انٹرویو انٹرویو وِد اعجاز اختر

امن ایمان

محفلین
السلام علیکم

میرے لیے یہ ایک بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں یہاں کے ایک سینئیر اور انتہائی قابلِ احترام ہستی جناب اعجاز اختر صاحب سے بات چیت کا آغاز کرنے لگی ہوں ۔۔ان کے بارے میں کچھ جانکاری تو اُن کی تعارف پوسٹ سے مل گئی ہے۔۔جناب افتخار راجہ صاحب نے بہت مختصر الفاظ میں بہت اچھے سوالات کیے ہیں۔۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ جوابات یہاں بھی “اقتباس“ کردوں۔۔۔تانکہ ان سے کچھ اور آگے کی بات کی جا سکے۔

مقام پیدائش" جاؤرہ۔ ضلع رتلام۔ مدھیہ پردیش۔ جو ننھیال ہے (ددھیال کے آباء و اجداد نصیر آباد، راجستھان، ننھیال کے آباء و اجداد افغانستان اور ایران۔ نانا ریاست جاؤرہ میں مفتی، عدالت شریعہ کے جج اور نوابین کے اتالیق تھے۔
تاریخ پیدائش 22جنوری 1950
ایم ایس سی (جیالوجی۔ 1973
1975جی ایس آئی میںملازمت
1960 میں ہی جب رسالہ نور رام پور میں ابتدائی تخلیقات چھپیں۔
1964سے 1969 تک 'پیام تعلیم' دہلی میں۔
1966سے 1967 اندور کے روز نامے سفیر مالوہ کے بچوں کے ضمیمے 'کھلتی کلیاں' کی ادارت بھی کی۔ اسی اخبار کے ادبی صفحے رنگ و نور سے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔
1967میں کتاب۔ لکھنؤ اور 1968شب خون الہ آباد میں شاعری چھپی۔
1968-1970میں علی گڑھ میں بشیر بدر اور صلاح الدین پرویز کا ساتھ رہا،
1997 میں حج کی سعادت حاصل ہوئی
1998میں حج کا مزاحیہ سفر نامہ اللہ میاں کے مہمان مکمل کیا۔
مزید ایک سوال کا جواب۔ بچپن میں وطن جاؤرہ میں کچھ لوگ 'اجوّ میاں' کہتے تھے۔ اسے عرفیت کہہ سکتے ہیں۔


اس کے علاوہ اور بھی معلومات ہیں۔۔لیکن میں چاہوں گی کہ ان کے بارے میں یہاں آہستہ آہستہ بات ہو۔

اعجاز انکل پہلے تو آپ کے بےحد شکریہ کہ آپ نے مجھے یہاں بات کرنے کی اجازت دی اور میرا مان رکھا۔۔ اب میرے کچھ باقاعدہ اور بےقاعدہ قسم کے سوالات۔۔۔ آپ کو یاد ہے نا کہ آپ سے میں نے ایک عدد درخواست کر رکھی ہے۔۔ :roll:


ہ اعجاز انکل آپ کو اس محفل کا کب اور کیسے پتہ چلا؟

ہ محفل پہ پہلا دن کس طرح گزرا؟ کچھ تفصیلی تاثرات؟

ہ محفل کے تین فیورٹ اراکین کے نام؟

ہ چند جملے اپنی شخصیت کے بارے میں؟

ہ محفل کا پسندیدہ سیکشن؟ ( جہاں آپ زیادہ پائے جاتے ہوں)

ہ ہندوستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے لیے آپ کے کیا محسوس کرتے ہیں؟

ہ آپ کبھی پاکستان آئے ہیں؟

ہ جیالوجی میں ماسٹرز آپ کے لیے فطرت کو سمجھنے میں کس حد تک مددگار ثابت ہوا؟

ہ کبھی ریسرچ کے دوران کوئی یادگار واقعہ جو آپ کو اب تک یاد ہو؟

ہ بچپن کی کچھ خوشگوار یادیں جو اب تک آپ کے ساتھ ہوں؟


( اعجاز انکل آپ کو جب جب سہولت ہو آپ یہاں جواب دے سکتے ہیں۔۔مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔) : )
 

الف عین

لائبریرین
تمھارے جوابات فرصت میں ہی دینے کے ہیں۔ انشائاللہ جلد ہی۔ یہ تو محض رسید ہے۔ رات کو تقریباً بارہ بجے تک تو محفل میں تھا لیکن تم نے شاید اس کے بھی بعد یہ پوسٹ کیا ہے ایمان۔
 

الف عین

لائبریرین
لو ابھی ہی حاضر ہوں۔

ہ اعجاز انکل آپ کو اس محفل کا کب اور کیسے پتہ چلا؟

*میں تو اپنے آپ کو اس محفل کے بانیوں میں سے سمجھتا ہوں۔ میرے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ پر ہی اس کی ساری منصوبہ بندی جاری تھی۔ یہاں تک کہ نام کی تجویز میں بھی میرا مشورہ شامل تھا۔ نبیل اور میری ای میل خط و کتابت بھی اکثر ہوتی تھی ان دنوں۔

ہ محفل پہ پہلا دن کس طرح گزرا؟ کچھ تفصیلی تاثرات؟
**یہ تو اب یاد بھی نہیں۔ ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ پہلے محفل میں نہ اوپیرا کام کرتا تھا نہ فائر فاکس، اور میں یہی استعمال کرتا تھا۔ چنانچہ میں اردو میں ٹائپ کرنے میں بھی دقّت محسوس کر رہا تھا۔ یا کبھی میرا پاس ورڈ قبول نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال میں محض دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک مکمل اردو کی سائٹ بن گئ ہے اگرچہ یہ ارادہ نہیں تھا کہ میں دوسری فورموں کی طرح یہاں کی گپ شپ میں حصّہ لیا کروں گا۔ ابتدائ ارکان سب میرے جانے پہچانے تھے۔ قدیر، زکریا، جہانزیب، افتخار راجہ، منہاجین۔ شروع میں میں نے اس کے ادبی حصّے میں زیادہ حصّہ لیا، اور اس کے علاوہ اب بھی اردو کمپیوٹنگ اور اردو ادب سے متعلق پوسٹس ہی میری تعداد میں زیادہ ہوں گی۔ یعنی جنھیں واقعی پوسٹس کہا جا سکتا ہے۔ حاضری اور ٓنا ہے جانا ہے میں تو محض گپ شپ ہی ہوتی ہے، ان کو پوسٹس نہیں ماننا چاہئے اگرچہ انھیں کے شمار سے میں تین ہزار کے عدد کے قریب پہنچ رہا ہوں۔ شروع میں تو کئ ماہ تک میں یہاں زیادہ وقت نہیں گزارتا تھا، جب لاگ ان کرتا تو اپنے پچھلے سیشن سے بمشکل پچیس تیس پیغامات ہوتے تھے، ان میں اپنی دلچسپی کے پیغامات دو بیس منٹ میں پڑھے یا جواب دئے اور لاگ آف۔ دھیرے دھیرے گپ شپ میں بھی حصّہ لینے لگا اور پھر زیادہ وقت گزرنے لگا۔
محفل کے تین فیورٹ اراکین کے نام؟
**یہ سب سے مشکل سوال۔ میں تین کیا تیس نام آسانی سے گنوا سکتا ہوں۔خواتین میں ہی اگر جویریہ شگفتہ کے علاوہ ماوراء کا نام لوں تو فرزانہ کہیں گی کہ بابا جانی میں؟؟ اور ماوراء کا نام لوں تو وہ کہے گی کہ زاویہ کے جشن کا اب تک غصّہ ہےآپ کو کیا؟
تو یوں کرتا ہوں:
چار مذکّر ارکان:
شمشاد، رضوان، محب، شاکر (دوست)، ۔۔ لیکن پھر نبیل اور ظفری کو کہاں رکھوں؟ یہ تو چھہ ہو گئے!!
چار صنفِ نازک ارکان:
جویریہ مسعود (حال جیہ)، شگفتہ، فرزانہ، ماوراء۔۔۔ بلکہ ان کو بھی چھہ کر دوں تو مہوش علی اور امن ایمان۔ ٕ(مکھّن لگا رہا ہوں تاکہ تم آسان آسان سوال پوچھو۔ تم جوابوں کے جواب میں بھی سوالات کا ڈھیر لگا دیتی ہو نا۔ اب تک محب قیصرانی اور ماوراء کے انٹر ویو کے سارے پیغامات نہیں پڑھ سکا اور نہ اتنا وقت ہے۔ دیکھو اتنا وقت تو تمھارے حصّے میں ہی چلا گیا۔

