الف عین
لائبریرین
ہ اعجاز چا شاعری واقعی سچ بولتی ہے؟
ہاں بھی اور نہیں بھی۔ اور شاعری سچ بولے یا نہ بولے، یا تو سچی شاعری ہوتی ہے، یا سرے سے شاعری ہی نہیں ہوتی۔
زیادہ تر تو یوں ہوتا ہے کہ عمر کی ایک منزل میں یقیناً یہ سچ بولتی ہے۔ اس وقت شاعر سچے شعر کہتا ہے، لیکن بعد میں، بڑھاپے میں، وہ رنگینی تو ختم ہو جاتی ہے، پھر محض وہ ماضی کے تصورات میں جیتا ہے۔ اطہر نفیس نے کہا تھا نا
کوئ مہر نہیں، کوئ قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا۔
لیکن اس وقت یہ قہر ومہر محبوب کی طرف سے نہیں ہوتا، زمانے کے نشیب و فراز کا ہوتا ہے۔ لیکن شاعر اس عمر میں بھی اس مہر و قہر کواپنے دورِ رنگین کے ہی انداز میں پیش کرتا رہتا ہے۔ پھر بھی اکثر دل کی بات کہہ ہہی جاتا ہے۔ پہلے محبوبہ کے وقت پر نہ آنے کا شکوہ تھا تو بعد میں ممکن ہے کہ 20 سال تک اپنے پرموشن کا انتظار۔ مجھے ڈائریکٹر کے پرموشن سے پہلے 1985 میں پرموشن ہوا تھا۔ یہ محض مچال ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ پروموشن ہی میری محبوبہ رہی ہو۔ بلکہ میرا تو یہ حال ہے کہ اپنی تنخواہ بھی نہیں بتا سکتا کہ کیا سکیل ہے اور کتنی ملتی ہے، کہ یاد نہیں رہتی۔
ابھی پچھلی بار ہی میرے دوست مصحف اقبال توصیفی نے ایک تازہ غزل سنائ تھی اور مجھ سے مشورہ مانگا تھا کہ یہ شعر رکھیں یا اچھا نہیں لگے گا
جوہی بولی، دونوں گڑیاں
اک میں اور اک میری دادی
(جوہی ان کی پوتی کا نام ہے)
بعد میں اسے یوں کر دیا
جوہی ناک دبا کر بولی
دادا، میں بھی بن گئ دادی
ان کی اس غزل کی زمین ہے، صدا دی، دعا دی۔ اس میں دادی قافیہ باندھنے کا جی چاہا۔ کیا یہ ان کے تئیں سچا شعر نہیں تھا؟
ہ آپ نے زیادہ شاعری اپنے لیے لکھی یا اوروں کے لیے؟
شاعری ہر شاعر اپنے لئے ہی کرتا ہے۔ ترقی پسند شعرا بھی در اصل اپنے لئے ہی کرتے تھے۔ سماج کے لئے نہیں۔ ورنہ بےچارے عوام کے پاس کہاں وقت یا سہولت کہ وہ ان کی شاعری پڑھتے!!۔ ان کو بھی یہ اطمینان تھا کہ وہ سماج کی خدمت کے لئے شاعری کر رہے ہیں، اور در اصل اپنے اس اطمینان اور فیلنگ گُڈ کے احساس کے لئے ہی انھوں نے بھی شاعری کی۔ بہت سے شعرا تو پارٹی ممبر پہلے تھے شاعر بعد میں، انھوں نے عملی سیاست میں حصہ لیا ضرور، لیکن محض شاعری سے وہ کوئ انقلاب کہاں لا سکے۔ خود اقبال نے بھی روحِ مسلماں کو جھنجھوڑا لیکن محض اس وجہ سے پاکستان نہیں بنا۔ (یوں بھی ان کاخواب تو اسلامی مملکت کا تھا، محض مسلم اکثریت کے ملک کا نہیں، جس طور پر اس خواب کی تعبیر ملی، وہ مفاد پرست سیاست دانوں کی کوششیں تھیں، خیر بات تلخ ہو جائے گی۔
