دونوں ہی پسند ہیں کسی ایک کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ سائنس میں میری دلچسپی شروع سے ہی زیادہ رہی ہے، کیوں۔۔۔کیا۔۔۔کیسے بس اسی مثلث میں اٹکے رہنا، کبھی سوالوں کے جواب مل جاتے کبھی نہیں ملتے لیکن یہ پھر بھی آسان لگتا تھا رٹا لگانے سے۔ کلاس فیلوز کو دیکھ دیکھ کے میرا بھی دل چاہتا رٹا لگانے کو لیکن آتا ہی نہیں تھا لگانا۔ میں کوئی لائن پڑھتی تو اتنے سارے سوال اٹھ کھڑے ہوتے جب تک ان کے جواب سمجھ میں نہ آتے بے چینی رہتی پھر جیسے ہی جواب مل جاتا سکون ہوجاتا پھر یہی جو کچھ سمجھ میں آیا ہوتا یہی امتحان مین لکھ دیتی۔
Microbiology اور ادب دونوں ہی مختلف دنیائیں ہیں مجھے ان دونوں میں بہت کشش محسوس ہوتی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں سے انسان دوستی سیکھی۔ مائکروبز انسان دوست ہیں ان کے ساتھ وقت گذارنا بہت دلچسپ تجربہ۔ قدرت نے عام انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والی اس دنیا میں کس قدر خوبصورتی رکھی ہے اور یہ سب مائیکروبز (بیکٹیریا، وائرس، فنجائی۔۔۔) انسان کو کس قدر فائدہ پہنچاتے ہیں (چند استثنآت کو چھوڑ کر)۔
خوردبین (مائیکرواسکوپ) سے جب خورد بینی دنیا میں داخل ہوں تو بیرونی دنیا سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ ایک بار ہمارے ڈپارٹمنٹ کے قریب کسی ڈرامے کی شوٹنگ ہو رہی تھی کئی فنکار آئے ہوئے تھے بیشتر اسٹوڈنٹ باہر شوٹنگ دیکھنے کو۔سعدیہ امام ہماری لیب سے باہر گذریں تو میں اندر میڈیا پر اسٹریکنگ میں لگی ہوئی تھی دروازہ ذرا سا کھلا رہ گیا تھا سعدیہ امام نے دیکھا میں سامنے تھی وہ مسکرائیں میں اتنی مگن تھی کہ ڈھنگ سے جوابی مسکراہٹ تک نہ دے سکی بس میں ہلکا سا مسکرائی اور دوبارہ میڈیا پلیٹ پر جھک گئی سعدیہ امام پھر آگے چلی گئی مجھے اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ باہر جا کر اپنی اس حرکت کا کچھ ازالہ ہی کر دیتی مجھے بعد میں گھر آ کے بہت شرمندگی ہوئی۔ مائیکروبز کے خاندان کے خاندان۔ وائرس ہوں ، فنجائی یا بیکٹیریا گوناگوں اقسام، پھر ہر ایک کی اس قدر پیچیدہ ترین ساخت اور ساتھ ہی خوبصورت بھی۔ یہ سب مائیکروبز کالونی کی صورت اکٹھے رہتے ہیں اور ہر ایک قسم کی کالونی جدا جدا ڈیزائن میں جدا رنگ، جدا ٹیکسچر، جدا سائز، ہر بات ایک ایک خصوصیت ایک دوسرے سے مختلف۔ پھر نارمل انسانی فلورا ہیں جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہمارے جسم کے اندر بھی اور باہر بھی۔ مائیکرو کے اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ہم یہاں اتنی آلودگی میں بھی زندہ ہیں؟!! ہم لوگ ہر چیز میں ہر بات میں immune ہو چکے ہیں اب۔
ادب کی جانب نکل جاؤں تو پھر کچھ اور یاد نہیں رہتا۔ میں اتفاقیہ طور پر ادب کی جانب گئی اور یہ میری خوش قسمتی رہی۔ یہ صحیح سے جانا کہ ادب کا مطالعہ ضروری ہے سوچ، فکر اور عمل میں توازن پیدا کرنے کے لئے۔ کتاب سے دُور رہیں تو پھر سوچ محدود رہتی ےہ۔ سوچ محدود رہ جائے تو پھر ہم اپنے ہی جیسے انسانوں کی تحقیر و تذلیل کرنے کے ہزار ہا بہانے ڈھونڈ لیتے ہین۔ اپنے آپ کو ہی صرف اچھا سمجھنا، خود کو اعلیٰ اور دوسروں کو ادنٰی، خود کو مذہبی دوسروں کو مرتد، خود کو جنتی اور دوسروں کو کافر اور کفر کے فتوے۔۔۔محدود سوچ اور محدود مطالعہ دونوں ہی خطرناک ہیں۔۔۔ یہ انسان کو خدا سے بھی زیادہ بڑا خدا بنا دیتے ہیں پھر۔