ہ چند جملے اپنی شخصیت کے بارے میں؟


ہ محفل کا پسندیدہ سیکشن؟ ( جہاں آپ زیادہ پائے جاتے ہوں)
**اردو کمپیوٹنگ اور فانٹ سے متعلق پیغامات، اردو لائبریری اور گپ شپ، اردو ادب میں ادھر ذرا کم جانا ہو رہا ہے۔

ہ ہندوستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے لیے آپ کے کیا محسوس کرتے ہیں؟
پاکستان کے لئے میرے جذبات وہی ہیں جو شاید زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کے ہوں گے۔ کہ آخر اپنے ہی لوگ اجنبی کیوں ہو گئے۔ میں تقسیم کو بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک غلط قدم مانتا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھے فکشن میں بھی اتفاق سے وہی ناول افسانے بے حد پسند ہیں جو تقسیم کے پس منظر میں تھے۔ گڈریا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، آنگن، آگ کا دریا، اداس نسلیں۔ وغیرہ

ہ آپ کبھی پاکستان آئے ہیں؟
** اب تک تو نہیں لیکن خواہش ضرور ہے۔ میرے کئ رشتے دار وہاں ہیں اگر چہ دور کے۔

ہ جیالوجی میں ماسٹرز آپ کے لیے فطرت کو سمجھنے میں کس حد تک مددگار ثابت ہوا؟
اس پر کبھی بطور خاص غور تو نہیں کیا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ میرا تعلق ہمیشہ شہروں سے رہا اس لئے دیہاتوں کی فضا کا محض کتابوں سے معلوم ہوتا تھا۔ فیلڈ ورک نے یہ مواقع دئے کہ نہ صرف گاؤں بلکہ غیر آباد جنگلوں سے بھی گزرے بلکہ قیام کیا۔ جنگلوں کی مہک، چرواہوں کے گیت، کھیتوں میں (اور کرناٹکا میں اکثر ناریل کے باغوں) میں گیلی مٹّی کی سوندھی خوشبو۔ اپنا ہی یہ شعر ابھی یاد آّ گیا
سوندھی مٹی کی مہک دور سے آتی ہے مجھے
سرد رحمت کی خبر آ کے سناتی ہے مجھے
ویسے اس ’پہیلی‘ کا جواب ہے بارش، کنوؤں یا ٹیوب ویلس کا پانی نہیں۔

ہ کبھی ریسرچ کے دوران کوئی یادگار واقعہ جو آپ کو اب تک یاد ہو؟
**ہندی ادیب یش پال کی کتاب کا نام ہی یاد آ رہا ہے۔ ’کیا بھولوں کیا یاد کروں‘۔ شاید یہ واقعہ جو مجھے ہی نہیں، میرے محکمے میں بھی اکثر یاد کیا جاتا ہے،
ہمارے یہاں ڈرائیوروں میں اکثر شراب نوشی کی عادت عام ہے، پاکستان میں بھی ہو گی۔ اتفاق سے ملازمت کے شروع کے دو تین سالوں میں میں بڑے کیمپ میں تھے جہاں چار پانچ ڈرائورس تھے اور ان کی اپنی اپنی رہائش گاہیں (زیادہ عرصے تک کہیں کام ہوتا ہے تو وہاں عارضی کوارٹرس بنا لئے جاتے ہیں لکڑی، ٹین وغیرہ کے، ان کو ہٹ مینٹس کہتے ہیں) اس لئے ان کی طرزِ رہائش کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ حیدر آباد میں جب تبادلہ ہو کر80۔79 میں کرناٹکا میں فیلڈ ورک کے لئے گیا تو ہم دو ہی افسران تھے اور ایک ڈرائیور۔ اور وہ صاحب بلا نوش۔ ہمارے خیمے ایک ندی کے کنارے تھے اور وانی ولاس ساگر نامی ڈیم کے گیٹس سے قریب ہی اس ندی پر ایک تنگ سی پلیا ہماری کیمپ سائٹ اور ڈیم کا علاقہ، ٹورسٹ سینٹر اور وانی ولاس پورہ گاؤں سے الگ کرتی تھی۔ موصوف جن کا نام راملو تھا، اکثر اس پلیا پر پڑے پائے جاتے تھے نشے میں دھت۔ کتنی ہی بار ان کو سمجھایا کہ بھائ کبھی اس ندی میں ہی گر جاؤ گے، اکثر گیٹ کھلے ہوتے تھے ان دنوں اور پانی خوب زور و شور سے ندی میں گرتا تھا۔ لیکن جب یہ نہ مانے تو پھر باقاعدہ ان کے خلاف مہم کرنی پڑی۔ باقاعدہ اس طرح کے ان کی بیہوشی کے عالم میں ہی پولس رپورٹ کی گئ۔ ان کا اسپتال میں معائنہ کروایا گیا اور سارے ثبوتوں کے ساتھ دفتر میں کارروائ شروع کی۔ اس کا فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ ہم کو دوسرا مقامی ڈرائور رکھنے کی اجازت مل گئ اور راملو کو واپس بلوا لیا گیا، بعد میں کچھ دن سسپینڈ رہے راملو، لیکن یہ واقعہ ڈرائیوروں میں بھی مشہور ہو گیا شاید اور اس کے بعد مجھے جو ملے، وہ سب اچھے ثابت ہوئے، یا پھر اچھّے بنے رہے کم ز کم میرے ساتھ۔ بہر حال اب بھی مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب میں اور میرا یہ ساتھی داسو شام کو گھوم کر یا ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس کبھی کبھی کھانا کھا کر لوٹتے ہپوتے پیدل اور پُلیا پر راملو ایسے پڑے ملتے کہ ہمیں شک ہوتا کہ شاید چل بسے۔ ایک بار تو ہم دونوں ہی ان کو سیدھا کھڑا کر کے گھسیٹتے ہوئے کیمپ واپس لائے، اور اکثر تو یہ ممکن نہ ہوتا تو کیمپ ٓ کر چوکیدار کو بلا کر لے جاتے۔ ٓخر ایک دن پولس نے ہی وہاں سے اٹھوایا اور سارا کیس بنا۔
(اس پر یہ یاد آیا کہ یہ حیدرآباد سے دوسرے سال کے فیلڈ ورک کی بات ہے۔ اس سے پہلے 1978۔79 میں جو میرا ساتھی اور دوست تھا، وہ 11 جولائ کو ممبئ کے علاوہ سری نگر میں دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہو گیا۔حملے میں پہلے آشیش گھوش رائے کی بیوی کابیری، سالے اور سالے کی بیوی اور ان کے کچھ اور رشتے دار ختم ہوئے اور اس دن آشیش زخمی ہوا تھا۔ اخبار میں خبر پڑھی تو دوپہر میں اسسے رابطہ کی کوشش کرتا رہا۔ پھر کولکاتا میں دوسرے ساتھیوں کو فون ملایا تو شام کو چھہ بجے خبر ملی کہ وہ بھی چل بسا۔ یہ لوگ کشمیر گھومنے گئے تھے۔ آشیش کو تو محض جیالوجی اور اپنے گٹار کے علاوہ کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اکثر ہم دونوں جگل بندی کرتے تھے، ان دنوں میں بانسری بجاتا تھا، آشیش کے ساتھ ہی میں نے اپنی بنگلہ بولنے کی مشق کی، اور اس سال کے بعد 1980۔81 اور 1981۔82 میں بھی آشیش فیلڈ کا ساتھی رہا داسو کے ساتھ ساتھ۔ میرے اب تک شائع ہونے والے پانچ چھہ مقالوں میں سے دو مقالے ہمارے مشترکہ ہیں۔ اور ایک تیسرے پیپر میں جو میرا تنہا تھا، میں نے اپنے دونوں کرناٹکا کے فیلڈ ساتھیوں۔ داسو اور آشیش گھوش رائے کے لئے اظہارِ تشکر کیا تھا۔ یہ اگرچہ واقعہ نہیں ہے لیکن میرے شعبے کے تین چار عزیز ترین ساتھیوں میں سے دو کا ذکر یہاں ہی ہو گیا۔