میں بھی دعویٰ نہیں کرتا کہ میں دوسروں کے لئے شاعری کرتا ہوں۔ اور اپنی ہی بات کروں تو پھر یہ بھی عرض کر دوں کہ پھر میں نے پچھلے پینتیس سالوں میں کیوں اپنا کلام نہیں چھپوایا۔ محض 1967 سے 1971 تک بہت چھپا ہندوپاک کے مؤقّر جرائد میں اور پھر خاموش ہو گیا۔ اگرچہ شاعری خاموش نہیں ہوئ۔ بس یہ ہے کہ تب سے اب تک سال میں تین چار غزلیں ہو جاتی ہیں۔ بس ادھر تین چار سال سے مصحف اقبال توصیفی اور مغنی تبسم صاحب کےجریدوں سب رس اور شعر و حکمت میں ہی اپنی تخلیقات دی ہیں یا انٹر نیٹ پر۔ آج صبح کا ہی ایک شعر سنو؎
اتنے دن بعد آج شعر کہے
چہرے پر کچھ چمک تو آئے گی
یا پہلے بھی ہم نے ہی کہی تھی یہی بات؎
اب آج دنوں پہ شعر کہہ کر
کچھ دل کو ملا ثبات کچھ دیر
بس اس کچھ دیر کے ثبات اور چہرے کی چمک کے لئے ہی میں بھی شعر کہتا ہوں، دوسرے شعرا کا بھی یہی حال ہے۔
اب اس تازہ غزل کی "تاریخ" بھی سن لو۔ اگر چہ سب کو معلوم ہے کہ یہاں ناگپور میں میں تنہا رہتا ہوں اور ادھر عرصے سے خود ہی کھانا بناتا ہوں۔ میرا باورچی خانہ (پہلی منزل پرگھر ہے میرا) اس طرح ہے کہ یہ کھلا حصہ ہے، اور میرا مین گیٹ بھی اسی طرف ہے۔ یہیں غسلخانہ وغیرہ بھی ہے۔ اس حصے میں جاتا ہوں تو اکثر پردہ برابر کر دیتا ہوں۔ کیوں لوگوں کو میں اپنے پھٹے ہوئے بنیان میں نظر آؤں!! کل بھی روٹیاں بنانے جا رہا تھا توپردہ برابر کرنے کے بعدخیال آیا کہ پردہ برابر کر تو رہا ہوں لیکن "روٹیوں کی مہک تو آئے گی" اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ اعجاز ساحب روٹیاں بنا رہے ہیں۔ اور تبھی نیچے مکان مالک کے باورچی خانے سے پیالیوں کی آواز آئ جس سے پتہ چلا کہ ان کی بہو شبانہ اٹھ گئ ہے اور سب کے لئے چائے بنا رہی ہے۔ اور ایک مصرعہ اور ہو گیا "پیالیوں کی کھنک تو آئے گی" اور پھر اسی وقت ان دو مصرعوں کی یہ شکل ہو گئ۔ روٹیوں نے دوسری ہی شکل اختیار کر لی۔ یعنی شعر میں۔ روٹیاں تو ٹھیک ہی بنیں۔ شعر میں آنسو بن گئیں۔
کچھ صدا صبح تک تو آئے گی
پیالیوں کی کھنک تو آئے گی
خشک آنکھوں کے سوکھے جنگل میں
آنسوؤں کی مہک تو آئے گی
اور روٹیاں سینکتے سینکتے چار پانچ شعر اور "سنک" گئے
لاکھ رستے بدل کے گھر جاؤ
راہ میں وہ سڑک تو آئے گی
ایک پل ہی کو وہ لگا تھا گلے
اپنے تن سے مہک تو آئے گی
رات ہونے تو دو، پھر اس کی یاد
سرِ نوکِ پلک تو آئے گی
آج صحرائے جان خشک سہی
آنسوؤں کی کمک تو آئے گی
چاہپے وہ کچھ نہ پہنے پیروں میں
پایلوں کی چھنک تو آئے گی
