انٹرویو انٹرویو وِد فرحت کیانی

فرحت کیانی

لائبریرین
تو پھر مہ جبین آنٹی سے گزارش ہے کہ اس پر کچھ تفصیلی جواب لکھیں
اور ہر کسی کا ذاتی مشاہدہ الگ ہوتا ہے
میرا مشاہدہ آپ کے مشاہدے سے الگ ہے جس میں مجھے مثبت کم اور منفی پہلو زیادہ نظر آئے
یقیناً الگ ہو گا۔ آپ بھی پلیز اپنا مشاہدہ یہاں شیئر کریں۔
 
شکریہ جی۔ آپ نے بالکل درست سوچا تھا لیکن کبھی کبھی معجزے بھی ہوتے ہیں ناں جیسے ان دنوں گھروں میں سوئی گیس بغیر کسی تعطل کے آ رہی ہے۔ اس لئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہونے پر حیران نہ ہوں۔:openmouthed:
سچ یہ ہے کہ لطف آ رہا ہے بہت اور میں سوچ رہا تھا کہ فرحت مکمل رواں ہو جائیں تو میں بھی سوالات داغوں کیونکہ "سافٹ بالز" کافی کروالی لوگوں نے اب ذرا "ٹف پچ" پر کھلایا جائے فرحت کو۔ :cool:

حالانکہ ان میں سے کوئی ایک خوبی بھی مجھ میں نہیں پائی جاتی اس آپ نے 'ایکسپریس نیوز' والوں کی طرح سوچا کہ میری قابلیت کا پردہ چاک کر دیں اس لئے ایسے سوالات لے آئے :|۔
خوبیوں کا اندازہ بندے کو خود نہیں لگانا چاہیے ، اس کے لیے ہی تو لوگوں نے مل جل کر اس انٹرویو کا ڈول ڈالا ہے کہ جوابات سے بندے کی قابلیت کا اندازہ لگایا جا سکے ،اس لیے پورا دھیان اور زور لگا کر جوابات دینے ہیں ۔ اس پر قابلیت کی پوری عمارت کھڑی ہو رہی ہے۔ :p

سوالات کے جواب کچھ دیر تک لکھتی ہوں۔
اگلے راؤنڈ میں جو مضامین آپ نے سوچے ہیں ان میں میری مہارت ایسی ہی ہے جیسے موجودہ وفاقی وزیر تعلیم وقاص اکرم صاحب کی انٹر اور بی اے کی تعلیم اور نظامِ تعلیم میں ہے۔ :idontknow:
فرحت ، میں دعوی سے کہتا ہوں کہ آپ برطانیہ کی دس جامعات سے تعلیم حاصل کر لیں ایک چھوڑ دنیا کے دس چکر لگا کر علم و حکمت کے موتی چن لیں مگر" گرو " وقاص اکرم کی مہارت کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتیں۔
بندے نے مہارت کی انتہا کر دی ہے یعنی کمال اس طرح سے کیا کہ حد ہی کر دی







بی اے کر دیا ظالم نے انٹر تک پہنچتے پہنچتے :LOL:
 