ہ بچپن کی کچھ خوشگوار یادیں جو اب تک آپ کے ساتھ ہوں؟
**شاید یہ بات کہ میرے بچپن کے کھیل بھی بڑے ’غیر طفلانہ‘ ہوتے تھے۔ ایک غیر متعلقہ بات یہ یاد آئ کہ میں نے ایک چھاپہ خانہ’ ایجاد‘ کیا تھا۔ ایک بانس کی قمچی کو بیچ میں سے چھیل کر اس طرح بناتا تھا کہ ایک سرے کو غلیل کی طرح سے کھنیچ کر چھوڑیں تو قوّت سے دوسرے سرے پر پڑے۔ ایک حصّے پر اُلٹا لکھتا تھا گیلی روشنائ سے اور دوسرے سرے پر کاغذ رکھ کر غلیل چھوڑتا تو کاغذ پر سیدھے حروف کے نقوش ابھر جاتے تھے۔ شاید یہ اسی وقت کی مشق ہے کہ میں اب بھی بہت تیزی سے الٹی تحریر لکھ سکتا ہوں، اردو ہی نہیں ہندی اور انگریزی میں بھی اسی تیزی سے۔
تو وہ بات یہ ہے کہ میں ایک دستی رسالہ نکالا کرتا تھا۔ (جریدوں کی ادارت کا شوق نیا نہیں، میں نے بہت ادارت کی بھی ہے بلکہ شاید میرا ریکارڈ ہو کہ سولہ سال کی عمر میں میں نے ایک رسالے کا باقاعدہ ڈکلیریشن لیا تھا۔ بچوں کے اس نہ چھپنے والے رسالے کا نام تھا تحفہ ڈائجیسٹ)
بات پھر دور تک چلی گئ۔ ہاں تو اس ہاتھ سے لکھے جانے والے رسالے کا نام تھا بازیچہ۔ والد سے نام کا مشورہ لیا تھا تو وہ بھی ٹھہرے غالب کے بھتیجے کہ استاد شاعر تھے۔ فرمایا "بازیچۂ اطفال‘ رکھو۔" اتنا لمبا نام ہم کو گوارا نہ ہوا اور ہم نے اسے محض ’بازیچہ‘ کر دیا۔ تو جناب نہ جانے کیا بات ہوئ تھی، میرے امتحان تھے یا کوئ اور بات کہ میرے والد جنھیں ہم ابّی صاحب کہتے تھے، کو اسی بات پر غصّہ آگیا۔ اور صرف اسی ایک بار انھوں نے لکڑی سے پٹائ کی۔ کہ میں ایسے بیکار کاموں میں وقت ضائع کرتا ہوں، اور میرے ہاتھ سے تازہ شمارہ چھین کر پھاڑ کر پھینک دیا۔ ہم بھی رو دھو کر چپ رہے۔ اگلی صبح ہی ابّی صاحب نے مجھے بلایا اور سفید کاغذوں کی ا یک موٹی تھپّی اور قلم دیا اور کچھ سمجھایا بھی۔ بس پھر کیا تھا۔ اتنے بہت سے کاغذ مل گي تو ہم نے فوراً رسالے کا سالنامہ شائًع کر دیا۔ اسی دور میں ایک ناول بھی شروع کر رکھا تھا۔ اس کا محض نام یاد رہ گیا ہے اب۔ ’لالو کی گائے‘
 

امن ایمان

محفلین
لو ابھی ہی حاضر ہوں۔

خوش آمدید : )
میرا خیا ل تھا کہ مجھے ایک دو روز تک انتظار کرنا پڑے گا۔۔لیکن آپ واقعی میں بہت اچھے ہیں۔۔اعجاز انکل میں پوری کوشش کروں گی کہ اپنے ہاتھوں پر قابو رکھوں۔۔۔لیکن آپ چاہیں تو کسی بھی سوال کا جواب گول کر سکتے ہیں۔۔۔لیکن بس ایک مہربانی کریے گا کہ وہاں جواب نہ دینے کی وجہ ضرور بتا دیجیے گا۔
اب آپ کے جوابات پر کچھ بات۔۔۔آپ یقین کریں کہ ابھی میرے ہاتھ ٹھنڈے یخ ہو رہے ہیں۔۔۔سمجھ نہیں آرہا کہ میں کنفیوز کیوں ہو رہی ہوں۔۔لیکن پلیز اگر میں کچھ غلط کہہ دوں تو درگزر سے کام لیجیے گا۔


*میں تو اپنے آپ کو اس محفل کے بانیوں میں سے سمجھتا ہوں۔ میرے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ پر ہی اس کی ساری منصوبہ بندی جاری تھی۔


اعجاز انکل آپ کی زندگی میں کمپیوٹر کس طرح شامل ہوا؟ آپ کو اردو کمپیوٹنگ کا خیال کس طرح آیا؟


محفل کے تین فیورٹ اراکین کے نام؟
**یہ سب سے مشکل سوال۔

لیں۔۔ابھی تو میں نے تین کی سہولت دے دی۔۔لیکن آپ کا جواب بہت مزے کا تھا۔۔۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کہ حسِ مزاح کافی تیز ہے۔

دیکھو اتنا وقت تو تمھارے حصّے میں ہی چلا گیا۔

اب آپ اس طرح تو نہ کہیں نا۔۔۔مجھے ٹینشن لگ جائے گی کہ آپ کا قیمتی وقت ضائع کر رہی ہوں ۔۔۔ آپ کو نہیں پتہ کہ آپ جیسے قابل لوگ ہم آج کی نسل کے لیے ایک نایاب خزانے سے کم نہیں ہے۔۔۔ اور اگر آپ جیسے دُرنایاب قسمت سے ہاتھ آجائیں تو یہ خوش قسمتی ہے۔


ہ چند جملے اپنی شخصیت کے بارے میں؟

آپ نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا۔۔۔ آپ پلیز کچھ اپنی شخصیت کے بارے میں بتائیں نا۔۔آپ غصے کے کیسے ہیں؟ کون کون سی باتیں آپ کے موڈ کی خرابی کا باعث بنتی ہیں؟ کون سی چیزیں خوش کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔



ہ ہندوستان میں رہتے ہوئے پاکستان کے لیے آپ کے کیا محسوس کرتے ہیں؟
پاکستان کے لئے میرے جذبات وہی ہیں جو شاید زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کے ہوں گے۔ کہ آخر اپنے ہی لوگ اجنبی کیوں ہو گئے۔ میں تقسیم کو بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک غلط قدم مانتا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ مجھے فکشن میں بھی اتفاق سے وہی ناول افسانے بے حد پسند ہیں جو تقسیم کے پس منظر میں تھے۔ گڈریا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، آنگن، آگ کا دریا، اداس نسلیں۔ وغیرہ


اعجاز انکل یہاں اگر میں کچھ کہوں گی تو ہر بار کی طرح ایک بار پھر مجھے چھوٹا منہ اور بڑی بات کا احساس ہوگا۔۔لیکن اگر کچھ غلط کہوں تو پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ تقسیم کو غلط کیوں سمجھتے ہیں؟ ہماری آج جو الگ شناخت ہے وہ ہندؤں کے ساتھ رہتے ہوئے شاید کبھی نہ ہو سکتی۔۔۔آپ دیکھیں کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ذبان ہندی ہے۔۔۔تو آپ سب جس اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔۔کیا ایک ساتھ رہتے ہوئے ممکن تھا؟۔۔۔ جب ہمارے پاؤں تلے اپنی ذمین ہی نہ ہوتی تو ہم اردو کو کس ناتے ذندہ رکھتے؟۔۔میں اگر غلط کہہ رہی ہو تو پلیز میری رہنمائی کریے گا۔


** اب تک تو نہیں لیکن خواہش ضرور ہے۔ میرے کئ رشتے دار وہاں ہیں اگر چہ دور کے۔

آپ ایک بار تو ضرور آیے گا۔۔۔آپ خود اس مٹی کی محبت محسوس کریں گے۔

ہ جیالوجی میں ماسٹرز آپ کے لیے فطرت کو سمجھنے میں کس حد تک مددگار ثابت ہوا؟
اس پر کبھی بطور خاص غور تو نہیں کیا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ میرا تعلق ہمیشہ شہروں سے رہا اس لئے دیہاتوں کی فضا کا محض کتابوں سے معلوم ہوتا تھا۔ فیلڈ ورک نے یہ مواقع دئے کہ نہ صرف گاؤں بلکہ غیر آباد جنگلوں سے بھی گزرے بلکہ قیام کیا۔ جنگلوں کی مہک، چرواہوں کے گیت، کھیتوں میں (اور کرناٹکا میں اکثر ناریل کے باغوں) میں گیلی مٹّی کی سوندھی خوشبو۔ اپنا ہی یہ شعر ابھی یاد آّ گیا
سوندھی مٹی کی مہک دور سے آتی ہے مجھے
سرد رحمت کی خبر آ کے سناتی ہے مجھے
ویسے اس ’پہیلی‘ کا جواب ہے بارش، کنوؤں یا ٹیوب ویلس کا پانی نہیں۔


