہم سے سینئیر جماعت کے کچھ لوگوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ لیب کی تمام مشینوں میں لینکس نصب کر دیا جائے۔ انھیں دنوں ہم لوگوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ گنو لینکس یوزرس گروپ (جے ایم آئی ایل یو جی) کا قیام کیا اور ڈیپارٹمنٹ ہیڈ سے اجازت حاصل کر کے لیب کی بیشتر مشینوں میں لینکس نصب کیا، لینکس کی تنصیب کے ورکشاپ کیے، اور ہفت روزہ میٹنگیں شروع ہوئیں۔ اس کا سب سے پہلا فائدہ جو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ وائرس کی وبا سے نجات مل گئی، سی اور سی پلس پلس کی پروگرامنگ کرنے کے لیے بورلینڈ کے ٹربو سی پلس پلس ایڈیٹر کے پائریٹیڈ نسخے سے نجات مل گئی، جی سی سی کمپائلر بغیر کسی مشقت کے پہلے سے ہی آپریٹنگ سسٹم میں نصب ملا، اور پہلی بار سمجھ میں آیا کہ پروگرامنگ تو کسی سادہ سے ٹیکسٹ ایڈیٹر میں بھی کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے لینکس کے فوائد پڑھ اور سن کر اس کو نہیں اپنایا بلکہ استعمال کرنے اور لینکس کے ماحول کا حصہ بننے کے بعد ونڈوز بمقابلہ لینکس موازنے و دلائل سنے (جن میں اوپن سورس، مفت سافٹوئیر، اور پائریسی وغیرہ کے موضوعات شامل ہیں) اور لینکس کے حامیوں کی قطار میں جا کھڑے ہوئے۔ ہماری دلچسپیوں کا مرکز ڈیسکٹاپ سافٹوئیر کبھی نہیں رہے بلکہ کراس پلیٹ فارم ویب ایپلیکیشنز کو ہم نے ہمیشہ ترجیح دی اور اتفاق سے زیادہ تر ویب سرور لینکس بیسڈ ہوتے ہیں۔ نیز جدید پروگرامنگ زبانوں مثلاً روبی، پائتھون، اور نوڈ جے ایس وغیرہ میں پروگرامنگ لینکس مشینوں پر کچھ زیادہ ہی فطری محسوس ہوتی ہے، اس کے بر عکس ونڈوز میں ڈاٹ نیٹ کے علاوہ کسی اور پروگرامنگ انوائرنمنٹ کو سیٹ اپ کرنا ذاتی طور پر ہمیں عجیب سا لگتا ہے۔ واضح رہے کہ ہم نے ڈاٹ نیٹ فریم ورک میں کبھی کام نہیں کیا، لہٰذا یہ محض قیاس ہے کہ ڈاٹ نیٹ پروگرامنگ ونڈوز میں اجنبی محسوس نہیں ہوتی ہوگی۔ ہماری رائے میں لینکس کی کمانڈ لائن اور شیل بلا مقابلہ ونڈوز کمانڈ لائن سے بدرجہا بہتر رہی ہے، ممکن ہے یہ بات ونڈوز کے حالیہ نسخوں کے لیے درست نہ ہو۔ بہر کیف اب ہم جس نوعیت کی ریسرچ کرتے ہیں اس میں جس مقدار میں ڈیٹا پروسیسنگ اور ٹیکسٹ انالسس کرنی ہوتی ہے وہ ونڈوز مشینوں پر کرنا حماقت کے مترادف ہے۔آپ ونڈوز کے بجائے لینکس کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ پائریسی کے علاوہ دیگر وجوہات بھی معلوم کرنا چاہیں گے۔
بلا شبہ ہم اوپن سورس سافٹوئیر میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم ہر سافٹوئیر مفت چاہتے ہیں۔ تعاون باہمی کی بنیاد پر تیار ہوئے مفت سافٹوئیر یقیناً ہماری ترجیح ہیں، لیکن ہم ایسے سافٹوئیر میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں جو مناسب قیمت پر دستیاب ہوں لیکن ساتھ ہی ان کا سورس کوڈ بھی فراہم کرایا جائے اور اس میں اپنی مرضی کی تبدیلی کی اجازت دی جائے۔ یوں اس بات کا اعتبار کرنا آسان ہوتا ہے کہ سافٹوئیر وہی کام کر رہا ہے جیسا اس کے بارے میں اعلان کیا گیا ہے۔ یوں دانستہ یا غیر دانستہ اس میں کسی خامی یا چور دروازے کی موجودگی کا پتہ چلنا سہل ہوتا ہے۔ اوپن سورس سافٹوئیر کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے خالقین کی ترجیحات بدل جائیں یا ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو سافٹوئیر کی موت واقع نہیں ہوتی۔آپ اوپن سورس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یا کلوزڈ؟ اور اس دلچسپی کی وجوہات؟