ملائکہ

محفلین
پہلے تو تاخیر سے جواب دینے پر بہت معذرت ملائکہ۔
یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے ملائکہ۔ ان دنوں ماؤں کے لئے بچوں کی اچھی تربیت واقعی ایک مسئلہ ہے شاید۔ میرے خیال میں اس میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ والدین کی نظر میں بچے کی مثبت پرورش میں گھر کے ماحول کی کتنی اہمیت ہے۔
بچے کی تعلیم و تربیت میں اسکول اور والدین کی یکساں ذمہ داری ہوتی ہے۔ والدین ہمیشہ یہی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو حسب استطاعت بہترین تعلیمی ادارے میں بھیجیں اور پھر اس کے بعد شاید لاشعوری طور پر وہ خود کو بہت سی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا فوکس بھی صرف بچے کے گریڈز پر ہوتا ہے ، اخلاقی تربیت کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہاں ماں نے بچے کو عملی زندگی میں معاشرے کے قائم کردہ معیار کے مطابق تو تیار کر دیا لیکن کردار کی تعمیر میں کچھ کمی رہ جاتی ہے۔
ہماری زندگی کے پہلے پانچ سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ ہم جو عادتیں یا باتیں اس عمر میں سیکھتے ہیں وہ کبھی نہیں بھولتے تو اگر ماں چھوٹی چھوٹی چیزیں بچے کو بتاتی رہے تو بچے کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ماں کی مکمل توجہ اور پورا وقت بہت اہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت اور توجہ کی کمی کا شکار صرف وہی بچے نہیں ہوتے جن کی مائیں جاب کرتی ہیں۔ فُل ٹائم مائیں بھی بچوں کو نظر انداز اس طرح کرنا شروع کر دیتی ہیں جب ٹیلی ویژن اور فون ان کا زیادہ وقت لے جاتے ہیں۔ اور یہی چیز بچوں کی ترجیح بھی بن جاتی ہے۔ اور بچہ چونکہ سیکھنے کی عمر میں ہوتا ہے اور اس عمر میں بچے کا ذہن فوم کے ٹکڑے جیسا ہوتا ہے جو سب کچھ بہت جلدی خود میں جذب کر لیتا ہے تو وہ ٹیلی ویژن اور فون سے بہت کچھ ایسا سیکھ جاتا ہے جو آہستہ آہستہ اس کی شخصیت میں بگاڑ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہاں ماؤں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ان کو ایک کوڈ آف کونڈکٹ سیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس حد تک بچے کو ان چیزوں کا اثر لینے کی اجازت دینی چاہئیے اور اس کے لئے انہیں خود اپنے لئے بھی حد قائم کرنی چاہئیے کہ وہ کیسی چیزیں بچے کے سامنے دیکھیں گی اور کیسی نہیں،بچے کے سامنے کس طرح کی زبان استعمال کریں گی اور دوسروں کے ساتھ کس انداز میں پیش آئیں گی۔ بچہ ٹیلی ویژن پر کیا دیکھ سکے گا اور کیا نہیں ، اس کا کون سا رویہ کس حد تک قابلِ قبول ہو گا اور کس مقام پر اس کی سرزنش کی جائے گی۔ کیونکہ جو norms بچہ گھر کے ماحول سے سیکھتا ہے وہ اس کے نزدیک گھر، والدین اور معاشرے ہر جگہ پر قابلِ قبول ہوتے ہیں۔
گھر میں بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی عادت ڈالنا اور ساتھ ساتھ ہر چیز کو اخلاق ، حقوق العباد اور حقوق اللہ سے جوڑنا بچوں کے ذہن میں ان چیزوں کی اہمیت کو واضح کر دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو عملی زندگی میں خود کام کرنے کے لئے تیار بھی کرتا ہے۔ ہم عموماً سمجھتے ہیں کہ بچوں کو وضاحت اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ بچے بہت منطقی انداز میں سوچتے ہیں اور ان کا ذہن بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کوئی بات قبول نہیں کر پاتا۔ نتیجتاً وہ کنفیوژ ہو جاتے ہیں اور یہ کنفیوژن ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔ بچے کو کسی چیز سے منع کرنا ہے یا پابندی لگانی ہے تو اس کی وجہ بھی اس کو معلوم ہونی چاہئیے ورنہ اس کی فطرت میں موجود تجسس اس کو وہ کام کرنے پر مجبور کر دے گا جس کی اس کو ممانعت کی جائے÷
پھر ماں کو گھر سے باہر بھی بچے کی صحبت کا معلوم ہونا چاہئیے اور ایسا صرف بڑے بچوں کے ہی ضروری نہیں۔ یہ ہر عمر کے بچے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ میرے خیال میں ماں باپ دونوں کو بچے کے نصاب اور کتاب کے ساتھ منسلک رہنا چاہئیے۔ بچے کی پڑھائی صرف اسکول اور ٹیوشن کی ذمہ داری نہیں والدین کو بھی اس کو اتنی ہی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ماں خود سے پڑھانے سے قاصر ہے تو وہ بچے کی پڑھتے ہوئی نگرانی تو کر سکتی ہے۔ پھر کوئی بھی نصاب ہو اس کی بنیاد کوئی نہ کوئی اخلاقی ویلیو ہوتی ہے۔ جو بچہ اسکول میں پڑھ رہا ہے اگر اسی سے متعلق چھوٹی چھوٹی مثالیں گھر میں دے دی جائیں تو بچے کے لئے ایبسٹریکٹس کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
سو میرے خیال میں ماں کو بچے کی اچھی پڑھائی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی اس کو عملی مثالوں کے ذریعے اس کی تربیت میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئیے۔ گھر کا ماحول بچے کو معاشرے کے مہذب شہری اور پیشہ ورانہ زندگی میں کامیاب فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ارے اتنا تفصیلی اور اچھا جواب دینے پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں:bighug:

اور یہ جو بلو کیا ہے اس بات سے تو میں 200٪ متفق ہوں کیونکہ میرا بھائی کا بیٹا(پتہ نہیں بھیتجا کہیں گے یا بھانجا:p ) اسکو بھی ہم جب تک لوجیکل جواب نہ دیں اسکو بات سمجھ ہی نہیں آتی اور پاکستانی معاشرے میں ایک متوسط طبقے کی ماں کو اتنی سمجھ واقعی نہیں ہے کہ انکے بچے بھی عقل رکھتے ہیں:rolleyes: وہ بچوں کو لوجیکل جواب دینے کے بجائے حیلے بہانے بنا کر اس بات سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں جو کہ ممکن ہو نہیں پاتا اور اسکے نتیجے میں بچے بھی بہانے بنانا سیکھ جاتے ہیں۔۔۔۔

میرا تو دل چاہتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے پھولوں جیسے بچوں کو جگہ جگہ جھماؤں پھراؤں اور نیچر دیکھاؤں، وہ نیچر سے خود ہی سب کچھ سیکھیں:lovestruck::bighug:
 
ارے اتنا تفصیلی اور اچھا جواب دینے پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں:bighug:

اور یہ جو بلو کیا ہے اس بات سے تو میں 200٪ متفق ہوں کیونکہ میرا بھائی کا بیٹا(پتہ نہیں بھیتجا کہیں گے یا بھانجا:p ) اسکو بھی ہم جب تک لوجیکل جواب نہ دیں اسکو بات سمجھ ہی نہیں آتی اور پاکستانی معاشرے میں ایک متوسط طبقے کی ماں کو اتنی سمجھ واقعی نہیں ہے کہ انکے بچے بھی عقل رکھتے ہیں:rolleyes: وہ بچوں کو لوجیکل جواب دینے کے بجائے حیلے بہانے بنا کر اس بات سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں جو کہ ممکن ہو نہیں پاتا اور اسکے نتیجے میں بچے بھی بہانے بنانا سیکھ جاتے ہیں۔۔۔ ۔

میرا تو دل چاہتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے پھولوں جیسے بچوں کو جگہ جگہ جھماؤں پھراؤں اور نیچر دیکھاؤں، وہ نیچر سے خود ہی سب کچھ سیکھیں:lovestruck::bighug:
بھائی کے بیٹے کو "بھتیجا" جبکہ بہن کے بیٹے کو "بھانجا" کہتے ہیں
اسی طرح بھائی کی بیٹی کو "بھتیجی" جبکہ بہن کی بیٹی کو "بھانجی" کہتے ہیں
 

ملائکہ

محفلین
بھائی کے بیٹے کو "بھتیجا" جبکہ بہن کے بیٹے کو "بھانجا" کہتے ہیں
اسی طرح بھائی کی بیٹی کو "بھتیجی" جبکہ بہن کی بیٹی کو "بھانجی" کہتے ہیں
جی میں ہمیشہ بھول جاتی ہوں:confused: تو میں اپنے پیارے بھیتجے کی بات کررہی تھی:lovestruck:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
1۔ آپ کی سب سے بہترین کامیابی کون سی ہے جو ابھی تک بھی آپ کے لیئے ایک آنر ہے ؟
بہت مزے کا سوال ہے عینی اور جواب بہت مشکل بھی۔ آج میں نے سوچا تو محسوس ہوا کہ ایک وقت ہر جو کامیابی ہمارے لئے سب سے زیادہ قابلِ فخر ہوتی ہے ، کچھ عرصے کے بعد اس کی جگہ کوئی اور کامیابی لے لیتی ہے چاہے وہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر حاصل نہ گئی ہو۔ جیسے کبھی اسکول کالج میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر لگتا تھا کہ زمانہ فتح کر لیا ہے۔ یا کچھ عرصہ پہلے یونی کے نتیجے کے اعلان پر لگ رہا تھا کہ ٹوپی میں سب سے بڑے پر کا اضافہ ہو گیا۔ اور اب اتنے سینئر لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک چھوٹا سا کام بھی بہت بڑی بات لگتا ہے۔
ایک تازہ ترین بہترین کامیابی: میں تیسری کوشش میں بالآخر یہ جواب لکھنے اور پوسٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ :cool2:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جی اب ہو جائیں کچھ کوئسچنز آپ سے فرحت آپی :rolleyes:
2۔آپکو کبھی وہم ہوا؟ اگر ہوا تو اسے کیسے دور کرتی ہیں ؟
جی اکثر ہو جاتا ہے وہم لیکن میں اسے زیادہ دیر ٹکنے نہیں دیتی۔استغفر اللہ اور لاحول ولا قوۃ پڑھتی ہوں۔ اور وہم غائب۔
ایک وہم جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوئی تھی وہ 2005ء کے زلزلے کے بعد کی بات ہے۔ ان دنوں میں پاکستان میں ہی تھی۔ زلزلے کے بعد ٹیلی ، اخبار ہر جگہ پر اتنی تباہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ میرے اوپر وہم نما ڈر طاری ہو گیا تھا۔