آپ کا یہ جواب پڑھ کے مجھے اے حمید یاد آگئے۔۔۔آپ کو فیلڈ ورک میں کس قسم کا کام کرنا پڑتا تھا؟ کبھی معدنیات کی تلاش میں کوئی نایاب چیز ہاتھ لگی؟


ہ کبھی ریسرچ کے دوران کوئی یادگار واقعہ جو آپ کو اب تک یاد ہو؟
بہت عمدہ طریقے سے آپ نے جواب دیا۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ آپ کے ساتھ ساتھ میں بھی وہ سب جگیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔۔۔کاش مجھے بھی آپ کی طرح لکھنا آجائے۔


ہ بچپن کی کچھ خوشگوار یادیں جو اب تک آپ کے ساتھ ہوں؟
**شاید یہ بات کہ میرے بچپن کے کھیل بھی بڑے ’غیر طفلانہ‘ ہوتے تھے۔ ایک غیر متعلقہ بات یہ یاد آئ کہ میں نے ایک چھاپہ خانہ’ ایجاد‘ کیا تھا۔ ایک بانس کی قمچی کو بیچ میں سے چھیل کر اس طرح بناتا تھا کہ ایک سرے کو غلیل کی طرح سے کھنیچ کر چھوڑیں تو قوّت سے دوسرے سرے پر پڑے۔ ایک حصّے پر اُلٹا لکھتا تھا گیلی روشنائ سے اور دوسرے سرے پر کاغذ رکھ کر غلیل چھوڑتا تو کاغذ پر سیدھے حروف کے نقوش ابھر جاتے تھے۔ شاید یہ اسی وقت کی مشق ہے کہ میں اب بھی بہت تیزی سے الٹی تحریر لکھ سکتا ہوں، اردو ہی نہیں ہندی اور انگریزی میں بھی اسی تیزی سے۔


ذبردست۔۔۔۔تو آپ ماشاءاللہ پیدائشی جینئس ہیں ۔۔۔

آپ اپنی تصنیفات کا کچھ مختصر تعارف ہمیں بتائیں پلیز۔۔کہ آپ نے اب تک کیا کیا لکھا؟

ہ انکل آپ کو کس طرح کے لوگ اچھے لگتے ہیں؟

ہ کیسی بات پر اختلافِ رائے کے دوران آپ کا مخاطب سے بات کرنے کا کیا انداز ہوتا ہے؟ آپ پرسکون رہتے ہیں یا بہت غصے میں آجاتے ہیں؟

ہ انکل آپ اپنی زندگی سے مطمعن ہیں؟

ابھی اجازت۔۔۔ باقی کھل کر بات آپ کے ان جوابات کے بعد ہو گی۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوب! آج اپنے استادِ محترم کے بارے بہت کچھ جاننے کا موقع مل گیا۔ اور امن ایمان کو بھی داد دینی پڑی گی کہ عمدہ طریقے سے انٹرویو لیا ہے۔ لگتا ہے کہ ایمان کسی ریڈیو یا ٹی وی چینل پر کمپیئر ہے۔ یہ میرا اندازہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔

اس بات کا بھی پتہ چل گیا کہ استادِ محترم کا "مزاج بچپن سے ادیبانہ ہے" بلکہ پیدائشی ادیب ہیں۔ ان کا سفرنامۂ حج آج کل میں پڑھ رہی ہوں۔ ایمان نے اسے مزاحیہ سفر نامہ لکھا ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ مزاحیہ نہیں بلکہ شگفتہ اور ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی تحریر ہے۔

یہ جانکاری بھی ہوگئ کہ اردو محفل میں استاد کا باقاعدہ ایک رول ہے۔ لیکن ایک بات سمجھ نہیں پائ کہ استاد نے اپنی شخصیت کے بارے کیوں کچھ نہیں لکھا؟

یہاں ایک سوال بھی میں کرونگی استادِ محترم سے کہ کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان تقسیمِ بر صغیر کو غلط سمجھتے ہیں؟ اور آیا سبھی یا صرف چند ایک؟

چھاپہ خانہ کی ایجاد والی بات دلچسپی سے پڑھی۔

ایک آخری بات۔ استادِ محترم نے مجھے اپنے پسندیدہ خواتین میں شمار کیا ہے، اس کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ حالانکہ میں اپنے آپ کو اس قابل ہرگز نہیں سمجھتی۔ شروع میں ان سے ڈر لگتا تھا مگر جب دیوانِ غالب کے سلسلے میں ان سے خط و کتابت ہوئی تو یہ جان لیا کہ استادِ محترم نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو لمبی زندگی عطا کرے۔ آمین
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ جوجو۔ پہلے مزید جوابات جو صبح سے ٹائپ کرتا رہا ہوں آف لائن:
اعجاز انکل آپ کی زندگی میں کمپیوٹر کس طرح شامل ہوا؟ آپ کو اردو کمپیوٹنگ کا خیال کس طرح آیا؟