سوا پانچ یا ساڑھے تین؟واضح رہے کہ ان دنوں ہر کمپیوٹر میں سی ڈی رائٹر نہیں ہوا کرتے تھے، پین ڈرائیو یا تھمب ڈرائیو کا استعمال بھی عام نہیں تھا اس لیے فلاپی ڈسک ہی اسائنمنٹ کے تبادلے کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔
سن 2005 تک دہلی میں اتنی ترقی تو ہو ہی گئی تھی۔سوا پانچ یا ساڑھے تین؟
ویسے تو لکھنؤسے تقریباً دو سو کیلو میٹر دور گونڈہ ضلع کے ایک گاؤں سے تعلق ہے۔ لیکن عرصہ دراز سے ہم لوگ دہلی میں مقیم ہیں اور باقاعدہ دہلی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ البتہ ہم فی الوقت تعلیمی سرگرمیوں کے باعث امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ ہمارے تعارف کی سات برس پرانی لڑی ملاحظہ فرما لیں۔میں ابن سعید صاحب سے پوچھنا چاہونگا کے آپ کا ہندوستان کے کس شہر سے تعلق ہے ،چونکہ میں بھی ہندی ہوں اس لئے آپ کے ہندوستانی ہونے کے بارے میں پڑھا تو اپنائیت محسوس ہوئی۔☺
ویسے تو لکھنؤسے تقریباً دو سو کیلو میٹر دور گونڈہ ضلع کے ایک گاؤں سے تعلق ہے۔ لیکن عرصہ دراز سے ہم لوگ دہلی میں مقیم ہیں اور باقاعدہ دہلی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ البتہ ہم فی الوقت تعلیمی سرگرمیوں کے باعث امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے آپ ہمارے تعارف کی سات برس پرانی لڑی ملاحظہ فرما لیں۔
وعلیکم السلام!السلام علیکم!
ہم کوشش کر رہے تھے کہ ان سوالات کو نظر انداز کر دیں، جیسے یہ کبھی پوچھے ہی نہیں گئے۔ لیکن اس لڑی میں چند ہفتوں کے بعد کوئی نہ کوئی ہلچل ہو جاتی ہے اور ہمیں مجبوراً سوچنا پڑ جاتا ہے کہ ابھی کچھ جوابات ادھار ہیں۔مجھے امید ہے سعود بھائی کے علاوہ یہاںسبھی کو میرا انتظار ہوگا(آپ اسے امن کی خوش فہمی بھی کہہ سکتے ہیں ) چلیں جی پھر انٹرویو کا آغاز وہاں سے کرتے ہیں جہاں سے تسلسل ٹوٹا تھا۔(شیعب بھائی کے سوالات بھی کیو میں ہیں)
اب بھلا کوئی بتائے کہ اتنا مشکل موضوع زیر بحث لایا جاتا ہے۔ بہر کیف اب اس موضوع پر سوالات پوچھے گئے ہیں تو منافقانہ جوابات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔بات آپ کی نجی ذندگی کے بارے میں ہورہی تھی اور یہاں شادی بیاہ جیسے موضوع پر بات نہ ہو تو انٹرویو ادھورا سا لگے گا۔۔کچھ ویسے بھی الگ دیس سے تعلق ہونے کی بناء پر کچھ الگ قسم کے سوالات ذہن میں ہیں۔
مئی 2009 کی بات ہے جب سارہ خان بٹیا نے محفلین کو خبر دی تھی کہ ان کا ویرا گھوڑی چڑھنے والا ہے (ویسے آپس کی بات ہے، ہم نے کبھی گھڑ سواری نہیں کی)۔ خیر روایت تو یہ ہے کہ دن تاریخ کی خبر دعوت نامے یعنی نور چشم و نور چشمی والے شادی کارڈ کے ذریعہ دی جانی چاہیے۔@ آپ کی شادی خانہ آبادی کا تو سب کو پتہ ہے یہ بتائیں کس سن میں یہ خوشگوار تقریب منعقد ہوئی؟
جی ہاں، وہ ہماری خالہ زادی ہیں۔@ شریک حیات کا تعلق آپ کے خاندان سے ہے؟
ہم بہت چھوٹے تھے تبھی سے ہمیں بتایا جاتا رہا کہ ہمیں کس کو نہ دیکھ کر شرمانا ہے۔ بنت خالہ کی دادی اور خالہ بار بار یہ ذکر چھیڑا کرتی تھیں، حتیٰ کہ انجنئیرنگ کی ڈگری مکمل کر کے بر سر روزگار ہونے کے بعد ٹال مٹول کا کوئی جواز باقی نہ رہا۔@ شادی آپ کی پسند سے ہوئی یا گھر والوں کی پسند سے مطلب ارینج میرج؟
ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک معاشرتی سوال ہے جس کا جواب ماحول، معاشرے، اور دور کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یوں تو ہمارے خیال میں فریقین کی پسند ہر حال میں ضروری ہے، البتہ جن معاشروں میں مفرد خاندانوں کا رواج ہے وہاں لواحقین کی مرضی بہت زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں شادیاں دو افراد کے بجائے دو خاندانوں کے بیچ ہوتی ہیں وہاں گھر کے بڑے ہی یہ فیصلے کرتے ہیں۔ وہ معاشرے جہاں مردوں کے برعکس خواتین کا دائرہ عمل گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوتا ہے اور مخلوط نظام میں ان کی اعلیٰ تعلیم کا بھی رواج نہیں وہاں فقط محبت والی شادیوں کا تصور محال ہے۔@ لگے ہاتھوں ایک اور سوال بھی۔۔۔لو میرج کے حق میں ہیں یا ارینج میرج بہتر سجھتے ہیں؟
ہماری کوشش تو یہی تھی کہ شادی سستی ترین، آسان ترین، ہر قسم کے غیر ضروری رواجوں سے پاک، اور سادہ ہو۔ کوئی غیر ضروری شور شرابا نہیں، کوئی بارات نہیں، کوئی ڈھول باجے نہیں، کوئی جہیز نہیں، کوئی فوٹوگرافی یا ویڈیو گرافی نہیں۔ البتہ ایک رسم ہوتی ہے نکاح کے بعد چھوارے تقسیم کرنے کی جو ہمارے ایک نانا جان کی ناراضگی کی وجہ سے انجام پائی تھی۔ ساری روداد یوں ہے کہ ایک شام گاؤں کی مسجد سے اعلان کر دیا گیا تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں نکاح ہوگا جو بوجوہ ملتوی ہو کر عشا کی نماز کے بعد طے پایا۔ عشا کی نماز کے بعد وہاں موجود نمازیوں (جو اس روز معمول سے زیادہ تھے) کے سامنے ہمارے ایک ماموں جان نے نکاح پڑھایا، گاؤں کے مدرسے سے جاری کردہ نکاح نامہ پر کیا گیا، دستخط ہوئے، اور تھوڑی دیر بعد وداعی ہوئی۔ اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد ولیمے کی دعوت تھی جس میں گاؤں کے لوگ، کچھ رشے دار و احباب سمیت گاؤں کے مدرسے میں مقیم طلبہ نے شرکت کی۔@ اپنی شادی کی تقریب میں آپ کی پسندیدہ رسم؟
ویسے تو ہماری کوشش تھی کہ رسم و رواج کو اس قصے سے دور ہی رکھا جائے لہٰذا ایسا کچھ بتا پانے سے قاصر ہیں۔ ہم تو شادی والے روز بچوں کے گروپ کے ساتھ باغ میں آم توڑنے چلے گئے تھے۔ ولیمے کی شام کچھ لوگوں کا گروپ بنا کر ہم مافیا گیم کھیل رہے تھے تو پہلے ہی دور میں آنکھ کھولنے کے بعد کچھ لوگوں نے ایک صاحب کو مافیا قرار دیا، وجہ پوچھنے پر کہنے لگے کہ وہ دیکھنے سے ہی مافیا لگتے ہیں۔@ کوئی خاص رسم جو کہ پاکستانی شادیوں میں نہ ہو؟
شادی کے روز ہم نے سفید کرتا پاجاما اور سادہ شیروانی پہنی تھی اور ولیمے کے دن فارمل سوٹ۔ ہمیں ویسے تو ٹھیک سے یاد نہیں لیکن غالباً انھوں نے کوئی وزنی قسم کا شرارہ پہن رکھا تھا۔ شادی میں تصاویر وغیرہ تو بنی نہیں تھیں، جو دو چار تصاویر ہمارے فون کے کیمرے سے لی گئی تھیں وہ طوطا تال کو پیاری ہو گئی تھیں۔@ شادی کے دن آپ نے کیسا لباس پہنا؟ بھابھی کا حلیہ بھی تھوڑا سا بتاتے جائیں؟
مرعوبانہ، بلکہ تقریباً خائف زدہ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہر شریف شوہر کا یہی وتیرہ ہونا چاہیے۔@ شریک حیات سے تعلقات دوستانہ یا رُعب دارانہ؟
الحمد للہ!ابھی کے لیے بس اتنا ہی۔۔۔۔۔
ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔پڑھائی کی تکمیل کے بعد واپس لوٹ آئیں گے یا امریکی شہری بننے کا ارادہ رکھتے ہیں
شاید وتیرہ؟شریف شوہر کا یہی وطیرہ ہونا چاہیے۔