دیکھو شاعر موقع نہیں چھوڑتا اپنے شعر سنانے کا۔ تو اب مقطع بھی سن لو، جو بعد میں دفتر جانے سے پہلے ہو گیا
دکھ کے بادل برس چکیں تو عبید
ایک رنگیں دھنک تو آئے گی
(پرسوں رات سے یہاں بارش ہو رہی ہے مستقل)
ظفری، تم بھی دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا
ہ آپ کی اپنی لکھی ہوئی پسندیدہ نظم÷غزل؟
وہ کلشے دوہراؤں کہ ماں کو اپنا ہر بچہ پیارا ہوتا ہے۔ ویسے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنی غزلیں زیادہ پسند ہیں، نظمیں یوں بھی کم کہی ہیں۔
ہ آپ کا پسندیدہ شاعر؟
یہ بھی مشکل سوال ہے:
اساتذہ میں غالب، میر اور آتش
ترقی پسندوں میں فیض، اختر الایمان
اس کے بعد کے دور میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، خلیل الرحمٰن اعظمی، ابنِ انشاء
اور ہم عصروں میں،( اگرچہ یہ لوگ سب دس بیس سال بڑے ہیں مجھ سے، شاید پروین شاکر کو چھوڑ کر۔لیکن زمانی طور پر بات کر رہا ہوں، یوں بھی ہم جیالوجسٹس تو کروڑوں سال کے پیمانے کی بات کرتے ہیں۔) بانی، شکیب جلالی، شہریار، بشیر بدر، ندا فاضلی، ساقی فاروقی، ظفر اقبال، پروین شاکر، محمد علوی، نشتر خانقاہی، جون ایلیا، اطہر نفیس، مغنی تبسم، وغیرہم۔ اور اپنے دوست مصحف اقبال؛ اور مدحت الاختر ۔ لو اپنے آپ کو تو بھول ہی گیا۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ایک شعر یاد آیا؎
یہاں ہر کشتئ جاں پر کئ مانجھی مقرر تھے
اِدھر سازش تھی پانی کی، اُدھرقضیہ ہوا کا تھا
اور پھر سوچنے لگا کہ یہ میرا شعر ہے یا بانی کا؟
اپنی بیاض دیکھی تو نہیں ملا، پھر بانی کا مجموعہ دیکھا تو اس کی اس زمین میں غزل تو ہے، لیکن اس کا شعر یوں ہے:
وہی اک موسمِ سفّاک تھا اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا
پھر اسی زمین کا ایک اور شعر یاد آیا
چھپا کر لے گیا اپنے دکھوں کو ساری دنیا سے
یوں لگتا تھا تو ہم تم سا، وہ جادوگر بلا کا تھا
اب میں انگشت بدنداں ہوں کہ یہ دونوں اشعار میرے ہیں یا کسی اور کے مجھے یاد آگئے۔ یہ سمجھو کہ یہی سچی شاعری ہے، جب دوسروں کے شعر اپنے لگیں اور اپنے دوسروں کے۔
فکشن کی بات تم نے پوچھی نہیں۔ ورنہ جس طرح میں کہتا ہوں کہ ہندی کہانی مسلمان ہی یہاں اچھی لکھ رہے ہیں۔ شانی، عبدل بسم اللہ (واقعی یہی نام ہے، اگرچہ غلط نام ہے)، اصغر وجاہت، مہرالنسا پرویز، ناصرہ شرما،عابد سورتی۔ اسی طرح اردو کہانیاں اور ناول یا تو عورتوں نے اچھی لکھی ہیں یا پنجابیوں نے۔ پنجابیوں اور مہاجروں میں منٹو، بیدی، انتظار حسین، ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین اور حال میں رتن سنگھ، خواتین میں قرأۃ العین ADیدر، خدیجہ مستور