** یہ ایک اتفاق ہی رہا۔ ہوا یوں کہ 1988۔89 میں حکومتِ ہند کے پاس سرمائے کی کمی ہو گئ اور ہمارا ہر سال کی طرح اکتوبر نومبر میں فیلڈ جاناالتوا میں پڑ گیا کہ فنڈ نہیں مل سکے تھے۔ یہاں یہ بتا دوں کہ کچھ پروجیکٹس میں جہاں ڈرلنگ وغیرہ بھی ہوتی ہے، سارا سال کام چلتا ہے اور مستقل کیمپ چلتا رہتا ہے۔ اور باقی چھہ ماہ کے ہوتے ہیں، عملی طور پر پانچ ماہ کے ہی۔ عموماً نومبر سے اپریل کے درمیان۔ اس سال دسمبر تک فنڈ نہیں ملے تو تمام فیلڈ افسران کے لئے کمپیوٹر ٹریننگ کا پلان بنا دیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ کی۔ اس میں ڈاس، ڈی بیس، اور بیسک وغیرہ کی ٹریننگ تھی۔ اسی دوران جب پروگرامنگ میں دل چپسی پیدا ہوئ تو ایک اتوار کو حیدرآباد کی سنڈے مارکیٹ سے پرانی کتابیں خرید لایا جو کموڈور اور زیڈ ایکس سپیکٹرم وغیرہ پرسنل کمپیوٹرس (جس زمانے میں ان کو ٹی وی سے اٹیچ کرنا پڑتا تھا ڈسپلے کے لئے) کی کتابیں لایا ارو بیسک کی کئ نئ کمانڈس معلوم ہوئیں جو خود ہمارے انسٹرکٹرس کو نہیں معلوم تھیں۔ مثلاً Play۔ کورس کے دوران ہی 26 جنوری آئ، ہندوستان کا یوم جمہوریہ۔ اور اس موقعے پر ہم نے ایک پروگرام بنایا جس میں ترنگا لہراتا تھا اور پس منظر میں قومی ترانہ جن گن من بجتا تھا۔ پرچم کشائ کی تقریب کے بعد ہمارے ڈپٹی دائریکٹر جنرل کو خاص طور پر کمپیوٹر سینٹر میں لے جایا گیا اور اس کی نمائًش کی گئ۔ لیکن اس کے بعد بیسک سے ربط چھوٹ گیا۔ بعد میں پھر فیلڈ ورک شروع اور اس میں میرا تخصص تھا "جیوکیمیکل سروے" یعنی مخصوص فاصلے پر مٹی یا پتھر کے نمونے اکٹھے کرنا اور ان کے کیمیائ تجزئے کے بعد نتائج کو پروسیس کرنا۔ اس کام کے لئے ڈی بیس کام میں آیا اور اس کام کے لئے پروگرام بنایا جس کو سٹیٹبیس (STATBAS. Statistics-Basic) کا نام دیا۔ یہ پروگرام کئ ساتھیوں نے بھی استعمال کیا۔ بعد میں کامران، میرے بیٹے نے کمپیوٹر کا ایک سالہ کورس کیا اپنی انجینئرنگ کے دوران 1998 میں تو اسی پروگرام کو فاکس پرو میں تبدیل کیا۔ خیر ٹریننگ کا زمانہ تھا 286 کمپیوٹرس کا۔ 1996 میں ہم نے خود کمپیوٹر لے لیا، جو مع پرنٹر (HP Deskjet 200) کے پچاس ہزار روپیوں میں پڑا۔ اس کی خصوصیات: آٹھ ایم بی ریم، 66 میگا ھرٹز انٹیل پروسیسر، 256 کے بی ویڈیو ریم، 560 ایم بی ہارڈ ڈسک!!!۔ 1997 میں تین کمپیوٹر رسائل کی خریداری شروع کی جس سے مختلف سافٹ وئرس سے شناسائ ہوئ۔ تب سے اب تک گھر کے کمپیوٹر پر چوری کا م س آفس کبھی انسٹال نہیں کیا، ونڈوز بھی او ایم ای ورژن انجینیر انسٹال کرتے تھے تو پوچھ لیتا تھا کہ آتھرائزڈ ورژن ہے یا نہیں۔ ستار آفس انھیں رسائل کی سی ڈیز سے انسٹال کرتا تھا۔ اور اسی دوران ہی لینکس بھی ہمیشہ سسٹم میں رہا، ڈوئل بوٹنگ 1998 سے ہی کر رہا ہوں۔
1997 میں ہی دفتر کے اپنے ساتھی عبد المغنی صاحب جو مصحف اقبال توصیفی کے نام سے اردو کے اہم شاعر ہیں، اردو کے کسی سافٹ وئر کے بارے میں پوچھا۔ وہ جیلانی بانو کے کزن بھی ہیں۔ انھوں نے جیلانی آپا کے صاحبزادے اشہر فرحان کا فون نمبر اور پتہ دیا۔ ان سے تو اس وقت ملاقات نہیں ہوئ، ان کے ساتھی راجیو نے اس کا شئرویر ورژن دیا۔ اور اس کو استعمال کرنا شروع کیا۔ لیکن کچھ زیادہ مزا نہیں آیا۔ 1998 میں جب حج کا سفر نامہ مکمکل کیا تو اس کو ٹائپ کرنے کا خیال آیا۔ اسی سال علی گڑھ گیا تھا تو ایک دوست نے ان پیج سے تعارف کرایا اور سی ڈی میں کاپی کر کے لے کر آیا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ مفت ہے۔ اسی کو استعمال کر کے اپنی یہ کتاب ٹائپ کی۔ پھر اس کے بعد ہی ایک اور پروجیکٹ کا خیال آیا۔ ہندی میں قرآن کی تفسیر کا کہ یہ اب تک نہیں ہے۔ اور اس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ہندی کے مفت پروگرام بھی محض فانٹس کا استعمال کرتے ہیں تو کیوں نہ ایسے فانٹس ہوں جو صوتی طور پر ہی کام کریں۔ ہندی کے لئے مختلف فانٹس 2002ء تک بناتا رہا۔ اور اسی دوران یہ بھی خیال آیا کہ اردو کے بھی ایسے ہی فانٹس ہوں اور یہ تجربے بھی کئے، اس وقت تک انٹر نیٹ سے اتنا ربط نہیں تھا۔ 2002 میں بچّوں کی فرمائش پر کیبل انٹر نیٹ لیا تو ہم بھی انٹر نیٹ سے جڑ گئے۔ سب سے پہلے یاہو گروپ بنایا quran-in-hindi. اس سے پہلے ہی ایک پروگرام بھی بنایا تھا جس میں اس وقت تک کی لکھی تفسیر کو اپنے ہی ّسکی فانٹس میں ٹائپ کر کے شامل کیا تھا۔ جن دوستوں نے ہندی سیکھ لی ہے، وہ ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھیں، یہ پروگرام قرآن درپن کے نام سے یاہو گروپ قرآن ان ہندی کے فائل سیکشن میں ملے گا۔ (وہیں ایک انگریزی کی تفسیر بھی ملے گی بچوں کےلئے، فاتحہ اور آخری دس سورتوں کی تفسیر QMEZ- Quran Made Easyکے نام سے۔یہ بھی پروگرام ہے یعنی ایکزیکیوٹیبل فائل)۔ اس کے بعد اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ۔ اسی گروپ سے یونی کوڈ سے تعارف ہوا۔ اور جیسا کہ کہتے ہیں، باقی تاریخ ہے۔ 2002ء میں کامران امریکہ سے ایک بار آئے تو اپنا پرانا لیپ ٹاپ دے گئے۔ اور 2004ء میں ایک نیا لیپ ٹاپ بھی۔ پرانے کا ڈسپلے کارڈ جواب دے گیا تھا جلد ہی۔ تو یہ ہے ہماری کمپوٹنگ کی تاریخ۔


**آپ تقسیم کو غلط کیوں سمجھتے ہیں؟ ہماری آج جو الگ شناخت ہے وہ ہندؤں کے ساتھ رہتے ہوئے شاید کبھی نہ ہو سکتی۔۔۔آپ دیکھیں کہ ہندوستان کی سب سے بڑی ذبان ہندی ہے۔۔۔تو آپ سب جس اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔۔کیا ایک ساتھ رہتے ہوئے ممکن تھا؟۔۔۔ جب ہمارے پاؤں تلے اپنی ذمین ہی نہ ہوتی تو ہم اردو کو کس ناتے ذندہ رکھتے؟۔۔میں اگر غلط کہہ رہی ہو تو پلیز میری رہنمائی کریے گا۔

**اس کا جواب بہت تفصیل طلب ہے۔ مختصر یہ کہ میرا خیال ہے کہ تقسیم سے ان ہندوستانی مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا جو یہاں رہ گئے۔ اور یہ تو سب ہی مانیں گے کہ سارے مسلمانوں کی ہجرت تو نا ممکن تھی۔ اور جنھوں نے ہجرت کی بھی، ان کے ساتھ پاکستانی مقامیوں نے بھی کوئ اچھا سلوک نہیں کیا۔ لیکن اب جو حالات ہیں وہ اسی وجہ سے کہ مسلمان تعداد میں بڑی اقلیت بن گئے۔ اگر پاکتان نہیں بنتا تو ہماری تعداد نصف سے کچھ ہی کم ہوتی اور ہر معاملے میں مسلمان کی بات کو اہمیت دی جاتی۔ بلکہ یہوں کہنا بہتر ہوگا کہ ہندؤوں میں بھی جو تعصب پسند عناصر ہیں، وہ اس قدر اقلیت میں آ جاتے کہ ان کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ گاندھی جی تو آزادی سے پہلے ہپی کہتے رہے تھے کہ آزاد ہندوستان کی زبان ہندوستانی ہوگی۔۔ لکھنے میں فارسی رسم الخط میں اردو اور پالی رسم الخط میں ہندی، اور یہی رہتا تو اردو کی ترقی میں کوئ روڑے نہیں اٹکتے۔ اب بھی جو اردو کی مشکلات ہیں وہ حکومت یا انتظامئے کی وجہ سے نہیں ہیں۔ جہاں سکول کھلے بھی ہیں وہاں پڑھنے والے نہیں ہیں۔ کہ سب انگریزی سکولوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جہاں بچے ہیں وہاں ٹیچرس کا عالم خراب ہیں، پابندی سے کوود ہی نہیں آ تے۔ لیکن یہ حالات تو سبھی سرکاری سکولوں میں ہوتے ہیں، ہندی اور دوسری زبانوں کے سرکاری سکولوں میں بھی کم و بیش یہی حالت ہے۔ جب تک کہ اردو والے خود سامنے نہ آ ئیں، اردو کی ترویج مشکل ہی ہے۔ بہر حال تقسیم نہ ہونے پر اردو کی حالت بہت بہتر ہوتی۔ الگ شناخت؟؟؟؟ یہ تو پاکستانیوں کی الگ شناخت ہے کہ وہ الگ ملک ہو گیا ہے۔ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے طور پر ہم سب کی شناخت ہوتی۔ ہمارے پاؤں تلے اپنی زمین۔۔۔؟؟ لیکن اس کی اہمیت؟ درست کہ مسلمان کو کوشاں رہنے کی ضرورت ہے جب تک کہ دین اللہ کے لئے نہ ہو جائے، لیکن کیا پاکستان میں بھی مکمل شرعی نظام اب تک بھی قائم ہو سکا ہے؟؟ حج کے دوران ہی (شاید یہ بات میں نے اللہ میاں کے مہمان میں بھی کہیں لکھی ہے) ایک صاحب میرے پاس ہی طواف کر رہے تھے اور بآوازِ بلند ایک ہی دعا مستقل ان کو لبوں پر تھی، کہ اے اللہ ہمارے ملک پاکستان میں مکمل اسلامی نظام قائم کر دے۔۔۔۔!!