3۔کوئی ایسی بات یا چیز جو آپکو بہت جذباتی کر دے ؟پھر کیا کرتی ہیں آپ اگر ایسا ہو تو ؟
فیملی ممبرز سے متعلق کوئی تکلیف یا پریشانی ہو تو میں بھی اتنی ہی پریشان ہو جاتی ہوں۔ دعا بہترین حل ہوتا ہے میرے پاس۔
اس کے علاوہ میں عموماً دوسروں کے دوغلے رویے یا منافقت سے بہت اپ سیٹ ہو جاتی ہوں۔ عموماً ایسی صورت میں وقتی طور پر درگزر کی کوشش کرتی ہوں۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد اس بات کی وجہ سے پیدا ہوئی پریشانی تو ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ لوگ میری 'اگنور' لسٹ میں آ جاتے ہیں۔

4۔ کوئی ایسی تاریخی پرسنالٹی جس سے آپ ملنا چاہتی ہیں اور کیوں ؟
محمد علی جناح۔
مجھے ہمیشہ سے قائدِ اعظم کی شخصیت بہت متاثرکُن لگتی ہے۔ بابائے قوم کی حیثیت سے تو وہ ہمارے ہیرو ہیں ہی لیکن مجھے وہ بہت سمارٹ پرسنیلیٹی لگتے ہیں۔ اور ان کی آواز اور بولنے کا انداز بھی مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میرا اکثر دل چاہتا ہے کہ میں اس دور میں ہوتی تو ضرور ان سے ملتی۔
اور ایک اور شخصیت جو مجھے دلچسپ لگتی ہے وہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ (جو موجودہ ملکہ کی شاید لکڑ دادی بنتی ہیں) ہیں۔ مجھے وکٹورین عہد بھی بہت مزے کا لگتا ہے۔

5۔ہمارے ملک میں یا آپ کے آراونڈ کون سی ایسی چیز ہے جیسے آپ دیکھ کر بہت زادا ڈیپریسڈ ہو جاتی ہیں ؟
عمر رسیدہ بزرگوں اور چھوٹے بچوں کا مزدوری کرنا مجھے پریشان کرتا ہے۔ دونوں عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جہاں ان کو کام کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے لیکن زندگی انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

ابھی کے لیئے اتنے پھر اور سوچتی ہوں :):):)
بہت شکریہ عینی۔ :)
 