ہاں بھی اور نہیں بھی۔ اور شاعری سچ بولے یا نہ بولے، یا تو سچی شاعری ہوتی ہے، یا سرے سے شاعری ہی نہیں ہوتی۔
زیادہ تر تو یوں ہوتا ہے کہ عمر کی ایک منزل میں یقیناً یہ سچ بولتی ہے۔ اس وقت شاعر سچے شعر کہتا ہے، لیکن بعد میں، بڑھاپے میں، وہ رنگینی تو ختم ہو جاتی ہے، پھر محض وہ ماضی کے تصورات میں جیتا ہے۔ اطہر نفیس نے کہا تھا نا
کوئ مہر نہیں، کوئ قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا۔
لیکن اس وقت یہ قہر ومہر محبوب کی طرف سے نہیں ہوتا، زمانے کے نشیب و فراز کا ہوتا ہے۔ لیکن شاعر اس عمر میں بھی اس مہر و قہر کواپنے دورِ رنگین کے ہی انداز میں پیش کرتا رہتا ہے۔ پھر بھی اکثر دل کی بات کہہ ہہی جاتا ہے۔ پہلے محبوبہ کے وقت پر نہ آنے کا شکوہ تھا تو بعد میں ممکن ہے کہ 20 سال تک اپنے پرموشن کا انتظار۔ مجھے ڈائریکٹر کے پرموشن سے پہلے 1985 میں پرموشن ہوا تھا۔ یہ محض مچال ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ پروموشن ہی میری محبوبہ رہی ہو۔ بلکہ میرا تو یہ حال ہے کہ اپنی تنخواہ بھی نہیں بتا سکتا کہ کیا سکیل ہے اور کتنی ملتی ہے، کہ یاد نہیں رہتی۔
ابھی پچھلی بار ہی میرے دوست مصحف اقبال توصیفی نے ایک تازہ غزل سنائ تھی اور مجھ سے مشورہ مانگا تھا کہ یہ شعر رکھیں یا اچھا نہیں لگے گا
جوہی بولی، دونوں گڑیاں
اک میں اور اک میری دادی
(جوہی ان کی پوتی کا نام ہے)
بعد میں اسے یوں کر دیا
جوہی ناک دبا کر بولی
دادا، میں بھی بن گئ دادی
ان کی اس غزل کی زمین ہے، صدا دی، دعا دی۔ اس میں دادی قافیہ باندھنے کا جی چاہا۔ کیا یہ ان کے تئیں سچا شعر نہیں تھا؟
ہ آپ نے زیادہ شاعری اپنے لیے لکھی یا اوروں کے لیے؟
شاعری ہر شاعر اپنے لئے ہی کرتا ہے۔ ترقی پسند شعرا بھی در اصل اپنے لئے ہی کرتے تھے۔ سماج کے لئے نہیں۔ ورنہ بےچارے عوام کے پاس کہاں وقت یا سہولت کہ وہ ان کی شاعری پڑھتے!!۔ ان کو بھی یہ اطمینان تھا کہ وہ سماج کی خدمت کے لئے شاعری کر رہے ہیں، اور در اصل اپنے اس اطمینان اور فیلنگ گُڈ کے احساس کے لئے ہی انھوں نے بھی شاعری کی۔ بہت سے شعرا تو پارٹی ممبر پہلے تھے شاعر بعد میں، انھوں نے عملی سیاست میں حصہ لیا ضرور، لیکن محض شاعری سے وہ کوئ انقلاب کہاں لا سکے۔ خود اقبال نے بھی روحِ مسلماں کو جھنجھوڑا لیکن محض اس وجہ سے پاکستان نہیں بنا۔ (یوں بھی ان کاخواب تو اسلامی مملکت کا تھا، محض مسلم اکثریت کے ملک کا نہیں، جس طور پر اس خواب کی تعبیر ملی، وہ مفاد پرست سیاست دانوں کی کوششیں تھیں، خیر بات تلخ ہو جائے گی۔