آپ کا یہ جواب پڑھ کے مجھے اے حمید یاد آگئے۔۔۔آپ کو فیلڈ ورک میں کس قسم کا کام کرنا پڑتا تھا؟ کبھی معدنیات کی تلاش میں کوئی نایاب چیز ہاتھ لگی؟

**ضرور۔ کرناٹکا میں اسی سال جس سال ہمارا ڈرائیور وہی شرابی راملو تھا، وانی ولاس پورہ گاؤں سے شمال شمال مغرب میں 35 کلو میٹر لمبی ایک زون (Zone)کے نشانات ملے تھے۔ جب کہ اس کی شمالی حد سے بھی کافی دور چترا درگا تانبے کی کان تھی اور وہاں ڈرلنگ جاری تھی مزید تانبے، جستے اور بعد میں سونے کے لئے۔ میری تجویز کردہ زون میں اگرچہ کچھ لوگوں نے ابتدائ کام کیا لیکن اسے زیادہ اہمیت کا حامل قرا رنہیں دیا۔ لیکن پچھلے دس سالوں میں سونے اور جستے کی کھوج میں ڈرلنگ وغیرہ بلکہ ذخیرہ ثابت کئے جانے کا کام اس زون میں کافی جنوب کی طرف بڑھ چکا ہے اور کافی مقدار میں سونا بھی مل رہا ہے۔ آندھرا پردیش میں بھی میری تجویز کے مقامات پر اب بھی کام جاری ہے اگر چہ یہ کم اہم ہیں۔ تو یہ بات تو میں نے بتا ہی دی کہ میرا زیادہ تر کام نمونے اکٹھے کرنے کا رہا ہے ور وہ بھی مٹّی کے، اس لئے پہاڑوں ہی نہیں کھیتوں اور گاؤوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ نومبر دسمبر میں جاتے تھے اور اپریل کے آخر یا مئ کے شروع میں واپس۔ سارے سال کا کام محض دو سال کیا تھا 1975 سے 1977 تک جب اڑیسہ کے مینگنیز انویسٹیگیشن کی ٹیم میں شامل تھا۔ اب یہ باتیں بتائ ہیں تو یہ بھی بتا دوں کہ 1975 تا 1978 کولکاتا میں پہلی پوسٹنگ تھی جہاں سے اڑیسہ میں کام کیا، پھر 1984 تک حیدرآباد میں رہا اور کرناٹکا میں کام کیا، اس کے بعد دو سال کے لئے شیلانگ چلا گیا ۔ شمال مشرق میں دو یا تین سال کی معین پوسٹنگ ہوتی ہے (آٹھ سال تک سروس والعں کے ئے تین سال کی پوسٹنگ، اس سے زیادہ ملازمت والوں کے لئے دو سال) وہاں میگھالیہ میں کام کیا۔ 1986 میں حیدرآباد واپس آیا (یہاں ہی 1988 میں گھر لے لیا تھا) اور 1998تک آندھرا پردیش میں کام کیا۔ اس کے بعد ڈیڑھ سال کمپیوٹر سیکشن کا انچارج رہا اور مزید ایک سیزن فیلڈ ورک کیا، 2000ء اکتوبر سے فیلڈ ورک سے فراغت ملی اور محکمے کے شعبۂ نشر و اشاعت سے متعلّق رہا، 2004ء میں ڈائریکٹر کے عہدے پر ناگپور میں پوسٹنگ ہوئ۔ اور یہ شعبہ ہے انجینیرنگ جیالوجی کا۔ یہاں مختلف بندوں (ڈیموں) پر میری نگرانی میں کام ہو رہا ہے۔

آپ اپنی تصنیفات کا کچھ مختصر تعارف ہمیں بتائیں پلیز۔۔کہ آپ نے اب تک کیا کیا لکھا؟

** شاعری تو شروع سے ہی کرتے رہے تھے۔ پہہلا مصرعہ جو اب بھی یاد ہے وہ تب کہا تھا جب سکول بھی نہیں جاتا تھا، پتنگ پھٹ گئ تو ہم نے عرض کیا
ہم نے پتنگ کو پھاڑ کر جھنڈا بنا دیا
اور والد نے اصلاح کی کہ "کو" نکال دو "ہم نے پتنگ پھاڑ کر جھنڈا بنا دیا" زیادہ درست ہے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ واؤ گرنا اگرچہ جائز ہے لیکن "پتنگ کو" میں کاف یا گاف دونوں میں سے ایک حرف گر رہا تھا۔ ایک قطعہ والد نے کہہ کر دیا تھا اور گھر میں والد کے کچھ دوست آتے تھے (مشہور ترین مہمانوں میں بہزاد لکھنوی اوراعجاز صدیقی مدیر "شاعر"۔ اعجاز صدیقی تو کہتے تھے کہ میں "نجیب الطرفین" کی طرح "ادیب الطرفین" ہوں کہ والدہ بھی شاعرہ تھیں اور ان کا کلام بھی آئینہ اور شاعر میں چھپتا تھا) تو مجھ سے کہا جاتا کہ میں سناؤں اور میں والد کا قطعہ سنا دیتا تھا۔
آم کھاتے ہیں کاٹ کاٹ کے ہم
کبھی طوطاپری، کبھی نیلم
آم کھا کھا کے کہتے ہیں اعجاز
اے خدا یہ رہے سدا موسم
باقاعدہ تو کوئ کتاب شائع نہیں ہوئ، ادبی رسالوں میں ہی چھپتا رہا وہ بھی 1967 سے 1970 تک، اس کے بعد پچھلے سات آٹھ سالوں سے ہی مصحف اقبال توصیفی کی فرمائش پر "سب رس" یا "شعر و حکمت" (مدیران۔ شہر یار، مغنی تبسم) کے لئے کچھ دے دیتا ہوں۔ زیر طباعت (چاہے ای پبلشنگ کہہ لو) یہوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہیں:
اللہ میاں کے مہمان۔ حج کا سفر نامہ
صاد۔ طویل نظم
مائل بکرم راتیں ناولٹ
اپنی برہنہ پائ پر۔ مجموعہ کلام
دو ماہ پہلے ہی جب اپنی کتابوں میں فیض کی کتابیں ڈھونڈھ رہا تھا تو ایک اور کاپی ملی جس کے بارے میں بالکل یاد بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ناولٹ کے دو باب ہیں "چھوٹی حویلی" کے نام سے۔ اب یاد بھی نہیں کہ کیا پلاٹ سوچا تھا اس کا۔
ایک افسانوں کا مختصر سا مجموعہ بھی ممکن ہے

ہ انکل آپ کو کس طرح کے لوگ اچھے لگتے ہیں؟
ایسے لوگ جن کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہوتا ہے میری طرح۔ کوئ سوال پوچھا جائے تو مکمل تفصیل سے جواب دیتے ہیں میری طرح ہی کہ کوئ بات تشنہ نہ رہ جائے۔ اور بات چھپاتے نہیں۔ مجھ کو یہ سب لوگ کہتے ہیہں کہ یہ میری خرابی ہے کہ میں موقعہ محل نہیں دیکھتا اور کوئ بھی بات کہہ دیتا ہوں جو یاد آ جائے۔ بہت سی باتیں لوگوں سے چھپاتا نہیں۔ اب یہی دیکھو، جو کچھ میں نے یہاں لکھ دیا ہے، صابرہ (تمھاری آنٹی) ہی دیکھیں گی تو کہیں گی یہ سب لکھنے کی کیا ضرورت تھی!! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ مجھے سیاست آتی ہے اور نہ میں لوگوں کا ایسا رویہ پسند کرتا ہوں کہ ہر بات کسی مصلحت کے مطابق کی جائے۔

ہ کیسی بات پر اختلافِ رائے کے دوران آپ کا مخاطب سے بات کرنے کا کیا انداز ہوتا ہے؟
آپ پرسکون رہتے ہیں یا بہت غصے میں آجاتے ہیں؟