اچھا میں صرف فکشن کو ہی ادب سمجھا کرتی تھی تو مجھے یہی خیال تھا کہ دو چار افسانے اور ناول ہی تو پڑھنا ہوں گے لیکن پھر ماسٹرز میں لگ پتہ گیا جب مشرق و مغرب کے متعدد نام اور ان کے کام کو پڑھنا پڑا، لیکن پھر بھی دلچسپ رہا۔ اگر میں اس مرحلے سے نہ گذرتی تو زندگی میں ایک بہت بڑی کمی رہ جانی تھی۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ کتنے ہی ایسے ناموں سے ان کتابوں کے ذریعے میری ملاقات ہوئی جنھیں میں اسکول میں نصابی کتب میں صرف نام کی حد تک ہی جانتی تھی۔ حیرت ہوئی یہ جان کر کہ ہماری نصابی کتب میں اکابرین کا حق کما حقہ ادا نہیں کیا جاتا۔ سرسید احمد خان کے بارے میں جاننا بہت اچھا لگا اسکول کالج کی نصابی کتب بس یہی بتاتی ہیں کہ سرسید احمد خان ایک بڑے مصلح گذرے ہیں اور نصابی کتب یہ واضح نہیں کرتیں کہ مصلح یعنی چیہ؟ ( چیہ (فارسی) = کیا (اردو)
ادب میں ماسٹزر کے طلبہ جانتے ہیں کہ سر سید کا مسلمانوں پر کیا احسان ہے۔ سرسید نے ہمہ جہت کام کیا (آجکل میری دلچسپی سرسید کے مذہبی نظریات جاننے سے ہے بہت متنازعہ رہا ہے سر سید کا نام اس حوالے سے۔) سرسید کی ہمہ جہت فعالیت دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک بندہ اتنی مختصر زندگی میں صدیوں پر مشتمل کام کیسے کر سکتا ہے۔ سرسید کے ساتھ گنتی کے چند لوگ تھے اور سب نے مل کر کتنے کمالات دکھائے۔
اُردو ویب آرگ کو دیکھیں تو یہاںامید کی کرن سی ہے یہاں اس ماحول اور وقت کی ایک شبیہ نظر آتی ہے جسے ہم اپنے زرخیز دور سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اگر اُردو ویب کو افتادِ زمانہ کا شکار نہ ہونا پڑا تو آج یہاں ایسی شمعیں روشن ہو رہی ہیں جن کی روشنی سے ہمارا کل منور ہوگا۔
Microbiology کو کیوں چُنا ؟
میں حادثاتی طور پر ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنتے بنتے رہ گئی۔ فرسٹ ائیر میں میری پرسنٹیج اچھی تھی۔ سیکنڈ ائیر میں دنیا تیاگ دی رات دن کا فرق فراموش کر کے۔ پہلے دو پرچے بہترین ہوئے۔ تیسرا طبیعیات(فزکس) کا تھا۔ امتحانی سینٹر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں میرا شاندار ایکسیڈنٹ ہوا (میں زخمی ہو کے بھی پرچہ پہلے دیا اور ڈاکٹر کے پاس بعد میں گئی۔۔۔ یہ ایک الگ قصہ ہے کہ پرچہ دیا کیسے کیونکہ میرا وہی ہاتھ سب سے زیادہ زخمی ہوا جس سے مجھے لکھنا تھا۔) جس کے نتیجے میں پھر دنیا ایک اچھی سی نیورولوجسٹ سے محروم ہوگئی
میں ٹاپ نیورولوجسٹ بننا تھا۔ بعد کے سب پرچے بھی متاثر ہوئے اور پریکٹیکلز بھی۔ پھر مائیکرو میں آنرز کیا اور جب آنرز کر لیں تو ماسٹرز بھی ضرور کرنا چاہئے یہ میرا خیال ہے۔ Microbiology ایک منفرد سبجیکٹ ہے ایک چھوٹی لیکن بہت بڑی دنیا۔
Microbiology کے ڈسپلنز میں فوڈ، میڈیسن ، جینیٹکس سب ہی پسند ہیں لیکن جینیٹکس میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے genes میں ایک الگ ہی کشش ہے یہ انسانی صلاحیتوں کو کھلا چیلنج دیتے ہیں
ویسے زکریا بھیا آپ نےInterest کا پوچھا تو دونوں طرف ٹھیک ٹھاک interest ہے۔ اگر کتابیں لکھنا شروع کر دوں تو ٹھیک ٹھاک رائلٹی لوں اور اگر ایک ڈائگنوسٹک لیب کھول لون تو بھی پرافٹ ہی پرافٹ۔۔۔