میں بھی دعویٰ نہیں کرتا کہ میں دوسروں کے لئے شاعری کرتا ہوں۔ اور اپنی ہی بات کروں تو پھر یہ بھی عرض کر دوں کہ پھر میں نے پچھلے پینتیس سالوں میں کیوں اپنا کلام نہیں چھپوایا۔ محض 1967 سے 1971 تک بہت چھپا ہندوپاک کے مؤقّر جرائد میں اور پھر خاموش ہو گیا۔ اگرچہ شاعری خاموش نہیں ہوئ۔ بس یہ ہے کہ تب سے اب تک سال میں تین چار غزلیں ہو جاتی ہیں۔ بس ادھر تین چار سال سے مصحف اقبال توصیفی اور مغنی تبسم صاحب کےجریدوں سب رس اور شعر و حکمت میں ہی اپنی تخلیقات دی ہیں یا انٹر نیٹ پر۔ آج صبح کا ہی ایک شعر سنو؎
اتنے دن بعد آج شعر کہے
چہرے پر کچھ چمک تو آئے گی
یا پہلے بھی ہم نے ہی کہی تھی یہی بات؎
اب آج دنوں پہ شعر کہہ کر
کچھ دل کو ملا ثبات کچھ دیر
بس اس کچھ دیر کے ثبات اور چہرے کی چمک کے لئے ہی میں بھی شعر کہتا ہوں، دوسرے شعرا کا بھی یہی حال ہے۔
اب اس تازہ غزل کی "تاریخ" بھی سن لو۔ اگر چہ سب کو معلوم ہے کہ یہاں ناگپور میں میں تنہا رہتا ہوں اور ادھر عرصے سے خود ہی کھانا بناتا ہوں۔ میرا باورچی خانہ (پہلی منزل پرگھر ہے میرا) اس طرح ہے کہ یہ کھلا حصہ ہے، اور میرا مین گیٹ بھی اسی طرف ہے۔ یہیں غسلخانہ وغیرہ بھی ہے۔ اس حصے میں جاتا ہوں تو اکثر پردہ برابر کر دیتا ہوں۔ کیوں لوگوں کو میں اپنے پھٹے ہوئے بنیان میں نظر آؤں!! کل بھی روٹیاں بنانے جا رہا تھا توپردہ برابر کرنے کے بعدخیال آیا کہ پردہ برابر کر تو رہا ہوں لیکن "روٹیوں کی مہک تو آئے گی" اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ اعجاز ساحب روٹیاں بنا رہے ہیں۔ اور تبھی نیچے مکان مالک کے باورچی خانے سے پیالیوں کی آواز آئ جس سے پتہ چلا کہ ان کی بہو شبانہ اٹھ گئ ہے اور سب کے لئے چائے بنا رہی ہے۔ اور ایک مصرعہ اور ہو گیا "پیالیوں کی کھنک تو آئے گی" اور پھر اسی وقت ان دو مصرعوں کی یہ شکل ہو گئ۔ روٹیوں نے دوسری ہی شکل اختیار کر لی۔ یعنی شعر میں۔ روٹیاں تو ٹھیک ہی بنیں۔ شعر میں آنسو بن گئیں۔
کچھ صدا صبح تک تو آئے گی
پیالیوں کی کھنک تو آئے گی
خشک آنکھوں کے سوکھے جنگل میں
آنسوؤں کی مہک تو آئے گی
اور روٹیاں سینکتے سینکتے چار پانچ شعر اور "سنک" گئے
لاکھ رستے بدل کے گھر جاؤ
راہ میں وہ سڑک تو آئے گی
ایک پل ہی کو وہ لگا تھا گلے
اپنے تن سے مہک تو آئے گی
رات ہونے تو دو، پھر اس کی یاد
سرِ نوکِ پلک تو آئے گی
آج صحرائے جان خشک سہی
آنسوؤں کی کمک تو آئے گی
چاہپے وہ کچھ نہ پہنے پیروں میں
پایلوں کی چھنک تو آئے گی
دیکھو شاعر موقع نہیں چھوڑتا اپنے شعر سنانے کا۔ تو اب مقطع بھی سن لو، جو بعد میں دفتر جانے سے پہلے ہو گیا
