ماوراء
محفلین
بدتمیز نے کہا:اف اللہ کہاں پھنسا دیا۔ کیا معلوم تھا زمین پر تیرے اتنے حمایتی ہونگے۔
آپ اپنی ہی باتوں میں میرے کئی پوائنٹ ثابت کر رہے ہو اور کئی کے جواب خود ہی دے رہے ہو۔
آپ آجکل اردو میں ایم اے کر رہے ہو؟ نہ کرو فیل ہو جاؤ گے۔ مصلحت کا یہ مطلب ہوتا ہے؟
میں نے پہلے کہا کہ یہ آپ کا تعلق ہے کہ آپ نے اللہ سے کیسا تعلق رکھا ہے۔ یا آپ نے اس کو اپنے تصور میں کیا بنا رکھا ہے۔
یہ کیا ہوا کہ اللہ سب کی سنتا ہے اور قبول کسی کسی کی کرتا ہے۔ کرتا ہو گا ضرور کرتا ہو گا۔ دیکھیں آپ بچوں کے ہجوم میں چیزیں تقسیم کریں تو جو بچہ کم پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائے گا آپ اس کو چھوڑ کر باقیوں کو توجہ دو گے۔ اسی طرح اللہ سے جو جو تھوڑا لے کر سائیڈ پر ہو جائے وہ باہر ہوتا جاتا ہے اور جو جو ضد لگا لے وہ مزید لیتا جاتا ہے۔ ہم انسان ہو کر بچوں پر ترس کھاتے ہیں اور ان کو چیز پر چیز دیئے چلے جاتے ہیں تو کیا خدا ایسا نہیں کر سکتا؟
ایم اے اردو کر تو نہیں رہی، لیکن سوچ رہی ہوں کہ کر لوں۔ امید ہے کہ انشاءاللہ پاس بھی ہو جاؤں گی۔ مصلحت کے معنی صرف ایک نہیں ہوتے۔
اگر کسی وقت کوئی دعا قبول نہ ہو تو مومن کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالٰی کی نظر میں اس کی مقبولیت کچھ مناسب نہ ہو گی۔ اللہ تعالٰی ہماری خواہش کا پابند نہیں ہے۔ جب اس کی حکمت اور مصلحت ہوتی ہے اسی وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ لیکن چاہے دعا قبول ہو یا نہ ہو بندے کو دعا کرنے کا ثواب ضرور ملتا ہے کیونکہ دعا خود ایک عبادت ہے۔خدا جب چاہے جو چاہے سب کچھ کسی وقت بھی کر سکتا ہے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بندہ جس چیز کی دعا کرتا ہے اس کو وہی مل جاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک اس بندہ کو وہ چیز دینا بہتر نہیں ہوتا اس لیے تو وہ ملتی نہیں لیکن اس کے بدلے کوئی اور نعمت اس کو دے دی جاتی ہے۔ یا کوئی آنے والی مصیبت ٹال دی جاتی ہے۔
جہاں تک دعائیں قبول نہ ہونے کی بات ہے تو اس کی ایک مثال اس طرح لیں کہ اگر ایک باپ اپنے بچے کو چینی کی بوری یا ڈھیر ساری چاکلیٹس لا کر دے دیتا ہے کہ لو میرا بچہ کھاؤ یہ تمھارے لیے ہیں، لیکن ساتھ ہی کہتا ہے کہ اگر خاص مقدار سے زیادہ کھا لیا تو کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ چاہے تو ہماری ساری دعائیں قبول کر سکتا ہے۔۔ لیکن وہ کیوں نہیں کرتا۔۔۔۔۔یہ صرف سوچ اور سمجھ کی بات ہے۔
غور کریں کہ یہ ساری دنیا آپ سے آپ نہیں ہو گئی۔ اس کا ایک بنانے والا ہے، وہی اللہ ہے، وہ اکیلا ہے اس نے ہی سارے جہاں کو پیدا کیا ہے۔
یہ روشن، گرم سورج، چمکتا چاند، تارے، ٹھنڈی تیز ہوائیں، آسمان پر تیرتے ہوئے بادل، بارش، پہاڑ، سمندر، دریا۔۔۔جو کچھ بھی اس جہاں میں ہے وہ اسی اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ وہی سب کا مالک ہے، سب کی دیکھ بھال اور جو کچھ ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ وہ تو صرف “ہو جا“ کہتا ہے اور وہ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ اس مالک کو ہی معلوم ہے کہ اس نے دنیا کا نظام کس طرح چلانا ہے۔ اگر وہ انسان کی ساری دعائیں قبول کرنے لگے تو شاید اس دنیا کا نظام بھی ٹھیک طریقے سے چل نہ سکے۔ انسان۔۔۔ انسان تو نفس کی غلامی کرتا ہے۔ اس کی تو ڈھیروں دعائیں ہو سکتی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ خدا اس کی ہر دعا قبول کر لے۔
“ہماری زندگیاں صرف اس خدا کی طرف سے ہیں، انسان ہزار تدبیریں کر لے لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے۔“
اس پر میں کسی سے بحث کرنا چاہ رہا ہوں لیکن آپ سے نہیں کر سکتا آپ کنفیوز ہو جاؤ گے۔
میں تو بحث کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ میں واقعی اس موضوع پر بات نہیں کر سکتی۔
“میں جاواں تے کتھے جاواں“ دیکھیں ہمیں سب کو معلوم ہے کہ اللہ کیا ہے۔ نبیوں نے بتا دیا۔ کتابوں نے تشریح کر دی۔ لیکن ہر انسان نے اللہ کو ایک تصور دے رکھا ہے۔ جیسے ایک مطمئن شخص کے لئے اللہ نرم اور مہربان ہے۔ ناراض کے لئے وہ تھوڑا ظالم ہے جسکو اس کی پرواہ نہیں۔ دکھی انسان اللہ سے شکوے کرتا ہے اور اس کو جو کچھ کہتا ہے وہ آپ سن لیں تو آپ غصے میں آ جاؤ اور کوئی اور سن لیں تو لاٹھی لے کر مارنے کو دوڑیں۔
آپ کہیں نہ جائیں۔ میں اب مزید اس پر بات نہیں کروں گی۔
آپ کی بات بالکل درست ہے۔ لیکن ہمیں ہر حال میں خوش اور خدا کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ ہم جس حالت میں ہیں، بات وہی کہ۔۔۔ وہی ہمارے لیے بہتر ہے۔
ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ جو راستہ اس نے اختیار کیا ہے وہی درست ہے۔
ہممم۔۔ اگلی تو بالکل نہیں گئی۔آئی کچھ سمجھ میں کہ ۔۔۔۔۔ آہم آہم