دونوں ہی باتیں ہوتی ہیں۔ سوال اس کا ہوتا ہے کہ فریقِ مخالف کون ہے۔ اگر چھوٹا ہوتا ہے تو بلا تکلف غصّہ کر دیتا ہوں، بزرگ ہو تو قابو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ میں لاجک کو تب بھی نہیں چھوڑتا۔ دلیل سے اپنی بات کو درست کرنے کی ضرور کوشش کرتا رہوں گا مخالف اگر قائل ہو جائے تو کیا بات ہے۔

ہ انکل آپ اپنی زندگی سے مطمعن ہیں؟
** نہیں اور ہاں۔ نہیں محض اس وجہ سے کہ اللہ میاں نے محض چوبیس گھنٹے دئے ہیں اور میرے منصوبے نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ہندی تفسیر اب تک محض جز عمّ کی ہو سکی ہے جہاں سے روایت کے مطابق شروع کی تھی۔ اور وقت ہے کہ ہاتھ سے نکلا چلا جا رہا ہے۔ پانچ دس سال کی باقی عمر میں (اس کا بھی کیا بھروسہ، ممکن ہے کہ پچیس تیس سال اور جی سکوں، 56 سال کی تو عمر ہو چکی ہے) صدی کا کام لے رکھا ہے میں نے۔ دعا کرو کہ جتنا ہو سکے کر سکوں۔ یا کسی درست ہاتھ میں سونپ سکوں۔ہاں اس لئے کہ میں جو چاہتا ہوں کر رہا ہوں، اپنی نا پسندیدگی کا کوئ کام نہیں کر رہا۔ یہاں تک کہ نہ آج تک رشوت دی نہ لی مثال کے طور پر۔
 

امن ایمان

محفلین
تو یہ ہے ہماری کمپوٹنگ کی تاریخ۔

ماشاءاللہ۔۔۔ میں تو پہلے ہی آپ سے بہت متاثر تھی اور اب آپ کے عظیم مقاصد کا پتہ چلا ہے تو عقیدت کچھ اور بھی بڑھ گئی ہے۔۔۔ جیہ کی طرح میری بھی دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ اللہ آپ کو لمبی زندگی عطا کرے۔ اور آپ کے اس نیک مقصد کو پایہ تکمیل تک لے جائے آمین


**اس کا جواب بہت تفصیل طلب ہے۔ مختصر یہ کہ میرا خیال ہے کہ تقسیم سے ان ہندوستانی مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا جو یہاں رہ گئے۔ اور یہ تو سب ہی مانیں گے کہ سارے مسلمانوں کی ہجرت تو نا ممکن تھی۔ اور جنھوں نے ہجرت کی بھی، ان کے ساتھ پاکستانی مقامیوں نے بھی کوئ اچھا سلوک نہیں کیا۔ لیکن اب جو حالات ہیں وہ اسی وجہ سے کہ مسلمان تعداد میں بڑی اقلیت بن گئے۔ اگر پاکتان نہیں بنتا تو ہماری تعداد نصف سے کچھ ہی کم ہوتی اور ہر معاملے میں مسلمان کی بات کو اہمیت دی جاتی۔

جی۔۔۔اگر اس طرح سوچا جائے تو آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے ۔


کیا پاکستان میں بھی مکمل شرعی نظام اب تک بھی قائم ہو سکا ہے؟؟ حج کے دوران ہی (شاید یہ بات میں نے اللہ میاں کے مہمان میں بھی کہیں لکھی ہے) ایک صاحب میرے پاس ہی طواف کر رہے تھے اور بآوازِ بلند ایک ہی دعا مستقل ان کو لبوں پر تھی، کہ اے اللہ ہمارے ملک پاکستان میں مکمل اسلامی نظام قائم کر دے۔۔۔۔!!

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو سن کر ہم پاکستانیوں کے سر شرم سے جُھک جاتے ہیں۔۔۔پاکستان کو بنانے کا مقصد کچھ اور تھا لیکن ہماری بدقسمتی کہ ۔۔ہمارے اپنے ہی اس پاک سر زمیں کے لیے دشمنوں سے بڑھ کے ثابت ہوئے :(


باقاعدہ تو کوئ کتاب شائع نہیں ہوئ، ادبی رسالوں میں ہی چھپتا رہا وہ بھی 1967 سے 1970 تک، اس کے بعد پچھلے سات آٹھ سالوں سے ہی مصحف اقبال توصیفی کی فرمائش پر "سب رس" یا "شعر و حکمت" (مدیران۔ شہر یار، مغنی تبسم) کے لئے کچھ دے دیتا ہوں۔ زیر طباعت (چاہے ای پبلشنگ کہہ لو) یہوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہیں:
اللہ میاں کے مہمان۔ حج کا سفر نامہ
صاد۔ طویل نظم
مائل بکرم راتیں ناولٹ
اپنی برہنہ پائ پر۔ مجموعہ کلام


آپ کے پاس اگر 1967 سے 1970 تک کا لکھا ہوا سب کچھ موجود ہے اور جو آپ پچھلے سالوں سے لکھ رہے ہیں۔۔ آپ اسے بھی ایک جگہ جمع کریں نا۔۔ یہ تو قیمتی سرمائے کی طرح ہے۔۔۔اس طرح ایک جگہ محفوظ رہے گا۔


دو ماہ پہلے ہی جب اپنی کتابوں میں فیض کی کتابیں ڈھونڈھ رہا تھا تو ایک اور کاپی ملی جس کے بارے میں بالکل یاد بھی نہیں تھی۔ یہ ایک ناولٹ کے دو باب ہیں "چھوٹی حویلی" کے نام سے۔ اب یاد بھی نہیں کہ کیا پلاٹ سوچا تھا اس کا۔
ایک افسانوں کا مختصر سا مجموعہ بھی ممکن ہے


اعجاز انکل آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اپنی ایک ذاتی ویب سائٹ بنائیں۔۔جہاں آپ کا لکھا حرف حرف موجود ہو۔۔۔اس طرح اگر دل چاہے گا تو آپ اسے کتابی شکل میں بھی ڈھال سکتے ہیں۔

ہ انکل آپ کو کس طرح کے لوگ اچھے لگتے ہیں؟
ایسے لوگ جن کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہوتا ہے میری طرح۔ کوئ سوال پوچھا جائے تو مکمل تفصیل سے جواب دیتے ہیں میری طرح ہی کہ کوئ بات تشنہ نہ رہ جائے۔ اور بات چھپاتے نہیں۔ مجھ کو یہ سب لوگ کہتے ہیہں کہ یہ میری خرابی ہے کہ میں موقعہ محل نہیں دیکھتا اور کوئ بھی بات کہہ دیتا ہوں جو یاد آ جائے۔ بہت سی باتیں لوگوں سے چھپاتا نہیں۔ اب یہی دیکھو، جو کچھ میں نے یہاں لکھ دیا ہے، صابرہ (تمھاری آنٹی) ہی دیکھیں گی تو کہیں گی یہ سب لکھنے کی کیا ضرورت تھی!! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ مجھے سیاست آتی ہے اور نہ میں لوگوں کا ایسا رویہ پسند کرتا ہوں کہ ہر بات کسی مصلحت کے مطابق کی جائے۔


انکل یہ بہت بڑی خوبی ہے۔۔۔۔آپ کا دل منافقت سے پاک ہے۔۔۔اس لیے آپ کو چھپنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔۔۔ویسے بھی آپ نے تفسیر کا جو کام شروع کیا ہے۔۔۔اتنے مقدس کام کو کوئی عام شخص تو نہیں کر سکتا۔۔۔ اس لیے آپ بہت خاص ہیں۔ صابرہ آنٹی کو بہت اچھا لگے گا : )


ہ انکل آپ اپنی زندگی سے مطمعن ہیں؟
** نہیں اور ہاں۔ نہیں محض اس وجہ سے کہ اللہ میاں نے محض چوبیس گھنٹے دئے ہیں اور میرے منصوبے نہ جانے کیا کیا ہیں۔


انشاءاللہ تعاٰلی آپ کا یہ منصوبہ ضرور مکمل ہوگا۔۔۔ ناصرف میں دعا کروں گی بلکہ باقی اراکین سے بھی استدعا ہے کہ وہ بھی اعجاز انکل کے اس نیک مقصد کے لیے دعا کریں