عینی شاہ

محفلین
بہت مزے کا سوال ہے عینی اور جواب بہت مشکل بھی۔ آج میں نے سوچا تو محسوس ہوا کہ ایک وقت ہر جو کامیابی ہمارے لئے سب سے زیادہ قابلِ فخر ہوتی ہے ، کچھ عرصے کے بعد اس کی جگہ کوئی اور کامیابی لے لیتی ہے چاہے وہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر حاصل نہ گئی ہو۔ جیسے کبھی اسکول کالج میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر لگتا تھا کہ زمانہ فتح کر لیا ہے۔ یا کچھ عرصہ پہلے یونی کے نتیجے کے اعلان پر لگ رہا تھا کہ ٹوپی میں سب سے بڑے پر کا اضافہ ہو گیا۔ اور اب اتنے سینئر لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک چھوٹا سا کام بھی بہت بڑی بات لگتا ہے۔
ایک تازہ ترین بہترین کامیابی: میں تیسری کوشش میں بالآخر یہ جواب لکھنے اور پوسٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ :cool2:
میں آپ ے ایگری کرتی ہوں وقت کے ساتھ اگر انسان کچھ کر رہا ہے پوزیٹیو تو اسکی کامیابیاں بھی بدلتی رہتی ہیں یہی حال آئی تھنک ناکامیوں کا بھی ہوتا ہے ۔ہم کسی ایک کو اپنی ناکامیابی یا کامیابی نہیں کہہ سکتے ۔۔لیکن اگر کلیکٹیولی دیکھا جائے تو کوئی ایک کمایابی یا ناکامیابی بڑی ہو سکتی ہے :) ویسے یہ آئی تھنک ہے :p
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ارے اتنا تفصیلی اور اچھا جواب دینے پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں:bighug:

اور یہ جو بلو کیا ہے اس بات سے تو میں 200٪ متفق ہوں کیونکہ میرا بھائی کا بیٹا(پتہ نہیں بھیتجا کہیں گے یا بھانجا:p ) اسکو بھی ہم جب تک لوجیکل جواب نہ دیں اسکو بات سمجھ ہی نہیں آتی اور پاکستانی معاشرے میں ایک متوسط طبقے کی ماں کو اتنی سمجھ واقعی نہیں ہے کہ انکے بچے بھی عقل رکھتے ہیں:rolleyes: وہ بچوں کو لوجیکل جواب دینے کے بجائے حیلے بہانے بنا کر اس بات سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں جو کہ ممکن ہو نہیں پاتا اور اسکے نتیجے میں بچے بھی بہانے بنانا سیکھ جاتے ہیں۔۔۔ ۔

میرا تو دل چاہتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے پھولوں جیسے بچوں کو جگہ جگہ جھماؤں پھراؤں اور نیچر دیکھاؤں، وہ نیچر سے خود ہی سب کچھ سیکھیں:lovestruck::bighug:
بہت شکریہ ملائکہ۔ آپ نے درست کہا ہم خود بچوں کو کنفیوژ کر دیتے ہیں اور پھر پریشان بھی ہوتے ہیں کہ وہ غلط سمت میں جا رہے ہیں۔
اور آپ کا سکھانے کا انداز بہترین انداز ہے۔ بچے کھیل کھیل میں زیادہ بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں آپ ے ایگری کرتی ہوں وقت کے ساتھ اگر انسان کچھ کر رہا ہے پوزیٹیو تو اسکی کامیابیاں بھی بدلتی رہتی ہیں یہی حال آئی تھنک ناکامیوں کا بھی ہوتا ہے ۔ہم کسی ایک کو اپنی ناکامیابی یا کامیابی نہیں کہہ سکتے ۔۔لیکن اگر کلیکٹیولی دیکھا جائے تو کوئی ایک کمایابی یا ناکامیابی بڑی ہو سکتی ہے :) ویسے یہ آئی تھنک ہے :p
آپ کا 'آئی تھنک' بالکل ٹھیک ہے عینی :jokingly:۔ ایسا ہی ہے۔ لیکن میری بہترین کامیابی بہت ایبسٹریکٹ ہے۔ اس لئے کسی ایک کا نام نہیں لکھ سکی۔ :smile2:
 

عینی شاہ

محفلین
فرحت کیانی آپی ! آپ نے بہت اچھے جواب دیئے ہیں :)
جی نہیں شکریہ ابھی ادا نہ کریں ہی ہی ہی ابھی اور سوالوں کو جاواب دینا ہے آپ نے :pاوہ ابھی ایک سوال آیا ہے مائنڈ میں کہ یہ سب بڑی آپائیں ایک جیسی ہی کیوں ہوتی ہیں ؟:battingeyelashes:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بائیولوجی اور کیمسڑی میں سے کونسا مضمون زیادہ پسند تھا اور کیا اب کبھی کبھی مالیکیولر بائیولوجی (molecular biology) یا جینیات (genetics) پر کچھ پڑھتے رہنے کا اتفاق ہوتا ہے یا ارادہ ہے؟
مجھے بائیو میں زیادہ دلچسپی ہے۔ لیکن اب میں اس سے کچھ کٹ گئی ہوں کیونکہ میری ترجیحات اور دلچسپی کچھ تبدیل ہو گئی ہیں تو کچھ بریک آ گئی ہے۔