دکھ کے بادل برس چکیں تو عبید
ایک رنگیں دھنک تو آئے گی
(پرسوں رات سے یہاں بارش ہو رہی ہے مستقل)
ظفری، تم بھی دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا
ہ آپ کی اپنی لکھی ہوئی پسندیدہ نظم÷غزل؟
وہ کلشے دوہراؤں کہ ماں کو اپنا ہر بچہ پیارا ہوتا ہے۔ ویسے یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اپنی غزلیں زیادہ پسند ہیں، نظمیں یوں بھی کم کہی ہیں۔
ہ آپ کا پسندیدہ شاعر؟
یہ بھی مشکل سوال ہے:
اساتذہ میں غالب، میر اور آتش
ترقی پسندوں میں فیض، اختر الایمان
اس کے بعد کے دور میں ناصر کاظمی، منیر نیازی، خلیل الرحمٰن اعظمی، ابنِ انشاء
اور ہم عصروں میں،( اگرچہ یہ لوگ سب دس بیس سال بڑے ہیں مجھ سے، شاید پروین شاکر کو چھوڑ کر۔لیکن زمانی طور پر بات کر رہا ہوں، یوں بھی ہم جیالوجسٹس تو کروڑوں سال کے پیمانے کی بات کرتے ہیں۔) بانی، شکیب جلالی، شہریار، بشیر بدر، ندا فاضلی، ساقی فاروقی، ظفر اقبال، پروین شاکر، محمد علوی، نشتر خانقاہی، جون ایلیا، اطہر نفیس، مغنی تبسم، وغیرہم۔ اور اپنے دوست مصحف اقبال؛ اور مدحت الاختر ۔ لو اپنے آپ کو تو بھول ہی گیا۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ایک شعر یاد آیا؎
یہاں ہر کشتئ جاں پر کئ مانجھی مقرر تھے
اِدھر سازش تھی پانی کی، اُدھرقضیہ ہوا کا تھا
اور پھر سوچنے لگا کہ یہ میرا شعر ہے یا بانی کا؟
اپنی بیاض دیکھی تو نہیں ملا، پھر بانی کا مجموعہ دیکھا تو اس کی اس زمین میں غزل تو ہے، لیکن اس کا شعر یوں ہے:
وہی اک موسمِ سفّاک تھا اندر بھی باہر بھی
عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا
پھر اسی زمین کا ایک اور شعر یاد آیا
چھپا کر لے گیا اپنے دکھوں کو ساری دنیا سے
یوں لگتا تھا تو ہم تم سا، وہ جادوگر بلا کا تھا
اب میں انگشت بدنداں ہوں کہ یہ دونوں اشعار میرے ہیں یا کسی اور کے مجھے یاد آگئے۔ یہ سمجھو کہ یہی سچی شاعری ہے، جب دوسروں کے شعر اپنے لگیں اور اپنے دوسروں کے۔
فکشن کی بات تم نے پوچھی نہیں۔ ورنہ جس طرح میں کہتا ہوں کہ ہندی کہانی مسلمان ہی یہاں اچھی لکھ رہے ہیں۔ شانی، عبدل بسم اللہ (واقعی یہی نام ہے، اگرچہ غلط نام ہے)، اصغر وجاہت، مہرالنسا پرویز، ناصرہ شرما،عابد سورتی۔ اسی طرح اردو کہانیاں اور ناول یا تو عورتوں نے اچھی لکھی ہیں یا پنجابیوں نے۔ پنجابیوں اور مہاجروں میں منٹو، بیدی، انتظار حسین، ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین اور حال میں رتن سنگھ، خواتین میں قرأۃ العین ADیدر، خدیجہ مستور