اب کچھ اور سوال پوچھنے کی اجازت ہے نا۔۔؟؟؟؟؟؟؟

یہ سوال ہیں تو بچوں والے۔۔۔۔لیکن میرا مقصد زیادہ سے زیادہ آپ کی شخصیت کے بارے میں جاننا ہے ۔۔۔امید ہے کہ آپ ناراض نہیں ہوں گے۔


ہ کھانے میں آپ کو کیا پسند ہے؟

ہ آپ کا پسندیدہ مشروب؟

ہ آپ تنہائی پسند ہیں یا گھل مل کر رہنا اچھا لگتا ہے؟

ہ آپ کے سب سے قریب کون ہے۔۔جو آپ کے خیال میں آپ کو پوری طرح سمجھتا ہے؟

ہ جب آپ بہت خوش ہوں تو اپنی خوشی کا اظہار کس طرح کرتے ہیں؟

ہ اگر خدانخوستہ کبھی پریشانی کا سامنا ہو تو آپ کہہ سن کے دل ہلکا کر لیتے ہیں یا دل کی دل میں رکھتے ہیں؟

ہ کوئی ایسی شخصیت جو بہت شدت سے یاد آتی ہو؟

ہ آپ کی آئیڈیل شخصیت؟

ہ صابرہ آنٹی سے دوستی ہے یا رعب والا تعلق؟ ( یہ سوال اس لیے پوچھا ہے۔۔کیونکہ آپ نے کہا ہے نا کہ اگر تمھاری صابرہ آنٹی یہ پڑھ لیں۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ ان کے یہاں آنے کے چانسز ہیں :p )


اور ۔۔۔۔ اعجاز انکل آپ کے بہت شکریہ کہ آپ یہاں آئے۔
 

امن ایمان

محفلین
بہت خوب! آج اپنے استادِ محترم کے بارے بہت کچھ جاننے کا موقع مل گیا۔ اور امن ایمان کو بھی داد دینی پڑی گی کہ عمدہ طریقے سے انٹرویو لیا ہے۔ لگتا ہے کہ ایمان کسی ریڈیو یا ٹی وی چینل پر کمپیئر ہے۔ یہ میرا اندازہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا سفرنامۂ حج آج کل میں پڑھ رہی ہوں۔ ایمان نے اسے مزاحیہ سفر نامہ لکھا ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ مزاحیہ نہیں بلکہ شگفتہ اور ہلکے پھلکے انداز میں لکھی گئی تحریر ہے۔


بہت شکریہ جیہ۔۔۔یہ بس میرا تجسس ہے جو مجھے سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔۔۔ اور ریڈیو یا ٹی وی چینل پر کمپیئرنگ کا تو میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی۔۔۔ہماری فیملی میں اس کی اجازت بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔ آپ کو سوال کرنے کا طریقہ اچھا لگا۔۔۔میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے۔۔۔ اور جیہ سفرنامۂ حج کو خود انکل نے مزاحیہ کہا تھا÷۔۔۔میں نے صرف اقتباس کیا ہے۔

اور ایک ضروری بات۔۔۔۔میں کچھ دن کے لیے آن لائن نہیں آؤں گی۔۔لیکن آپ پلیز اس سلسلے کو جاری رکھیے گا۔۔۔ انشاءاللہ بہت جلد واپس آکر اسے آگے بڑھاؤں گی۔
 

فرضی

محفلین
استادِمحترم اعجاز اختر صاحب کا انٹرویو پڑھ کر دِ ل کی گہرائیوں سے ان کی عظمت کو سلام کرتا ہوں۔
بہت کچھ جاننے کا موقع ملا اعجاز اختر صاحب کے بارہ میں۔ امن ایمان نے کافی اچھے سوالات پوچھے ہیں اور اعجاز صاحب نے ہر سوال کا جواب نہایت تفصیل کے ساتھ دیا ہے۔ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔
 

الف عین

لائبریرین
ارے بھئ انٹر ویو ہو رہا ہے ہمارا، کوئ مزاق ہے؟ ساری تفصیل اس لئے بھی لکھ دی ہے کہ کوئ نوبل پرائز وغیرہ مل گیا یا کوئ بڑا ادبی انعام، یا اردو کمپیوٹنگ کی دنیا میں ہی کوئ انعام وغیرہ تو فدوی پر تحقیق کرنے والوں کو کافی مواد یہاں ہی دستیاب ہو جائے، وہ بھی بقلم خود!
ایمان، باقی سوالوں کے جوابات بعد میں۔
 
بہت عمدہ انٹر ویو رہا اور بہت کچھ جاننے کو ملا۔

اعجاز صاحب کی یہ عادت بہت اچھی ہے کہ تفصیل سے جواب دیتے ہیں اور دوسروں کو سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔ اپنا نام پسندیدہ ارکان میں پڑھ کر بہت خوشی ہوئی اور اس اعزاز کو میں محفوظ کر لوں گا :) ۔

میری دعا ہے کہ جس طرح اعجاز صاحب ہمارے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں اور شفقت کے ساتھ سکھاتے رہتے ہیں کاش باقی بزرگ بھی ایسا رویہ اختیار کر لیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ماحول پر منحصر ہوتا ہے سب۔ تم لوگوں کو ہنستے گاتے کھیلتے دیکھتا ہوں تو بزرگی بھاگ جاتی ہے۔
 

دوست

محفلین
کئی دنوں سے اس دھاگے کو پڑھنے کا ارادہ کرتا تھا لیکن فرصت میں تسلی سے پڑھنے کے لالچ میں اتنی دیر کردی۔
اعجاز صاحب کی شخصیت کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا۔
اور اس بات کا شکریہ جناب کہ میں آپ کے پسندیدہ اراکین کی فہرست میں شامل ہوں۔
مجھ پر اعجاز صاحب کے اردو کمپیوٹنگ گروپ کا احسان ہے وہیں سے میرے اندر اردو کمپیوٹنگ اور یونیکوڈ سے دلچسپی پیدا ہوئی اور پھر وہیں ایک پوسٹ سے اردو محفل کے بارے میں‌ پڑھا پھر نہ پوچھیں۔
پھر اردو محفل تب سے میرے گوڈوں میں بیٹھ گئی ہے۔
تقسیم کے بارے میں شاید آپ کا نظریہ ایک لحاظ سے ٹھیک بھی ہے لیکن اسلامی دنیا کو ایٹمی طاقت کس طرح‌ ملتی۔
وہ الگ بات ہے کہ آج کل ایٹمی طاقت کو سلایا ہوا ہے حکمرانوں نے لیکن یہ امید آج بھی زندہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب پاکستان عظیم تر پاکستان بنے گا۔
 

رضوان

محفلین
امن امان بہت بہت شکریہ کہ آپ کی وجہ سے اعجاز صاحب کے اس روپ سے ہم سب کو آگاہی ہوئی۔ انکا مقام ہماری نظروں میں مزید بلند ہوگیا ہے۔
امن ابھی تو کافی کچھ نہیں رہتا؟؟ وہ والے روایتی سوالات تو پوچھے ہی نہیں! پسندیدہ رنگ؟ خوشبو ؟ شادی کیسے ہوئی؟ جھگڑا کس بات پر ہوتا ہے؟ پہلے کون مناتا ہے؟ پہلے کون روٹھتا ہے؟ بچوں میں سے پیارا کون؟؟ وغیرہ وغیرہ
 

اعجاز

محفلین
اعجاز صاحب آپ کے پسندیدہ ممبران کا تو پتہ چل گیا اب یہ بھی بتا دیں‌کے وہ کون ہیں‌جو کچھ خاص‌اچھے نہیں‌لگتے :D

کوئ نہیں‌آپشن میں‌شامل نہیں‌ہے :D
 

الف عین

لائبریرین
ایسا کوئ نہیں اعجاز میاں جو مجھے قطعی نا پسند ہو۔
امن ایمان، تمھارے باقی جوابات کو۔ بلکہ سوالات کو اب تک دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا، یوں بھی تم بھی شاید مصروف ہو۔ اس لئے بعد میں۔ میرے لئے جن ارکان نے تعریف کے ڈونگرے برسائے ہیں، ان کا بہت بہت شکریہ۔
اور جن کے نام پسندیدہ میں شامل نہیں ہو سکے ہیں، ان کو بھی برا نہ مانا چاہئے، خود مجھے احساس ہوا کہ کچھ نام مزید دینا چاہئے تھا، ایک اپنے قیصرانی کو ہی لے لو۔۔۔
 
Top