کیا نظریہ ارتقا دلچسپی کا باعث رہا ہے ، اگر ہاں تو اب آگے اسے مزید پڑھنے کا ارادہ ہے؟
بالکل رہا ہے۔ لیکن اگر آگے پڑھنے سے مراد باقاعدہ ڈگری کے لئے پڑھنا تو شاید نہیں کیونکہ میری فیلڈ اب تبدیل ہو چکی ہے۔

جہلم کا ماضی ، حال اور مستقبل تعلیمی ، معاشی اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بیان کریں نیز دو تین مثالوں سے جواب کو مزین کریں
جہلم کا ماضی یہ تھا کہ وہاں میرا گھر تھا۔ حال یہ کہ میرے جیسے لائق فائق شخصیت اب وہاں نہیں ہوتی۔ مستقبل کے لئے اس شہر کو امید ہے کہ میں دوبارہ وہاں کا دورہ فرماؤں گی :openmouthed: ۔ اتنا کافی ہے ؟:jokingly:
مذاق برطرف۔ کوشش کرتی ہوں تفصیلاً کچھ لکھنے کو۔

بچپن میں کونسی کہانیاں اور کونسے مصنفین پسند تھے ؟
ہمارے گھر اتنے سارے بچوں کے رسالے آیا کرتے تھے۔ آنکھ مچولی ، جگنو ، تعلیم و تربیت ، نونہال ، بچوں کی دنیا وغیرہ۔ ان میں چھپنے والی ساری کہانیاں اچھی لگتی تھیں۔ لیکن عمرو عیار والی کہانیاں اور چچا بھلکڑ والی کہانیاں سب سے زیادہ پسند تھیں۔ مصنفین میں حکیم سعید، سنہری چڑیا والے ڈاکٹر نصیر احمد ناصر (اگر میں نام بھول نہیں رہی تو) اور ذکیہ بلگرامی بہت اچھے لگتے تھے۔ تعلیم و تربیت کھولتے ہوئے میں سب سے پہلے سنہری چڑیا کا پیغام پڑھتی تھی۔
اور بھائیوں کی کتابوں میں میں نے عمران سیریز بھی بہت پڑھی ہے۔ ابن صفی والی بھی اور مظہر کلیم والی بھی۔ اس کے علاوہ انسپکٹر جمشید سیریز ۔ یہ مجھے زیادہ یاد تو نہیں لیکن اشتیاق احمد کا نام ذہن میں آتا ہے۔


ان سوالات کے جوابات کے بعد اگلے سوالات کا راؤنڈ شروع ہو گا جس میں سیاسیات ، سماجیات اور فلسفیانہ سوالات کی آمیزش ہوگی :LOL:
ایسے ثقیل موضوعات پر بات کرنا میری چائے کا کپ نہیں ہے۔ :thinking2:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت کیانی آپی ! آپ نے بہت اچھے جواب دیئے ہیں :)
جی نہیں شکریہ ابھی ادا نہ کریں ہی ہی ہی ابھی اور سوالوں کو جاواب دینا ہے آپ نے :pاوہ ابھی ایک سوال آیا ہے مائنڈ میں کہ یہ سب بڑی آپائیں ایک جیسی ہی کیوں ہوتی ہیں ؟:battingeyelashes:

بہت شکریہ عینی :)۔
ابھی اور بھی۔۔۔:whew: ۔ :openmouthed:۔
اچھا ایسا ہے کیا؟ اس سوال کا جواب تو آپ مجھے بتائیں کیونکہ میری کوئی بڑی آپا نہیں ہیں :(۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت ، یہ باتیں پاکستان کی حد تک رہتی تو مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ شاید باہر منطر بدل جاتا ہے مگر امریکہ میں بھی سفید رنگ ہی مرعوب کرتا ہے ۔
بڑی گاڑی ہی متاثر کرتی ہے۔ اب اس کا کیا حل کیا جائے ؟

تعلیم سے زیادہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیاں نہیں کیا ؟
شاید یہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ایک مخصوص ذہنی اپروچ ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہے ناں۔ اور جب تعلیم اس رحجان کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے تو اسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جائے گا؟
 
Top